متفرق شعراء

سمجھ جاتے ہیں اہلِ دل سبھی مَن میں چھپی باتیں

اسیرانِ محبت کی رہائی بھی نہیں ہوتی

مگر اُن کی زبانوں پر دُہائی بھی نہیں ہوتی

محبت کے الاؤ سے چمک اٹھتے ہیں جسم و جاں

اگرچہ آگ یہ خود تو لگائی بھی نہیں ہوتی

سمجھ جاتے ہیں اہلِ دل سبھی مَن میں چھپی باتیں

کسی نے اپنے دل کی گو سنائی بھی نہیں ہوتی

کسی کو بخش دینا بھی بہت اچھا تو ہے صاحب

مگر حق مانگ لینے میں برائی بھی نہیں ہوتی

وہ یارانِ چمن جن کو ستاتے اور مناتے تھے

ترستے ہیں کہ اب ان سے لڑائی بھی نہیں ہوتی

وہ کہتا ہے مگر کیسے یقیں کر لوں وہ سچا ہے

کہ عاشق ہے اور اس کی جگ ہنسائی بھی نہیں ہوتی

مجھے وہ بھی بتاتے ہیں محبت کیسے کرنی ہے

کہ جن کم ظرف لوگوں نے نبھائی بھی نہیں ہوتی

انہیں تقدیر کی آنکھوں نے حاکم بنتے دیکھا ہے

کہ جن کے گھر میں بستر کیا، چٹائی بھی نہیں ہوتی

جو راہِ عشق ہے اس میں نجیب احمد سمجھ لینا

گریباں چاک ہو جائے، سلائی بھی نہیں ہوتی

(نجیب احمد فہیم)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button