خطبہ جمعہ

خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزفرمودہ 13؍مئی 2022ء

مَیں اس تلوار کو جسے اللہ نے کفار کے لیے نیام سے نکالا ہے پھر نیام میں نہیں رکھوں گا۔ (حضرت ابوبکر صدیقؓ)

آنحضرتﷺ کے عظیم المرتبت خلیفہ ٔراشد صدیقِ اکبرحضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے کمالات اور مناقبِ عالیہ

سجاح بنت حارث اور مالک بن نُوَیْرَہکے خلاف کی جانے والی مہمات کا تفصیلی تذکرہ

خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزفرمودہ 13؍مئی 2022ء بمطابق 13؍ہجرت 1401 ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ (سرے)، یو کے

أَشْھَدُ أَنْ لَّٓا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔

أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾

اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِؕ﴿۴﴾ إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُؕ﴿۵﴾

اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور کے جو فتنے تھے ان کے خلاف جو مہمات ہوئیں ان کا ذکر ہو رہا تھا۔ اس ضمن میں

حضرت خالد بن ولیدؓ کی بُطَاحْ کے علاقہ کی جانب،مالک بن نُوَیْرَہکی طرف پیش قدمی کی تفصیل

یوں بیان ہوئی ہے۔ بُطَاحْ بنو اسد کے علاقے میں ایک چشمہ کا نام ہے۔ مالک بن نُوَیْرَہکا تعلق بنو تمیم کی ایک شاخ بنو یربوع سے تھا۔ اس نے 9؍ہجری میں اپنی قوم کے ساتھ مدینہ آ کر اسلام قبول کیا۔ مالک بن نُوَیْرَہ اپنی قوم کے سرداروں میں سے ایک تھا۔ عرب کے مشہور بہادر اور شہسواروں میں اس کا شمار ہوتا تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو اپنے قبیلہ کی زکوٰۃ کے اموال وصول کرنے اور جمع کرنے کی ڈیوٹی سپرد کرتے ہوئے عاملِ زکوٰۃ کے عہدے پر مقرر کیا تھا لیکن جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی اور عرب میں ارتداد اور بغاوت کی لہر اٹھی تو مالک بن نُوَیْرَہبھی مرتد ہونے والوں میں سے ایک تھا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کی خبر اس کو پہنچی تو اس نے خوشی اور مسرت کا جشن منایا۔ اس کے گھر کی عورتوں نے مہندی لگائی، ڈھول بجائے اور خوب فرحت و شادمانی کا اظہار کیا اور اپنے قبیلے کے ان مسلمانوں کو قتل کیا جو زکوٰۃ کی فرضیت کے قائل ہونے کے ساتھ ساتھ زکوٰۃ کی رقم کو مسلمانوں کے مرکز یعنی مدینہ میں بھجوانے کے بھی قائل تھے۔ پس

یہ بھی بات یاد رکھنے والی ہے کہ ہر ایک شخص جس کو سزا دی گئی یا جس کے خلاف سختی کے اقدام کیے گئے اس نے مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی تھی صرف یہی نہیں کہ مرتد ہو گئے تھے۔

بہرحال اس ضمن میں مزید ہے کہ اس نے ایک طرف تو زکوٰۃ دینے سے انکار کیا اور زکوٰۃ کے جمع شدہ اموال اپنی قوم کے لوگوں کو واپس کر دیے اور دوسری طرف نبوت کا جھوٹا دعویٰ کرنے والی باغیہ سَجَاحْ بنت حارث کے ساتھ شامل ہو گیا جو کہ ایک بہت بڑا لشکر لے کر مدینہ پر حملہ کرنے کے لیے آئی تھی۔

(الاصابہ فی تمییز الصحابہ جلد5صفحہ 560دارالکتب العلمیۃ بیروت)

(سیرت سیدنا صدیق ابوبکرؓ از ابو النصر مترجم صفحہ 598، 713مشتاق بک کارنر لاہور)

(فرہنگ سیرت صفحہ63 زوار اکیڈیمی کراچی)

(معجم البلدان جلد1 صفحہ527)

سَجَاحْ کا تعارف

یہ ہے کہ سَجَاحْ بنت حارث اس کا نام تھا۔ ام صَادِرْ کنیت تھی۔ عرب کی ایک کاہنہ تھی اور ان چند مدعیانِ نبوت اور باغی قبائلی سرداروں میں سے تھی جو عرب میں ارتداد سے تھوڑی مدت پہلے یا اس کے دوران نمودار ہوئے تھے۔ سَجَاحْقبیلہ بنو تمیم سے تعلق رکھتی تھی اور ماں کی جانب سے اس کا نسب قبیلہ بنوتَغْلَب سے جا ملتا تھا جو اکثر مسیحی تھے۔ سَجَاحْخود بھی مسیحی تھی اور اپنے مسیحی قبیلہ اور خاندان کی بنا پر مسیحیت کی اچھی خاصی عالم عورت تھی۔ یہ عراق سے مریدوں کے ساتھ آئی تھی اور مدینہ پر حملہ کا ارادہ رکھتی تھی۔ بعض مؤرخین کا کہنا ہے کہ سَجَاحْ ایرانیوں کی سازش کے تحت عرب میں داخل ہوئی تھی تا کہ حالات کو دیکھ کر ایرانی حکومت کے زوال پذیر اقتدار کو تھوڑا سنبھالا دیا جا سکے۔ بہرحال سَجَاحْان عوامل سے متاثر ہو کر جزیرۂ عرب میں داخل ہوئی۔ یہ طبعی امر تھا کہ وہ سب سے پہلے اپنی قوم بنو تمیم میں پہنچی۔ ایک گروہ زکوٰۃ ادا کرنے اور خلیفہ رسول اللہ کی اطاعت کرنے پر آمادہ تھا لیکن اس قبیلہ کا دوسرا فریق اس کی مخالفت کر رہا تھا۔ ایک تیسرا فریق بھی تھا جس کی سمجھ میں نہ آتا تھا کہ کیا کرے اور کیا نہ کرے۔ بہرحال اس اختلاف نے اتنی شدت اختیار کی کہ بنو تمیم نے آپس ہی میں لڑنا اور جدال اور قتال شروع کر دیا۔ اسی اثنا میں ان قبائل نے سَجَاحْکے آنے کی خبر سنی اور انہیں یہ بھی معلوم ہوا کہ سَجَاحْمدینہ پہنچ کر ابوبکرؓ کی فوجوں سے جنگ کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ پھر تو اختلاف نے مزید وسعت اختیار کر لی۔ سَجَاحْاس ارادے سے بڑھی چلی آ رہی تھی کہ وہ اپنے عظیم الشان لشکر کے ہمراہ اچانک بنوتمیم میں پہنچ جائے گی اور اپنی نبوت کا اعلان کر کے انہیں اپنے آپ پر ایمان لانے کی دعوت دے گی۔ سارا قبیلہ بالاتفاق اس کے ساتھ ہو جائے گا اور عُیَینہ کی طرح بنو تمیم بھی اس کے متعلق یہ کہنا شروع کر دیں گے کہ بنویَرْبُوعکی نَبِیَّہقریش کے نبی سے بہتر ہے کیونکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم وفات پا گئے ہیں اور سَجَاحْزندہ ہے۔ اس کے بعد وہ بنو تمیم کو ہمراہ لے کر مدینہ کی طرف کُوچ کرے گی، یہ اس کا پلان تھا، اور ابوبکرؓ کے لشکر سے مقابلہ کے بعد فتح یاب ہو کر مدینہ پر قابض ہو جائے گی۔ بہرحال سَجَاحْ اور مالک بن نُوَیْرَہکا آپس میں رابطہ بھی ہوا۔ سَجَاحْاپنے لشکر کے ہمراہ جب بنو یربوع کی حدود پر پہنچ گئی تو وہاں ٹھہر گئی اور قبیلہ کے سردار مالک بن نُوَیْرَہ کو بلا کر مصالحت کرنے اور مدینہ پر حملہ کرنے کی غرض سے اپنے ساتھ چلنے کی دعوت دی۔ مالک نے صلح کی دعوت تو قبول کر لی لیکن اس نے اسے مدینہ پر چڑھائی کے ارادے سے باز رہنے کا مشورہ دیا اور کہا کہ مدینہ پہنچ کر ابوبکر کی فوجوں کا مقابلہ کرنے سے بہتر یہ ہے کہ پہلے اپنے قبیلہ کے مخالف عنصر کا صفایا کر دیا جائے۔ سَجَاحْ کو بھی یہ بات پسند آئی اور اس نے کہا کہ جو تمہاری مرضی ہے۔ میں تو بنویربوع کی ایک عورت ہوں جو تم کہو گے وہی کروں گی۔ سَجَاحْنے مالک کے علاوہ بنو تمیم کے دوسرے سرداروں کو بھی مصالحت کی دعوت دی لیکن وَکِیع کے سوا کسی نے یہ دعوت قبول نہیں کی۔ اس پر سَجَاحْنے مالک، وَکِیعاور اپنے لشکر کے ہمراہ دوسرے سرداروں پر دھاوا بول دیا۔ گھمسان کی جنگ ہوئی جس میں جانبین کی کثیر تعداد، آدمی قتل ہوئے اور ایک ہی قبیلے کے لوگوں نے ایک دوسرے کو گرفتار کر لیا لیکن کچھ ہی عرصہ کے بعد مالک اور وکیع نے یہ محسوس کیا کہ انہوں نے اس عورت کی اتباع کر کے سخت غلطی کی ہے۔ اس پر انہوں نے دوسرے سرداروں سے مصالحت کر لی اور ایک دوسرے کے قیدی واپس کر دیے۔ اس طرح قبیلہ تمیم میں امن قائم ہو گیا۔ اب یہاں سَجَاحْنے جب دیکھا کہ اس کی دال گلنی مشکل ہے، جو مقصد لے کے آئی تھی وہ پورا نہیں ہو سکتا تو اس نے بنو تمیم سے بوریا بستر اٹھایا اور مدینہ کی جانب کوچ کر دیا۔ نِبَاجْکی بستی میں پہنچ کر اَوس بن خُزَیمہ سے اس کی مڈھ بھیڑ ہوئی جس میں سَجَاحْنے شکست کھائی اور اوس بن خزیمہ نے اس طرح پر اسے واپس جانے دیا کہ اس امر کا پختہ ارادہ کرے کہ وہ مدینہ کی جانب پیش قدمی نہیں کرے گی۔ اس واقعہ کے بعد اہلِ جزیرہ کی فوج کے سردار ایک جگہ جمع ہوئے اور انہوں نے سَجَاحْسے کہااب آپ ہمیں کیا حکم دیتی ہیں۔ مالک اور وکیع نے اپنی قوم سے صلح کر لی ہے۔ نہ وہ ہمیں مدد دینے کے لیے تیار ہیں اور نہ اس بات پر رضا مند کہ ہم ان کی سرزمین سے گزر سکیں۔ ان لوگوں سے بھی ہم نے یہ معاہدہ کیا ہے اور مدینہ جانے کے لیے ہماری راہ مسدود ہو گئی ہے۔ اب بتاؤ ہم کیا کریں؟ سَجَاحْنے جواب دیا کہ اگر مدینہ جانے کی راہ مسدود ہو گئی ہے تو بھی فکر کی کوئی بات نہیں تم یمامہ چلو۔ انہوں نے کہا اہلِ یمامہ شان و شوکت میں ہم سے بڑھے ہوئے ہیں اور مسیلمہ کی طاقت اور قوت بہت زیادہ ہو چکی ہے۔ ایک روایت یہ بھی ہے کہ جب اس کے لشکر کے سرداروں نے سَجَاحْ سے آئندہ اقدام سے متعلق دریافت کیا تو اس نے جواب دیا کہ عَلَيْكُمْ بِالْيَمَامَهْ، وَدُفُّوْادَفِيفَ الْحَمَامَهْ، فَإِنَّهَا غَزْوَةٌ صَرَّامَهْ، لَا يَلْحَقُكُمْ بَعْدَهَامَلَامَهْ کہ یمامہ چلو۔ کبوتر کی طرح تیزی سے ان پر جھپٹو۔ وہاں ایک زبردست جنگ پیش آئے گی جس کے بعد تمہیں پھر کبھی ندامت نہ اٹھانی پڑے گی۔ یہ مُسَجَّع مُقَفّٰی عبارت سننے کے بعد جسے اس کے لشکر والے وحی خیال کرتے تھے کہ نبی ہے۔ اس کو وحی ہوئی ہے۔ اس کے لیے ان کا حکم ماننے کے سوا کوئی چارہ ہی نہ تھا۔ اس کاحکم مانا۔

(حضرت ابوبکرصدیقؓ از محمد حسین ہیکل، مترجم شیخ احمد پانی پتی۔ صفحہ 193تا 198۔ اسلامی کتب خانہ)

(اردو دائرہ معارف اسلامیہ جلد 10 صفحہ 738 مطبوعہ لاہور)

سجاح جب اپنے لشکر کے ہمراہ یمامہ پہنچی تو مسیلمہ کو بڑا فکر پیدا ہوا۔ اس نے سوچا کہ اگر وہ سَجَاحْکی فوجوں سے جنگ میں مشغول ہو گیا تو اس کی طاقت کمزور ہو جائے گی۔ اسلامی لشکر اس پر دھاوا بول دے گا اور ارد گرد کے قبائل بھی اس کی اطاعت کا دم بھرنے سے انکار کر دیں گے۔ یہ سوچ کر اس نے سَجَاحْسے مصالحت کرنے کی ٹھانی۔ پہلے اسے تحفےتحائف بھیجے۔ پھر کہلا بھیجا کہ وہ خود اس سے ملنا چاہتا ہے۔ اس نے مسیلمہ کو باریابی کی اجازت دے دی۔ مسیلمہ بنو حنیفہ کے چالیس آدمیوں کے ہمراہ اس کے پاس آیا اور خلوت میں اس سے گفتگو کی اور اس گفتگو میں مسیلمہ نے کچھ مسجع مقفیٰ عبارتیں سَجَاحْکو سنائیں جن سے وہ بہت متاثر ہوئی۔ سَجَاحْ نے بھی جواب میں اسی قسم کی عبارتیں سنائیں۔سجاح کو پوری طرح اپنے قبضہ میں لینے اور ہمنوا بنانے کے لیے

مسیلمہ نے یہ تجویز پیش کی کہ ہم دونوں اپنی نبوتوں کو یکجا کر لیں اورباہم رشتہ ازدواج میں منسلک ہو جائیں،

شادی کر لیں۔ سَجَاحْنے یہ مشورہ قبول کر لیا اور مسیلمہ کے ساتھ اس کے کیمپ میں چلی گئی۔ تین روز تک وہاں رہنے کے بعد یہ اپنے لشکر میں واپس آئی اور ساتھیوں سے ذکر کیا کہ اس نے مسیلمہ کو حق پر پایا ہے اس لیے اس سے شادی کر لی ہے۔ لوگوں نے اس سے پوچھا کہ کچھ مہر بھی مقرر کیا۔ اس نے کہا مہر تو مقرر نہیں کیا۔ انہوں نے مشورہ دیا کہ آپ واپس جائیں اور مہر مقرر کر کے آئیں کیونکہ آپ جیسی شخصیت کے لیے مہر کے بغیر شادی کرنا زیبا نہیں۔ چنانچہ وہ مسیلمہ کے پاس واپس گئی اور اسے مہر کے بارے میں اپنی آمد کے مقصد سے آگاہ کیا۔ مسیلمہ نے اس کی خاطر عشاء اور فجر کی نمازوں میں تخفیف کر دی۔ یعنی کہ عشاء اور فجر کی نمازوں میں کمی کر دی اور وہ بند کر دیں۔ بہرحال مہر کے بارے میں یہ تصفیہ ہوا کہ مسیلمہ یمامہ کی زمینوں کے لگان کی نصف آمد سَجَاحْ کو بھیجے گا۔ سَجَاحْ نے یہ مطالبہ کیا کہ وہ آئندہ سال کی نصف آمدنی میں سے اس کا حصہ پہلے ہی ادا کر دے۔ اس پر مسیلمہ نے نصف سال کی آمدنی کا حصہ اسے دے دیا جسے لے کر وہ جزیرہ واپس آ گئی۔ بقیہ نصف سال کی آمدنی کے حصول کے لیے اس نے اپنے کچھ آدمیوں کو بنو حنیفہ ہی میں چھوڑ دیا۔ سَجَاحْ بدستور بنوتغلب میں مقیم رہی۔ اس کے بارے میں یہ بھی آتا ہے کہ بعد میں اس نے توبہ کر لی اور اسلام قبول کر لیا۔ بعض کے نزدیک حضرت عمرؓ کے زمانے میں اس نے اسلام قبول کیا یہاں تک کہ حضرت امیر معاویہؓ نے قحط والے سال اسے اس کی قوم کے ساتھ بنوتمیم میں بھیج دیا جہاں وہ وفات تک مسلمان ہونے کی حالت میں مقیم رہی۔

( حضرت ابوبکرصدیقؓ ، ازمحمدحسین ہیکل ، اردوترجمہ ازشیخ احمدپانی پتی ص 198-199)

(تاریخ طبری جلد2 صفحہ 271 دار الکتب العلمیۃ بیروت 2012ء)

(البدایۃ والنہایۃ جلد 7 صفحہ 259 دار ھجر بیروت 1997ء)

حضرت ابوبکرؓنے حضرت خالد بن ولید کو حکم دیا تھا کہ طُلَیْحَہ اَسَدِیکے معاملے سے فارغ ہو کر مالِک بن نُوَیْرَہکے مقابلے کے لیے جائیں جو بُطَاحْ میں ٹھہرا ہوا تھا۔

(تاریخ طبری جلد 2 صفحہ 257 دارالکتب العلمیۃ بیروت 2012ء)

حضرت خالدؓ جب بُطَاحْ آئے تو انہوں نے وہاں کسی کو بھی نہیں پایا۔ البتہ انہوں نے دیکھا کہ مالک کو جب اسے اپنے معاملہ میں تردد ہوا تو اس نے اپنے تمام ساتھیوں کو ان کی جائیداد کی دیکھ بھال کے لیے بھیج دیا اور اکٹھا ہونے کی ممانعت کی ہے۔ پہلے اس عورت سے علیحدگی بھی ہو چکی تھی یا شاید اس وجہ سے بھی اس میں خیال پیدا ہوا کہ مقابلہ مشکل ہے۔ بہرحال حضرت خالدؓ نے مختلف فوجی دستے ادھر ادھر روانہ کیے اور ان کو ہدایت کی کہ جہاں پہنچیں وہاں پہلے اسلام کی دعوت دیں جو اس کا جواب نہ دے اسے گرفتار کر لائیں اور جو مقابلہ کرے اسے قتل کر دیں۔ انہی دستوں میں سے ایک دستہ مالک بن نُوَیْرَہ کو جس کے ساتھ بنو ثَعْلَبہ بن یَرْبُوع کے چند آدمی عَاصِم، عُبَید، عَرِیْن اور جعفر تھے گرفتار کر کے خالد کے پاس ان کو لایا گیا۔اس دستے کے لوگوں میں جن میں حضرت ابوقتادہؓ بھی تھے ان کا اختلاف ہو گیا۔ یہاں ایک روایت عروہ کے باپ سے ہے کہ اس موقع پر مہم کے بعد لوگوں نے تو شہادتیں دیں کہ جب ہم نے اذان دی، اقامت کہی اور نماز پڑھی تو ان لوگوں نے بھی ایسا ہی کیا مگر دوسروں نے کہا کہ نہیں ایسا کچھ نہیں ہوا۔حضرت ابوقتادہؓ نے اس بات کی شہادت دی کہ انہوں نے اذان دی، اقامت کہی اور نماز پڑھی۔ اس اختلاف شہادت کی وجہ سے حضرت خالدؓ نے ان لوگوں کو قید کر دیا۔

(تاریخ طبری جلد 2 صفحہ 273،272، دارالکتب العلمیۃ بیروت 2012ء)

مالک بن نُوَیْرَہکے قتل کے متعلق دو طرح کی روایتیں ملتی ہیں

یہ روایت ہے کہ مالک بن نُوَیْرَہکو قتل کیا گیا تھا۔ ایک روایت میں ہے کہ اس رات اس قدر شدید سردی تھی کہ کوئی چیز اس کی تاب نہیں لاتی تھی۔ جب سردی اَور بڑھنے لگی تو حضر ت خالدؓ نے منادی کو حکم دیا۔ اس نے بلند آواز سے کہا کہ أَدْفِئُوا أَسْرَاكُمْ کہ اپنے قیدیوں کو گرم کرو۔ یعنی ان کو سردی سے بچانے کا انتظام کرو لیکن بنو کنانہ میں یہ محاورہ مختلف تھا ۔ یہاں کے محاورے میں اس لفظ کے معنی یہ تھے کہ قتل کرو۔ سپاہیوں نے اس لفظ کا مفہوم مقامی محاورے کے اعتبار سے یہ سمجھ لیا کہ ان قیدیوں کے قتل کا حکم دیا گیا ہے۔ اس پر انہوں نے ان سب کو قتل کر ڈالا۔ حضرت ضِرار بن اَزْوَر نے مالک کوقتل کیا اور ایک دوسری روایت میں ہے کہ عبد بن اَزْوَر اَسَدی نے مالک کو قتل کیا تھا ۔مگر کلبی کہتے ہیں ضرار بن ازور نے ان کو قتل کیا تھا۔ حضرت خالد بن ولیدؓ کو جب شور و غل سنائی دیا تو وہ اپنے خیمہ سے باہر آئے مگر اس وقت تک سپاہی ان سب قیدیوں کا کام تمام کر چکے تھے۔ اب کیا ہو سکتا تھا۔ انہوں نے کہا اللہ جس کام کو کرنا چاہتا ہے وہ تو بہرحال ہو کر رہتا ہے۔

(تاریخ طبری جلد 2 صفحہ 274،273 دارالکتب العلمیۃ بیروت 2012ء)

دوسری روایت یہ بھی ہے کہ حضرت خالدؓ نے مالک بن نُوَیْرَہکو اپنے پاس بلایا۔ سَجَاحْکا ساتھ دینے اور زکوٰۃ روکنے کے سلسلہ میں اس کو تنبیہ فرمائی اور اسے کہا کہ کیا تم نہیں جانتے کہ زکوٰۃ نماز کی ساتھی ہے یعنی دونوں ایک جیسے ہی حکم ہیں اور تم نے زکوٰۃ کو دینے سے انکار کر دیا تھا۔ مالک نے کہا تمہارے صاحب کا یہی خیال تھا یعنی بجائے اس کے کہتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ خیال تھا۔ رسول کے بجائے صاحب یا ساتھی کہہ کر پکارا۔ حضرت خالدؓ نے فرمایا کیا وہ ہمارے صاحب ہیں۔ تمہارے صاحب نہیں؟ پھر حکم دیا اے ضِرار اس کی گردن اڑا دو۔ پھر اس کی گردن اڑا دی گئی۔

(سیدنا ابو بکر صدیقؓ شخصیت و کارنامے از ڈاکٹر علی محمدصلابی مترجم صفحہ 332مکتبہ الفرقان مظفرگڑھ پاکستان)

اس کے مرنے کی ایک روایت یہ ہے ۔

تواریخ کی روایات کے مطابق اس سلسلہ میں ابوقتادہ نے خالدؓ سے گفتگو کی اور دونوں کے درمیان بحث ہوئی اور ابوقَتَادَہؓ حضرت خالدؓ سے اختلاف کرتے ہوئے لشکر کو چھوڑ کر حضرت ابوبکرؓ کے پاس چلے آئے اور حضرت ابوبکرؓ سے شکایت کی کہ خالدؓنے مالِک بن نُوَیْرَہکو قتل کروایا ہے جبکہ وہ مسلمان تھا اور پھر اس کی بیوی سے شادی کر لی ہے اور نہ ہی عرب کے لوگ دورانِ جنگ اس طرح کی شادی کو اچھی بات سمجھتے تھے۔ حضرت عمرؓ نے بھی ابو قتادہ کے موقف کی پُرزور حمایت کی۔

(تاریخ طبری جلد 2 صفحہ 273-274دارالکتب العلمیۃ بیروت 2012ء)

حضرت ابوبکرؓ ابوقتادہؓ سے اس بات پر سخت برہم ہوئے کہ وہ امیر لشکر حضرت خالدؓکی اجازت کے بغیر لشکر کو چھوڑ کر مدینہ آئے ہیں اور ان کو حکم دیا کہ وہ حضرت خالدؓ کے پاس واپس جائیں۔ چنانچہ ابوقتادہ حضرت خالدؓ کے پاس واپس چلے گئے۔

(تاریخ طبری جلد 2 صفحہ 273دارالکتب العلمیۃ بیروت 2012ء)

تاریخ طبری میں اس کی مزید تفصیل یوں مذکور ہے کہ حضرت عمرؓ نے حضرت ابوبکرؓ کی خدمت میں عرض کیا کہ خالدؓ ایک مسلمان کے خون کا ذمہ دار ہے اور اگر یہ بات ثابت نہ ہو سکے تو اس قدر تو ثابت ہے کہ جس سے ان کو قید کر دیا جائے۔ اس معاملے میں کہ قتل تو بہرحال ہوا ہے حضرت عمرؓ نے بہت اصرار کیا۔ چونکہ حضرت ابوبکرؓ اپنے عُمّال اور فوجی افسران کو کبھی قید نہیں کرتے تھے اس لیے انہوں نے فرمایا اے عمر! اس معاملے میں خاموشی اختیار کرو۔ خالد بن ولیدؓ سے اجتہادی غلطی ہوئی ہے۔ تم ان کے بارے میں ہرگز کچھ مت کہو اور حضرت ابوبکرؓ نے مالک کا خون بہا ادا کر دیا۔ حضرت ابوبکرؓنے خالد کو خط لکھ کر آنے کو کہا۔ وہ آئے اور انہوں نے اس واقعہ کی پوری تفصیل بیان کی اور معذرت چاہی۔ حضرت ابوبکرؓنے ان کی معذرت قبول کی۔

(تاریخ طبری جلد 2 صفحہ 273، دارالکتب العلمیۃ بیروت 2012ء)

ایک روایت میں

حضرت خالدؓ کے مدینہ حاضر ہونے کا واقعہ

یوں بیان ہوا ہے کہ خالدؓ اس مہم سے پلٹ کر مدینہ آئے اور مسجد نبوی میں داخل ہوئے۔ جب مسجد میں آئے تو حضرت عمرؓ نے ان سے کہا تم نے ایک مسلمان کو قتل کر دیا اور پھر اس کی بیوی پر قبضہ کر لیا۔ بخدا میں تم کو سنگسار کروں گا۔ خالدؓ نے اس وقت ایک لفظ بھی زبان سے نہیں نکالا کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ حضرت ابوبکرؓ کا بھی یہی خیال ہے۔ وہ حضرت ابوبکرؓ کے پاس چلے گئے۔ سارا واقعہ سنایا۔ معذرت چاہی اس پر حضرت ابوبکرؓ نے ان کی معذرت قبول فرمائی۔ حضرت ابوبکرؓ کی خوشنودی حاصل کرکےوہ اٹھ آئے۔ حضرت عمر مسجد میں بیٹھے تھے۔ خالد نے کہا: اے ام شَمْلَہ کے بیٹے !میرے پاس آؤ۔ کیا کہتے ہو۔ حضرت عمرؓ سمجھ گئے کہ حضرت ابوبکرؓ ان سے راضی ہو گئے ہیں جو حضرت خالدؓاس طرح بات کر کے جا رہے ہیں۔ حضرت عمرؓ خاموشی سے اٹھ کر اپنے گھر چلے گئے اور خالدؓ سے کوئی بات نہیں کی۔

(تاریخ طبری جلد 2 صفحہ 274، دارالکتب العلمیۃ بیروت 2012ء)

ایک اَور روایت کے مطابق مالک کا بھائی مُتَمِّمبن نُوَیْرَہحضرت ابوبکرؓ کے پاس اپنے بھائی کا قصاص لینے آیا اور اس نے درخواست کی کہ ہمارے قیدی رہا کر دیے جائیں۔ حضرت ابوبکرؓ نے قیدیوں کی رہائی کے لیے اس کی درخواست قبول کر لی اور حکم لکھ دیا اور مالک کی دیت ادا کر دی۔ حضرت عمرؓ نے حضرت خالدؓ کے متعلق ابوبکرؓ سے سخت اصرار کیا کہ ان کو برطرف کر دیا جائے اور کہا کہ ان کی تلوار میں بے گناہ مسلمان کا خون ہے مگر حضرت ابوبکرؓ نے کہا عمر!یہ نہیں ہو سکتا۔

میں اس تلوار کو جسے اللہ نے کفار کے لیے نیام سے نکالا ہےپھر نیام میں نہیں رکھوں گا۔

(تاریخ طبری جلد 2 صفحہ 273، دارالکتب العلمیۃ بیروت 2012ء)

جب حضرت ابوبکرؓنے دیت ادا کر دی تو شریعت کے مطابق انصاف تو پھر قائم ہو گیا اور مزید کارروائی کی ضرورت نہیں تھی اس لیے حضرت ابوبکرؓنے فرمایا کہ اس قصے کو اب بند کرو۔

اس بارے میں مالک بن نُوَیْرَہ کا جو قصہ ہے، اس کے قتل کیی بابت جو الزام ہے اس کا جواب دیتے ہوئے حضرت شاہ عبدالعزیز دہلوی لکھتے ہیں۔ تحفہ اثنا عشریہ ان کی کتاب ہے اس میں لکھتے ہیں کہ دراصل جو واقعہ پیش آیا اس کی تعبیر ان لوگوں نے صحیح بیان نہیں کی اور جب تک صحیح حالات نہ معلوم ہوں اس وقت تک اعتراض کی بے وقعتی ظاہر ہے۔ سیرت و تاریخ کی معتبر کتابوں میں اس واقعہ کی تفصیل یہ ہے کہ مدعی نبوت طُلَیْحَہبن خُویلد اَسَدِی کی مہم سے حضرت خالدؓ جب فارغ ہو کر نَواحِ بُطَاحْ کی طرف متوجہ ہوئے تو اطراف اور جوانب کی طرف فوجی دستے روانہ کیے اور حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد اور طریقے کے مطابق ان کو ہدایت کی کہ جس قوم، قبیلہ اور گروہ پر چڑھائی کرو وہاں سے اگر تمہیں اذان سنائی دے تو وہاں قتل و غارت گری سے باز رہو۔ اگر اذان سنائی نہ دے تو اسے دارالحرب قرار دے کر پوری فوجی کارروائی کرو۔ اتفاقاً اس دستہ میں جناب ابوقتادہ انصاریؓ بھی تھے جو مالک بن نُوَیْرَہ کو پکڑ کر حضرت خالدؓ کے پاس لائے جس کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے بُطَاحْ کی سرداری ملی ہوئی تھی اور اس کے گرد و نواح کے صدقات کی وصولی بھی اسی کے سپرد تھی۔ جناب ابوقتادہؓ نے اذان سننے کی گواہی دی مگر اسی دستے کی ایک جماعت نے کہا کہ ہم نے اذان کی آواز نہیں سنی مگر اس کے پیشتر گردو نواح کے معتبرین کے ذریعہ یہ بات حتمی اور ثبوتی طور پر معلوم ہو چکی تھی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کی خبر سن کر مالک بن نُوَیْرَہکے اہل خانہ نے خوب جشن منایا تھا۔ عورتوں نے ہاتھوں میں مہندی رچائی تھی، ڈھول بجائے تھے اور خوب خوب فرحت و شادمانی کا اظہار کیا تھا اور مسلمانوں کی اس مصیبت پر خوش ہوئے تھے۔ پھر مزید ایک بات یہ ہوئی کہ مالک بن نُوَیْرَہسے سوال و جواب کے دوران اس کے منہ سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ایسے الفاظ نکلے جس کے کفار اور مرتدین اپنی گفتگو میں عادی تھے اور استعمال کرتے تھے۔یعنی قَالَ رَجُلُکُمْ اَوْ صَاحِبُکُم کہ تمہارے آدمی یا تمہارے ساتھی نے ایسا کہا۔ علاوہ ازیں یہ بات بھی منکشف ہو چکی تھی کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کی خبر سن کر مالک بن نُوَیْرَہنے وصول شدہ صدقات بھی اپنی قوم کو یہ کہہ کر واپس کر دیے تھے کہ اچھا ہوا اس شخص کی موت سے تم نے مصیبت سے چھٹکارا پا لیا۔ ان حالات اور اپنے سامنے اس کی گفتگو کے انداز سے حضرت خالدؓکو اس کے ارتداد کا یقین ہو گیا اور آپؓ نے اس کے قتل کا حکم دے دیا اور جب مدینہ میں اس واقعہ کی اطلاع پہنچی اور پھر جناب ابوقتادہؓ بھی آپؓ سے ناراض ہو کر دارالخلافہ پہنچے اور قصور وار حضرت خالد کو ہی ٹھہرایا۔ توابتداءً حضرت عمر فاروق ؓکا یہی خیال تھا کہ خون ناحق ہوا ہے اور قصاص واجب ہے مگر حضرت ابوبکرؓنے حضرت خالدؓکو طلب فرما کر تفتیش حال کی۔ ان سے پورا واقعہ پوچھا اور حالات و واقعات کا سارا راز آپ پر منکشف ہوا تو آپؓ نے ان کو بے قصور قرار دے کر ان سے کچھ تعارض نہ کیا اور ان کو اسی سابقہ عہدے پر بحال رکھا۔

(تحفہ اثنا عشریہ اردو صفحہ517-518 مترجم خلیل الرحمٰن نعمانی دارالاشاعت کراچی1982ء)

مالک بن نُوَیْرَہ کے قتل کے متعلق ایک اور مصنف لکھتے ہیں کہ مالک بن نُوَیْرَہکے سلسلہ کی روایات میں بہت زیادہ اختلاف ہے۔ ان کے بارے میں جو روایات ہیں ان میں بہت اختلاف ہے کہ آیا وہ مظلوم قتل ہوا یا یہ کہ وہ قتل کا مستحق تھا۔

مالک بن نُوَیْرَہ کو جس چیز نے ہلاک کیا وہ اس کا کبر اور غرور اور تمرّد تھا۔

جاہلیت اس کے اندر باقی رہی ورنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلیفہ رسول کی اطاعت اور بیت المال کے حق زکوٰۃ کی ادائیگی میں ٹال مٹول نہ کرتا۔ یہ لکھتے ہیں کہ میرے تصور کے مطابق یہ شخص سرداری اور قیادت کا شوقین تھا اور ساتھ ہی ساتھ بنو تمیم کے سرداروں میں سے اپنے ان بعض اقارب سے اس کو خلش تھی جنہوں نے اسلامی خلافت کی اطاعت قبول کر لی تھی اور حکومت کے سلسلہ میں اپنے واجبات کو ادا کر دیا تھا۔ جو لوگ خلافت کی اطاعت میں آ گئے تھے اور زکوٰۃ وغیرہ ادا کر رہے تھے ان سے اس کو خلش تھی۔ اس کے اقوال و افعال دونوں ہی اس تصورکی تائید کرتے ہیں۔ اس کا مرتد ہونا اور سَجَاحْکا ساتھ دینا، زکوٰۃ کے اونٹوں کو اپنے لوگوں میں تقسیم کر دینا، زکوٰۃ کا ابوبکر کو دینے سے روکنا، تَمرُّدْ و عِصیان کے سلسلہ میں اپنے قرابت دار مسلمانوں کی نصیحتوں کو نہ سننا یہ سب اس پر فرد جرم ثابت کرتے ہیں اور اس سے واضح ہوتا ہے کہ یہ شخص اسلام کی بہ نسبت کفر سے زیادہ قریب تھا۔ ایک طرف مسلمان کہلاتا تھا، کہلانا چاہتا تھا اور دوسری طرف کفر کے قریب تھا اور اگر مالک بن نُوَیْرَہکے خلاف کوئی حجت ودلیل نہ ہو تو اس کا صرف زکوٰۃ روک لینا ہی اس پر فرد جرم عائد کرنے کے لیے کافی ہے۔ متقدمین کے یہاں یہ ایک ثابت شدہ حقیت ہے کہ اس نے زکوٰۃ کی ادائیگی سے انکار کیا تھا۔ ابن عبدالسلام کی کتاب طبقات فُحُوْلُ الشُّعَرَاءمیں ہے کہ یہ متفق علیہ بات ہے کہ خالدنے مالک سے گفتگو کی اور اس کو اس کے موقف سے پھیرنے کی کوشش کی لیکن مالک نے نماز کو تسلیم کیا۔ اس نے کہا نماز تو پڑھ لوں گا اور زکوٰۃ سے اعراض کیا اور شرح مسلم میں امام نَوَوِی مرتدین کے سلسلہ میں فرماتے ہیں کہ انہی کے ضمن میں وہ حضرات بھی تھے جو زکوٰۃ کو تسلیم کرتے تھے اور اس کی ادائیگی سے رکے نہیں تھے لیکن ان کے سرداروں نے انہیں اس سے روک دیا۔ بعض لوگ چاہتے تھے کہ جن پر نمازوں کے ساتھ زکوٰۃبھی فرض ہے وہ زکوٰۃ ادا کریں لیکن سرداروں نے اسے روک دیا اور ان کے ہاتھ پکڑ رکھے تھے جیسا کہ بَنُویَرْبُوع۔انہوں نے اپنی زکوٰۃ اکٹھی کی اور اس کو ابوبکرؓ کے پاس بھیجنا چاہتے تھے لیکن مالک بن نُوَیْرَہنے انہیں روک دیا اور ان کی زکوٰۃ کو لوگوں میں تقسیم کر دیا۔ حضرت ابوبکرؓنے مالک بن نُوَیْرَہکے معاملے میں پوری تحقیق کی اور اس نتیجہ پر پہنچے کہ خالد بن ولیدؓ مالک بن نُوَیْرَہکے قتل کے اتہام میں بری ہیں۔ ابوبکرؓ اس سلسلہ میں حقائقِ امور سے دوسروں کی بہ نسبت زیادہ واقف تھے اور گہری نگاہ رکھتے تھے کیونکہ آپؓ خلیفہ تھے اور تمام خبریں آپؓ کو پہنچتی تھیں اور آپؓ کا ایمان بھی سب پر بھاری تھا۔ خالدؓ کے ساتھ تعامل میں آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی پیروی کر رہے تھے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خالد کو جو ذمہ داری سونپی اس سے انہیں کبھی معزول نہیں کیا اور اگرچہ ان سے بعض ایسی چیزیں صادر ہوئیں جن سے آپ مطمئن نہ تھے۔ آپ ان کے عذر کو قبول فرماتے اور لوگوں سے فرماتے یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خالد کے عذر کو قبول فرماتے اور لوگوں سے فرماتے

خالد کو تکلیف مت پہنچاؤ۔ وہ اللہ کی تلواروں میں سے ایک تلوار ہےجسے اللہ تعالیٰ نے کفار پر مسلط کر دیا تھا۔

(ماخوذ سیدنا ابو بکر صدیقؓ شخصیت و کارنامے از ڈاکٹر علی محمدصلابی مترجم صفحہ333تا 334و 337مکتبہ الفرقان مظفرگڑھ پاکستان)

پھر ایک اَور اعتراض اسی ضمن میں آگے یہ بھی آتا ہے کہ حضرت خالدؓ نے ام تمیم بنت مِنْہَال سے شادی کی تھی۔ حضرت خالد بن ولیدؓ کے متعلق اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ آپؓ نے دوران جنگ لیلیٰ بنت مِنْہَال سے شادی کی اور عدت گزرنے کا بھی انتظار نہیں کیا۔ اس شادی کے متعلق تاریخ طبری میں ان الفاظ میں ذکر ہے کہ حضرت خالدؓ نے ام تمیم مِنْہَال کی بیٹی سے نکاح کیا تھا اور زمانہ طہر کو ختم کرنے کے لیے چھوڑ دیا تھا کیونکہ عرب جنگ کے دوران عورتوں سے تعلقات کو برا سمجھتے تھے اور جو ایسا کرتا اسے طعنہ دیتے تھے۔

(تاریخ الطبری جلد2 صفحہ 273۔ دار الکتب العلمیۃ بیروت 2012ء)

علامہ ابن کثیر لکھتے ہیں کہ جب وہ یعنی لَیلیٰ بنت مِنْہَال حلال ہو گئی تو حضرت خالدؓ نے اس سے شادی کی۔

(البدایۃ والنھایۃ لابن کثیر جلد 3 صفحہ 318 دار الکتب العلمیۃ بیروت)

علامہ ابن خَلِکَّان لکھتے ہیں کہ ام تمیم نے تین مہینے گزار کر اپنی عدت پوری کی اور پھر حضرت خالدؓ نے اسے نکاح کا پیغام بھیجا جو اس نے قبول کر لیا۔

(وفیات الاعیان جزء5صفحہ10 مطبوعہ دارالکتب العلمیۃ بیروت 1998ء)

حضرت شاہ عبدالعزیز دہلوی اس اعتراض کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ دراصل

یہ قصہ ہی من گھڑت ہے

اس لیے کہ کسی مستند اور معتبر کتاب میں اس کی کوئی روایت نہیں ملتی۔ بعض غیر معتبر کتابوں میں یہ روایت ملتی بھی ہے تو اس کا جواب بھی ساتھ ساتھ اسی روایت میں موجود ہے کہ مالک بن نُوَیْرَہ نے اس عورت کو ایک عرصہ سے طلاق دے رکھی تھی۔ یہ کہا جاتا ہے کہ مالک بن نُوَیْرَہ کی بیوی تھی اور اس کو قتل کر کے حضرت خالد بن ولیدؓ نے شادی فوراً کر لی اور اصل میں قتل ہی اس لیے کیا تھا کہ شادی کرنا چاہتے تھے لیکن بہرحال یہ کہتے ہیں کہ مالک بن نُوَیْرَہنے اس عورت کو ایک عرصہ سے طلاق دے رکھی تھی اور اس نے جاہلیت کی پائیداری میں اسے یوں ہی گھر میں ڈال رکھا تھا۔ اسی رسم جاہلیت کے توڑنے پر قرآن مجید کی یہ آیت نازل ہوئی تھی۔ وَإِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَآءَ فَبَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَلَاتَعْضُلُوهُنَّ جب تم عورتوں کو طلاق دے دو اور ان کی عدت پوری ہو جائے تو انہیں روکے نہ رکھو۔ لہٰذا اس عورت کی عدت تو کب کی پوری ہو چکی تھی اور نکاح حلال ہو چکا تھا۔ (تحفہ اثنا عشریہ مترجم خلیل الرحمان نعمانی صفحہ 518دارالاشاعت کراچی 1982ء)۔کیونکہ اس نے طلاق دے کر صرف اپنے گھر میں رکھا ہوا تھا۔

حضرت خالدؓکی شادی کے متعلق ایک اَور مصنف لکھتے ہیں کہ ام تمیم کا نام لیلیٰ بنت سِنَان مِنْہَال تھا۔ یہ مالک بن نُوَیْرَہکی بیوی تھی۔ حضرت خالد ؓکی اس سے شادی سے متعلق بڑا جدال واقع ہوا ہے۔ بڑی لڑائی جھگڑے ہوتے رہے، بڑی بحثیں چلیں۔ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ کچھ لوگوں نے خالد پر اتہام باندھا کہ وہ امِ تمیم کے حسن و جمال پر فریفتہ تھے اور اس سے عشق رکھتے تھے اس لیے صبر نہ کر سکے اور قید میں آتے ہی اس سے شادی کر لی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ نعوذ باللہ یہ شادی نہیں بلکہ زنا تھا لیکن یہ قول من گھڑت اور صریح جھوٹ ہے۔ اس کا کوئی اعتبار نہیں ہے کیونکہ قدیم مراجع مصادر میں اس کی طرف اشارہ تک نہیں ملتا۔ جو بھی روایتیں ہیں یا سورسز (sources)ہیں ان میں کوئی ثبوت نہیں جو ثابت ہو رہا ہو۔

علامہ ماوَردی فرماتے ہیں کہ خالد نے مالک بن نُوَیْرَہکو اس لیے قتل کیا تھا کہ اس نے زکوٰۃ روک لی تھی جس کی وجہ سے اس کا خون حلال ہو گیا تھا اور اس کی وجہ سے ام تمیم سے اس کا نکاح فاسد ہو گیا تھا اور مرتدین کی عورتوں کے سلسلہ میں شرعی حکم یہ ہے کہ جب وہ دارالحرب سے جا ملیں تو ان کو قید کیا جائے قتل نہ کیا جائے۔ جیسا کہ امام سَرْخَسِینے اس کی طرف اشارہ کیا ہے۔ جب ام تمیم قیدی بن کر آئی تو خالد نے اس کو اپنے لیے منتخب کر لیا اور جب وہ حلال ہو گئی تب اس نے اس سے ازدواجی تعلقات قائم کیے اور شیخ احمد شاکر اس مسئلہ پر تعلیق چڑھاتے ہوئے کہتے ہیں، مزید وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ خالدؓ نے ام تمیم اور اس کے بیٹے کو مِلک یمین کے طور پر لیا تھا کیونکہ وہ جنگی قیدی تھیں اور اس طرح کی خواتین کے لیے کوئی عدت نہیں۔ اگر وہ حاملہ ہو تو وضع حمل تک اس کے مالک کا اس کے قریب ہونا حرام ہے۔ اگر حاملہ نہیں ہے تو صرف ایک مرتبہ حیض آنے تک دور رہے گا۔ یہ مشروع اور جائز ہے اس پر طعن و تشنیع کی گنجائش نہیں لیکن خالد کے مخالفین اور دشمنوں نے اس موقع کو اپنے لیے غنیمت سمجھا اور اس زعم باطل میں مبتلا ہوئے کہ مالک بن نُوَیْرَہمسلمان تھا اور خالد نے اس کو اس کی بیوی کےلیے قتل کر دیا۔ اسی طرح

خالد پر یہ اتہام لگایا گیا کہ انہوں نے اس شادی کے ذریعہ سے عرب کے عادات و اطوار کی مخالفت کی ہے۔

چنانچہ عَقَّادکا کہنا ہے کہ خالدؓ نے مالک بن نُوَیْرَہکو قتل کر کے اس کی بیوی سے میدانِ قتال میں شادی کی جو جاہلیت اور اسلام میں عربوں کی عادت کے خلاف اور اسی طرح مسلمانوں کی عادات اور اسلامی شریعت کے حکموں کے منافی ہے۔عَقَّادکا یہ قول سچائی سے بالکل دور ہے۔ عربوں کے ہاں اسلام سے قبل بہت دفعہ ایسا ہوتا تھا کہ جنگوں اور دشمنوں پر فتح یابی کے بعد خواتین سے شادیاں کرتے تھے اور انہیں اس پر فخر ہوتا تھا۔ ڈاکٹر علی محمد صلابی اس بارے میں لکھتے ہیں، یہ سارا واقعہ یہی بیان کر رہے ہیں کہ شرعی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو خالد نے ایک جائز کام کیا اور اس کے لیے شرعاً جائز طریقہ اختیار کیا اور یہ فعل تو اس ذات سے بھی ثابت ہے جو خالد سے افضل تھے۔ اگر خالد پر یہ اعتراض ہے کہ انہوں نے جنگ کے دوران میں یا اس کے فوراً بعد شادی کی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوۂ مُرَیْسِیعکے فوراً بعد جُوَیرِیہ بنت حارِث سے شادی کر لی تھی اور یہ اپنی قوم کے لیے بڑی بابرکت ثابت ہوئی تھیں کہ اس شادی کی وجہ سے ان کے خاندان کے سو آدمی آزاد کر دیے گئے کیونکہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سسرالی رشتہ میں آ گئے اور اس شادی کے بابرکت اثرات میں سے یہ ہوا کہ ان کے والد حارِث بن ضِرار مسلمان ہو گئے۔ اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوۂ خیبر کے فوراً بعد صفیہ بنتِ حُیَیّ بنتِ اَخْطَب سے شادی کی اور جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اس سلسلہ میں اسوہ اور نمونہ موجود ہے تو عتاب اور ملامت کی کوئی وجہ نہیں۔

(سیدنا ابو بکر صدیقؓ شخصیت و کارنامے از ڈاکٹر علی محمدصلابی مترجم صفحہ 334تا 336مکتبہ الفرقان مظفرگڑھ پاکستان)

حضرت خالد بن ولیدؓ کو بلاوجہ اس پر الزام لگایا جائے اس لیے یہ تفصیل میں نے بیان کی ہے کہ بعض کم علم آج کل بھی یہ سوال اٹھاتے ہیں اور حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر اصل میں یہ اعتراض کرتے ہیں کہ حضرت عمرؓ اس بارے میں صحیح تھے اور حضرت ابوبکرؓنے نعوذ باللہ انصاف سے کام نہیں لیا اور غلط رنگ میں حضرت خالد بن ولیدؓ کی حمایت کی ہے حالانکہ یہ ساری تفصیلات جو انہوں نے دیکھیں،حضرت ابوبکرؓنے سارا جائزہ لیا پھر فیصلہ کیا اور اس سارے الزام سے حضرت خالدؓ کو بری فرمایا۔

حضرت خالد ؓکی یمامہ کی طرف روانگی

کے بارے میں آتا ہے کہ حضرت ابوبکرؓنے حضرت خالد بن ولیدؓ کو یہ حکم دے رکھا تھا کہ وہ قبیلہ اَسَد،غَطَفَان اور مالک بن نُوَیْرَہوغیرہ سے فارغ ہو کر یَمَامہ کا رخ کریں اور اس کی بڑی تاکید کر رکھی تھی۔ شریک بن عَبْدَہ فَزَارِی بیان کرتے ہیں۔ میں ان لوگوں میں سے تھا جو معرکہ بُزَاخَہمیں شریک تھے۔ حضرت ابوبکرؓ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپؓ نے مجھے خالد کی طرف روانہ کیا۔ میرے ساتھ

حضرت خالدؓ کے نام ایک خط

تھا جس میں لکھا تھا کہ اَمَّا بَعْد! تمہارے پیغام رساں کے ذریعہ سے تمہارا خط ملا۔ اس میں معرکہ بُزَاخَہمیں اللہ کی فتح اور نصرت کا تم نے ذکر کیا ہے اور اسد و غطفان کے ساتھ جو معاملہ تم نے کیا ہے وہ مذکور ہے اور تم نے تحریر کیا ہے کہ میں یمامہ کی طرف رخ کر رہا ہوں۔ تمہیں میری وصیت ہے کہ اللہ وحدہ لاشریک سے تقویٰ اختیار کرو اور تمہارے ساتھ جو مسلمان ہیں ان کے ساتھ نرمی برتو۔ ان کے ساتھ باپ کی طرح پیش آؤ۔ اے خالد! خبردار بَنِی مُغِیرہ کی نخوت و غرور سے بچنا۔ میں نے تمہارے متعلق ان کی بات نہیں مانی ہے جن کی بات میں کبھی نہیں ٹالتا۔ لہٰذا تم جب بنو حنیفہ سے مقابلہ میں اترو تو ہوشیار رہنا۔ یاد رکھو! بنو حنیفہ کی طرح اب تک کسی سے تمہارا مقابلہ نہیں پڑا۔ وہ سب کے سب تمہارے خلاف ہیں اور ان کا ملک بڑا وسیع ہے۔ لہٰذا جب وہاں پہنچو تو بذاتِ خود فوج کی کمان سنبھالو۔ میمنہ پر ایک شخص کو اور میسرہ پر ایک شخص کو اور شہسواروں پر ایک کو مقرر کرو۔ اکابرین صحابہ اور مہاجرین و انصار میں سے جو تمہارے ساتھ ہیں ان سے برابر مشورہ لیتے رہو اور ان کے فضل و مقام کو پہچانو۔ پوری تیاری کے ساتھ میدانِ جنگ میں جب دشمن صف بستہ ہوں تو ان پر ٹوٹ پڑو۔ تیر کے مقابلے میں تیر، نیزے کے مقابلے میں نیزہ، تلوار کے مقابلے میں تلوار۔ ان کے قیدیوں کو تلواروں پر اٹھا لو۔ قتل کے ذریعہ ان میں خوف و ہراس پیدا کرو۔ ان کو آگ میں جھونکو۔ خبردار میری حکم عدولی نہ کرنا۔ وَالسَّلَامُ عَلَیْکَ۔

یہ خط جب خالد کو ملا تو آپؓ نے اس کو پڑھا اور کہا ہم نے سن لیا اور ہم اس کی مکمل فرمانبرداری کریں گے۔ خالد نے مسلمانوں کو اپنے ساتھ تیار کیا اور بنو حنیفہ یعنی مسیلمہ یا جن کی سربراہی مسیلمہ کذاب کر رہا تھا ان سے قتال کے لیے روانہ ہوئے۔ انصار پر ثَابِت بن قَیس بن شَمَّاس امیر مقرر تھے۔ مرتدین میں سے جن سے راستہ میں واسطہ پڑتا اس کو عبرت ناک سزا دیتے۔ ادھر حضرت ابوبکرؓنے پیچھے سے خالد کی حفاظت کے لیے ایک بہت بڑی فوج بہترین اسلحہ سے لیس روانہ کی تا کہ لشکرِ خالد پر کوئی پیچھے سے حملہ آور نہ ہو سکے۔ خالد کا گزر یمامہ کے راستے میں بہت سے بدو قبائل سے ہوا جو مرتد ہو چکے تھے۔ ان سے جنگ کر کے انہیں اسلام کی طرف واپس لائے۔ راستہ میں سَجَاحْکی بچی کھچی فوج ملی ان کی خبر لی۔ انہیں قتل کیا اور عبرت ناک سزائیں دیں۔ پھر یمامہ پر حملہ آور ہوئے۔

(سیدنا ابو بکر صدیقؓ شخصیت و کارنامے از ڈاکٹر علی محمدصلابی مترجم صفحہ 353-354مکتبہ الفرقان مظفرگڑھ پاکستان)

جنگ یمامہ کی تفصیل ان شاء اللہ آئندہ بیان ہو گی۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button