ادبیات

ملفوظات حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور فارسی ادب (قسط نمبر 109)

(محمود احمد طلحہ ۔ استاد جامعہ احمدیہ یو کے)

روحانی جنگ: ’’اس وقت میرے قبول کرنے والےکو بظاہر ایک عظیم الشان جنگ اپنے نفس سے کرنی پڑتی ہے۔ وہ دیکھے گاکہ بعض اوقات اس کو برادری سے الگ ہونا پڑے گا۔ اس کے دنیاوی کاروبار میں روک ڈالنے کی کوشش کی جائےگی اس کوگالیاں سننی پڑیں گی۔ لعنتیں سنے گا مگر ان ساری باتوں کا اجر اللہ تعالیٰ کے ہاں سے ملے گا۔ لیکن جب دوسرا وقت آیا اور اس زور کے ساتھ دنیا کا رجوع ہواجیسے ایک بلند ٹیلہ سے پانی نیچے گرتاہےاور کوئی انکار کرنے والا ہی نظر نہ آیااس وقت اقرارکس پایہ کا ہوگا؟ اس وقت ماننا شجاعت کا کام نہیں ثواب ہمیشہ دکھ ہی کے زمانہ میں ہوتاہے۔

حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو قبول کر کے اگر مکہ کی نمبر داری چھوڑ دی تو اللہ تعالیٰ نےاس کو ایک دنیا کی بادشاہی دی۔ پھر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی کمبل پہن لیا اور ہرچہ بادا باد ما کشتی در آب انداختیم کا مصداق ہو کر آپ کو قبول کیا تو کیا خدا تعالیٰ نے اُن کے اجر کا کوئی حصہ باقی رکھ لیا؟ ہرگز نہیں۔ جو خدا تعالیٰ کے لئے ذرا بھی حرکت کرتاہے وہ نہیں مرتا جب تک اس کا اجر نہ پالے۔‘‘

(ملفوطات جلد پنجم صفحہ 25 ایڈیشن1984ء)

تفصیل: اس حصہ ملفوظات میں آنے والا فارسی مصرع دراصل فارسی شاعر قدسی مشہدی کی غزل کے ایک شعر کا پہلا مصرع ہے۔ پورا شعر کچھ یوں ہے۔

ھَرْچِہْ بَادَا بَادْ مَا کَشْتِیْ دَرْ آبْ اَنْدَاخْتِیْم

گَرْبُوَدْ بِیْگَانِہْ بَادِ شُرْطِہْ طُوْفَانْ آشِنَاسْت

ترجمہ: ہم نے کشتی پانی میں ڈال دی ہے اب جوہونا ہے ہو۔ اگر ہوا ناموافق ہوجاتی ہے تو کیا غم، ہم طوفان سے تو آشنائی رکھتے ہیں ناں۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button