احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح
سب سے اہم اورمستند ترین ماخذ حضورؑ کی اپنی تحریرات ہیں کہ ان میں حضورؑ نے اپنی عمریاتاریخ پیدائش میں کیا بیان کیاہوگا۔ کیونکہ ان تحریرات کی سندسب سے مسلّم ہے
ولادت باسعادت
(حصہ دوم)
بہرحال حضرت اقدسؑ کی تاریخ پیدائش کی تحقیق کرنے کے لیے ہمیں مختلف زاویوں سے دیکھناہوگا۔ مثلاً
الف: حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی تحریرات وارشادات: اس پہلوسے سب سے اہم اورمستند ترین ماخذ حضورؑ کی اپنی تحریرات ہیں کہ ان میں حضورؑ نے اپنی عمریاتاریخ پیدائش میں کیا بیان کیاہوگا۔ کیونکہ ان تحریرات کی سندسب سے مسلّم ہے۔ اورجب ان تحریرات کوہم دیکھتے ہیں تو ہمارے سامنے مختلف اقتباسات آئیں گے۔ کہیں آپ نے سالوں میں اندازاً اپنی عمربیان فرمائی ہے۔ اورکہیں دن کاذکرفرمایاہے۔ اورکہیں مہینے کا، کہیں سن بھی مذکورہے۔ لیکن مجموعی طورپر یہ سب قیاسی سن اورسال ہوں گے۔ کیونکہ ان تاریخوں کاباہم تضادبتاتاہے کہ یہ تخمینے تھے۔
ب: اس ضمن میں روایات صحابہؓ بھی ہمارے لیے قابل غورہوسکتی ہیں کہ صحابہؓ نے حضورؑ کی زبان مبارک سے عمر یاتاریخ پیدائش کی بابت کچھ سناہو۔ اوروہ روایات ہمارے لیے مددگار و راہنما ہوں۔
ج: سرکاری دستاویزات: سرکاری دستاویزات بھی سن وغیرہ کی تعیین یاتاریخ پیدائش میں ایک اہم کرداراداکرسکتی ہیں، مثال کے طور پر سیالکوٹ کی کچہری میں آپ نے کم وبیش سات سال تک ملازمت کاعرصہ گزاراہے۔ اس کے علاوہ متعدد سرکاری محکموں میں یاتوآپؑ نے ملازمت کے لیے کچھ دن بسرکیے اس کا ریکارڈ یا مقدمات کے سلسلے میں دستاویز، جس میں کبھی آپ عدالت میں بطورمختارپیش ہوئے، کبھی بطورگواہ کبھی بطورفریق…عین ممکن ہے کہ کوئی ایسی دستاویز دستیاب ہوجائے کہ جس میں سن پیدائش کاذکرہو۔ گوکہ ابھی تک ایسے کاغذات منظرعام پرنہیں آئے۔ لیکن خاکسارکی رائے میں اگرکوئی ایسی دستاویز مل بھی جائے تو وہ بھی اہم ثبوت یاگواہ کے طورپر نہیں سمجھاجاسکتا۔ وہ اس لیے کہ ہمارے قاری کویہ امرمدنظررکھناچاہیے کہ آج کل کی سرکاری دستاویزات کی طرح ضروری نہیں کہ تب، اس زمانے کی سرکاری دستاویزات تاریخ پیدائش کے لیے اتنی مصدقہ اور مستند سمجھی جاسکیں۔ کیونکہ جیساکہ عرض کیاجاچکاہے کہ تب توکوئی رواج ہی نہ تھا کہ ان تاریخوں کوکہیں درج کرانے یاکرنے کااہتمام کیاجاتا۔ اور بیس تیس سال بعد سرکاری دستاویزات میں اگریہ خانہ پُری کرنی بھی ہوتی تو تخمیناً اور قیاساً سن وغیرہ لکھوادیے جاتے یااس کاایک آسان متبادل طریق عمربیان کرنے کاہوتا کہ اندازاً عمر اتنی ہے۔ اور اس عمرسے جمع تفریق کرکے سن لکھ دیاجاتا۔ اور یہ کوئی دورکی بات نہیں ابھی بھی کسی ستراسی سال کے بزرگ مردیاعورت سے پوچھاجائے یااس کےشناختی کارڈکودیکھاجائےتو سن پیدائش کی جگہ یاتوعمر لکھی ہوگی یااس سے پوچھاجائے تو عمربھی اندازاً ہوگی اور اس عمرکے اندازے سےسن کومتعین کیاگیاہوگا۔ اس لیے خاکسارکے نزدیک ایسے سرکاری یاعدالتی کاغذات اگرمل بھی جاتے ہیں کہ جس میں حضرت اقدسؑ کی تاریخ پیدائش یاعمرکاذکرہوتو وہ ہماری راہ نمائی توکرسکیں گے لیکن کوئی ٹھوس اور واضح ثبوت قرارنہیں دیے جاسکتے۔
د: قادیان کی تاریخ، سکھ حکومت کے اہم واقعات کی تاریخ: حضرت اقدسؑ کی تحریرات اور صحابہؓ کی روایات میں جب ہم تاریخ پیدائش یاعمرکاذکرپڑھتے ہیں تو ان روایات میں موجود واقعات کی تاریخ کومدنظررکھنابھی سن پیدائش کی تعیین کے لیے ضروری ہوجاتاہے۔ مثال کے طور پر جب ہم یہ پڑھتے ہیں کہ مہاراجہ رنجیت سنگھ کے زمانے میں قادیان واپس ملا تھا یارنجیت سنگھ کے آخری زمانہ میں حضورؑ کی پیدائش ہوئی تھی تولازمی بات ہے کہ ہمیں رنجیت سنگھ کے عہدحکومت کے بعض واقعات اورسنین کی طرف توجہ کرناہوگی۔ جیسایہ کہ رنجیت سنگھ کی وفات 17؍جون 1839ء میں ہوئی۔ اس کے بعد کم وبیش دس سال تک سکھ حکومت رہی۔ اور 1849ء میں سکھ حکومت مکمل طورپر ختم ہوکرانگریزی عہدحکومت شروع ہوگیا۔
اب حضرت اقدسؑ کی تحریرات کی روشنی میں کچھ نکات درج ذیل ہیں جوسن پیدائش کومتعین کرنے کے لیے ہماری راہ نمائی کرسکتے ہیں:
i.الہام ’’ثَمَانِیْنَ حَوْلًااَوْ قَرِیْبًا مِّنْ ذَالِکَ اَوْ تَزِیْدُ عَلَیْہِ سِنِیْنًا وَ تَرَی نَسْلًابَعِیْدًا‘‘ ( اربعین نمبر 3، روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 419 اورضمیمہ تحفہ گولڑویہ، روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 66) اور الہام ’’تَرَی نَسْلًابَعِیْدًاولَنُحْیِیَنَّکَ حیٰوۃً طیبۃً ثَمَانِیْنَ حَوْلًااَوْ قَرِیْبًا مِّنْ ذَالِکَ‘‘ ( ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 443 ) کا مطلب حضرت مسیح موعودؑ نے مندرجہ ذیل الفاظ میں بیان فرمایا ہے: ’’جو ظاہر الفاظ وحی کے وعدہ کے متعلق ہیں۔ وہ توچُہتر 74اورچھیاسی 86 کے اندر اندر عمر کی تعین کرتے ہیں۔‘‘( ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 259)
ii.’’میری پیدائش 1839ء یا1840ء میں سکھوں کے آخری وقت میں ہوئی ہے۔ اورمیں 1857ء میں سولہ برس کایاسترھویں برس میں تھا۔‘‘(کتاب البریہ، روحانی خزائن جلد 13صفحہ 177، حاشیہ)
iii.’’عمر کا اصل اندازہ تو خدا تعالیٰ کو معلوم ہے۔‘‘ (ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 365)
iv.میں جمعہ کے روزپیداہواتھا۔ (ماخوذ از براہین احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 113و صفحہ 260، حاشیہ)
v.’’اورجوظاہرالفاظ وحی کے وعدہ کے متعلق ہیں وہ تو چُہتر 74اور چھیاسی 86کے اندراندرعمرکی تعیین کرتے ہیں۔‘‘(براہین احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزائن جلد 21صفحہ 259)
vi.’’میری پیدائش بھی سکھوں کے زمانہ کے آخری حصہ میں ہوئی تھی۔‘‘(تحفہ گولڑویہ، روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 210، حاشیہ)
vii.’’ حجج الکرامۃ میں ابن واطیل سے روایت لکھی ہے کہ مسیح عصر کے وقت آسمان پر سے نازل ہوگا اور عصر سے ہزارکا آخری حصہ مراد لیا ہے۔ دیکھوحجج الکرامہ صفحہ 428۔ اِس قول سے ظاہر ہے کہ اس جگہ ہزار سے مراد ہزار ششم ہے اور ہزار ششم کے عصر کا وقت اس عاجز کی پیدائش کا زمانہ ہے جو حضرت آدم کی پیدائش کے زمانہ کے مقابل پر ہے۔ اس پر دلیل یہ ہے کہ آخری زمانہ کا جوہزار ہے وہ آدم کے چھٹے دن کے مقابل پر ہزار ششم ہے جس میں مسیح موعود کا آنا ضروری ہے اور آخری حصّہ اس کا وقت عصر کہلاتا ہے پس ابن واطیل کا اصل قول جو سر چشمہ نبوت سے لیا گیا ہے اِس طرح پر معلوم ہوتا ہے نُزُوْلُ عِیْسٰی یَکُوْنُ فِیْ وَقْتِ صَلٰوۃِ الْعَصْرِ فِی الْیَوْمِ السَّادِسِ مِنَ الْاَیَّامِ الْمُحَمَّدِیَّۃِ حِیْنَ تُمْضٰی ثَلٰٰثَۃُ اَرْبَاعِہِ۔ یعنی نزول عیسیٰ محمدی دن کے عصر کے وقت میں ہوگا جب تین حصے اُس دن کے گذر چکیں گے۔ یعنی ہزار ششم کا آخری حصہ کچھ باقی رہے گا اور باقی سب گذر چکے گا اس وقت عیسیٰ کی رُوح زمین پر آئے گی۔ یاد رہے کہ صوفیہ کی اِصطلاح میں یوم محمدی سے مراد ہزار سال ہے جوروز وفات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے شمار کیا جاتا ہے۔ چنانچہ ہم اسی حساب سے سورۃ والعصر کے اعداد لکھ کر ثابت کر چکے ہیں کہ اس عاجز کی پیدائش اس وقت ہوئی تھی جبکہ یوم محمدی میں سے صرف گیارہ سال باقی رہتے تھے جو اس دن کا آخری حصہ ہے۔ یاد رہےکہ اکثر صوفی جو ہزار سے بھی کچھ زیادہ ہیں اپنے مکاشفات کے ذریعہ سے اس بات کی طرف گئے ہیں کہ مسیح موعود تیرھویں صدی میں یعنی ہزار ششم کے آخر میں پیدا ہوگا چنانچہ شاہ ولی اللہ صاحب کا الہام ’’چراغ دین‘‘ جو مہدی معہود کی پیدائش کے بارے میں ہے صاف دلالت کرتا ہے کہ ظہور کا وقت ہزار ششم کا آخر ہے۔ اِسی طرح بہت سے اکابر امت نے پیدائش مسیح موعود کے لئے ہزار ششم کا آخر لیا ہے اور چودھویں صدی اس کے بعث اور ظہور کی تاریخ لکھی ہے اور چونکہ مومن کے لئے خدا تعالیٰ کی کتاب سے بڑھ کر کوئی گواہ نہیں اس لئے اس بات سے انکار کرنا کہ مسیح موعود کے ظہور کا وقت ہزار ششم کا آخر ہے خدا تعالیٰ کی کتاب سے انکار ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے سلسلہ خلافت محمدیہ کو سلسلہ خلافت موسویہ سے مشابہت دے کر خود ظاہر فرمادیا ہے کہ پیدائش مسیح موعود ہزار ششم کے آخر میں ہے۔ پھر ماسوا اس کے صورت عالم پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ہزار ششم میں زمین پر ایک انقلاب عظیم آیا ہے۔ بالخصوص اس ساٹھ برس کی مدت میں کہ جو تخمیناً میری عمر کا اندازہ ہے اس قدر صریح تغیر صفحۂ ہستی پر ظہور پذیر ہے کہ گویا وہ دنیا ہی نہیں رہی نہ وہ سواریاں رہیں اور نہ وہ طریق تمدن رہا اور نہ بادشاہوں میں وہ وسعتِ اقتدار حکومت رہی نہ وہ راہ رہی اور نہ وہ مرکب۔ اور یہاں تک ہر ایک بات میں جدّت ہوئی کہ انسان کی پہلی طرزیں تمدّن کی گویا تمام منسوخ ہو گئیں اور زمین اور اہل زمین نے ہر ایک پہلو میں گویا پیرایۂ جدید پہن لیا اور بُدِّلَتِ الْاَرْضُ غَیْرَ الْاَرْضِ کا نظّارہ آنکھوں کے سامنے آگیا۔‘‘(تحفہ گولڑویہ، روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 281-286)
viii.’’غرض وجودآدم ثانی بھی جامع جلال وجمال ہے اوراسی وجہ سے آخرہزارششم میں پیداکیاگیااورہزارششم کے حساب سے دنیاکے دنوں کایہ جمعہ ہے اورجمعہ میں سے یہ عصرکاوقت ہے جس میں یہ آدم پیداہوا۔‘‘( تحفہ گولڑویہ، روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 284، حاشیہ)
ix.آپؑ نے متعددتحریرات میں اپنی عمرکااندازہ سالوں میں بیان فرماتے ہوئے بعض کتب میں 64/60سال وغیرہ لکھی ہے۔ مثلاً فرمایا: ’’مجھے دکھلاؤ کہ آتھم کہاں ہے اس کی عمر تو میری عمر کے برابر تھی یعنی قریب 64 سال کے۔‘‘(اعجاز احمدی ضمیمہ نزول المسیح، روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 109) ’’اگر آتھم صاحب چوسٹھ 64 برس کے ہیں تو عاجز قریباً ساٹھ برس کا ہے‘‘۔ (مجموعہ اشتہارات جلداوّل 414: اشتہار انعامی 2 ہزار روپیہ مورخہ 20؍ستمبر 1897ء)
پھر فرماتے ہیں: ’’اور بار بار کہتے ہیں (یعنی آتھم صاحب) کہ میری عمر قریب 64 یا 68 برس کی ہے … دیکھو میری عمر بھی تو قریب ساٹھ برس کے ہے‘‘۔ (مجموعہ اشتہارات جلداوّل صفحہ444ا، شتہار انعامی 4 ہزار روپیہ)
پھر فرماتے ہیں: ’’آپ لکھتے ہیں کہ قریب ستّر برس کی میری عمر ہے۔ اور پہلےاس سے اسی سال کے کسی پرچہ نور افشاں میں چھپا تھا کہ آپ کی عمر چوسٹھ برس کے قریب ہے۔ پس مَیں متعجب ہوں کہ اس ذکر سے کیا فائدہ۔ کیا آپ عمر کے لحاظ سے ڈرتے ہیں۔ کہ شاید مَیں فوت ہو جاؤں۔ مگر آپ نہیں سوچتے کہ بجز ارادہ قادر مطلق کوئی فوت نہیں ہو سکتا… اگر آپ چونسٹھ 64 برس کے ہیں۔ تو میری عمر بھی قریباً ساٹھ کے ہو چکی‘‘۔ (مجموعہ اشتہارات جلداوّل صفحہ 432، اشتہار انعامی 3 ہزار روپیہ مورخہ 5؍اکتوبر 1894ء)
x.دوسرا امر جو قابلِ غور ہے وہ یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے متعدد مقامات پر یہ تحریر فرمایا ہے کہ ’’جب میری عمر چالیس برس تک پہنچی۔ تو خدا تعالیٰ نے اپنے الہام اور کلام سے مجھے مشرف کیا۔‘‘(تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد 15صفحہ 283 و آئینہ کمالاتِ اسلام، روحانی خزائن جلد 5صفحہ 548)
(باقی آئندہ)