پرسیکیوشن رپورٹس

اسلامی جمہوریہ پاکستان میں احمدیوں پر ہونے والے دردناک مظالم کی الَم انگیز داستان

فروری2021ء میں سامنےآنے والے چند تکلیف دہ واقعات سے انتخاب

انتہاپسند اپنے گزشتہ طرز عمل پر قائم اور اصلاح سے انکاری

194ر ب، ضلع فیصل آباد، 6؍جنوری2021ء: محمد بوٹا کے خلاف 5؍جنوری 2021ء کو اس کی دکان پر نفرت انگیز احمدی مخالف اسٹیکر لگانے پر مقدمہ درج کیا گیا۔ کانسٹیبل محمد شفیق کی جانب سے رپورٹ درج کروائی گئی کہ ڈیوٹی کے دوران اس نے محمد بوٹا کے چائے کے اسٹال پر ایک اسٹیکر دیکھا جس پر لکھا تھا کہ قادیانی کافر، مرتد ہیں۔ وہ غیر مسلم اور گستاخ ہیں، ایک مسلمان کے ایمان کےتقاضے کے مطابق ان سے خریدو فروخت حرام ہے۔ انہیں یہاں خریداری کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ مرزا غلام احمد قادیانی … کے پیروکار اور حمایتی دائرہ اسلام سے خارج ہیں۔ کانسٹیبل نے اطلاع دی کہ اس علاقے میں بہت سے احمدی رہ رہے ہیں اور یہاں مسلم۔ احمدی تناؤ پیدا ہو گیا ہے اور اگر یہ اسٹیکر چسپاں رہتا ہے تو دوبارہ کشیدگی کا خطرہ ہے۔

اس ایف آئی آر کے اندراج کے بعد اس کے خلاف احتجاج کیا گیا۔ ایس ایچ او کھاریاں والا محسن بسرا کو مقامی سنی تحریک نے قادیانی حامی قرار دیا اور ایف آئی آر کو خارج کرنے کا مطالبہ کیا ۔جڑانوالہ بار ایسوسی ایشن نے ایف آئی آر کی مذمت کرتے ہوئے 8؍جنوری کو ہڑتال کا نوٹس جاری کیا، جب تک ایف آئی آر خارج نہیں کی جاتی وکلاء عدالتوں میں پیش نہیں ہوں گے۔ اس علاقے میں بہت سے احمدی آباد ہیں۔ وہ خطرہ محسوس کرتے ہیں لیکن امید کرتے ہیں کہ حکام شدت پسندوں کے خلاف اپنا موقف قائم رکھیں گے۔

ضلع فیصل آباد میں نفرت انگیز ماحول

219ر ب، ضلع فیصل آباد، فروری 2021ء: یہ علاقہ مذہبی انتہا پسندوں کے زیر اثرہے۔ چکی چوک، شیر سنگھ والا چوک اور حمزہ ٹاؤن میں احمدیہ مخالف نفرت انگیز پوسٹرز لگائے گئے۔ حکام اقلیتوں کے حقوق اور انتہا پسندی اور دہشت گردی کے لیے’’ زیرو ٹالرنس ‘‘(zero tolerance)کے راگ الاپتےہیں، اس کے باوجود علاقے میں احمدی مخالف پوسٹر لگائے گئے، جو عوام میں فرقہ وارانہ نفرت اور عدم برداشت کو فروغ دے رہے ہیں۔

حمزہ ٹاؤن میں ایک حجام نے ایک نوجوان کی حجامت کرنے سے صرف اس وجہ سے انکار کر دیاکیونکہ وہ احمدی مسلمان تھا۔ حجام نے کہا: ’’تم قادیانی ہو مرزائی ہو۔ میں تمہیں پسند نہیں کرتا۔ مجھے تم سے نفرت ہے دوبارہ میری دکان پر مت آنا۔‘‘

ضلع فیصل آباد کے دیگر علاقوں کو بھی اس قسم کی نفرت انگیز مہم کا نشانہ بنایا جا رہا ہے جن میں 121ج ب گھوکھووال بھی شامل ہے

احمدیہ سکول کے خلاف پروپیگنڈ

گرمولا ورکاں، ضلع گوجرانوالہ،9؍فروری 2021ء: یہاں جماعت احمدیہ ناصر ایلیمنٹری سکول کے نام سے ایک سکول چلا رہی ہے۔ چند روز قبل ایک مخالف سجاد احمد کی جانب سے ڈی سی او گوجرانوالہ کو ایک درخواست جمع کرائی گئی جس میں انہوں نے الزام لگایا تھا کہ احمدی تعلیم کی آڑ میں بچوں کو اپنے عقیدے کی تبلیغ کرتے ہیں۔ یہ درخواست تفتیش کے لیے نوشہرہ ورکاں تھانے تک پہنچ گئی۔

9؍فروری کو ایک سیکیورٹی افسر معاملے کی تحقیقات کے لیے سکول پہنچا۔ احمدیہ وفد نے سیکیورٹی آفیسر سے ملاقات کی اور بتایا کہ ’’تعلیم سب کے لیے‘‘کے تحت بغیر کسی مذہب اور ذات کی تفریق کے سب کو معمولی فیس پر تعلیم فراہم کی جارہی ہے اور تمام اخراجات مقامی طور پر اپنی مدد آپ کے تحت پورے کیے جاتے ہیں۔ اس اسکول میں اس وقت کل 110؍احمدی اور غیر احمدی طلبہ زیر تعلیم ہیں۔ یہ سکول حکومتی ادارے کے ساتھ الحاق شدہ ہے۔

سیکیورٹی اہلکار نے طالب علم کے بیگ سے کتابیں نکالیں تو اس میں پنجاب ٹیکسٹ بورڈ کی کتابیں ملیں۔ اس نے ان کی تصویریں کھینچیں۔ سیکیورٹی آفیسر نے طالب علموں میں سے بعض کے والدین کا انٹرویو بھی کیا۔ انہیں کوئی شکایت نہیں تھی۔ سیکیورٹی آفیسر کو کووڈ 19 وبا کے حوالے سے حکومتی احکامات پر عملدرآمد کے بارے میں بھی بریفنگ دی گئی۔ نیزپورا سکول دکھایا گیا۔

بظاہر، سیکیورٹی اہلکار مطمئن نظر آیا۔ جب وہ چلا گیا تو اس نے کہا کہ وہ یہ تمام رپورٹ ایس ایچ او نوشہرہ ورکاں تھانے کو دیں گے اور اگر ضرورت پڑی تو شام 4بجے احمدیوں کو بلائیں گے۔ لیکن اس بارے میں کوئی فالو اَپ نہیں کیا گیا۔

احمدیوں کا کاروبار خطرے میں

راجہ جنگ، ضلع قصور، فروری 2021ء: ساجد احمد اور مبارک احمد، دو احمدی بھائی، راجہ جنگ، ضلع قصور میں رہتے ہیں۔ ان کی رائے ونڈ شہر میں آٹو الیکٹریشن اور آٹو مکینک کی دکانیں ہیں۔ وہ تقریباً پندرہ سال سے وہاں کام کر رہے ہیں۔ شروع میں تو کوئی مخالفت نہیں تھی لیکن اب انہیں کچھ دکانداروں کی مخالفت کا سامنا ہے۔ جب کوئی ان کی دکانوں پر کام کے لیے آتا ہے تو یہ دکاندار ان سے کہتے ہیں کہ ان کے ساتھ کاروبار نہ کریں کیونکہ یہ قادیانی ہیں۔ ساجد احمد اور ان کے بھائی بلال گنج مارکیٹ، لاہور میں ایک دکان سے اسپیئر پارٹس خریدتے تھے۔ تجارت کافی عرصے سے چل رہی تھی اور کاروبار اچھا چل رہا تھا۔ چند دن پہلے مخالفین نے اس دکاندار کو بتایا کہ یہ قادیانی ہیں اور ان کے ساتھ کاروبار کرنا ناجائز ہے۔ دکاندار نے احمدیوں سے کاروبار کرنا چھوڑ دیا اورمخالفانہ طرز عمل اپنا لیا۔ احمدیوں کو اب مخالفین بتا رہے ہیں کہ وہ گمراہ ہو گئے ہیں اس لیے ان کو ان کی غلطیوں پر آگاہ کرنا ضروری ہے۔ احمدی بھائیوں سے کہا گیا ہے کہ وہ احتیاط برتیں اور کسی بھی قسم کی مذہبی بحث سے پرہیز کریں۔

احمدی تاجر کو تاوان کی دھمکی

سکرنڈ، ضلع نواب شاہ، فروری 2021ء: ایک احمدی جاوید احمد اٹھوال یہاں کھاد اور سیمنٹ کا کاروبار چلاتے ہیں۔ پچھلے مہینے موصوف کو ایک خط موصول ہوا جس میں 60لاکھ روپے تاوان مانگا گیا تھا۔ خط کے اوپر ’’جمعیت علمائے اسلام‘‘لکھا تھا۔ اُن سے کہا گیا کہ وہ تاوان کی رقم قریبی مسجد میں پہنچا دیں یا دکانیں خالی کر دیں۔ اس معاملے کی اطلاع سینئر پولیس افسران کو دی گئی جنہوں نے مقامی پولیس کو ہدایات جاری کیں۔جاوید احمد نے اپنے کاروباری مقام پر سی سی ٹی وی کیمرے لگائے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ یہ انتظامات ان ملاؤں کو روک سکیں گے۔

ایک معنی خیز ٹویٹ

ٹویٹر پر 12؍فروری 2021ء کوٹویٹر کے ایک اکاؤنٹ سے اردو میں ایک ٹویٹ پوسٹ کی گئی۔ ہم اس اکاؤنٹ کے مالک کو نہیں جانتے لیکن اس نے جو کچھ لکھا وہ ایک دلچسپ کڑی کی طرف دلالت کرتا ہے۔ اس نے لکھا:

اگر ڈاکٹر عبدالسلام کی تصویر کسی سکول یا کالج کے باہر دکھائی گئی تو سٹی کونسل کو معطل کر دیا جائے گا۔

اگر آپ ریاست مخالف عناصر کو روک نہیں سکتے تو آپ کو اس عہدے کا کیا حق ہے؟

اس (ڈاکٹر سلام کی) کی تصویر کی جگہ آپ ڈاکٹر عبدالقدیر یا ختم نبوت کے کسی مجاہد کی تصویر لگا سکتے ہیں۔

(PM۔5:27۔12.02.2021)

مذہب کی بنیاد پر احمدیوں پرکیےجانے والے مقدمات زیرِ سماعت ہیں

فروری 2021ء: احمدیوں کے خلاف عدالتوں میں پولیس مقدمات کی ضروری اپ ڈیٹ ذیل میں دی گئی ہے۔ تاخیری حربے استعمال کیے جاتے ہیں جس کے نتیجے میں احمدیوں کو مجرم قرار دینے سے پہلے مہینوں، حتیٰ کہ سالوں تک جیل میں رہنا پڑتا ہے۔

غلط الزامات پر احمدی سلاخوں کے پیچھے

13؍مئی 2014ء کو تھانہ شرقپور میں PPCs 295-A، 337-2 اور 427 کے تحت چار احمدیوں، خلیل احمد، غلام احمد، احسان احمد اور مبشر احمد بھوئیوال، ضلع شیخوپورہ کے خلاف ایک من گھڑت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ دو دن بعد خلیل احمد کو 16؍مئی 2014ء کو پولیس کی حراست میں رہتے ہوئے ایک مدرسے کے طالب علم نے قتل کر دیا تھا۔ باقی تین احمدیوں کو 18؍جولائی 2014ء کو گرفتار کیا گیا تھا۔ ایک سال بعد ہائی کورٹ کے جج کی تجویز پر ان کی چارج شیٹ پر ایک خطرنا ک شق PPC 295-C کا اضافہ کر دیا گیا۔ ایک سیشن جج نے 11؍اکتوبر 2017ء کو انہیں سزائے موت سنائی۔ اس فیصلے کے خلاف پھر لاہور ہائی کورٹ میں اپیل کی گئی۔ عدالت کو تین سال سے ان کی سماعت کا وقت نہیں ملا۔ یہ تینوں احمدی ساڑھے چھ سال سے جیل میں ہیں۔

اب جسٹس انوار الحق پنو اور جسٹس طارق سلیم شیخ پر مشتمل دو رکنی بنچ اپیل کی سماعت کر رہا ہے۔ ابتدائی دلائل یکم فروری 2021ء کو سنے گئے اور عدالت نے سماعت کی نئی تاریخ 9؍مارچ 2021ءمقرر کی جہاں تک جناب خلیل احمدکے قاتل کا تعلق ہے، اسے ابھی تک سزا نہیں دی گئی۔ (بوقت تحریر یہ احمدی اللہ تعالیٰ کے فضل سے رہا ہو گئے ہوئے ہیں)

سعید اے وڑائچ صاحب: سعید احمد وڑائچ کو PPC 295-C، FIR نمبر645 کے تحت 20؍جنوری 2018ء کو تھانہ تاندلیانوالہ، ضلع فیصل آباد میں توہین مذہب کی جھوٹی شکایت پر گرفتار کیا گیا تھا۔ ان کا مقدمہ جیل میں چل رہا ہے اور تین سال سے زیر سماعت ہے۔ 23؍فروری 2021ء کو وکلاء کی ہڑتال کی وجہ سے کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔ سماعت کی نئی تاریخ 4؍مارچ 2021ء مقرر کی گئی ہے۔

(جاری ہے)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button