سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعویٰ سے قبل زندگی پر ایک نظر

(ظہیر احمد طاہر ابن نذیر احمد خادم۔جرمنی)

فَقَدۡ لَبِثۡتُ فِیۡکُمۡ عُمُرًا مِّنۡ قَبۡلِہٖ ؕ اَفَلَا تَعۡقِلُوۡنَ۔ (یونس: 17)

پس میں اس (رسالت)سے پہلے بھی تمہارے درمیان ایک لمبی عمر گزار چکا ہوں، تو کیا تم عقل نہیں کرتے۔

مامورین کی دعویٰ سے پہلے کی زندگی ان کی صداقت کی اہم دلیل ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ خود اُن کی حفاظت فرماتا ہے اور انہیں ہر قسم کی اخلاقی کمزوریوں سے محفوظ رکھتا ہے۔ وہ صداقت شعار، ایمان داراور معدوم نیکیوں کو قائم کرنے والے ہوتے ہیں۔

امام عالی مقام سیدنا حضرت اقدس مرزا غلام احمد قادیانی علیہ الصلوٰۃوالسلام13؍فروری1835ءبمطابق14؍شوال 1250ھ میں جمعہ کے روز دنیا کی نظروں سے اوجھل ایک گمنام قصبے قادیان میں پیدا ہوئے۔ آپ کی پیدائش کا زمانہ اسلام کے لیے فکروں، رنجوں، پریشانیوں اور بہت حدتک مایوسیوں کا زمانہ تھا۔ بے شمار اندرونی اور بیرونی دشمنوں نے چاروں طرف سے مسلمانوں کو اپنے پنجوں میں جکڑا ہوا تھاگویا اسلام ہر طرف سے نرغۂ اعداء میں گھرا ہوا تھا۔ ایسے میں نورایمانی کی چند ٹمٹماتی شمعیں پگھل پگھل کر موم کے آخری قطروں میں تبدیل ہوا چاہتی تھیں کہ ربّ کائنات کے وعدوں کی تکمیل کے دن آپہنچے۔ بھنور میں پھنسی کشتی کو اُس کا ناخدا مل گیا۔ بکھری بھیڑوں کو اُن کا محافظ دے دیا گیا۔ نااُمید چہرے پھر سے روشن ہونے لگے۔ ایک پاک وجودکے دنیا میں آنے سے، اُس کی قوت قدسیہ کی برکت سے نور کے سوتے پھوٹنے لگے اور خدا کی ہستی کے اجالے نمودار ہوکر ہر سو پھیلنے لگے۔ پیاسی روحیں جوق در جوق اس مصفا چشمہ سے سیراب ہونے لگیں اورروحانیت سے عاری روحیں پھر سے زندگی کی طرف لوٹنے لگیں۔ گویا اسلام کے مرجھائے چمن میں بہاریں پھر سے واپس لوٹنے لگیں اور باغ کی رونقیں دوبالاہونے لگیں۔

مامورین کی دعویٰ سے پہلے کی زندگی ان کی صداقت کی اہم دلیل ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ خود اُن کی حفاظت فرماتا ہے اور انہیں ہر قسم کی اخلاقی کمزوریوں سے محفوظ رکھتا ہے۔ وہ صداقت شعار، ایمان داراور معدوم نیکیوں کو قائم کرنے والے ہوتے ہیں۔ اخلاق فاضلہ سے معمور ان کی زندگی ایک کھلی کتاب ہوتی ہے۔ ہر موافق و مخالف ان کی اس پاکیزہ زندگی کا معترف و مداح ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے ساتھیوں اور قوم کی امیدوں کا مرکز بن جاتے ہیں۔ لیکن جب یہ لوگ خداتعالیٰ کی طرف سے مامور ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں تو حالات یکسر بدل جاتے ہیں۔ موافق مخالف ہوجاتے ہیں اور تعریف وتعظیم کرنے والے ظلم اور تعدی پر کمربستہ ہوکر دشمنِ جان بن جاتے ہیں۔ وہ لوگ جو صدیق و امین کہنے میں رطب اللسان ہوتے ہیں وہ دریدہ دہنی کی ہر حد پار کر جاتے ہیں۔ قرآن کریم نے انبیاء کے مخالفین کے مختلف واقعات بطور مثال ہمارے لیے محفوظ فرمادیے ہیں۔ حضرت صالح علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے ایک برگزیدہ پیغمبر گذرے ہیں جو دعویٰ سے پہلے اپنی قوم کی امیدوں کے مرکز تھے لیکن جب انہوں نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے مامور ہونے کا دعویٰ کیا تو اُن کی قوم نے جو طریق اختیار کیا اُسے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں محفوظ فرمادیا ہے:

قَالُوۡا یٰصٰلِحُ قَدۡ کُنۡتَ فِیۡنَا مَرۡجُوًّا قَبۡلَ ہٰذَاۤ اَتَنۡہٰنَاۤ اَنۡ نَّعۡبُدَ مَا یَعۡبُدُ اٰبَآؤُنَا وَاِنَّنَا لَفِیۡ شَکٍّ مِّمَّا تَدۡعُوۡنَاۤ اِلَیۡہِ مُرِیۡبٍ۔(ھود:63)انہوں نے کہا اے صالح! یقیناً تُو اس سے پہلے ہمارے اندر امیدوں کا مرجع تھا۔ کیا تو ہمیں روکتا ہے کہ اس کی پوچا کریں جسے ہمارے آباء واجداد پوجتے رہے۔ اور ہم یقیناً اس بارہ میں جس کی طرف تو ہمیں بلاتا ہے بے چین کردینے والے شک میں (مبتلا) ہیں۔

ہمارے آقا و مولیٰ حضرت اقدس محمد مصطفیٰﷺ کی حیات طیبہ کے ایک ایک پہلو سے مکہ کے لوگ خوب واقف تھے۔ آپ کی امانت و صداقت کا چرچا زبان زد عام تھا۔ آپ تمام معدوم نیکیوں کو زندہ کرنے والے، مظلوموں کے ممدومعاون اور مسکینوں کے ملجا و ماویٰ تھے۔ لیکن جب آپؐ نے اللہ تعالیٰ سے خبر پاکر لوگوں کو اُس کی توحید کی طرف بلایا تو یہی لوگ آپ کے شدید مخالف بن گئے۔ آپ کو صدیق اور امین کہنے والے نعوذ باللہ آپ کو کذاب اور شریر کہنے لگے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ءَاُلۡقِیَ الذِّکۡرُ عَلَیۡہِ مِنۡۢ بَیۡنِنَا بَلۡ ہُوَ کَذَّابٌ اَشِرٌ۔ (القمر: 26)کیا ہمارے درمیان سے ایک اسی پر ذکر اُتارا گیا؟ نہیں ! بلکہ یہ تو سخت جھوٹا (اور) شیخی بگھارنے والا ہے؟

اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں مدعی نبوت کی دعویٰ سے پہلے کی زندگی کو اُس کی صداقت کا معیار ٹھہراتے ہوئے آنحضرتﷺ کی زبان مبارک سے بطور دلیل یہ اعلان فرمایا ہے: فَقَدۡ لَبِثۡتُ فِیۡکُمۡ عُمُرًا مِّنۡ قَبۡلِہٖ ؕ اَفَلَا تَعۡقِلُوۡنَ۔ (یونس: 17)پس میں اس (رسالت)سے پہلے بھی تمہارے درمیان ایک لمبی عمر گزار چکا ہوں، تو کیا تم عقل نہیں کرتے۔

قطب الاولیاء حضرت ابو اسحٰق ابراہیم بن شہر یار رحمۃ اللہ علیہ اسی قرآنی اصول کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’جو شخص جوانی میں اللہ تعالیٰ کا فرمانبردار ہوگا۔ وہ بڑھاپے میں بھی اللہ ہی کا تابعدار رہےگا۔‘‘(تذکرۃ الاولیاء، مصنفہ حضرت شیخ فرید الدین عطار، شائع کردہ شیخ برکت علی اینڈ سنز لاہور ) (احمدیہ پاکٹ بک صفحہ 330)

اسی قرآنی اصول کے تحت بانی جماعت احمدیہ حضرت مرزاغلام احمد قادیانی علیہ السلام کی دعویٰ سے پہلے کی زندگی نہایت پاکیزہ اور اعلیٰ اخلاق سے منزہ تھی۔ حضور علیہ السلام اسی قرآنی دلیل کو اپنے حق میں پیش کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’اب دیکھو خدا نے اپنی حجت کو تم پر اس طرح پورا کردیا ہے کہ میرے دعویٰ پر ہزار ہا دلائل قائم کرکے تمہیں یہ موقعہ دیا ہے کہ تاتم غور کرو کہ وہ شخص جو تمہیں اس سلسلہ کی طرف بلاتا ہے۔ وہ خود کس درجہ کی معرفت کا آدمی ہے اور کس قدر دلائل پیش کرتا ہے اور تم کوئی عیب، افترا یا جھوٹ یا دغا کا میری پہلی زندگی پر نہیں لگاسکتے۔ تاتم یہ خیال کرو کہ جو شخص پہلے سے جھوٹ اور افترا کا عادی ہے یہ بھی اس نے جھوٹ بولا ہوگا۔ کون تم میں ہے جو میری سوانح زندگی میں کوئی نکتہ چینی کرسکتا ہے؟ پس یہ خدا کا فضل ہے کہ جو اُس نے ابتداء سے مجھے تقویٰ پر قائم رکھا اور سوچنے والوں کے لیے یہ ایک دلیل ہے۔‘‘(تذکرۃ الشہادتین، روحانی خزائن جلد 20صفحہ 64)

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ماضی

قادیان میں مختلف مذاہب اور عقائد کے لوگ بستے تھے۔ سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے متعدد بار ہندوؤں، سکھوں اور مسلمانوں میں یہ اعلان فرمایا کہ کیاتم میری پہلی زندگی پر کوئی اعتراض کرسکتے ہو۔ لیکن کسی ایک فرقہ یا مذہب کے آدمی کویہ جرأت نہ ہوئی کہ دعویٰ نبوت سے پہلی زندگی پر کوئی ادنیٰ سا اعتراض کرسکے۔ بلکہ بعض شدید معاندین احمدیت نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دعویٰ مسیحیت سے پہلے کی خدمت اسلام اور پاکیزہ زندگی پر زبردست الفاظ میں گواہی دی ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’ہم حضرت مرزا صاحب کی دعویٰ سے پہلے کی زندگی کو دیکھتے ہیں تو آپ نے یہاں کے ہندوؤں، سکھوں اور مسلمانوں کو بار بار باعلان فرمایا کہ کیا تم میری پہلی زندگی پر کوئی اعتراض کرسکتے ہو مگر کسی کو جرأت نہ ہوئی بلکہ آپ کی پاکیزگی کا اقرار کرنا پڑا۔ مولوی محمد حسین بٹالوی جو بعد میں سخت ترین مخالف ہوگیا اس نے اپنے رسالہ میں آپ کی زندگی کی پاکیزگی اور بے عیب ہونے کی گواہی دی اور مسٹر ظفر علی خان کے والد نے اپنے اخبار میں آپ کی ابتدائی زندگی کے متعلق گواہی دی کہ بہت پاکباز تھے۔ پس جو شخص چالیس سال تک بے عیب رہا اور اس کی زندگی پاکباز رہی وہ کس طرح راتوں رات کچھ کا کچھ ہوگیا اور بگڑ گیا۔ علماء نفس نے مانا ہے کہ ہر عیب اور اخلاقی نقص آہستہ آہستہ پیدا ہوا کرتا ہے ایک دم کوئی تغیر اخلاقی نہیں ہوتا ہے۔ پس دیکھو کہ آپ کا ماضی کیسا بے عیب اور بے نقص اور روشن ہے۔‘‘(معیار صداقت، انوار العلوم جلد6صفحہ61)

پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعویٰ سے پہلے کی زندگی پر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ کس طرح خدا تعالیٰ نے آپ کو گناہ کی آلائشوں سے پاک رکھا، خود آپ کی تربیت کا انتظام فرمایا اورایک تقویٰ شعار زندگی آپ کو عطا کی۔

اے فدا ہو تیری راہ میں میرا جسم و جان و دل

میں نہیں پاتا کہ تجھ سا کوئی کرتا ہو پیار

ابتدا سے تیرے ہی سایہ میں میرے دن کٹے

گود میں تیری رہا میں مثلِ طفلِ شِیرخوار

(براہین احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزائن جلد 21صفحہ 127)

حضرت اقدسؑ کا پاکیزہ بچپن

حضرت اقدس علیہ السلام کا بچپن عام بچوں سے بہت مختلف اور معاشرے کی تمام تر خرابیوں سے معجزانہ طور پر نہایت درجہ پاکیزہ اور مقدس تھا۔ اللہ تعالیٰ نے معاشرے میں پائی جانے والی بے شمار برائیوں اور اخلاقی کمزوریوں سے آپ کی حفاظت فرمائی اور آپ کو دیگربچوں اور ہم عمروں سے ممتازکردیا۔ متانت، سنجیدگی اور تنہا پسندی کی عادت آپ کی فطرت میں ودیعت کی گئی تھی اگرچہ آپ کھیل کود کے شیدائی نہ تھے لیکن تیر اندازی، تیراکی، شاہسواری میں دسترس حاصل کی۔ مگر ان مشاغل میں اپنا وقت ضائع نہیں کرتے تھے۔ آپ کی پسندیدہ ورزش لمبی سیر تھی۔ سیر کی آپ کو شروع سے عادت تھی جو زندگی کے آخری وقت تک جاری رہی۔ آپ نہایت متانت اور وقار کے ساتھ بہت تیز چلا کرتے تھے۔ موضع بہادر حسین ضلع گورداسپور کے ایک سربرآوردہ شخص کی گواہی ہے کہ ایک مرتبہ آپ اپنے بڑے بھائی مرزا غلام قادر صاحب کے ساتھ اُن کے گاؤں میں تشریف لائے یہ گاؤں ان کی جاگیر تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ’’مرزا غلام قادر صاحب ہمارے ساتھ کھیلتے اور جو جو کھیلیں ہم کرتے وہ بھی کرتے مگر مرزا غلام احمد صاحبؑ نہ لڑکوں کے ساتھ کھیلتے اور نہ شوخی وغیرہ کی باتیں کرتے بلکہ چپ چاپ بیٹھے رہتے۔‘‘(الحکم 14؍جون 1936ء صفحہ 9بحوالہ تاریخ احمدیت جلد اوّل صفحہ51)

حضور علیہ السلام کا ابتدائی عمر سے ہی خدا تعالیٰ کے ساتھ گہرا لگائواور تعلق تھا۔ اپنا زیادہ وقت مسجد میں گزارتے اور کثرت سے قرآن شریف کا مطالعہ کرتے۔ اکثر اوقات مسجد میں ٹہلتے ٹہلتے قرآن شریف پر غورو تدبر کرتے۔ دیگر مذاہب کی کتب کا مطالعہ کرتے اور اسلام پر کیے جانے والے اعتراضات کے جواب کے لیے اللہ تعالیٰ سے مدد مانگتے۔ حضور کے بچپن کا واقعہ بیان کرتے ہوئے ایک احمدی ٹیچر میاں محمد حسین صاحب سکنہ بلوچستان روایت کرتے ہیں کہ’’مجھے مولوی برہان الدین صاحب رضی اللہ عنہ نے بتایا کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام مولوی غلام رسول صاحب قلعہ میہاں سنگھ کے پاس گئے اور اس وقت حضور ابھی بچہ ہی تھے۔ اس مجلس میں کچھ باتیں ہورہی تھیں۔ باتوں باتوں میں مولوی غلام رسول صاحب نے جو کہ ولی اللہ و صاحبِ کرامات تھے فرمایاکہ’’اگر اس زمانہ میں کوئی نبی ہوتا تو یہ لڑکا نبوت کے قابل ہے۔‘‘اُنہوں نے یہ بات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر محبت سے ہاتھ پھیرتے ہوئے کہی۔ مولوی برہان الدین صاحبؓ کہتے ہیں کہ مَیں خود اس مجلس میں موجود تھا۔‘‘(روایات صحابہؓ غیر مطبوعہ جلد 12صفحہ 104-105بحوالہ حیات طیبہ مصنفہ شیخ عبدالقادر صاحب صفحہ 11)

اگرہم اپنی سوچوں کوکئی سو سال پہلے کی طرف لے جائیں تو ہمارے دماغ میں تاریخ اسلام کا وہ واقعہ گردش کرنے لگے گا جب بحیرا نامی راہب نے حضرت نبی کریمﷺ میں آثار نبوت دیکھ کر حضرت ابوطالب سے فرمایا تھا کہ اہل کتاب کے شر سے ان کی حفاظت کرنا کیونکہ میں ان میں نبوت کی علامات دیکھ رہا ہوں۔ حضرت صاحبزاہ مرزا بشیر احمد رضی اللہ عنہ اُس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں کہ ’’شام کے جنوب میں بصریٰ ایک مشہور مقام ہے، وہاں پہنچے تو ایک عجیب واقعہ پیش آیا۔ وہاں ایک عیسائی راہب رہتا تھا جس کا نام بحیرا تھا۔ جب قریش کا قافلہ اس کی خانقاہ کے پاس پہنچا تو اس راہب نے دیکھا کہ تمام پتھر اور درخت وغیرہ یکلخت سجدہ میں گر گئے۔ اُسے معلوم تھاکہ الٰہی نوشتوں کی رُو سے ایک نبی مبعوث ہونے والا ہے۔ اس لیے اُس نے اپنی فراست سے سمجھ لیاکہ اس قافلے میں وہی نبی موجود ہوگا۔ چنانچہ اُس نے اپنے قیافہ سے آنحضرتﷺ کو پہچان لیا اور اس سے ابو طالب کو اطلاع دی اور ابوطالب کو نصیحت کی کہ آپ کو اہل کتاب کے شَر سے محفوظ رکھیں۔‘‘(سیرت خاتم النبیینؐ صفحہ 100)

ایک معمر ہندو جاٹ کی شہادت

قادیان سے چند کوس دور ایک گائوں کے رہائشی معمر ہندو جاٹ نے ایک موقع پر حضرت اقدسؑ کے بارے میں بتایا کہ ’’کیا کیا باتیں مرزا جی کی سنائوں ایک دفتر لکھنے کو چاہئے میں ان کی پیدائش کے زمانہ سے پہلے کا ہوں اور میں نے ان کو گود میں کھلایا ہے۔ جب سے اس نے ہوش سنبھالا ہے بڑا ہی نیک رہا، دنیا کے کسی کام میں نہیں لگا۔ بچوں کی طرح کھیل کود میں مشغول نہیں ہوا۔ شرارت فساد جھوٹ گالی کبھی اس میں نہیں۔ ہم اور ہمارے ہم عمر اس کو سست اور سادہ لوح اور بے عقل سمجھا کرتے تھے کہ یہ کس طرح گھر بسائے گا۔ سوائے الگ مکان میں رہنے کے اور کچھ کام ہی نہیں تھا۔ نہ کسی کو مارا نہ آپ مار کھائی۔ نہ کسی کو برا کہا نہ آپ کہلوایا ایک عجیب پاک زندگی تھی۔ مگر ہماری نظروں میں اچھی نہیں تھی۔ نہ کہیں آنا نہ جانا نہ کسی سے سوائے معمولی بات کے بات کرنا۔ اگر ہم نے کبھی کوئی بات کہی کہ میاں دنیا میں کیا ہورہا ہے۔ تم بھی ایسے رہو اور کچھ نہیں تو کھیل تماشہ کے طور پر ہی باہر آیا کرو تو کچھ نہ کہتے ہنس کے چپ ہو رہتے۔ تم عقل پکڑو کھائو کمائو کچھ تو کیا کرو یہ سن کر خاموش ہورہتے۔ آپ کے والد مجھے کہتے۔ نمبردار جا غلام احمد کو بلا لائو اسے کچھ سمجھادیں گے۔ میں جاتا بلالاتا۔ والد کا حکم سن کر اسی وقت آجاتے اور چپ چاپ بیٹھ جاتے اور نیچی نگاہ رکھتے۔ آپ کے والد فرماتے بیٹا غلام احمد ہمیں تمہارا بڑا فکر اور اندیشہ رہتا ہے۔ تم کیا کرکے کھائو (گے ) اس طرح سے زندگی کب تک گزاروگے تم روزگار کرو۔ کب تک دلہن بنے رہو گے۔ خوردنوش کا فکر چاہئے دیکھو دنیا کماتی کھاتی پیتی ہے۔ کام کاج کرتی ہے۔ تمہارا بیاہ ہوگا، بیوی آوے(گی ) بالک بچے ہوں گے۔ وہ کھانے پینے پہننے کے لئے طلب کریں گے۔ ان کا تعہد تمہارے ذمہ ہوگا۔ اس حالت میں تو تمہارا بیاہ کرتے ہوئے ڈر لگتا ہے۔ کچھ ہوش کرو، اس غفلت اور اس سادگی کو چھوڑ دو۔ میں کب تک بیٹھا رہوں گا۔ بڑے بڑے انگریزوں، افسروں، حاکموں سے میری ملاقات ہے۔ وہ ہمارا لحاظ کرتے ہیں۔ میں تم کو چٹھی لکھ دیتا ہوں تم تیار ہوجائو یا کہو تو میں خود جاکر سفارش کروں تو مرزا غلام احمد کچھ جواب نہ دیتے وہ بار بار اسی طرح کہتے۔ آخر جواب دیتے تو یہ دیتے کہ ابا بھلا بتلائو تو سہی کہ جو افسروں کے افسر اور مالک الملک احکم الحاکمین کا ملازم ہو اور اپنے ربّ العالمین کا فرمانبردار ہو اس کو کسی کی ملازمت کی کیا پرواہ ہے۔ ویسے میں آپ کے حکم سے بھی باہر نہیں۔ مرزا غلام مرتضیٰ صاحب یہ جواب سن کر خاموش ہوجاتے اور فرماتے اچھا بیٹا جائو، اپنا خلوت خانہ سنبھالو۔ جب یہ چلے جاتے تو ہم سے کہتے کہ یہ میرا بیٹا مُلاّ ہی رہے گا۔ میں اس کے واسطے کوئی مسجد ہی تلاش کردوں جو دس، بیس من دانے ہی کمالیتا۔ مگر میں کیا کروں، یہ تو ملا گری کے بھی کام کا نہیں۔ ہمارے بعد یہ کس طرح زندگی بسر کرے گا۔ ہے تو یہ نیک صالح مگر اب زمانہ ایسوں کا نہیں۔ چالاک آدمیوں کا ہے۔ پھر آب دیدہ ہوکر کہتے کہ جو حال پاکیزہ غلام احمد کا ہے وہ ہمارا کہاں ہے۔ یہ شخص زمینی نہیں آسمانی ہے۔ یہ آدمی نہیں فرشتہ ہے۔ یہ بات کہہ کے وہ بڈھا ہندو بھی چشم پر آب ہوکر کہنے لگا کہ اب مرزا غلام مرتضیٰ زندہ ہوتا اور اس کا یہ عروج اور ترقی دیکھتا کہ دنیا کے عقلمند اور مولوی، ملاّ اس کے در کے محتاج ہیں اور خدا نے وہ مرتبہ اس کو دیا اور اپنا وہ جلوہ قدرت دکھایا کہ سب کی عقل اور علم اس کے آگے ہیچ ہے۔‘‘(تذکرۃ المہدی حصہ اوّل ودوم صفحہ 300تا302)

مندرج بالا روایت میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی سیرت کے مختلف پہلو بیان ہوئے ہیں۔ جس میں ایک علامت آپ کے متعلق یہ بیان ہوئی ہے کہ آپ والد صاحب کے بلانے پر آنکھیں نیچی کرکے تشریف لاتے نیزآپ کے شرمیلے پن یعنی دلہنوں کی طرح شرمانے کا ذکر ہوا ہے۔ حضور علیہ السلام کا یہ عمل بھی اپنے آقا ومولیٰﷺ کی سنت کے عین مطابق تھا۔ حدیث میں آنحضرتﷺ کے متعلق یہ روایت بیان ہوئی ہے کہ أَشَدَّ حَیَاءً مِنَ الۡعَذۡرَاءِِ فِی خِدۡرِھَا (صحیح البخاری کتاب المناقب باب: صِفَۃُ النَّبِیِّﷺ حدیث: 3562) نبیﷺ اس کنواری سے بھی زیادہ شرمیلے تھے جو اپنے پردے میں ہوتی ہے۔

عبادت الٰہی اور خاص طورپر نماز سے آپ کو ابتدائی عمر سے قلبی لگاؤ تھا۔ حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی رضی اللہ عنہ آپ کی ابتدائی سوانح بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں نہایت چھوٹی عمر میں اپنی ہم سن لڑکی سے (جو بعد میں آپ سے بیاہی گئی) فرمایا کرتے تھے کہ ’’نامرادے دعا کر کہ خدا میرے نماز نصیب کرے۔‘‘(سیرت مسیح موعودؑ جلد اوّل نمبر دوم بحوالہ تاریخ احمدیت جلد اوّل صفحہ 52)

حضرت پیر سراج الحق نعمانی رضی اللہ عنہ اپنی کتاب تذکرۃ المہدی میں حضور اقدسؑ کے ہم عصر ایک ہندو سے اپنی گفتگوکا ذکر کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں: ’’قادیان کو آتے ہوئے یکہ میں ایک ہندو بھی سوار ہولیا وہ بھی قادیان کو آتا تھا لیکن اس کو کسی دوسرے گائوں آگے جانا تھا۔ میں نے اس سے پوچھا کہ تم حضرت مرزا غلام احمد صاحب کو جانتے ہو۔ اُس نے کہا کہ میں خوب جانتا ہوں اور تم سے زیادہ واقف ہوں۔ میں نے کہا کہ کوئی ایسی بات آپ کو معلوم ہو کہ جس سے اچھا برا جو کچھ بھی حال ہو معلوم ہوجائے اس نے کہا کہ میں نے بچپن سے مرزا غلام احمد کو دیکھا ہے (علیہ السلام ) میں اور وہ ہم عمر ہیں اور قادیان میرا آنا جانا ہمیشہ رہتا ہے اور اب بھی دیکھتا ہوں جیسی عمدہ عادات اب ہیں ایسی نیک خصلتیں اور عادات پہلے تھیں اب بھی وہی ہیں۔ سچا۔ امانت دار، نیک، میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ پرمیشور مرزا صاحب کی شکل اختیار کرکے زمین پر اتر آیا ہے اور پرمیشور اپنے جلوے آپ دکھا رہا ہے۔ اگر ایسے ہی لوگوں میں پرمیشور اوتار نہ لے تو پھر کسی میں اپنا روپ دھار کر اپنے آپ کو ظاہر نہ کرے۔ یہ الفاظ اسی کی زبان کے ہیں میں نے نوٹ کرلئے تھے۔‘‘(تذکرۃ المہدی حصہ اول ودوم صفحہ 302تا303)

ایک اور روایت میں ہے کہ’’بڑے مرزا صاحب کہا کرتے تھے کہ میرا بیٹا مسیتڑ ہے نہ نوکری کرتا ہے نہ کماتا ہے۔‘‘(تاریخ احمدیت جلد اوّل صفحہ 61)

پٹیالہ کے ایک غیر احمدی تحصیلدارمنشی عبدالواحدصاحب اکثر حضرت مرزا غلام مرتضیٰ صاحب کے پاس قادیان آتے تھے۔ اس لیے انہیں بچپن میں حضور علیہ السلام کو بارہا دیکھنے اور آپ کے اخلاق کریمانہ مشاہدہ کرنے کا موقعہ ملا۔ منشی صاحب کی شہادت ہے کہ حضور چودہ پندرہ سال کی عمر میں سارا دن قرآن شریف پڑھتے تھے اور حاشیہ پر نوٹ لکھتے رہتے تھے اور مرزا غلام مرتضیٰ صاحب فرماتے کہ یہ کسی سے غرض نہیں رکھتا، سارا دن مسجد میں رہتا ہے اور قرآن شریف پڑھتا رہتا ہے۔ (ریویو آف ریلیجنز اردو قادیان جنوری 1942ء صفحہ 9بحوالہ تاریخ احمدیت جلد اوّل صفحہ 64)

ایک مرتبہ رسول کریمﷺ نے ایسے سات شخصوں کی علامات بیان فرمائیں جنہیں اللہ تعالیٰ اپنے سایہ میں جگہ دے گا۔ ان میں سے دو علامات کے متعلق آپ نے فرمایا: وَرَجُلٌ ذَکَرَاللّٰہَ خَالِیًا فَفَاضَتۡ عَیۡنَاہُ اور وہ شخص جس نے تنہائی میں اللہ تعالیٰ کو یاد کیا اور اس کی آنکھوں سے آنسو بہ پڑے۔ وَرَجُلٌ مُعَلَّقٌ بِالۡمَسۡجِدِ اِذَا خَرَجَ مِنۡہُ حَتَّی یَعُوْدَ اِلَیۡہِ اور وہ شخص جو مسجد سے اٹکا ہوا ہے۔ جب اس سے نکلتا ہے یہاں تک کہ وہ اس میں واپس آجاتا ہے۔ (صحیح مسلم کتاب الزکوٰۃ بَابُ فَضۡلِ اِخۡفَاءِِ الصَّدَقَۃِ حدیث: 1698)

پس حضور علیہ السلام کا عالم شباب سے ہی نہایت درجہ خشوع و خضوع، اسلام کی ترقی و اشاعت کے لیے بےقرار ہوکراللہ تعالیٰ کے حضور دعائیں کرنا، اُس کے حضور آنسو بہانا اور اپنا زیادہ وقت مسجد میں گزارنا بتاتا ہے کہ آپؑ اپنے آقا و مولیٰﷺ کے اس فرمان کے حقیقی مصداق ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے ایک عربی شعر میں فرماتے ہیں:

اَلۡمَسۡجِدُ مَکَانِیۡ وَالصَّالِحُوۡنَ اِخۡوَانِیۡ

وَذِکۡرُ اللّٰہِ مَالِیۡ وَ خَلۡقُ اللّٰہِ عَیَالِیۡ

(سیرت مسیح موعودؑ حصہ سوم صفحہ 387۔ بحوالہ تاریخ احمدیت جلد اوّل صفحہ 53)

اوائل ہی سے مسجد میرا مکان، صالحین میرے بھائی، یادالٰہی میری دولت ہے اور مخلوق خدا میرا عیال اور خاندان ہے۔

زمانہ طالب علمی میں آپ قادیان کے علاوہ بٹالہ میں اپنی خاندانی حویلی میں رہائش پذیر رہے۔ ان دنوں آپ کے ہم مکتبوں میں مشہور اہل حدیث مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی اور لالہ بھیم سین بھی شامل تھے۔ جنہیں آپ کی خدا نما شخصیت کو قریب سے دیکھنے کا موقعہ ملا۔ یہ عین عنفوانِ شباب کا زمانہ تھا مگر اللہ تعالیٰ کے قادرانہ ہاتھ نے آپ کو ہر قسم کی کمزوری سے محفوظ رکھا۔ آپ کا تعلق باللہ، استغراق، شب بیداری، نورانیت سے معمور چہرہ اور عشق رسولﷺ کو دیکھنے والا ہر شخص ہزار جان سے آپ پر فریفتہ ہوجاتا۔ حضور علیہ السلام کے اخلاق کا اثر تھا کہ’’لالہ بھیم سین اور ان کے فرزند لالہ کنور سین کو اپنی عمر کے آخری سانس تک حضرت اقدسؑ سے بے حد الفت و عقیدت رہی۔‘‘(تاریخ احمدیت جلد اوّل صفحہ 55)

امتحان میں کامیابی کی قبل از وقت خبر

مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس جگہ لالہ بھیم سین صاحب سے تعلق رکھنے والے دو نشانات کا بھی ذکر کردیا جائے جو حضور علیہ السلام کے قیام سیالکوٹ کے دوران پورے ہوئے۔ پنجاب میں چیف کورٹ کا نیا نیا افتتاح ہوا تو وکالت کے امتحان کے لیے ابتدائی آسانیاں میسر تھیں اور بعض اہل کاروں کو قبل از امتحان قانونی پریکٹس کی اجازت دے دی جاتی تھی۔ لالہ بھیم سین صاحب بھی اسی قسم کے اہلکاروں میں شامل تھے۔ اس امتحان کا نتیجہ شائع ہونے سے قبل ہی اللہ تعالیٰ نے حضور علیہ السلام کو امتحان کے نتیجہ سے آگاہ فرمادیا۔ حضور علیہ السلام اس نشان کا ذکر کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں: ’’ایک وکیل صاحب سیالکوٹ میں ہیں جن کا نام لالہ بھیم سین ہے۔ ایک مرتبہ انہوں نے اِس ضلع میں وکالت کا امتحان دیا تو میں نے ایک خواب کے ذریعہ سے اُن کو بتلایا کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ایسا مقدر ہے کہ اس ضلع کے کل اشخاص میں سے صرف تم ایک ہو کہ وکالت میں پاس ہوجائو گے۔ اور یہ خبر میں نے تیس کے قریب اور لوگوں کو بھی بتلائی۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا اور سیالکوٹ کی تمام جماعت کی جماعت جنہوں نے وکالت یا مختار کاری کا امتحان دیا تھا فیل ہوگئے۔‘‘(تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد 15صفحہ 256، نشان نمبر 35)

تیجا سنگھ کی وفات کی خبر

حضور علیہ السلام لالہ بھیم سین سے تعلق رکھنے والے ایک اورنشان کا ذکر کرتے ہوتے تحریر فرماتے ہیں: ’’انہی وکیل صاحب یعنی لالہ بھیم سین صاحب کو جو سیالکوٹ میں وکیل ہیں ایک مرتبہ میں نے خواب کے ذریعہ سے راجہ تیجا سنگھ کی موت کی خبر پاکر اُن کو اطلاع دی کہ وہ راجہ تیجا سنگھ جن کو سیالکوٹ کے دیہات جاگیر کے عوض میں تحصیل بٹالہ میں دیہات مع اس کے علاقہ کی حکومت کے ملے تھے فوت ہوگئے ہیں اور انہوں نے اس خواب کو سن کر بہت تعجب کیا اور جب قریب دو بجے بعد دوپہر کے وقت ہوا تو مسٹر پرنسب صاحب کمشنر امرتسر ناگہانی طورپر سیالکوٹ میں آگئے اور انہوں نے آتے ہی مسٹر مکنیب صاحب ڈپٹی کمشنر سیالکوٹ کو ہدایت کی کہ راجہ تیجا سنگھ کے باغات وغیرہ کی جو ضلع سیالکوٹ میں واقع ہیں بہت جلد ایک فہرست طیار ہونی چاہئے کیونکہ وہ کل بٹالہ میں فوت ہوگئے۔ تب لالہ بھیم سین نے اس خبرموت پر اطلاع پاکر نہایت تعجب کیا کہ کیونکر قبل از وقت اس کے مرنے کی خبر ہوگئی۔‘‘(تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد 15صفحہ256تا257)

مولوی محمد حسین بٹالوی کی گواہی

مشہور اہل حدیث لیڈر مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کا شمار احمدیت کے شدید مخالفین میں ہوتا ہے۔ یہ وہی مولوی صاحب ہیں جو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دعویٰ ماموریت و مسیحیت سے پہلے آپ کے بہت مداح تھے۔ جب حضور نے اپنی مشہور کتاب ’’براہین احمدیہ ‘‘تصنیف فرمائی تو مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے اپنے رسالہ اشاعۃ السنہ جلد 7میں حضور علیہ السلام کی شخصیت اور کتاب کی تعریف میں ایک لمبا مضمون تحریر کیا۔ اس مضمون میں ہم مکتبی کے انہی ایام کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’مؤلف براہین احمدیہ کے حالات و خیالات سے جس قدر ہم واقف ہیں ہمارے معاصرین سے ایسے واقف کم نکلیں گے۔ مؤلف ہمارے ہم وطن ہیں۔ بلکہ اوائل عمر کے (جب ہم قطبی و شرح ملّا پڑھتے تھے ) ہمارے ہم مکتب۔ اس زمانہ سے آج تک ہم میں ان میں خط وکتابت وملاقات و مراسلات برابر جاری رہی ہے۔ اس لئے ہمارا یہ کہنا کہ ہم ان کے حالات و خیالات سے بہت واقف ہیں مبالغہ قرار نہ دیئے جانے کے قابل ہے۔‘‘(اشاعۃ السنہ جون جولا ئی، اگست1884ء بحوالہ تاریخ احمدیت جلد اوّل صفحہ56)

دعویٰ سے قبل مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی حضوراقدس علیہ السلام کی بہت عزت کرتے اور انہیں آپ کے ساتھ خاص عقیدت تھی۔ تاریخ احمدیت میں لکھا ہے کہ’’حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی دلربا شخصیت اور تقدس کے انہی گہرے نقوش کا اثر تھا کہ مولوی صاحب دلی سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد جب واپس بٹالہ آئے تو اگرچہ ایک عالم کی حیثیت سے ہندوستان بھر میں مشہور ہوگئے اور ہر جگہ ان کا طوطی بولنے لگا۔ مگر اس وقت بھی ان کی حضور سے عقیدت کا یہ عالم تھا کہ حضور کا جوتا آپ کے سامنے سیدھا کرکے رکھتے اور اپنے ہاتھ سے آپ کا وضو کرانا موجب سعادت قرار دیتے تھے۔‘‘(تاریخ احمدیت جلد اوّل صفحہ 56)

اسی طرح حضرت میاں خیرالدین سیکھوانی رضی اللہ عنہ کا چشم دید واقعہ ہے کہ’’دعویٰ سے پہلے ایک مرتبہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کے مکان واقع بٹالہ پر تشریف فرما تھے۔ مَیں بھی خدمت اقدس میں حاضر تھا۔ کھانے کا وقت ہو ا تو مولوی صاحب خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ہاتھ دھلانے کے لیے آگے بڑھے۔ حضور نے ہر چند فرمایا کہ مولوی صاحب آپ نہ دھلائیں۔ مگر مولوی صاحب نے باصرار حضور کے ہاتھ دھلائے اور اس خدمت کو اپنے لیے باعث فخر سمجھا۔ ابتداء میں مولوی صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زاہدانہ زندگی کی وجہ سے آپ کی بہت عزت کرتے تھے۔‘‘(سیرت المہدی جلد سوم صفحہ 124۔ ایڈیشن اوّل اپریل 1939ء)

براہین احمدیہ شائع ہوئی تو اس پر تبصرہ لکھتے ہوئے مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے حضور علیہ السلام کی شخصیت کے بارے میں لکھا کہ’’مؤلف براہین احمدیہ مخالف و موافق کے تجربے اور مشاہدے کی رو سے (وَاللّٰہُ حَسِیۡبُہٗ) شریعت محمدیہؐ پر قائم و پرہیز گار و صداقت شعار ہیں۔‘‘(اشاعۃ السنۃ جلد 7نمبر9بحوالہ احمدیہ پاکٹ بک صفحہ 331)

اسی طرح براہین احمدیہ پر تبصرہ کرتے ہوئے مولوی صاحب نے لکھا: ’’ہماری رائے میں یہ کتاب اس زمانہ میں اور موجودہ حالت کی نظر سے ایسی کتاب ہے جس کی نظیر آج تک اسلام میں تالیف نہیں ہوئی اور اور آئندہ کی خبر نہیں۔ لَعَّلَ اللّٰہَ یُحۡدِثُ بَعۡدَ ذٰلِکَ اَمۡرًا۔ اس کا مؤلف بھی اسلام کی مالی و جانی و قلمی و لسانی و حالی و قالی نصرت میں ایسا ثابت قدم نکلا ہے جس کی نظیر پہلے مسلمانوں میں بہت ہی کم پائی گئی ہے۔

ہمارے ان الفاظ کو کوئی ایشیائی مبالغہ سمجھے تو ہم کو کم سے کم ایک ایسی کتاب بتادے جس میں جملہ فرقہ ہائے مخالفینِ اسلام خصوصاً فرقہ آریہ و برہم سماج سے ایسے زور شور سے مقابلہ پایا جاتا ہو اور دو چار ایسے اشخاص انصارِ اسلام کے نشاندہی کرے جنہوں نے اسلام کی جانی و مالی و قلمی و لِسانی نصرت کے علاوہ حالی نصرت کا بھی بیڑہ اٹھالیاہواور مخالفین اسلام اور منکرین الہام کے مقابلہ میں مردانہ تحدّی کے ساتھ یہ دعویٰ کیا ہو کہ جس کو وُجودِ الہام کا شک ہو، وہ ہمارے پاس آکر تجربہ و مشاہدہ کرلے اور اس تجربہ و مشاہدہ کا اقوامِ غیر کو مزہ بھی چکھا دیا ہو۔‘‘(سوانح فضل عمرؓ جلد اوّل، صفحہ 20۔ ناشر فضل عمر فائونڈیشن۔ طبع اوّل دسمبر 1975ء)

افسوس! حضور علیہ السلام کے دعویٰ مسیحیت کے بعد مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی مخالفت پر کمربستہ ہوگئے اور اوّل المکذبین بن کر آپ کے خلاف منظم محاذ قائم کرلیا۔ لیکن جب حضور علیہ السلام نے ہندوستان بھر کے علماء کو اپنے دعویٰ سے قبل کی زندگی پر کسی قسم کا کوئی داغ ثابت کرنے کے لیے چیلنج دیا تو مولوی محمد حسین بٹالوی سمیت اُن کے ہم خیال علماء اور سجادہ نشینوں پر سکوت مرگ طاری ہوگیا اور وہ حضور علیہ السلام کی پاک زندگی پر انگشت نمائی کرنے سے سراسر قاصر رہے۔ مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری ایڈیٹر ’’ اہل حدیث‘‘کا شمار حضور علیہ السلام کے شدید مخالفین میں ہوتا ہے حالانکہ دعویٰ مسیحیت سے پہلے وہ بھی آپ سے حسن زن رکھتے تھے اور زیارت کے لیے قادیان آچکے تھے۔ مولوی صاحب اپنی کتاب ’’تاریخ مرزا ‘‘کے صفحہ 53پر لکھتے ہیں: ’’براہین احمدیہ تک میں مرزا صاحب سے حسن ظن رکھتا تھا۔ چنانچہ ایک دفعہ جب میری عمر کوئی 18,17سال کی ہوگی میں بشوقِ زیارت پا پیادہ قادیان گیا۔‘‘

حکیم مظہر حسین سیالکوٹی کا شمار حضور علیہ السلام کے شدید دشمنوں میں ہوتا ہے۔ اس بدبخت انسان نے ناول کی طرز پر حضور علیہ السلام کے بعض واقعات پر معاندانہ اعتراضات کیے ہیں مگر ان میں بھی حق اس کی زبان سے جاری ہوگیا۔ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق لکھتا ہے کہ’’ثقہ صورت۔ عالی حوصلہ۔ اور بلند خیالات کا انسان اپنی علو ہمتی کے مقابل کسی کا وجود نہیں سمجھتا۔ اندر قدم رکھتے ہی وضو کے لیے پانی مانگا۔ اور وضو سے فراغت پاکر نماز مغرب ادا کی۔ وظیفہ میں تھے ورد ووظائف کا لڑکپن سے شوق ہے۔ مکتب کے زمانہ میں تحفۃالہند۔ تحفۃ الہنود وخلعت الہنود وغیرہ کتابیں اور سنّی اور شیعہ اور عیسائی اور مسلمانوں کے مناظرہ کی کتابیں دیکھا کرتے تھے۔ اور ہمیشہ آپ کا ارادہ تھا کہ کل مذاہب اسلام کی تردید میں کتابیں لکھ کر شائع کرائیں۔‘‘(حیات احمد جلد اوّل حصہ دوم صفحہ 158۔ کمپوزڈ ایڈیشن مطبوعہ اگست 1913ء )

حضور علیہ السلام کے ایک شدید دشمن کی زبان سے ایسے الفاظ کا نکلنا ثابت کرتا ہے کہ وہ بھی حضور علیہ السلام کی پاک زندگی اور اسلام کے لیے آپ کی غیرت کا معترف ہے۔

اساتذہ پر آپ کی فہم وفراست کا اثر

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی فہم وفراست، تقویٰ شعاری اور خداتعالیٰ کی طرف سے ودیعت کیے گئے علم لدنی کا بعض مواقع پر آپ کے اساتذہ کو بھی معترف ہونا پڑا۔ تاریخ احمدیت میں لکھا ہے: ’’ایک دفعہ دوران تعلیم میں حضور کے ایک استاد مولوی فضل احمد صاحب نے بیان کیا کہ ایک دفعہ ایک شخص نے خواب دیکھا تھا کہ ایک مکان ہے جو دھواں دھار ہے یعنی اس کے اندر باہر سب دھواں ہو رہا ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس کے اندر آنحضرتﷺ ہیں اور چاروں طرف سے عیسائیوں نے اس (مکان) کا محاصرہ کیا ہوا ہے۔ استاد نے یہ بھی بتایا کہ ہم میں سے کسی کو اس کی تعبیر نہیں آئی۔ اس پر حضورؑ نے فرمایا کہ ’’اس کی تعبیر یہ ہے کہ وہ شخص عیسائی ہوجائے گا کیونکہ انبیاء کا وجود آئینہ کی طرح ہوتا ہے۔ پس اس نے جو آپ کو دیکھا ہے تو گویا اپنی حالت کے عکس کو دیکھا۔‘‘حضور کا یہ جواب سن کر آپ کے وہ استاد بہت متعجب بھی ہوئے اور خوش بھی۔ اور کہنے لگے کہ’’کاش! ہم اس کی تعبیر جانتے اور اسے وقت پر سمجھاتے تو وہ شاید ارتداد سے بچ جاتا۔‘‘(تاریخ احمدیت جلد اوّل صفحہ 57)

بچپن میں دنیا سے بے رغبتی

حضور علیہ السلام کی نہایت چھوٹی عمر میں دنیا سے بے غبتی اور توجہ الی اللہ کے متعلق تاریخ احمدیت میں لکھا ہے کہ ’’شادی سے قبل ایک دفعہ حضور نے ایک ہندو سے (جو آپ کے والد بزرگوار کے سامنے بیٹھا ہوا اپنی تلخ کامیاں اور نامرادیاں بیان کرتا تھا اور سخت کراہ رہا تھا) فرمایاکہ’’لوگ دنیا کے لئے کیوں اس قدر دکھ اٹھاتے اور ہم وغم میں گرفتار ہیں؟ ‘‘ہندو نے کہا کہ ’’تم ابھی بچے ہو جب گرہستی ہوگے تب تمہیں ان باتوں کا پتہ لگے گا۔‘‘کم وبیش پچیس سال کے بعد کسی تقریب پر اسی ہندو کو آپ سے دوبارہ ملنے کا اتفاق ہوا تو حضور نے اسے گزشتہ واقعہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’اب تو میں گرہستی ہوں۔‘‘اس نے کہا ’’تم تو ویسے ہی ہو۔‘‘(تاریخ احمدیت جلد اوّل صفحہ 62)

اسی طرح حضرت محمد ملک صاحبؓ لکھتے ہیں: ’’ایک شخص روڑا حجام جراح جو عبداللہ حکیم کے نام سے چک نمبر 105گبیانوالہ ضلع لائل پور میں مشہور تھا اور جو قادیان کا رہنے والا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ہم عمر تھا۔ کہا کرتا تھا کہ میں آپ کے بچپن سے جوانی تک کے حالات جانتا ہوں۔ میں اُن دنوں اسی چک نمبر 105گبیاں والہ میں جو موضع دیوانی وال کے لوگوں کا آباد کیا ہوا ہے، امام مسجد تھا۔ کچھ طبابت اور ڈاک خانہ کی ملازمت بھی تھی۔ مخالف مولویوں کے زیر اثر بلا تحقیق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی مخالفت کرتا تھا۔ اور چاہتا تھا کہ کوئی اعتراض ہاتھ آئے۔ میں نے اس شخص عبداللہ حکیم نامی سے جو دہریہ خیالات کا آدمی تھا۔ اور مرزا نظام دین و امام دین کی تعریف کیا کرتا تھا پوچھاکہ مرزا صاحب نے جو نبی ہونے کا دعویٰ کیا ہے اس میں کیا بات ہے۔ اس نے جواب دیا کہ یہ عیسیٰ بن گیا ہے تو دوسرا بھائی چوہڑوں کا گرو بن گیا ہے۔ مرزا صاحب لائق ہیں۔ ان کے والد مشہور نامی گرامی آدمی اور حکیم تھے۔ انہوں نے ان کی تعلیم کا انتظام کیا ہوا تھا۔ میں نے بھی ان کے والد سے حکمت پڑھی تھی اور طفولیت کا تمام زمانہ جوانی تک ان کے ساتھ گزارا ہے۔ میں اس بات سے انکار نہیں کرسکتا کہ عام حالت بزمانہ طفولیت بھی ان کی یہ ضرور تھی کہ جب ہم عمر لڑکے باہر کھیل کود کے لیے نکلتے تھے تو کبھی کبھی آپ بھی ہمارے ہمراہ ہوتے تھے۔ مگر ہماری شرارتوں سے بالکل علیحدہ رہتے۔ اگر کبھی ان کو شرارت میں شامل کرنے کی غرض سے چھیڑا جاتا تو ناراض ہوتے۔ اور علیحدہ بیٹھ جاتے اور کہتے کہ مجھے نہ چھیڑو۔ بے ہودہ باتیں مجھے اچھی نہیں لگتیں۔ ہم ان کو مُردہ دل یا ملاّ کہہ کر چھوڑ دیتے۔ جب ہم آپس میں لڑ جھگڑ کر ایک دوسرے سے ناراض ہوجاتے تو آپ ہماری صلح کراتے۔

اس بات سے بھی انکار نہیں کہ ہم کثرت سے جھوٹ بولتے تھے اور بُرا نہیں جانتے تھے۔ مگر ان کو کبھی بھولے سے بھی جھوٹ بولتے نہیں سنا۔ اور نہ ہی کبھی ان کی زبان سے گالی سنی اور نہ کسی کو کبھی رنجیدہ کیا۔ راست گو، نمازی، باحیا تھے۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے جبکہ آپ جوان تھے۔ ہم تین چار لڑکے ہم عمر ایک دوسرے کو چھیڑتے شرارتیں کرتے، ہاتھوں میں ڈنڈے لیے بازار یا گلی سے گزر رہے تھے کہ آپ اپنے دروازہ کی چوکھٹ کو دونوں ہاتھ سے پکڑے باہر سرکرکے ہم کو دیکھ رہے تھے۔ سامنے ہونے پر اشارہ سے مجھے طلب کیا اور کہا کہ آپ نے آج میرا ایک کام کرنا ہے۔ وہ یہ کہ قادیان میں معلوم کرو کہ کسی کے گھر ایک بازو والا لڑکا پیدا ہو ا ہے؟ ہم سب لڑکے ادھر ادھر گلیوں کوچوں میں گھوم کر لوگوں سے پوچھتے ہوئے بلا پتہ لگائے واپس چلے آئے اور آکر کہا: ایسا لڑکا کوئی نہیں پیدا ہوا اور نہ ہی پتہ لگا ہے۔ اسی دن یا دوسرے دن صبح (یہ یاد نہیں رہا) پھر فرمایا کہ میں تم کو تجویز بتاتا ہوں، اس طرح پتہ لگ سکتا ہے۔ قادیان میں جو دائیاں ہیں، ان سے مل کر دریافت کرو۔ چنانچہ ہم نے ایک ایک دائی (جن کے اس نے نام بھی بتائے تھے۔ مجھے یاد نہیں) سے جاکر دریافت کیا تو ایک دائی سے پتہ لگا کہ گھسیٹا کمہار (شائد کوئی اور نام ہو۔ مجھے یاد نہیں رہا مگر کمہار ضرور ہے ) کے گھر ایک بازو والا لڑکا پیدا ہوا تھا مگر پرسوں وہ فوت ہوگیا ہے۔ اور دفن کرآئے ہیں۔ ہم نے واپس آکر مرزا صاحب کو خبر دے دی۔

یہ روایت میں نے حکیم عبداللہ عرف روڑا جراح قادیان سے جو دہریہ خیالات کا آدمی تھا، سنی تھا۔ اب یہ شخص مرچکا ہوا ہے۔ اس کا میرے دل پر باوجود مخالفت کے بڑا اثر ہوا کہ یہ شخص ضرور صاحبِ کشف ہے۔ اور ایسا آدمی کبھی جھوٹ نہیں بولا کرتا۔ چنانچہ یہی اثر مجھے کشاں کشاں تحقیق کی طرف لایا۔ اس کے علاوہ اور بھی کئی اسباب پیدا ہوئے۔ اور آخر احمدیت کی نعمت سے خدا تعالیٰ نے مجھے مالا مال کیا۔ ذالک فضل اللّٰہ یؤتیہ من یشاء۔ میں نے خود بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زبان مبارک سے عین الیقین اور حق الیقین کی بحث سنی تھی۔ ا ور اس کا بھی دل پر تاحال اثر موجود ہے۔ اور مخالفت کے زمانہ میں بھی یہ اثر بدستور رہا۔ ہمارا گاؤں دیوانی وال برلبِ سڑک قادیان بٹالہ ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ہمیشہ اس سڑک پر سفر کیا کرتے تھے۔ میں ان دنوں مسانیاں میں ایک مولوی کے پاس پڑھا کرتاتھا۔ جو مخالف تھااور میں بھی انہی کے زیر اثر تھا۔ مگر دو تین دفعہ مجھے یہ سعادت حاصل ہوئی کہ آپ کی سواری دیوانی وال کے تکیہ کے پیپل کے نیچے ٹھہری تو آپ کو وضو کرنے کے لیے دو تین دفعہ پانی کا لوٹا میں نے بھر کر دیا۔ اور حضور سے مصافحہ کرنے کی سعادت حاصل ہوئی۔ حضور علیہ السلام خادم کو کچھ نہ کچھ مرحمت فرمایا کرتے تھے۔‘‘(روزنامہ الفضل قادیان دارالامان مورخہ 30؍اگست 1939ء صفحہ 3)

مکرم شیخ عبدالقادر صاحب اسی طرح کا ایک اور واقعہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’’چوہدری مہر دین صاحب ولد چوہدری اللہ دتہ صاحب نے خاکسار سے بیان کیا کہ میری قریباً اٹھارہ سال کی عمر تھی کہ میں گھر سے ناراض ہوکر چک جھمرہ گیا۔ راستے میں ایک سکھ مل گیا جس کا نام وساوا سنگھ تھا۔ دراصل وہ موضع ٹھیکری والا کا رہنے والا تھا۔ (یہ حضرت مسیح موعودؑ کی زندگی کا واقعہ ہے ) وہ کہنے لگا کہ اگر پڑھنے کا شوق ہے تو تجھے ایک جگہ لے جاتا ہوں۔ جہاں تیری تعلیم، لباس، خوراک کا انتظام خاطر خواہ ہوجائے گا۔ میں نے پوچھا کہاں، کہنے لگا تحصیل بٹالہ میں ایک موضع قادیان ہے۔ وہاں ایک شخص مرزا غلام احمد رہتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ میں زمانے کا اوتار ہوں۔ اگر تم وہاں پہنچ جاؤ تو نرگ سے نکل کر سورگ میں داخل ہوجائو گے۔ میں نے پوچھا کہ کیا آپ اسے جانتے ہیں؟ کہنے لگا کہ بچپن میں ہم اکٹھے رہے ہیں۔ کبھی کبھی اس کے ساتھ سیر کا بھی موقع مل جاتا تھا۔ میں نے پوچھا وہ کیسا آدمی ہے کہنے لگا کہ بہت نیک سیرت انسان ہے۔ خوش خلق ہے۔ ایسا آدمی میں نے نہیں دیکھا۔ یہ واقعی دنیا کا گرو کہلانے کا مستحق ہے۔ کہنے لگا اگر تم جانا چاہو تو میں اپنی گرہ سے کرایہ خرچ کرکے تمہیں وہاں پہنچا سکتاہوں۔ خیر ہم سٹیشن کی طرف چل پڑے مگر اتفاق سے میرا ایک رشتہ دار کسی مہمان کو گاڑی سے لینے کے لیے آیا تھا۔ سواری نہیں آئی مگر وہ مجھے زبردستی لے گیا۔‘‘(رجسٹر روایات صحابہ جلد 8صفحہ251بحوالہ روزنامہ الفضل ربوہ 21؍مارچ 2016ء صفحہ 2)

(جاری ہے)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button