پرسیکیوشن رپورٹس

اسلامی جمہوریہ پاکستان میں احمدیوں پر ہونے والے دردناک مظالم کی الَم انگیز داستان

مارچ2021ء میں سامنےآنے والے چند تکلیف دہ واقعات سے انتخاب

احمدیہ مسجد کی تزئین و آرائش میں مسائل

چرناڑی، تتہ پانی، آزاد کشمیر،6؍مارچ 2021ء: یہاں کی احمدیہ مسجد میں غسل خانوں وغیرہ کی تعمیر کا کام شروع کیا گیا۔ تحریک لبیک یا رسول اللہ کے محمد آصف نے کلمہ لکھنےاور احمدیہ مسجد کے محراب کے خلاف تھانے میں درخواست دائر کردی۔ اس کی شکایت پر پولیس نے 6؍مارچ 2021ء کو فریقین کو طلب کیا۔ دونوں فریقوں کو سننے کے بعد پولیس نے درج ذیل معاہدہ طے کروایا:

1۔ محمد حنیف وغیرہ نے اپنی عبادت گاہ [مسجد]پر کلمہ لکھا ہے۔ وہاں مسجد کی طرز پر محراب تعمیر کیا گیا ہے۔TLP عدالت سےاس امر پر رجوع کر سکتی ہے۔

2۔محمد حنیف اور دیگر لوگ غسل خانے وغیرہ بنا سکتے ہیں۔ تعمیر کے بعد وہ فوارے کی طرف چار فٹ تک حفاظتی دیوار بنائیں گے۔وہ سامنے والی سڑک پر سات فٹ تک حفاظتی دیوار بنانے کے بعد گیٹ لگائیں گے۔

3.۔اس تعمیر کی تکمیل کے بعد، محمد حنیف اور دیگر کوئی مزید توسیع نہیں کریں گے۔ اگر انہیں ضرورت ہو تو وہ عدالت کی اجازت سے ہی ایسا کر سکتے ہیں۔

4۔اگر کوئی اس معاہدے کی خلاف ورزی کرے گا تو اس کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی۔

دونوں فریقین نے معاہدے پر دستخط کر دیے۔

ایک احمدی کو دھمکی آمیز خط

ٹاؤن شپ، لاہور،25؍مارچ2021ء: ملک محمود احمد ٹاؤن شپ لاہور میں رہتے ہیں۔ 25؍مارچ کو ایک نامعلوم شخص نے ان کے گھر پر کاغذ کی پرچی پھینکی جس میں لکھا تھا، ’’ایک ہفتے کے اندر چلے جاؤ۔ اگر ایسا نہیں کرتے تو ہم تم پر حملہ کردیں گے۔‘‘موصوف اس وجہ سے پریشان ہیں۔

ضلع میرپور خاص سندھ میں نفرت اور تشدد

جھڈو اور نوکوٹ، ضلع میرپور خاص، مارچ 2021ء: کچھ عرصے سے احمدیوں کے مخالفین ضلع میرپور خاص کے ان قصبوں میں وسیع پیمانے پر احمدی مخالف سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔ اس سے پہلے جھڈو میں احمدی مخالف پوسٹر ہٹانے پر پولیس نے ایک احمدی کو گرفتار کیا تھا لیکن بعد میں اسے چھوڑ دیا گیا۔

9؍مارچ کو، مخالفین نے جھڈو میں ایک ریلی نکالی، جس میں ملاؤں نے جماعت احمدیہ کے خلاف ہجوم کو بھڑکایا اور احمدیوں کے قتل، احمدیوں کے گھروں کو جلانے، کاروبار بند کرنے اور احمدیوں کے سماجی بائیکاٹ کا مطالبہ کیا۔

11؍مارچ کو نوکوٹ کے کچھ احمدی بچے اپنی مسجدکی صفائی کے بعد گھر جا رہے تھے کہ پیچھے سے ان پر پتھر پھینکے گئے جس سے دو بچے زخمی ہو گئے۔

اگلے دن کسی نے مقامی احمدی مبلغ کے گھر پر پتھر اور اینٹیں پھینکیں۔ خوش قسمتی سے کوئی نقصان نہیں ہوا ۔ تاہم اس نے مقامی احمدیوں کے امن کو بہت متاثر کیا۔

احمدی طالب علم کو قتل کی دھمکیاں اور استاد اور ہم جماعت طلبہ کی جانب سے ہراسگی کا سامنا

چونڈہ، ضلع سیالکوٹ،مارچ 2021ء: ایک احمدی طالب علم مسرور احمد کو گورنمنٹ کالج چونڈہ ڈسٹرکٹ سیالکوٹ میں احمدی ہونے کی وجہ سے مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ اسلامیات کے استاد نے غیر مسلموں کے حقوق کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ’’تمام غیر مسلموں کو ان کے حقوق ملنے چاہئیں، لیکن قادیانی مرتد، کافر ہیں۔ ان کے ساتھ ہمدردی نہ کرو۔ انہیں جہاں بھی پاؤ مار ڈالو۔‘‘لیکچر کے بعد طلبہ نے مخالفانہ طرز عمل اختیار کرتے ہوئے جماعت کو برا بھلا کہنا شروع کردیا۔ چند ایک کو چھوڑ کر زیادہ تر طلبہ کو یہ معلوم نہیں تھا کہ مسروراحمد ایک احمدی ہیں۔ اس لیکچر کے بعد ان کے کلاس فیلوز نے انہیںگالیاں دیں اور ڈرایا دھمکایا۔

احمدیت کی وجہ سے نوکری سے نکال دیا گیا

گلشن آباد ضلع ڈیرہ غازی خان، مارچ 2021ء: رضوان احمد نے یونیورسٹی آف ایگریکلچر، فیصل آباد سے اینٹامولوجی میں M.Sc کیا ہےاور پچھلے چار سالوں سے کیڑے مار دواؤں کی صنعت میں علاقائی مینیجر کے طور پر کام کر رہے تھے۔ ان کے کچھ ساتھیوں کو معلوم تھا کہ وہ احمدی ہیں لیکن انتظامیہ کو معلوم نہیں تھا۔ جب انتظامیہ کو معلوم ہوا کہ وہ احمدی ہیں تو انہوں نے انہیں بلایا، ان سے کہا کہ وہ اپنا عقیدہ بدل لیں ورنہ نوکری چھوڑ دیں، اور انہیں جلد فیصلہ کرنے کی تاکید کی۔ انتظامیہ انہیں اکثر بلایا کرتی اور ان سے احمدیت کو ترک کرنے کا مطالبہ کرتی ہے۔

گذشتہ کچھ عرصے سے راجن پور اور ڈیرہ غازی خان میں احمدیت کی مخالفت بڑھ رہی ہے۔موصوف نے صبر کے ساتھ حالات کا مقابلہ کیا اور اشتعال انگیزی کا جواب دینے سے گریز کیا۔دو ماہ بعد، انتظامیہ نے دیکھا کہ وہ اس مسئلے کے بارے میں بالکل بھی بات نہیں کر تے اور نہ ہی اپنے عقائد کو تبدیل کیاہے لہٰذا انہوں نے انہیں نوکری سے نکال دیا اور انڈسٹری میں ان کے بارے میں یہ خبرپھیلا دی۔

موصوف کو انڈسٹری میں ملازمت کی کافی پیشکشیں تھیں لیکن ان کی برطرفی کی خبر پھیلنے کے بعد سب نے انہیں ملازمت دینے سے انکار کردیا۔ ڈیلرز نے ان کا بائیکاٹ کیا۔ کمپنی کی طرف سے انہیں دی گئی گاڑی جو کمپنی کے قواعد کے مطابق چھ ماہ بعد انہیں مستقل طور پر دی جانی تھی وہ بھی واپس کرنے کا کہہ دیا گیا۔ انہیں مارکیٹ کلیئرنس پر دس لاکھ روپے سے زائد کی مراعات ملنی تھیں، جو اس واقعے کے بعد حاصل کرنا مشکل ہو گیا ہے۔

موصوف اس وقت نوکری کی تلاش میں ہیں اور اپنے عقیدے کی پاداش میں مشکل حالات سے دوچار ہیں۔

احمدیوں کو اپنی ملازمتوں میں جھوٹے الزامات اور دشمنی کا سامنا کرنا پڑتا ہے

ڈیرہ غازی خان، مارچ 2021ء: مبشر احمد سلو لرنرز اسپیشل ایجوکیشن کمپلیکس ڈیرہ غازی خان کے ہیڈ ماسٹر ہیں۔ ان کے بھائی ظفر احمد اسی اسکول میں کلرک ہیں۔ مبشر احمد کی اہلیہ راشدہ طیبہ ہیڈ مسٹریس گورنمنٹ اسپیشل ایجوکیشن سنٹر ڈیرہ غازی خان ہیں۔ موصوف کی ایک ہمشیرہ زرغونہ بشیر اسپیشل ایجوکیشن گورنمنٹ اسکول فار ڈیف مظفر گڑھ میں سینئر ٹیچر ہیں۔ جبکہ ان کی ایک اور بہن تہمینہ اسپیشل ایجوکیشن شاداب اسکول ڈیرہ غازی خان میں ٹیچر ہیں۔ اسی طرح ایک اور احمدی شفیق الرحمن اسپیشل ایجوکیشن اسکول راجن پور میں استاد ہیں۔یہ تمام احمدی ایک ہی خاندان سے تعلق رکھتے ہیںاور عرصہ دراز سے محکمہ تعلیم میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔ انہیں اپنے عقیدے کی مخالفت اور ایذا رسانی کا سامنا ہے۔ اسپیشل ایجوکیشن میں شاہد نواز گروپ احمدیوں کے خلاف سرگرم ہے اور محکمے کے افسران کے پاس ان کے خلاف درخواستیں دائر کر رہا ہے۔

2016ء میں آرٹس کونسل میں ایک تقریب کے دوران ایک مولوی رحمت اللہ نے ظفر احمد سے کہا کہ وہ مسلمان نہیں ہیں۔ اس پر کچھ ہنگامہ بھی ہوا۔

سابق ڈی ای او اسپیشل ایجوکیشن رفیع اللہ محکمے کی ایک میٹنگ میں گئے وہاں سیکرٹری ایجوکیشن نے ان سے احمدیوں کا مسئلہ پوچھا۔ ڈی ای او نے جواب دیا کہ یہ لوگ اسپیشل ایجوکیشن میں محنت کر رہے ہیں۔اس لیے محکمہ اچھا کام کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ لوگ اچھے اور مخلص کارکن ہیں۔

پھر مخالفین نے مبشر احمد اور دیگر کے خلاف اسپیشل ایجوکیشن کے ایک خاکروب کے ذریعےدرخواست دائر کروائی جس میں اس نے ان پر الزام لگایا کہ وہ انہیں اپنے پرائیویٹ ادارے میں کام کرنے پر مجبور کر رہے تھے اور ان پر دباؤ ڈال رہے تھے کہ وہ احمدیت قبول کرے، یا برخاستگی کا سامنا کرے۔ یہ ایک من گھڑت الزام تھا۔

اسی طرح محکمے میں احمد یوں کی حمایت کرنے والوں کو بھی ہراساں کیا جاتا ہے۔ مذکورہ درخواست میں، خاکروب نے ایک غیر احمدی نیز رابعہ نذرپر بھی الزام لگایا، جو کہ احمدی فیملیوں کے ساتھ دوستانہ مراسم رکھتے ہیں۔

2017ء میں، احمدی مخالف شاہد نواز ہیڈ ماسٹر نے شفیق الرحمٰن کو ہراساں کیا اور ان سے کہا کہ وہ انہیں نوکری سے نکال دیں گے۔ تاہم ڈی ای او اسپیشل ایجوکیشن نے مداخلت کرکے مسئلہ حل کرایا۔ چند ماہ قبل ان ہیڈ ماسٹر کو عہدے سے ہٹا دیا گیا تھا جس سے وہ اور ان کے اہل خانہ ناراض تھے۔

مبشر احمد ڈیرہ غازی خان میں غازی کالج آف سوشل سائنسز کے نام سے ایک نجی ادارہ چلاتے ہیں۔ یہ ادارہ ایم اے اسپیشل ایجوکیشن، ایم اے اردو، بی ایڈ اور سپیچ اینڈ لینگویج میں ڈپلومہ کرواتا ہے۔ یہ ادارہ یونیورسٹی آف ایجوکیشن لاہور سے الحاق شدہ ہے۔ اس ادارے کا پرنسپل ایک غیر احمدی ہے۔ مخالفین اس ادارے کی مخالفت کر رہے ہیں۔ اس ادارے کے خلاف جھوٹی گمنام درخواستیں دائر کی گئیں جن میں ان پر احمدیت کی تبلیغ کا الزام بھی شامل تھا۔ تحریک ختم نبوت اس معاملے میں سرگرم ہے۔

نومبر 2020ءمیں، اسپیشل برانچ کی جانب سے مبشر احمد کے خلاف ایک گمنام شکایت پر سینئرز کو ایک رپورٹ پیش کی گئی۔ رپورٹ میں درج تھا کہ ا سپیشل ایجوکیشن کمپلیکس میں گروپ بندی جاری ہے۔ شاہد نواز گروپ قادیانی مذہب کی وجہ سے مبشر احمد گروپ کی مخالفت کرتا رہتا ہے۔ اس سے قبل بھی 2014ء میں گمنام درخواستیں دی گئی تھیں۔ اس درخواست میں قادیانی مذہب کی بنیاد پر الزامات لگائے گئے ہیں، ان کی تصدیق نہیں کی گئی اور نہ ہی گمنام درخواست گزار کی شناخت کی جاسکی ہے۔

مخالفین نے بارہا ان احمدیوں کے خلاف پولیس مقدمات گھڑنے کی سازش کی ہے۔ ان حالات میں مبشر احمد نے تنازعہ سے بچنے کے لیے دو ماہ کی چھٹی مانگ لی ہے جبکہ شفیق الرحمٰن کا تبادلہ کر دیا گیا ہے۔ احمدی پر امن انداز سے ملازمت کرنا پسند کرتے ہیں اور ان حالات کے پیش نظر پریشان ہوتے ہیں۔

(مرتبہ: ’اے آر ملک‘)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button