سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام

احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح

(’اے ولیم‘)

جہاں تک خاکسار کی نظر سے بعض امراء و رؤساء پنجاب کے پُرانے کاغذات اور سلاطین مغلیہ کے مناشیر گذرے ہیں کوئی منشور ایسا نہیں گذرا جس میں اس درجہ کا خطاب کسی رئیس خاندان کو منجانب شاہانِ مغلیہ عطا ہوا ہو

بادشاہوں /حکومت کی طرف سے تعریفی اسنادوخطوط

5: منشور عہد عالمگیر ثانی بادشاہ ہندوستان

(گذشتہ سے پیوستہ)’’عمدة الاماثل والاقران گل محمد خاں بدانند عریضہ کہ دریں وقت بخصوص احوالات و روئیداد خود قلمی وارسال داشتہ بود رسید چگونگی آں واضح شد۔ باید کہ خاطر خود را بہر باب جمعداشت و مطمئن خاطر بودہ مشغول امورات خود و احوالاتے کہ باشد ہمہ روزہ بعرض رسانند۔

بتاریخ شہر رجب 1216ہجری مہر

ترجمہ: ’’برگزیدہ اکا برو معاصر گل محمد خاں معلوم کریں کہ اس وقت آپ کے عریضہ سے جس میں خصوصیت کے ساتھ آپ نے اپنی روئیداد اور حالات قلمبند کرکے بھیجا ہے، تمام کیفیت واضح ہوئی۔ چاہئے کہ آپ ہر بات میں مطمئن اور خاطر جمع ہو کر اپنے متعلقہ امور میں مشغول رہیں اور اپنے روزمرہ کے حالات لکھتے رہیں۔

محررہ ماہ رجب 1216 ہجری مہر‘‘

٭ان خطوط کے متعلق (حضرت) مولوی عبید اللہ صاحب بسمل نے مندرجہ ذیل نوٹ لکھا ہے۔

’’بسم اللہ الرحمن الرحیم

نحمدہ و نصلی علیٰ رسولہ الکریم

شہنشاہ ہند محمد فرخ سیر کے منشور میں جو غفران مآب میرزا فیض محمد خانصاحب نور اللہ مرقدہٗ کے نام ہے تین لفظ خاص اہمیت رکھتے ہیں۔

پہلا لفظ ہفت ہزاری کا ہے۔ دربار اکبری میں اراکین سلطنت کے مناصب کی تقسیم اس طرح سے شروع ہوتی تھی۔ کہ ہشت ہزاری کا منصب و لی عہد اور خاندانِ شاہی کے شہزادوں کے لیے خاص تھا۔ اور اراکین دربار و وزراء سلطنت ہفت ہزاری منصب سے ممتاز ہوتے تھے۔ شش ہزاری منصب بھی امراء کو بہت جاں نثاری کے بعد ملتا تھا۔ جس وقت گل گنڈہ کے فرمانروا ابوالحسن تانا شاہ کی سرکوبی پر شہنشاہ اورنگ زیب محمد عالمگیر نے تمام افواج ہندوستان کے سپہ سالار نواب غازی الدین خان بہادر فیروز جنگ کو دکن کی مہم سر کرنے کے لیے مامور فرمایا۔ تو اس، کوشش ہزاری کا عہدہ دیا۔ چنانچہ اس وقت کا نامہ نگار نعمت خاں متخلص بہ عالی اپنی مشہور کتاب وقائع نعمت خاں میں لکھتا ہے۔

’’دوششے کہ آں شش ہزاری شش ہزار سوار زدہ بود‘‘

اس فقرہ میں شش ہزاری کے لفظ سے مطلب ہے۔ کہ فیروز جنگ کو عالمگیر نے یہ منصب دیا ہوا تھا۔ جو ہفت ہزاری سے بہت ہی کم تھا۔ ہفت ہزاری منصب کی نسبت شاہانِ مغلیہ کے عہد میں ایک ضرب المثل مشہور تھی۔ ہفت ہزاری شوو ہرچہ خواہی بکن یعنے ہفت ہزاری کا منصب ایسا عالی ہے کہ اگر تجھ کو حاصل ہو جائے تو تیرے کام میں کوئی دخل دینے والا نہیں رہے گا۔ الحاصل ہفت ہزاری کا منصب شاہانِ مغلیہ کے عہد میں بہت وقیع و رفیع سمجھا جاتا تھا۔ تاریخ شاہد ہے۔

دوسرا لفظ عضد الدولہ کا خطاب ہے۔

تاریخ کی ورق گردانی سے ثابت ہوتا ہے کہ جب ہارون و مامون و معتصم کے بعد بنی عباس کی خلافت میں ضعف آ گیا۔ اور اسلامی دُنیا کے بعض حصوں میں متفرق خاندانوں میں حکومتیں برپا ہو گئیں تو ان میں سے دیالمہ کا خاندان بھی تھا۔ جس کے چمکتے ہوئے فرمانرواؤں کو استمالتِ قلوب کی وجہ سے خلافتِ بغداد کے دربار نے عضد الدولہ اور اس کے بیٹے کو رکن الدولہ کا خطاب دیا تھا۔ غالباً اسلامی تاریخ میں عضدالدولہ دیلمی ہی پہلا شخص ہے جس نے یہ معزز خطاب حاصل کیا ہے۔ اس کے بعد سلطان محمود غزنوی رحمة اللہ علیہ کو خلیفہ بغداد نے یمین الدولہ کے خطاب سے سرفراز کیا۔ ایرانی سلطنتیں بھی خلفائے بنی عباس کی اتباع سے اپنے امراء دربار کو اعتضاد الدولہ۔ احتشام الدولہ وغیرہ کے خطابات دیتی رہی ہیں۔

ہندوستان کی افغانی کنگڈم بھی علاء الملک۔ عماد الملک۔ خان جہاں۔ خان دَوراں کے خطابات سے اپنے اپنے امراء و رؤ ساء کی دلجوئی کرتی رہی ہیں۔

مغل ایمپائر کے زرّین عہد میں فرمانروایانِ اودھ کو شاہ عالم ثانی کی سرکار سے شجاع الدولہ اور آصف الدولہ کا خطاب ملا ہے۔ شاہ اکبر ثانی نے سرسیّد کو جواد الدولہ عارف جنگ کا خطاب دیا تھا۔ جس کو سرسیّد کے ارادت مند آج تک اُن کے ساتھ لکھتے چلے آئے ہیں۔

سرکار کمپنی نے بھی بغرض تالیف قلوب باتباع شاہان مغلیہ والیان ٹونک کو امیرالدولہ اور ان کے بیٹے کو وزیر الدولہ کا خطاب دیا تھا۔

اس داستان باستان کو طول دینے سے خاکسار کی غرض صرف یہ ہے کہ شہنشاہ فرخ سیر کا منشور جو غفران مآب میرزا فیض محمد خانصاحب طاب اللہ ثراہٗ کے نام ہے جس میں ان کو عضدالدولہ کے خطاب سے مخاطب کیا گیاہے۔ وہ والیانِ اودھ شجاع الدولہ اور آصف الدولہ اور والیان ریاست ٹونک کے خطابات امیر الدولہ و وزیر الدولہ اور نواب بنگالہ سراج الدولہ کے خطاب سے اور سرسیّد کے خطاب جواد الدولہ سے زیادہ قدیم اور زیادہ وقیع ہے۔ کیونکہ فرخ سیر شہنشاہ ہندوستان تھا۔ اس کے بیٹے محمد شاہ کے بعد سلاطین مغلیہ شاہ عالم ثانی و اکبر شاہ ثانی نام کے بادشاہ رہ گئے تھے۔ خطاب دینے والے بادشاہوں کے لحاظ سے غفران مآب کا خطاب ایک ذی شان شہنشاہ کی طرف سے ہے۔ علاوہ برایں عضد الدولہ کا وہ معزز خطاب ہے جو بنو عباس کے خلفاء کی جانب سے ایک ذی شوکت سلطان عضد الدولہ دیلمی کو ملا تھا۔ جس کے خاندان کی طرف حدیث کی مشہور کتاب ’’دیلمی‘‘ منسوب ہے۔ اس نسبت سے بھی حضرت غفران مآب کا خطاب عضد الدولہ بمقابلہ دیگر رؤساء کے خطاباتِ اعتضاد الدولہ و احتشام الدولہ وشجاع الدولہ و آصف الدولہ و سراج الدولہ و وزیر الدولہ سے اشرف و اعلیٰ ہے۔

جہاں تک خاکسار کی نظر سے بعض امراء و رؤساء پنجاب کے پُرانے کاغذات اور سلاطین مغلیہ کے مناشیر گذرے ہیں۔ کوئی منشور ایسا نہیں گذرا۔ جس میں اس درجہ کا خطاب کسی رئیس خاندان کو منجانب شاہانِ مغلیہ عطا ہوا ہو۔

تیسرا لفظ:۔ امور مذکورۂ صدر کے سوا اس منشور میں خصوصیت کے ساتھ ایک حرف صاد کا درج ہے۔ جو جلی قلم سے نہایت نظر فریب خوش خط روشن سیاہی کے ساتھ ثبت ہے یہ حرف شہنشاہ محمد فرخ سیر کے خاص قلم کا ہے۔ جو ان کی خوشنودی مزاج کی دلیل ہے۔ اور منشور کی شان کو دوبالا کر رہا ہے۔ کیونکہ شاہانِ مغلیہ جس منشور کو وقیع کرنا چاہتے تھے تو اس پر اپنے دستِ خاص سے صاد کر دیتے تھے نعمت خاں عالی اپنے وقائع میں اس حرف صاد کی نسبت لکھتا ہے؂

سماد شش صاد است از کلک فرنگی بے سخن

یعنی چھٹا حرف صاد ہے جو بادشاہ اپنے ہاتھ سے مناشیر پر ثبت کرتا ہے۔

دوسرا منشور شا ہنشاہ ہندوستان محمد شاہ کا ہے جو جلالت مآب میرزا گل محمد صاحب اَنَارَ اللّٰہُ بُرْہَانَہٗ کی طرف ہے۔ اس پر ایک مہر کا نقش ہے۔ جس کے حروف یہ ہیں۔

’’ باللّٰہ محمود فی کل فعالہ محمدؐ ‘‘

غالباًیہ نقش خاص شاہی ہاتھ کی انگوٹھی کی مُہر کا ہے اور نہایت خوشخط کندہ کیا ہوا ہے۔ مگر افسوس ہے کہ پھیکا لگا ہے جس کے حروف ماند پڑ گئے ہیں۔ خاکسار نے آئی گلاس منگوا کر نہایت دقت کے بعد پڑھا ہے۔

فرخ سیر ہندوستان کے عہد میں جبکہ دارالسلطنت کے نواح و اطراف کے رؤساء کی خودسری نے سلطنت کی باگ ڈور کو ڈھیلا کر رکھا تھا۔ باوجود یکہ قادیان دہلی سے بعید فاصلہ پر تھا اور آمدورفت کے وسائل بھی کم اور راستہ بھی طویل تھا۔ مگر غفران مآب نے سلطنت کی وفاداری کو اپنے خاندان کو آل تمغا سمجھ کر ارادتمندانہ عرائض سے اپنی نجابت کا ثبوت دیا۔ جن کے جواب میں فرخ سیر نے نہایت محبت آمیز الفاظ کے ساتھ اپنا منشور مع خطاب ارسال کیا۔

اس منشور اور اس کے بعد کے مناشیر میں بلند حوصلگی اور علوہمت ثابت کرنے والی یہ بات ہے کہ غفران مآب نے تقویٰ کو مدّ نظر رکھتے ہوئے دربار دہلی میں جانا پسند نہ کیا۔ کیونکہ اس وقت کے دربار کا نقشہ متملق اور چاپلوس اور خوشامدی اراکین سے راجہ اندر کا اکھاڑہ بنا ہوا تھا۔ ملاہی و مناہی اور ارباب نشاط ڈوم ڈھاریوں سے ہر وقت دربار پُر رہتا تھا۔ غفران مآب نے پنجاب میں رہ کر سلطنت کی وفاداری کا اظہار سرمایہ دیانت سمجھا۔ مگر جاہ طلبی کو دُور ہی سے دھکا دیا۔

العظمة للّٰہ کیا ہی ہمت عالی تھی کہ شریعت غرّا کو مدّنظر رکھتے ہوئے دنیاوی اعزاز کی طرف قدم نہ اٹھایا۔ ورنہ اس وقت اگر دربار میں پہنچ جاتے تو شاہی عطیّات سے مالا مال ہو جاتے اور گرانمایہ جاگیر پاتے۔

فرخ سیر کے منشور کے بعد جب نہایت غور سے مغفرت انتساب میرزا گل محمد صاحب طاب اللہ ثراہٗ کے اسمی جس قدر مناشیر ہیں ان کو پڑھا جاتا ہے۔ تو ایک اور ہی کیفیت نظر آتی ہے۔ کہ شاہانِ دہلی کے دربار سے بار بار دعوتی مناشیر صادر ہوتے ہیں۔ دہلی تو دُور سہی وزیر آباد تو دروازے پر ہے۔ مگر وہ زُہد و ورع کا دلدادہ بادشاہ کو ملنے تک نہیں جاتا۔ اس پر وفاداری کا یہ حال ہے۔ کہ متواتر عرائض بھیجے جاتے ہیں۔ اور بھیجے بھی ایسے شخص کی وساطت سے جو دربار میں بھی نہایت متّقی اور پرہیز گار مانا جاتا تھا۔ جس کو خود محمد شاہ بادشاہ جیسا رنگیلا اور شاہ عالم ثانی فضیلت مآب کمالات دستگاہ سیادت و نجابت پناہ سید حیات اللہ کہہ کر پکارتے ہیں۔ الغرض جہاں میرزا گل محمد صاحب کی کرامات، زبان زد خلائق ہیں۔ یہ بات بھی کم نہیں۔ کہ آپ نہایت متقی اور پرہیز گار اور علم دوست انسان تھے۔

ان مناشیر میں ایک اور بات بھی قابل توجہ ہے۔ کہ غفران مآب میرزا فیض محمد خانصاحب اور مغفرت نصاب میرزا گل محمد صاحب نے اظہار وفا کیشی کے عرائض بھیج کر اس کے معاوضہ میں جاگیر یا منصب یا خطاب کی استدعا نہیں کی۔ کیونکہ ان مناشیر میں شاہانِ دہلی نے نہیں لکھا کہ آپ کے طلب کرنے پر یا آپ کی استدعا پر یہ خطاب یا منصب عطا کیا جاتا ہے۔ بلکہ دربار دہلی نے اپنی خوشی اور خورسندی مزاج سے خطاب اور منصب دئیے ہیں۔ اور ان عرائض کو ایسے وقت میں نعمت غیر مترقبہ سمجھا ہے۔ جس وقت اکثر نمک خوار رؤساء جوانب و اطراف میں اطاعت سے سرکوبی کر رہے تھے۔

بالآخر بآداب عرض ہے۔ کہ اوّل تو ان سب مناشیر کا فوٹو لے لیا جاوے۔ ورنہ فرخ سیر کے منشور کا عکس تو ضرور لے لینا چاہئے۔ اس کے ساتھ انگریزی اور اردو ترجمے بھی ہوں۔ اگر الفضل میں اس کی کاپیاں چھاپ دی جائیں تو جماعت کے افراد اپنے امامؑ کے اسلاف کرام کے اعزاز اور مناصب اور علو ہمت پر واقفیت حاصل کرکے ایمان کو تازہ کرلیں۔ والسلام

خاکسار عبید اللہ بسمل احمدی قادیان 24/ جنوری 1935ء‘‘

(سیرت المہدی، جلد اول روایت نمبر721)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button