خطبہ جمعہ بطرز سوال و جواب 25؍ مارچ 2022ء
اس زمانے میں خدا تعالیٰ نے بڑا فضل کیا ہے اور اپنے دین (یعنی دین اسلام) اور حضرت نبی کریمﷺ کی تائید میں غیرت دکھاکر ایک انسان کو جو تم میں بول رہا ہے بھیجاہےتاکہ وہ اس روشنی کی طرف لوگوں کو بلائے
سوال نمبر1: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے یہ خطبہ کہاں ارشاد فرمایا؟
جواب: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے یہ خطبہ مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے) یوکےمیں ارشاد فرمایا۔
سوال نمبر2: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے خطبہ کے عنوان کی بابت کیا بیان فرمایا؟
جواب: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ دو دن پہلے 23؍مارچ کا دن تھا۔ یہ دن جماعت میں یومِ مسیح موعود کے دن سے پہچانا جاتا ہے۔ اس دن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے پہلی بیعت لی تھی۔
سوال نمبر3: اپنی بعثت کی اہمیت کی بابت حضرت مسیح موعودؑ نے کیا بیان فرمایا؟
جواب: فرمایا: زمانے کی ضرورت کے لحاظ سے اپنی بعثت کی اہمیت کا ایک موقع پر آپؑ نے یوں ذکر فرمایا کہ اس زمانے میں خدا تعالیٰ نے بڑا فضل کیا ہے اور اپنے دین (یعنی دین اسلام) اور حضرت نبی کریمﷺ کی تائید میں غیرت دکھاکر ایک انسان کو جو تم میں بول رہا ہے بھیجاہےتاکہ وہ اس روشنی کی طرف لوگوں کو بلائے۔ اگر زمانے میں ایسا فتنہ و فساد نہ ہوتا اور دین کے محو کرنے کے لیے جس قسم کی کوششیں ہورہی ہیں نہ ہوتیں تو چنداں حرج نہ تھا۔ پھر ضرورت کوئی نہیں تھی کسی کے بھیجنے کی۔ لیکن اب تم دیکھتے ہو کہ ہرطرف، یمین و یسار اسلام ہی کو معدوم کرنے کی فکر میں جملہ اقوام لگی ہوئی ہیں۔ ہر طرف دائیں بائیں جہاں دیکھو یہی ہے کہ اسلام کو کس طرح ختم کیا جائے۔
سوال نمبر4: حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے حضرت مسیح موعودؑ کی تحریرات اور ان پراعتراض کی کیا تفصیل بیان فرمائی؟
جواب: فرمایا: انبیاء کے مخالفین کا انبیاء کے متعلق ہمیشہ یہ شیوہ رہا ہے کہ وہ جو بھی کوئی علم و عرفان کی بات کریں تو یہی کہتے ہیں کہ کوئی دوسرا انہیں سکھاتا ہے حتی کہ آنحضرتﷺ پر بھی قرآن کریم کے بارے میں یہ اعتراض ہے کہ نعوذ باللہ آپؐ کو کوئی سکھاتا تھا حالانکہ یہ وہ کتاب ہے جس کی کوئی مثال پیش نہیں کی جا سکتی۔ یہ تو اللہ تعالیٰ کا چیلنج ہے۔ بہرحال حضرت مسیح موعودؑ کے حوالے سے میں ذکر کرتا ہوں کہ جب براہین احمدیہ آپؑ نے تحریر فرمائی اور آپؑ نے شروع میں یہ بیان فرمایا کہ اتنی تعداد میں میں لکھوں گا۔ لیکن اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ماموریت کا جو مقام عطا فرمایا تو آپؑ نے فرمایا کہ یہ باتیں اب خدا تعالیٰ نے اپنے ہاتھ میں لے لی ہیں، یہ کام اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے اور وہ حسبِ حالات جو مضامین سکھاتا رہے گا وہ میں بیان کرتا رہوں گا تو مخالفین نے یہ اعتراض کر دیا کہ آپؑ کو کوئی لکھ کر دیتا تھا اور آپؑ بیان کر دیتے تھے۔ حضرت مصلح موعودؓ نے اس بارے میں ایک تقریر میں بیان فرمایا ہے اس زمانے میں ایک اخبار ہوتا تھا ’’زمیندار‘‘اور ’’احسان‘‘ایک دوسرا اخبار تھا یہ مخالف اخبارات یہ بھی لکھتے رہتے ہیں کہ کوئی مولوی چراغ علی صاحب حیدر آبادی تھے وہ حضرت مسیح موعودؑ کو یہ مضامین لکھ کر بھیجا کرتے تھے۔ جو آپؑ براہین احمدیہ میں شائع کر دیتے تھے۔ اورجب تک ان کی طرف سے مضامین کا سلسلہ جاری رہا آپؑ بھی کتاب لکھتے رہے۔ مگر جب انہوں نے مضمون بھیجنے بند کر دیے تو آپؑ کی کتاب بھی ختم ہو گئی۔ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں یہ سمجھ میں نہیں آتاکہ مولوی چراغ علی صاحب کو کیا ہو گیا۔ لوگ کہتے ہیں ناں وہ لکھ کے دیا کرتے تھے۔ کیا ہو گیا انہیں کہ جو اچھا نکتہ سوجھتا ہے وہ حضرت مسیح موعودؑ کو لکھ کر بھیج دیتے اور اِدھر اُدھر کی معمولی باتیں اپنے پاس رکھتے۔ آخر مولوی چراغ علی صاحب مصنف ہیں۔ براہین احمدیہ کے مقابلہ میں ان کی کتابیں رکھ کر دیکھ لیا جائے۔ ان کی بعض کتابیں ہیں، ان کو براہین احمدیہ کے مقابلے میں رکھ لوکہ آیا کوئی بھی ان میں نسبت ہے؟ کہاں براہین احمدیہ اور کہاں ان کی تصنیف۔ پھر وجہ کیا ہے کہ دوسروں کو تو ایسا مضمون لکھ کر دے سکتے تھے جس کی کوئی نظیر ہی نہیں ملتی اور جب اپنے نام پر کوئی مضمون شائع کرنا چاہتے تو اس میں وہ بات ہی پیدا نہ ہوتی۔ پس اوّل تو انہیں ضرورت ہی کیا تھی کہ وہ حضرت مسیح موعودؑ کو مضمون لکھ لکھ کر بھیجتے۔ اور اگر بھیجتے تو عمدہ چیز اپنے پاس رکھتے اور معمولی چیز دوسرے کو دے دیتے۔ جیسے ذوق کے متعلق، ذوق بھی شاعر ایک گزرے ہیں، ان کے متعلق سب جانتے ہیں کہ وہ ظفر کو، بہادر شاہ ظفر کو نظمیں لکھ لکھ کر دیا کرتے تھے۔ مگر’’دیوانِ ذوق‘‘اور’’دیوانِ ظفر‘‘آج کل دونوں پائے جاتے ہیں۔ انہیں دیکھ کر صاف نظر آتا ہے کہ ذوق کے کلام میں جو فصاحت اور بلاغت ہے وہ ظفر کے کلام میں نہیں۔ جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اگر وہ ظفر کو کوئی چیز دیتے بھی تھے تو اپنی بچی ہوئی دیتے تھے، اعلیٰ چیز نہیں دیتے تھے۔ حالانکہ بادشاہ ظفر تھا۔ غرض ہر معمولی عقل والا انسان بھی سمجھ سکتا ہے کہ اگر مولوی چراغ علی صاحب حضرت مسیح موعودؑ کو مضامین بھیجاکرتے تھے تو انہیں چاہیے تھا کہ معرفت کے عمدہ عمدہ نکتے اپنے پاس رکھتے اور معمولی علم کی باتیں حضرت مسیح موعودؑ کو لکھ کر دیتے۔ مگر مولوی چراغ علی صاحب کی کتابیں بھی موجود ہیں اور حضرت مسیح موعودؑ کی کتابیں بھی۔ انہیں ایک دوسرے کے مقابلہ میں رکھ کر دیکھ لو۔ کوئی بھی ان میں نسبت نہیں ہے۔ انہوں نے یعنی مولوی چراغ علی صاحب نے تو اپنی کتابوں میں صرف بائبل کے حوالے جمع کیے ہیں اور حضرت مسیح موعودؑ نے قرآن کریم کے وہ معارف پیش کیے ہیں جو تیرہ سو سال میں کسی مسلمان کو نہیں سوجھے اور ان معارف اور علوم کا سینکڑواں بلکہ ہزارواں حصہ بھی ان کی کتابوں میں نہیں۔
سوال نمبر5: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےمخالفین کی مخالفت اورآپؑ کے ردعمل کی بابت کیا بیان فرمایا؟
جواب: فرمایا: حضرت مصلح موعودؓ کہتے ہیں کہ مَیں نے حضرت مسیح موعودؑ سے کئی دفعہ سنا ہے کہ لوگ گالیاں دیتے ہیں تب بھی برا معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ ہمیں گالیاں دے کے کیوں اپنی عاقبت خراب کر رہے ہیں اور اگر گالیاں نہ دیں تب بھی ہمیں تکلیف ہوتی ہے کیونکہ مخالفت کے بغیر جماعت کی ترقی نہیں ہوتی۔ گالیاں دیتے ہیں تو اس مخالفت کی وجہ سے جماعت کا پیغام پہنچتا ہے۔ تو فرماتے ہیں کہ حضرت مسیح موعودؑ فرماتے تھےکہ پس ہمیں تو گالیوں میں بھی مزہ آتا ہے۔ اس لیے اعتراضات یا لوگوں کی بدزبانی کی پرواہ نہیں کرنی چاہیے۔ پھر پنجابی میں ایک ضرب المثل بیان کی جو حضرت مسیح موعودؑ بیان کرتے تھے کہ’’اونٹ اڑاندے ای لدے جاندے نے‘‘یعنی اونٹ گو چیختا رہتا ہے مگر مالک اس پر ہاتھ پھیر کے پھر بھی اسباب لاد ہی دیتا ہے۔ اسی طرح لوگ خواہ کچھ کہیں حضرت مسیح موعودؑ نے یہ نصیحت فرمائی کہ تم نرمی اور محبت سے پیش آتے رہو۔
سوال نمبر6: حضرت مصلح موعودؓ نے رام پورکے ایک شخص کی بیعت کے لیے قادیان آمد کا کونساواقعہ بیان فرمایا؟
جواب: فرمایا: حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں مجھے یاد ہے مَیں چھوٹا تھا۔ حضرت مسیح موعودؑ مسجد میں تشریف رکھتے تھے، مجلس لگی ہوئی تھی کہ ایک صاحب رام پور سے تشریف لائے۔ وہ رہنے والے تو لکھنؤ یا اس کے پاس کے کسی مقام سے تھے لیکن رام پور میں رہتے تھے۔ چھوٹا قد تھا ان کا، دبلے پتلے آدمی تھے۔ ادیب بھی تھے، شاعر بھی تھے اور ان کو محاوراتِ اردو کی لغت لکھنے پر نواب صاحب رامپور نے مقرر کیا ہوا تھا۔ وہ آکے مجلس میں بیٹھے اور انہوں نے اپنا تعارف کروایا کہ میں رام پور سے آیا ہوں اور نواب کا درباری ہوں۔ حضرت مسیح موعودؑ نےپوچھا کہ آپ کو یہاں آنے کی تحریک کس طرح ہوئی؟ انہوں نے کہا کہ میں بیعت میں شامل ہونے کے لیے آیا ہوں۔ حضرت مسیح موعودؑ فرمانے لگے۔ اس طرف یعنی رام پور کی طرف تو ہماری جماعت کا آدمی بہت کم پایا جاتا ہے اور اس طرف تبلیغ بھی بہت کم ہے۔ آپ کو اس طرف آنے کی تحریک کس نے کی؟ تو حضرت مصلح موعودؓ کہتے ہیں کہ یہ لفظ میرے کانوں میں آج تک گونج رہے ہیں اور میں آج تک اس کو بھول نہیں سکا حالانکہ میری عمر اس وقت سولہ سال کی تھی کہ اِس کے جواب میں انہوں نے بے ساختہ طور پر کہا کہ یہاں آنے کی تحریک مجھے مولوی ثناء اللہ صاحب نے کی ہے۔ حضرت مصلح موعودؓ کہتے ہیں کہ میں تو اپنی کم عمر کے لحاظ سےاس بات کو نہ ہی سمجھا ہوں گا مگر حضرت مسیح موعودؑ اس پر ہنس پڑے جو انہوں نے جواب دیا اور فرمایاکہ وہ کس طرح؟ تو انہوں نے کہا کہ مولوی ثناء اللہ صاحب کی کتابیں نواب صاحب کے دربار میں آئی تھیں۔ اور نواب صاحب بھی پڑھتے تھے اور مجھے بھی پڑھنے کے لیے کہا گیا تو میں نے کہا جو جو حوالے یہ لکھتے ہیں میں مرزا صاحب کی کتابیں بھی نکال کر دیکھ لوں کہ وہ حوالے کیا ہیں۔ خیال تو مَیں نے یہ کیا کہ میں اس طرح احمدیت کے خلاف اچھا مواد جمع کر لوں گا لیکن جب مَیں نے حوالے نکال کر پڑھنے شروع کیے تو اُن کا مضمون ہی اَور تھا۔ اس سے مجھے اَور دلچسپی پیدا ہوئی اور میں نے کہا کہ چند اَور صفحے بھی اگلے پچھلے پڑھ لوں۔ جب میں نے وہ پڑھے تو مجھے معلوم ہوا کہ رسول کریمﷺ کی عزت اور آپؐ کی شان اور آپؐ کی عظمت جو مرزا صاحب بیان کرتے ہیں وہ تو ان لوگوں کے دلوں میں ہے ہی نہیں۔ پھر کہنے لگے مجھے فارسی کا شوق تھا۔ اتفاقاً مجھے درثمین فارسی مل گئی اور وہ میں نے پڑھی اور وہ جب پڑھنی شروع کی تو اِس کے بعد میرا دل بالکل صاف ہو گیا اور میں نے کہا کہ جاکر بیعت کر لوں۔ تو مخالفت جہاں فساد کا ذریعہ ہے وہاں فائدہ بھی ہوتا ہے۔
سوال نمبر7: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےعام لوگوں اورانبیاءؑ کی سختی میں کیا فرق بیان فرمایا؟
جواب: فرمایا: آپؓ نے بیان فرمایا کہ انبیاء کی سختی اپنی ذات کے لیے نہیں ہوتی بلکہ اللہ تعالیٰ کے مقام کو قائم کرنے کے لیے اگر کبھی سختی دکھاتے ہیں اور غیرت دکھاتے ہیں تو وہ ہوتی ہے۔ اپنی ذات کے لیے تو ان میں بالکل عاجزی ہوتی ہے۔ اس بارے میں ’’حضرت مسیح موعودؑ کا ہی ایک واقعہ ہے کہ ایک دفعہ لاہور کی ایک گلی میں ایک شخص نے آپ کو دھکا دیا۔ آپؑ گر گئے جس سے آپؑ کے ساتھی جوش میں آ گئے اور قریب تھا کہ اسے مارتے لیکن آپؑ نے فرمایا کہ اس نے اپنے جوش میں سچائی کی حمایت میں ایسا کیا ہے۔‘‘ یہ شخص جو ہے یہ تو یہی سمجھا ہے ناں مولویوں کی باتیں سن کے کہ مرزا صاحب جھوٹے ہیں تو میں اپنا بدلہ لوں تو اس نے تو سچائی کی وجہ سے یہ کیا ہے’’اسے کچھ نہ کہو۔ پس انبیاء اپنے نفس کے سوال کی وجہ سے نہیں بولتے بلکہ خدا کی عزت کے قیام کے لئے بولتے ہیں۔ تو یہ نہیں خیال کرنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کے نبی بھی ایسا ہی کرتے ہیں ‘‘یعنی اگر وہ کبھی سختی کریں۔ ’’ان میں اور عام لوگوں میں بڑا فرق ہوتا ہے وہ خدا تعالیٰ کے لئے کرتے ہیں اور عام لوگ اپنے لئے کرتے ہیں۔ …‘‘
سوال نمبر8: حضرت مسیح موعودؑ نے گناہ سے بچنے کی بابت حضرت امیرمعاویہؓ کا کونسا واقعہ بیان فرمایا؟
جواب: فرمایا: حضرت مسیح موعودؑ حضرت معاویہ کی نماز کا واقعہ بیان فرمایا کرتے تھے کہ ان سے ایک مرتبہ فجر کی نماز قضا ہو گئی لیکن وہ اس غلطی کے نتیجے میں نیچے نہیں گرے بلکہ ترقی کی۔ شیطان نے ان پر قابو نہیں پا لیا بلکہ اللہ کا قرب حاصل کرنے کی کوشش کی۔ پس جو گناہ کا احساس کرتا ہے وہ گناہ سے بچتا ہے اور جب گناہ کا احساس نہیں رہتا تو انسان معصیت میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ پس مومن کو اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ پر غور کرنا چاہئے اور سمجھنا چاہئے کہ وہ خطرات سے محفوظ نہیں ہوا۔ صرف اسی وقت محفوظ ہو سکتا ہے جبکہ خدا کی آواز اسے کہہ دے۔
سوال نمبر9: حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے حضرت مسیح موعودؑ کی مخالفت کے حوالہ سے سیالکوٹ کا کونسا واقعہ بیان فرمایا؟
جواب: فرمایا: حضرت مسیح موعوؑ د کی مخالفت کا ایک واقعہ سیالکوٹ کا ہے جو آپ نے بیان کیا۔ کہتے ہیں کہ حضرت مسیح موعودؑ سیالکوٹ میں گئے تو مولویوں نے فتویٰ دیا کہ جو ان کے لیکچر میں جائے گا اس کا نکاح ٹوٹ جائے گا لیکن چونکہ حضرت مرزا صاحب کی کشش ایسی تھی کہ لوگوں نے اس فتوے کی بھی کوئی پرواہ نہ کی تو مولویوں نے راستوں پر پہرے لگا دیے تاکہ لوگوں کو جانے سے روکیں اور سڑکوں پر پتھر جمع کر لیے کہ جو نہ رکے گا اسے ماریں گے پھر جلسہ گاہ سے لوگوں کو پکڑ پکڑ کر لے جاتے کہ لیکچر نہ سن سکیں۔ کہتے ہیں ایک بی ٹی صاحب ہوتے تھے جو اس وقت سیالکوٹ میں سٹی انسپکٹر تھے اور پھر سپرنٹنڈنٹ پولیس ہو گئے تھے۔ اب معلوم نہیں ان کا کیا عہدہ ہے جب یہ بیان کر رہے تھے۔ ان بی ٹی صاحب کا انتظام تھا۔ جب لوگوں نے شور مچایا اور فساد کرنا چاہا تو چونکہ حضرت صاحب کی تقریر اس نے بھی سنی تھی وہ حیران ہو گیا کہ اس تقریر میں تو حملہ آریوں اور عیسائیوں پر کیا گیا ہے اور جو کچھ مرزا صاحب نے کہا ہے اگر وہ مولویوں کے خیالات کے خلاف بھی ہو تو بھی اس سے اسلام پر کوئی اعتراض نہیں آتا۔ یہ تو عیسائیوں کے خلاف باتیں ہو رہی ہیں اور اگر باتیں سچی ہیں جو مرزا صاحب بیان کر رہے ہیں تو اسلام کا سچا ہونا ثابت ہوتا ہے۔ اگر یہ باتیں سچی ہیں تو اس سے تو اسلام سچا ثابت ہوتا ہے۔ پھر مسلمانوں کے فساد کرنے کی وجہ کیا ہے؟ اگرچہ وہ سرکاری افسر تھا وہ جلسہ میں کھڑا ہو گیا اور کہنے لگا یہ تو کہتے ہیں کہ عیسائیوں کا خدا مر گیا۔ اس پر اس نے وہاں مسلمانوں کو مخاطب کر کے کہا کہ تم کیوں غصہ ہوتے ہو؟ یہ تو یہی کہہ رہے ہیں ناں کہ عیسائیوں کا خدا مر گیا اس میں تمہارے غصہ کی کیا بات ہے۔ یہ تمہارے لیے اچھی بات ہے۔
سوال نمبر10: حضرت مسیح موعودؑ کے سامنے مولویوں کو منانے کی کیا تجویزپیش ہوئی اور آپؑ نے اس کا کیا جواب دیا؟
جواب: فرمایا: ایک دفعہ حضرت مسیح موعودؑ سے ایک شخص نے کہا کہ میں آپ کا بہت مداح ہوں لیکن ایک بہت بڑی غلطی آپ سے ہوئی ہے۔ آپؑ جانتے ہیں کہ علماء کسی کی بات نہیں مانا کرتے کیونکہ وہ جانتے ہیں اگر مان لی تو ہمارے لیے موجب ہتک ہو گی۔ لوگ کہیں گے یہ بات فلاں کو سوجھی انہیں نہ سوجھی۔ اس لیے ان سے منوانے کا یہ طریق ہے کہ ان کے منہ سے ہی بات نکلوائی جائے۔ جب آپؑ کو وفاتِ مسیح کا مسئلہ معلوم ہوا تھا تو آپؑ کو چاہیے تھا کہ چیدہ چیدہ علماء کی دعوت کرتے اور ایک میٹنگ کر کے یہ بات ان کے سامنے پیش کرتے کہ عیسائیوں کو حیات مسیح کے عقیدے سے بہت مدد ملتی ہے اور وہ اعتراض کر کے اسلام کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ تمہارا نبی فوت ہو گیا اور ہمارے مذہب کا بانی آسمان پر ہے۔ اس لیے وہ افضل ہے بلکہ خود خدا ہے۔ اس کا جواب دیا جائے؟ یہ سوال کرتے۔ اس وقت جو علماء آپؑ نے دعوت پہ بلائے ہوتے تو وہ علماء جو تھے یہی کہتے کہ آپ ہی فرمائیے۔ حضرت مسیح موعودؑ کہتے۔ آپ فرمائیں اس کا کیا جواب ہے؟ تو آپؑ کہتے کہ رائے تو دراصل آپؑ لوگوں کی ہی صائب ہو سکتی ہے لیکن میرا خیال ہے کہ فلاں آیت سے حضرت مسیح کی وفات ثابت ہو سکتی ہے۔ علماء فوراً کہہ دیتے کہ یہ بات ٹھیک ہے۔ بسم اللہ کہہ کے اعلان کیجئے ہم تائید کے لیے تیار ہیں۔ یہ طریقہ اس شخص نے حضرت مسیح موعودؑ کو مولویوں کو منانے کا بتایا۔ پھر کہتا ہے کہ پھر اسی طرح یہ مسئلہ پیش ہو جاتاکہ حدیثوں میں مسیح کی دوبارہ آمد کا ذکر ہے مگر جب مسیحؑ فوت ہو گئے تو اس کاکیا مطلب سمجھا جائے گا۔ اس پر کوئی عالم آپ کے متعلق کہہ دیتاکہ آپ ہی مسیح ہیں اور تمام علماء نے اس پر مہر تصدیق ثبت کر دینی تھی۔ یہ تجویز سن کر حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا کہ اگر میرا دعویٰ انسانی چال سے ہوتا تو میں بیشک ایسا ہی کرتا مگر یہ خدا کے حکم سے تھا۔ خدا نے جس طرح سمجھایا اسی طرح میں نے کیا۔ تو چالیں اور فریب انسانی چالوں کے مقابلے میں ہوتے ہیں خدا تعالیٰ کی جماعتیں ان سے ہرگز نہیں ڈر سکتیں۔ یہ ہمارا کام نہیں۔ خود خدا تعالیٰ کا کام ہے۔ وہی اس پیغام کو پہنچائے گا۔
سوال نمبر11: حضرت مصلح موعودؓ نے مولوی عمر الدین کے قبول احمدیت کا کیا واقعہ بیان فرمایا؟
جواب: فرمایا: حضرت مصلح موعودؓ بیان کرتے ہیں کہ ہماری جماعت کے ایک پُرجوش مبلغ ہیں مولوی عمرالدین صاحب شملوی۔ یہ اپنا واقعہ بیان کرتے ہیں کہ وہ بھی اسی معیار پر پرکھ کر احمدی ہوئے تھے۔ وہ سناتے ہیں کہ شملے میں مولوی محمد حسین اور مولوی عبدالرحمٰن سیاح اور چند اَور آدمی مشورہ کر رہے تھے کہ اب مرزا صاحب کے مقابلے میں کیا طریق اختیار کرنا چاہیے۔ مولوی عبدالرحمٰن صاحب نے کہا کہ مرزا صاحب اعلان کر چکے ہیں کہ مَیں اب مباحثہ نہیں کروں گا۔ ہم اشتہار مباحثہ دیتے ہیں اگر وہ مقابلے پر کھڑے ہو جائیں گے تو ہم کہیں گے کہ انہوں نے جھوٹ بولا کہ پہلے تو اشتہار دیا کہ ہم مباحثہ کسی سے نہ کریں گے اور اب مباحثہ کے لیے تیار ہو گئے ہیں اور اگر مباحثے پر آمادہ نہ ہوئے تو ہم شور مچا دیں گے کہ دیکھو مرزا صاحب ہار گئے۔ اس پر مولوی عمر الدین صاحب نے کہا کہ اس کی کیا ضرورت ہے؟ میں جاتا ہوں اور جا کے ان کو قتل کر دیتا ہوں۔ مسئلہ ہی ختم ہو۔ مولوی محمد حسین نے کہا کہ لڑکے تجھے کیا معلوم یہ سب کچھ کیا جا چکا ہے۔ مولوی عمر الدین صاحب کے دل میں یہ بات بیٹھ گئی کہ جس کی خدا اتنی حفاظت کر رہا ہے وہ خدا ہی کی طرف سے ہو گا۔ یہ لڑکے تو تھے۔ انہوں نے کہا کہ اتنی حفاظت اللہ تعالیٰ کر رہا ہے کہ اتنی تدبیروں کے باوجود بچے رہے تو پھر یہ خدا ہی کی طرف سے ہے۔ پھر انہوں نے جب بیعت کر لی تو واپس جاتے ہوئے ان کو مولوی محمد حسین بٹالوی سٹیشن پر ملے۔ کہا تُو کدھر؟ تو انہوں نے کہا کہ قادیان بیعت کر کے آیا ہوں۔ مولوی محمد حسین نے کہا کہ تُو بڑا شریر ہے۔ تیرے باپ کو لکھوں گا۔ تو انہوں نے جواب دیا کہ مولوی صاحب یہ تو آپ ہی کےذریعہ سے ہوا ہے جو کچھ ہوا ہے۔ پس مخالف اس کو، اللہ تعالیٰ کے پیارے کو مارنا چاہتے ہیں اور وہ بچایا جاتا ہے۔ خدا اس کی اپنے تازہ علم سے نصرت کرتا ہے اور ہر میدان میں اس کو عزت دیتاہے۔
سوال نمبر12: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے کونسی ویب سائٹ کے افتتاح کا اعلان فرمایا؟
جواب: فرمایا: یہ کُردش زبان میں جماعتی ویب سائٹ ہے Islamahmadiyya.krd۔ اس ویب سائٹ کا مقصد کردش زبان جاننے والے قارئین کو یہ موقع فراہم کرنا ہے کہ وہ پہلی بار احمدیہ جماعت کے عقائد کو اپنی زبان میں خود پڑھ سکیں۔ یہ ویب سائٹ بنیادی طور پر کردش زبان کے سرانی ڈائیلیکٹ (Dialect) پر مشتمل ہے جس کے ساتھ بادینی ڈائیلیکٹ میں بھی کچھ مواد موجود ہے۔ ویب سائٹ پر خبریں، مضامین، تفسیر، کتابیں اور خطبات جمعہ اور ویڈیو سیکشن شامل ہیں۔ کردش ترجمہ کمیٹی کے تعاون سے اس ویب سائٹ پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی متعدد کتابوں کے ساتھ دیگر جماعتی کتب بھی مہیا کی گئی ہیں۔ حضرت مسیح موعودؑ کی کتابیں ہیں۔ حضرت خلیفہ ثانیؓ کی کتابیں ہیں اور دوسرا جماعتی لٹریچر ہے جس میں اسلامی اصول کی فلاسفی، مسیح ہندوستان میں، ضرورة الامام، حقیقة المہدی، دعوت الامیر، منصب خلافت وغیرہ شامل ہیں۔
٭…٭…٭