متفرق

خلافت احمدیہ امن عالم کی ضامن

(ابو حمدانؔ)

تاریخ احمدیت ایسے بے شمار واقعات اور کاوشوں سے بھری پڑی ہے جہاں خدا تعالیٰ کے قائم کردہ خلفاء نے اپنی بھرپور کوششوں سے، دعاؤں سےامّت مسلمہ اور عمومی انسانیت کے اتحاد اور امن کےلیے بھرپور جدوجہد کی ہے

سورة النور میں اللہ تعالیٰ نے جہاں مسلمانوں سے خلافت کا وعدہ فرمایا ہے وہیں وَلَیُبَدِّلَنَّہُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ خَوۡفِہِمۡ اَمۡنًامیں اس بات کی ضمانت بھی دی تھی کہ خدا کا یہ خلیفہ ہر خوف کی حالت کو امن میں تبدیل کرنے کےلیے کوشاں رہے گا۔ اور جب کبھی بھی امت مسلمہ پر خوف کے آثار نمایاں ہونے لگیں گے، خدا کا یہ فرستادہ خدائی فوج کی کمان سنبھالتا ہوا مسلمانوں کی راہنمائی کرے گا۔

خلافت احمدیہ پر ایک اجمالی نظر سے اس کا اندازہ بخوبی ہوجا تا ہے کہ کس طرح خدا کے مسیح کے یہ خلفاء اس کی مخلوق کی دادرسی اور حقوق کی بابت کہیں وہ کسی بادشاہ یا حاکم وقت کو راہنمائی فراہم کرتے دکھائی دیتے ہیں توکہیں پارلیمان میں خطاب کے ذریعہ اقوام عالم کو ظلم سے روکنے اور ہدایت کی طرف گامزن کرنے کےلیے کوشاں۔ کبھی اپنے خطبات میں مسلمانوں کو اصلاح اور آئندہ کے لائحہ عمل کی بابت آگاہی فراہم کرتے نظر آتے ہیں تو کہیں اپنے خطوط کے ذریعہ اسی امن کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے کےلیے کوشاں۔ الغرض ہر ایک موقع پر یہ سلسلہ جاری و ساری ہے۔ آئیے اسی سلسلہ کی چند جھلکیاں دیکھتے ہیں:

٭…دنیا بھر میں ہونے والی جنگوں اور ان کے بداثرات کی بابت آگاہ کرتے ہوئے برطانوی House of Commons سے مخاطب ہوتے ہوئے حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی نے فرمایا: ’’…گزشتہ چند صدیوں کی تاریخ کا غیر جانبدارانہ جائزہ لیں تو ہمیشہ یہ نظر آئے گا کہ اس دور میں جو جنگیں ہوئیں وہ درحقیقت مذہبی جنگیں نہیں تھیں بلکہ زیادہ تر جغرافیائی اور سیاسی نوعیت کی جنگیں تھیں۔ آج بھی اقوام عالَم کے مابین جو تنازعات موجود ہیں وہ دراصل سیاسی، علاقائی اور اقتصادی مفادات کی وجہ سے پیدا ہوئے ہیں اور حالات جو رُخ اختیار کررہے ہیں انہیں دیکھتے ہوئے مجھے ڈر ہے کہ مختلف ممالک کے سیاسی اور اقتصادی تغیرات ایک عالمی جنگ پر منتج ہوسکتے ہیں۔ ان حالات کے نتیجہ میں صرف امیر ممالک ہی نہیں بلکہ غریب ممالک بھی متأثر ہورہے ہیں اس لئے طاقتور ممالک پر ذمہ داری عاید ہوتی ہے کہ وہ مل بیٹھ کر انسانیت کو تباہی کے گڑھے میں گرنے سے بچانے کی کوشش کریں۔‘‘(خطاب فرمودہ 22؍اکتوبر2008ء)

٭…اسی طرح ایک اور موقع پر حکومت برطانیہ کو عالمی امن کی بحالی کی جانب راہنمائی کرتے ہوئے آپ نے برطانوی وزیراعظم کو اپنے ایک مکتوب میں فرمایا کہ’’…آپ کو توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ برطانیہ ایک ایسی عالمی طاقت ہے جو ترقی یافتہ ممالک کےساتھ ساتھ ترقی پذیر ممالک پر بھی اثر انداز ہوسکتی ہے اور ہوتی ہے۔ پس اگر آپ چاہیں توعدل وانصاف کےتقاضے پورے کر کے دنیا کی رہنمائی کرسکتے ہیں۔ لہذا برطانیہ اور دیگر عالمی طاقتوں کودنیا میں قیام امن کیلئے کلیدی کردار ادا کرنا چاہیئے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اوردیگر عالمی سربراہان کو یہ پیغام سمجھنے کی توفیق بخشے‘‘(عالمی بحران اور امن کی راہ صفحہ209)

دنیا بھر میں بالخصوص مسلمانوں پر ہونے والے مظالم اور عالمی تناظر میں بننے والے چند بڑے بڑے دھڑوں کو بھی آپ نے گاہے گاہے اپنے خطابات اور مکتوبات میں مخاطب کرتے ہوئے بارہا اس بات سے باور کروایا کہ جس تیزی سے دنیا تباہی کے دہانے کی طرف رواں ہے، عالمی لیڈران کو انتہائی سنجیدگی سے اس پہلو کو زیر غور لانا ہوگا۔ چنانچہ اسی بابت اسرائیل کے وزیر اعظم کو لکھے گئے ایک خط میں آپ نے فرمایا: ’’میری آپ سے درخواست ہے کہ دنیا کو جنگ کے دہانے پر پہنچانے کی بجائے اپنی انتہائی ممکن کوشش کریں کہ انسانیت عالمی تباہی سے محفوظ رہے۔ باہمی تنازعات کو طاقت کے استعمال سے حل کرنے کی بجائے گفت وشنید اور مذاکرات کا رستہ اپنائیں تاکہ ہم اپنی آئندہ نسلوں کو تاب ناک مستقبل مہیا کرسکیں نہ یہ کہ ہم انہیں معذوریوں کا تحفہ دینے والے ہوں ‘‘(عالمی بحران اور امن کی راہ صفحہ160)

٭…اسی طرح اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر کو بھی آپ نے اپنے ایک مکتوب میں یوں توجہ دلائی: ’’آج ہر طرف اضطراب اور بے چینی پھیلی ہوئی ہے، یعنی دنیا کے کچھ خطوں میں چھوٹے پیمانہ پر جنگیں شروع ہوچکی ہیں جبکہ بعض اور علاقوں میں عالمی طاقتیں قیام امن کے بہانہ سے مداخلت کررہی ہیں۔ آج دنیا کا ہر ملک یا توکسی دوسرے ملک کی دشمنی پر کمربستہ ہےیاکسی دوسرے ملک کا حمایتی بنا ہوا ہے لیکن انصاف کے بنیادی تقاضوں کو پورا کرنے کی طرف کوئی بھی متوجہ نہیں۔ عالمی حالات کو دیکھتے ہوئے نہایت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ایک اور عالمی جنگ کی بنیاد رکھی جاچکی ہے‘‘(عالمی بحران اور امن کی راہ صفحہ167)

٭…حضور انور نے نہ صرف ان کو اس تباہی کی بابت آگاہ فرمایا بلکہ اس کا حل بھی مہیا کیا اور سمجھانے کی کوشش کی کہ خدا را حکام اس معاملہ کی سنگینی کو بھانپیں۔ چنانچہ یورپی ممالک میں سے ایک سفیر نے جب حضور انور سے معاشرہ میں امن قائم کرنے کی بابت سوال پوچھا تو آپ نے فرمایا:’’ جب تک معاشرہ میں اور حکومتوں کی سطح پر رواداری اور بھائی چارہ نہ ہوتو امن قائم نہیں ہوسکتا۔ برداشت کا مادہ ہونا چاہیئے اور ڈبل سٹینڈرڈ نہیں ہونا چاہیئے انصاف ہونا چاہیئے اور ہر کسی کو اس کا حق ملنا چاہیئے’ نیز فرمایا ‘اس دنیا میں اگر زندہ رہنا ہے تو اپنے اندر برداشت کا مادہ پیدا کرنا ہوگا اپنے دل کو کھولیں اور ایک دوسرے سے محبت کریں ‘‘(الفضل انٹرنیشنل 30؍جون 2006ء)

٭…مسلمان ممالک کے سربراہان کو اپنی ذمہ داریاں سمجھنے کی بابت حضور انور نے فرمایا: ’’ اگر مسلمان ممالک کسی ملک میں ظلم ہوتا دیکھ رہے ہیں تو صحیح اسلامی طریق تو یہ ہے کہ اسلامی ممالک کی تنظیم بات چیت کے ذریعہ سے غیروں کو بیچ میں ڈالے بغیر امن اور عوام کے حقوق کی کوشش کرتی اور یہ کر سکتی تھی۔ اگر شام میں پہلے علوی سُنّیوں پر ظلم کر رہے تھے تو اب اُس کا الٹ ہو رہا ہے اور اس وجہ سے مسلمان ملکوں کے آپس میں دو بلاک بھی بن رہے ہیں جو خطے کے لئے خطرہ بن رہے ہیں۔ اب اگر عالمی جنگ ہوتی ہے تو اس کی ابتدا مشرقی ممالک سے ہی ہو گی جو گزشتہ جنگوں کی طرح یورپ سے نہیں ہو گی۔ پس مسلمان ملکوں کو اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنا چاہئے۔ کاش کہ یہ لوگ اور حکومتیں بھی اور علماء بھی اور سیاستدان بھی قرآنِ کریم کے اس حکم پر عمل کرنے والے ہوتے۔ جہاں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَۃٌ فَاَصْلِحُوْا بَیْنَ اَخَوَیْکُمْ وَاتَّقُوا اللّٰہَ لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَ۔ (الحجرات: 11)کہ مومن تو بھائی بھائی ہوتے ہیں۔ پس اپنے دو بھائیوں کے درمیان صلح کروایا کرو اور اللہ کا تقویٰ اختیار کرو تا کہ تم پر رحم کیا جائے‘‘

٭…مسلمانوں کی قسمت کا فیصلہ امام کے ہاتھ میں پنہاں ہے: ‘‘ یہ مسلمانوں کی یا نام نہاد مسلمانوں کی بدقسمتی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے تو حقیقی مسلمان کی نشانی یہ بتائی ہے کہ اللہ تعالیٰ سے تعلق کی وجہ سے اُس کا تعلق اللہ تعالیٰ کی مخلوق سے مضبوط ہوتا ہے اور پھر خاص طور پر مسلمان کے دوسرے مسلمان سے تعلق میں تو ایک خاص بھائی چارے کا بھی تعلق قائم ہو جاتا ہے۔ یہ بدقسمتی نہیں تو اور کیا ہے کہ جتنی توجہ نیک اعمال کرنے کی طرف اسلام نے دلائی ہے۔ امن، پیار اور محبت کے راستوں کی طرف چلنے کی توجہ اسلام نے دلائی ہے اتنے ہی مسلمان زیادہ بگڑ رہے ہیں۔ اتنے ہی زیادہ ان لوگوں میں ظالم پیدا ہو رہے ہیں۔ عیسائی ملکوں میں دیکھیں تو مسلمانوں کو ہی فتنے کا موجب ٹھہرایا جاتا ہے۔ اُن ملکوں کی جیلوں میں بھی کہا یہ جاتا ہے کہ آبادی کے لحاظ سے اگر نسبت دیکھیں تو مسلمان قیدی زیادہ ہیں۔ تو یہ مسلمانوں کی بگڑی ہوئی حالت ہی تھی جس کو سنوارنے کے لئے مسیح موعود نے آنا تھا اور آیا لیکن یہ کہتے ہیں کہ نہ ہمیں کسی مصلح کی ضرورت ہے اور نہ کسی مسیح کی ضرورت ہے۔ ہمارے لئے جو ہماری تعلیم ہے، یہی کافی ہے۔ اگر تعلیم کافی ہے تو علماء نے اپنے ذاتی اَناؤں اور مقاصد کے لئے یہ جو مختلف قسم کے گروہ بنائے ہوئے ہیں یہ کس لئے ہیں؟ ان کو صحیح اسلامی تعلیم پر کیوں نہیں چلاتے۔ کیوں اتنی زیادہ گروہ بندیاں ہیں اور ایک دوسرے کو پھاڑ ڈالنے پر تلے ہوئے ہیں …’’(خطبہ جمعہ فرمودہ یکم مارچ 2013ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل22؍مارچ2013ء)

٭…پھر افراد جماعت کو بھی اس امن کی راہ میں کوشش کرنے اور ذمہ داری کا احساس دلاتے ہوئے ایک جگہ آپ فرماتے ہیں: ’’ دنیا بڑی خوفناک تباہی کی طرف بڑی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ نہ مسلمانوں میں انصاف رہا ہے، نہ غیر مسلموں میں انصاف رہا ہے اور نہ صرف انصاف نہیں رہا بلکہ سب ظلموں کی انتہاؤں کو چھو رہے ہیں۔ پس ایسے وقت میں دنیا کی آنکھیں کھولنے اور ظلموں سے باز رہنے کی طرف توجہ دلا کر تباہی کے گڑھے میں گرنے سے بچانے کا کردار صرف جماعت احمدیہ ہی ادا کر سکتی ہے۔ اس کے لئے جہاں ہم میں سے ہر ایک کو اپنے اپنے دائرے میں عملی کوشش کرنی چاہئے، وہاں عملی کوشش کے ساتھ ہمیں دعاؤں کی طرف بھی بہت توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ مسلمان ممالک کی ناانصافیوں اور شامتِ اعمال نے جہاں اُن کو اندرونی فسادوں میں مبتلا کیا ہوا ہے وہاں بیرونی خطرے بھی بہت تیزی سے اُن پر منڈلا رہے ہیں بلکہ اُن کے دروازوں تک پہنچ چکے ہیں۔ بظاہر لگتا ہے کہ بڑی جنگ منہ پھاڑے کھڑی ہے اور دنیا اگر اُس کے نتائج سے بے خبر نہیں تو لاپرواہ ضرور ہے۔ پس ایسے میں غلامانِ مسیح محمدی کو اپنا کردار ادا کرتے ہوئے دنیا کو تباہی سے بچانے کے لئے دعاؤں کا حق ادا کرنے کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کا حق ادا کرنے والا بنائے اور دنیا کو تباہی سے بچا لے۔ ‘‘(الفضل انٹرنیشنل17؍مئی2013ء)

٭…1991ء میں جب خلیج میں شدید بحران اٹھا اور مختلف طاقتوں نے خلیجی ریاستوں پر دھاوا بولا تو حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ نے اس ساری صورت حال کی بابت مسلمانوں کو ایک نصیحت کرتے ہوئے فرمایا: ’’پس خلیج کی جنگ کےاس دردناک واقعہ میں ہمارے لئے بہت گہرے سبق ہیں اور سب سے بڑا سبق یہ ہے کہ مسلمانوں کواپنے اعلی پائیدار اورناقابل تسخیر اصولوں کی طرف لازماً لوٹنا ہوگا۔ اگر وہ ایسا نہیں کریں گے تو ان کے حق میں یہ وعدہ پورا نہیں ہوگا کہ ارض کے اوپر خدا کے پاک بندون کی حکومت لکھی جاچکی ہے۔ الارض یعنی فلسطین کی زمین ہو یا ساری دنیا مراد ہو جب تک عبادالصٰلحین نہیں پیدا ہوتے اور قرآن کریم کے پاکیزہ ہمیشہ زندہ رہنے والے، ہمیشہ غالب آنے والا اصولوں پر عمل نہیں کرتے اس وقت تک ان کے مقدر میں کوئی دنیاوی فتح بھی نہیں لکھی جائے گی۔ پس مسلمانوں کے دلوں پر جو ظلم ظلم کی آری چلائی جارہی ہے اور یہ کہا جارہا ہے کہ گویا حق اتحادیوں کے ساتھ تھا اور حق کو جھوٹ اورباطل پر فتح ہوئی ہے یہ ہرگز درست نہیں۔ ‘‘(خلیج کا بحران صفحہ 296تا297)

٭…1967ء میں اسرائیل نے قاہرہ اور بعض دیگر اسلامی شہروں پر فضائی حملہ کیا، جس کے نتیجے میں عرب اور اسرائیل جنگ شروع ہوگئی۔ چنانچہ مسلمان ممالک کو اس آفت میں دیکھ کر حضرت خلیفة المسیح الثالثؒ نے خصوصی طور پر دعائیہ تحریک کا اعلان کرتے ہوئے فرمایا: ’’ اللہ تعالیٰ الحَیُّ القیوم ہے اور اس نے انسانی زندگی اوراس کی بقاکےلئے بےشمار سامان پیدا کئے ہیں۔ اس لئے جان بوجھ کر خود کو ہلاکت میں ڈالنا اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں اور اس کی نگاہ میں ناجائز ہے۔ اس وقت مشرق وسطیٰ کے مسلمان خود حفاظتی میںلڑائی لڑنے پر مجبور ہوئے ہیں۔ جان اورمال کی حفاظت کےلئے اسلام میں جنگ کرنا ضروری ہے۔ اگرچہ یہ خالص دینی جنگ تو نہیں مگر خود حفاظتی کی جنگ بھی اسلام میں جہاد ہی ہے۔ پس ضروری ہے کہ ہم بہت دعا کریں اور بہت دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کی مدد فرمائے۔ مجھے تو اس فکر میں رات کو نیند بھی ٹھیک طرح نہیں آئی۔ اور قریباً ساری رات ہی دعا میں گزری…بےشک اللہ تعالیٰ نے یورپین اقوام کو بہت طاقت دی ہوئی ہے لیکن اسے یہ طاقت بھی ہے کہ وہ ان کو اس طاقت کے غلط استعمال سے روک دے۔ اس لئے ہمیں چاہیے کہ بہت بہت دعا سے کام لیں۔‘‘(الفضل 8؍جون 1967ء)

اسی جنگ کے دوران صدر پاکستان ایوب خان نے عرب ممالک کی امداد کےلیے ایک ریلیف فنڈ قائم کیا۔ چنانچہ حضورؒ نے احباب جماعت کو اس فنڈ میں بڑھ چڑھ کر شامل ہونے کی ہدایت دیتے ہوئے فرمایا: ’’آزمائش کی اس گھڑ ی میں صدر پاکستان فیلڈ مارشل محمد ایوب خان نے ‘‘پریذیڈنٹس عرب وار ریلیف فنڈ‘‘… کے نام سے ایک امدادی فنڈ قائم کیا ہے۔ اس فنڈ کا مقصد یہ ہے کہ … عرب بھائیوں کی مؤثر طریق پر مدد کی جائے…میں احباب جماعت سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ صدر مملکت کے قائم کردہ امدادی فنڈ میں دل کھول کر حصہ لیں اور فوری طور پر زیادہ سے زیادہ امدادی رقوم مقررہ بنکوں اور ڈاکخانوں میں جمع کرائیں۔ میں امید رکھتا ہوں کہ احباب زیادہ سے زیادہ امدادی قربانی سے کام لیں گے۔ جزاھم اللہ۔ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے احباب کو اس کی توفیق عطا فرمائے اور اس نازک گھڑی میں مسلمانوں کی مدد فرما کر اس ظلم کا مداوا فرمائے جو ان کے خلاف روا رکھا گیا ہے اور اسلام کو ارضِ فلسطین میں از سرِ نو سربلند اور غالب فرمائے۔ آمین اللّٰھم آمین‘‘(الفضل 8؍جون 1967ء)

چنانچہ یہ فنڈ کی رقم جمع کر کے صدر پاکستان کو بھجوائی گئی جس پر صدر پاکستان کی ہدایت پر ڈپٹی سیکرٹری (اے-وحید) نے فنڈ وصولی اور شکریہ کا خط بھی بھیجا۔

٭…پھر خدا کے اس فرستادے کا اس کی مخلوق کےلیے درد اور فکرمندی کا اظہار مسجد نصرت جہاں کوپن ہیگن کے افتتاح کے موقع پر کیے گئے خطاب سے بھی واضح ہوتا ہے۔ چنانچہ آپؒ نے فرمایا: ’’اے ہمارے آقا اور ہمارے رب ! اپنے اس گھر کو امن اور حفاظت کا گھر بنادے۔ اس میں نماز ادا کرنے والوں کو توفیق عطا فرما کہ وہ غلط فہمیوں اور شرارتوں کےبادلوں کو اس دنیا سے چھانٹ کررکھ دیں۔ اے خدا ایسا کر کہ تما م انسان ایک دفعہ پھر آپس میں بھائی بھائی بن جائیں۔ اور ایسا ہو کہ تمام بنی نوع انسان تیری حفظ وامان کے خوشگوار سائے کے نیچے پناہ لیں اور تیرا نور ہر دل میں چمکے اور سب دل تیرے محبوب اور انسانیت کے محسن اعظم محمدﷺ کےعشق سے لبریز ہوجائیں۔‘‘(الفضل11؍اگست1967ءصفحہ3تا5)

٭…اسی دورے سے واپسی پر حضورؒ نے اتحاد بین المسلمین کی ایک اور کوشش کی اور یہ تجویز دی کہ تمام فرقے کچھ عرصے کےلیے اپنے اندرونی اختلافات کو پس پشت ڈالتے ہوئے محض اسلام کی تبلیغ اور تشہیر کےلیے مل کر کوشش کریں۔ چنانچہ حضورؒ کی اس تحریک کو کئی اخبارات نے بھی شائع کیا۔ جنگ اخبار نے اپنی 23؍اگست 1967ء کی اشاعت میں لکھا: ’’احمدیہ فرقہ کے سربراہ مرزا ناصر احمد نے تجویز پیش کی ہے کہ مسلمانوں کے مختلف فرقوں کوسات سال کی مدت کےلئے یہ طے کرلینا چاہیے کہ وہ آپس کےاختلافات بھلا کر د نیا میں اسلام کی تبلیغ کے لئے سر توڑ کوشش کریں گے اور عبوری دور میں ایک دوسرے پر کسی قسم کی نکتہ چینی نہیں کریں گے‘‘

اسی طرح راولپنڈی کے ’’تعمیر‘‘ اخبار نے اپنی 23؍اگست 1967ء کی اشاعت میں لکھا کہ احمدی فرقہ کے سربراہ مرزا ناصر احمد نے دنیا کے مسلمانوں سے اپیل کی ہے کہ وہ بنی نوع انسان کی بہبود کےلئے متحد ہوکر کام کریں … انہوں نے کہا کہ مسلمان ایک انتہائی نازک دور سے گزر رہے ہیں اب وقت ہے کہ متحد ہوکر اس چیلنج کا مقابلہ کیا جائے۔ احمدیہ فرقہ کے سربراہ نے تجویز کیا کہ پاکستان کے مختلف فرقوں کا ایک مشترکہ اجلاس بلانا چاہیے تاکہ مسلمانوں کی ترقی کےلئے کوئی مشترکہ پروگرام تیار کیاجاسکے۔ (ماخوذ ازتاریخ احمدیت جلد24صفحہ157)

٭…برصغیر میں جب انگریزوں نے مسلمانوں اور ہندوؤں میں حکومت منتقل کرنے کا سوچا، اس وقت مسلمانو ں کی حالت انتہائی قابل رحم تھی۔ جس کا اندازہ اس وقت کے بےشمار اخبارات کا احوال پڑھنے سے بھی بخوبی ہوجاتا ہے۔ مسلمانان ہند اپنے حقوق کےلیے بے حد پریشان اور مستقبل کی بابت ایک سوالیہ نشان لیے ہوئے تھے۔ اندریں حالات حضرت مصلح موعودؓ نے ہندو لیڈران کو ایک تفصیلی مکتوب بنام ہندو لیڈروں سے اپیل بھجوایا۔ جس میں مسلمانوں کو ان کے حقوق مہیا کرنے کےلیے اپیل کی۔ جو ذیل میں مکمل درج کیا جاتا ہے۔ (اصل مکتوب بزبان انگریزی بھجوایا گیا تھا۔ یہاں اس کا اردو ترجمہ از الفضل درج ہے)

’’حضرت امام جماعت احمدیہ کی ہندو لیڈروں سے اپیل

اب جبکہ انڈین نیشنل کانگریس کا سالانہ اجلاس لاہور میں منعقد ہونےوالا ہے۔ اور ہندوستان کے مستقبل کے متعلق اہم سیاسی امور پر مختلف اقوام کے لیڈر غور کرنے والے ہیں۔ میں بحیثیت ایک مخلص اور محب وطن شہری کے اپنا فرض سمجھتا ہوں کہ اپنے اور اپنی جماعت کے خیالات کا مختصراً اظہار کردوں۔ یہ امر مسلّمہ ہے کہ اس وقت نہایت نازک اور عملی سوال ملک کے سامنے

فرقہ وارانہ سوال ہے۔ جو آج تک حل نہیں ہو سکا۔ اور جب تک یہ سوال قابل اطمینان طریق پر حل نہیں ہوگا۔ ہندوستان میں حقیقی امن و امان کبھی قائم نہیں ہوگا۔ اور نہ ہی ہندوستان کے آئندہ نظام حکومت کے متعلق کوئی فیصلہ ہو سکےگا۔ ہندوؤں کی طرف سے مسلمان رہنماؤں پر اکثر یہ الزام لگایا گیا ہے۔ کہ وہ فرقہ وارانہ سوال پیدا کرتے اور سیاسی معاملات کو فرقہ پرستی کے اصول کے ماتحت دیکھنے کے عادی ہیں۔ اور میں تسلیم کرتا ہوں۔ کہ یہ صحیح ہے۔ لیکن سوال یہ ہے۔ کیا وہ قوم جو

مایوس کن اقلیت میں ہو۔ اس کے سوا بھی کچھ کر سکتی ہے۔ حفاظت خود انسان کا ایک طبعی خاصہ ہے۔ اور کوئی ہوشمند انسان اس جذبہ سے عاری نہیں ہوسکتا۔ اور جو حالت افراد کی ہوتی ہے۔ وہی اقوام کی بھی ہوتی ہے۔ یہ ہر قوم کا

پیدائشی حق ہے۔ کہ وہ اپنی حفاظت کرے۔ اور اس لئے اگر ہندوستانی مسلمان اپنے حقوق کی حفاظت کا انتظام کرتے ہیں۔ تو ملک سے غداری کا الزام ان پر کسی طرح بھی عائد نہیں کیا جاسکتا۔ اور نہ ہی اس ضمن میں ان کی کوششوں کو قومی سپرٹ کے منافی قراردیاجاسکتا ہے۔ بایں ہمہ اگر ہندو مسلمانوں پر ضرور فرقہ پرستی کا الزام لگانا چاہیں۔ تو خود ان کی اپنی ذہنیت ایسی ہے۔ کہ اسے فرقہ پرستی کے سوا کوئی دوسرا نام نہیں دیا جاسکتا جسے وہ قومی سپرٹ کے دلفریب نام کے نیچے چھپانا چاہتے ہیں۔ ہندو چونکہ اکثریت میں ہیں۔ اس لئے وہ جو امور بھی ملکی مفاد کی خاطر اختیار کرنا چاہتے ہیں۔ ان میں بالواسطہ خود ان کی قوم کی ہی بھلائی ہے۔ اور اس لئے وہ اپنے ذاتی مفاد کو

قومیّت کے پردہ میں بآسانی چھپاسکتے ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے مسلمان ایسا نہیں کرسکتے۔ یا زیادہ واضح الفاظ میں یوں کہا جاسکتا ہے کہ ہندو قوم پرست ہو کر اور ایسے ذرائع اختیار کر کے بھی جوعام فلاح و بہبودئ ملک سے تعلق رکھتے ہوں۔ اپنے جماعتی مفاد کے لئے بہت کچھ کرسکتا ہے۔ اور اس طرح حقیقتاً فرقہ پرست ہونےکے باوجود وہ اپنے آپ کو قوم پرست کی حیثیت سے دنیا کےسامنے پیش کرسکتا ہے لیکن ایک مسلم کےلئے ناممکن ہے۔ کہ وہ واضح اور نمایاں طور پر فرقہ وارانہ سوال اٹھائے بغیر اپنے

جماعتی حقوق کا تحفظ کر سکے۔ اندرین حالات ہندوؤں کےلئے یہ نہایت ہی ناموزوں ہےکہ وہ اپنے برادران وطن پر فرقہ پرستی کا الزام لگائیں۔ میں

ہندو رہنماؤں کی دیانتداری پر حرف گیری نہیں کرنا چاہتا۔ ممکن ہے وہ فریب خوردہ ہوں۔ یا انہوں نے کبھی اس بات پر غور ہی نہ کیا ہو۔ اور حقیقت کو بے نقاب ہونے کا موقعہ ہی بہم نہ پہنچایا ہو۔ لیکن یہ ایک تلخ حقیقت ہےکہ مسلمانوں پر بلا وجہ فرقہ پرستی کا الزام دیا جاتا ہے۔ ہندوؤں کو یہ امر کبھی بھی فراموش نہیں کرنا چاہئے کہ ملک میں غالب اکثریت ہونے کی وجہ سے یہ انکا اخلاقی فرض ہے کہ

اقلیتوں کیلئے قربانی کریں۔ اور اگر بفرض محال ہندو مسلمانوں کی خاطر کوئی قربانی نہ بھی کرنا چاہیں۔ تو کم ازکم ان کے حقوق انہیں دینے میں تو انہیں کوئی تامل نہیں ہونا چاہئے۔ اس میں شبہ نہیں کہ اس وقت مسلمان کمزور اور غیر منظم ہیں لیکن اتفاق اورطاقت ان کے اندر ضرور پیدا ہوگی۔ اور اس امر کے آثار ابھی سے نظر آرہے ہیں کہ ملکی انقلابات مسلمانوں میں ضرورایسے لیڈر پیدا کردیں گے۔ جو ان میں یک جہتی اور قوت پیدا کرسکیں۔ کسی قوم کے مستقبل کو فراموش کرکے اس کی موجودہ حالت پر ہی اس کا قیاس کرلینا

سیاست دانی کے خلاف ہے۔ اگر ہندو مسلمانوں کے مطالبات منظور کرلیں تو ان کے اپنے حقوق کےلئے اس میں کوئی خطرہ کی بات نہیں۔ مسلمانوں کو خواہ کتنے بھی حقوق حاصل ہوجائیں۔ وہ ہندوؤں کو ان کی اکثریت سے محروم نہیں کرسکتے۔ اور جب تک کہ ہندو اکثریت میں ہیں ان کے حقوق کلیۃً محفوظ ہیں۔ پس میں تمام محبان وطن اور سنجیدہ مزاج ہندو لیڈروں سے اپیل کرتا ہوں۔ کہ وہ:

مسلمانوں کے مطالبات منظور کرلیں۔ کیونکہ اسی میں ملک کی بہتری ہے۔ اگر ہندو مسلمانوں کو ان کے واجبی حقوق نہ دیں گے تو وہ کبھی بھی حقیقی ملکی ترقی کے متمنی نہیں سمجھے جاسکتے۔ مسلمان نیشنل سپرٹ کا اس وقت تک ثبوت نہیں دے سکتے۔ جب تک کہ وہ ملک میں اپنے آپ کو محفوظ نہ سمجھیں۔ اوریہ اسی طرح ہوسکتا ہے۔ کہ انہیں ان کے حقوق جن کا مختصر خاکہ یہ ہے۔ دید ئیے جائیں:

1) سندھ کو بمبئی سے علیحدہ کرکے ایک مستقل صوبہ بنادیا جائے۔ جغرافیائی۔ تاریخی۔ زبانی۔ اور تمدنی حالات سندھ کی علیحدگی کے متقاضی ہیں۔

2) صوبہ سرحد میں اصلاحات کا نفاذ کیا جائے۔

3) بنگال۔ پنجاب۔ سندھ۔ صوبہ سرحد میں مسلمانوں کو ان کی تعداد کے تناسب سے پورے پورے حقوق دئیے جائیں۔

4) صوبہ جات کو کامل خود اختیاری دی جائے تاکہ کم ازکم ان صوبوں میں جہاں مسلمانوں کی کثرت ہے۔ ان کے حقوق محفوظ رہ سکیں۔

5) موجودہ جداگانہ انتخاب کا طریق بر قرار رکھا جائے۔ تا مسلمانوں میں اپنے محفوظ ہونے کا احساس پیدا ہوسکے۔ اگر ضروری ہو تو اس سسٹم کو تبدیل کرکے نشستوں کی تخصیص کے ساتھ مخلوط انتخاب بھی اندازاً پندرہ سال کے بعد جاری کیا جاسکتا ہے۔ اور اس عرصہ میں امید ہےکہ مسلمان اپنی کمی کسی حد تک پوری کر سکیں گے۔ اقوام کی تاریخ میں پندرہ سال کا عرصہ کچھ زیادہ نہیں ہے۔

6) مسلمانوں کو ملازمتوں وغیرہ میں واجبی حقوق دئیے جائیں۔ اور ناقابلیت کے موہوم عذر کے ذریعہ ان کے واجبی حقوق کو دبانے کی کوشش نہیں کی جانی چاہئے۔ اس مطالبہ سے مسلمانوں کا یہ منشاء نہیں کہ ناقابل آدمیوں کو ملازم رکھاجائے۔ بلکہ یہ کہ قابل اور لائق مسلمانوں کو ملازمتوں میں اپنے حقوق حاصل کرنے کا پورا پورا موقعہ بہم پہونچا یا جائے۔

یہ ہیں مختصراً مسلمانوں کے مطالبات۔ اور وہ امید کرتے ہیں کہ ملکی مفاد کو مدنظر رکھتے ہوئے ان کے ہندو بھائی ان کو منظور کرنے میں تامل نہیں کریں گے۔ اور ایسا کرنے سے ان کی پوزیشن ہر گز کمزور نہیں ہوگی۔ بلکہ وہ سوراج کے بہت زیادہ نزدیک ہوجائیں گے جس کے حصول کی انہیں اور تمام محبان وطن کو دلی آرزو ہے۔ ہندو چونکہ تعداد، تعلیم اور دولت میں مسلمانوں سے بہت بڑھے ہوئے ہیں۔ اس لئے ملک کے اندر ان کی آواز بہرحال مؤثر گی۔ مسلمانوں کا مقصد صرف اس قدر ہے کہ وہ ملکی مفاد کی خاطرآئندہ مصائب کا اطمینان او رمحفوظ ہونےکے احساس کے ساتھ مقابلہ کرنےکے قابل ہو سکیں۔ ہر اکثریت کا اخلاقی فرض ہےکہ وہ نہ صرف اقلیتوں کے حقوق کی حفاظت کرے بلکہ انہیں ہر طرح مطمئن کرنےکی کوشش کرے۔ مسلمان حب وطن اور اس کے استخلاص میں جدوجہد کےلحاظ سے برادران وطن سے کسی طرح بھی پیچھے نہیں۔ لیکن اقلیت میں ہونےکی وجہ سے وہ ملک کے آئندہ نظام میں اپنی پوزیشن کےمتعلق طبعاً مشو ّش ہیں۔ اگر ہندو رہنما اپنے اندر تھوڑی سی تبدیلی پیدا کرلیں۔ اور مسلمانوں کو اپنے حقوق کے تحفظ کےلئے انتظامات کرلینے دیں۔ تو عنقریب دونوں اقوام کے دل آپس میں متحد ہوجائیں۔ اور ہندوستان متمدن ممالک میں اپنی جگہ حاصل کرسکتا ہے۔ ‘‘(الفضل قادیان دارالامان۔ 10؍جنوری۔ نمبر54جلد17)

بر صغیر میں جمعہ کی چھٹی کی بحالی کے لیے کوشش

٭…برصغیر میں انگریز حکومت کی آمد کے ساتھ ہفتہ وار اتوار کی چھٹی رائج کی گئی تھی۔ اس بات کااحساس رکھتے ہوئے کہ مسلمانوں کے لیے جمعة المبارک کا دن انتہائی اہمیت کا حامل ہےاور عبادات و دیگر اہم امور کی ادائیگی کےلیے وقت درکار ہوتا ہے۔ حضرت اقدس مسیح موعودؑ نے بھی 1896ء میں حکومت ہند(وائسرائے) کو ایک میموریل کے ذریعہ اس امر کی طرف توجہ دلانا چاہی، البتہ مولوی محمد حسین بٹالوی کی غفلت اور غیر سنجیدگی کی وجہ سے یہ نہ ہوسکا۔

حضرت خلیفة المسیح الاوّلؓ نے جولائی 1911ء میں وائسرائے کی تاجپوشی کی تقریب کو بہترین موقع گردانتے ہوئے مسلمانوں کی جمعہ کی چھٹی بحال کرنے کےلیے بھی ایک میموریل بھجوایا۔ چنانچہ حضورؓ نے اس میموریل سے پہلے تمام مسلمان لیڈرز کو ایک مکتوب میں اس بابت جہاں آگاہ کیا وہیں اس بات کا بھی بلا تردد اظہار کیا اور یہ دعوت دی کہ ’’ یہ غرض نہیں کہ ہم ہی اس کو پیش کرنے والے ہوں۔ چونکہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے دل میں یہ تحریک ڈالی ہے اس لئے ہم نے اسے پیش کردیا ہے اگر کوئی انجمن یا جماعت ایسی ہو جو صرف اس وجہ سے اس کے ساتھ اتفاق نہ کرے کہ یہ میموریل ہماری طرف سے کیوں پیش ہوتا ہے تو ہم بڑی خوشی سے اپنے میموریل کو گورنمنٹ کی خدمت میں نہیں بھیجیں گے بشرطیکہ اس کے بھیجنے کا کوئی مناسب انتظام کرلیا جائے‘‘(تاریخ احمدیت جلد 3 صفحہ 379)

تاریخ احمدیت ایسے بے شمار واقعات اور کاوشوں سے بھری پڑی ہے جہاں خدا تعالیٰ کے قائم کردہ خلفاء نے اپنی بھرپور کوششوں سے، دعاؤں سے امت مسلمہ اور عمومی انسانیت کے اتحاد اور امن کےلیے بھرپور جدوجہد کی ہے۔ اللہ کرے کہ تمام دنیا اور بالخصوص مسلمان اپنے مقام کو گرادنیں اور خدا کے بھیجے ہوئے کو پہچاننے میں اب مزید دیر نہ کریں تا عافیت کا یہ حصار ان کو شش جہت سے ڈھانپ لے اور دائمی نجات کا موجب ہوسکے۔ انشاء اللہ

صدق سے میری طرف آؤ اسی میں خیر ہے

ہیں درندے ہر طرف مَیں عافیت کا ہوں حصار

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button