خطبہ جمعہ بطرز سوال و جواب

خطبہ جمعہ بطرز سوال و جواب یکم اپریل 2022ء

عبداللہ بن مسعودؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ کی وفات کے بعد ہم ایک ایسے مقام پر کھڑے ہو گئے تھے کہ اگر اللہ ہم پر ابوبکرؓ کے ذریعہ احسان نہ فرماتا تو قریب تھا کہ ہم ہلاک ہو جاتے

سوال نمبر1: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے یہ خطبہ کہاں ارشاد فرمایا؟

جواب: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے یہ خطبہ مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے)یوکےمیں ارشاد فرمایا۔

سوال نمبر2: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خطبہ کے عنوان کی بابت کیا بیان فرمایا؟

جواب: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ حضرت ابوبکرؓ کے زمانے کے فتنوں کا ذکر ہو رہا تھا۔

سوال نمبر3: حضرت مسیح موعودؑ نے حضرت ابوبکرؓ کی نسبت حضرت عبد اللہ بن مسعوؓد کا کونسا حوالہ بیان فرمایا؟

جواب: فرمایا: حضرت مسیح موعود علیہ السلام عبداللہ بن مسعوؓد کا حوالہ دے کے فرماتے ہیں کہ ’’عبداللہ بن مسعودؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ کی وفات کے بعد ہم ایک ایسے مقام پر کھڑے ہو گئے تھے کہ اگر اللہ ہم پر ابوبکرؓ کے ذریعہ احسان نہ فرماتا تو قریب تھا کہ ہم ہلاک ہو جاتے۔ آپؓ نے ہمیں اس بات پر اکٹھا کیا کہ ہم بنت مخاض‘‘ یعنی ’’(ایک سالہ اونٹنی) اور بنت لبون (دو سالہ اونٹنی) کی (زکوٰة کی وصولی کے لئے) جنگ لڑیں اور یہ کہ ہم عرب بستیوں کو کھا جائیں اور ہم اللہ کی عبادت کرتے چلے جائیں یہاں تک کہ موت ہمیں آ لے۔‘‘

سوال نمبر4: حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے کتب تاریخ وسیرت میں لفظ مرتدین کی نسبت علماءکی کس غلطی کا ذکرفرمایا؟

جواب: فرمایا: نبی کریمﷺ کی وفات کے بعد جب تقریباً سارے عرب نے ارتداد اختیار کر لیا اور بعض لوگوں نے کُلّی طور پر اسلام سے دُوری اختیار کر لی اور بعض نے زکوٰة کی ادائیگی سے انکار کیا تو حضرت ابوبکرؓ نے ان سب کے خلاف قتال کیا۔ کتبِ تاریخ اور سیرت میں ایسے تمام افراد کے لیے مرتدین کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ جس کی وجہ سے بعد میں آنے والے سیرت نگار اور علماء کو غلطی لگی یا وہ غلط تعلیم پھیلانے کا باعث بنے کہ گویا مرتد کی سزا قتل ہے اور اسی لیے حضرت ابوبکرؓ نےتمام مرتدین کے خلاف اعلانِ جہاد کیا اور ایسے سب لوگوں کو قتل کروا دیا سوائے اس کے کہ وہ دوبارہ اسلام قبول کر لیں اور یوں ان مؤرخین اور سیرت نگاروں نے حضرت ابوبکرؓ کو عقیدہ ختم نبوت کا محافظ اور اس کے ہیرو کے طور پر پیش کیا۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ خلافت راشدہ کے اس دور میں ختم نبوت اور عقیدہ ختم نبوت کے اس طرح کے تحفظ کی کوئی سوچ یا نظریہ موجود ہی نہیں تھا اور نہ ہی ان لوگوں کے خلاف اس لیے تلوار اٹھائی گئی تھی کہ ختمِ نبوت کو کوئی خطرہ تھا یا مرتد کی سزا چونکہ قتل تھی اس لیے ان کو قتل کیا جائے۔

سوال نمبر5: اسلامی اصطلاح میں مرتد کسے کہتے ہیں؟

جواب: فرمایا: اسلامی اصطلاح میں مرتد اس کو کہا جاتا ہے جو دینِ اسلام سے انحراف کر جائے اور اسلام قبول کرنے کے بعد پھر دائرۂ اسلام سے نکل جائے۔

سوال نمبر6: ارتدادکےحوالہ سےقرآنی تعلیم کیا ہے؟

جواب: فرمایا: جب ہم قرآنِ کریم کو دیکھتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے متعدد جگہوں پر مرتد ہونے والوں کا باقاعدہ ذکر تو فرمایا ہے لیکن ان کے لیے قتل یا کسی بھی قسم کی دنیاوی سزا دینے کا ذکر نہیں کیا۔ چنانچہ چند آیات نمونے کے طور پر پیش کی جاتی ہیں۔ پہلی آیت یہ ہے کہ وَ مَنْ یرْتَدِدْ مِنْكُمْ عَنْ دِینِهٖ فَیمُتْ وَ هُوَ كَافِرٌ فَاُولٰٓىِٕكَ حَبِطَتْ اَعْمَالُهُمْ فِی الدُّنْیا وَ الْاٰخِرَةِۚ وَ اُولٰٓىِٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِۚ هُمْ فِیهَا خٰلِدُوْنَ۔ (البقرة: 218)یعنی اور تم میں سے جو بھی اپنے دین سے برگشتہ ہو جائے پھر اس حال میں مرے کہ وہ کافر ہو تو یہی وہ لوگ ہیں جن کے اعمال دنیا میں بھی ضائع ہو گئے اور آخرت میں بھی اور یہی وہ لوگ ہیں جو آگ والے ہیں۔ اس میں وہ بہت لمبا عرصہ رہنے والے ہیں۔ پھر ایک جگہ فرمایا: یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مَنۡ یَّرۡتَدَّ مِنۡکُمۡ عَنۡ دِیۡنِہٖ فَسَوۡفَ یَاۡتِی اللّٰہُ بِقَوۡمٍ یُّحِبُّہُمۡ وَیُحِبُّوۡنَہٗۤ ۙ اَذِلَّۃٍ عَلَی الۡمُؤۡمِنِیۡنَ اَعِزَّۃٍ عَلَی الۡکٰفِرِیۡنَ ۫ یُجَاہِدُوۡنَ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ وَلَا یَخَافُوۡنَ لَوۡمَۃَ لَآئِمٍ ؕ ذٰلِکَ فَضۡلُ اللّٰہِ یُؤۡتِیۡہِ مَنۡ یَّشَآءُ ؕ وَاللّٰہُ وَاسِعٌ عَلِیۡمٌ(المائدة: 55)اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! تم میں سے جو اپنے دین سے مرتد ہو جائے تو ضرور اللہ اس کے بدلے ایک ایسی قوم لے آئے گا جس سے وہ محبت کرتا ہو اور وہ اس سے محبت کرتے ہوں۔ مومنوں پر وہ بہت مہربان ہوں گے اور کافروں پر بہت سخت۔ وہ اللہ کی راہ میں جہاد کریں گے اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کا کوئی خوف نہ رکھتے ہوں گے۔ یہ اللہ کا فضل ہے وہ اس کو جسے چاہتا ہے دیتا ہے اور اللہ بہت وسعت عطا کرنے والا اور دائمی علم رکھنے والا ہے۔ پھر ایک اَور آیت جو کہ ہر قسم کے شکوک و شبہات اور سوالات کو ختم کر دینے والی ہے وہ سورة النساء کی یہ آیت ہے۔ فرمایا: اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ثُمَّ كَفَرُوْا ثُمَّ اٰمَنُوْا ثُمَّ كَفَرُوْا ثُمَّ ازْدَادُوْا كُفْرًا لَّمْ یَكُنِ اللّٰهُ لِیغْفِرَ لَهُمْ وَ لَا لِیَهْدِیَهُمْ سَبِیْلًا (النساء: 138)یقیناً وہ لوگ جو ایمان لائے پھر انکار کر دیا۔ پھر ایمان لائے پھر انکار کر دیا۔ پھر کفر میں بڑھتے چلے گئے۔ اللہ ایسا نہیں کہ انہیں معاف کردے اور انہیں راستہ کی ہدایت دے۔ پس بڑی واضح نفی ہے اس میں کہ مرتد کی سزا قتل نہیں ہے اور یہی تشریح ہمارے لٹریچر میں بھی کی جاتی ہے اور مفسرین نے بھی اس کی وضاحت کی ہے۔

سوال نمبر7: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے مرتد کو محض ارتداد کے جرم میں سزا نہ دینے کے حوالے سےکونسی حدیث بیان کی؟

جواب: فرمایا: حضرت جابر بن عبداللہؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک اعرابی نبیﷺ کے پاس آیا اور اسلام قبول کرتے ہوئے آپؐ سے بیعت کی۔ اگلے روز اعرابی کو مدینہ میں بخار ہو گیا وہ آنحضرتﷺ کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ میری بیعت مجھے واپس دے دیں۔ پھر وہ دوبارہ آیا اور کہنے لگا کہ میری بیعت مجھے واپس دے دیں۔ آپؐ نے تین مرتبہ انکار فرمایا۔ اس کا جواب نہیں دیا۔ پھر وہ اعرابی مدینہ سے چلا گیا۔ اس پر آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ مدینہ ایک بھٹی کی طرح ہے وہ میل کو نکال دیتا ہے اور اصل پاکیزہ چیز کو خالص کر دیتا ہے۔

سوال نمبر8: حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مخالفین کے اعتراض’’اسلام تلوار کے زورسے پھیلا‘‘کے حوالے سےکیا بیان فرمایا؟

جواب: فرمایا: حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام فرماتے ہیں کہ’’میں نہیں جانتا کہ ہمارے مخالفوں نے کہاں سے اور کس سے سن لیا ہے کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلا ہے۔ خدا توقرآن شریف میں فرماتا ہے لَاۤ اِكْرَاهَ فِی الدِّینِ یعنی دینِ اسلام میں جبر نہیں۔ تو پھر کس نے جبرکاحکم دیا اور جبر کے کونسے سامان تھے۔ اور کیا وہ لوگ جو جبر سے مسلمان کئے جاتے ہیں ان کا یہی صدق اور یہی ایمان ہوتا ہے کہ بغیر کسی تنخواہ پانے، باوجود دو تین سو آدمی ہونے کے ہزاروں آدمیوں کا مقابلہ کریں۔ اور جب ہزار تک پہنچ جائیں تو کئی لاکھ دشمنوں کو شکست دے دیں اور دین کو دشمن کے حملہ سے بچانے کے لئے بھیڑوں بکریوں کی طرح سرکٹا دیں اور اسلام کی سچائی پر اپنے خون سے مہریں کردیں۔ اور خدا کی توحید کے پھیلانے کے لئے ایسے عاشق ہوں کہ درویشانہ طور پر سختی اٹھاکر افریقہ کے ریگستان تک پہنچیں اور اس ملک میں اسلام کو پھیلا ویں۔ اور پھر ہریک قسم کی صعوبت اٹھاکر چین تک پہنچیں نہ جنگ کے طور پر بلکہ محض درویشانہ طور پر اور اس ملک میں پہنچ کر دعوتِ اسلام کریں جس کانتیجہ یہ ہو کہ ان کے بابرکت وعظ سے کئی کروڑ مسلمان اس زمین میں پیدا ہو جائیں۔ اور پھر ٹاٹ پوش درویشوں کے رنگ میں ہندوستان میں آئیں اور بہت سے حصہ آریہ ورت کو اسلام سے مشرف کر دیں اور یورپ کی حدود تک لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ کی آواز پہنچا ویں۔ تم ایماناً کہو کہ کیا یہ کام ان لوگوں کا ہے جو جبراً مسلمان کئے جاتے ہیں جن کادل کافر اور زبان مومن ہوتی ہے؟ نہیں بلکہ یہ ان لوگوں کے کام ہیں جن کے دل نورِ ایمان سے بھر جاتے ہیں اور جن کے دلوں میں خدا ہی خدا ہوتا ہے۔‘‘

سوال نمبر9: حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے حضرت ابوبکرؓ کے دَورخلافت میں مرتدین کو سزا دینے کی نسبت کیا وضاحت بیان فرمائی؟

جواب: فرمایا: حقیقت یہ ہے کہ تاریخ کا مطالعہ کرنے سے بڑی آسانی سے معلوم ہو سکتا ہے کہ حضرت ابوبکرؓ کے عہد میں مرتد ہونے والے صرف مرتد ہی نہیں تھے بلکہ وہ باغی تھے اور خونخوار ارادوں کے حامل باغی تھے جنہوں نے نہ صرف یہ کہ ریاستِ مدینہ پر حملہ کر کے مسلمانوں کو قتل کرنے کے بھیانک منصوبے بنائے بلکہ مختلف علاقوں میں مسلمانوں کو پکڑ پکڑ کر بڑی بے رحمی سے قتل کیا۔ ان کے اعضاء کاٹ کر ان کو مارا گیا۔ انہیں زندہ آگ میں جلایا گیا۔ یہ مرتدین ظلم و ستم اور قتل و غارت اور بغاوت اور لوٹ مار جیسے بھیانک جرائم کا ارتکاب کرنے والے لوگ تھے جس کی وجہ سے دفاعی اور انتقامی کارروائی کے طور پر ان محارب لوگوں سے جنگ کی گئی اور جَزَاءُ سَیِّئَةٍ سَیِّئَةٌ مِّثْلُہَا کے تحت ان کو بھی ویسی ہی سزائیں دے کر قتل کرنے کے احکامات صادر کیے گئے جیسے جرائم کے وہ مرتکب ہوئے تھے۔

سوال نمبر10: کتب تاریخ وسیرت میں مرتدین کی طرف سے مسلمانوں پرکیےگئےمظالم کا تذکرہ کس طرح کیا گیا؟

جواب: فرمایا: تاریخ خمیس میں لکھا ہے کہ خَارِجہ بن حِصْنجو مرتدین میں سے تھا اپنی قوم کے کچھ سوار لے کر مدینہ کی طرف بڑھا۔ وہ چاہتا تھا کہ اہلِ مدینہ کو جنگ کے لیے نکلنے سے قبل ہی روک دے یا انہیں غفلت میں پا کر حملہ کر دے۔ چنانچہ اس نے حضرت ابوبکرؓ اور آپؓ کے ساتھ کے مسلمانوں پر اس وقت چھاپہ مارا جبکہ وہ لوگ بےخبر تھے۔ علامہ طبری لکھتے ہیں کہ جب حضرت ابوبکرؓ نے مختلف حملہ آور قبائل کو شکست دی تو بنوذُبیان اور عَبْساُن مسلمانوں پر حملہ آور ہوئے جو اُن میں رہتے تھے اور اُن کو ہر ایک طریق سے قتل کیا اور ان کے بعد دیگر اقوا م نے بھی انہی کی طرح کیا یعنی انہوں نے بھی ایسے لوگوں کو قتل کر دیا جو اسلام پر قائم رہے…آنحضرتﷺ کی وفات پر جن قبائل نے ارتداد اختیار کیا ان کا ارتداد مذہبی اختلاف تک محدود نہ تھا بلکہ انہوں نے سلطنت اسلامی سے بغاوت اختیار کی تھی۔ تلوار کو اپنے ہاتھ میں لیا تھا۔ مدینہ منورہ پر حملہ کیا۔ اپنی اپنی قوموں کے مسلمانوں کو قتل کیا۔ آگ میں ڈالا اور ان کا مثلہ کیا۔ جیساکہ تاریخ طبری میں حضرت خالد بن ولیدؓ کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ جب اسد اور غَطَفَان اور ہَوَازَن اور سُلَیم اور طَیءکو شکست ہوئی تو خالدؓ نے ان سے معافی قبول نہ کی سوائے اس کے کہ وہ آپ کے پاس ان لوگوں کو لے کر آئیں جنہوں نے مرتد ہونے کی حالت میں مسلمانوں کو آگ میں ڈال کر جلایا اور ان کا مُثلہ کیا اور ان پر مظالم برپا کیے…علامہ شوکانی بیان کرتے ہیں کہ امام خطابی نے نبی کریمﷺ کی وفات کے بعدارتداد اختیار کرنے والوں اور زکوٰة وغیرہ کی ادائیگی سے انکار کرنے والوں کے بارے میں مختلف امور تحریر کرنے کے بعد لکھا ہے کہ یہ لوگ درحقیقت باغی ہی تھے اور ان کو مرتد صرف اس وجہ سے کہا گیا ہے کہ یہ لوگ مرتدین کی جماعتوں میں داخل ہو گئے تھے۔

سوال نمبر11: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مرتدین کی طرف سے مسلمانوں پر کیے گئے مظالم پر کیا تبصرہ فرمایا؟

جواب: فرمایا: تاریخی حوالوں کا خلاصہ یہی ہے کہ مرتد ہونے والے قبائل نے اموالِ زکوٰة روک لیے تھے یعنی حکومت کا ٹیکس جبراً روک لیا تھا۔ بعض جگہ سے اموالِ زکوٰة کو لوٹ لیا تھا۔ فوجیں تیار کیں۔ دارالخلافہ مدینہ پر حملے کیے۔ جن مسلمانوں نے ارتداد سے انکار کیا ان کو قتل کر دیا۔ بعض کو زندہ آگ میں جلا دیا۔ لہٰذا ایسے مرتدین حکومت کے خلاف مسلح بغاوت، حکومت کے اموال کو لوٹنے اور مسلمانوں کو قتل کرنے اور انہیں زندہ جلا دینے کی بنا پر قتل کی سزا کے مستحق ہو چکے تھے۔ جیسا کہ قرآن پاک فرماتا ہے جَزَاءُ سَیِّئَةٍ سَیِّئَةٌ مِّثْلُهَا(الشورىٰ: 41) کہ مجرم جیسا کہ جرم کرے اس کو ویسی ہی سزا دو۔ ایک اور جگہ فرمایا اِنَّمَا جَزٰٓؤُا الَّذِیۡنَ یُحَارِبُوۡنَ اللّٰہَ وَرَسُوۡلَہٗ وَیَسۡعَوۡنَ فِی الۡاَرۡضِ فَسَادًا اَنۡ یُّقَتَّلُوۡۤا اَوۡ یُصَلَّبُوۡۤا اَوۡ تُقَطَّعَ اَیۡدِیۡہِمۡ وَاَرۡجُلُہُمۡ مِّنۡ خِلَافٍ اَوۡ یُنۡفَوۡا مِنَ الۡاَرۡضِ(المائدة: 34)کہ جو لوگ اللہ اور رسول سے جنگ کریں یعنی جس سے مراد یہ ہے کہ جو لوگ رسول اور خلیفۃالرسول یا اسلامی حکومت کے ساتھ جنگ کریں کیونکہ اللہ کے ساتھ لڑائی نہیں ہو سکتی۔ اللہ کو نہ تھپڑ مارا جا سکتا ہے نہ پتھر نہ تیر نہ تلوار۔ اس لیے ان سے جنگ کرنے سے مراد ہے۔ وَیسْعَوْنَ فِی الْأَرْضِ فَسَادًا میں اس بات کا ذکر کیا گیا ہے کہ اللہ اور رسول سے جنگ سے کیا مراد ہے۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ جو لوگ اللہ اور رسول سے جنگ کرتے ہیں یعنی ملک میں فساد کرتے ہیں۔ قتل و غارت، ڈاکہ زنی، لُوٹ مار، مسلح بغاوت کرتے ہیں ان کی سزا یہ ہے کہ یُقَتَّلُوْا أَوْ یُصَلَّبُوْا انہیں سختی سے قتل کیا جائے یا صلیب پر مار دیا جائے۔

سوال نمبر12: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خطبہ کے آخرپرکن مرحومین کا ذکرخیرفرمایا؟

جواب: 1: مکرم محمد بشیر شاد صاحب جو مربی سلسلہ تھے، آپ سابق سیکرٹری مجلس کارپردازرہے، 1984ءمیں جماعت کے خلاف جو آرڈیننس ہواتھا اس کے بعد حضرت خلیفۃ المسیح الربعؒ کو ہجرت کرنی پڑی توہجرت سے قبل حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کی موجودگی میں جو خطبہ تھا وہ ان کودینے کی توفیق ملی۔ 2: مکرم رانا محمد صدیق صاحب جو رانا علم دین صاحب ملیانوالہ ضلع سیالکوٹ کے بیٹے تھے۔

3: مکرم ڈاکٹر محمود احمد خواجہ صاحب آف اسلام آباد۔ جو بہت اچھے ریسرچ سکالرتھے۔ آپ کو نصرت جہاں سکیم کے تحت 1979ءتا 1984ءتک سیرالیون میں اپنی اہلیہ کے ساتھ وقف کی توفیق بھی ملی۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button