خطبہ جمعہ بطرز سوال و جواب

خطبہ جمعہ بطرز سوال و جواب 15؍ اپریل 2022ء

سوال نمبر1: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے یہ خطبہ کہاں ارشاد فرمایا؟

جواب: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے یہ خطبہ مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے) یوکےمیں ارشاد فرمایا۔

سوال نمبر2: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےخطبہ کے عنوان کی بابت کیا بیان فرمایا؟

جواب: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ گذشتہ خطبہ سے پہلے جو خطبہ حضرت ابوبکر صدیقؓ کے واقعات کے بارے میں دیا جا رہا تھا اس میں مختلف حوالے بیان کیے گئے تھے جن سے ثابت ہوتا ہے کہ مرتدین کو حضرت ابوبکر صدیقؓ نے سزا ان کے ارتداد کی وجہ سے نہیں دی تھی بلکہ بغاوت اور جنگ کی وجہ سے ان کو جواب دیا گیا تھا۔ اس بارے میں زمانے کے حکم و عدل حضرت اقدس مسیح موعودؑ نے بھی حضرت ابوبکر صدیقؓ کے عہدِ خلافت میں اس ارتداد کو سرکشی اور بغاوت سے تعبیر کیا ہے۔

سوال نمبر3: حضرت مسیح موعودؑ نے حضرت ابوبکرؓ کو عطا کی گئی صفت ’صبر‘کی بابت کیا بیان فرمایا؟

جواب: فرمایا: آپؑ فرماتے ہیں کہ ’’اہل تحقیق سے یہ امر مخفی نہیں کہ آپ کی خلافت کا وقت خوف اور مصائب کا وقت تھا۔ چنانچہ جب رسول اللہﷺ نے وفات پائی تو اسلام اور مسلمانوں پر مصائب ٹوٹ پڑے۔ بہت سے منافق مرتد ہو گئے اور مرتدوں کی زبانیں دراز ہو گئیں اور افترا پردازوں کے ایک گروہ نے دعویٔ نبوت کر دیا اور اکثر بادیہ نشین ان کے گرد جمع ہو گئے یہاں تک کہ مسیلمہ کذاب کے ساتھ ایک لاکھ کے قریب جاہل اور بدکردار آدمی مل گئے اور فتنے بھڑک اٹھے اور مصائب بڑھ گئے۔ اور آفات نے دور و نزدیک کا احاطہ کر لیا۔ اور مومنوں پر ایک شدید زلزلہ طاری ہو گیا۔ اس وقت تمام لوگ آزمائے گئے اور خوفناک اور حواس باختہ کرنے والے حالات نمودار ہو گئے اور مومن ایسے لاچار تھے کہ گویا ان کے دلوں میں آگ کے انگارے دہکائے گئے ہوں یا وہ چھری سے ذبح کر دئیے گئے ہوں۔ کبھی تو وہ خَیرُ الْبَرِیَّہْ (ﷺ ) کی جدائی کی وجہ سے اور گاہے ان فتنوں کے باعث جو جلا کر بھسم کر دینے والی آگ کی صورت میں ظاہر ہوئے تھے روتے۔ امن کا شائبہ تک نہ تھا۔ فتنہ پرداز گند کے ڈھیر پر اُگے ہوئے سبزے کی طرح چھا گئے تھے۔ مومنوں کا خوف اور ان کی گھبراہٹ بہت بڑھ گئی تھی۔ اور دل دہشت اور بے چینی سے لبریز تھے۔ ایسے (نازک)وقت میں (حضرت) ابوبکرؓ حاکم وقت اور (حضرت) خاتم النبیینؐ کے خلیفہ بنائے گئے۔ منافقوں، کافروں اور مرتدوں کے جن رویوں اور طورطریقوں کا آپ نے مشاہدہ کیا ان سے آپ ہم و غم میں ڈوب گئے۔ آپ اس طرح روتے جیسے ساون کی جھڑی لگی ہو اور آپ کے آنسو چشمۂ رواں کی طرح بہنے لگتے اور آپ (رضی اللہ عنہ) (اپنے) اللہ سے اسلام اور مسلمانوں کی خیر کی دعا مانگتے۔ (حضرت) عائشہؓ سے مروی ہے۔ آپ فرماتی ہیں کہ جب میرے والد خلیفہ بنائے گئے اور اللہ نے انہیں امارت تفویض فرمائی تو خلافت کے آغاز ہی میں آپ نے ہر طرف سے فتنوں کو موجزن اور جھوٹے مدعیان نبوت کی سرگرمیوں اور منافق مرتدوں کی بغاوت کو دیکھا اور آپ پر اتنے مصائب ٹوٹے کہ اگر وہ پہاڑوں پر ٹوٹتے تو وہ پیوست زمین ہو جاتے اور فوراً گر کر ریزہ ریزہ ہو جاتے لیکن آپ کو رسولوں جیسا صبر عطا کیا گیا۔‘‘

سوال نمبر4: حضرت ابوبکرؓ کی مدینہ سے ذوالقصہ روانگی پر حضرت علیؓ نے آپ کے سامنے کس بات پراصرارکیا؟

جواب: فرمایا: بِدَایة و النِّھَایة میں لکھا ہے کہ حضرت اسامہؓ کے لشکر کے آرام کرنے کے بعد حضرت ابوبکرؓ اسلامی افواج کے ساتھ تلوار سونتے ہوئے مدینہ سے سوار ہو کر ذُوْالقَصَّہ کی طرف روانہ ہوئے…صحابہ کرامؓ جن میں حضرت علیؓ بھی تھے وہ آپ سے اصرار کر رہے تھے کہ آپ مدینہ واپس تشریف لے جائیں اور اَعراب سے جنگ کے لیے اپنے سوا کسی دوسرے بہادر کو بھیج دیں۔ حضرت عائشہؓ بیان فرماتی ہیں کہ میرے والد تلوار سونتے ہوئے سواری پر سوار ہو کر روانہ ہوئے تو حضرت علی بن ابی طالبؓ نے آ کر آپ کی اونٹنی کی مہار پکڑ لی اور عرض کیا: اے خلیفۂ رسولﷺ ! میں آپ سے وہ بات کہتا ہوں جو رسول اللہﷺ نے احد کے دن فرمائی تھی۔ آپ نے تلوار کیوں سونتی ہے؟ ہمیں اپنی جان کی وجہ سے مصیبت میں نہ ڈالیے۔ حضرت علیؓ نے حضرت ابوبکرؓ سے کہا کہ ہمیں اپنی جان کی وجہ سے مصیبت میں نہ ڈالیے۔ اللہ کی قسم! اگر ہمیں آپ کی جان کی مصیبت پہنچی تو آپ کے بعد ہمیشہ کے لیے اسلام کا نظام نہ رہے گا۔ اس پر حضرت ابوبکرؓ واپس تشریف لے گئے اور فوج کو بھیج دیا۔

سوال نمبر5: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےحضرت ابوبکرؓ کےجغرافیائی علم اور جنگی منصوبہ بندی میں مہارت کی بابت کیا بیان فرمایا؟

جواب: فرمایا: (حضرت ابوبکرؓ کی اس تقسیم کا ذکر کرتے ہوئے )ایک مصنف لکھتے ہیں کہ ذُوْالقَصَّہ فوجی مرکز قرار پایا۔ یہاں سے منظم اسلامی افواج ارتداد کی تحریک کو کچلنے کے لیے مختلف علاقوں کی طرف روانہ ہوئیں۔ حضرت ابوبکرؓ کے منصوبہ سے منفرد عبقریت اور دقیق جغرافیائی تجربہ کا پتہ چلتا ہے۔ دستوں کی تقسیم اور ان کے مواقع کی تحدید سے واضح ہوتا ہے کہ ابوبکر جغرافیہ کا دقیق علم رکھتے تھے اور زمین کے نشانات اور انسانی آبادیوں اور جزیرة العرب کے راستوں سے بخوبی واقف تھے۔ گویا کہ جزیرہ عرب مجسم شکل میں آپ کی آنکھوں کے سامنے تھا جیساکہ دورِ حاضر میں جدید ٹیکنالوجی سے لیس مراکز قیادت میں ہوتا ہے۔ جو شخص بھی لشکروں کو روانہ کرنے ان کی جہت کا تعین کرنے، تفرق کے بعد اجتماع اور دوبارہ مجتمع ہونے کے لیے تفرق میں غور و فکر کرے گا اس کو یہ اچھی طرح معلوم ہو جائے گا کہ یہ منصوبہ بندی پورے جزیرہ عرب پر مثالی اور صحیح انداز سے محیط تھی اور ان لشکروں کے ساتھ رابطہ بھی انتہائی دقیق تھا۔ ابوبکر کو ہمہ وقت اس کا پتا رہتا تھا کہ فوج کہاں ہے۔ اس کے تحرکات اور جملہ امور سے بخوبی واقف رہتے تھے اور یہ بھی پتا رہتا تھا کہ ان کو کیا کامیابی ہوئی اور کل کو کیا پروگرام ہے؟ مراسلات انتہائی دقیق اور تیز ہوا کرتے تھے اور میدانِ قتال سے خبریں برابر مدینہ مرکزِ قیادت میں حضرت ابوبکرؓ کو پہنچتی رہتی تھیں۔ پوری فوج سے برابر رابطہ قائم رہتا تھا۔ مرکزِ قیادت اور میدانِ قتال کے درمیان فوجی خبررسانی میں ابوخَیثَمَہ انصاری، سَلَمہ بن سَلَامہ، ابوبَرْزَہ اسلَمِیاور سَلَمہ بن وَقْشنے نمایاں حیثیت حاصل کی۔ جن لشکروں کو ابوبکر نےروانہ فرمایا وہ آپس میں مربوط تھے اور یہ خلافت کی اہم کامیابیوں میں سے تھا کیونکہ ان لشکروں کے اندر قیادت کی مہارت کے ساتھ حسنِ تنظیم بھی موجود تھا۔

سوال نمبر6: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے حضرت ابوبکرؓ کی جانب سے قائدین کی تقرری کے حوالے سے کیا بیان فرمایا؟

جواب: فرمایا: حضرت ابوبکرؓ کی جانب سے قائدین کی تقرری کے حوالے سے مختلف امور کا تذکرہ کرتے ہوئے ایک لکھنے والے مصنف لکھتے ہیں کہ نمبر ایک تو اس منصوبہ میں اس بات کا اہتمام کیا گیا کہ لشکروں کے درمیان آپس میں ربط اور تعاون برابر قائم رہے۔ اگرچہ ان کے مقامات اور جہات مختلف تھے لیکن سب ایک ہی سلسلہ کی کڑیاں تھیں۔ ان کا آپس میں ملنا اور جدا ہونا ایک ہی مقصد کے پیش نظر تھا اور خلیفہ کے مدینہ میں ہوتے ہوئے قتال کے جملہ امور کا کنٹرول، پاور اس کے ہاتھ میں تھا یعنی خلیفہ کے ہاتھ میں تھا۔ (ب) دوسرا نمبر یہ کہ صدیق اکبر نے دارالخلافہ مدینہ کی حفاظت کے لیے فوج کا ایک حصہ اپنے پاس رکھا اور اسی طرح امور حکومت میں رائے اور مشورہ کے لیے کبار صحابہ کی ایک جماعت اپنے پاس رکھی۔ تیسرے یہ کہ ابوبکر کو معلوم تھا کہ ارتداد سے متاثرہ علاقوں میں اسلامی قوت موجود ہے۔ آپ کو اس کی فکر لاحق ہوئی کہ کہیں یہ مسلمان مشرکین کے غیظ و غضب کا نشانہ نہ بنیں اس لیے قائدین کو حکم فرمایا کہ ان میں سے جو قوت اور طاقت کے مالک ہیں ان کو اپنے ساتھ شامل کر لیں اور ان علاقوں کی حفاظت کی خاطر کچھ افراد کو وہاں مقرر کر دیں۔ چوتھے مرتدین کے ساتھ جنگ کرتے ہوئے ابوبکر نے اَلْحَرْبُ خُدْعَةٌ کے اصول کو اپنایا۔ فوج کے اہداف کچھ ظاہر کرتے حالانکہ مقصود کچھ اَور ہی ہوتا۔ انتہائی احتیاط اور حذر کا طریقہ اختیار کیا کہ کہیں ان کا منصوبہ فاش نہ ہونے پائے۔ اس طرح ابوبکر کی قیادت میں سیاسی مہارت، علمی تجربہ، علم راسخ اور ربانی فتح اور نصرت نمایاں ہوتی ہیں۔

سوال نمبر7: حضرت مسیح موعودؑ نے سرالخلافہ میں حضرت ابوبکرؓ کی طرف سے قبائل عرب کو لکھے جانے والے خط کی کیا وجہ تحریربیان فرمائی اور وہ خط کیا تھا؟

جواب: فرمایا: آپؑ نے فرمايا کہ مناسب ہے کہ ہم يہاں وہ خط درج کر ديں جو صديق اکبر نے مرتد ہونے والے قبائل عرب کی طرف لکھا تاکہ اس خط پر اطلاع پانے والے صديق اکبر کی شعائر اللہ کی ترويج اور رسول اللہﷺ کے تمام سنن کے دفاع ميں مضبوطی کو ديکھ کر ايمان اور بصيرت ميں ترقی کريں۔ پھرحضرت مسیح موعودؑ وہ خط لکھتے ہیں جو اس طرح شروع ہوتا ہے۔ بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ۔ یہ خط ابوبکر خلیفة الرسولﷺ کی طرف سے ہر خاص و عام کے لیے ہے۔ جس تک پہنچے خواہ وہ اسلام پر قائم رہا ہے یا اس سے پِھر گیا ہے۔ ہدایت کی اتباع کرنے والے ہر شخص پر سلامتی ہو جو ہدایت کے بعد گمراہی اور اندھے پن کی طرف نہیں لوٹا۔ پس میں تمہارے سامنے اس اللہ کی حمد بیان کرتا ہوں جس کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں جو واحد ہے لاشریک ہے اور یہ کہ محمدﷺ اس کے بندے اور رسول ہیں اور جو تعلیم آپﷺ لے کر آئے اس کا ہم اقرار کرتے ہیں اور جس نے اس سے انکار کیا اسے ہم کافر قرار دیتے ہیں اور اس سے جہاد کرتے ہیں۔ اما بعد واضح ہو کہ اللہ تعالیٰ نے محمد رسول اللہﷺ کو اپنی جناب سے حق دے کر اپنی مخلوق کی طرف مبشر نذیر اور اللہ کی طرف اس کے حکم سے بلانے والے اور ایک منور کر دینے والے سورج کے طور پر بھیجا تا کہ آپﷺ اسے ڈرائیں جو زندہ ہو اور کافروں پر فرمان صادق آ جائے۔ اللہ تعالیٰ نے اس شخص کو حق کے ساتھ ہدایت دی جس نے آپﷺ کو قبول کیا اور جس نے آپﷺ سے پیٹھ پھیر لی اس سے رسول اللہﷺ نے اس وقت تک جنگ کی کہ وہ طوعًا و کرھًا اسلام میں آ گیا۔ پھر رسول اللہﷺ وفات پا گئے بعد اس کے کہ آپﷺ نے اللہ کے حکم کو نافذ فرما لیا اور امت کی خیر خواہی کر لی اور جو ذمہ داری آپ پر تھی اسے پورا کر لیا اور اللہ نے آپ پر اور اہل اسلام پر اپنی اس کتاب میں جو اس نے نازل فرمائی اس بات کو خوب کھول کر بیان کر دیا۔ چنانچہ فرمایا اِنَّکَ مَیّتٌ وَّاِنَّہُمۡ مَّیّتُوۡنَ(الزمر: 31)۔ یعنی یقیناً تُو بھی مرنے والا ہے اور یقیناً وہ بھی مرنے والے ہیں۔ نیز فرمایا وَمَا جَعَلۡنَا لِبَشَرٍ مِّنۡ قَبۡلِکَ الۡخُلۡدَ (الانبیاء: 35)۔ اور ہم نے کسی بشر کو تجھ سے پہلے ہمیشگی نہیں دی۔ اَفَائِنۡ مِّتَّ فَہُمُ الۡخٰلِدُوۡنَ(الانبیاء: 35)۔ پس اگر تُو مر جائے تو کیا وہ ہمیشہ رہنے والے ہوں گے؟ مزید برآں مومنوں سے فرمایا وَمَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوۡلٌ ۚ قَدۡ خَلَتۡ مِنۡ قَبۡلِہِ الرُّسُلُ ؕ اَفَا۠ئِنۡ مَّاتَ اَوۡ قُتِلَ انۡقَلَبۡتُمۡ عَلٰۤی اَعۡقَابِکُمۡ ؕ وَمَنۡ ینۡقَلِبۡ عَلٰی عَقِبَیۡہِ فَلَنۡ یضُرَّ اللّٰہَ شَیۡئًا ؕ وَسَیجۡزِی اللّٰہُ الشّٰکِرِیۡنَ(آل عمران: 145)۔ اور محمدﷺ نہیں ہیں مگر ایک رسول یقیناً اس سے پہلے رسول گذر چکے ہیں۔ پس اگر یہ وفات پا جائے یا قتل ہو جائے تو تم اپنی ایڑیوں کے بل پھر جاؤ گے؟ اور جو بھی اپنی ایڑیوں کے بل پھر جائے گا وہ اللہ کو کچھ بھی نقصان نہیں پہنچا سکے گا اور اللہ یقیناً شکرگزاروں کو جزا دیتا ہے۔ پھر آپ لکھتے ہیں پس وہ جو محمدﷺ کی عبادت کیا کرتا تھا وہ جان لے کہ محمد تو فوت ہو چکے اور وہ جو واحد و یگانہ لاشریک اللہ کی عبادت کیا کرتا تھا اسے معلوم ہو کہ اللہ اس کی گھات میں لگا ہوا ہے۔ وہ زندہ ہے اور قائم دائم ہے۔ وہ نہیں مرے گا۔ اسے اونگھ اور نیند نہیں آتی۔ وہ اپنے کاموں کا محافظ ہے۔ اپنے دشمن سے انتقام لینے والا ہے اور اسے سزا دینے والا ہے۔ میں تمہیں اللہ کے تقویٰ کی اور تمہارے اس بخت کی اور نصیب کے حصول کی جو اللہ کے ہاں تمہارے لیے مقرر ہے اور وہ تعلیم جو تمہارا نبی تمہارے پاس لے کر آیا اس پر عمل کرنے کی تمہیں تاکید کرتا ہوں اور یہ کہ تم آپﷺ کی راہنمائی سے راہنمائی حاصل کرو اور اللہ کے دین کو مضبوطی سے پکڑے رکھو کیونکہ ہر وہ شخص جسے اللہ ہدایت نہ دے وہ گمراہ ہے اور ہر وہ شخص جسے وہ نہ بچائے وہ آزمائش میں پڑے گا اور ہر وہ شخص جس کی وہ اعانت نہ فرمائے وہ بے یارومددگار ہے۔ پس جسے اللہ ہدایت دے وہی ہدایت یافتہ ہے اور جسے وہ گمراہ قرار دے وہ گمراہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے مَنۡ یَّہۡدِ اللّٰہُ فَہُوَ الۡمُہۡتَدِ ۚ وَمَنۡ یضۡلِلۡ فَلَنۡ تَجِدَ لَہٗ وَلِیَّا مُّرۡشِدًا(الکہف: 18)۔ جسے اللہ ہدایت دے وہی ہدایت پانے والا ہے اور جسے وہ گمراہ ٹھہرا دے تو اس کے حق میں کوئی ہدایت دینے والا دوست نہ پائے گا۔ آپ آگے لکھتے ہیں کہ اور اس کا دنیا میں کیا ہوا کوئی عمل اس وقت تک قبول نہ کیا جائے گا جب تک وہ اس دین اسلام کا اقرار نہ کر لے اور نہ ہی آخرت میں اس کی طرف سے کوئی معاوضہ اور بدلہ قبول کیا جائے گا اور مجھ تک یہ بات پہنچی ہے کہ تم میں سے بعض نے اسلام کا اقرار کرنے اور اس پر عمل کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ کو دھوکا دیتے ہوئے اور اس کے معاملے میں جہالت برتتے ہوئے اور شیطان کی بات مانتے ہوئے اپنے دین سے ارتداد اختیار کر لیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے وَاِذۡ قُلۡنَا لِلۡمَلٰٓئِکَةِ اسۡجُدُوۡا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوۡۤا اِلَّاۤ اِبۡلِیۡسَ ؕ کَانَ مِنَ الۡجِنِّ فَفَسَقَ عَنۡ اَمۡرِ رَبِّہٖ ؕ اَفَتَتَّخِذُوۡنَہٗ وَذُرِّیتَہٗۤ اَوۡلِیآءَ مِنۡ دُوۡنِیۡ وَہُمۡ لَکُمۡ عَدُوٌّ ؕ بِئۡسَ لِلظّٰلِمِیۡنَ بَدَلًا(الکہف: 51)۔ اور جب ہم نے فرشتوں کو کہا کہ آدم کے لئے سجدہ کرو تو سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے وہ جنّوں میں سے تھا۔ پس وہ اپنے رب کے حکم سے روگردان ہو گیا۔ تو کیا تم اسے اور اس کے چیلوں کو میرے سوا دوست پکڑ کر بیٹھو گے جبکہ وہ تمہارے دشمن ہیں۔ ظالموں کے لئے تو یہ بہت ہی برا بدل ہے۔ نیز فرمایا۔ اِنَّ الشَّیۡطٰنَ لَکُمۡ عَدُوٌّ فَاتَّخِذُوۡہُ عَدُوًّا ؕ اِنَّمَا یدۡعُوۡا حِزۡبَہٗ لِیکُوۡنُوۡا مِنۡ اَصۡحٰبِ السَّعِیۡرِ(فاطر: 7)۔ یقیناً شیطان تمہارا دشمن ہے پس اسے دشمن ہی بنائے رکھو۔ وہ اپنے گروہ کو محض اس لئے بلاتا ہے تا کہ وہ بھڑکتی آگ میں پڑنے والوں میں سے ہو جائیں۔ اور میں نے مہاجرین انصار اور حسن عمل سے پیروی کرنے والے تابعین کے لشکر پر فلاں آدمی کو مقرر کر کے تمہاری طرف بھیجا ہے اور میں نے اسے حکم دیا ہے کہ وہ نہ تو کسی سے جنگ کرے اور نہ اسے اس وقت تک قتل کرے جب تک وہ اللہ کے پیغام کی طرف بلا نہ لے۔ پھر جو اس پیغام کو قبول کر لے اور اقرار کر لے اور باز آ جائے اور نیک عمل کرے تو اس سے قبول کرے اور اس پر اس کی مدد کرے اور جس نے انکار کیا تو مَیں نے اسے حکم دیا ہے کہ وہ اس سے اس بات پر جنگ کرے اور جس پر قابو پائے ان میں سے کسی ایک کو بھی باقی رہنے نہ دے اور یا وہ انہیں آگ سے جلا ڈالے اور ہر طریق سے انہیں قتل کرے اور عورتوں اور بچوں کو قیدی بنا لے اور کسی سے اسلام سے کم کوئی چیز قبول نہ کرے۔ پھر جو اس کی اتباع کرے تو یہ اس کے لیے بہتر ہے اور جس نے اسے ترک کیا تو وہ اللہ کو عاجز نہیں کر سکے گا اور میں نے اپنے پیغامبر کو حکم دیا ہے کہ وہ میرے اس خط کو تمہارے ہر مجمع میں پڑھ کر سنا دے اور اذان ہی اسلام کا اعلان ہے۔ پس جب مسلمان اذان دیں اور وہ بھی اذان دے دیں تو ان پر حملہ سے رک جائیں اور اگر وہ اذان نہ دیں تو ان پر حملہ جلد کرو اور جب وہ اذان دے دیں تو جو اُن پر فرائض ہیں ان کا مطالبہ کرو اور اگر وہ انکار کریں تو ان پر جلد حملہ کرو اور اگر اقرار کر لیں تو ان سے قبول کر لیا جائے۔

سوال نمبر8: حضرت ابوبکرؓ نے امرائےلشکرکو کیا خط تحریرکیااور امراء کی تعداد کتنی تھی؟

جواب: فرمایا: حضرت ابوبکرؓ نے ان سب امرائے لشکر جن کی تعداد گيارہ تھی کے نام خط تحرير فرمايا، وہ حسب ذيل ہے۔ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ۔ یہ فرمان ابوبکر خلیفہ رسولﷺ کی طرف سے فلاں شخص کے لیے لکھا گیا ہے اور جب انہوں نے اسے مسلمانوں کی فوج کے ساتھ مرتدین سے لڑنے کے لیے روانہ کیا یعنی امیر کا نام اس پہ لکھا گیا تھا۔ انہوں نے اس امیر کو تاکیدی حکم دیا ہے کہ وہ ہر معاملے میں ظاہر اور باہر میں اللہ کا تقویٰ اختیار کرے جہاں تک اس کی استطاعت ہے اور اس کو اللہ کے معاملے میں جدوجہد کا اور ان لوگوں سے جہاد کا حکم دیا ہے جنہوں نے اللہ سے پیٹھ پھیر لی اور اسلام سے رجوع کرتے ہوئے شیطانی آرزوؤں کو اختیار کر لیا ہے۔ سب سے پہلے ان پر اتمام حجت کرے۔ انہیں اسلام کی طرف دعوت دیں۔ اگر وہ اس کو قبول کر لیں تو ان لوگوں سے لڑائی سے رک جائے اور اگر وہ اس کو قبول نہ کریں تو ان پر فی الفور حملہ کرے یہاں تک کہ اس کے سامنے جھک جائیں۔ پھر وہ ان لوگوں کو ان کے حقوق اور فرائض بتائے اور وہ ان سے وصول کرے جو اُن پر فرض ہے اور انہیں دے جو اُن کے حقوق ہیں۔ وہ ان لوگوں کو مہلت نہ دے یعنی ایسی مہلت جس سے وہ جنگ کے لیے تیار ہو کر مسلمانوں پر حملہ کر دیں۔ وہ مسلمانوں کو ان کے دشمنوں سے لڑائی کرنے سے نہ روکے اور مسلمان اگر سمجھتے ہیں کہ یہ لوگ ایسے ہیں کہ باز نہیں آئیں گے اور وہ لڑنا چاہتے ہیں تو ان کو جنگ سے نہ روکو۔ یہ حکم ان لیڈروں کو دیا جنہیں اس علاقے کے لوگ زیادہ جانتے تھے۔ پس جس نے اللہ عزوجل کے حکم کو قبول کیا اور اس کی فرمانبرداری کی تو اس کی یہ بات قبول کرے اور معروف طریق پر اس کی مدد کرے اور صرف اس سے جنگ کی جائے گی جس نے اس اقرار کے بعد اللہ کا انکار کیا کہ جو اللہ کی جانب سے آیا تھا۔ اگر وہ دعوت کو قبول کر لے تو اس پر کوئی الزام نہیں ہو گا اور اللہ اس سے حساب لینے والا ہے بعد اس کے جو اس نے چھپایا۔ اور جس نے اللہ کے پیغام کو قبول نہ کیا تو اس سے لڑائی کی جائے اور اس کو قتل کر دیا جائے جہاں بھی وہ ہو اور وہ خواہ کتنا ہی مال دار کیوں نہ ہو۔ کسی سے کوئی چیز قبول نہ کی جائے گی جو وہ دے سوائے اسلام کے۔ پس جس نے اسلام قبول کر لیا اور اقرار کر لیا تو اس سے قبول کیا جائے اور اس کو اسلامی تعلیمات سکھائی جائیں اور جس نے انکار کیا یعنی مسلمان ہو کے مرتد ہو گئے۔ پھر لڑائیاں کر رہے ہیں تو اسلامی تعلیمات کے خلاف کر رہے ہیں ان کو بتاؤ کہ اسلام کیا ہے، حقیقت کیا ہے، تم مسلمان ہونے کا دعویٰ کر کے پھر حکومت کے خلاف جنگ نہیں لڑ سکتے۔ جس نے انکار کیا تو اس سے لڑائی کی جائے۔ اگر اللہ اسے ان پر فتح عطا کرے تو ان کو بُری طرح اسلحہ اور آگ کے ذریعہ قتل کیا جائے گا۔ پھر اللہ جو اس کو مالِ فَے عطا فرمائے تو وہ اس کو تقسیم کر دے سوائے خمس کے۔ وہ ہمیں پہنچائے گا۔ اور وہ سپہ سالار اپنے ساتھیوں کو جلدی اور فساد سے روکے اور ان میں کوئی غیر آدمی داخل نہ کرے جب تک کہ وہ جان نہ لے کہ اس میں کیسی صلاحیت ہے۔ یہ نہ ہو کہ وہ جاسوس ہو۔ یعنی کسی شخص کو داخل کر لو اوروہ جاسوس ہو۔ (صحیح طرح چھان کر کے، چھان پھٹک کر کے پھر لینا۔ ) اور ان کی وجہ سے مسلمانوں پر مصیبت آ جائے۔ سفر اور قیام میں مسلمانوں کے ساتھ نرمی اور میانہ روی اختیار کرے اور ان کی خبر گیری کرتا رہے۔ لشکر کے ایک حصہ کو دوسرے سے جلدی کرنے کا حکم نہ دے۔ مسلمانوں کے ساتھ برتاؤ اور گفتار میں خوش خلقی اور ملائم لہجہ اختیار کرے۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button