متفرق

STOP WWIIIکمپین …عافیت کا حصار

(پروفیسر نصیر حبیب۔ لندن)

مایوسی اور انتشار کی اس اندھیری میں پیارے امام حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے آسمانی نوبت خانے کے نقارہ پر ضرب لگائی اورانسانیت کو اس خوفناک خطرہ سے آگاہ کیا ہے اور نو سنہری نکات پیش کیے ہیں جو قطبی ستارے کی طرح دنیا کی راہنمائی امن و سلامتی کے حصار کی طرف کر سکتے ہیں

اس وقت تہذیب انسانی کی کشتی ایک خطرناک موڑ پر پہنچ چکی اور اب وہ چٹانوں کی طرف بڑھ رہی ہے۔ ایک طرف تو انسان ستاروں کی گزرگاہیں ڈھونڈتے ڈھونڈتے اس قابل ہوگیا ہے کہ نو ارب نوری سال کے فاصلے پر موجود کہکشاؤں کا دیدار کر رہا ہے اور کائنات کے باریک سے باریک ذرّات کا جگر چیر کر ان کے اندر موجود تباہ کن قوتوں کو گرفتار کرنے کے قابل ہوگیا ہے۔ لیکن اپنے خالق سے دوری اور روحانی اقدار سے محرومی کے باعث یہ مادی دنیا کی تمام فتوحات اس کی اپنی ہی تباہی کے سامان بن گئی ہیں۔ اور ایٹمی جنگ جسے ماضی میں محض ایک امکان سمجھا جارہا تھا اب حقیقت بن کر سامنے آگئی ہے۔ اگر خدانخواستہ ایسا ہوگیا تو انسان آپ اپنی آگ کا خس و خاشاک بن جائے گا۔ مایوسی اور انتشار کی اس اندھیری میں پیارے امام حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے آسمانی نوبت خانے کے نقارہ پر ضرب لگائی اور انسانیت کو اس خوفناک خطرہ سے آگاہ کیا ہے۔ اور نو سنہری نکات پیش کیے ہیں جو قطبی ستارے کی طرح دنیا کی راہنمائی امن و سلامتی کے حصار کی طرف کر سکتے ہیں بشرطیکہ دنیا ان اصولوں پر عمل پیرا ہو اور انہیں اپنا حرزِ جاں بنالے۔

خالق کی پہچان

Recognize the Creator

پہلا سنہری اصول جو آپ نے بیان فرمایا ہے وہ یہ کہ مخلوق اپنے خالق کی پہچان حاصل کرے جس کے بغیر دنیا اس بحران پر قابو نہیں پاسکتی۔ اس کی تمام سائنسی فتوحات تمام علمی کارنامے اور مہارتیں سب بےکار جائیں گی۔

مثنوی مولانا روم میں ایک حکایت لکھی ہے۔ سلطان محمود غزنوی رات تنہا گشت کر رہا تھا۔ اس نے دیکھا چوروں کی ٹولی بیٹھی ہے۔ وہ بھی ان میں جا بیٹھا۔ چوروں نے پوچھا کہ حضرت آپ کون ہیں۔ سلطان نے کہا میں بھی آپ کا ہم پیشہ ہوں۔ چوروں نے کہا ہم سب اپنا اپنا ہنر بیان کرتے ہیں اگر تم بھی اپنا ہنر بیان کرو۔ اگر تم میں بھی کوئی کمال فن ہو تو ہمارے ساتھ شریک ہوسکتے ہو۔ چوروں نے اپنے اپنے ہنر بیان کیے ایک چور نے کہا میرا کمال یہ ہے کہ اگر کسی اجنبی کو میں نے اندھیری رات میں دیکھا ہو تو دن کے وقت اگر کہیں مل جائے تو فوراً اس کو پہچان لوں گا۔ سلطان نے کہا میری داڑھی میں یہ خاصیت ہے کہ مجرموں کو اگر جلادوں کے حوالے کیا جارہا ہو اور میں اپنی داڑھی ہلا کر رہائی کا اشارہ کر دوں تو وہ فوراً رہا کر دیے جائیں۔ اس کے بعد سب کا سب طائفہ دز داں قصر شاہی کی طرف چلا۔ نقب لگائی۔ سب کچھ لاد کر چلے۔ سلطان بھی ان کے ساتھ رہا ان کا ٹھکانا دیکھ کر غائب ہوگیا۔ دوسرے روز لشکریوں کو بھیجا وہ سب گرفتار کر لیے گئے اور سلطان کے سامنے پیش ہوئے۔ اس سے پہلے کہ جلادوں کے حوالے ہوجاتے۔ لیکن اندھیری رات میں دیکھے ہوئے اجنبی کو دن کے وقت پہچاننے والے نے فوراً سلطان کو پہچان لیا اور سلطان سے درخواست کی کہ ہمارے تمام ہنر بےکار ہوگئے اب آپ اپنے ہنر کا مظاہرہ فرمائیے تاکہ ہماری رہائی ہوجائے۔ اگر وہ شخص بادشاہ کو نہ پہچانتا تو یقیناً سب کی گردن ماری جاتی۔ اور لوٹا ہوا مال بھی جاتا۔ (تشبیہات رومی، صفحہ 584تا 586، ادارہ ثقافت اسلامیہ پاکستان 1959ء)

مولانا نے اس سے یہ سبق دیا کہ اگر بندہ کو خدا شناسی حاصل ہوجائے تو تمام مقاصد حاصل ہوجاتے ہیں اور اگر یہ معرفت نہ ہو تو باقی تمام ہنر اور علوم و فنون ان چوروں کے کمالات کی طرح ہلاکت کا باعث بن جاتے ہیں۔ اس وقت انسان اپنے خدا کو بھول چکا ہے اور اس کے اور خدا کے درمیان ایک کدورت واقع ہوچکی ہے۔ ایک روحانی خلا پیدا ہوچکا ہے۔ اور خدا کے پیغام کی جگہ دنیاوی فلسفوں نےگھر کر لیا ہےجس کے باعث خوفناک مظالم کا ارتکاب ہوتا ہے اور انصاف کا خون ہوتا ہے اور دنیا کا امن و امان خطرہ سے دوچار ہوجاتاہے۔ لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ انصاف کیا جائے۔

تو دوسرا نکتہ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے پیش فرمایا کہ

Establish Absolute Justice

یورپی اقوام کا مذہب عیسائیت تھا۔ جب یہ اقوام دنیا میں سیاسی عروج حاصل کر رہی تھیں لیکن عیسائیت دنیا کے سیاسی انتظام و انصرام کے لیے کوئی ضابطہ حیات پیش نہیں کرتی بلکہ یہ تعلیم پیش کرتی ہے کہ جو ایک گال پر تھپڑ لگائے دوسرا گال بھی آگے پیش کر دے۔ چنانچہ اس اصول کو اپناکر کوئی ریاست اپنی بقا قائم نہیں رکھ سکتی۔ لہٰذا یورپ پھر یونانی علم و فلسفہ کی طرف پلٹا اور میکاؤلی جیسے مفکر سامنے آئے۔ میکاؤلی نے 1513ء میں اپنی مشہور تصنیف ’’بادشاہ‘‘تحریر کی اور اس میں وہ نظریہ پیش کرتا ہے کہ اخلاقیات کے اصولوں کی سیاسی زندگی میں کوئی جگہ نہیں چنانچہ وہ لکھتا ہے کہ’’جب کوئی غاصب کسی مملکت پر قبضہ کرلے تو اُسے یہ طے کرنا چاہیے کہ کون کون سے مظالم ناگزیر ہیں اسے چاہیے کہ جو ظلم کرنا ہو بس ایک دفعہ کر ڈالے تا کہ بار بار اس کی ضرورت پیش نہ آئے۔ ‘‘(میکاؤلی۔ بادشاہ، صفحہ84، مترجم ڈاکٹر محمود حسین، فکشن ہاؤس لاہور)

چنانچہ میکاؤلی لکھتا ہے کہ ’’ہر معاملہ میں کامل نیکی کو اپنا معیار بنانا اپنے پاؤں پر آپ کلہاڑی مارنا ہے۔ لہٰذا بادشاہ کے لیے ضروری ہے کہ وہ نیکی کے علاوہ اور بھی کچھ سیکھے۔‘‘ (میکاؤلی۔ بادشاہ، صفحہ129، مترجم ڈاکٹر محمود حسین، فکشن ہاؤس لاہور)

چنانچہ یہ تصورات بین الاقوامی سیاست میں درآئے۔ اور Situational Ethicsکا اصول متعارف ہوا جس کے مطابق موقع کی مناسبت سے اخلاقی اصول و قوانین میں لچک کا مظاہرہ بھی کیا جاسکتا ہے۔ چنانچہ ملک قومیت کے تصور کی بنیاد پر استوار ہوئے۔ اور طاقتور قومیں کمزور قوموں کا استحصال کرنے لگیں۔ بین الاقوامی سیاست میں یہ ناانصافی کا رویہ مختلف اخلاقی جوازوں کےساتھ جاری رہا۔ جنگ عظیم اوّل سے قبل Globalization کا عمل صنعتی ترقی کی وجہ سے فروغ پا رہا تھا۔ عالمی سیاست کے افق پر موجود بڑے بڑے لیڈر پُر امید نظر آتے تھے۔

ونسٹن چرچل 1908ء میں بیان دیتا ہے: ’’مہذب دنیا میں اتحاد و یکجہتی کا عمل سال بہ سال اور ماہ بہ ماہ فروغ پارہا ہے۔ ‘‘

(Report of the Proceeding of the International Free Trade Congress London 1908)

یہ بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کا ایک عظیم نشان ہے کہ جب بڑے بڑے لیڈرپُرامید تھے کہ ہم اپنی کوششوں سے کشتی کو کنارے لگا لیں گے۔ لیکن خدا کے جری پہلوان نے علیم وخبیر خدا سے خبر پاکر 1907ء میں اعلان کیا: ’’کیا تم خیال کرتے ہو کہ تم ان زلزلوں سے امن میں رہو گےیا تم اپنی تدبیروں سے اپنے تئیں بچا سکتے ہو؟ ہرگز نہیں ……اے یورپ تو بھی امن میں نہیں اور اے ایشیا تو بھی محفوظ نہیں۔ اور اے جزائر کے رہنے والو! کوئی مصنوعی خدا تمہاری مدد نہیں کرے گا۔ ‘‘(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد 22صفحہ 269)

چنانچہ وہ واحد و یگانہ جو ایک مدت تک خاموش رہا اس کی غیرت جوش میں آئی اور اس انتباہ کے سات سال بعد دنیا جنگ عظیم اوّل کی لپیٹ میں آگئی اور اس میں چالیس ملین لوگ ہلاک ہوگئے۔ اس کی وجہ قوموں کے اندر پایا جانے والا تضاد اور نا انصافی کا وہ رویّہ تھا جسے اخلاقی جواز فراہم کر دیا گیا تھا۔ تعلیم اور صنعتی ترقی کی وجہ سے عالمی تجارت فروغ پارہی تھی اور وہ قومیں بھی اس صنعتی ترقی کی وجہ سے عالمی تجارت سے استفادہ کر رہی تھیں جن کے پاس بڑی افواج نہیں تھیں۔ لیکن وہ اقوام اور ملک جن کے پاس بڑی افواج اور جنگی فنون تھے اپنے ذاتی مفاد کے لیے اس ترقی کی راہ میں روڑے اٹکانے لگیں۔ اور ان کے اندر سوشل ڈارون ازم کے نظریات کی وجہ سے یہ خیال فروغ پاگیا کہ جیسے زندگی کے ارتقاء میں بعض Speciesبعض Speciesسے بہتر ہوتی ہیں اس طرح بعض اقوام بھی بعض اقوام سے بہتر ہوتی ہیں اور ان کے حقوق زیادہ ہیں اور اس تناظر میں اس نعرہ کو بہت فروغ ملا کہ جارحیت بہترین دفاع ہے۔

“This mind set helped to mold the offensive military doctrine which every European power adopted during 1892–1913.”

(Stephen Van Evera: The Call of the Offensive and the Origin of the First World War International Security Summer, 1984)

اس جنگی جنون اور ناانصافی کے نتیجے میں جو تباہی جنگ عظیم اوّل کی صورت میں آئی اس سے عالمی لیڈروں کے کان کھڑے ہوگئے اور مستقبل میں اس تباہی کی روک تھام کے لیے لیگ آف نیشنز کے قیام کے بارے میں سوچنے لگے۔ ظلم و جبر کی اندھیری رات میں قرآن پاک کی حسین تعلیمات مینارہ نور کی صورت ابھرتی ہیں اور امن و امان کے قیام اور بقا کی خاطر راہنمائی عطا فرماتی ہیں: ’’اور اگر مومنوں میں دو جماعتیں آپس میں لڑ پڑیں تو ان کے درمیان صلح کراؤ۔ پس اگر ان میں سے ایک دوسری کے خلاف سرکشی کرے تو جو زیادتی کر رہی ہے اس سے لڑو یہاں تک کہ وہ اللہ کے فیصلہ کی طرف لوٹ آئے۔ پس اگر وہ لوٹ آئے تو ان دونوں کے درمیان عدل سے صلح کرواؤ اور انصاف کرو۔ یقیناً اللہ انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔ ‘‘(قرآن کریم۔ اردو ترجمہ حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ۔ سورة الحجرات آیت 10صفحہ 932)

چنانچہ 1924ء میں حضرت خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ عنہ لندن تشریف لے جاتے ہیں۔ ستمبر 1924ء میں ان کی ملاقات کے لیے مسٹر ایلی سن اورمسٹر رین سیکرٹری لیگ آف نیشنز ریلیجن اینڈ ایتھکس آتے ہیں اور امن کی بحالی کے لیے آپ سے راہنمائی کی درخواست کرتے ہیں۔ آپؓ نے فرمایا: ’’دو صورتوں سے امن قائم ہوسکتا ہے۔ اوّل دلوں میں تبدیلی ہو۔ اگر دلوں میں تبدیلی پیدا ہوجائے تو پھر لیگ کی ضرورت نہیں۔ دوم طاقت سے اور اس طاقت سے میرا یہ مطلب نہیں کہ لیگ ایک فوج رکھے۔ اس صورت میں لیگ خود ایک فریق بن جائے گی ۔بلکہ میرا مطلب یہ ہے کہ جو قوم نقص امن کرے۔ باقی تمام اقوام اس کے خلاف اخلاقی طاقت استعمال کریں اور جب وہ مغلوب ہوجائے تو صلح کے وقت اس امر کو جو باعث تنازعہ تھا منوادیا جاوے۔ دوسری باتوں کو مغلوب سمجھ کر پیش نہ کیا جائے۔ جیسا کہ عہد نامہ ورسیلز میں لکھا گیا۔ ‘‘(الفضل 14؍اکتوبر1924ء صفحہ 3تا4)

جو زیادتیاں معاہدہ ورسیلز میں روا رکھی گئیں وہ دوسری جنگ عظیم کا سبب بنی۔ اور اس خوفناک جنگ میں چالیس سے پچاس ملین لوگ ہلاک ہوگئے۔ اس جنگ میں پہلی مرتبہ ایٹمی ہتھیار استعمال ہوئے۔ جس میں پہلی مرتبہ یہ ہوا کہ وہ لوگ خوش قسمت سمجھے گئے جن کے نزدیک ایٹم گرا تھا کیونکہ ان کی جان آسانی سے نکل گئی لیکن وہ لوگ جو زیادہ فاصلے پر تھے ان کی جان جس اذیت سے نکلی کہ کوئی اس کا تصور بھی نہیں کر سکتا تھا۔ لیکن یہ ایک لمحہ فکریہ ہے کہ امن و امان کے قیام اور استحکام کے حوالے سے آج بھی بڑی طاقتوں کے رویوں میں تضاد پایا جاتا ہے۔

پیارے امام حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے 2012ء میں عالمی لیڈروں کو خطوط تحریر کیے اور ان کو امن و امان کےقیام کی خاطر دعوتِ فکردی۔ آپ ایران کے صدر احمدی نژاد کو 7؍مارچ 2012ء کو تحریر فرماتے ہیں:

“It is undeniably true that the major powers act with double standards. Their injustices have caused restlessness and disorder to spread all across the world.”(The Review of Religions: 22 April 2012)

یعنی یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ بڑی طاقتیں دوہرے معیار کے ساتھ عمل پیرا ہوتی ہیں اور ان کی ناانصافیوں کے نتیجے میں پوری دنیا میں انتشار اور بے چینی پھیل گئی۔

بڑی طاقتوں کے رویّے میں جو تضاد پایا جاتا ہے اس دعویٰ کی تائید میں مضبوط تاریخی شہادتیں ملتی ہیں۔ آج روس کے یوکرائن پر حملے کے نتیجے میں دنیا سراپا احتجاج بنی ہوئی ہے۔ لیکن آج سے 30 سال پہلے جب روس کی پشت پناہی کے بل بوتے پر سربیا نے بوزنیا کو بدترین جارحیت کا نشانہ بنایا تو اس وقت دنیا کہاں تھی۔ چنانچہ Ed Vulliamyکالم نگار گارڈین میں سوال اٹھاتا ہے:

“Ukraine matters, but so did Bosnia 30 year ago, where was the outcry then?”(The Guardian, 3 April 2022)

اس جارحیت کے نتیجے میں ایک لاکھ مسلمان ہلاک ہوگئے اور بیس لاکھ مسلمانوں کو اپنا گھر بارچھوڑنا پڑا اور بدقسمتی سے یہ سب ظلم و بربریت بڑی طاقتوں اور یو این او کی ناک کے نیچے روا رکھی گئی۔ اگر آج جو حمایت یوکرائن کو حاصل ہے اس کا دسواں حصہ بھی بو زنیا کو حاصل ہوتا تو جنگ رک سکتی تھی اور ہزاروں زندگیاں بچائی جاسکتی تھیں۔

(The Guardian, 3 April 2022)

لیکن چونکہ وہ کمزور مسلمان تھے لہٰذا انہیں وہ حمایت حاصل نہ ہوسکی۔

Most of the 100,000 dead and two million displaced in Bosnia were Slavic Muslims and some survivors think the West’s connivance was because they are just that – Muslims

(The Guardian, 3 April 2022)

لہٰذا اگر انسانیت نے استحکام اور امن و ترقی کی راہ پر آگے بڑھنا ہے تو اس کے لیے مکمل انصاف کی ضرورت ہےجو ہر قسم کی مذہبی اور قومی تفریق سے بالا تر ہو۔ اس کے بغیر انسانیت ترقی اور استحکام کی راہ پر آگے نہیں بڑھ سکتی۔

Faster Global Unity

مکمل انصاف عالمی اتحاد کے لیے ایک بنیادی شرط ہے۔ 1918-1914ءسے قبل آٹھ میں سے پانچ بڑی طاقتوں کا تعلق یورپ سے تھا اور چھٹی روس جس کا مغربی حصہ مشرقی یورپ میں واقعہ تھا۔ مغرب کا عروج اس کی تہذہب کے عروج کے ساتھ آگے بڑھ رہا تھا۔ لیکن ہر تہذیب کو اپنے عروج کے زمانے میں ایک دعوت ہائے مقابلہ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ لیکن اگر وہ تہذیب اس چیلنج سے کامیابی کے ساتھ عہدہ برآنہ ہوسکے تو پھر زوال کے سائے گہرے ہونے شروع ہوجاتے ہیں۔ ایک زمانے میں یونان کی شہری ریاستوں نے بڑے پیمانے پر فتوحات حاصل کیں۔ سکندر اعظم تو ہندوستان تک پہنچ گیا۔ لیکن یونان اپنی شہری ریاستوں کے تنگ حصار سے نہ نکل سکا۔ لہٰذا زوال کا شکار ہوگیا۔ اسی طرح پندرھویں صدی میں میلان فلورنس کی ریاستوں نے کامیابی حاصل کی لیکن وہ بھی وقت کے تقاضوں کا ساتھ نہ دے سکیں۔ بالآخر ان کی جگہ قومی ریاستوں نے لے لی۔

چنانچہ یورپ کی قومی ریاستوں نے محیّر العقول کامیابیاں حاصل کیں لیکن اب یہ کیا وجہ ہے کہ برطانیہ کی قومی ریاست جس کی سلطنت پر کبھی سورج غروب نہیں ہوتا تھا اب کبھی کبھی نکل آتا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ صنعت کا ادارہ اپنی ذات میں عالمگیر ادارہ ہے۔ اس ادارے کو اپنی ممکنہ استعدادوں کے فروغ کے لیے ایک بہت بڑے رقبے اور جغرافیائی خطے کی ضرورت ہے۔ لیکن یورپ کی قومی ریاستوں نے (جن میں برطانیہ بھی شامل تھی جس کا رقبہ بلوچستان سے بھی کم تھا) کوشش کی کہ اس ادارے کو اپنی قوی حدو د میں قید رکھا جائے لیکن نئی شراب پرانے مشکیزوں میں بند نہیں رکھی جاسکتی۔ چنانچہ اس غیر فطری پابندی کا نتیجہ یہ نکلا کہ جنگ عظیم اوّل کے بعد برطانیہ روبہ زوال ہوگیا اور ایسی ریاستیں سیاسی افق پر نمودار ہونے لگیں جو کہ وسیع و عریض رقبہ کی حامل تھیں یعنی امریکہ، روس اور چین وغیرہ۔ لیکن ایک وقت آئے گا کہ اس ادارے کو ان حدود میں بھی قائم نہیں رکھا جا سکے گا۔ چنانچہ یورپی یونین وجود میں آئی لیکن افسوس برطانیہ اپنی تاریخ کے بوجھ سے نجات حاصل نہیں کرسکا اور Brexit کی تحریک کےذریعہ یورپی یونین سے کنارہ کشی اختیار کرنے لگا۔ لیکن ایک وقت آئے گا کہ دنیا Globalization کے عمل کے بغیر استحکام حاصل نہیں کر سکے گی۔

حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اس کی طرف دنیا کو توجہ دلائی ہے۔ آج نہیں تو کل دنیا کو اس عالمگیریت کے حصار میں آنا پڑے گا۔ جو کہ سلامتی کا حصار ہے۔ اور ترقی کی ضمانت ہے۔

Seek Nuclear Disarmament

نیوکلیئر ہتھیاروں کی تخفیف اور ان کا اختتام انسانیت کی بقا کے لیے ناگزیر تھے۔ ایٹمی طاقتیں اپنے تحفظ کے لیے خطرے سے آگاہی کے لیے نظام قائم کیے ہوئے ہیں۔ یہ الارم سسٹم بعض اوقات غلط انتباہ بھی جاری کر دیتا ہے اور جیسا کہ NORADکی رپورٹ کے مطابق ان رپورٹوں میں 32.4فیصد سالانہ اضافہ ہورہا ہے۔ اس انتباہ کا جائزہ لینے اور پرکھتے وقت عام طور پر تین منٹ سے بھی کم وقت ہوتا ہے اور جوابی حملے کے لیے فیصلہ کرنے کا وقت دو منٹ سے چار منٹ کے برابر ہوتا ہے تو اس بات کا قوی امکان ہے کہ کسی غلط اطلاع کے نتیجے میں ایٹمی جنگ کا آغاز ہوجائے۔ اور یہ جنگ کیا تباہی لاسکتی ہے اس کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ جو بم ہیروشیما پر گرایا گیا تھا اس کی طاقت 13ہزار ٹن تھی اور 1980ء کی دہائی میں ایٹمی ہتھیاروں کی مجموعی طاقت 13 بلین ٹن تک پہنچ گئی جو ایک ملین ہیروشیما ایٹم بم کے برابر ہے۔ یعنی 3 ٹن TNTدنیا میں موجود ہر مرد، ہر عورت اور ہر بچے کے لیے موجود ہے۔ دنیا ایک خطرناک دوراہے پر کھڑی ہے کسی بھی غلط فہمی کے نتیجے میں شروع ہونے والی جنگ اس کرہ ٔارض پر انسانی بقا کو خطرہ میں ڈال سکتی ہے۔ اگر حشرات الارض اور چیونٹیوں کو شعور حاصل ہوجائے اور وہ تاریخی شعور کی بنا پر زمین پر موجود انسان کی تاریخ کا جائزہ لینے کے قابل ہوجائیں تو انہیں زمین پر انسانی وجود کا زمانہ بہت معمولی اور غیر اہم نظر آئے گا۔

اس سے بڑا کیا المیہ ہوسکتا ہے۔ اللہ کرے کہ انسان اپنے پیدا کرنے والے حقیقی خالق کو پہچان لے اور خالق اور مخلوق کے حقوق ادا کرنے کے قابل ہوجائے۔ اور ان تباہی کے ہتھیاروں سے چھٹکارا حاصل کر لے۔ آمین

Eliminate Weapon profiteering

دنیا کے بڑے ممالک امریکہ، روس، چین کے فوجی اخراجات بلین میں ہیں۔ بڑی بڑی اسلحہ ساز کمپنیاں جن کی تعداد سو سے زیادہ ہے۔ انہوں نے سال 2020ء میں 531 بلین ڈالر کے اسلحہ کی فروخت کی۔ اسلحہ کی فروخت کی پانچ بڑی کمپنیاں امریکہ میں واقعہ ہیں۔ ان کمپنیوں پر اسلحہ کی تیاری کے لیے سرمایہ کاری کتنی بڑی ہوگی اس کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔

اب جن لوگوں نے سرمایہ کاری کی ہے کیا ان کا مفاد ہوسکتا ہے کہ دنیا میں امن قائم ہوجائے۔ امریکہ تیل کی خرید پر جو ڈالر خرچ کرتا ہے وہ اسلحے کی فروخت کے ذریعے وصول کر لیتا ہے۔ لہٰذا دنیا میں جنگ و جدل کی فضا اسلحہ کی تجارت سے وابستہ بڑی بڑی کمپنیوں کے لیے ساز گار ہے۔ 85-1981ء کے درمیان مشرق وسطیٰ کو دنیا کےکُل اسلحے کی فروخت کا 52.2فیصد فروخت کیا گیا۔ ہم دیکھتے ہیں کہ اس کے بعد مشرق وسطیٰ کے حالات خراب ہوگئے اور امن برباد ہوگیا۔ چنانچہ اس کوکنٹرول کرنے کے لیے ایک مضبوط سیاسی ادارے کی ضرورت ہے۔ لیکن یہ سیاسی ادارہ کسی روحانی تحریک کے بغیر ناممکن ہے۔

Create Economic Equity and Eradicate Poverty

ماضی میں بڑی تہذیبیں کسی دعوت ہائے مقابلہ کا جواب دے کر وجود میں آئیں اور اس کے نتیجے میں جو انہیں ذرائع اور وسائل حاصل ہوئے انہیں اشرافیہ نے اپنے مقبروں کی تعمیر میں خرچ کر دیا۔ آج بھی انسانیت کی فلاح و بہبود زیادہ تر ریاستوں کا اوّلین مقصد نہیں ہے۔ آج بھی پاکستان جیسے ممالک میں 40 فیصد بچے خوراک کی کمی کا شکار ہیں۔ ان کی Stunted Growth ہے۔ دنیا میں 26 فیصد بچے خوراک کی کمی کا شکار ہیں۔ اس کے لیے ایک منصفانہ عالمی اقتصادی نظام کی ضرورت ہے اس کے بغیر دنیا میں حقیقی امن قائم نہیں ہوسکتا۔

Work for the Good of One’s Own Nation

وطن کی محبت ایمان کا حصہ ہے۔ ہر شخص کا فرض ہے کہ اپنے ملک و قوم کی فلاح و بہبود کے لیے اپنا کردار ادا کرے۔

Reject Extremism

اگر دنیا انصاف پر مبنی ایک عالمی نظام قائم کرنے میں کامیاب ہوجائے تو انتہاپسندی کا بڑی حد تک خاتمہ ہوسکتا ہے۔ لیکن اس کے فقدان کے باعث بعض اوقات لوگ انتہا پسندی کا راستہ اختیار کرتے ہیں۔ جیسا کہ ذکر کیا جا چکا ہے دنیا میں 26 فیصد بچے خوراک کی کمی کا شکار ہیں۔ وہ جب جوان ہوں گے ان میں یہ صلاحیت بھی نہیں ہوگی کہ وہ کھرے کھوٹے کی تمیز کر سکیں۔ چنانچہ انہیں جوش دلا کر آسانی سے انتہا پسندی کی طرف مائل کیا جاسکتا ہے۔

سرمایہ داری اور کمیونزم کے درمیان جنگ مغربی تہذیب کا اندرونی معاملہ تھا۔ لیکن جب روس نے افغانستان پر حملہ کیا تو مغرب نے اس کے مقابلے کے لیے اسلامی انتہا پسندوں کو تیار کیا ان کی کتب امریکہ کے پریسوں میں شائع کی گئیں اور ان تک پہنچائی گئیں۔ ان کو اسلحہ فراہم کیا گیا۔ غربت اور افلاس کے مارے ہوئے لوگ اسلام کے نام پر اس جنگ میں ایندھن کی طرح استعمال ہوئے۔ جب بڑی طاقتوں کو اپنے مفادات حاصل ہوگئے تو ان لوگوں کو چھوڑ دیا گیا۔ چنانچہ دہشت گردی کا یہ زہر کینسر کی صورت میں معاشرے میں سرایت کر گیا ہے اور اب ایک عالمی خطرہ کی صورت اختیار کر گیا ہے۔ اس کے لیے تعلیم و تربیت اور اس بات کی ضرورت ہے کہ دنیا کو اسلام کی تعلیمات کا حقیقی چہرہ دکھایا جائے تاکہ یہ لوگ اسلام کی حقیقی تعلیم سے آگاہ ہوسکیں۔ اور بُرائی کو جڑھ سے اکھاڑا جاسکے۔

Instill Service to Humanity

اسلام کی بنیاد دو ستونوں پر ہے۔ تعظیم لامر اللہ اور شفقت علیٰ خلق اللہ۔ اگر شفقت علیٰ خلق اللہ نہیں تو اس کا مطلب ہے کہ تعظیم لامر اللہ بھی نہیں۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ کے حکموں کی تعظیم کے لیے شفقت علیٰ خلق اللہ ایک بنیادی شرط ہے۔

حقائق الفرقان میں لکھا ہے کہ جمّوں کا ایک رئیس بیمار تھا اس نے سب دوائیں کیں کچھ فائدہ نہ ہوا سب فقراء کو بڑا روپیہ دیا۔ کوئی فائدہ نہ ہوا۔ بالآخر ایک مسلمان فقیر سے رابطہ کیا گیا۔ انہیں روپے بھجوائے گئے۔ اور بلوایا گیا۔ لیکن انہوں نے روپے لینے سے انکار کر دیا اور جواب دیا دعا جیسی لدھیانہ میں ہوسکتی ہے ویسی کشمیر میں۔ دونوں جگہ کا خدا ایک ہے۔ ہاں ایک بات ہے اگر آپ کا رعایا سے اچھا سلوک نہیں تو اس کے افراد بددعائیں دے رہے ہوں گے۔ تو میں ایک دعا کرنے والا کیا کر سکتا ہوں۔ (حقائق الفرقان۔ جلد دوم صفحہ 508)

خلاصہ

حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ان جامع نکات کے ذریعہ دنیا کو سلامتی کے راستے کی طرف دعوت دی ہے۔ یہ دراصل اسلامی تعلیمات کا خلاصہ ہے۔ آپ نے ایک رنگ میں دریا کو کوزہ میں بند کر دیا ہے۔ مشہور مؤرخ ٹائن بی نے ایک بار لکھا تھا کہ تہذیب کی کشتی تاریخ کے سمندر میں پانچ یا چھ ہزار سال کا فاصلہ طے کر کے آئی اور اب چٹانوں کی طرف بڑھ رہی ہے۔ جس سے چکر کھا کر نکل آنا کشتی چلانے والے کے بس میں نہیں۔ (مطالعہ تاریخ، ٹائن بی)

پیارے امام حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اس کشتی کو چٹانوں سے بچانے کے لیے اسلامی تعلیمات کی روشنی میں آسمانی نوبت خانہ کے نقارے پر ضرب لگائی ہے تاکہ دنیا خوفناک تباہی سے بچ جائے۔

اپنے پیارے آقا کی اس تحریک پر لبیک کہتے ہوئے ہر ایک احمدی کا فرض ہے کہ آسمانی بادشاہت کے موسیقار کی حیثیت سے اپنے دل کا خون اس قرنا میں بھر کے اس نوبت کو اس زور سے بجائیں کہ دنیا کے کان پھٹ جائیں عرش کے پائے بھی لرز جائیں اور شہادت توحید کی وجہ سے خدا تعالیٰ زمین پر آجائے۔ اور پھر خدا تعالیٰ کی بادشاہت اس زمین پر قائم ہوجائے۔ جو حقیقی امن و سلامتی کی ضمانت ہے۔ جس کی معرفت کے بغیر تہذیبِ انسانی کی کشتی جو خوفناک چٹانوں کی طرف بڑھ رہی ہے بچ کر نکل نہیں سکتی۔ لیکن خدا کی معرفت خدا کے رسولﷺ پر ایمان اور اُس جاہ وجلال کے نبیﷺ کی شناخت کے بغیر ممکن نہیں۔ اللہ کرے جماعت احمدیہ کی یہ نوائے عاشقانہ جلد رنگ لائے اور

’’حاکم تمام دنیا پہ میرا مصطفیٰؐ ہو‘‘

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button