سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام

احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح

(’اے ولیم‘)

حضرت اقدسؑ کے رشتہ داروں نے مخالفت کر کے محمدی بیگم کا نکاح دوسری جگہ کرا دیا اور فضل احمد کی والدہ نے ان سے قطع تعلق نہ کیا بلکہ ان کے ساتھ رہی تب حضرت صاحب نے ان کو طلاق دے دی

اسلام اور محمدؐ کی غیرت میں قطع تعلقی

اس میں کوئی شک نہیں کہ شادی جہاں ایک معاشرتی تقاضوں کے پیش نظر ضروری امر ہے وہاں دین اسلام میں خاص طور پر اس کی تلقین کی گئی ہےاور نبی اکرمﷺ نے اَلنِّکَاحُ مِن سُنَّتِی فرما کر اس کی اہمیت کو اور بھی واضح فرمادیا۔ البتہ ان تمام ضرورتوں اور تقاضوں کے باوصف شادی کے لیے جوبنیادی شرائط اور اوصاف بیان فرماتے ہوئے جو اصول امت کے افرادکودیا وہ یہ تھا۔

عن أبي هريرة رضی اللّٰہ عنہ عن النبي قال: تُنْكَحُ الْمَرْأَةُ لِأَرْبَعٍ: لِمَالِهَا، وَلِحَسَبِهَا وَجَمَالِهَا، وَ لِدِيْنِهَا۔ فَاظْفَرْ بِذَاتِ الدِّيْنِ تَرِبَتْ يَدَاكَ۔ ( صحيح البخاري، کتاب النکاح، باب الاکفاء فی الدین، 5090)حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا کہ عورت سے شادی کے لیے چارباتیں دیکھی جاتی ہیں کوئی تو اس کے مال کو دیکھتا ہے اورکوئی اس کے حسب ونسب کو دیکھتاہے اورکوئی اس کے جمال کو اورکوئی اس کے دین کو، تیرا بھلا ہو تودین والی عورت کو ترجیح دینا۔

اس گھرانے کی طرف ہم نظر دوڑائیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت اقدسؑ کا دین کی طرف ایسا بڑھا ہوا میلان تھا کہ ہرکوئی اس کو محسوس کیے بغیر رہ ہی نہیں سکتا تھا جبکہ دوسری طرف یہ خاندان اب دھیرے دھیرے اس ڈگر پر چل نکلا تھا کہ دنیاداری بُری طرح ان پر غالب آچکی تھی۔ خاص طور پر حضرت اقدسؑ کا چچازاد گھرانہ اور ان کے ساتھ تعلق رکھنے والے دین سے بہت دور اور بہت تیزی سے دورسے دورترچلے جارہےتھے۔ اس کی ایک جھلک جدی رشتہ داروں کے تعارف میں ملاحظہ کی جاسکتی ہے۔ طرفہ تر یہ کہ ان کی لڑکیاں حضرت اقدسؑ کے گھرانے میں بیاہ کرآتی رہیں۔ اور وہ زہر اس گھرانے میں بھی سرایت کرنے لگا گویا کہ آکاس بیل تھی جو اس گھرانے کی سرسبز اور باردار پودے کی خوبصورتی کو کھاتی چلی گئی۔ خاندان کے اس گھرانے کے افرادکی دینی حالت کسی اورجگہ تفصیل سے (پیشگوئی احمدبیگ/ محمدی بیگم کے ذکرمیں)بیان ہوگی۔ ان شاء اللہ

یہاں مختصراً اتنا بیان کرنا ہوگا کہ یہ لوگ دین سے اتنے دور تھے اور عداوت میں اتنے بڑھے ہوئے تھے کہ اللہ جلّ شانہ اور رسول اللہﷺ کو اعلانیہ گالیاں دینا اور ارکان اسلام پر ٹھٹھا کرنا ان کا شیوہ تھا۔ اب ان حالات میں حضرت اقدسؑ کا ان لوگوں کے ساتھ گزارہ اور میل ممکن ہی نہ تھا۔ آپؑ کے سوانح کے جس حصہ سے ہم گزررہےہیں ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت اقدسؑ کے والد ماجدہرممکن کوشش کرچکے ہیں کہ وہ دنیاداری کے کاموں میں جُت جائیں لیکن ایسا ممکن نہ ہوسکا اور کئی بار اسی وجہ سے والد بزرگوار کی ناراضگی بھی سہنی پڑی لیکن دنیا داری کے دھندوں میں بہرحال آپؑ نے پڑنا تھا نہ پڑسکے۔ آپؑ کے بھائی اور بھاوج بھی اسی وجہ سے آپؑ سے کِھچے کِھچےسے رہے۔ دنیاداری کا یہ وہ ماحول تھا کہ جس کے زہر سے حضرت اقدسؑ اپنے آپ کو آلودہ کرنا نہیں چاہتے تھے۔ اور اسی بنا پر آپؑ نے اس گھرکے ماحول سے تو اپنے آپ کو قطع کیاہی ہواتھا ناچار اپنی بیوی سے بھی تعلقات میں سردمہری رکھنی پڑی۔ حضرت ام المومنین رضی اللہ عنہا جو کہ اب آپؑ کے شب وروز کی رازدار تھیں وہ بیان فرماتی ہیں: ’’ حضرت مسیح موعودؑ کو اوائل سے ہی مرزا فضل احمد کی والدہ سے……بے تعلقی سی تھی جس کی وجہ یہ تھی کہ حضرت صاحب کے رشتہ داروں کو دین سے سخت بے رغبتی تھی اور ان کا ان کی طرف میلان تھا اور وہ اسی رنگ میں رنگین تھیں اس لئے حضرت مسیح موعودؑ نے ان سے مباشرت ترک کردی تھی ہاں آپ اخراجات وغیرہ باقاعدہ دیا کرتے تھے۔‘‘ (سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر 41)

اور دین اسلام سے عداوت اوردوری اس وقت بہت کھل کرسامنے آگئی جب احمدبیگ وغیرہ اوراس کی پشت پناہی کرنے والے یہ سارے لوگ اس حدتک بڑھ گئے کہ گویا عیسائیوں کے ساتھ جاملے۔ تب آپؑ نے اعلانیہ ان لوگوں سے قطع تعلقی کا اعلان کردیا۔ جس کی تفصیل مجموعہ اشتہارات جلداول صفحہ186-187 اشتہار بعنوان ’’اشتہار نصرت دین و قطع تعلق از اقارب مخالف دین ‘‘ میں ملاحظہ کی جاسکتی ہے۔

اور بالآخر آپؑ نے جب خداتعالیٰ کے الہامات کے نتیجےیں دوسری شادی کرلی تو پہلی بیوی کو اختیار دیا کہ یاتوطلاق لے لو یا اس طرح سے اپنے حقوق چھوڑدو کہ جو نان ونفقہ ہے وہ برابرملتارہے۔ آپؑ کی پہلی بیوی نے دوسری صورت اختیار کی۔

یہ ساری تفصیلات حضرت ام المومنین رضی اللہ عنہا کی اس روایت میں ہیں جسے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدصاحبؓ اپنی تصنیف سیرت المہدی میں یوں بیان فرماتے ہیں:

’’والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ میری شادی کے بعد حضرت صاحب نے انہیں کہلا بھیجا کہ آج تک تو جس طرح ہوتا رہا ہوتا رہا اب میں نے دوسری شادی کر لی ہے اس لئے اب اگر دونوں بیویوں میں برابری نہیں رکھو ں گا تو میں گنہگار ہوں گا اس لئے اب دو باتیں ہیں یا تو تُم مجھ سے طلاق لے لو اور یا مجھے اپنے حقوق چھوڑ دو میں تم کو خرچ دیئے جاوٴں گا۔ انہوں نے کہلا بھیجا کہ اب میں بڑھاپے میں کیا طلاق لوں گی بس مجھے خرچ ملتا رہے میں اپنے باقی حقوق چھوڑتی ہوں۔ والدہ صاحبہ فرماتی ہیں چنانچہ پھر ایسا ہی ہوتا رہا حتّٰی کہ محمدی بیگم کا سوال اُٹھا اور آپ کے رشتہ داروں نے مخالفت کر کے محمدی بیگم کا نکاح دوسری جگہ کرا دیا اور فضل احمد کی والدہ نے ان سے قطع تعلق نہ کیا بلکہ ان کے ساتھ رہی تب حضرت صاحب نے ان کو طلاق دے دی۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت صاحب کا یہ طلاق دینا آپ کے اس اشتہار کے مطابق تھا جو آپ نے 2؍مئی 1891ء کو شائع کیا اور جس کی سرخی تھی ’’اشتہار نصرت دین و قطع تعلق از اقارب مخالف دین‘‘ اس میں آپ نے بیان فرمایا تھا کہ اگر مرزا سلطان احمد اور ان کی والدہ اس امر میں مخالفانہ کوشش سے الگ نہ ہوگئے تو پھر آپ کی طرف سے مرزا سلطان احمد عاق اور محروم الارث ہوں گے اور ان کی والدہ کو آپ کی طرف سے طلاق ہوگی۔ والدہ صاحبہ فرماتی تھیں کہ فضل احمد نے اس وقت اپنے آپ کو عاق ہونے سے بچا لیا۔ نیز والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ اس واقعہ کے بعد ایک دفعہ سلطان احمد کی والدہ بیمار ہوئیں تو چونکہ حضرت صاحب کی طرف سے مجھے اجازت تھی میں انہیں دیکھنے کے لئے گئی۔ واپس آکر میں نے حضرت صاحب سے ذکر کیا کہ پھّجے کی ماں بیمار ہے اور یہ تکلیف ہے۔ آپ خاموش رہے۔ میں نے دوسری دفعہ کہاتو فرمایا میں تمہیں دو گولیاں دیتا ہوں یہ دے آؤ مگر اپنی طرف سے دینا میرا نام نہ لینا۔ والدہ صاحبہ فرماتی تھیں کہ اور بھی بعض اوقات حضرت صاحب نے اشارةً کنایةً مجھ پر ظاہر کیا کہ میں ایسے طریق پر کہ حضرت صاحب کا نام درمیان میں نہ آئے اپنی طرف سے کبھی کچھ مدد کر دیا کروں سو میں کر دیا کرتی تھی۔‘‘ (سیر ت المہدی جلد اول روایت نمبر41)

حضرت اقدسؑ کی یہ پہلی بیگم کب فوت ہوئیں؟ ابھی تک کوئی ایسی روایت نہیں ملی جس کی روشنی میں کوئی تاریخ وغیرہ معین کی جاسکے۔ البتہ مذکورہ بالاروایت میں جن واقعات کاذکرکیاگیا ہے وہ مئی 1891ء کے بعد کے ہیں۔ لہٰذا ان سے یہ تو قیاس کیاجاسکتاہے کہ 1891ء کے بعد بھی کچھ عرصہ تک وہ زندہ رہی ہیں۔ کب فوت ہوئیں اورکہاں تدفین ہوئی۔ معین طور پر کچھ کہانہیں جاسکتا۔

سیرت المہدی حصہ سوم صفحہ 686 روایت نمبر 758کے تحت قادیان کے آبائی قبرستان کا ایک نقشہ دیا گیا ہے جس میں حضرت اقدسؑ کے دادا، پڑدادا، اورآپ کی بڑی ہمشیرہ مراد بی بی اور چھوٹی ہمشیرہ جنت بی بی تک کی قبروں کی نشاندہی تو موجودہے لیکن محترمہ حرمت بی بی صاحبہ کےبارہ میں کوئی صراحت نہیں ہے۔ امکاناً اورقیاساً دو ہی قبرستان ہوسکتے ہیں ایک یہی آبائی قبرستان اور ایک دوسراقبرستان جو بہشتی مقبرہ کے غربی جانب جہاں کہ مرزانظام دین اورامام دین صاحبان کی قبورہیں۔

حضرت مصلح موعودؓ اپنی انہی سوتیلی والدہ کاذکرکرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’مجھے یاد ہے ہماری سوتیلی والدہ ہم سے بہت محبت کیا کرتی تھیں اور باوجود اس کے کہ ہم ان کی سوکن کی اولاد تھے وہ ہمارے ساتھ بڑی محبت کا سلوک کرتی تھیں ان کی والدہ بھی جو ہماری دادی صاحبہ کے علاقہ کی تھیں ہم سے بہت پیار کرتی تھیں۔ جب ہمارے رشتہ دار مرزا امام دین صاحب اور ان کے لڑکے اور لڑکیاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو گالیاں دیتے تھے تو چونکہ وہ بہت اونچا سنتی تھیں اس لئے دریافت کرتی تھیں کہ یہ لوگ کس کو گالیاں دے رہے ہیں۔ اس پر جب انہیں بتایا جاتا کہ یہ مرزا غلام احمد کو گالیاں دے رہے ہیں تو وہ رو پڑتیں اور کہتیں، ہائے یہ لوگ میری چراغ بی بی کے بیٹے کو گالیاں دیتے ہیں۔‘‘ ( الفضل 30؍مئی 1959ءصفحہ3کالم 2، 1)

پھر فرماتے ہیں: ’’حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی پہلی بیوی ایک بہت ہی نیک عورت تھیں۔ میں نے دیکھا ہے وہ ہم سے اتنی محبت کرتی تھیں کہ کہنے کو تو لوگ کہتے ہیں کہ’’ماں سے زیادہ چاہے پھاپھاکٹنی کہلائے۔‘‘ مگر واقعہ یہ ہے کہ ہم بچپن میں یہی سمجھتے تھے کہ وہ ہم سے ماں سے بھی زیادہ پیار کرتی ہیں۔ ہماری بڑی بہن عصمت جب فوت ہوئیں تو ان دنوں چونکہ محمدی بیگم کی پیشگوئی پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے رشتہ داروں نے ایک مخالفانہ اشتہار شائع کیا تھا اس لئے ہمارے اور ان کے گھر کے درمیان کا جو دروازہ تھا وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بند کروا دیا تھا۔ حضرت ام المومنین نے سنایا کہ جب عصمت بیمار ہوئی اور اس کی حالت نازک ہوگئی تو جس طرح ذبح ہوتے وقت مرغی تڑپتی ہے وہ تڑپتی اور بار بار کہتی کہ میری اماں کو بلا دو چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نےا نہیں بلوایا۔ جب وہ آئیں اور انہوں نے عصمت کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دیا تو اسے آرام اور سکون حاصل ہوا اور تب اس کی جان نکلی۔ غرض وہ بہت ہی نیک عورت تھیں اور ان کو اپنی سوکن کے بچوں سے بہت زیادہ محبت تھی۔ خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے بھی وہ بڑی محبت رکھتیں اور آپ کی بڑی قدر کرتی تھیں۔ اور آپ کے متعلق کسی سے وہ کوئی بری بات نہیں (سن) سکتی تھیں۔‘‘ ( الفضل 31؍اگست 1956ءصفحہ 5 کالم3، 2)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button