سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلامقرآن کریم

حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃوالسلام کی خدمتِ قرآن

(ذیشان محمود۔ مربی سلسلہ سیرالیون)

’’خدا نے مجھے بھیجا ہے تا میں اس بات کا ثبوت دوں کہ زندہ کتاب قرآن ہے اور زندہ دین اسلام ہے اور زندہ رسول محمد مصطفےﷺ ہے۔‘‘

وَعَنْ عَلِیِّ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُوْشِکُ اَنْ یَّاْتِیَ عَلَی النَّاسِ زَمَانٌ لَا یَبْقَی مِنَ الْاِسْلَامِ اِلَّا اسْمُہۤ وَلَا یَبْقَی مِنَ الْقُرْاٰنِ اِلَّا رَسْمُہ، مَسَاجِدُ ھُمْ عَامِرَۃٌ وَھِیَ خَرَابٌ مِنَ الْھُدٰی عُلَمَآءُ ھُمْ شَرُّ مَنْ تَحْتَ اٰدِیْمِ السْمَآءِ مِنْ عِنْدِھمْ تَخْرُجُ الْفِتْنَۃُ وَفِیْھِمْ تَعُوْدُ۔ (مشکوٰۃ، کتاب العلم الفصل الثالث صفحہ 38کنزالعمال جلد 6 صفحہ 43) حضرت علی ؓبیان کرتے ہیں کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ عنقریب ایسا زمانہ آئے گا کہ نام کے سوا اسلام کا کچھ باقی نہیں رہے گا۔ الفاظ کے سوا قرآن کا کچھ باقی نہیں رہے گا۔ اس زمانے کے لوگوں کی مسجدیں بظاہر تو آباد نظر آئیں گی لیکن ہدایت سے خالی ہوں گی۔ ان کے علماء آسمان کے نیچے بسنے والی مخلوق میں سے بدترین مخلوق ہوں گے۔ ان میں سے ہی فتنے اٹھیں گے اور ان میں ہی لوٹ جائیں گے۔

اسلام کی حالت دیکھ کر حالی نے اپنے ایک شعر میں یہ کہا کہ

رہا دین باقی نہ اسلام باقی

اک اسلام کا رہ گیا نام باقی

(مسدس حالی ازخواجہ الطاف حسین حالی صفحہ32 مطبوعہ فیروز سنز لاہور ایڈیشن اوّل 1988ء)

اس پیشگوئی کے تمام پہلو حسبِ مرور زمانہ مسلمانوں میں پیدا ہو چکے تھے۔ مضمون کے اعتبار سے قرآن کریم کو اگر لیا جائے تو قرآن کریم کو اس کے درجہ سے گرا کر حدیث کو اس پر فوقیت دی جا رہی تھی، قرآن کریم کو مہجور سمجھ کر چھوڑ دیا گیا تھا۔ ہر اسلامی فرقہ اپنی اپنی تفسیر اور معانی کو رائج کر رہا تھا۔ اسی دَور میں بانی جماعت احمدیہ ، حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام نے مسیح موعود و مہدی معہود ہونے کا دعویٰ کیا اور بطور حکم و عدل ان تمام متنازع فیہ امور کا فیصلہ کیا اور قرآن کریم کی تعلیم کو دنیا میں رائج کیا۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا عشق قرآن

حضرت مسیح موعودؑ کی قرآن کریم کی خدمات کےذکرسے قبل ہمیں آپؑ کے عشق قرآن کو سمجھنا ضروری ہے ۔حضرت مسیح موعودؑ کے محبت و عشق قرآن کے حوالے سے کئی واقعات اور روایات ہمیں ملتی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو قرآن کریم سے بے انتہا عشق و محبت تھی۔اس عشق کا اظہار آپؑ کے قرآن کریم کے مطالعہ اور غور و خوض سے ہوتا ہے۔آپؑ کےقرآن کریم سے عشق کا یہ عالم تھا کہ ایک ہی نسخہ کا متواتر مطالعہ کیا۔ قرآن شریف پڑھتے، اس پر تدبر کرتے اور حاشیہ پر نوٹس لکھتے رہتے تھے۔آپؑ کے بڑے فرزند حضرت مرزا سلطان احمد صاحب کی روایت ہے کہ ’’آپ کے پاس ایک قرآن مجید تھا اس کو پڑھتے اور اس پر نشان کر تے رہتے تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ میں بلا مبالغہ کہہ سکتا ہوں کہ شایدس ہزار مرتبہ اس کو پڑھا ہو‘‘۔ (حیات طیبہ صفحہ 14)

دل میں یہی ہے ہر دم تیرا صحیفہ چوموں

قرآں کے گرد گھوموں کعبہ میرا یہی ہے

آپؑ نے اپنی آخری کتاب میں اپنے شوق مطالعہ اور قرآن کریم سے دوسری الہامی کتب کے موازنہ کا نچوڑ اس رنگ میں بیان فرمایا کہ ’’میرا بڑا حصہ عمر کا مختلف قوموں کی کتابوں کے دیکھنے میں گذرا ہے مگر میں سچ سچ کہتا ہوں کہ میں نے کسی دوسرے مذہب کی کسی تعلیم کو خواہ اس کا عقائد کا حصہ اور خواہ اخلاقی حصہ اور خواہ تدبیر منزلی اور سیاحت مدنی کا حصہ اور خواہ اعمال صالحہ کی تقسیم کا حصہ ہو قرآن شریف کے بیان کے ہم پہلو نہیں پایا۔اور یہ قول میرا اس لئے نہیں کہ میں ایک شخص مسلمان ہوں بلکہ سچائی مجھے مجبور کرتی ہے کہ میں یہ گواہی دوں۔ اور یہ میری گواہی بے وقت نہیں بلکہ ایسے وقت میں جب کہ دنیا میں مذاہب کی کُشتی شروع ہے۔ مجھے خبر دی گئی ہے کہ اس کُشتی میں آخرکار اسلام کو فتح ہے‘‘۔

(پیغام صلح، روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 485)

پھر آپؑ نے اپنی بعثت کا ایک مقصد قرآن کریم کی خوبیاں بیان کرنا بتایا اور فرمایا: ’’میں اس وقت محض للہ اس ضروری امر سے اطلاع دیتا ہوں کہ مجھے خدا تعالیٰ نے اس چودھویں صدی کے سر پر اپنی طرف سے مامور کر کے دین متین اسلام کی تجدید اور تائید کے لئے بھیجا ہےتا کہ میں اس پر آشوب زمانہ میں قرآن کی خوبیاں اور حضرت رسول اللہ ﷺ کی عظمتیں ظاہر کروں اور ان تمام دشمنوں کو جو اسلام پر حملہ کر رہے ہیں ان نوروں اور برکات اور خوارق اور علوم لدنیہ کی مدد سے جواب دوں جو مجھ کو عطا کئے گئے ہیں‘‘۔

(برکات الدعا ،روحانی خزائن جلد 6صفحہ 34)

حضرت مسیح موعودؑ کی قرآن کریم کے لیے کی گئی خدمات جلیلہ کو مختصراً ان ذیلی عناوین سے سمجھا جاسکتا ہے۔

براہین احمدیہ

حضرت مسیح موعودؑ نے ماموریت سے قبل ہی اسلام کی حالت زار اور عیسائی مشن کو مسلمانوں پر مسلط ہوتے دیکھ کر اسلام اور قرآن کریم کی حقانیت کے اظہار کے لیے معرکہ آرا کتاب براہین احمدیہ تصنیف فرمائی۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ برہموسماج، آریہ سماج ، عیسائی مشن، یورپین فلسفہ اورمسلمان علماء کی باہم تکفیر بازی میں اسلام تن تنہا پسپا ہوا جا رہا تھا۔ اسی طرح قرآن مجید کی حقیت اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت خود مسلمان کہلانے والوں پر بھی مشتبہ ہورہی تھی اور عیسائیت ان کو اپنی آغوش میں لے رہی تھی۔ حضرت مسیح موعودؑ نے براہین احمد یہ کتاب لکھی جس میں آپ نے قرآن مجید کا کلام الٰہی اور مکمل کتاب اور بے نظیر ہونا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنے دعویٔ نبوت و رسالت میں صادق ہونا نا قابل تردید دلائل سے ثابت کیا اور ان دلائل کے مقابل کسی دشمن اسلام کے ایسے دلائل کے ثلث یا ربع یاخمس پیش کرنے والے کے لیے دس ہزار رو پیہ کا انعام مقرر کیا اور ہر مخالف اسلام کو مقابلہ کے لیے دعوت دی۔

اس کتاب کے منصہ شہود پر آتے ہی دشمن صمٌ بکمٌ رہ گیا۔ مسلمانوں کے پست ہوتے حوصلے عزم صمیم بن گئے۔ مولانا محمد شریف صاحب ایڈیٹر منشور محمدی (بنگلور) نے اس کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا: ’’کتاب براہین احمدیہ ثبوت قرآن و نبوت میں ایک ایسی بے نظیر کتاب ہے جس کا کوئی ثانی نہیں۔ مصنف نے صداقت اسلام کو ایسی کوششوں اور دلیلوں سے ثابت کیا ہے کہ ہر منصف مزاج یہی سمجھے گا کہ قرآن کتاب اللہ اور نبوت آخرالزماںؐ حق ہے۔‘‘

(منشور محمدی صفحہ 214و 217)

قرآن کریم کا احیائے نو

مسیح محمدی کی آمد کی ایک غرض قرآن کریم کا احیائےنو تھی۔آپؑ فرماتے ہیں کہ ’’حضرت مسیح علیہ السلام جیسے اپنی کوئی شریعت لے کر نہ آئے تھے بلکہ توریت کو پورا کرنے آئے تھے اسی طرح پر محمدی سلسلہ کا مسیح اپنی کوئی شریعت لے کر نہیں آیا بلکہ قرآن شریف کے احیا ء کے لئے آیا ہے اور اس تکمیل کے لئے آیا ہے جو تکمیل اشاعت ہدایت کہلاتی ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد دوم صفحہ 361ایڈیشن1988ء)

فرمایا: ’’مجھے بھیجا گیاہے تاکہ میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی کھوئی ہوئی عظمت کو پھر قائم کروں اور قرآن شریف کی سچائیوں کو دنیا کو دکھاؤں اور یہ سب کام ہو رہا ہے لیکن جن کی آنکھوں پر پٹی ہے وہ اس کو دیکھ نہیں سکتے‘‘ (ملفوظات جلد3 صفحہ9،ایڈیشن1988ء)

مزید فرمایا کہ ’’خدا نے مجھے بھیجا ہے کہ تا میں اس بات کا ثبوت دوں کہ زندہ کتاب قرآن ہے اور زندہ دین اسلام ہے اور زندہ رسول محمد مصطفےﷺ ہے۔‘‘ (الحکم 31؍مئی 1900ء)

آپؑ کی کتب اس امر پر شاہد ہیں کہ آپ نےقرآنی علوم کو دنیا میں زندہ کیا اور فرمایا کہ

وہ خزائن جو ہزاروں سال سے مدفون تھے

اب میں دیتا ہوں اگر کوئی ملے امیدوار

اور آپؑ کے بعد آپ کے خلفائے کرام کے ذریعہ ان علوم کی نہریں جاری ہوئیں۔ جماعت احمدیہ کی ان تمام خدمات قرآن کا اصل بیج حضرت مسیح موعودؑ کے ہاتھ کا لگایا ہوا ہے جس کی شاخیں اکنافِ عالم میں تراجم و تفاسیر کی صورت میں دنیا کی ہدایت کا موجب بن رہی ہیں۔

شرح قرآن کریم

حضرت مسیح موعودؑ نے قرآن کریم میں اضافہ و ترمیم نہیں کی بلکہ اپنی بعثت کا ایک مقصد قرآن کریم کی شرح بیان فرمایا: ’’علاوہ اس کے خدائے تعالیٰ نے اسی غرض سے اِس عاجز کو بھیجا ہے کہ تاروحانی طور پر مردے زندہ کئے جائیں بہروں کے کان کھولے جائیں اور مجذوموں کوصاف کیا جائے اور وہ جو قبروں میں ہیں باہر نکالے جائیں اور نیز یہ بھی وجہ مماثلت ہے کہ جیسے مسیح بن مریم نے انجیل میں توریت کا صحیح خلاصہ اور مغز اصلی پیش کیا تھا اسی کام کے لئے یہ عاجز مامور ہے تاغافلوں کے سمجھانے کے لئے قرآن شریف کی اصلی تعلیم پیش کی جائے مسیح صرف اسی کام کے لئے آیا تھاکہ توریت کے احکام شدّومد کے ساتھ ظاہر کرے ایسا ہی یہ عاجز بھی اسی کام کے لئے بھیجا گیا ہے کہ تاقرآن شریف کے احکام بہ وضاحت بیان کر دیوے فرق صرف اتنا ہے کہ وہ مسیح موسیٰ کو دیا گیا تھا اور یہ مسیح مثیل موسیٰ کو عطاکیا گیا۔‘‘ (ازالہ اوہام،روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 103)

پوچھا گیا کہ عیسائی لوگ تو توریت کو نہیں مانتے۔انجیل کو ہی مانتے ہیں۔حضرت اقدس نے فرمایا: ’’انجیل میں ہرگز کوئی شریعت نہیں ہے بلکہ توریت کی شرح ہے اور عیسائی لوگ توریت کو الگ نہیں کرتے جیسے مسیح توریت کی شرح بیان کرتے تھے۔اسی طرح ہم بھی قرآن شریف کی شرح بیان کرتے ہیں۔جیسا کہ وہ مسیح۔موسیٰ علیہ السلام سے چودہ سو برس بعد آئے تھے۔اسی طرح ہم بھی پیغمبر خدا ﷺ کے بعد چودھویں صدی میں آئے ہیں۔‘‘ (ملفوظات جلد2صفحہ 666)

اوّلیت قرآن

اہل حدیث کی جانب سے قرآن پر حدیث کی تقدیم کا فتنہ قرآن کریم کے درجہ میں کمی کا موجب بنتا جا رہا تھا۔اس وقت حضرت مسیح موعودؑ نےقرآن کریم کے اول درجہ پر ہونے کا معیاراپنایا اورمخالفین کو ہر میدان میں لاجواب کردیا۔ درج ذیل حوالہ جات سے قرآن کریم کی تعلیم پر حدیث کو فوقیت دینے کی وجہ سے پڑنے والے اعتراضات دور ہوجاتے ہیں۔ اور اس سے بڑھ کر قرآن کریم کی خدمت عظیم کیا ہو گی کہ اس کا کھویا ہوا مقام اسےواپس دلوایا جائے۔

’’قولہ۔ آپ اگر اس دعوے میں سچے ہیں تو کم سے کم ایک عالم کا متقدمین یا متاخرین میں سے نام بتاویں جس نے صحیح بخاری یا صحیح مسلم کی احادیث کو غیر صحیح یا موضوع کہا ہو۔

اقول۔ جن اماموں کا ابھی میں نے ذکر کیا ہے اگر وہ واقعی اور یقینی طور پر صحیحین کی احادیث کو واجب العمل سمجھتے تو آپ کی طرح ان کا بھی یہی مذہب ہوتا کہ خبر واحد سے قرآن پر زیادت مان لینا یا آیت کو منسوخ سمجھ لینا واجبات سے ہے لیکن میں بیان کرچکا ہوں کہ وہ خبر واحد کو قرآن کی مخالفت کی حالت میں ہرگز قبول نہیں کرتے اس سے ظاہر ہے کہ وہ صرف قرآن کریم کے سہارے سے اور بشرط مطابقت قرآن صحیحین کے احاد کو جو کل سرمایہ صحیحین کا ہے مانتے ہیں اور مخالفت کی حالت میں ہرگز نہیں مانتے۔آپ تلویح کی عبارت سن چکے ہیں کہ انما یرد خبرالواحد من معارضۃ الکتاب یعنی اگر کوئی حدیث احاد میں سے قرآن کے مخالف پڑے گی تو وہ رد کی جائے گی۔ اب دیکھئے کہ وہ نیا جھگڑا جو اب تک آپ نے محض اپنی نافہمی کی وجہ سے کیا ہے کہ قرآن احادیث کا معیار نہیں کیونکہ صاحب تلویح نے آپکو اس بارہ میں جھوٹا ٹھہرایا ہے! اور تینوں امام اسی رائے میں آپکے مخالف ہیں! اور میں بیان کرچکا ہوں کہ میرا مذہب بھی اسی قدر ہے کہ باستثناء سنن متوارثہ متعاملہ کے جو احکام اور فرائض اور حدود کے متعلق ہیں باقی دوسرے حصہ کی احادیث میں سے جو اخبار اور قصص اور واقعات ہیں جن پر نسخ بھی وارد نہیں ہوتا اگر کوئی حدیث نصوص بینہ قطعیہ صریحۃ الدلالت قرآن کریم سے صریح مخالف واقع ہو گو وہ بخاری کی ہو یا مسلم کی میں ہرگز اس کی خاطر اس طرز کے معنی کو جس سے مخالفت قرآن لازم آتی ہے قبول نہیں کروں گا۔ میں بار بار اپنے مذہب کو اس لئے بیان کرتا ہوں کہ تا آپ اپنی عادت کے موافق پھر کوئی تازہ افترا اور بہتان میرے پر نہ لگاویں اور نہ لگانے کی گنجائش ہو۔اور ظاہر ہے کہ یہ میرا مذہب امام شافعی اور امام ابوحنیفہ اور امام مالک کے مذہب کی نسبت حدیث کی بہت رعایت رکھنے والا ہے کیونکہ میں صحیحین کی خبر واحد کو بھی جو تعامل کے سلسلہ سے موکد ہے اور احکام اور حدود اور فرائض میں سے ہو نہ حصہ دوم میں سے اس لائق قرار دیتا ہوں کہ قرآن پر اس سے زیادتی کی جائے اور یہ مذہب ائمہ ثلاثہ کا نہیں۔ مگر یاد رہے کہ میں واقعی زیادتی کا قائل نہیں بلکہ میرا ایمان انا انزلنا الکتاب تبیانالکل شیء پر ہے جیسا کہ میں ظاہر کرچکا ہوں- اب آپ سمجھ سکتے ہیں کہ میں اس مذہب میں اکیلا نہیں ہوں بلکہ اپنے ساتھ کم سے کم تین یار غالب رکھتا ہوں جن کا عقیدہ میرے موافق بلکہ مجھ سے بڑھ چڑھ کر ہے۔‘‘ (الحق مباحثہ لدھیانہ، روحانی خزائن جلد 4صفحہ 99تا100)

فرمایا: ’’پھر ہم اپنے مخالف فریقوں کی طرف متوجہ ہو کر کہتے ہیں کہ آپ لوگ بھی برائے خدا ایسی تدبیر کو منظور کریں جس کا نتیجہ سراسر امن اور عافیت ہے اور اگر یہ احسن انتظام نہ ہوا تو علاوہ اور مفاسد اور فتنوں کے ہمیشہ سچائی کا خوں ہوتا رہے گا اور صادقوں اور راستبازوں کی کوششوں کا کوئی عمدہ نتیجہ نہیں نکلے گا اور نیز رعایا کی باہمی نا اتفاقی سے گورنمنٹ کے اوقات بھی ناحق ضائع ہوں گے اس لئے ہم مراتب مذکورہ بالا کو آپ سب صاحبوں کی خدمت میں پیش کر کے یہ نوٹس آپ صاحبوں کے نام جاری کرتے ہیں اور آپ کو یاد دلاتے ہیں کہ ہماری کتب مسلّمہ مقبولہ جن پر ہم عقیدہ رکھتے ہیں اور جن کو ہم معتبر سمجھتے ہیں بہ تفصیل ذیل ہیں:

اوّل قرآن شریف۔ مگر یاد رہے کہ کسی قرآنی آیت کے معنے ہمارے نزدیک وہی معتبر اور صحیح ہیں جس پر قرآن کے دوسرے مقامات بھی شہادت دیتے ہوں کیونکہ قرآن کی بعض آیات بعض کی تفسیر ہیں اور نیز قرآن کے کامل اور یقینی معنوں کے لئے اگر وہ یقینی مرتبہ قرآن کے دوسرے مقامات سے میسر نہ آ سکے یہ بھی شرط ہے کہ کوئی حدیث صحیح مرفوع متصل بھی اس کی مفسر ہو غرض ہمارے مذہب میں تفسیر بالرائے ہرگز جائز نہیں پس ہریک معترض پر لازم ہوگا کہ کسی اعتراض کے وقت اس طریق سے باہر نہ جائے ۔

دوم۔ دوسری کتابیں جو ہماری مسلم کتابیں ہیں ان میں سے اول درجہ پر صحیح بخاری ہے اور اس کی وہ تمام احادیث ہمارے نزدیک حجت ہیں جو قرآن شریف سے مخالف نہیں اور ان میں سے دوسری کتاب صحیح مسلم ہے اور اس کو ہم اس شرط سے مانتے ہیں کہ قرآن اور صحیح بخاری سے مخالف نہ ہو اور تیسرے درجہ پر صحیح ترمذی۔ ابن ماجہ۔ مؤطا۔نسائی۔ ابن داؤد۔ دارقطنی کتب حدیث ہیں جن کی حدیثوں کو ہم اس شرط سے مانتے ہیں کہ قرآن اور صحیحین سے مخالف نہ ہوں یہ کتابیں ہمارے دین کی کتابیں ہیں اور یہ شرائط ہیں جن کی رو سے ہمارا عمل ہے اب ہم قانونی طور پر آپ لوگوں کو ایسے اعتراضوں سے روکتے ہیں جو خود آپ کی کتابوں اور آپ کے مذہب پر وارد ہوتے ہیں کیونکہ انصاف جن پر قوانین مبنی ہیں ایسی کارروائی کو صحت نیت میں داخل نہیں کرتا اور ہم ایسے اعتراضوں سے بھی آپ لوگوں کو منع کرتے ہیں جو ان کتابوں اور ان شرائط پر مبنی نہیں جن کا ہم اشتہار میں ذکر کرتے ہیں کیونکہ ایسی کارروائی بھی تحقیق حق کے برخلاف ہے پس ہریک معترض پر واجب ہوگا کہ کسی اعتراض کے وقت ان کتابوں اور ان شرائط سے باہر نہ جائے اور ضروری ہوگا کہ اگر آئندہ آپ صاحبوں میں سے کوئی صاحب ہماری کسی تالیف کا رد لکھے یا رد کے طور پر کوئی اشتہار شائع کریں یا کسی مجلس میں تقریری مباحثہ کرنا چاہیں تو ان شرائط مذکورہ بالا کی پابندی سے باہر قدم نہ رکھیں یعنی ایسی باتوں کو بصورت اعتراض پیش نہ کریں جو آپ لوگوں کی الہامی کتابوں میں بھی موجود ہوں اور ایسے اعتراض بھی نہ کریں جو ان کتابوں کی پابندی اور اس طریق کی پابندی سے نہیں ہیں جو ہم اشتہار میں شائع کر چکے ہیں۔ غرض اس طریق مذکورہ بالا سے تجاوز کر کے ایسی بیہودہ روایتوں اور بے سروپا قصوں کو ہمارے سامنے ہرگز پیش نہ کریں اور نہ شائع کریں۔‘‘ (آریہ دھرم،روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 86تا87)

قرآن کریم حدیث پر مقدم ہے

جیسا کہ مذکورہ بالا حوالے سے واضح ہے کہ حضرت مسیح موعودؑ نے تمام احادیث پر قرآن کریم کو مقدم قرار دیا ۔ حضورؑ نے مزید فرمایا کہ ’’یہ عظمتیں اور خوبیاں کہ جو قرآن کریم کی نسبت بیان فرمائی گئیں احادیث کی نسبت ایسی تعریفوں کا کہاں ذکر ہے؟ پس میرا مذہب ’’فرقہ ضالہ نیچریہ‘‘ کی طرح یہ نہیں ہے کہ میں عقل کو مقدم رکھ کر قال اللّٰہ اور قال الرسول پر کچھ نکتہ چینی کروں۔ ایسے نکتہ چینی کرنے والوں کو ملحد اور دائرہ اسلام سے خارج سمجھتا ہوں بلکہ میں جو کچھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خداتعالیٰ کی طرف سے ہم کو پہنچایا ہے اس سب پر ایمان لاتا ہوں صرف عاجزی اور انکسار کے ساتھ یہ کہتا ہوں کہ قرآن کریم ہر یک وجہ سے احادیث پر مقدم ہے اور احادیث کی صحت و عدم صحت پرکھنے کیلئے وہ محک ہے اور مجھ کو خدا تعالیٰ نے قرآن کریم کی اشاعت کیلئے مامور کیا ہے تا میں جو ٹھیک ٹھیک منشاء قرآن کریم کا ہے لوگوں پر ظاہر کروں اور اگر اس خدمت گذاری میں علماء وقت کا میرے پر اعتراض ہو اور وہ مجھ کو فرقہ ضالہ نیچریہ کی طرف منسوب کریں تو میں ان پر کچھ افسوس نہیں کرتا بلکہ خدا تعالیٰ سے چاہتا ہوں کہ خدا تعالیٰ وہ بصیرت انہیں عطا فرماوے جو مجھے عطا فرمائی ہے۔نیچریوں کا اول دشمن میں ہی ہوں اور ضرور تھا کہ علماء میری مخالفت کرتے کیونکہ بعض احادیث کا یہ منشا پایا جاتا ہے کہ مسیح موعود جب آئے گا تو علماء اس کی مخالفت کریں گے اسی کی طرف مولوی صدیق حسن صاحب مرحوم نے آثار القیامہ میں اشارہ کیا ہے اور حضرت مجدد صاحب سرہندی نے بھی اپنی کتاب کے صفحہ (۱۰۷)میں لکھا ہے کہ ’’مسیح موعود جب آئے گا تو علماء وقت اس کو اہل الرائے کہیں گے یعنی یہ خیال کریں گے کہ یہ حدیثوں کو چھوڑتا ہے اور صرف قرآن کا پابند ہے اور اس کی مخالفت پر آمادہ ہوجائیں گے‘‘۔ (الحق مباحثہ لدھیانہ، روحانی خزائن جلد 4صفحہ 30)

ملفوظات میں درج ہے کہ ’’حضرت اقدسؑ نے اپنا ایک پرانا الہام سنایا ۔ یَا یَحْییٰ خُذِالْکِتَابَ بِقُوَّةٍ والْخَیْرُ کُلُّہٗ فِی الْقُرْاٰنِ۔ اور فرمایا کہاس میں ہم کو حضرت یحییٰ کی نسبت دی گئے ہے کیونکہ حضرت یحییٰؑ کویہود کی ان اقوام سے مقابلہ کرنا پڑا تھا۔ جو کتاب اﷲ توریت کو چھوڑ بیٹھے تھے اور حدیثوں کے بہت گرویدہ ہو رہے تھے اور ہر بات میں احادیث کو پیش کرتے تھے۔ ایسا ہی اس زمانہ میں ہمارا مقابلہ اہل حدیث کے ساتھ ہوا کہ ہم قرآن پیش کرتے اور وہ حدیث پیش کرتے ہیں۔‘‘ (ملفوظات جلد دوم صفحہ 203)

ہدایت کے تین مدارج

اہل حدیث کے مقابل اہل قرآن نے حدیث کو بکلی ترک کر دیا تو حضرت مسیح موعود ؑنے ان لوگوں پر بھی اتمام حجت کیا جو یہ خیال کرتے تھے کہ قال اللّٰہ کے مقابل قال الرسول کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ آپؑ فرماتے ہیں: ’’تمہارے لئے ایک ضروری تعلیم یہ ہے کہ قرآن شریف کو مہجور کی طرح نہ چھوڑ دو کہ تمہاری اسی میں زندگی ہے۔ جولوگ قرآن کو عزت دیں گے وہ آسمان پر عزت پائیں گے۔ جو لوگ ہر ایک حدیث اور ہر ایک قول پر قرآن کو مقدم رکھیں گے ان کو آسمان پر مقدم رکھا جائے گا۔ نوع انسان کے لئے روئے زمین پر اب کوئی کتاب نہیں مگر قرآن۔ اور تمام آدم زادوں کے لئے اب کوئی رسول اور شفیع نہیں مگر محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم۔‘‘ (کشتی نوح،روحانی خزائن جلد 19صفحہ 13)

آپؑ نے کشتی نوح میں اپنی تعلیم درج کرنے کے بعدقرآن، سنت اور حدیث کی اہمیت و ترتیب کو صراحت سے بیان فرمایا اور انہیں ہدایت کے مدارج قرار دیا۔ فرمایا کہ ’’میں نے سنا ہے کہ بعض تم سے حدیث کو بکلّی نہیں مانتے اگر وہ ایسا کرتے ہیں تو سخت غلطی کرتے ؔ ہیں میں نے یہ تعلیم نہیں دی کہ ایسا کرو بلکہ میرا مذہب یہ ہے کہ تین چیزیں ہیں کہ جو تمہاری ہدایت کے لئے خدا نے تمہیں دی ہیں۔ سب سے اوّل قرآن ہے جس میں خدا کی توحید اور جلال اور عظمت کا ذکر ہے اور جس میں ان اختلافات کا فیصلہ کیا گیا ہے جو یہود اور نصاریٰ میں تھے۔ جیسا کہ یہ اختلاف اور غلطی کہ عیسیٰ بن مریم صلیب کے ذریعہ قتل کیا گیا اور وہ لعنتی ہوا اور دوسرے نبیوں کی طرح اُس کا رفع نہیں ہوا اسی طرح قرآن میں منع کیا گیاہے کہ بجز خدا کے تم کسی چیز کی عبادت کرو نہ انسان کی نہ حیوان کی نہ سورج کی نہ چاند کی اور نہ کسی اور ستارہ کی اور نہ اسباب کی اور نہ اپنے نفس کی۔ سو تم ہوشیار رہو اور خدا کی تعلیم اور قرآن کی ہدایت کے برخلاف ایک قدم بھی نہ اٹھاؤ۔ میں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ جو شخص قرآن کے سات (700)سَو حکم میں سے ایک چھوٹے سے حکم کو بھی ٹالتا ہے وہ نجات کا دروازہ اپنے ہاتھ سے اپنے پر بند کرتا ہے حقیقی اور کامل نجات کی راہیں قرآن نے کھولیں اور باقی سب اس کے ظل تھے سو تم قرآن کو تد بّر سے پڑھو اور اُس سے بہت ہی پیار کرو ایسا پیار کہ تم نے کسی سے نہ کیا ہو کیونکہ جیسا کہ خدا نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا کہ اَلْخَیْرُ کُلُّہٗ فِی الْقُرْاٰنِ کہ تمام قسم کی بھلائیاں قرآن میں ہیں یہی بات سچ ہے افسوس اُن لوگوں پر جو کسی اور چیز کو اس پر مقدم رکھتے ہیں تمہاری تمام فلاح اور نجات کا سرچشمہ قرآن میں ہے کوئی بھی تمہاری ایسی دینی ضرورت نہیں جو قرآن میں نہیں پائی جاتی تمہارے ایمان کا مصدق یا مکذب قیامت کے دن قرآن ہے اور بجز قرآن کے آسمان کے نیچے اور کوئی کتاب نہیں جو بلاواسطہ قرآن تمہیں ہدایت دے سکے۔ خدا نے تم پر بہت احسان کیا ہے جو قرآن جیسی کتاب تمہیں عنایت کی۔ میں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ وہ کتاب جو تم پر پڑھی گئی اگر عیسائیوں پر پڑھی جاتی تو وہ ہلاک نہ ہوتے اور یہ نعمت اور ہدایت جو تمہیں دی گئی اگر بجائے توریت کے یہودیوں کو دی جاتی تو بعض فرقے ان کے قیامت سے منکر نہ ہوتے پس اس نعمت کی قدر کرو جو تمہیں دی گئی۔ یہ نہایت پیاری نعمت ہے، یہ بڑی دولت ہے، اگر قرآن نہ آتا تو تمام دنیا ایک گندے مضغہ کی طرح تھی قرآن وہ کتاب ہے جس کے مقابل پر تمام ہدایتیں ہیچ ہیں‘‘۔ (کشتی نوح،روحانی خزائن جلد 19صفحہ 26تا 27)

’’دوسرا ذریعہ ہدایت کا سنت ہے یعنی وہ پاک نمونے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے فعل اور عمل سے دکھلائے مثلاً نماز پڑھ کے دکھلائی کہ یوں نماز چاہئے اور روزہ رکھ کر دکھلایا کہ یوں روزہ چاہئے اس کا نام سنت ہے یعنی روش نبوی جو خدا کے قول کو فعل کے رنگ میں دکھلاتے رہے سنت اِسی کا نام ہے۔ تیسرا ذریعہ ہدایت کا حدیث ہے جو آپ کے بعد آپ کے اقوال جمع کئے گئے اور حدیث کا رُتبہ قرآن اور سنت سے کمتر ہے کیونکہ اکثر حدیثیں ظنی ہیں لیکن اگر ساتھ سنت ہو تو وہ اس کو یقینی کر دے گی۔ منہ‘‘ (کشتی نوح،روحانی خزائن جلد 19صفحہ 26 حاشیہ )

تفسیر سورة الفاتحہ

20؍جولائی 1900ء کو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے ایک اشتہار کے ذریعہ پیر مہر علی شاہ گولڑوی صاحب کو براہ راست مخاطب کر کے لکھا کہ یہ امور کہاں تک درست ہیں؟ چنانچہ اس کے فیصلہ کے لیے حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام نے 40آیات کی تفسیر ایک جلسہ میں لکھنے کا منفرد طریق پیش کیا۔

پیر صاحب کے لاہور میں مقابلہ تفسیر نویسی سے گریزکے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے 15؍ دسمبر 1900ء کو اپنی کتاب اربعین نمبر4 میں پیر صاحب کو یہ چیلنج دیا کہ 70دن کے اندر اندر (یعنی 25؍فروری1901ء)فصیح و بلیغ عربی زبان میں چار جلدوں پر مشتمل سورۂ فاتحہ کی تفسیر میرے مقابل پر لکھیں اور اس سلسلہ میں عرب و عجم کے علماء سے بھی مدد لے لیں اور پھر دیکھیں گے کہ حق کس کے ساتھ ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے معینہ مدّت کےاندر 23؍فروری1901ءکو عربی زبان میں سورۃ الفاتحہ کی تفسیرپر مشتمل کتاب اعجاز المسیح شائع کر دی یہ ایک لاجواب کتاب ہے اس کتاب کے سرورق پر آپ نے بطور پیشگوئی لکھا ’’فَاِنَّہٗ کِتَابٌ لَیْسَ لَہٗ جَوَابٌ۔ وَ مَنْ قَامَ لِلْجَوَابِ وَ تَنَمَّرَ۔ فَسَوْفَ یَرَی اَنَّہٗ تَنَدَّمَ وَ تَذَمَّرَ‘‘ یعنی یہ ایک لاجواب کتاب ہے جو بھی اس کتاب کا جواب لکھنے کے لیے کھڑا ہوگا وہ نادم ہوگا اور حسرت کے ساتھ اس کا خاتمہ ہوگا۔ نیز اس تفسیر کے لکھنے کی غرض یہ بیان فرما ئی کہ تا پیر مہر علی شاہ صا حب کا جھوٹ ظاہر ہو کہ وہ قرآن کا علم رکھتا ہے۔لیکن پیر صا حب کو گھر بیٹھ کر بھی بالمقابل تفسیر لکھنے کی جرأت نہ ہوئی۔

(اس چیلنج کی تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو مضمون ’’حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی طرف سےمقابلہ تفسیر نویسی کی دعوت اور پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑوی کی اصل واقعاتی حقیقت‘‘ قسط اول:

حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی طرف سےمقابلہ تفسیر نویسی کی دعوت اور پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑوی کی اصل واقعاتی حقیقت – الفَضل انٹرنیشنل (alfazl.com)

اور قسط دوم

حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی طرف سے مقابلہ تفسیر نویسی کی دعوت اورپیر مہر علی شاہ صاحب کی اصل واقعاتی حقیقت (قسط 2 آخر) – الفَضل انٹرنیشنل (alfazl.com)

تفسیر آیات قرآنیہ

حضرت مسیح موعودؑ نےاپنی تصنیفات اور ملفوظات میں قرآن کریم کی متعدد آیات کی تفاسیر بیان فرمائی ہیں۔ حضرت خلیفة المسیح الثالثؒ نے اپنے دَور خلافت میں1967ء میں ان تفسیری نکات کو یکجائی شکل میں مرتب کرنے کا ارشاد فرمایا اور چار ضخیم جلدوں میں منقسم یہ روحانی مائدہ متلاشیانِ ہدایت اور حق کی راہ نمائی کر رہا ہے۔8جلدوں کے نئے ایڈیشن میں نئے سامنے آنے والے اقتباسات کو بھی شامل تفسیر کیا گیا ہے۔حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے 7؍مارچ 1980ء کو ہر احمدی گھرانہ میں اس تفسیر کا ایک سیٹ ضرور موجود ہونے کی تحریک فرمائی تھی۔

اس کے علاوہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خواہش تھی کہ ایک منفرد تفسیر بھی لکھی جاوے۔ چنانچہ آپؑ فرماتے ہیں کہ ’’سچی اورکامل تفسیرقرآن شریف کی وہی شخص کرسکتا ہے جو طب جسمانی کے قواعد کلیہ پیش نظر رکھ کر قرآن شریف کے بیان کردہ قواعد میں نظر ڈالتا ہے ایک دفعہ مجھے بعض محقق اور حاذق طبیبوں کی بعض کتابیں کشفی رنگ میں دکھلائی گئیں جو طبِّ جسمانی کے قواعد کلیہ اور اصول علمیہ اور ستّہ ضروریہ وغیرہ کی بحث پر مشتمل اور متضمن تھیں جن میں طبیب حاذق قرشی کی کتاب بھی تھی اور اشارہ کیا گیا کہ یہی تفسیر قرآن ہے اس سے معلوم ہوا کہ عِلْمُ الاَبْدَان اور عِلْمُ الاَدْیان میں نہایت گہرے اورعمیق تعلقات ہیں اور ایک دوسرے کے مصدّق ہیں اور جب میں نے اُن کتابوں کو پیش نظر رکھ کر جو طب جسمانی کی کتابیں تھیں قرآن شریف پر نظر ڈالی تو وہ عمیق در عمیق طبِّ جسمانی کے قواعد کلیہ کی باتیں نہایت بلیغ پیرایہ میں قرآن شریف میں موجود پائیں اور اگر خدا نے چاہا اور زندگی نے وفا کی تو میرا ارادہ ہے کہ قرآن شریف کی ایک تفسیر لکھ کر اس جسمانی اورروحانی تطابق کو دکھلاؤں۔

غرض آسمان کے نیچے کوئی دوسری کتاب نہیں پائی جاتی کہ جو طبِّ جسمانی اور طبِّ روحانی میں اس قدر تطابق دکھلاکر قانون قدرت کے معیار کو اپنی پیروی کرنے والوں کے ہاتھ میں دیدے۔ اس لئے میں پورے یقین سے سمجھتا ہوں کہ قرآن شریف کے مقابل پر تمام دوسرے مذاہب ہلاک شدہ ہیں۔ وہ مُنہ سے تو کہہ دیتے ہیں کہ الہامی کتاب کے لئے ضروری شرط یہ ہے کہ وہ قانون قدرت کے مطابق ہو مگر مطابق کرکے دکھلاتے نہیں اور اُن کو یہ بھی سمجھ نہیں کہ قانون قدرت کے آلہ کو استعمال کرنے کے لئے طریق کیا ہے۔ وہ خدا کے قانون قدرت کو مروڑ توڑ کر اپنے مسلّمہ عقائد کے مطابق کرنا چاہتے ہیں مگر یہ نہیں سوچتے کہ درحقیقت وہ مطابق بھی ہیں یا نہیں‘‘۔ (چشمہ معرفت،روحانی خزائن جلد23 صفحہ 103)

حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ فرماتے ہیں: ’’اور لوگ تو کوئی مضمون لکھیں تو مختلف کتابیں دیکھتے اور ادھر ادھر سے اپنے مطلب کی باتیں اخذ کر کے مضمون لکھتے ہیں اور کبھی قرآن شریف کو بھی دیکھ لیتے ہیں ۔لیکن حضرت صاحب کو میں نے دیکھا ہے ۔ مضمون لکھنا ہو یا کوئی کتاب تو اس سے قبل آپ بالضرور مقدم طور پر قرآن شریف کو پڑھتے۔ اور اکثر دفعہ میں نے دیکھا کہ سارے کا سارا قرآن شریف پڑھتے اور خوب غور و خوض فرماتے پھر کچھ لکھتے گویا آپ کی ہر تحریر قرآن شریف پر مبنی ہوتی ۔ جس کا مطلب دوسرے الفاظ میں یہ ہے کہ آ پ نے جو کچھ لکھا وہ قرآن ہی کے مطالب بیان کئے ۔

اگر چہ سارے قرآن شریف کے ساتھ آپؑ کو تعلق تھالیکن بالخصوص سورہ فاتحہ کے ساتھ آپ کو بہت تعلق تھا۔ کوئی مضمون ایسا نہیں جس میں آپ نے سورہ فاتحہ سے کچھ نہ کچھ استنباط اور استدلال کر کے پیش نہ کیا ہو۔ اعجاز المسیح نام ایک کتاب سورہ فاتحہ کی تفسیر میں عربی زبان میں لکھی ۔ایسا ہی براہین احمدیہ میں بھی ایک حصہ سورہ فاتحہ کی تفسیر پر صرف فرمایا۔ اور اَور جگہوں پر بھی بالخصوص اس کی تفسیر و مطالب کو بیان فرمایا۔‘‘ (الفضل 15؍جنوری 1926ء)

حضرت مسیح موعودؑ نے سورة الفاتحہ کی لطیف تفسیر بیان فرمائی، اسلام کے معنی، علم الیقین عین الیقین اور حق الیقین، سورۃ المومنون کی تفسیر میں جسمانی اور روحانی تکمیل کے مراتب ستہ کا تقابل اور موازنہ اورلف و نشر مرتب کے ذریعہ قرآن کریم کی بلاغت کا تفصیلاً ذکر ، تاریخی واقعات، آیت خاتم النبیینﷺ، رفع مسیح، حیات مسیح اور وفات مسیح ؑکی بابت آیات کی مجمل اور مفصل دونوں پیرایوں میں تفسیر بیان فرمائی۔ قرآن کریم کے منسوخ سمجھے جانے والے مقامات کی تشریح بیان فرمائی۔ قرآن کریم کی زبان کی لطافت، فصاحت و بلاغت کا بر محل استعمال کو نمایاں فرمایا۔ استغفار، روح کی حقیقت، ہلال، قمر اور بدر، نفس، عالم صغیر و کبیر کی تفسیر بیان فرمائی۔

(جاری ہے)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

ایک تبصرہ

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button