پرسیکیوشن رپورٹس

اسلامی جمہوریہ پاکستان میں احمدیوں پر ہونے والے دردناک مظالم کی الَم انگیز داستان

مارچ2021ء میں سامنےآنے والے چند تکلیف دہ واقعات سے انتخاب

احمدی اہلکار کی نوکری خطرے میں

پچنند، ضلع چکوال، مارچ 2021ء: ایک احمدی محمد اقبال طویل عرصے سے اپنے گاؤں میں نمبردار (گاؤں کے سربراہ) ہیں۔ حاجی ممتاز علی خان نے گاؤں کے 23 لوگوں کے ساتھ اسسٹنٹ کمشنر/ڈسٹرکٹ کلکٹر کو محمداقبال کے خلاف درخواست دی ہے کہ پچنندکا نمبردار احمدی ہے جبکہ یہاں صرف بیس سے پچیس احمدی رہتے ہیں باقی سب مسلمان ہیں۔ انہوں نے لکھا کہ مسلمان بے چین ہیں اور احساس کمتری کا شکار ہیں اس لیے احمدی نمبردار محمد اقبال کو اس عہدے سے ہٹا کر مسلم آبادی میں سے کسی قابل اور موزوں شخص کو مقرر کیا جائے۔

اسسٹنٹ کمشنر نے درخواست کلکٹر کو اس نوٹ کے ساتھ بھیجی کہ رہائشی قادیانی نمبردار پر اسلام مخالف سرگرمیوں اور قادیانی مذہب کی تبلیغ میں ملوث ہونے کا الزام لگاتے ہیں۔ ان کے خلاف 10؍اکتوبر2004ء کو دفعہ 302، 148اور109 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا جو باہمی صلح پر ختم ہوا۔ قواعد کے مطابق اگر محمد اقبال نمبردار کے عہدے کے لیے اہل نہیں ہیں تو انہیں عہدے سے ہٹا کر کسی موزوں شخص کو پچنند کا نمبردار مقرر کیا جائے۔ اس سلسلے میں محمداقبال کو دو تین بار طلب کیا جا چکا ہے۔ مخالفین نے اس سلسلے میں چند عدالتی فیصلے پیش کیے جن میں احمدیوں کو ان کے عقیدے کی بنا پر ان کے عہدوں سے ہٹا دیا گیا تھا۔ موصوف اعلیٰ افسران کے فیصلے کے منتظر ہیں۔

جھوٹے الزامات کے ذریعے احمدیوں کو سخت ہراساں کرنا

کراچی/ایبٹ آباد، مارچ 2021ء: شیر شاہ پراچہ فیکٹری میں کام کرنے والے فیضان کو پولیس نے اس وقت بچایا جب ایک مشتعل ہجوم نے فیکٹری پر قرآن کریم کی بے حرمتی کا الزام لگاتے ہوئے حملہ کیا۔ جب ہجوم نے فیکٹری پر حملہ کیا تو موصوف نے اپنے آپ کو ایک کمرے میں بند کرلیا۔ سوشل میڈیا پر انہیں احمدی کہہ کر یہ معاملہ اٹھایا گیا۔

حملے کے بعد، متاثرہ شخص نے مبینہ طور پر ایک ویڈیو میں پورا واقعہ بیان کیااور قرآن کریم کی بے حرمتی سے انکار کیا۔ انہوں نے کہا کہ وہ کچھ خاندانی مسائل سے گزر رہے ہیں، اور اسے حل کرنے کے لیے مولویوں سے رابطہ کیا جنہوں نے ان سے پیسے تو لیے لیکن مسئلے کو حل کرنےکے لیے کچھ نہیں کیا۔ انہوں نے قرآن پر توہین آمیز تبصرے کرنے یا اس کی بےحرمتی سے انکار کیا۔ تفتیش سے ثابت ہوا کہ وہ احمدی نہیں بلکہ سنی ہیں اور ان کا احمدی ہونا من گھڑت ہے۔

اسی نوعیت کے ایک اور واقعے میں 12؍مارچ کو ایبٹ آباد میں جیل میں قرآن کریم کی مبینہ بے حرمتی کرنے والے قیدی کے خلاف ریلی نکالی گئی۔ شرکاء نے اس کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا۔ سوشل میڈیا پر چند لوگوں نے یہ خبر پھیلائی کہ ملزم قادیانی ہے۔ درحقیقت مذکورہ جیل میں کوئی احمدی قیدی نہیں ہے۔ ملزم ذہنی طور پر غیر مستحکم ہے اور اسی الزام میں زیر حراست ہے۔ ان دنوں سوشل میڈیا پر اکثر یہ بات چل رہی ہے کہ جب کہیں بھی ایسا واقعہ ہوتا ہے تو کچھ لوگ جھوٹے الزام میں ملزم کو احمدی کہتے ہیں۔ تحریک لبیک (TLP) اکثر ان خیالات کو فروغ دینے والے ہیں۔ اسی طرح کے واقعات جھکڑ امام شاہ، ڈیرہ غازی خان، گرین ٹاؤن لاہور اور راولپنڈی میں دہرائے گئے۔

نمائندہ خصوصی کا قابل تعریف بیان

ملتان، 9؍مارچ 2021ء: brecorder.comکے ذریعے پاکستان، اے پی پی۔ 09؍مارچ 2021ء کو درج ذیل آن لائن اطلاع دی گئی:

ملتان: وزیراعظم کے نمائندہ خصوصی برائے مذہبی ہم آہنگی مولانا طاہر محمود اشرفی نے منگل کے روز کہا کہ اقلیتوں کو کسی قسم کے خوف کا شکار نہیں ہونا چاہیے کیونکہ وہ محفوظ ہیں۔ اسی طرح ملک کا آئین اقلیتوں کے حقوق کا محافظ ہے۔ مولانا طاہر اشرفی نے کہا کہ ’’کوئی بھی اقلیتوں کو ان کے حقوق سے محروم نہیں کر سکتا۔ ‘‘وزیراعظم کے نمائندہ خصوصی نے ریمارکس دیے کہ موجودہ حکومت مسجد، مدرسہ اور عقیدہ ختم نبوت کی محافظ ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے اقوام متحدہ میں اسلام کا مقدمہ مؤثر انداز میں پیش کیا۔ اسی طرح آرگنائزیشن آف اسلامک کنٹریز میں بھی اسلامو فوبیا پر قرارداد پیش کی گئی۔

احمدی اقلیتوں کے بارے میں خصوصی نمائندہ کے مذکورہ بالا بیان کا بہت احترام کرتے ہیں۔ ان کو اچھی طرح علم ہےکہ دوسری آئینی ترمیم نے انہیں آئین اور قانون کے مطابق ایک غیر مسلم اقلیت کا درجہ دیا ہے۔ وہ محترم حافظ اشرفی کی طرف سے دی گئی یقین دہانی پر عمل درآمد کے عنصر کا بغور مشاہدہ کریں گے، جیسا کہ 8؍اکتوبر 2020ء کے روزنامہ ڈان میں شائع شدہ تحریر کے مطابق: روایتی طور پر، ایسے فتوے اور اعلانات (جیسا کہ ضابطہ اخلاق کے 20 نکات CII، اور Paigham Pakistan of 2018میں درج ہے) نے پاکستان میں زیادہ تر بنیاد پرست عناصر اور انتہا پسند گروپوں پر بہت کم یا کوئی اثر نہیں ڈالا ہے۔ ایسے مسودوں اور حکم ناموں کی موجودگی میں بھی انتہا پسند عناصر اور گروہ اپنے عقائد یا دیگر اندرونی و بیرونی وجوہات کے مطابق نفرت پھیلاتے رہیں گے۔

پاکستان نے اسلامو فوبیا پر قرارداد پیش کر کے واقعی اچھا کیا، تاہم اسے ایسے عناصر سے ہوشیار رہنا چاہیے جو احمدی فوبیا کو رواج دیتے ہیں اور ملک کی بدنامی کرتے ہیں۔

ضمانت نہیں دی گئی

لاہور: روحان احمدصاحب اور دیگر کے خلاف سائبر کرائمز ونگ، لاہور نے29؍مئی 2020ءکو ایف آئی آر نمبر 29 PPCs 295-B 298-C,120-B 109 34 اور PECA-11 کے ماتحت کیس درج کیا تھا۔ انہیں گرفتار کر لیا گیا۔ دو دیگر افراد حافظ طارق احمد اور ملک عثمان احمدکی عارضی ضمانتیں کنفرم نہیں ہوئیں اس لیے انہیں بھی 16؍جولائی 2020ء کو گرفتار کر لیا گیا۔ ان احباب پر الزام ہے کہ انہوںنےمبینہ طور پر سوشل میڈیا پر قرآنی اور مذہبی معلومات شیئر کیں جس کے جرم میں انہیں قید کیا گیا ہے۔

سپریم کورٹ کی طرف سے ضمانت

اسلام آباد، 15؍مارچ2021ء: جامعہ احمدیہ ربوہ کے طالب علم وقار احمد اور تین احمدی بزرگوں کے خلاف 12؍نومبر2019ء کو توہین رسالت قانون 295-B، احمدی مخالف قانون 298-C اور دیگر قوانین کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔ ایف آئی اے لاہور نے مولوی حسن معاویہ کی شکایت پر 12؍نومبر 2019ء کو مبینہ طور پر قرآنی مواد شیئر کیا۔ وقار احمد کو گرفتار کر لیا گیا۔

مجسٹریٹ ذوالفقار باری نے 8؍اپریل 2020ء کو ان کی ضمانت کی درخواست مسترد کر دی۔ محترمہ مصباح اے ایس جے لاہور نے یکم ستمبر 2020ء کو مجسٹریٹ کے فیصلے پر کی جانےوالی اپیل مسترد کر دی۔

لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس صداقت علی خان نے اپیل کی سماعت کی اور21؍جنوری 2021ء کو اسے مسترد کر دیا۔

لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کر دی گئی۔ تین ججز پر مشتمل سپریم کورٹ کے بنچ نے اپیل کی سماعت کی اور 15؍مارچ 2021ء کو ضمانت منظور کی۔

سوشل میڈیا پر مبینہ طور پر مذہبی مواد شیئر کرنے والے احمدی گرفتار ہو جاتے ہیں، اور اپنی ضمانت کے لیے انہیں سپریم کورٹ کے بنچ کے پاس جانا پڑتا ہے۔ احمدیوں کے لیے مذہبی آزادی کہاں ہے!

تین سال قید

تاندلیانوالہ، ضلع فیصل آباد، 17؍مارچ 2021ء: گاؤں سے تعلق رکھنے والے سعید اے وڑائچ کو جنوری 2018ء میں توہین مذہب کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔ انہوں نے توہین رسالت کا ارتکاب نہیں کیا تھا۔ لیکن ایک دکاندار کے ساتھ جھگڑا ہونے پر دکاندار نے توہین رسالت کی کہانی گھڑ لی اور پولیس نے اس دفعہ PPC 295-C کے تحت مقدمہ درج کر لیا۔ مقدمے کی سماعت فیصل آباد میں ہوئی۔ قابل تعریف جج اے ایس جے شازیہ چیمہ نے موصوف کو 17؍مارچ 2021ء کو بری کر دیا۔ سعید اے وڑائچ نے اس جرم کے لیے جس کا ارتکاب نہیں کیا تھاتین سال اور دو ماہ قید میںگزارے۔ تین سال ایک طویل عرصہ ہے۔

(مرتبہ: ’اے آر ملک‘)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button