اختلافی مسائل

کیا حدیث عُلَمَاء أُمَّتِیْ کَأَنْبِیَاءِبَنِیْ إِسْرَائِیْل موضوع ہے؟

احمدیت کے خلاف جنگ میں غیر احمدی علماء ایسی احادیث کو جن سے احمدیہ موقف کو ذرا سا بھی سہارا ملتا ہے ضعیف اور موضوع قرار دے دیتے ہیں، جبکہ وہی احادیث ان کی کتب میں نہ صرف یہ کہ جابجا پائی جاتی ہیں بلکہ ان سے استدلال بھی کیا جاتا ہے۔ علماء امتی کانبیاءِ بنی اسرائیل بھی انہی احادیث میں سے ایک ہےجسے نہ صرف قدیم دَور کے علماء و مفسرین بلکہ موجودہ دَور کے غیر احمدی علماء بھی تواتر سے پیش کرتے ہیں۔

اس سلسلے میں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ کسی حدیث کے درست یا غلط ہونے کے بارے میں روایت اور درایت کی بنیاد پر فیصلہ کیا جاتا ہے۔ یعنی ایک تو سلسلہ اسناد اور راویوں کی جانچ پڑتال اور اُن کے ثقہ یا غیر ثقہ ہونے کی بنیاد پر اور دوسرے معقولی یا منقولی طور پر یعنی قرآنِ کریم کے اور عقل کے مطابق یا خلاف ہونے کی بنیاد پر حدیث کے صحیح یا غلط ہونے کافیصلہ کیا جاتا ہے۔ علوم الحدیث اور جرح و تعدیل کے ماہرین جانتے ہیں کہ محض اس بنا پر کسی حدیث کا انکار نہیں کیا جاسکتا کہ وہ کسی معتبر کتاب میں نہیں پائی جاتی۔ ایک دیوبندی عالم نے یہ اصول پیش کیا ہے کہ اگر کسی حدیث سے کسی عقیدہ کا استدلال کیا جائے تو پھر چاہے اس کی سند ضعیف بھی ہو تب بھی وہ حدیث درست مانی جاتی ہے۔

’’امر پنجم: اہل علم نے اس بات کی صراحت کی ہے کہ اگر کوئی مجتہد کسی حدیث سے استدلال کرتا ہے تو گویا وہ پہلے اس حدیث کے صحیح ہونے کا حکم لگاتا ہے۔ پھر اس سے استدلال کرتا ہے۔ اس اصول کے پیشِ نظر جب سلف صالحین اس پیشن گوئی کے معتقد رہے تو انہوں نے اس سلسلے کی واردشدہ احادیث کو صحیح قرار دے دیا۔ پھر بعد میں سند کے ضعیف ہونے سے اس پر کوئی فرق نہیں پڑسکتا۔‘‘ (اسلام میں امام مہدی کا تصور۔ از ظفر اقبال صاحب فاضل جامعہ اشرفیہ، لاہور صفحہ230)

درج ذیل عبارت سے جو کتاب ’’الکلام المرفوع‘‘ سے لی گئی ہے مصنف نے عقلی و نقلی دلائل سے ثابت کیا ہے کہ کسی حدیث کو یونہی موضوع نہیں کہہ دینا چاہیے بلکہ اس کی ہر ممکن تاویل کرنی چاہیے کیونکہ بعض احادیث گو الفاظ میں موضوع ہوں لیکن معانی کے اعتبار سے درست ہوتی ہیں اور بعض احایث بظاہر خلافِ عقل اور خلافِ نصوصِ قرآنی و سنتِ نبوی محسوس ہوتی ہیں لیکن تاویل سے درست ثابت ہوجاتی ہیں۔

’’امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ کے قول سے ابھی معلوم ہوا کہ جب تک کل محدثین کا اجماع کسی راوی کے متروک ہونے پر نہ ہوجائے تو وہ متروک نہیں ہوتا۔ الحاصل راوی کے ضعیف یا متروک یا وضاع ہونے سے اوس کے مرویات قطعًا موضوع نہیں ہوتے… اگر ایسی عقل سلیم نصیب نہو تو اوس احادیث کو جو بظاہر خلاف عقل ہیں مگر اعتقاد سے مان لی گئیں مثل احادیث معراج و حشر و صراط وغیرہ کے اعتقادًا مان سکتے ہیں جب تک کہ خلاف عقیدۂ اہل سنّت و جماعت نہ ہو۔ اور اگر بظاہر خلاف عقیدہ بھی ہے مگر تاویل صحیح قبول کرسکتی ہے تو جب بھی قطعًا موضوع نہ ہوگی۔ کیونکہ اکثر احادیث میں تاویل ہوا کرتی ہے تو جائز ہے کہ یہ بھی اس قسم کی ہو چنانچہ خطیب کی تصریح سے یہ بات ابھی ظاہر ہوجائے گی… اگر کہا جائے کہ جب بعض محدثین نے ایسی حدیث کو موضوع کہہ دیا ہے تو اوسمیں تاویل کرکے موضوعیت سے اوس کا نکالنا کیا ضرور ہے تو اوسکا جواب یہ ہے کہ حاصل ان دونوں قرینوں کا یہی ہے کہ مخالفتِ عقل و نصوص کی وجہ سے وہ موضوع ٹھیرائی جارہی ہے اور جب کسی وجہ سے وہ مخالفت رفع ہوجائے تو اوس حدیث کو موضوع کہنا بلاوجہ ہوگا۔ اور ظاہر ہے کہ بلاوجہ کسی حدیث کو موضوع کہہ دینا گناہ سے خالی نہیں اور یہ صریح ممنوع ہے۔‘‘ (الکلام المرفوع فیما یتعلق بالحدیث الموضوع۔ صفحہ20، 21، 26تالیف محمد انوار اللہ فاروقی حیدرآبادی دکنی بانی جامعہ نظامیہ)

اِن دلائل سے معلوم ہوتا ہے کہ زیربحث حدیث نہ صرف یہ کہ قرآنِ کریم کی کسی آیتِ کریمہ سے متضاد نہیں بلکہ قرآنِ کریم سے اس کی تائید ہوتی ہے۔ علماء جانتے اور مانتے ہیں کہ رسولِ کریمﷺ حضرت موسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مثیل ہیں۔ علماء یہ بھی جانتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نےاپنی امت کے یہودونصاریٰ سے مشابہ ہونے کا بھی ذکر فرمایا۔ لہٰذا یہ بات ہرگز خلافِ شریعت اور خلافِ عقل نہیں بلکہ عین قرینِ قیاس ہے کہ نبی اکرمﷺ نے اپنی امت کے ربّانی علماء کو انبیائے بنی اسرائیل کا مثیل قرار دیا ہے۔

چنانچہ زیربحث حدیث کے متعلق محض اس وجہ سے موضوع ہونے کا حکم لگانا کہ یہ کسی حدیث کی کتاب میں نہیں پائی جاتی مندرجہ بالا دلائل کے ساتھ ساتھ اس بناپر بھی غلط ہے کہ بڑے بڑے شیعہ اور سنی علماء نے اسے نہ صرف اپنی کتب تفاسیر اور کتبِ فقہ میں درج کیا ہے بلکہ اس کی بنیاد پر استدلال بھی کیے ہیں۔

(مرسلہ: انصر رضا، واقفِ زندگی، کینیڈا)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button