سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام

احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح

(’اے ولیم‘)

آپؑ سے پہلے ایک لڑکی جس کا نام ’’جنت‘‘ تھا پیداہوئی۔ جو چند روز زندہ رہنے کے بعد فوت ہوگئی اور یوں خداتعالیٰ نے اس بطل جلیل سے انثیت اورکمزوری کا مادہ پیداہوتے ہی الگ فرمادیا

ولادت باسعادت

(حصہ چہارم)

(گذشتہ سے پیوستہ)

ان مذکورہ بالاتمام اقتباسات کے پیش نظر ہم دیکھتے ہیں کہ

I.حضرت اقدسؑ ’’ٹھیک1290ہجری‘‘میں مکالمہ مخاطبہ الٰہیہ سے مشرف ہوچکے تھے۔

II.اوریہ کہ حضورؑ کے والدماجدکی وفات کے بعدیہ مکالمہ مخاطبہ کثرت سے شروع ہوا۔ جیساکہ کتاب البریہ میں آپؑ نے لکھا: ’’ایک طرف ان کا دُنیا سے اٹھایا جاناتھا اور ایک طرف بڑے زور شور سے سلسلہ مکالمات الٰہیہ کا مجھ سے شروع ہوا۔‘‘(کتاب البریہ، روحانی خزائن جلد 13صفحہ 195، حاشیہ)

III.اوریہ کہ اس وقت آپؑ کی عمر ٹھیک چالیس برس تھی۔

اب ہمیں یہ دیکھناہوگا کہ 1290ھ میں سن عیسوی کون ساتھا۔ سوتقویم کی کتب کے مطابق یکم مارچ 1873ء کویکم محرم 1290ھ تھی اور فروری 1874ء میں یہ سن ہجری اختتام پذیرہوتاہے۔ گویا 74/1873ء میں حضورؑ اگر چالیس برس کے ہوں تو 34/1833ء آپ کی تاریخ پیدائش کاقیاس کیاجاسکتاہے۔ اب اگر چاندکی چودہ اور پھاگن کا مہینہ اور جمعہ کادن بھی ضروری ہی ہوتو عین یہی تواریخ سن 1832ء میں بھی توآتی ہیں۔ تو تاریخ پیدائش 17؍فروری 1832ء کیوں نہ سمجھاجائے جومذکورہ بالاحساب کی روسے زیادہ قرین قیاس ہے۔ اور یوں 75برس کی عمرمیں آپ کی وفات ہوئی اوریہ عمرحضورؑ کی اپنی اس تحریرکے زیادہ قریب ہے جس میں آپؑ لکھتے ہیں: ’’جو ظاہر الفاظ وحی کے وعدہ کے متعلق ہیں وہ توچہتر 74 اورچھیاسی 86 کے اندر اندر عمر کی تعین کرتے ہیں۔‘‘ (براہین احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزائن جلد 21صفحہ 259) اور اس سے پہلے حضرت اقدسؑ کے والدماجدحضرت مرزاغلام مرتضیٰ صاحب کی تاریخ وفات کی بحث میں یہ لکھاجاچکاہے کہ ان کی تاریخ وفات جون 1872ء زیادہ قرین قیاس ہے۔ واللہ اعلم بالصواب

پیدائش میں ندرت

حضرت مسیح ناصریؑ کی طرح آپ کی پیدائش میں بھی ندرت اور معجزانہ رنگ تھا۔ عالم اسلام کے مشہور صوفی حضرت محی الدین ابن عربی کی ایک پیشگوئی کے مطابق آپؑ توام Twinsپیدا ہوئے تھے۔ (حضرت ابن عربیؒ نے لکھاہے کہ امام مہدی توام یعنی Twinsپیداہوگا۔ شرح فصوص الحکم صفحہ44)

آپؑ سے پہلے ایک لڑکی جس کا نام ’’جنت‘‘ تھا پیدا ہوئی۔ جو چند روز زندہ رہنے کے بعد فوت ہوگئی اور یوں خداتعالیٰ نے اس بطل جلیل سے انثیت اورکمزوری کا مادہ پیداہوتے ہی الگ فرمادیا۔

آپؑ کی دایہ اور رضاعت

آپؑ کی دایہ کانام لاڈو تھا۔ چنانچہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدصاحبؓ بیان فرماتے ہیں: ’’بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ(رضی اللہ عنہا) نے کہ حضرت صاحب کی دائی کا نام لاڈو تھا اور وہ ہا کو نا کو بروالوں کی ماں تھی۔ جب میں نے اسے دیکھا تھا تو وہ بہت بوڑھی ہو چکی تھی مرزا سلطان احمدبلکہ عزیز احمد کو بھی اسی نے جنایا تھا۔ ایک دفعہ حضرت صاحب نے اس سے اپنی پیدائش کے متعلق کچھ شہادت بھی لی تھی۔ اپنے فن میں وہ اچھی ہوشیار عورت تھی۔ چنانچہ ایک دفعہ یہاں کسی عورت کے بچہ پھنس گیا اور پیدا نہ ہوتا تھاتو حضرت صاحب نے فرمایا تھاکہ لاڈو کو بلا کر دکھاؤ۔ ہو شیار ہے چنانچہ اسے بلایا گیا تو اللہ کے فضل سے بچہ آسانی سے پیدا ہو گیا۔ مگر والدہ صاحبہ کہتی تھیں کہ تم میں سے کسی کی پیدائش کے وقت اسے نہیں بلایا گیا۔ کیونکہ بعض وجوہات سے اس پر کچھ شبہ پیدا ہو گیا تھا۔‘‘(سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر 262)

اسی طرح دوبچوں کے لیے ماں کا دودھ کافی نہ ہونے کی بنا پر حضرت اقدسؑ کو آپؑ کی حقیقی چچی صاحب جان صاحبہ نے چند دن دودھ پلایاتھا۔ اس ضمن میں سیرت المہدی میں ایک روایت یوں ہے: ’’حضرت والدہ صاحبہ (رضی اللہ عنہا) نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعودؑ کو مائی صاحب جان صاحبہ زوجہ مرزا غلام حیدر صاحب نے دودھ پلایا تھا۔ مرزا غلام حیدر صاحب حضرت صاحب کے حقیقی چچا تھے۔ مگر جب مرزا نظام الدین صاحب اور ان کے بھائی حضرت صاحب کے مخالف ہو گئے تو مائی صاحب جان بھی مخالف ہو گئی تھیں۔ اور والدہ صاحبہ فرماتی ہیں کہ اس زمانہ میں وہ اس قدر مخالف تھیں کہ مجھے دیکھ کر وہ چھپ جایا کرتی تھیں اور سامنے نہیں آتی تھیں۔ نیز مجھ سے والدہ صاحبہ عزیزم مرزا رشید احمد نے بیان کیا کہ حضرت صاحب کو ماں کے سوا دوسرے کا دودھ پلانے کی اس لئے ضرورت پیش آئی تھی کہ آپ جوڑا پیدا ہوئے تھے اور چونکہ آپ کی والدہ صاحبہ کا دودھ دونوں بچوں کے لئے مکتفی نہیں ہوتا تھا۔ اس لئے مائی صاحب جان نے دودھ پلانا شروع کر دیا تھا۔‘‘(سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر760)

آپؑ کے بہن بھائی

حضرت مرزاغلام مرتضیٰ صاحب کے ہاں سب سے پہلے ایک لڑکا پیداہوا تھا جو چھوٹی عمر میں ہی فوت ہوگیا۔

اس کے بعد ایک لڑکی پیداہوئی جو آپؑ کی سب سے بڑی ہمشیرہ تھیں۔ ان کانام مراد بیگم صاحبہؒ تھاجو مرزا غلام غوث ہوشیارپوری صاحب کے عقد زوجیت میں آئیں۔ (یہ محمدی بیگم صاحبہ کے والد احمدبیگ کے بھائی تھے )لیکن جوانی میں ہی بیوہ ہوگئیں۔ یہ بڑی عابدہ اور صاحبِ روٴیا و کشف خاتون تھیں۔

تیسرے نمبر پر پیداہونے والے صاحبزادہ مرزا غلام قادر صاحب مرحوم تھے جو کہ 1828ء میں پیداہوئے۔ (اور1883ء میں 55سال کی عمر میں وفات پائی )

پھر ایک یا دوبھائی اور پیداہوئے اور چھٹے یا ساتویں نمبر پر وہ بیٹا پیداہوا جس کے ساتھ اب ساری دنیا کی تقدیریں وابستہ کردی گئی تھیں۔ بعض روایات سے معلوم ہوتاہے کہ آپؑ کے ایک یا دواور بھائی پیداہوئے تھے جو پیداہونے کے کچھ عرصہ بعد ہی فوت ہوتے رہے۔ جس کی بناپر آپؑ کی والدہ ماجدہ حضرت چراغ بی بی صاحبہ کو بہت دکھ تھا اوربڑی شدید خواہش تھی کہ ان کا کوئی بیٹا ہوجو زندگی پانے والا ثابت ہو۔

حضرت مولوی عبدالرحیم دردصاحب مصنف ’’لائف آف احمد‘‘اپنی کتاب کے صفحہ 27 پر لکھتے ہیں:

“It is said that Charagh Bibi, the wife of Mirza Ghulam Murtaza, had been long praying for a son who would live long when Hazrat Mirza Ghualm Ahmad was born…”

(Life of Ahmad by A.R.Dard: page 27)

ترجمہ: کہا جاتا ہے کہ (حضرت )چراغ بی بی صاحبہ ایک لمبے عرصہ سے ایک ایسے بیٹے کے لیے دعا مانگ رہی تھیں جو لمبی عمر پائے۔ چنانچہ اس کے بعد حضرت مرزا غلام احمد صاحب پیدا ہوئے۔

اس کی تائید سیرت المہدی کی اس روایت سے بھی ہوتی ہے۔ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدصاحبؓ موٴلف سیرت المہدی بیان فرماتے ہیں: ’’… والدہ صاحبہ (رضی اللہ عنہا)نے بیان کیا کہ مجھے یاد پڑتا ہے کہ میں نے سنا ہوا ہے کہ تمہارے تایا [مرزا غلام قادرصاحب]کے بعد تمہارے دادا کے ہاں دو لڑکے پیدا ہو کر فوت ہوگئے تھے اسی لئے میں نے سنا ہے کہ حضرت صاحب کی ولادت پر آپ کے زندہ رہنے کے متعلق بڑی منتیں مانی گئی تھیں اور گویا ترس ترس کر حضرت صاحب کی پرورش ہوئی تھی۔ اگر تمہارے تایااورحضرت صاحب کے درمیان کو ئی غیر معمولی وقفہ نہ ہوتا یعنی بچے پیدا ہوکر فوت نہ ہو تے تو اس طرح منتیں ماننے اور ترسنے کی کوئی وجہ نہ تھی پس ضرور چند سال کا وقفہ ہوا ہوگا اور مرزا سلطان احمد صاحب بیان کر تے ہیں کہ شاید پانچ یا سات سال کا وقفہ تھا۔ اور والد ہ صاحبہ بیان کرتی ہیں کہ مجھے جہاں تک یاد ہے وہ یہ ہے کہ سب سے پہلے تمہارے داد ا کے ہاں ایک لڑکا ہوا جو فوت ہوگیا پھر تمہاری پھوپھی مراد بی بی ہوئیں پھر تمہارے تایا پیدا ہوئے پھر ایک دو بچے ہو ئے جو فوت ہو گئے پھر حضرت صاحب اور جنت توام پیدا ہوئے اور جنت فوت ہوگئی اور والدہ صاحبہ کہتی ہیں کہ تمہاری تائی کہتی تھیں کہ تمہارے تایا اور حضرت صاحب اوپر تلے کے تھے مگر جب میں نے منتیں ماننے اور ترسنے کا واقعہ سنا یا تو انہوں نے اسے تسلیم کیا مگر اصل امر کے متعلق خاموش رہیں۔‘‘(سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر212)

اس بات کی تائید ایک اورروایت سے بھی ہوتی ہے اوراِس روایت کی حقیقت بھی اس سے عیاں ہورہی ہے۔ وہ روایت یوں ہے۔ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمدصاحبؓ اپنی تصنیف سیرت المہدی میں بیان فرماتے ہیں: ’’بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ تمہاری دادی ایمہ ضلع ہوشیار پور کی رہنے والی تھیں…والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ ایک دفعہ ایمہ سے چند بوڑھی عورتیں آئیں تو انہوں نے باتوں باتوں میں کہا کہ سندھی ہمارے گاؤں میں چڑیاں پکڑا کرتا تھا۔ والدہ صاحبہ نے فرمایاکہ میں نہ سمجھ سکی کہ سندھی سے کون مراد ہے۔ آخر معلوم ہوا کہ ان کی مراد حضرت صاحب سے ہے۔ والدہ صاحبہ فرماتی تھیں کہ دستور ہے کہ کسی منت ماننے کے نتیجہ میں بعض لوگ خصوصاً عورتیں اپنےکسی بچے کا عرف سندھی رکھ دیتے ہیں چنانچہ اسی وجہ سے آپ کی والدہ اور بعض عورتیں آپ کو بھی بچپن میں کبھی اس لفظ سے پکارلیتی تھیں۔ خاکسارعرض کرتا ہے کہ سندھی غالباً دسوندھی یا دسبندھی سے بگڑاہو اہے جو ایسے بچے کو کہتے ہیں جس پر کسی منت کے نتیجہ میں دس دفعہ کوئی چیز باندھی جاوے اور بعض دفعہ منت کوئی نہیں ہوتی بلکہ یونہی پیارسے عورتیں اپنے کسی بچے پر یہ رسم اداکرکے اسے سندھی پکارنے لگ جاتی ہیں۔‘‘(سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر51)’’والدہ صا حبہ عزیز مرزا رشید احمد صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ مَیں نے اپنی پھوپھی صاحبہ سے سُنا ہوا ہے کہ اگر کبھی کوئی عورت بچپن میں حضرت صاحب کے متعلق سندھی کا لفظ استعمال کرتی تھی۔ تو دادا صاحب بہت ناراض ہوتے تھے۔ کہ میرے بیٹے کانام بگاڑدیا ہے۔ اس طرح نہ کہا کرو۔ بلکہ اصل نام لیکر پکارا کرو۔

خاکسار عرض کرتا ہے کہ حصّہ اول طبع دوم کی روایت نمبر51میں لفظ سندھی کے متعلق ایک مفصّل نوٹ گذر چکا ہے جو قابلِ ملاحظہ ہے۔ جہاں یہ بتایا گیا ہے کہ ہندی میں سندھی کے معنے جوڑا پیدا ہونے والے کے ہیں اور چونکہ حضرت مسیح موعودؑ تو ام پیدا ہوئے تھے اس لئے بعض عورتیں آپ کو بچپن میں کبھی کبھی اس نام سے پکارلیتی تھیں۔ مگر چونکہ اس طرح اصل نام کے بگڑنے کا احتمال تھا اس لئے دادا صاحب منع فرماتے تھے…‘‘(سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر864)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button