متفرق شعراء

مثلِ آب و حَباب ہے دنیا

دارِ اجر و ثواب ہے دنیا

گاہے وجہِ عذاب ہے دنیا

ہے نتیجہ اس امتحاں کا کل

آج جس کا نصاب ہے دنیا

موجِ دریا، سرابِ صحرا اور

مثلِ آب و حَباب ہے دنیا

گُل بدن، بوئے خوش فِشاں باطن

اِن کے دم سے گلاب ہے دنیا

اوّل اوّل بہت بھلی ہے لگے

کرتی آخر خراب ہے دنیا

طے کرے ہیں جو راہِ حرص و ہوَس

ایسوں کی ہم رکاب ہے دنیا

جس کی کوئی نہ پا سکا تعبیر

ہاں وہی ایک خواب ہے دنیا

ہے عجب نغمگی کہ اک ہی وقت

طرب و غم کا رُباب ہے دنیا

باعثِ داد و آفریں تو کبھی

لاتی زیرِ عتاب ہے دنیا

ہوتی ہے اِس سے آنکھ خیرہ کیوں

رکھتی کچھ بھی نہ تاب ہے دنیا

نامِ توصیف گر نہیں پاتی

دیتی کیا کیا خطاب ہے دنیا

رکھ کے دل میں خلش، کہے بزباں

جی، حضور، آنجناب، ہے دنیا

تھا، نہ ہوں گا کبھی ترا سائل

تجھ کو میرا جواب ہے دنیا

آئے یاں، دم لیا، ہوئے رخصت

تیرا لُبِّ لباب ہے دنیا!

(م۔ م۔ محمود)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button