خطبہ جمعہ

خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزفرمودہ 04؍مارچ2022ء

بلا شبہ اللہ تعالیٰ نے تم میں وہ چیز چھوڑی ہے جس سے اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدایت دی اور اگر تم نے اسے مضبوطی سے تھامے رکھا تواللہ تعالیٰ تمہیں بھی ہدایت دے گا جیسا کہ اس نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدایت دی(حضرت عمرؓ)

آنحضرتﷺ کے عظیم المرتبت خلیفہ ٔراشد صدیقِ اکبرحضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے کمالات اور مناقبِ عالیہ

دنیا کے فکر انگیز حالات اور ایٹمی جنگ کے خدشہ کے پیشِ نظر درود شریف پڑھنے، استغفار کرنے اور دعائیں کرنے کی تحریک

مکرم ابوالفرج الحصنی صاحب آف شام کا ذکرِ خیر اور نمازِ جنازہ غائب

خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزفرمودہ 04؍مارچ2022ء بمطابق 04؍امان 1401 ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ (سرے)، یو کے

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔

أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾

اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾

اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے خلیفہ منتخب ہونے کے بارے میں

جو بحث چل رہی تھی اس بارے میں تاریخ طبری میں لکھا ہے کہ اس موقع پر حضرت حُبَاب بن مُنْذِرؓ کھڑے ہوئے اور کہا کہ اے گروہِ انصار! تم اس معاملہ کا اختیار اپنے ہاتھ میں رکھو کیونکہ یہ لوگ اس وقت تمہارے زیر سایہ ہیں یعنی مہاجرین۔ کسی کو تمہاری مخالفت کی جرأت نہ ہو گی اور لوگ تمہاری رائے کےخلاف نہیں جائیں گے۔ تم عزت والے، دولت والے ،کثرتِ تعداد والے اور طاقت و شوکت والے ،تجربہ کار ،جنگجو، دلیر اور بہادر ہو۔ لوگ تمہاری طرف دیکھ رہے ہیں کہ تم کیا کرتے ہو۔ اب اختلاف نہ کرو ورنہ تمہاری رائے تم میں فساد پیدا کر دے گی اور تمہارا معاملہ تم پر ہی الٹ جائے گا۔ پس اگر یہ لوگ اس بات کا انکار کریں یعنی مہاجرینِ قریش اس بات کا انکار کریں جو تم نے ابھی سنی ہے تو ایک امیر ہم میں سے ہو گا اور ایک امیر اِن میں سے۔ اس پر حضرت عمرؓنے فرمایا: یہ ناممکن ہے۔ دو تلواریں ایک نیام میں جمع نہیں ہو سکتیں۔ اللہ کی قَسم! عرب ہرگز اس بات کو نہیں مانیں گے کہ وہ تمہیں امیر بنا دیں جبکہ ان کے نبی تمہارے علاوہ دوسرے قبیلے کے ہوں۔ ہاں البتہ عربوں کو یہ بات تسلیم کرنے میں کوئی روک نہیں ہو گی کہ ان کا معاملہ ان کے سپرد کر دیں جن میں نبوت تھی اور اسی میں سے ان کے امیر ہونے چاہئیں اور اس شکل میں اگر عربوں میں سے کوئی اس کی امارت ماننے سے انکار کرے گا تو اس کے مقابلے میں ہمارے پاس کھلی ہوئی دلیل اور کھلا ہوا حق ہو گا۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی حکومت اور امارت کے بارے میں کون ہماری مخالفت کرے گا؟ ہم ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دوست اور خاندان والے ہیں۔ سوائے احمق کے یا گناہ گار یا خود کو ہلاکت میں ڈالنے والے کے وہی اس تجویز کی مخالفت کرے گا اور کوئی نہیں کر سکتا۔ حُباب بن منذرؓ نے کہا اے گروہِ انصار! تم اس معاملہ کا خود تصفیہ کرو اور ہرگز اس شخص کی اور اس کے ہمراہیوں کی بات نہ ماننا۔ یہ تمہارا حصہ بھی ہضم کرنا چاہتے ہیں اور اگر یہ لوگ ہماری تجویز نہ مانیں تو ان سب کو اپنے علاقوں سے نکال دو اور تمام امور کی باگ اپنے ہاتھ میں لے لو کیونکہ بخدا تم اس امارت کے سب سے زیادہ مستحق اور اہل ہو۔ تمہاری تلواروں نے تمام لوگوں کو اس دین کا مطیع بنایا ہے جو کبھی مطیع ہونے والے نہ تھے۔ میں اس تمام کارروائی کے تصفیہ کی ذمہ داری اپنے سر لیتا ہوں کیونکہ میں اس کا پورا تجربہ رکھتا ہوں اور اس کا اہل ہوں۔ بخدا! اگر تم چاہو تو میں کانٹ چھانٹ کر اس کا فیصلہ کر لیتا ہوں۔ حضرت عمرؓنے کہا اگر ایسا کرو گے تو اللہ تم کو ہلاک کر دے گا۔ انہوں نے یعنی حُباب نے کہا کہ بلکہ تم مارے جاؤ گے۔ حضرت ابوعُبَیدہؓ نے اس موقع پر کہا کہ اے گروہِ انصار! تم وہ ہو جنہوں نے سب سے پہلے دین کی حمایت اور نصرت کی۔ اب یہ نہ ہونا چاہیے کہ سب سے اول تم ہی اس میں تغیر و تبدّل کرو۔ اس پر بشیر بن سعد نے کہا: اے گروہِ انصار !مشرکین سے جہا داور دین اسلام کی ابتدا میں خدمت کی جو سعادت ہمیں حاصل ہوئی اس سے ہمارا مقصد صرف اپنے پروردگار کی رضا مندی اور اپنے نبیؐ کی اطاعت تھی۔ ہمارے لیے یہ مناسب نہیں کہ دوسروں پر اپنی برتری جتائیں اور ہم اس کے ذریعہ سے دنیا سے کوئی فائدہ نہیں چاہتے۔ ہم پر اس معاملے میں اللہ تعالیٰ کا ہی احسان ہے۔ سن لو

بےشک محمد صلی اللہ علیہ وسلم قریش میں سے تھے لہٰذا ان کی قوم اس امارت کی زیادہ مستحق اور اہل ہے

اور میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں ان سے اس معاملہ میں کبھی تنازعہ نہیں کروں گا۔ اللہ سے ڈرو ان کی مخالفت نہ کرو اور نہ اس معاملے میں ان سے تنازعہ کرو۔

(تاریخ الطبری جلد2 صفحہ 243 دار الکتب العلمیۃ بیروت، لبنان 1987ء)

بہرحال حضرت عمرؓنے جو تقریر کی وہ روایت دوسری جگہ سنن کبریٰ للنسائی میں اس طرح ہے کہ سَقِیفہ بنو ساعِدہ میں جب انصار نے کہا کہ ایک امیر ہم میں سے ہو گا اور ایک تم میں سے اس پر حضرت عمرؓنے کہا جیساکہ پہلے بیان ہو چکا ہے کہ ایک میان میں دو تلواریں تو نہیں ہو سکتیں۔ اس طرح وہ ٹھیک نہیں رہیں گی نیز انہوں نے، حضرت عمرؓنے حضرت ابوبکرؓ کا ہاتھ پکڑا اور عرض کیا: یہ تین خوبیاں کس کی ہیں۔ اِذْ يَقُوْلُ لِصَاحِبِهٖ لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللّٰهَ مَعَنَا (التوبۃ:40)یعنی جب وہ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھی سے کہہ رہا تھا کہ غم نہ کر۔ یقینا ًاللہ ہمارے ساتھ ہے۔ اس کا ساتھی کون تھا؟ پھر کہا کہ اِذْ هُمَا فِي الْغَارِ(التوبۃ: 40) یعنی جب وہ دونوں غار میں تھے۔ وہ دونوں کون تھے؟ پھر انہوں نے، حضرت عمرؓنے کہا کہ لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللّٰهَ مَعَنَا۔ یعنی غم نہ کر۔ یقینا ًاللہ ہمارے ساتھ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابوبکرؓکے علاوہ کس کے ساتھ تھے یا کس کا ساتھ ہے۔ یہ کہہ کر حضرت عمرؓنےحضرت ابوبکرؓ کی بیعت کر لی اور پھر لوگوں سے کہا تم بھی بیعت کر لو۔ چنانچہ لوگوں نے بیعت کر لی۔

(سنن الکبرٰی للنسائی کتاب وفات النبیﷺ حدیث نمبر 7119، جلد 4 صفحہ 264۔ دار الکتب العلمیۃ بیروت 1991ء)

حضرت عمرؓ کے بعد حضرت ابوعُبَیدہ بن جَرَّاحؓ اور حضرت بشیر بن سعدؓ نے بیعت کی اور اس طرح تمام انصار نے بھی حضرت ابوبکرؓکی بیعت کی۔

(ماخوذاز الکامل فی التاریخ جلد2 صفحہ193 دار الکتب العلمیۃ بیروت 2003ء)

(ماخوذ السیرة الحلبیة جلد3 صفحہ506 دار الکتب العلمیۃ بیروت 2002ء)

یہ بیعت اسلامی لٹریچر میں

بیعت سَقِیفہ اور بیعت خاصہ

کے نام سے بھی مشہور ہے۔

(تاریخ الخلفاء الراشدین صفحہ22،367 دار النفائس بیروت 2011ء)

بعض روایات میں یہ ذکر ملتا ہے کہ حضرت سعد بن عبادہؓ نے حضرت ابوبکرؓکی بیعت نہیں کی تھی جبکہ بعض روایات سے پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے بھی باقی انصار کے ساتھ بیعت کر لی تھی۔ چنانچہ تاریخ طبری میں لکھا ہے کہ ساری قوم نے باری باری حضرت ابوبکرؓکی بیعت کی اور حضرت سعدؓ نے بھی بیعت کی۔

(تاریخ طبری جلد3 صفحہ 266، سنہ احدی عشرة ذكر الخبر عما جرى بين المهاجرين والأنصار … دار الفکر بیروت 2002ء)

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلافت کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ’’دیکھ لو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلافت ہوئی اور پھر کیسی شاندار ہوئی۔ آپؐ کی وفات کے بعد حضرت ابوبکر خلیفہ ہوئے۔ اس وقت انصار نے چاہا کہ ایک خلیفہ ہم میں سے ہو اور ایک خلیفہ مہاجرین میں سے ہو۔ یہ سنتے ہی حضرت ابوبکرؓ، حضرت عمرؓ اور بعض اَور صحابہ فورا ًاس جگہ تشریف لے گئے جہاں انصار جمع تھے اور آپ نے انہیں بتایا کہ دیکھو! دو خلیفوں والی بات غلط ہے۔ تفرقہ سے اسلام ترقی نہیں کرے گا۔ خلیفہ بہرحال ایک ہی ہوگا۔ اگر تم تفرقہ کروگے تو تمہارا شیرازہ بکھر جائے گا، تمہاری عزتیں ختم ہوجائیں گی اور عرب تمہیں تکا بوٹی کر ڈالیں گے۔ تم یہ بات نہ کرو۔ بعض انصار نے آپؓ کے مقابل پر دلائل پیش کرنے شروع کئے۔ حضرت عمرؓ فرماتے ہیں: مَیں نے خیال کیا کہ حضرت ابوبکرؓ کو تو بولنا نہیں آتا مَیں انصار کے سامنے تقریر کروں گا لیکن جب حضرت ابوبکرؓ نے تقریر کی تو آپ نے وہ سارے دلائل بیان کردئیے جو میرے ذہن میں تھے۔‘‘ حضرت عمرؓ کہتے ہیں کہ جو میرے ذہن میں تھے۔ ’’اور پھر اس سے بھی زیادہ دلائل بیان کئے۔‘‘ کہتے ہیں ’’میں نے یہ دیکھ کر اپنے دل میں کہا کہ آج یہ بڈھا مجھ سے بڑھ گیا ہے۔آخر اللہ تعالیٰ کا ایسا فضل ہوا کہ خود انصار میں سے بعض لوگ کھڑے ہوگئے اور انہوں نے کہا حضرت ابوبکرؓ جو کچھ فرمارہے ہیں وہ ٹھیک ہے۔ مکہ والوں کے سوا عرب کسی اَورکی اطاعت نہیں کریں گے۔ پھر ایک انصاری نے جذباتی طور پر کہا اے میری قوم! اللہ تعالیٰ نے اس ملک میں اپنا ایک رسول مبعوث فرمایا۔ اس کے اپنے رشتہ داروں نے اسے شہر سے نکال دیا تو ہم نے اسے اپنے گھروں میں جگہ دی اور خداتعالیٰ نے اس کے طفیل ہمیں عزت دی۔ ہم مدینہ والے گمنام تھے، ذلیل تھے مگر اس رسول کی وجہ سے ہم معزز اور مشہور ہو گئے۔ اب تم اس چیز کو جس نے ہمیں معزز بنایا کافی سمجھو اور زیادہ لالچ نہ کرو ایسا نہ ہو کہ ہمیں اس کی وجہ سے کوئی نقصان پہنچے۔ اس وقت حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا کہ

دیکھو! خلافت کو قائم کرنا ضروری ہے

باقی تم جس کو چاہو خلیفہ بنالو۔ مجھے خلیفہ بننے کی کوئی خواہش نہیں۔ آپ نے فرمایا یہ ابوعُبَیدہؓ بن جَرَّاح ہیں۔ ان کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے امین الامت کا خطاب عطا فرمایا ہے تم ان کی بیعت کر لو۔ پھر عمرؓ ہیں یہ اسلام کے لئے ایک ننگی تلوار ہیں تم ان کی بیعت کر لو۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا: ابوبکرؓ! اب باتیں ختم کیجئے۔ ہاتھ بڑھائیے اور ہماری بیعت لیجئے۔ حضرت ابوبکرؓ کے دل میں بھی اللہ تعالیٰ نے جرأت پیدا کردی اور آپ نے بیعت لے لی۔‘‘

(مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے سالانہ اجتماع 1956ء میں خطابات، انوار العلوم جلد 25 صفحہ 402-403)

سَقِیفہ بنی سَاعِدَہ کی بیعتِ عام کے بارے میں مزید لکھا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سوموار کو ہوئی۔ لوگ سَقِیفہ بنی سَاعِدَہ میں حضرت ابوبکر صدیق ؓکی بیعت میں مشغول ہو گئے۔ پھر سوموار کے بقیہ دن اور منگل کی صبح کو مسجد میں بیعتِ عام ہوئی۔ حضرت انس بن مالکؓ بیان کرتے ہیں کہ جب سَقِیفہ بنی سَاعِدَہ میں بیعت ہو گئی تو دوسرے دن حضرت ابوبکر صدیقؓ بیٹھے تو حضرت عمرؓ کھڑے ہوئے اور حضرت ابوبکرؓ سے قبل تقریر کی۔ آپؓ نے اللہ کی حمد و ثنا بیان کی۔ پھر کہا اے لوگو! کل میں نے تم سے ایسی بات کی تھی یعنی یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فوت نہیں ہوئے۔ میں نے اس کا ذکر کتاب اللہ میں کہیں نہیں پایا اور نہ ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اس کی وصیت فرمائی تھی لیکن میں سمجھتا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ضرور ہمارے معاملے کا انتظام کریں گے۔ راوی کہتے ہیں کہ حضرت عمرؓ نے کہا ہمارا خیال تھا کہ ہم پہلے فوت ہو جائیں گے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہم میں سے آخری ہوں گے اور

بلا شبہ اللہ تعالیٰ نے تم میں وہ چیز چھوڑی ہے جس سے اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدایت دی اور اگر تم نے اسے مضبوطی سے تھامے رکھا تو اللہ تعالیٰ تمہیں بھی ہدایت دے گا جیسا کہ اس نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدایت دی۔

اللہ تعالیٰ نے تمہارے معاملات کو ایک ایسے آدمی کے ہاتھوں میں دے دیا ہے جو تم میں سب سے زیادہ بہتر ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی ہیں اور ثَانِيَ اثْنَيْنِ اِذْ هُمَا فِي الْغَارِکےمصداق ہیں۔ یعنی وہ دو میں سے ایک تھا جب وہ دونوں غار میں تھے۔ پس اٹھو اور اس کی بیعت کرو۔ پس لوگوں نے بیعتِ سَقِیفہ کے بعد حضرت ابوبکرؓکی بیعت کی۔

حضرت ابوبکر صدیقؓ نے بیعت عام والے دن ایک خطبہ ارشاد فرمایا۔ آپؓ نے اللہ کی حمد و ثنا کے بعد فرمایا: اے لوگو! یقیناً مَیں تم پر والی مقرر کیا گیا ہوں لیکن مَیں تم میں سے سب سے بہتر نہیں ہوں۔ اگر مَیں اچھا کام کروں تو میرے ساتھ تعاون کرو اور کج رَوی اختیار کروں تو مجھے سیدھا کر دو۔ سچائی امانت ہے اور جھوٹ خیانت ہے۔ تمہارا ضعیف فرد بھی میرے نزدیک قوی ہے جب تک میں دوسروں سے اس کا حق نہ دلا دوں۔ اور تمہارا قوی شخص میرے نزدیک ضعیف ہے یہاں تک کہ مَیں اس سے دوسروں کا حق نہ حاصل کر لوں۔ ان شاء اللہ۔ جو قوم اللہ تعالیٰ کے رستے میں جہاد کو چھوڑ دیتی ہے اللہ اس کو ذلیل و خوار کر دیتا ہے اورجس قوم میں بدکاری پھیل جاتی ہے اللہ اس کو مصیبت میں مبتلا کر دیتا ہے۔ اگر میں اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کروں تو میری اطاعت کرو اور اگر میں اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کروں تو تم پر میری اطاعت لازم نہیں۔ نماز کے لیے کھڑے ہو جاؤ اللہ تم سب پر رحم فرمائے۔

(البدایۃ والنہایۃ جزء 6 صفحہ 298-299 سنۃ 11 ھ خلافۃ ابی بکر…… دارالکتب العلمیۃ بیروت 2001ء)

حضرت علی ؓکی حضرت ابوبکرؓ کی بیعت کے بارے میں

بھی مختلف باتیں بیان کی ج اتی ہیں۔ تاریخ طبری میں ہے کہ حَبِیب بن ابو ثَابت سے روایت ہے یہ کہ حضرت علیؓ اپنے گھر میں تھے جب ان کے پاس ایک شخص آیا اور ان سے کہا کہ حضرت ابوبکرؓ بیعت لینے کے لیے تشریف فرما ہیں۔ حضرت علیؓ قمیص پہنے ہوئے تھے، اس حالت میں جلدی سے باہر نکلے کہ نہ ہی اس پر ازار تھا اور نہ ہی کوئی چادر، اس امر کو ناپسند کرتے ہوئے کہ کہیں اس سے دیر نہ ہو جائے یہاں تک کہ آپؓ نے حضرت ابوبکرؓ کی بیعت کی اور حضرت ابوبکرؓ کے پاس بیٹھ گئے۔ پھرآپؓ نے اپنے کپڑے منگوائے اور وہ کپڑے پہنے۔ پھر حضرت ابوبکرؓ کی مجلس میں ہی بیٹھے رہے۔

(تاریخ الطبری جزء 3 صفحہ 257۔حدیث السقیفۃ ۔ مطبوعہ دار الفکر بیروت2002ء)

حضرت علیؓ کی حضرت ابوبکرؓ کی بیعت کرنے کے بارے میں مختلف روایات ملتی ہیں۔ بعض روایات میں ہے کہ حضرت علیؓ نے چھ ماہ تک بیعت نہیں کی اور حضرت فاطمہؓ کی وفات کے بعد بیعت کی اور بعض روایات میں ہے کہ حضرت علیؓ نے پوری رضا و رغبت کے ساتھ فوراً حضرت ابوبکرؓکی بیعت کر لی تھی۔

حضرت ابوسعید خدریؓ سے مروی ہے کہ مہاجرین و انصار نے حضرت ابوبکرؓ کی بیعت کر لی تو حضرت ابوبکرؓ منبر پر چڑھے تو انہوں نے لوگوں کی طرف دیکھا تو ان میں حضرت علی ؓکو نہ پایا۔ حضرت ابوبکرؓنے حضرت علیؓ کے بارے میں دریافت فرمایا۔ انصار میں سے کچھ لوگ گئے اور حضرت علی ؓکو لے آئے۔ حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا کے بیٹے اور آپؐ کے داماد !کیا تم مسلمانوں کی طاقت کو توڑنا چاہتے ہو؟حضرت علیؓ نے عرض کیا کہ اے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلیفہ !گرفت نہ کیجئے پھر انہوں نے حضرت ابوبکرؓ کی بیعت کر لی۔

(سیرۃ امیر المؤمنین علی بن ابی طالب شخصیتہ و عصرہ از صلابی ص 119۔ دار المعرفۃ بیروت لبنان2006ء)

(السیرۃ النبویۃ لابن کثیر صفحہ 693 ۔ ذکر اعتراف سعد بن عبادۃ بصحۃ ما قالہ الصدیق یوم السقیفۃ۔ دار الکتب العلمیۃ بیروت 2005ء)

علامہ ابن کثیر کہتے ہیں کہ

حضرت علی ابن ابی طالبؓ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد پہلے دن یا دوسرے دن حضرت ابوبکرؓ کی بیعت کر لی تھی۔ اور یہی سچ ہے کیونکہ حضرت علیؓ نے حضرت ابوبکرؓ کو کبھی نہیں چھوڑا اور نہ ہی حضرت ابوبکرؓ کے پیچھےنماز کی ادائیگی ترک کی۔

(السیرۃ النبویۃ لابن کثیر صفحہ 694، ذکر اعتراف سعد بن عبادۃ بصحۃ ما قالہ الصدیق یوم السقیفۃ۔ دار الکتب العلمیۃ بیروت 2005ء)

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام بیان فرماتے ہیں کہ ’’حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے اوّل اوّل حضرت ابوبکر کی بیعت سے بھی تخلّف کیا تھا۔ مگر پھر گھر میں جا کر خدا جانے یک دفعہ کیا خیال آیا کہ پگڑی بھی نہ باندھی اور فوراً ٹوپی سے ہی بیعت کرنے کو آ گئے اور پگڑی پیچھے منگائی۔ معلوم ہوتا ہے کہ ان کے دل میں خیال آ گیا ہو گا کہ یہ تو بڑی معصیّت ہے۔ اسی واسطے اتنی جلدی کی کہ پگڑی بھی نہ باندھی۔‘‘

(ملفوظات جلد10صفحہ183)

اور فوراً ٹوپی سے ہی بیعت کرنے کو آ گئے اور پگڑی پیچھے منگوائی۔

حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ ’’حضرت ابوبکرؓ کو دیکھ لو۔ آپؓ مکہ کے ایک معمولی تاجر تھے۔ اگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث نہ ہوتے اور مکہ کی تاریخ لکھی جاتی تو مؤرخ صرف اتنا ذکر کرتا کہ ابوبکرؓ عرب کا ایک شریف اور دیانتدار تاجر تھا مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع سے ابوبکرؓ کو وہ مقام ملا تو آج ساری دنیا ان کا ادب اور احترام کے ساتھ نام لیتی ہے۔ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم وفات پا گئے اور حضرت ابوبکرؓ کو مسلمانوں نے اپنا خلیفہ اور بادشاہ بنا لیا تو مکہ میں بھی یہ خبر جا پہنچی۔ ایک مجلس میں بہت سے لوگ بیٹھے تھے جن میں حضرت ابوبکرؓکے والد ابو قحافہ بھی موجود تھے۔ جب انہوں نے سنا کہ ابوبکرؓکے ہاتھ پر لوگوں نے بیعت کر لی ہے تو ان کے لئے اس امر کو تسلیم کرنا ناممکن ہو گیا اور انہوں نے خبر دینے والے سے پوچھا کہ تم کس ابوبکرؓ کا ذکر کر رہے ہو؟ اس نے کہا وہی ابوبکرؓ جو تمہارا بیٹا ہے۔ انہوں نے عرب کے ایک ایک قبیلے کا نام لے کر کہنا شروع کر دیا کہ اس نے بھی ابوبکرؓکی بیعت کر لی ہے اور جب اس نے کہا کہ سب نے متفقہ طور پر ابوبکرؓ کو خلیفہ اور بادشاہ چن لیا ہے تو ابوقحافہ بے اختیار کہنے لگے کہ اَشْھَدُ اَنْ لَآاِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَاشَرِیْکَ لَہٗ وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ یعنی میں گواہی دیتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کے سوا اور کوئی معبود نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمدرسول اللہؐ اس کے سچے رسول ہیں۔‘‘

حضرت مصلح موعودؓ لکھتے ہیں کہ ’’حالانکہ وہ دیر سے مسلمان تھے‘‘ حضرت ابو قحافہ نے پہلے ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت کر لی تھی۔ ’’انہوں نے جو یہ کلمہ پڑھا اور دوبارہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کا اقرار کیا تو اسی لئے کہ

جب حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ خلیفہ ہوئے تو ان کی آنکھیں کھل گئیں اور انہوں نے سمجھا کہ یہ اسلام کی سچائی کا ایک زبردست ثبوت ہے

ورنہ میرے بیٹے کی کیا حیثیت تھی کہ اس کے ہاتھ پر سارا عرب متحد ہو جاتا۔‘‘

(تفسیر کبیر جلد6 صفحہ 205-206)

حضرت مصلح موعودؓ پھر ایک جگہ اس واقعہ کو یوں بیان فرماتے ہیں کہ ’’دیکھو! حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی اسلام سے پہلے کی کیا حالت تھی۔ جب آپؓ خلیفہ ہوئے آپؓ کے والد زندہ تھے۔ کسی نے ان کو جا کر خبر دی کہ مبارک ہو ابوبکرؓ خلیفہ ہو گیا ہے۔ انہوں نے پوچھا کون سا ابوبکرؓ؟ اس نے کہا آپ کا بیٹا۔ اس پر بھی انہیں یقین نہ آیا اور کہا کوئی اَور ہو گالیکن جب ان کو یقین دلایا گیا تو انہوں نے کہا کہ اللہ اکبر! محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بھی کیا شان ہے کہ ابوقحافہ کے بیٹے کو عربوں نے اپنا سردار مان لیا۔ غرض وہ ابوبکرؓ جو دنیا میں کوئی بڑی شان نہ رکھتا تھا،محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل اس قدر عزت پا گیا کہ اب بھی لاکھوں انسان اس کی طرف اپنے آپ کو فخر کے ساتھ منسوب کرتے ہیں۔‘‘

(خطاب جلسہ سالانہ 17 مارچ 1919،انوار العلوم جلد 4صفحہ425 )

حضرت خلیفة المسیح الاولؓ بیان فرماتے ہیں کہ ’’یقینا ًسمجھو کہ اللہ تعالیٰ کسی کا احسان اپنے ذمہ نہیں رکھتا۔ وہ اس سے ہزاروں لاکھوں گنا زیادہ دے دیتا ہے جس قدر کوئی خدا کے لئے دیتا ہے۔ دیکھو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے مکہ میں ایک معمولی کوٹھا چھوڑا تھا لیکن خدا تعالیٰ نے اس کی کس قدر قدر کی۔ اس کے بدلہ میں اسے ایک سلطنت کا مالک بنا دیا۔‘‘

(حقائق الفرقان جلداول صفحہ244)

حضرت ابوبکرؓ کی خلافت کے متعلق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک رؤیا بھی ہے۔ اس کے بارے میں ذکر آتا ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمرؓسے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایک خواب میں مجھے دکھایا گیا کہ میں ایک کنویں پر کھڑا ڈول سے جو چرخی پر رکھا ہوا تھا پانی کھینچ کر نکال رہا ہوں۔ اتنے میں ابوبکر آئے اور انہوں نے ایک یا دو ڈول کھینچ کر اس سے اس طور سے نکالے کہ ان کے کھینچنے میں کمزوری تھی اور اللہ ان کی کمزوری پر پردہ پوشی کرے گا اور ان سے درگزر فرمائے گا۔ پھر عمر بن خطاب آئے اور وہ ڈول بڑے ڈول میں بدل گیا تو میں نے کوئی شہ زور نہیں دیکھا جو ایسا حیرت انگیز کام کرتا ہو جیسا عمر نے کیا۔ اتنا پانی نکالا کہ لوگ سیر ہو گئے اور اپنے اپنے ٹھکانوں پر جا بیٹھے۔

(صحیح البخاری کتاب فضائل اصحاب النبیؐ باب مناقب عمر بن الخطابؓ۔ حدیث 3682)

حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بھی ایک رؤیا ہے۔ اس کے بارے میں ذکر آتا ہے کہ حضرت ابوبکرؓنے ایک دفعہ خواب میں دیکھا کہ ان کے جسم پر ایک یمنی چادر کا جوڑا ہے لیکن اس کے سینے پر دو داغ ہیں۔حضرت ابوبکرؓنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے یہ خواب بیان کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ یمنی جوڑے سے مراد یہ ہے کہ تمہیں اچھی اولاد ملے گی اور دو داغوں سے مراد دو سال کی امارت ہے یعنی تم دو سال مسلمانوں کے حاکم رہو گے۔

(کنز العمال جلد 3 جزء 5 صفحہ 253۔ کتاب الخلافة مع الامارة حدیث 14111۔ دار الکتب العلمیة بیروت 2004ء)

انتخابِ خلافت کے بعد حضرت ابوبکرؓ کے لیے وظیفہ مقرر کرنے کے بارے میں

ذکر ملتا ہے کہ خلافت کے بعد آپؓ مدینہ تشریف لے آئے اور وہیں قیام کر لیا۔ آپؓ نے اپنے معاملات پر غور کیا اور کہا کہ بخدا تجارت کرتے ہوئے لوگوں کے معاملات ٹھیک نہیں ہو سکیں گے۔ اس خدمت کے لیے فراغت اور پوری توجہ کی ضرورت ہے۔ ادھر میرے اہل و عیال کے لیے بھی کچھ ضروری ہے اس لیے آپ نے تجارت چھوڑ دی اور بیت المال میں سے اپنی اور اپنے گھر والوں کی ضروریات کے لیے روزانہ خرچ لینے لگے۔ آپؓ کے ذاتی مصارف کے لیے سالانہ چھ ہزار درہم کی رقم منظور کی گئی۔

(ماخوذ از تاریخ الطبری جلد دوم صفحہ 354 سنہ13ھ مطبوعہ دارالکتب العلمیۃ 1987ء)

چنانچہ بیت المال سے حضرت ابوبکرؓ کا اتنا وظیفہ مقرر کر دیا گیا جس سے ان کا اور ان کے اہل و عیال کا گزارہ چل سکے لیکن جب حضرت ابوبکرؓ کی وفات کا وقت قریب آیا تو انہوں نے اپنے رشتہ داروں کو حکم دیا کہ

جو وظیفہ میں نے بیت المال سے لیا ہے وہ سارے کا سارا واپس کر دیا جائے

اور اس کی ادائیگی کے لیے میری فلاں فلاں زمین بیچ دی جائے اور آج تک مسلمانوں کا جو مال مَیں نے اپنے اوپر خرچ کیا ہے اس زمین کو فروخت کر کے وہ پوری کی پوری رقم ادا کر دی جائے۔ چنانچہ جب ان کی وفات کے بعد حضرت عمرؓ خلیفہ ہوئے اور وہ رقم ان کے پاس پہنچی تو وہ رو پڑے اور کہا اے ابوبکر صدیق! تم نے اپنے جانشین پر بہت بھاری بوجھ ڈال دیا ہے۔

(حضرت سیدنا ابوبکر صدیقؓ از محمد حسین ہیکل صفحہ 122بک کارنر جہلم)

حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ ’’حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ تمام عالمِ اسلامی کے بادشاہ تھے مگر ان کو کیا ملتا تھا۔ پبلک کے روپیہ کے وہ محافظ تو تھے مگر خود اس روپیہ پر کوئی تصرف نہیں رکھتے تھے۔ بےشک حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ بڑے تاجر تھے مگر چونکہ ان کو کثرت سے یہ عادت تھی کہ جونہی روپیہ آیا خدا تعالیٰ کی راہ میں دے دیا اس لئے ایسا اتفاق ہوا کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی اور آپؓ خلیفہ ہوئے تو اس وقت آپؓ کے پاس نقد روپیہ نہیں تھا۔ خلافت کے دوسرے ہی دن آپ نے کپڑوں کی گٹھڑی اٹھائی اور اسے بیچنے کے لئے چل پڑے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ رستہ میں ملے تو پوچھا کیا کرنے لگے ہیں؟ انہوں نے کہا آخر میں نے کچھ کھانا تو ہوا۔ اگر میں کپڑے نہیں بیچوں گا تو کھاؤں گا کہاں سے؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا یہ تو نہیں ہو سکتا۔ اگر آپ کپڑے بیچتے رہے تو خلافت کا کام کون کرے گا؟ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ اگر میں یہ کام نہیں کروں گا تو پھر گزارہ کس طرح ہوگا؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ آپ بیت المال سے وظیفہ لے لیں۔ حضرت ابوبکرؓ نے جواب دیا کہ میں یہ تو برداشت نہیں کر سکتا۔ بیت المال پر میرا کیا حق ہے؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ جب قرآن کریم نے اجازت دی ہے کہ دینی کام کرنے والوں پر بیت المال کا روپیہ صرف ہو سکتا ہے تو آپ کیوں نہیں لے سکتے۔ چنانچہ اس کے بعد بیت المال سے ان کا وظیفہ مقرر ہو گیا مگر اس وقت کے لحاظ سے وہ وظیفہ صرف اتنا تھا کہ جس سے روٹی کپڑے کی ضرورت پوری ہو سکے۔‘‘

(تفسیر کبیر جلد 8 صفحہ 468)

حضرت ابوبکر صدیق ؓکا دورِخلافت چاروں خلفائے راشدین میں سے مختصر دور تھا جو کہ تقریباً سوا دو سال پر مشتمل تھا لیکن یہ مختصر سا دور خلافت راشدہ کا ایک اہم ترین اور سنہری دور کہلانے کا مستحق تھا

کیونکہ حضرت ابوبکرؓ کو سب سے زیادہ خطرات اور مصائب کاسامنا کرنا پڑا اور پھر خدا تعالیٰ کی غیرمعمولی تائید و نصرت اور فضل کی بدولت حضرت ابوبکرؓ کی کمال شجاعت اور جوانمردی اور فہم و فراست سے تھوڑے ہی عرصہ میں دہشت و خطرات کے سارے بادل چھٹ گئے اور سارے خوف امن میں تبدیل ہو گئے اور باغیوں اور سرکشوں کی ایسی سرکوبی کی گئی کہ خلافت کی ڈولتی ہوئی امارت مستحکم اور مضبوط بنیادوں پر قائم ہو گئی۔

خلافت کے آغاز میں حضرت ابوبکر صدیق ؓکو جن خطرات و مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ان کا ذکر ام المومنین حضرت عائشہؓ نے بھی فرمایا ہے جس کا تذکرہ کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ’’(حضرت) عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے، آپؓ فرماتی ہیں کہ جب میرے والد خلیفہ بنائے گئے اور اللہ نے انہیں امارت تفویض فرمائی تو خلافت کے آغازہی میں آپؓ نے ہر طرف سے فتنوں کو موجزن اور جھوٹے مدعیانِ نبوت کی سرگرمیوں اور منافق مرتدوں کی بغاوت کو دیکھا اور آپ پر اتنے مصائب ٹوٹے کہ اگر وہ پہاڑوں پر ٹوٹتے تو وہ پیوست زمین ہو جاتے اور فوراً گر کر ریزہ ریزہ ہو جاتے لیکن آپ کو رسولوں جیسا صبر عطا کیا گیا یہاں تک کہ اللہ کی نصرت آن پہنچی اور جھوٹے نبی قتل اور مرتد ہلاک کر دئیے گئے۔ (جھوٹے نبی قتل کر دئیے گئے اور مرتد ہلاک کر دئیے گئے۔) فتنے دُور کر دئیے گئے اور مصائب چھٹ گئے اور معاملے کا فیصلہ ہو گیا اور خلافت کا معاملہ مستحکم ہوا اور اللہ نے مومنوں کو آفت سے بچا لیا اور ان کی خوف کی حالت کو امن میں بدل دیا اور ان کے لئے ان کے دین کو تمکنت بخشی اور ایک جہان کو حق پر قائم کر دیا اور مفسدوں کے چہرے کالے کر دئیے اور اپنا وعدہ پورا کیا اور اپنے بندے (حضرت ابوبکر) صدیقؓ کی نصرت فرمائی اور سرکش سرداروں اور بتوں کو تباہ و برباد کر دیا اور کفار کے دلوں میں ایسا رعب ڈال دیا کہ وہ پسپا ہو گئے اور (آخر) انہوں نے رجوع کر کے توبہ کی اور یہی خدائے قہار کا وعدہ تھا اور وہ سب صادقوں سے بڑھ کر صادق ہے۔ پس غور کر کہ کس طرح خلافت کا وعدہ اپنے پورے لوازمات اور علامات کے ساتھ (حضرت ابوبکر) صدیقؓ کی ذات میں پورا ہوا۔‘‘

(سرالخلافۃ مترجم صفحہ49-50۔ روحانی خزائن جلد 8 صفحہ335)

حضرت ابوبکرؓ کو ابتدا میں ہی درج ذیل پانچ قسم کے ہم و غم اور مسائل کا سامنا کرنا پڑا

نمبر ایک۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات اور جدائی کا غم،[نمبر2] انتخاب خلافت اور امت میں فتنے اور اختلاف کا خوف وخطرہ،[نمبر3]لشکر اسامہ کی روانگی کا مسئلہ اور نمبر چار: مسلمان کہلاتے ہوئے زکوٰة دینے سے انکار اور مدینہ پر حملہ کرنے والے جس کو تاریخ میں فتنہ مانعین زکوٰة کہا جاتا ہے اور نمبر پانچ: فتنہ ارتداد یعنی ایسے سرکش اور باغی جنہوں نے کھلم کھلا بغاوت اور جنگ کا اعلان کر دیا۔ اس بغاوت میں وہ شامل ہو گئے جنہوں نے اپنے طور پر نبی ہونے کا بھی دعویٰ کیا۔

خوف کی ان سب حالتوں میں مصائب اور فتن کا قلع قمع کرنے میں جو کامیابی اللہ تعالیٰ نے حضرت ابوبکرؓ کو عطا فرمائی اس کی تفصیل آگے بیان ہو گی لیکن اس سے قبل حکم و عدل حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کا ایک تفصیلی اقتباس ہے وہ بھی پیش ہے جس میں آپ علیہ السلام نے حضرت ابوبکرؓ کو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پہلے خلیفہ حضرت یُوشَعْ بن نُون کے ساتھ مشابہت دیتے ہوئے حضرت ابوبکرؓ کو پیش آنے والے مسائل و مصائب اور فتوحات و کامیابیوں کا ذکر کرتے ہوئے بیان فرمایا ہے۔ آپؑ فرماتے ہیں کہ ’’جس آیت سے دونوں سلسلوں یعنی سلسلہ خلافتِ موسویہ اور سلسلہ خلافت محمدیہ میں مماثلت ثابت ہے یعنی جس سے قطعی اور یقینی طور پر سمجھا جاتا ہے کہ سلسلہ نبوتِ محمدیہ کے خلیفےسلسلہ نبوت موسویہ کے مشابہ و مماثل ہیں وہ یہ آیت ہے۔وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡکُمۡ وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسۡتَخۡلِفَنَّہُمۡ فِی الۡاَرۡضِ کَمَا اسۡتَخۡلَفَ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِہِمۡ الخ (النور:56)یعنی خدا نے ان ایمانداروں سے جو نیک کام بجا لاتے ہیں وعدہ کیا ہے جو ان میں سے زمین پر خلیفےمقرر کرے گا انہی خلیفوں کی مانند جو ان سے پہلے کئے تھے۔ اب جب ہم مانند کے لفظ کو پیش نظر رکھ کر دیکھتے ہیں جو محمدی خلیفوں کی موسوی خلیفوں سے مماثلت واجب کرتا ہے تو ہمیں ماننا پڑتا ہے جو ان دونوں سلسلوں کے خلیفوں میں مماثلث ضروری ہے اور مماثلت کی پہلی بنیاد ڈالنے والا حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ اور مماثلت کا آخری نمونہ ظاہر کرنے والا وہ مسیح خا تم الخلفاءِ محمدیہ ہے جو سلسلہ خلافت محمدیہ کا سب سے آخری خلیفہ ہے ۔ سب سے پہلا خلیفہ جو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ہے وہ حضرت یوشع بن نون کے مقابل اور ان کا مثیل ہے جس کو خدا نے آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد خلافت کے لئے اختیار کیا اور سب سے زیادہ فراست کی روح اس میں پھونکی یہاں تک کہ وہ مشکلات جو عقیدہ باطلہ حیاتِ مسیح کے مقابلہ میں خاتم الخلفا ءکو پیش آنی چاہیے تھی ان تمام شبہات کو حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کمال صفائی سے حل کر دیا اور تمام صحابہ میں سے ایک فرد بھی ایسا نہ رہا جس کا گذشتہ انبیاء علیہم السلام کی موت پر اعتقاد نہ ہو گیا ہو بلکہ تمام امور میں تمام صحابہ نے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی ایسی ہی اطاعت اختیار کر لی جیسا کہ حضرت موسیٰ کی وفات کے بعد بنی اسرائیل نے حضرت یَشُوْع بن نون کی اطاعت کی تھی اور خدا بھی موسیٰ اور یَشُوع بن نون کے نمونہ پر جس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا اور آپ کا حامی اور مؤید تھا۔ ایسا ہی ابو بکر صدیق کا حامی اور مؤید ہو گیا۔‘‘ یوشع بن نون یا یشوع بن نون ایک ہی چیز ہیں ایک ہی نام ہیں۔ (قاموس الکتاب صفحہ 1144 زیرلفظ یوْشَعْ)۔ آپؑ فرماتے ہیں ’’درحقیقت خدا نے یَشُوع بن نونکی طرح اس کو ایسا مبارک کیا جو کوئی دشمن اس کا مقابلہ نہ کر سکا اور اسامہ کے لشکر کا نا تمام کام جو حضرت موسیٰ کے ناتمام کام سے مشابہت رکھتا تھا حضرت ابوبکرؓ کے ہاتھ پر پورا کیا۔ اور حضرت ابوبکرؓ کی حضرت یشوع بن نون کے ساتھ ایک اور عجیب مناسبت یہ ہے جو حضرت موسیٰ کی موت کی اطلاع سب سے پہلے حضرت یُوشع کو ہوئی اور خدا نے بلا توقف ان کے دل میں وحی نازل کی جو موسیٰ مر گیا تا یہود حضرت موسیٰ کی موت کے بارے میں کسی غلطی یا اختلاف میں نہ پڑ جائیں جیسا کہ یَشُوع کی کتاب باب اول سے ظاہر ہے۔ اِسی طرح سب سے پہلے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی موت پر حضرت ابوبکرؓنے یقین کامل ظاہر کیا اور آپؐ کے جسدِ مبارک پر بوسہ دے کر کہا کہ تُو زندہ بھی پاک تھا اور موت کے بعد بھی پاک ہے اور پھر وہ خیالات جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے بارے میں بعض صحابہ کے دل میں پیدا ہو گئے تھے ایک عام جلسہ میں قرآن شریف کی آیت کا حوالہ دے کر ان تمام خیالات کو دور کر دیا اور ساتھ ہی اس غلط خیال کی بھی بیخ کنی کر دی جو حضرت مسیح کی حیات کی نسبت احادیث نبویہ میں پوری غور نہ کرنے کی وجہ سے بعض کے دلوں میں پایا جاتا تھا اور جس طرح حضرت یَشُوع بن نون نے دین کے سخت دشمنوں اور مفتریوں اور مفسدوں کو ہلاک کیا تھا اِسی طرح بہت سے مفسد اور جھوٹے پیغمبر حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے ہاتھ سے مارے گئے اور جس طرح حضرت موسیٰ راہ میں ایسے نازک وقت میں فوت ہو گئے تھے کہ جب ابھی بنی اسرائیل نے کنعانی دشمنوں پر فتح حاصل نہیں کی تھی اور بہت سے مقاصد باقی تھے اور ارد گرد دشمنوں کا شور تھا جو حضرت موسیٰ کی وفات کے بعد اَور بھی خطرناک ہو گیا تھا ایسا ہی ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ایک خطرناک زمانہ پیدا ہوگیا تھا۔ کئی فرقے عرب کے مرتد ہو گئے تھے۔ بعض نے زکوٰة دینے سے انکار کر دیا تھا اور کئی جھوٹے پیغمبر کھڑے ہو گئے تھے اور ایسے وقت میں جو ایک بڑے مضبوط دل اور مستقل مزاج اور قوی الایمان اور دلاور اور بہادر خلیفہ کو چاہتا تھا حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ خلیفہ مقرر کئے گئے اور ان کو خلیفہ ہوتے ہی بڑے غموں کا سامنا ہوا جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا قول ہے کہ بباعث چند در چند فتنوں اور بغاوتِ اَعراب اور کھڑے ہونے جھوٹے پیغمبروں کے میرے باپ پر جبکہ وہ خلیفہ رسول اللہ صلعم مقرر کیا گیا وہ مصیبتیں پڑیں اور وہ غم دل پر نازل ہوئے کہ اگر وہ غم کسی پہاڑ پر پڑتے تو وہ بھی گر پڑتا اور پاش پاش ہو جاتا اور زمین سے ہموار ہو جاتا مگر چونکہ

خدا کا یہ قانونِ قدرت ہے کہ جب خدا کے رسول کا کوئی خلیفہ اس کی موت کے بعد مقرر ہوتا ہے تو شجاعت اور ہمت اور استقلال اور فراست اور دل قوی ہونے کی روح اس میں پھونکی جاتی ہے

جیسا کہ یَشوع کی کتاب باب اول آیت چھ میں حضرت یَشُوع کو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مضبوط ہو اور دلاوری کر یعنی موسیٰ تو مر گیا اب تُو مضبوط ہو جا۔ یہی حکم قضا و قدر کے رنگ میں نہ شرعی رنگ میں حضرت ابوبکرؓکے دل پر بھی نازل ہوا تھا

تناسب اور تشابہ واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ گویا ابو بکر بن قُحافہ اور یَشُوع بن نون ایک ہی شخص ہے۔

استخلافی مماثلت نے اِس جگہ کَس کر‘‘ یعنی واضح طور پر ’’اپنی مشابہت دکھلائی ہے یہ اس لئے کہ کسی دو لمبے سلسلوں میں باہم مشابہت کو دیکھنے والے طبعاً یہ عادت رکھتے ہیں کہ یا اول کو دیکھا کرتے ہیں اور یا آخر کو مگر دو سلسلوں کی درمیانی مماثلت کو جس کی تحقیق و تفتیش زیادہ وقت چاہتی ہے دیکھنا ضروری نہیں سمجھتے بلکہ اول اور آخر پر قیاس کر لیا کرتے ہیں اس لئے خدا نے اس مشابہت کو جو یشوع بن نون اور حضرت ابو بکر میں ہے جو دونوں خلافتوں کے اول سلسلہ میں ہیں اور نیز اس مشابہت کو جو حضرت عیسیٰ بن مریم اور اِس امت کے مسیح موعود میں ہے جو دونوں خلافتوں کے آخر سلسلہ میں ہیں اجلیٰ بدیہیات کرکے دکھلا دیا۔ مثلاً یشوع اور ابو بکر میں وہ مشابہت درمیان رکھ دی کہ گویا وہ دونوں ایک ہی وجود ہے یا ایک ہی جو ہر کے دو ٹکڑے ہیں اور جس طرح بنی اسرائیل حضرت موسیٰ کی وفات کے بعد یُوشع بن نون کی باتوں کے شنوا ہو گئے اور کوئی اختلاف نہ کیا اور سب نے اپنی اطاعت ظاہر کی یہی واقعہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو پیش آیا اور سب نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی جدائی میں آنسو بہا کر دلی رغبت سے حضرت ابو بکر کی خلافت کو قبول کیا۔ غرض ہر ایک پہلو سے حضرت ابو بکر صدیق کی مشابہت حضرت یشوع بن نون علیہ السلام سے ثابت ہوئی۔ خدا نے جس طرح حضرت یشوع بن نون کو اپنی وہ تائیدیں دکھلائیں کہ جو حضرت موسیٰ کو دکھلایا کرتا تھا ایسا ہی

خدا نے تمام صحابہ کے سامنے حضرت ابوبکرؓ کے کاموں میں برکت دی اور نبیوں کی طرح اس کا اقبال چمکا۔

اُس نے مفسدوں اور جھوٹے نبیوں کو خدا سے قدرت اور جلال پا کر قتل کیا تاکہ اصحاب رضی اللہ عنہم جانیں کہ جس طرح خدا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا اس کے بھی ساتھ ہے۔ ایک اَور عجیب مناسبت حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو حضرت یشوع بن نون علیہ السلام سے ہے اور وہ یہ ہے کہ حضرت یشوع بن نون کو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی وفات کے بعد ایک ہولناک دریا سے جس کا نام یَرْدَن ہے عبور مع لشکر کرنا پیش آیا تھا اور یَرْدَن میں ایک طوفان تھا اور عبور غیر ممکن تھا اور اگر اس طوفان سے عبور نہ ہوتا تو بنی اسرائیل کی دشمنوں کے ہاتھوں سے تباہی متصور تھی اور یہ وہ پہلا امر ہولناک تھا جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد یشوع بن نون کو اپنے خلافت کے زمانہ میں پیش آیا اس وقت خدا تعالیٰ نے اس طوفان سے اعجازی طور پر یوشعبن نون اور اس کے لشکر کو بچا لیا اور یردن میں خشکی پیدا کر دی جس سے وہ بآسانی گذر گیا وہ خشکی بطور جوار بھاٹا تھی یا محض ایک فوق العادت اعجاز تھا۔ بہرحال اس طرح خدا نے ان کو طوفان اور دشمن کے صدمہ سے بچایا اسی طوفان کی مانند بلکہ اس سے بڑھ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد حضرت ابو بکر خلیفة الحق کو مع تمام جماعت صحابہ کے جو ایک لاکھ سے زیادہ تھے پیش آیا یعنی ملک میں سخت بغاوت پھیل گئی اور وہ عرب کے بادیہ نشین جن کو خدا نے فرمایا تھا قَالَتِ الۡاَعۡرَابُ اٰمَنَّا ؕ قُلۡ لَّمۡ تُؤۡمِنُوۡا وَلٰکِنۡ قُوۡلُوۡۤا اَسۡلَمۡنَا وَلَمَّا یَدۡخُلِ الۡاِیۡمَانُ فِیۡ قُلُوۡبِکُمۡ (الحجرات:15) ضرور تھا کہ اس پیشگوئی کے مطابق وہ بگڑتے تا یہ پیشگوئی پوری ہوتی۔‘‘ یعنی اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ بادیہ نشین کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے تو کہہ دوتم ایمان نہیں لائے لیکن اتنا کہو کہ ہم مسلمان ہو چکے ہیں جبکہ ابھی تک ایمان تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا۔ بہرحال آپؑ فرماتے ہیں ۔ ’’پس ایسا ہی ہوا اور وہ سب لوگ مرتد ہو گئے اور بعض نے زکوٰة سے انکار کیا اور چند شریر لوگوں نے پیغمبری کا دعویٰ کر دیا جن کے ساتھ کئی لاکھ بد بخت انسانوں کی جمعیت ہو گئی اور دشمنوں کا شمار اس قدر بڑھ گیا کہ صحابہ کی جماعت ان کے آگے کچھ بھی چیز نہ تھی اور ایک سخت طوفان ملک میں برپا ہوا یہ طوفان اس خوفناک پانی سے بہت بڑھ کر تھا جس کا سامنا حضرت یوشع بن نون علیہ السلام کو پیش آیا تھا اور جیسا کہ یوشع بن نون حضرت موسیٰ کی وفات کے بعد ناگہانی طور پر اس سخت ابتلامیں مبتلا ہو گئے تھے کہ دریا سخت طوفان میں تھا اور کوئی جہاز نہ تھا اور ہر ایک طرف سے دشمن کا خوف تھا۔ یہی ابتلا حضرت ابو بکر کو پیش آیا تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو گئے اور ارتداد عرب کا ایک طوفان برپا ہو گیا اور جھوٹے پیغمبروں کا ایک دوسرا طوفان اس کو قوت دینے والا ہو گیا۔ یہ طوفان یوشع کے طوفان سے کچھ کم نہ تھا بلکہ بہت زیادہ تھا اور پھر جیسا کہ خدا کی کلام نے حضرت یوشع کو قوت دی اور فرمایا کہ جہاں جہاں تُو جاتا ہے میں تیرے ساتھ ہوں۔ تُو مضبوط ہو اور دلاور بن جا اور بے دل مت ہو۔ تب یشوع میں بڑی قوت اور استقلال اور وہ ایمان پیدا ہو گیا جو خدا کی تسلی کے ساتھ پیدا ہوتا ہے۔ ایسا ہی حضرت ابوبکرؓ کو بغاوت کے طوفان کے وقت خدا تعالیٰ سے قوت ملی۔ جس شخص کو اس زمانہ کی اسلامی تاریخ پر اطلاع ہے وہ گواہی دے سکتا ہے کہ وہ طوفان ایسا سخت طوفان تھا کہ اگر خدا کا ہاتھ ابوبکرؓ کے ساتھ نہ ہوتا اور اگر درحقیقت اسلام خدا کی طرف سے نہ ہوتا اور

اگر درحقیقت ابوبکر خلیفہ حق نہ ہوتا تو اس دن اسلام کا خاتمہ ہو گیا تھا۔

مگر یشوع نبی کی طرح خدا کے پاک کلام سے ابو بکر صدیق ؓکو قوت ملی کیونکہ خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں اس ابتلا کی پہلے سے خبر دے رکھی تھی۔ چنانچہ جو شخص اس آیت مندرجہ ذیل کو غور سے پڑھے گا وہ یقین کرلے گا کہ بلاشبہ اس ابتلا کی خبر قرآن شریف میں پہلے سے دی گئی تھی اور وہ خبر یہ ہے کہ وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡکُمۡ وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسۡتَخۡلِفَنَّہُمۡ فِی الۡاَرۡضِ کَمَا اسۡتَخۡلَفَ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِہِمۡ ۪ وَلَیُمَکِّنَنَّ لَہُمۡ دِیۡنَہُمُ الَّذِی ارۡتَضٰی لَہُمۡ وَلَیُبَدِّلَنَّہُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ خَوۡفِہِمۡ اَمۡنًا ؕ یَعۡبُدُوۡنَنِیۡ لَا یُشۡرِکُوۡنَ بِیۡ شَیۡئًا ؕ وَمَنۡ کَفَرَ بَعۡدَ ذٰلِکَ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡفٰسِقُوۡنَ (النور:56)یعنی خدانے مومنوں کو جو نیکوکار ہیں وعدہ دے رکھا ہے جو اُن کو خلیفےبنائے گا انہی خلیفوں کی مانند جو پہلے بنائے تھے اور اسی سلسلہ خلافت کی مانند سلسلہ قائم کرے گا جو حضرت موسیٰ کے بعد قائم کیا تھا۔‘‘ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خود ہی یہ تفسیری تھوڑا سا وضاحتی ترجمہ کیا ہوا ہے۔ فرمایا ’’اسی سلسلہ خلافت کی مانند سلسلہ قائم کرے گا جو حضرت موسیٰ کے بعد قائم کیا تھا اور ان کے دین کو یعنی اسلام کو جس پر وہ راضی ہوا زمین پر جمادے گا اور اس کی جڑ لگا دے گا اور خوف کی حالت کو امن کی حالت کے ساتھ بدل دے گا۔ وہ میری پرستش کریں گے کوئی دوسرا میرے ساتھ نہیں ملائیں گے۔ دیکھو اس آیت میں صاف طور پر فرما دیا ہے کہ خوف کا زمانہ بھی آئے گا اور امن جاتا رہے گا مگر خدا اس خوف کے زمانہ کو پھر امن کے ساتھ بدل دے گا۔ سو یہی خوف یَشُوع بن نون کو بھی پیش آیا تھا اور جیسا کہ اس کو خدا کی کلام سے تسلی دی گئی ایسا ہی ابو بکر رضی اللہ عنہ کو بھی خدا کی کلام سے تسلی دی گئی۔‘‘

(تحفۂ گولڑویہ ،روحانی خزائن جلد 17صفحہ 183تا 189)

ان شاء اللہ پانچ باتوں کی جو باقی تفصیلات ہیں آئندہ بیان ہوں گی۔

دنیا کے، جنگوں کے جو آج کل کے حالات ہیں اس کے لیے دعا کریں۔

یہ خوفناک سے خوفناک ترہوتے جا رہے ہیں۔ اب تو ایٹمی جنگ کی بھی دھمکیاں دی جانے لگی ہیں۔ جیسا کہ پہلے بھی مَیں نے کہا ہےاور کئی دفعہ کہہ چکا ہوں کہ جس کے خوفناک نتائج ہوں گے اور اس کے نتائج اگلی نسلوں کو بھی بھگتنے پڑیں گے۔ اللہ تعالیٰ ہی ہے جو ان لوگوں کو عقل دے۔

ان دنوں میں درود بھی بہت پڑھیں۔ استغفار بھی بہت کریں ۔

اللہ تعالیٰ ہمارے گناہوں کو بھی معاف فرمائے اور دنیا کے لیڈروں کو بھی عقل اور سمجھ عطا فرمائے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے ایک وقت میں جماعت کو خاص طور پر تلقین فرمائی تھی کہ رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ (البقرۃ: 202) کی دعا بہت پڑھا کرو اور فرمایا تھا کہ رکوع کے بعد کھڑے ہو کے یہ دعا کیا کریں۔(ماخوذ از ملفوظات جلد اول صفحہ 9)تو اس کو بھی آج کل بہت زیادہ پڑھنے کی ضرورت ہے۔

اللہ تعالیٰ حسنات سے بھی نوازے اور ہر قسم کے آگ کے عذاب سے سب کو بچائے۔

ایک

جنازہ غائب

بھی مَیں آج پڑھاؤں گا جو

مکرم ابوالفرج الحصنی صاحب آف شام

کا ہے۔ یہ 13؍فروری کو نوے سال کی عمر میں وفات پا گئے تھے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ان کے والد مکرم محمد الحصنی صاحب ابتدائی احمدیوں میں سے تھے۔ انہوں نے مولانا جلال الدین صاحب شمس کے ذریعہ سے بیعت کی تھی۔ ابوالفرج الحصنی صاحب سیریا کے پہلے امیر جماعت مکرم منیر الحصنی صاحب کے بھتیجے تھے اور ان کے دور میں بھی نائب امیر کے طور پر جماعت کی خدمت بجا لاتے رہے۔ بعد میں بھی نائب امیر رہے۔ 1933ء میں پیدا ہوئے اور چچا منیر الحصنی صاحب کی نیکی ،تقویٰ اور علمی گفتگو سے بہت متاثر تھے۔ ان کی مجلس میں اکثر بیٹھا کرتے تھے۔ پندرہ سال کے تھے جب ایک دن ریڈیو پر تلاوت سن کر دل بھر آیا اور رونے لگے۔ اپنے چچا کے پاس گئے اور انہیں کہا کہ میں اللہ کے بارے میں مزید جاننا چاہتا ہوں۔ انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک کتاب دی۔ کتاب پڑھ کر ان کے دل کی دنیا بدل گئی اور وہ اپنے چچا کے پاس آئے اور کہا کہ میں بیعت کرنا چاہتا ہوں۔ ان کو تین خلفائے سلسلہ سے ملاقات کا شرف بھی حاصل ہوا۔ حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ جب 1955ء میں دمشق تشریف لائے تو مرحوم کو آپ سے ملاقات کا شرف نصیب ہوا اور سیکیورٹی کی خدمات کا موقع بھی ملا۔ 1972ء میں پاکستان جانے اور حضرت خلیفة المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کی صحبت میں ربوہ میں چند ماہ رہ کر اردو سیکھنے اور جماعتی علوم سے بہرہ مند ہونے کا بھی موقع ملا۔ اسی سال انہیں پاکستان سے قادیان جانے کا بھی موقع ملا۔ 1986ء میں جلسہ سالانہ کے موقع پر برطانیہ آئے اور حضرت خلیفة المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ سے ان کو شرف باریابی ملا۔ پھر 2017ء میں ان کو دوبارہ بھی قادیان جانے کا موقع ملا اور جلسہ میں انہوں نے عربی زبان میں ایک مختصر سا خطاب بھی فرمایا۔

مرحوم بڑے نیک اور صالح، مخلص اور عالم باعمل بزرگ تھے۔ اپنی کوئی اولاد نہیں تھی اور ان کی اہلیہ بھی غیر احمدی ہیں۔

صدر جماعت سیریا کہتے ہیں کہ میں 2017ء میں ان کے ساتھ قادیان کی زیارت کے لیے گیا۔ باوجودیکہ آپ بہت ضعیف تھے مگر فرط شوق کا یہ عالم تھا کہ یوں معلوم ہوتا تھا کہ زمین پر نہیں چل رہے بلکہ ہوا میں پرواز کر رہے ہیں۔ اور پہلے تو یہ حال تھا کہ بیماری کی وجہ سے جانا نہیں چاہتے تھے لیکن جب میں نے ان کو کہا کہ آپ ہو آئیں تو پھر انہوں نے کہا جب خلیفہ وقت کا حکم آ گیا ہے یا انہوں نے یہ کہہ دیا ہے کہ جاؤ تو پھر کوئی بات نہیں اور اللہ نے فضل فرمایا کہ وہ بیماری اور کمزوری ان کی اور جوان کی اہلیہ کی تھی دونوں ٹھیک ہو گئے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہاں گئے بلکہ منارة المسیح پر بھی ان کو چڑھنے کی توفیق ملی اور بیان کرنے والے بیان کرتے ہیں کہ وہاں جوانوں سے زیادہ تیزی سے اوپر چڑھ گئے حالانکہ پہلے چلنے میں بھی مشکلات تھیں۔

مسلم الدروبی صاحب جو ڈاکٹر ہیں وہ لکھتے ہیں کہ مرحوم ایک ولی اللہ اور اَبدالُ الشام میں سے تھے۔ میں خود بھی اور باقی دوست بھی اس کے گواہ ہیں۔ آپ دمشق کے معروف تاجروں میں سے تھے اور قابل تقلید نمونہ تھے اور بازار میں آپ کی اچھی شہرت تھی۔ مرحوم بہت حکیم اور ذہین تھے۔ باقاعدگی سے تہجد کا التزام کرتے۔ سچی خوابیں دیکھنے والے تھے۔ بہت سی پوری ہوئیں۔ ان میں سے بہت سی سیریا کے حالات اور مصائب کے متعلق بھی تھیں۔ جب مختلف مربیان عربی کی تعلیم کے لیے سیریا آتے تو آپ ان کا بڑا احترام کرتے تھے اس لیے کہ اول تو خلیفہ وقت کی طرف سے بھجوائے گئے ہیں اور دوسرے انہوں نے تبلیغ کے لیے زندگی وقف کی ہوئی ہے۔

حسام النقیب صاحب جو شام کے سابق صدر ہیں آج کل ترکی میں ہیں وہ لکھتے ہیں کہ مرحوم متعدد خصائلِ حمیدہ کے مالک تھے جن میں سب سے نمایاں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے خلفاء سے محبت تھی۔ مرحوم کے ساتھ سفرِ قادیان مجھے ساری عمر نہیں بھولے گا ۔اس سفر کی ہر بات ہی ایک معجزہ تھی۔ میں قادیان میں سارا وقت ان کے ساتھ رہا۔ قادیان میں ان کی یہی ایک دعا ہوتی تھی کہ اے خدا! خلیفۂ وقت کی تائید و نصرت فرما اور ان کی عمر اور ہر کام میں برکت عطا فرما۔ پھر لکھتے ہیں کہ جب مجلس میں کوئی شخص خلیفۂ وقت کا کوئی ارشاد بیان کرتا تو اس دوران کسی کو بولنے کی اجازت نہ دیتے تاکہ آپ ارشاد پوری طرح سن لیں اور سمجھ لیں اور محظوظ ہوں۔ ایک بڑے بے نفس انسان تھے۔ کسی سے اپنی تعریف سن کے خوش نہیں ہوتے تھے بلکہ اس کو ڈانٹ کر کہتے تھے کہ ان باتوں کو چھوڑو۔ اللہ اور اس کی جماعت ہی سب کچھ ہے۔ جماعت کی باتیں کرو۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کا مطالعہ انہوں نے کبھی نہیں چھوڑا۔ آخری سالوں کے سوا جبکہ بہت کمزور ہو گئے تھے کبھی آپ نے جماعتی کتب کا مطالعہ ترک نہیں کیا۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تفسیر کبیر کے ساتھ بہت لگاؤ تھا۔ جب کوئی آپ سے کسی قرآنی آیت کی تفسیر پوچھتا تو تفسیر کبیر کی شرح بیان کرتے تھے۔

ان کے بھانجے محمد عمار المِسْکی صاحب جو یہاں یوکے میں ہیں یہ کہتے ہیں کہ میں چودہ سال کا تھا جب ان کے ساتھ جمعہ کی نماز اد اکیا کرتا تھا۔ واپسی پر ان کے ساتھ گھر آتا اور راستے میں ان سے جماعتی علوم کے بارے میں سوال کیا کرتا تھا اور بڑی تفصیل سے جواب دینے والے تھے۔ سیریا میں جماعتی کتب بھی دستیاب نہیں تھیں ،افراد جماعت کو جماعتی علوم کی منتقلی میں مرحوم کا بہت کردار ہے۔ جب ربوہ گئے ہیں تو انہوں نے اردو پڑھنی سیکھی تھی۔ اردو کی کتابیں لے آتے تھے اور پھر کوشش کرتے تھے کہ اردو کی کتابوں کو پڑھ کے سمجھ کے پھر ان کا ترجمہ کر کے جماعت کے افراد کو بتائیں۔ مرحوم ایک بے نفس آدمی تھے۔ کبھی عہدے کی خواہش نہیں کی۔ ہمیشہ خادم بن کر رہنا انہوں نے پسند کیا۔ حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ نے ان کو امیر بنانا بھی چاہا تو انہوں نے کہا کہ لوگ پھر کہیں گے کہ خاندانی طور پر یہ سارا کچھ امارت کا کام بھی چل پڑا ہے اس لیے کسی اَور کو بنا دیں اور میں ان سے پورا تعاون کروں گا اور پھر اپنے سے کم عمر امیر کے ساتھ بھی تعاون کیا اور بےشمار تعاون کیا بلکہ مثال قائم کر دی۔

اللہ تعالیٰ مرحوم سے مغفرت کا سلوک فرمائے درجات بلند فرمائے اور ان کی تمام دعائیں ان کی اپنی اہلیہ کے متعلق بھی پوری فرمائے۔ ان کو بھی توفیق دے کہ احمدیت کو قبول کر لیں۔ نماز کے بعد ان شاء اللہ جنازہ غائب ادا کروں گا۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button