دعا

کسی غیرمسلم کی وفات پر افسوس کا اظہار کرنے، اِنَا لِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیہِ رٰجِعُونَ کی دعا پڑھنے اور اللہ تعالیٰ کا رحم مانگنے میں کوئی حرج نہیں

سوال: ایک دوست نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں لکھا کہ کیا میں اپنے کسی ایسے عیسائی، ہندو یا بدھ مت سے تعلق رکھنے والے دوست کی وفات پر اس کےلیے دعا کر سکتا ہوں جو جماعت احمدیہ کےلیے اچھے اور پیار کے جذبات رکھتا تھا؟ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مورخہ 15؍فروری 2021ء میں اس سوال کا درج ذیل جواب عطا فرمایا:

جواب: جیسا کہ میں نے پہلے بھی آپ کو لکھا تھا کہ اسلام ہمیں کسی انسان سے نفرت نہیں سکھاتابلکہ صرف اس کے بُرے فعل سے بیزاری کی تعلیم دیتا ہے۔ اور جہاں تک کسی کے جنت یا جہنم میں جانے کا معاملہ ہے تو اسے اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ میں رکھا ہے اور کسی دوسرے انسان کو یہ اختیار نہیں دیا کہ وہ اس دنیا میں بیٹھ کر کسی انسان کی جنت یا جہنم کا فیصلہ کرے۔ ہاں یہ بات درست ہے کہ اللہ تعالیٰ بعض اوقات اپنے انبیاء اور فرستادوں کو کسی شخص کے جنتی یا جہنمی ہونے کا علم دےدیتا ہے۔ لیکن اس شخص کے جنتی یا جہنمی ہونے کا فیصلہ صرف اللہ تعالیٰ ہی کرتا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں اس مضمون کو بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ ’’یقیناً جو لوگ (محمد رسول اللہﷺ پر) ایمان لائے اور وہ لوگ جو یہودی بن گئے اور صابی اور نصرانی اور مجوسی اور وہ لوگ بھی جنہوں نے شرک کیا۔ اللہ یقیناً ان کے درمیان قیامت کے دن فیصلہ کر دے گا۔ اللہ یقیناً ہر ایک چیز کا نگران ہے۔‘‘(الحج: 18)

پھر اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اس مضمون کو بھی بیان فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کسی بھی انسان کے نیک عمل ضائع نہیں کرتا خواہ وہ انسان کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتا ہو۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ’’جو لوگ ایمان لائے ہیں اور جو یہودی ہیں نیز نصاریٰ اور صابی (ان میں سے) جو (فریق) بھی اللہ پر اور آخرت کے دن پر (کامل) ایمان لایا ہے اور اس نے نیک عمل کئے ہیں یقیناً ان کےلئے ان کے رب کے پاس ان کا (مناسب) اجر ہے۔‘‘(البقرہ: 63)

پس کسی کی وفات پر افسوس کا اظہار کرنے، اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ کی دعا پڑھنے اور اللہ تعالیٰ کا رحم مانگنے میں کوئی حرج نہیں۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ پڑھنے سے توخود پڑھنے والے کےلیے بھی دعا ہوجاتی ہے۔ کیونکہ کسی تکلیف یا نقصان کے پہنچنے پر اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ دعا پڑھنے کی تلقین فرمائی ہے۔ اوراس دعا سے غرض یہ ہوتی ہے کہ اے اللہ تو اس تکلیف کو دور فرما دے یا اس نقصان کو پورا فرما دے۔ اورجب کسی کی وفات پر ہم یہ دعا کرتے ہیں تو اس سے ایک مقصد یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اے اللہ اس انسان کے ساتھ جو میری توقعات وابستہ تھیں، اس کے مرنے کے بعد تو ان توقعات کو پورا فرما دے۔

اللہ تعالیٰ کا رحم بھی انسان کسی کےلیے بھی مانگ سکتا ہے، کیونکہ رحم کرنا بھی اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے اور وہی بہتر جانتا ہے کہ اس نے کس انسان پر کس وقت رحم کرنا ہے۔ چنانچہ احادیث میں آتا ہے کہ ایک وقت ایسا آئے گا کہ اللہ تعالیٰ کے رحم کے نتیجے میں جہنم بالکل خالی ہو جائے گی۔ (تفسیر الطبری، تفسیر سورۃ ھود آیت نمبر 108)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button