پرسیکیوشن رپورٹس

اسلامی جمہوریہ پاکستان میں احمدیوں پر ہونے والے دردناک مظالم کی الَم انگیز داستان

اپریل2021ء میں سامنےآنے والے چند تکلیف دہ واقعات سے انتخاب

پنجاب پولیس نے 35سال پرانی احمدیہ مسجدکی توڑ پھوڑ کی

چک 604، ضلع مظفر گڑھ، 11؍اپریل 2021ء: کچھ عرصے سے احمدی مخالفین ضلع مظفر گڑھ میں وسیع پیمانے پر احمدی مخالف سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔ اب انہوں نے پولیس کی مدد سے یہاں کے احمدیوں کی مسجد کے مینار اور محراب کو شہید کر دیا۔

11؍اپریل کوپولیس احمدیوں کے گھروں اور مسجد میں آئی اور وہاں موجود لوگوں سے پوچھا کہ کیا آپ قادیانی ہیں؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہاں ہم احمدی ہیں۔ جس کے بعد ڈی ایس پی اللہ یار سیفی نے شرپسندوں کو محراب اور مینار گرانے کی اجازت دے دی۔ انہوں نے ایک احمدی فیض احمد کی قبر کے کتبے کو بھی شہید کر دیا۔ پولیس نے جائے وقوعہ سے پانچ احمدیوں کو گرفتار کیا اور تھانہ چوک سرور لے گئے۔ ایس ایچ او نے بتایا کہ یہ سب کچھ سینئر افسران کے حکم پر اور ڈی ایس پی اللہ یار سیفی کی نگرانی میں ہوا۔ انہوں نے کہا کہ حراست میں لیے گئے افراد پر توہین مذہب قانون PPC 295-C کے تحت فرد جرم عائد کی جا سکتی ہے۔ اس کی سزا موت ہے۔

12؍اپریل رات کے وقت پولیس نے احمدیوں کے گھروں پر چھاپے مارے تاکہ مزید افراد کو گرفتار کیا جائے۔ اگلے دن پانچ احمدیوں پرجن کو پہلے گرفتار کیا گیا تھا باضابطہ طور پر احمدی مخالف PPCs 298-B اور 298-Cشق کے تحت ایف آئی آر نمبر 183/21 درج کی گئی۔ عدالت سے دو روزہ جسمانی ریمانڈ حاصل کر لیا گیا۔ ایف آئی آر میں شکایت کنندہ سید سجاد حسین شاہ نے الزام لگایا کہ ٹی ڈی اے 604 کے رہائشی قادیانی، مسجد جیسی عمارت سے اپنے عقیدے کی تبلیغ کر تے ہیں۔ انہوں نے اپنے گھروں کے ساتھ ساتھ قبروں پر بھی مقدس اسلامی عقیدہ لکھ رکھا ہے جو کہ اشتعال انگیزی اور لوگوں میں غم و غصہ کا باعث ہے۔

بعد ازاں 16؍اپریل کو مجسٹریٹ نے پانچوں احمدیوں کو بری کر دیا۔ واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے 2014ء کے اپنے تاریخی فیصلے میں اقلیتوں کی عبادت گاہوں کے تحفظ کے لیے حکام کو ہدایات جاری کی تھیں۔

چار احمدیوں کو من گھڑت پولیس کیس میں گھسیٹا گیا

چک151/10-R، ضلع خانیوال، 30؍مارچ 2021ء: تین بھائیوں اور ایک بھتیجے عبدالرحمان، محمد عارف، محمد عالم اور مبشر رحمٰن کے خلاف ایف آئی آر نمبر 139 پی پی سی 298-C کے تحت تھانہ جھنیاں، ضلع خانیوال میں 30؍مارچ 2021ءکو مقدمہ درج کیا گیا۔ ان میں سے عارف احمدی نہیں ہیں۔

عارف غیر احمدیوں کی مسجد میں نماز ادا کرتے تھے۔ مخالفین نے انہیں یہ کہہ کر وہاں نماز پڑھنے سے روک دیا کہ ان کے بھائی احمدی ہیں اس لیے وہ انہیں اپنی مسجد میں نماز پڑھنے نہیں دیں گے۔ اس پر ان کے درمیان تلخ کلامی ہوئی۔ اس کے بعد مخالفین نےبعض مخصوص لوگوں کو گاؤں سے نکالنے کا مطالبہ کیا۔ لیکن یہ مطالبہ مسترد کر دیا گیا۔ اس پر مخالف پارٹی نے تبلیغ کرنے پر ان کے خلاف جھوٹا پولیس مقدمہ درج کر دیا۔

احمدی گرفتار۔ چارج اپ گریڈ

چک 3/SP، ضلع اوکاڑہ، 31؍مارچ 2021ء: منصور احمد طاہر کے خلاف ایف آئی آر نمبر 217، 16 ایم پی او کے تحت 31؍مارچ 2021ء کو تھانہ حویلی لکھا ضلع اوکاڑہ میں پولیس کیس درج کیا گیا اور ان کو گرفتار کر لیا گیا۔ مدعی نے الزام لگایا کہ طاہر نے ان کے مذہبی پروگرام کے بارے میں منفی ریمارکس دیے جس سے وہ مشتعل ہو گئے۔

اپوزیشن کے احتجاج اور جلوس کے جواب میں، ایس ایچ او پولیس نے چارج شیٹ میں دفعہ 295-A شامل کی (اس میں زیادہ سے زیادہ دس سال قید اور جرمانے کی سزا شامل ہے)۔

گاؤں میں صرف تین احمدی خاندان رہتے ہیں۔ احمدیہ مشنری کو مخالفانہ حالات کے پیش نظر وہاں سے منتقل کر دیا گیا ہے۔ مخالفین کا مطالبہ ہے کہ تین احمدی خاندانوں کو گاؤں سے نکال دیا جائے۔

تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کی طرف سے ملک گیر فسادات

اپریل 2021ء: TLPایک سیاسی مذہبی جماعت نے اپریل کے وسط میں بڑے پیمانے پر فسادات کیے جس نے ملک اور اس کے لوگوں کو بری طرح سے ہلا کر رکھ دیا۔ TLP کا اکثر ہماری رپورٹس میں احمدی مخالف سرگرمی کے تناظر میں تذکرہ ہوتا رہا ہےاس لیے ہم یہاں میڈیا رپورٹس کی بنیاد پر ان واقعات کی ایک مختصر داستان درج کرتے ہیں۔

TLPنے گستاخانہ کارٹونز کے معاملے پر فرانسیسی حکومت کےرویہ پر سخت موقف اختیار کیا تھا اور پاکستان سے فرانسیسی سفیر کو نکالنے کا مطالبہ کیا تھا۔ وفاقی حکام نےTLPکی قیادت سے بات چیت کی تھی اور مطالبات کی پیروی کے طریقہ کار پر اتفاق کیا تھا۔ اپریل کے شروع تک، TLPاس نتیجے پر پہنچی کہ حکومت مبینہ طور پر معاہدے کی شرائط پر عمل نہیں کرے گی اس لیے اس تنظیم نے اس معاہدے کے نفاذ کے لیے دارالحکومت پر مارچ کرنے کااعلان کیا۔

وفاقی حکام نے TLP کی طرف سے دارالحکومت کی اس طرح کی ماضی کی ناکہ بندیوں کو دہرانا پسند نہیں کیا لہٰذا انہوں نے پیشگی حرکت کی اور TLP کے سربراہ سعد رضوی کو حراست میں لے لیا۔ سعد رضوی مشہور وفات یافتہ خادم حسین رضوی کابیٹا ہے۔ اس گرفتاری کے نتیجے میں 12؍اپریل کو ملک بھر میں وسیع پیمانے پر ہنگامہ آرائی کا آغاز ہوا۔

TLPکے ہمدردوں پر زور دیا گیا کہ وہ شان رسالت کے نام پر باہر نکلیں اور انہوں نے فرانس کے سفیر کو پاکستان سے نکالنے اور فرانسیسی مصنوعات کے بائی کاٹ کا مطالبہ کیا۔ مظاہرین نے جلد ہی فسادیوں کا روپ دھار لیا اور سڑکوں پر رکاوٹیں ڈال کر حکومتی سیکیورٹی اہل کاروں اور ریاستی املاک وغیرہ پر حملے کیے۔ انہوں نے گرفتار پولیس اہل کاروں کو تشدد کا نشانہ بنایا۔ جس کے نتیجے میں دو پولیس اہلکار ہلاک ہو گئے۔ حالات رفتہ رفتہ خراب ہوتے گئے۔

تین چار دنوں کے بعد زخمی ہونے والے سرکاری اہل کاروں کی تعداد 491ہوگئی، ان میں سے 300کو ہسپتال میں داخل ہونا پڑا۔ چار پولیس اہلکار زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے دم توڑ گئے۔ 2135 فسادیوں کو حراست میں لیا گیا۔

وزیراعظم نے 19؍اپریل 2021ء کو قوم سے خطاب کیا اور سرکاری موقف کی وضاحت کی۔ انہوں نے بتایا کہ فسادیوں نے پولیس کی40گاڑیوںکو تباہ کیا اور 800سیکیورٹی اہل کاروں کو زخمی کیا۔ بڑی تعداد میں سڑکیں بلاک کر دی گئیں اور عوامی املاک کو بھاری نقصان پہنچایا گیا۔ انہوں نے مسلم لیگ ن اور جے یو آئی پر سیاسی فائدے کے لیے ایجی ٹیشن کی حمایت کا الزام لگایا۔

وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے قومی اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ یہ وہ اسمبلی تھی جس نے ختم نبوت کا قانون بنایا تھا۔ انہوں نے ایجی ٹیشن کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے جو بیان دیا وہ تاہم درست تھا کہ اس بار یہ ختم نبوت کا مسئلہ نہیں ہے۔

رویت ہلال کمیٹی کے سابق سربراہ مفتی منیب الرحمان نے TLPکی حمایت میں ’ہڑتال‘کا اعلان کردیا۔

حکومت نے 15؍اپریل کو TLPپر پابندی کا اعلان کیا اور اس کی تحلیل کے لیے سپریم کورٹ جانے کا ارادہ ظاہر کیا۔ ملک میں امن و امان کی صورت حال کے پیش نظر فرانسیسی سفارت خانے نے اپنے شہریوں کو پاکستان چھوڑنے کا مشورہ دے دیا۔ صورت حال کے پیش نظر تمام احتیاطی تدابیر کو بروئے کار لاتے ہوئے حکام نے 16؍اپریل کو جمعہ کی نماز کے بعد ملک میں چار گھنٹے کے لیے پہلی بار تمام سوشل میڈیا بلاک کرنے کا اعلان کیا۔

صورت حال انتہائی تشویش کن رہی اور اس وقت مزید بگڑ گئی جب TLP نے 16 پولیس اہل کاروں کو یرغمال بنا لیا۔ اس کی وجہ سے حکام اور TLPقیادت کے درمیان ثالثوں کے ذریعے مزید بات چیت ہوئی۔ وزارت داخلہ نے 20؍اپریل کو اعلان کیا کہ مذاکرات کامیاب ہو گئے ہیں۔ حراست میں لیے گئے سیکیورٹی اہل کاروں کو رہا کر دیا گیا، TLP پر پابندی عائد کر دی جائے گی، فرانسیسی سفیر کی بے دخلی کا معاملہ قومی اسمبلی میں حل کیا جائے گا، اور TLP کے افراد کے خلاف پولیس مقدمات واپس لیے جائیں گے اور زیر حراست افراد کو رہا کیا جائے گا۔ معاہدے کی صحیح شرائط کو فوری طور پر منظر عام پر نہ آنے دیا گیا۔

TLP کی شوریٰ کمیٹی کے بعد کے بیان میں یہ ذکر کیا گیا کہ TLP کے ہزاروں مظاہرین زخمی ہوئےاور TLP نے اس تنازعہ کے دوران 27کارکنان کی لاشوں کو اٹھایا۔

اس کے بعد اہم پیش رفت ہوئی۔ قومی اسمبلی میں فرانسیسی سفیر کی بے دخلی کا معاملہ اٹھایا گیا۔ یورپی یونین کی پارلیمنٹ نے توہین رسالت کے قانون کے غلط استعمال پر پاکستان کے GSP+ سٹیٹس پر نظرثانی کا مطالبہ کرتے ہوئے ایک قرارداد منظور کی اور پاکستان پر زور دیا کہ وہ اپنی اقلیتوں کے ساتھ اچھا سلوک کرے۔

جی ایس پی پلس اسٹیٹس پر یورپی یونین کی پارلیمنٹ کی قرارداد پاکستان کے لیے ایک بڑا مسئلہ تھا اور بہت سے فورمز میں اس پر بڑے پیمانے پر بحث کی گئی۔ پریس کے ذریعے وزیراعظم کے حوالے سے کہا گیا کہ ’’ختم نبوت قانون پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا‘‘۔ وزیر فواد چودھری نے @FawadPTIUpdates پر ٹویٹ کیا:

ہمارے لیے ختم نبوت کے تحفظ سے آگے کچھ نہیں، اس لیے ہم یورپی یونین کی پارلیمنٹ کی قرارداد پر کوئی توجہ نہیں دے رہے اور نہ ہی اس سے کوئی فرق پڑنے والا ہے۔

وزیر داخلہ نے ختم نبوت کے معاملے پر تصدیق کی کہ ’’ہم اس معاملے میں کالعدم TLPتحریک سے پیچھے نہیں ہیں۔‘‘یہ بیانات قابل ذکر ہیں کیونکہ نہ تو TLP اور نہ ہی EUنے فسادات کے دوران اور بعد میں ختم نبوت کا مسئلہ اٹھایا تھا۔

ہم اپنی رپورٹس میں TLP کی طرف سے احمدی مخالف بیان بازی کے حوالے سے مذہب کے استعمال کا قومی مفاد کے پیش نظر اظہار کرتے رہے ہیں۔ ہمیں ان فسادات کے بعد اس میں مزید اضافہ کرنے کی ضرورت نہیں، تاہم میڈیا اور سول سوسائٹی نے سیاسی فائدے کے لیے مذہب کے غلط استعمال پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیا۔ (میڈیا میں) روزنامہ ڈان میں Opinionsسیکشن میں ان کا اظہار کیا گیا ہے۔

(مرتبہ: ’اے آر ملک‘)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button