اسلامی جمہوریہ پاکستان میں احمدیوں پر ہونے والے دردناک مظالم کی الَم انگیز داستان
فروری/مارچ2021ء میں سامنےآنے والے چند تکلیف دہ واقعات سے انتخاب
پولیس نےسولہ احمدیوں کی قبریں شہید کر دیں
کوٹ دیال داس، ضلع ننکانہ، مارچ2021ء: کچھ عرصے سے احمدیوں کے مخالفین یہاں وسیع پیمانے پر احمدی مخالف سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔ 15؍جنوری کو پولیس نے مخالفین کے کہنےپر کارروائی کرتے ہوئےاحمدیوں کی مسجدکے محراب کو شہید کر دیا اور اس کے میناروں کے گرد دیوار تعمیر کر دی۔
فروری میں، ایک احمدی اخلاق احمد کو غلام مرتضیٰ تیلی کا فون آیا جس نے زمین کے ایک حصے کا مطالبہ کیا جو اخلاق کے پاس ہے اور وہ اپنے مویشیوں کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ غلام مرتضیٰ نے اخلاق کوحصہ نہ دینے پر زمین پر قبضہ کرنے کی دھمکی دی۔
21؍فروری کو ایک احمدی نوجوان محمود احمد، غلام مرتضیٰ کے گھر کے سامنے سے گزرےتو اُس کے خاندان کے نوجوانوں نے اس پر حملہ کردیا۔ گھر پہنچ کر اس نے اپنے گھر والوں کو اس بارے میں بتایا۔ کچھ احمدی موصوف کے گھر گئے جہاں اس نے اپنی چھت سے ان پر گولیاں چلا دیں۔ اسی دوران کسی نے پولیس کو فون کیا۔ پولیس نے اگلے دن فریقین کو تھانے بُلا کر تصفیہ کا انتظام کیا۔ پولیس نے احمدیوں سے اس طرح کے معاملے میں دوبارہ نہ شامل ہونے کا حلف نامہ لیا اور فریقین کو واپس بھیج دیا۔
24؍فروری کو قریبی گاؤں سے تعلق رکھنے والے اصغر علی نے پولیس اسٹیشن میں شکایت درج کرائی کہ احمدیوں نے پولیس میں جمع کرائے گئے حلف نامے میں خود کو ’مسلمان‘ کہا ہے۔ درحقیقت ایس ایچ او پولیس نے خود بیان حلفی لکھا تھا اور اس میں لفظ ’احمدی مسلم‘ استعمال کیا تھا۔ اس لیے پولیس نے علی کی شکایت پر کوئی کارروائی نہیں کی۔
27؍فروری کی رات کوکچھ نامعلوم افراد نے ایک احمدی،پولیس اہلکار نصیر احمد کے گھر پر گولیاں چلائیں۔ انہوں نے پولیس کو بلایا۔ پولیس پہنچی، جائے وقوعہ کا معائنہ کیا اور رات بھر وہیں موجود رہی۔ اگلے دن تھانے میں شکایت درج کرائی گئی۔
28؍فروری کو ایک احمدی سکول ٹیچر نصیر احمد اپنے ڈیرے کی طرف جا رہے تھے کہ کچھ غیر احمدیوں نے انہیں روکا اور برا بھلا کہا۔ اس واقعہ کی اطلاع موصوف نےپولیس کو دی۔
27اور28؍فروری کو پیش آنے والے واقعات کے سلسلے میں یکم مارچ کو پولیس نے فریقین کو طلب کیا۔ اس میٹنگ میں تمام واقعات پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ مخالفین نے نصیر احمد کے گھر پر فائرنگ کے واقعہ سے لاعلمی کا اظہار کیا۔ پولیس نے واقعے کی مزید تحقیقات کا فیصلہ کیا اور فریقین کو امن سے رہنے کی ہدایت کی۔ واپسی پر ایک مخالف نے نصیر احمد کو روکنے کی کوشش کی اور مکے مارے۔ اس پروہ واپس پولیس اسٹیشن گئے اور اس کی اطلاع دی۔ چنانچہ پولیس نے انہیں تین گھنٹے تک تھانے میں رکھا تاکہ کسی بھی حادثے سے بچا جا سکے جس کے بعد موصوف کو جانے کی اجازت دی گئی۔ انہوں نے اپنا راستہ تبدیل کیا اور گھر واپس آگئے۔
2؍مارچ کو پولیس نے نصیر احمد کے گھر پر فائرنگ کے واقعہ کی تحقیقات کے لیے گاؤں کا دورہ کیا۔ اس کے بعد مخالفین نے اپنا منصوبہ بدل لیااور مذہب کی آڑ لینے کا فیصلہ کیا۔ انہوں نے احمدیہ قبرستان کے خلاف پولیس میں شکایت درج کروائی جس میں الزام لگایا گیا کہ احمدیوں کے مقبروں پر اسلامی تحریریں لکھی گئی ہیں۔ ان کو ہٹا دیا جانا چاہیے۔ 11؍ مارچ 2021ء کو رات تقریباً 9 بجے، پولیس نے احمدیوں سے رابطہ اور مشاورت کیے بغیر، مخالفین کی شکایت پر کارروائی کرتے ہوئے 16 قبروں کے کتبوں کو شہید کر دیا اور ملبہ اپنے ساتھ لے گئے۔
احمدیوں کے ساتھ پاکستانی ریاست کے سوتیلے بچوں جیسا سلوک کیا جاتا ہے۔ جو ریاست کی طرف سے آئین کی خلاف ورزی ہے۔
احمدیوں پر حملہ
خوشاب، 8؍مارچ 2021ء: نصرت الٰہی مجوکہ ایک احمدی ہیں۔ 8؍مارچ کو وہ اپنی بہن کے گھر جا رہے تھے کہ راستے میں انہیں روک لیا گیا۔ موٹرسائیکل پر سوار دو نوجوانوں نے ان سے کہا: ’’کیا حال ہیں؟ ہمیں تم سے بات کرنی ہے۔ چلو ایک طرف ہو جاؤ۔ ‘‘ اس پر موصوف نے کہا کہ وہ انہیں نہیں جانتے۔ جب سب سڑک کے کنارے رکے تو ساتھ والے پارک میں پہلے سے کچھ نوجوان موجود تھے۔
جب نصرت الٰہی مجوکہ نے ان سے اپنا تعارف کرانے کو کہا تو انہوں نے کہا: ’’ٹھہرو اے مرزائی، ہم تمہیں تعارف کراتے ہیں۔ ‘‘ اور پھر انہیں مارنا شروع کر دیا۔ اسی دوران ایک راہ گیر نے ان سے پوچھا کہ وہ انہیں کیوں مار رہے ہیں۔ انہوں نے موصوف پر لعنت بھیجی اور کہا کہ وہ مرزائی ہیں۔ راہ گیر نے کہا کہ اگر وہ مرزائی ہے تو کیا ہوگیا؟ اس نے تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچایا؟ اس نے مزید لوگوں کو مدد کے لیے بلایا۔ اس پر حملہ آور نصرت الٰہی مجوکہ کو چھوڑ کر فرار ہو گئے۔ انہوں نے موصوف کو بری طرح زخمی کر دیا۔
ضمانت کے بعد دوبارہ گرفتار
لاہور، 27؍فروری2021ء: لاہور کے ایک احمدی ملک ظہیر احمد کو 30؍ستمبر 2021ء کو سائبر کرائمز ونگ، لاہور نے PPCs 295-B، 298-C، 109 اور PECA 11 کے تحت ناجائز طریقے سے مقدمہ درج کر کے گرفتار کر لیا۔
لاہور ہائی کورٹ نے 23؍فروری 2021ء کو ان کی درخواست ضمانت منظور کی اور انہیں 27؍فروری کو رہا کر دیا گیا۔
اس کے فوراً بعدسائبر کرائمز ونگ لاہور نے انہیں ایک اور مقدمے، FIR 88 مندرجہ20؍جون 2020ءکے تحت دوبارہ گرفتار کر کے جیل بھیج دیا۔ یہ بتانا انتہائی ضروری ہے کہ ظہیراحمد کا اس ایف آئی آر میں نام نہیں تھا اور نہ ہی انہیں خود پیش ہونے کو کہا گیا تھا۔ ان کی دوبارہ گرفتاری صریحاً بےبنیاداور بدنیتی پر مبنی ہے۔
کے پی کے میں احمدیوں کے گھروں پر مسلح حملہ
پشاور، 12؍مارچ 2021ء: بازید خیل میں 12؍مارچ کی رات تقریباً 1بجے نامعلوم افراد نے احمدیوں کے گھروں پر فائرنگ کی۔ ارشد اقبال، روح الامین اور صاحبزادہ محمد رفیق کے اہل خانہ وہاں مقیم ہیں۔ نو گولیاں ارشد اقبال کے گھر پر چلائی گئیں جبکہ باقی دو افراد پر چار سے پانچ دفعہ گولیاں چلائی گئیں۔
فروری 2021ء میں ہومیوپیتھ عبدالقادر کو اسی گاؤں میں ان کے کلینک میں گولی مار کر شہید کر دیا گیا تھا۔ مخالفین نے 25؍ فروری کو وہاں احمدیہ مخالف جلوس نکالا اور کلینک کو بند کرنے کا مطالبہ کیا۔ مساجد میں باقاعدہ طور پر احمدی مخالف خطبات دیے جاتے ہیں۔
ایسا لگتا ہے کہ شرپسندوں کا مقصد احمدیوں کو گاؤں سے باہر نکالنا ہے۔ وہ وہاں طویل عرصے سے مقیم ہیں۔ حکام بظاہر انتہا پسندوں اور فرقہ پرست عناصر کے خلاف موثر اقدامات کرنے میں ناکام رہے ہیں۔
ایک احمدی کے کاروبار سے مقدس تحریرات کو ہٹا دیا گیا
ایک اور احمدی کو ہراساں کیا گیا
سانگھڑ، مارچ 2021ء: بیلجیم کے رہنے والے ظفر احمد سانگھڑ کی غلہ منڈی میں گاڑیوں کا وزن کرنے والے ایک اسٹیشن کے مالک ہیں۔ ظفر احمد کے دو غیر احمدی بھائی اسے چلاتے ہیں۔ اس پر عربی الفاظ ’’اللہ‘‘، ’’محمد‘‘، ’’ماشاء اللہ‘‘ اور ’’واللّٰہ خیر الرازقین‘‘ لکھے ہوئے تھے۔
13؍فروری کو مقامی مسجد کے ایک ملا سعد نے کہا کہ چونکہ یہ کاروبار ایک احمدی کا ہے اس لیے اس پر تحریریں قابل قبول نہیں ہیں۔ ان کو ہٹا دیا جانا چاہیے۔ ان الفاظ کو مٹانے کے لیے یہ مولوی ایک ہندو کو وہاں لے گیا۔ تاہم ہندو نے خدا کے نام کو مٹانے سے انکار کر دیا۔ مولوی نے کہا کہ وہ خود اس کے لیے خدا کو جوابدہ ہو گا، اور تحریروں کو ختم کرنے کے لیے آگے بڑھا۔
ایک اور واقعہ۔ جناب سعید احمد خریداری کے لیے مین بازار گئےجہاں دکاندار نے ان کے عقیدے کی وجہ سے انہیں سامان فروخت کرنے سے انکار کر دیا۔ سعیداحمد پھر اپنی موٹر سائیکل اگلی دکان کی طرف لے گئے تو ایک موٹر سائیکل سوار پیچھے سے ان کے قریب آیا اور جماعت احمدیہ کو گالیاں دینے لگا۔ اس کے بعد موصوف ایک ہندو کی دکان پر گئے۔ وہی آدمی ان کے پیچھے پیچھے وہاں بھی چلا آیا اور جماعت کے خلاف شور مچانا شروع کر دیا۔ اس نے آپ کی موٹر سائیکل کو بھی ٹکرانے کی کوشش کی۔ خوش قسمتی سے وہ اس میں ناکام رہا۔
٭…٭…٭