حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

نماز کی اہمیت

(انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 22؍ جون 2012ء)

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

اس وقت میں …شرائطِ بیعت میں سے ایک اہم امر کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں جو اسلام کے بنیادی ارکان میں سے بھی دوسرا اہم رُکن ہے۔ قرآنِ کریم میں بھی اس کی بار بار تاکید کی گئی ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس کی اہمیت کی طرف بار بار توجہ دلائی ہے اور یہ اہم چیز ہے ’’نماز‘‘۔

شرائط بیعت کی تیسری شرط میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اللہ تعالیٰ کے حق کی ادائیگی کی طرف توجہ دلاتے ہوئے سب سے پہلے اس بنیادی رُکن کو لیتے ہوئے فرمایا ہے کہ میری بیعت میں آنے والے یہ عہد کریں کہ’’بلا ناغہ پنجوقتہ نماز موافق حکم خدا اور رسول ادا کرتا رہے گا‘‘۔ (ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد 3صفحہ564)

یہاں صرف یہی نہیں فرمایا کہ عہد کرو کہ نمازیں ادا کرو گے، بلکہ پنجوقتہ نماز اور ان کی ادائیگی موافق حکم خدا اور رسول ہے۔ اس کی ادائیگی اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے مطابق ہونی چاہئے۔ نماز کے بارے میں خدا تعالیٰ کا کیا حکم ہے؟ فرمایا وَاَقِیْمُوالصَّلٰوۃَ (البقرۃ: 44) اور نمازوں کو قائم کرو۔ نماز کے قیام کا حکم قرآنِ کریم میں بہت سی جگہوں پر ہے، بلکہ سورۃ بقرہ کی ابتدا میں ہی ایمان بالغیب کے بعد اس کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ’’انسان کبھی خدا تعالیٰ کا قرب حاصل نہیں کرتا جب تک کہ اقام الصلوٰۃ نہ کرے‘‘۔ (ملفوظات جلد دوم صفحہ 346۔ ایڈیشن 2003ء۔ )

اور اس زمانے میں قیامِ نماز کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے جب خدا تعالیٰ نے خلافت کے وعدے کے ساتھ اس طرف توجہ دلائی ہے کہ خلافت کے انعامات اُن لوگوں کے ساتھ ہی وابستہ ہیں جو نماز کے قیام کی طرف نظر رکھیں گے۔ قیامِ نماز کیا ہے؟ نماز کی باجماعت ادائیگی، باقاعدہ ادائیگی اور وقت پر ادائیگی۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَاَقِیۡمُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتُوا الزَّکٰوۃَ وَارۡکَعُوۡا مَعَ الرّٰکِعِیۡنَ (البقرۃ: 44) اور نماز کو قائم کرو اور زکوٰۃ ادا کرو اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو۔ یعنی اللہ تعالیٰ کے حضور اکٹھے ہو کر جھکنے والوں کے ساتھ جھکو۔ پس نماز قائم کرنے والوں اور مالی قربانیاں کرنے والوں کی یہ خصوصیت بیان فرمائی ہے اور فرمایا کہ یہ خصوصیت اُن میں ہونی چاہئے کہ وہ ایک جماعتی رنگ اپنے اندر رکھتے ہیں، اور یہی اُنہیں حکم ہے کہ جماعت بنا کر عبادت کرو اور جماعتی طور پر مالی قربانیوں کا بھی ذکر ہے کہ وہ کرو تا کہ اُس کام میں اُس عمل میں جو ایک جماعت پیدا ہونے کی وجہ سے ہو گا، برکت پڑے۔

نمازوں کے باجماعت ثواب کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ باجماعت نماز پڑھنے والے کو ستائیس گنا ثواب ملتا ہے۔ (صحیح بخاری کتاب الصلوٰۃ باب فضل صلوٰۃ الجماعۃ حدیث: 645)

ہم درسوں میں سنتے ہیں، تقریروں میں سنتے ہیں، بچوں کو بھی تقریریں تیار کرواتے ہیں اُس میں بیان کرتے ہیں، لیکن جب عمل کا وقت آتا ہے تو اُس پر پوری توجہ نہیں دی جا رہی ہوتی۔ پس سوائے اشد مجبوری کے اپنی نمازوں کو باجماعت ادا کرنا چاہئے۔ لیکن جیسا کہ میں نے کہا کہ اگر جائزے لیں تو یہ بات کھل کر سامنے آئے گی کہ نماز باجماعت کی طرف وہ توجہ نہیں جو ہونی چاہئے۔

…مساجد بنانے کا فائدہ تو تبھی ہے جب اُن کے حق بھی ادا ہوں۔ اور مساجد کے حق اُن کو آباد کرنا ہے۔ اور آبادی کے لئے خدا تعالیٰ نے جو معیار رکھا ہے وہ پانچ وقت مسجد میں آکر نماز ادا کرنا ہے۔ بہت سے لوگ بیشک ایسے ہیں جن کو کام کے اوقات کی وجہ سے پانچ وقت مسجد میں آنا مشکل ہے۔ لیکن فجر، مغرب اور عشاء میں تو یہ عذر نہیں چلتا، اُس پر تو حاضر ہو سکتے ہیں۔ میں جانتا ہوں دنیائے احمدیت میں بہت سے ایسے لوگ ہیں جو اِن مغربی ممالک میں رہتے ہیں اور مسجد سے پندرہ بیس میل کے فاصلے پر رہتے ہیں۔ لیکن نمازوں کے لئے مسجد میں آتے ہیں۔ اگر ظہر، عصر کی نمازیں نہ پڑھ سکیں، تو جیسا کہ میں نے کہا، یہ لوگ فجر، مغرب اور عشاء پر ضرور شامل ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہاں تو تقریباً ہر ایک کے پاس سواری ہے، اپنے دنیاوی کاموں کے لئے سواریاں استعمال کرتے ہیں، اگر اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے اور اُس کی عبادت کے لئے یہ سواریاں استعمال کریں گے تو ان سواریوں کا مقصد دین کی خدمت بھی بن جائے گا اور آپ کے بھی دین و دنیا دونوں سنور جائیں گے۔ جہاں بہت زیادہ مجبوری ہے وہاں اگر قریب احمدی گھر ہیں تو کسی گھر میں جمع ہو کے گھروں میں باجماعت نماز کی ادائیگی ہو سکتی ہے۔ جہاں اکیلے گھر ہیں وہاں اپنے گھر میں اپنے بیوی بچوں کے ساتھ باجماعت نماز کی ادائیگی کی کوشش ہونی چاہئے تا کہ بچوں کو بھی نماز باجماعت کی اہمیت کا پتہ چلے۔ بچوں کو ماں باپ اگر فجر کی نماز کے لئے اُٹھائیں گے تواُن کو جہاں نماز کی اہمیت کا اندازہ ہو گا وہاں بہت سی لغویات سے بھی وہ بچ جائیں گے۔ جن کو شوق ہے، بعضوں کو رات دیر تک ٹی وی دیکھنے یا انٹرنیٹ پر بیٹھے رہنے کی عادت ہوتی ہے، خاص طور پر ویک اینڈ (Weekend) پر تو نماز کے لئے جلدی اُٹھنے کی وجہ سے جلدی سونے کی عادت پڑے گی اور بلا وجہ وقت ضائع نہیں ہو گا۔ خاص طور پر وہ بچے جو جوانی میں قدم رکھ رہے ہیں، اُن کو صبح اُٹھنے کی وجہ سے ان دنیاوی مصروفیات کو اعتدال سے کرنے کی طرف توجہ پیدا ہو گی۔ بعض مجبوریاں بھی ہوتی ہیں، اچھی دیکھنے والی چیزیں بھی ہوتی ہیں، معلوماتی باتیں بھی ہوتی ہیں، اُن سے مَیں نہیں روکتا، لیکن ہر چیز میں ایک اعتدال ہونا چاہئے۔ نمازوں کی ادائیگی کی قیمت پر ان دنیاوی چیزوں کو حاصل کرنا انتہائی بے وقوفی ہے۔ پھر یہ بھی ہے کہ چھٹی کے دن بعض مجبوریاں ہوتی ہیں، بعض فیملی کے اپنے پروگرام ہوتے ہیں، چھٹی کے دن اگر فیملی کا کہیں باہر جانے کا پروگرام ہے تو اور بات ہے، لیکن اگر نہیں ہے تو پھر مسجد میں زیادہ سے زیادہ نمازوں کے لئے آنا چاہئے اور بچوں کو ساتھ لانا چاہئے۔ بہت سے لوگ کہتے ہیں جی بچوں کو مسجد میں آنے کی عادت نہیں ہے، بعض بچے بگڑ رہے ہیں۔ اُن کا علاج تو اسی صورت میں ہو سکتا ہے کہ بچپن سے اُن کو اس بات کی عادت ڈالیں کہ وہ خدا کا حق ادا کریں اور وہ حق نمازوں سے ادا ہوتا ہے۔ بچوں کو بچپن سے اگر یہ احساس ہو کہ نماز ایک بنیادی چیز ہے جس کے بغیر مسلمان مسلمان کہلا ہی نہیں سکتا تو پھر جوانی میں یہ عادت پختہ ہو جاتی ہے اور پھر یہ شکوے بھی نہیں رہیں گے کہ بچے بگڑ گئے۔ تفریح کے لئے بھی اگر جائیں، اگر کوئی پروگرام ایسا ہے تو جہاں دنیاوی دلچسپی کے سامان کر رہے ہیں، وہاں خدا کی رضا کے حصول کے لئے، جہاں بھی ہوں، پوری فیملی وہاں پر باجماعت نماز ادا کرے۔ میرا تو یہ تجربہ ہے اور بہت سے لوگوں کے یہ تجربے ہیں جو مجھے بتاتے ہیں کہ تفریح کی جگہوں پر جب اس طرح میاں بیوی اور بچوں نے نماز کے وقت نماز باجماعت ادا کی تو ارد گرد کے لوگوں میں دلچسپی پیدا ہوئی اور اُن کو دیکھنے لگے اور پھر تبلیغ کے راستے کھلتے ہیں، تعارف حاصل ہوتا ہے۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button