ملفوظات حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور فارسی ادب (قسط نمبر 106)
فرمایا: ’’مومن کا کام ہے کہ ہمیشہ دعا میں لگا رہےاور اس استقلال اور صبر کے ساتھ دعا کرے کہ اس کو کمال کےدرجہ تک پہنچا دےاپنی طرف سے کوئی کمی اور دقیقہ فروگذاشت نہ کرے اور اس بات کی بھی پروا نہ کرے کہ اس کا نتیجہ کیا ہوگا بلکہ؎
گر نباشد بدست راہ بردن
شرطِ عشق است در طلب مردن
جب انسان اس حد تک دعا کو پہنچاتا ہے تو پھر اللہ تعالیٰ اس دُعا کا جواب دیتا ہے جیسا کہ اس نے فرمایاہےاُدۡعُوۡنِیۡۤ اَسۡتَجِبۡ لَکُمۡ یعنی تم مجھے پکارو میں جواب دوں گا۔‘‘(ملفوظات جلد5 صفحہ 5-6، ایڈیشن1984ء)
تفصیل: حصہ ملفوظات میں مذکورفارسی شعرپانچویں جلد میں دو مرتبہ آیا ہے پہلی مرتبہ صفحہ نمبر 6پر، جبکہ دوسری مرتبہ صفحہ نمبر228پر۔ شیخ سعدی کی کتاب گلستان سعدی کے پانچویں باب بعنوان ’’عشق وجوانی ‘‘میں اس سے ملتا جلتا ایک شعر اس طرح موجود ہے۔
گَرْنَشَایَدْ بِہْ دُوْست رَہْ بُرْدَنْ
شَرْطِ یَارِیْ اَسْت دَرْطَلَبْ مُرْدَنْ
ترجمہ: اگرچہ محبوب تک رسائی پانے کا کوئی ذریعہ نہ ہو پھر بھی عشق کاتقاضا یہ ہے کہ اس کی تلاش میں جان لڑا دی جائے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو شعر استعمال کیا ہے اس میں اور شیخ سعدی کے شعر میں صر ف دو الفاظ کا فرق ہے۔ جن کے معنی میں کوئی خاص فرق نہیں اس لیے دونوں اشعار کا ایک ہی ترجمہ ہے۔
٭…٭…٭