خطبہ جمعہ

خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزفرمودہ 25؍فروری2022ء

’’بخدا اللہ تعالیٰ تجھ پر دو موتیں جمع نہیں کرے گا۔ تیری موت سے دنیا کو وہ نقصان پہنچا ہے جو کسی نبی کی موت سے نہیں پہنچا تھا۔ تیری ذات صفت سے بالا ہے اور تیری شان وہ ہے کہ کوئی ماتم تیری جدائی کے صدمے کو کم نہیں کر سکتا۔ اگر تیری موت کا روکنا ہماری طاقت میں ہوتا تو ہم سب اپنی جانیں دے کر تیری موت کو روک دیتے۔‘‘ (آنحضورؐ کی وفات پر حضرت ابوبکرصدیقؓ کا پاکیزہ ردّعمل)

آنحضرتﷺ کے عظیم المرتبت خلیفہ ٔراشد صدیقِ اکبر
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے کمالات اور مناقبِ عالیہ

اللہ اور مسلمان یہ بات ناپسند کرتے ہیں کہ ابوبکر کے علاوہ کوئی اَور نماز پڑھائے(الحدیث)

اللہ کی قسم! ایسا معلوم ہوا کہ گویا لوگ اس وقت تک کہ حضرت ابوبکرؓ نے وہ آیت پڑھی جانتے ہی نہ تھے کہ اللہ نے یہ آیت نازل بھی کی تھی۔

’’حضرت ابو بکرصدیق رضی اللہ عنہ کا اس امت پر اتنا بڑا احسان ہے کہ اس کا شکر نہیں ہو سکتا۔ اگر وہ تمام صحابہ رضی اللہ عنہم کو مسجد نبوی میں اکٹھے کر کے یہ آیت نہ سناتے کہ تمام گزشتہ نبی فوت ہو چکے ہیں تو یہ امت ہلاک ہو جاتی‘‘ (حضرت مسیح موعودؑ)

امیر ہم میں ہوں گے اور تم وزیر۔ ہر اہم معاملے میں تم سے مشورہ لیا جائے گا
اور تمہارے بغیر اہم معاملات کے متعلق فیصلہ نہیں کریں گے

دنیا کے موجودہ حالات میں احمدیوں کو دعاؤں کی تحریک

خدا کرے کہ یہ لوگ خدا تعالیٰ کو پہچاننے والے ہوں اور
اپنی دنیاوی خواہشات کی تسکین کے لیے انسانوں کی جانوں سے نہ کھیلیں

محترم خوشی محمد صاحب شاکر مربی سلسلہ کا ذکرِ خیر اور نمازِ جنازہ غائب

خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزفرمودہ 25؍فروری2022ء بمطابق25؍تبلیغ1401 ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے)، یوکے

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔

أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾

اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾

اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ذکر ہو رہا تھا اس میں

حجة الوداع

کے موقع پر اس طرح درج ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حجة الوداع کے لیے دس ہجری جمعرات کے دن جبکہ ذیقعدہ کے چھ دن باقی تھے روانہ ہوئے۔ ایک قول کے مطابق آپؐ ہفتہ کے دن روانہ ہوئے۔


(السیرة الحلبیة جلد 3صفحہ361 باب حجۃ الوداع ۔دار الکتب العلمیة بیروت 2002ء)

بہرحال اس میں ایک روایت آتی ہے کہ حضرت اسماء بنت ابی بکرؓ بیان کرتی ہیں کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حجة الوداع کا ارادہ فرمایا تو حضرت ابوبکر صدیقؓ نے عرض کی یا رسول اللہؐ! میرے پاس ایک اونٹ ہے ہم اس پر اپنا زادِراہ لاد لیتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ایسا ہی کر لو۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکرؓ دونوں کے سامان کے لیے ایک ہی اونٹ تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ آٹے اور کچھ ستو کا زادِراہ بنوایا اور حضرت ابوبکرؓ کے اونٹ پر رکھ دیا۔ حضرت ابوبکرؓ نے اسے اپنے غلام کے سپرد کر دیا۔

حضرت اسماء بنت ابی بکرؓ بیان کرتی ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج کے لیے نکلے۔ جب ہم عَرْجْ مقام پر تھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سواری سے اترے اور ہم بھی اترے تو عائشہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک پہلو میں بیٹھ گئیں اور میں اپنے والد کے پہلو میں بیٹھ گئی۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکرؓ کا سامان اکٹھا ایک اونٹ پر تھا جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے جو حضرت ابوبکرؓ کے غلام کے پاس تھا۔ حضرت ابوبکرؓ انتظار کرنے لگے کہ وہ آ جائے۔ وہ غلام آ گیا مگر اس کا اونٹ اس کے ساتھ نہ تھا۔ حضرت ابوبکرؓ نے کہا تمہارا اونٹ کہاں ہے۔ اس نے کہا گذشتہ رات سے میں اسے گم کر چکا ہوں۔ حضرت ابوبکرؓ نے کہا کہ ایک ہی اونٹ تھا وہ بھی تم نے گم کر دیا تو حضرت ابوبکرؓ اسے مارنے کے لیے اٹھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تبسم فرما رہے تھے اور فرمانے لگے اس مُحْرِمْکو دیکھو یہ کیا کر رہا ہے؟اِبنِ اَبِی رِزْمَہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے زائد نہیں کہا کہ اس مُحْرِمْکو دیکھو کیا کرنے لگا ہے اور آپؐ تبسم فرمانے لگے۔

(ماخوذ از سبل الھدیٰ والرشاد جلد7صفحہ12-13 فی حسن خلقہﷺ۔ دار الکتب العلمیة بیروت 1993ء)

(ماخوذ از سنن ابو داؤد کتاب المناسک باب المحرم یؤدب غلامہ حدیث 1818)

بہرحال جب بعض صحابہ کو معلوم ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا زادِ راہ گم ہو گیا ہے تو وہ حِیْسْ لے کر آئے۔حِیْس ایک عمدہ حلوہ ہے جو کھجور اور آٹے اور مکھن سے تیار کیا جاتا ہے، اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے رکھ دیا۔حضرت ابوبکرؓ جو اپنے غلام پر غصہ کر رہے تھے ان سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے ابوبکر! نرمی اختیار کرو۔ یہ معاملہ نہ تمہارے اختیار میں ہے اور نہ ہمارے۔ اس غلام کی کوشش تو یقیناً یہی رہی ہو گی کہ اونٹ گم نہ ہو لیکن گم ہو گیا۔ بہرحال آپؐ نے فرمایا کہ یہ لو، یہ ہمارے لیے ایک پاکیزہ غذا آ گئی ہے جو اللہ تعالیٰ نے بھیجی ہے اور اس غلام کے ساتھ ہمارا جو کھانا تھا یہ اس کا بدل ہے۔ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اور حضرت ابوبکرؓ نے بھی وہ کھانا کھایا اور ان لوگوں نے بھی کھایا جو ان دونوں کے ساتھ کھایا کرتے تھے یہاں تک کہ سب سیر ہوگئے۔ اس کے بعد حضرت صَفْوَان بن مُعَطَّلْؓ پہنچے۔ ان کی ذمہ داری قافلے کے پیچھے چلنے کی تھی ۔ان کے سپرد یہی کام تھا جیسا کہ افک کے واقعہ میں بھی بیان ہو چکا ہے کہ پیچھے سے دیکھتے تھے کوئی چیز رہ تو نہیں گئی۔ حضرت صَفْوَانؓ آئے تو اونٹ ان کے ساتھ تھا اور اس پر زادِ راہ بھی موجود تھا۔ انہوں نے اونٹ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پڑاؤ کے دروازے پر لا کر بٹھایا۔ تب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوبکر سے فرمایا۔ دیکھو تمہارے سامان میں سے کچھ گُم تو نہیں ہوا ؟ حضرت ابوبکرؓ نے عرض کیا سوائے ایک پیالے کے جس میں ہم پانی پیا کرتے تھے کوئی چیز گُم نہیں ہوئی۔ اسی وقت غلام نے کہا کہ وہ پیالہ میرے پاس پہلے ہی موجود ہے۔

(السیرة الحلبیة جلد 3صفحہ365باب حجۃ الوداع ۔دار الکتب العلمیة بیروت 2002ء)
(فرہنگ سیرت صفحہ110 زوار اکیڈمی کراچی 2003ء)


حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حجة الوداع کے موقع پر آپؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج کے لیے نکلے اور آپؓ کے ساتھ آپؓ کی اہلیہ اسماء بنت عُمَیْس رضی اللہ عنہا بھی تھیں۔ پس جب وہ لوگ ذوالحلیفہ میں پہنچے تو وہاں اسماء کے ہاں محمد بن ابوبکر کی پیدائش ہوئی۔ ذُوالْحُلَیْفَہ مدینہ سے چھ سات میل کے فاصلہ پر ایک مقام ہے۔ بہرحال حضرت ابوبکر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات کی خبر دی کہ اس طرح پیدائش ہوئی ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپؓ کو ارشاد فرمایا کہ اسماء کو کہیں کہ غسل کر لیں۔ پھر حج کا احرام باندھ لیں اور سب کام کریں جو دوسرے لوگ یعنی حاجی کرتے ہیں سوائے اس کے کہ وہ بیت اللہ کا طواف نہ کریں۔


(سنن النسائی کتاب مناسک الحج باب الغسل للاِھلال حدیث2664)


(معجم البلدان جلد2 صفحہ339 دار الکتب العلمیۃ بیروت)


رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب وادی عُسْفَان سے گزرے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے استفسار فرمایا اے ابوبکر! یہ کون سی وادی ہے؟ ابوبکرؓ نے جواب دیا یہ وادیٔ عُسْفَان ہے۔ آپؐ نے فرمایا


یہاں سے حضرت ہودؑ اور حضرت صالح ؑ دو سرخ اونٹوں پر سوار جن کی مہار کھجور کی چھال کی تھی چوغہ پہنے ہوئے اور اوپر سفید اور کالی نقش دار چادر اوڑھے ہوئے تلبیہ کہتے ہوئے بیت العتیق کے حج کے لیے گزرے تھے۔


(سبل الھدٰی والرشاد جلد8صفحہ461 ۔فی سیاق حجۃ الوداع۔ دار الکتب العلمیة بیروت 1993ء)


حجة الوداع کے سفر میں جن لوگوں کے ساتھ قربانی کے جانور تھے ان میں حضرت ابوبکر صدیقؓ بھی شامل تھے۔

(السیرة الحلبیة جلد 3صفحہ369 باب حجۃ الوداع ۔دار الکتب العلمیة بیروت 2002ء)


حضرت ابوبکرؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حجة الوداع میں دیکھا کہ سُہَیل بن عَمرو ذبح کرنے کی جگہ پر کھڑے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قربانی کے جانور کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب کر رہے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے اس کو ذبح کیا۔ پھر سر مونڈنے والےکو بلایا اور اپنے بال منڈوائے۔ کہتے ہیں کہ


میں نے سُہَیل کو دیکھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بال مبارک اپنی آنکھوں سے لگا رہا تھا۔ کہتے ہیں اس وقت مجھے یاد آ گیا کہ یہی سُہَیل صلح حدیبیہ کے وقت آپ کو بسم اللہ الرحمٰن الرحیم لکھنے سے روک رہا تھا جو معاہدے پہ لکھی جانی تھی۔


حضرت ابوبکرؓ کہتے ہیں کہ میں نے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی جس نے سُہَیل کو اسلام کی طرف ہدایت دی۔ (سبل الھدٰی والرشاد جلد5 صفحہ64 فی غزوۃ الحدیبیہ ۔ دار الکتب العلمیة بیروت 1993ء)اور پھر جب ہدایت دی تو پھر اخلاص و وفا میں بے انتہا بڑھے۔


نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آخری بیماری کے دوران

حضرت ابوبکر صدیق ؓکے نمازیں پڑھانے کے بارے میں


آتا ہے۔ حضرت عائشہؓ بیان فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیماری میں فرمایا: ابوبکر سے کہو کہ وہ لوگوں کو نمازیں پڑھائیں۔ حضرت عائشہؓ نے کہا میں نے عرض کیا: حضرت ابوبکرؓ جب آپؐ کی جگہ کھڑے ہوں گے تو وہ رونے کی وجہ سے لوگوں کو سنا نہ سکیں گے۔ اس لیے آپؐ حضرت عمرؓ کو کہیں کہ وہ لوگوں کو نمازیں پڑھائیں۔ حضرت عائشہؓ کہتی تھیں مَیں نے پھر حضرت حفصہؓ سے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے آپؓ کہیں کہ حضرت ابوبکرؓ جب آپؐ کی جگہ کھڑے ہوں گے تو رونے کی وجہ سے لوگوں کو سنا نہیں سکیں گے۔ اس لیے آپؐ حضرت عمرؓسے کہیں کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھا دیں۔ حضرت حفصہؓ نے ایسا ہی کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ناراض ہوئے کہ خاموش رہو۔ تم تو یوسف والی عورتیں ہو۔ ابوبکرؓ سے کہو وہی لوگوں کو نماز پڑھائیں۔


(صحیح البخاری کتاب الاذان باب اھل العلم و الفضل احق بالامانۃ حدیث679)


وفات سے قبل جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بیمار تھے تو حضرت ابوبکرؓ کی غیر موجودگی میں حضرت بلالؓ نے حضرت عمرؓ کو نماز پڑھانے کے لیے کہہ دیا۔ جب حجرے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت عمرؓ کی آواز پہنچی تو آپؐ نے فرمایا ابوبکرؓکہاں ہیں؟


اللہ اور مسلمان یہ بات ناپسند کرتے ہیں کہ ابوبکر کے علاوہ کوئی اَور نماز پڑھائے۔


پھر حضرت ابوبکرؓ کو بلایا گیا تو وہ اس وقت پہنچے جب حضرت عمرؓ نماز پڑھا چکے تھے۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری کے دوران اور آپؐ کی وفات تک حضرت ابوبکرؓ ہی نماز پڑھاتے رہے۔


(ماخوذ از الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب جلد 3صفحہ ۔97،96حرف العین ، مکتبہ دارالکتب العلمیة بیروت لبنان 2002ء)


حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیماری میں حضرت ابوبکرؓ سے فرمایا کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں ۔ اس لیے وہ انہیں نماز پڑھایا کرتے تھے۔ عروہ کہتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیماری میں کچھ تخفیف محسوس کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم باہر مسجد میں تشریف لائے۔ کیا دیکھتے ہیں کہ حضرت ابوبکرؓ آگے کھڑے ہو کر لوگوں کو نماز پڑھا رہے ہیں۔ جب حضرت ابوبکرؓ نے آپؐ کو دیکھا تو پیچھے ہٹے۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اشارہ کیا کہ اپنی جگہ پرہی رہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابوبکرؓ کے برابر ان کے پہلو میں بیٹھ گئے۔ حضرت ابوبکرؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کے ساتھ نماز پڑھتے اور لوگ حضرت ابوبکرؓ کی نماز کے ساتھ نماز پڑھتے۔


(صحیح البخاری کتاب الاذان باب من قام الی جنب الامام لعلۃ … حدیث683)


یہ بخاری کی روایت ہے۔ صحیح بخاری میں ہی ایک اَور روایت اس طرح ہے۔ حضرت انس بن مالک انصاریؓ سے روایت ہے کہ حضرت ابوبکر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس بیماری میں جس میں آپؐ کی وفات ہو گئی لوگوں کو نماز پڑھایا کرتے تھے یہاں تک کہ جب پیر کا دن ہوا اور وہ نماز میں صفوں میں تھے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حجرے کا پردہ اٹھایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں دیکھ رہے تھے اور آپؐ کھڑے ہوئے تھے۔ گویا کہ


آپؐ کا چہرۂ مبارک قرآن مجید کا ورق تھا۔


پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خوش ہو کر تبسم فرمایا اور ہمیں خیال ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھنے کی وجہ سے ہم خوشی سے آزمائش میں پڑ جائیں گے۔ اتنے میں حضرت ابوبکرؓ اپنی ایڑیوں کے بل پیچھے ہٹے تا وہ صف میں مل جائیں اور وہ سمجھے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نمازکے لیے باہر تشریف لا رہے ہیں مگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اشارہ فرما کر یہی کہا کہ اپنی نماز پوری کرو اور پردہ ڈال دیا اور آپؐ اسی دن فوت ہو گئے۔


(صحیح البخاری کتاب الاذان باب اھل العلم والفضل احق بالامانۃ حدیث680)


حضرت مصلح موعودؓ پہلی روایت کے مطابق ایک جگہ بیان فرماتے ہیں کہ ’’حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ جب آپؐ مرض الموت میں مبتلا ہوئے تو بوجہ سخت ضعف کے نماز پڑھانے پر قادر نہ تھے اس لیے آپؐ نے حضرت ابوبکرؓ کونماز پڑھانے کا حکم دیا۔ جب حضرت ابوبکرؓ نے نماز پڑھانی شروع کی تو آپؐ نے کچھ آرام محسوس کیا اور نماز کے لیے نکلے۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ حضرت ابوبکرؓ کو نماز پڑھانے کا حکم دینے کے بعد جب نماز شروع ہو گئی تو آپؐ نے مرض میں کچھ خفت محسوس کی۔ پس آپؐ نکلے کہ دو آدمی آپؐ کو سہارا دے کر لے جا رہے تھے۔‘‘ کہتی ہیں کہ ’’اور اس وقت میری آنکھوں کے سامنے وہ نظارہ ہے کہ شدت درد کی وجہ سے آپؐ کے قدم زمین سے چھوتے جاتے تھے۔ آپؐ کو دیکھ کر حضرت ابوبکرؓ نے ارادہ کیا کہ پیچھے ہٹ آئیں۔ اس ارادہ کو معلوم کر کے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوبکرؓ کی طرف اشارہ فرمایا کہ اپنی جگہ پر رہو۔ پھر آپؐ کو وہاں لایا گیا اور آپؐ حضرت ابوبکرؓ کے پاس بیٹھ گئے۔ اس کے بعد رسول کریمؐ نے نماز پڑھنی شروع کی اور حضرت ابوبکرؓ نے آپ کی نماز کے ساتھ نماز پڑھنی شروع کی اور باقی لوگ حضرت ابوبکرؓ کی نماز کی اتباع کرنے لگے۔‘‘


(سیرة النبیؐ، انوارالعلوم جلد 1صفحہ 506-507)


آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات


کے بارے میں ایک جگہ اس طرح عُروہ بن زُبیر نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ حضرت عائشہؓ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو گئے اور حضرت ابوبکرؓ اس وقت سُنْح میں تھے یعنی سُنْح مضافات میں ایک گاؤں ہے۔ یہ خبر سن کر حضرت عمرؓ کھڑے ہوئے۔ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کی خبر پہنچی تو حضرت ابوبکرؓ تو وہاں تھے نہیں حضرت عمر ؓموجود تھے وہ کھڑے ہوئے اور کہنے لگے اللہ کی قسم ! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فوت نہیں ہوئے۔ حضرت عائشہؓ کہتی تھیں کہ حضرت عمرؓ کہا کرتے تھے کہ اللہ کی قسم! میرے دل میں یہی بات آئی تھی کہ اللہ آپؐ کو ضرور ضرور اٹھائے گا تا بعض آدمیوں کے ہاتھ پاؤں کاٹ دے۔ اتنے میں حضرت ابوبکرؓآ گئے اور انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ سے کپڑا ہٹایا اور آپؐ کوبوسہ دیا اورکہنے لگے میرے ماں باپ آپؐ پر قربان ہوں۔ آپؐ زندگی میں بھی اور موت کے وقت بھی پاک و صاف ہیں۔ اس ذات کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اللہ آپؐ کو کبھی دو موتیں نہیں دکھائے گا۔ یہ کہہ کر حضرت ابوبکرؓ باہر چلے گئے اور کہنے لگے اے قسم کھانے والے !ٹھہر جا۔ یعنی حضرت عمرؓکو کہا کہ ٹھہر جاؤ۔ جب حضرت ابوبکرؓ بولنے لگے تو حضرت عمر ؓبیٹھ گئے۔ حضرت ابوبکرؓ نے حمد وثنا بیان کی اور کہا۔ أَلَا مَنْ كَانَ يَعْبُدُمُحَمَّدًا صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَإِنَّ مُحَمَّدًا قَدْ مَاتَ، وَمَنْ كَانَ يَعْبُدُ اللّٰهَ فَإِنَّ اللّٰهَ حَيٌّ لَا يَمُوْتُ۔دیکھو!جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو پوجتا تھا سن لے کہ محمد تو یقیناً فوت ہو گئے ہیں اور جو اللہ کو پوجتا تھا اسے یاد رہے کہ اللہ زندہ ہے کبھی نہیں مرے گا اور حضرت ابوبکرؓ نے یہ آیت پڑھی۔ اِنَّكَ مَيِّتٌ وَّ اِنَّهُمْ مَّيِّتُوْنَ (الزمر:31) تم بھی مرنے والے ہو اور وہ بھی مرنے والے ہیں۔ پھر انہوں نے یہ آیت پڑھی۔ وَمَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوۡلٌ ۚ قَدۡ خَلَتۡ مِنۡ قَبۡلِہِ الرُّسُلُ ؕ اَفَا۠ئِنۡ مَّاتَ اَوۡ قُتِلَ انۡقَلَبۡتُمۡ عَلٰۤی اَعۡقَابِکُمۡ ؕ وَمَنۡ یَّنۡقَلِبۡ عَلٰی عَقِبَیۡہِ فَلَنۡ یَّضُرَّ اللّٰہَ شَیۡئًا ؕ وَسَیَجۡزِی اللّٰہُ الشّٰکِرِیۡنَ (آل عمران:145)کہ محمد صرف ایک رسول ہیں آپ سے پہلے سب رسول فوت ہو چکے ہیں تو پھر کیا اگر آپ فوت ہو جائیں یا قتل کیے جائیں توتم اپنی ایڑیوں کے بل پھر جاؤ گے اور جو کوئی اپنی ایڑیوں کے بل پھر جائے تو وہ اللہ کو ہرگز نقصان نہ پہنچا سکے گا اور عنقریب اللہ شکر کرنے والوں کو بدلہ دے گا۔ راوی کہتے ہیں کہ یہ سن کر لوگ اتنا روئے کہ ہچکیاں بندھ گئیں۔


(صحیح البخاری کتاب فضائل اصحاب النبیﷺ باب قول النبیﷺ لو کنت متخذا خلیلا حدیث 3667 3668-)


حضرت ابن عباسؓ کہتے ہیں کہ


اللہ کی قسم! ایسا معلوم ہوا کہ گویا لوگ اس وقت تک کہ حضرت ابوبکرؓ نے وہ آیت پڑھی جانتے ہی نہ تھے کہ اللہ نے یہ آیت بھی نازل کی تھی۔


گویا تمام لوگوں نے ان سے یہ آیت سیکھی۔ پھر لوگوں میں سے جس آدمی کو بھی میں نے سنا یہی آیت پڑھ رہا تھا۔ راوی کہتے ہیں۔ سعید بن مُسَیَّب نے مجھے بتایا کہ حضرت عمرؓ نے کہا اللہ کی قسم! جونہی میں نے ابوبکر کو یہ آیت پڑھتے سنا میں اس قدر گھبرایا کہ دہشت کے مارے میرے پاؤں مجھے سنبھال نہ سکے اور میں زمین پر گر گیا۔ جب میں نے حضرت ابوبکر ؓکو یہ آیت پڑھتے سنا تو میں نے جان لیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو گئے ہیں۔


(صحیح البخاری کتاب المغازی باب مرض النبیﷺ و وفاتہ حدیث 4454)


حضرت عبداللہ بن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابوبکرؓ حضرت عمرؓ کے پاس سے گزرے اس حال میں کہ حضرت عمرؓ یہ کہہ رہے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فوت نہیں ہوئے اور اس وقت تک فوت نہیں ہوں گے جب تک کہ اللہ منافقوں کو قتل نہ کر دے۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ کہتے ہیں کہ وہ یعنی صحابہ یہ سن کر خوشی کا اظہار کرتے تھے اور اپنے سروں کو اٹھاتے تھے تو حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا۔ اے شخص! یقیناً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو گئے ہیں۔ حضرت عمرؓ کو مخاطب کیا اور کہا یقیناً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو گئے ہیں۔ کیا تُو نے نہیں سنا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اِنَّكَ مَيِّتٌ وَّ اِنَّهُمْ مَّيِّتُوْنَ (الزمر:31)تم بھی مرنے والے ہو اور وہ بھی مرنے والے ہیں اور یہ بھی کہ وَ مَا جَعَلْنَا لِبَشَرٍ مِّنْ قَبْلِكَ الْخُلْدَ (الانبیاء: 35)اور ہم نے کسی بشر کو تجھ سے پہلے ہمیشگی عطا نہیں کی۔ پھر حضرت ابوبکرؓ منبر پر تشریف لائے اور خطاب کیا۔ بہرحال اس حدیث کی تشریح میں ابوعبداللہ قرطبی بیان کرتے ہیں کہ اس بات میں


حضرت ابوبکر صدیق ؓکی شجاعت پر بہت بڑی دلیل


ہے کیونکہ شجاعت کی انتہا یہ ہے کہ مصائب کے نازل ہونے کے وقت دل کا ثابت قدم رہنا اور مسلمانوں پہ اس وقت کوئی مصیبت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کی مصیبت سے بڑھ کرنہ تھی۔ پس اس وقت آپؓ کی شجاعت اور علم ظاہرہوا۔


(المواھب اللدنیة جزء 4 صفحہ 547،المکتب الاسلامی 2004ء)


دونوں ہی ظاہر ہوئے۔ بہادری بھی ظاہر ہوئی کہ صدمہ کو برداشت کیا اور قرآن کریم کی آیت کی جو تشریح کی اس سے علم بھی ظاہر ہوا۔حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ ’’کتبِ احادیث اور تواریخ میں یہ روایت درج ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا صحابہؓ پر اس قدر اثر ہوا کہ وہ گھبرا گئے اور بعض سے تو بولا بھی نہ جاتا تھا اور بعض سے چلا بھی نہ جاتا تھا اور بعض اپنے حواس اور اپنی عقل کو قابو میں نہ رکھ سکے اور بعض پر تو اس صدمہ کا ایسا اثر ہوا کہ وہ چند دن میں گھل گھل کر فوت ہو گئے۔ حضرت عمرؓ پر اس صدمہ کا اس قدر اثر ہوا کہ آپؓ نے حضورؐ کی وفات کی خبر کو باور ہی نہ کیا اور تلوار لے کر کھڑے ہو گئے اور کہا کہ اگر کوئی شخص یہ کہے گا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو گئے ہیں تو میں اسے قتل کر دوں گا۔ آپؐ تو موسیٰ علیہ السلام کی طرح بلائے گئے ہیں۔ جس طرح وہ چالیس دن کے بعد واپس آ گئے تھے اسی طرح آپؐ کچھ عرصہ کے بعد واپس تشریف لائیں گے اور جو لوگ آپؐ پر الزام لگانے والے ہیں اور منافق ہیں ان کو قتل کریں گے اور صلیب دیں گے اور اس قدر جوش سے آپؓ اس دعوے پر مصر تھے کہ صحابہؓ میں سے کسی کو طاقت نہ ہوئی کہ آپؓ کی بات کو ردّ کرتا۔ اور آپؓ‘‘ حضرت عمرؓ ’’کے اس جوش کو دیکھ کر بعض لوگوں کو تو یقین ہو گیا کہ یہی بات درست ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فوت نہیں ہوئے اور ان کے چہروں پر خوشی کے آثار ظاہر ہونے لگے۔ اور یا تو سر ڈالے بیٹھے تھے یا خوشی سے انہوں نے سر اٹھا لئے۔ اس حالت کو دیکھ کر بعض دور اندیش صحابہؓ نے ایک صحابی کو دوڑایا کہ وہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو جو اس وجہ سے کہ درمیان میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طبیعت کچھ اچھی ہو گئی تھی آپؐ کی اجازت سے مدینہ کے پاس ہی ایک گاؤں کی طرف گئے ہوئے تھے جلد لے آئیں‘‘ واپس بلا لائیں۔ بہرحال ’’وہ چلے ہی تھے کہ حضرت ابوبکرؓ ان کو مل گئے۔‘‘ واپس آ رہے تھے ’’ان کو دیکھتے ہی ان کی آنکھوں سے آنسوجاری ہو گئے‘‘ ان صحابی کے جو اطلاع دینے جا رہے تھے ’’اور جوش گریہ کو ضبط نہ کر سکے۔ حضرت ابوبکرؓ سمجھ گئے کہ کیا معاملہ ہے اور ان صحابی سے پوچھا کہ کیا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو گئے ہیں؟ انہوں نے جواب دیا کہ حضرت عمرؓ کہتے ہیں کہ جو شخص کہے گا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو گئے ہیں مَیں اس کی گردن تلوار سے اڑا دوں گا۔ اس پر آپؓ‘‘حضرت ابوبکرؓ ’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر تشریف لے گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم مبارک پر جو چادر پڑی تھی اسے ہٹا کر دیکھا اور معلوم کیا کہ آپؐ فی الواقعہ فوت ہو چکے ہیں۔ اپنے محبوب کی جدائی کے صدمے سے ان کے آنسو جاری ہو گئے اور نیچے جھک کر آپؐ کی پیشانی پر‘‘ حضرت ابوبکرؓ نے ’’بوسہ دیا اور کہا کہ بخدا اللہ تعالیٰ تجھ پر دو موتیں جمع نہیں کرے گا۔ تیری موت سے دنیا کو وہ نقصان پہنچا ہے جو کسی نبی کی موت سے نہیں پہنچا تھا۔ تیری ذات صفت سے بالا ہے اور تیری شان وہ ہے کہ کوئی ماتم تیری جدائی کے صدمے کو کم نہیں کر سکتا۔ اگر تیری موت کا روکنا ہماری طاقت میں ہوتا تو ہم سب اپنی جانیں دے کر تیری موت کو روک دیتے۔


یہ کہہ کر کپڑا پھر آپؐ کے اوپر ڈال دیا اور اس جگہ کی طرف آئے جہاں حضرت عمرؓ صحابہؓ کا حلقہ بنائے بیٹھے تھے اور ان سے کہہ رہے تھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فوت نہیں ہوئے بلکہ زندہ ہیں۔ وہاں آکر آپؓ نے حضرت عمرؓ سے کہا کہ آپؓ ذرا چپ ہو جائیں مگر انہوں نے ان کی بات نہ مانی اور اپنی بات کرتے رہے۔ اس پر حضرت ابوبکرؓ نے ایک طرف ہو کر لوگوں سے کہنا شروع کیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم درحقیقت فوت ہو چکے ہیں۔ صحابہ کرامؓ حضرت عمرؓ کو چھوڑ کر آپؓ کے گرد جمع ہو گئے اور بالآخر حضرت عمرؓ کو بھی آپؓ کی بات سننی پڑی۔ آپؓ‘‘ حضرت ابوبکرؓ ’’نے فرمایا‘‘ جس طرح پہلے ذکر ہو چکا ہے کہ ’’وَمَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوۡلٌ ۚ قَدۡ خَلَتۡ مِنۡ قَبۡلِہِ الرُّسُلُ ؕ اَفَا۠ئِنۡ مَّاتَ اَوۡ قُتِلَ انۡقَلَبۡتُمۡ عَلٰۤی اَعۡقَابِکُمۡ ؕ ۔ اِنَّکَ مَیِّتٌ وَاِنَّھُمْ مَّیِّتُوْنَ ۔ یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ مَنْ کَانَ یَعْبُدُ مُحَّمَدًا فَاِنَّ مُحَّمَدًا قَدْ مَاتَ وَ مَنْ کَانَ یَعْبُدُ اللّٰہَ فَاِنَّ اللّٰہَ حَیٌّ لَا یَمُوْتُ۔یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم بھی ایک رسول ہیں آپؐ سے پہلے سب رسول فوت ہو چکے ہیں پھر اگر آپؐ فوت ہو جائیں یا قتل ہو جائیں تو کیا تم لوگ اپنی ایڑیوں کے بل پھر جاؤ گے۔ تحقیق تُو بھی فوت ہو جائے گا اور یہ لوگ بھی فوت ہو جائیں گے۔ اے لوگو! جو کوئی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی پرستش کرتا تھا وہ سن لے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو گئے اور جو کوئی اللہ کی عبادت کرتا تھا اسے یاد رہے کہ اللہ زندہ ہے اور وہ فوت نہیں ہوتا۔ جب آپؓ‘‘ حضرت ابوبکرؓ ’’نے مذکورہ بالا دونوں آیات پڑھیں اور لوگوں کو بتایا کہ رسول اللہ فوت ہو چکے ہیں تو صحابہؓ پر حقیقت آشکار ہوئی اور وہ بے اختیار رونے لگے اور حضرت عمرؓخود بیان فرماتے ہیں کہ جب آیات قرآنیہ سے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے آپؐ کی وفات ثابت کی تو مجھے یہ معلوم ہوا کہ گویا یہ دونوں آیتیں آج ہی نازل ہوئی ہیں اور میرے گھٹنوں میں میرے سر کو اٹھانے کی طاقت نہ رہی۔ میرے قدم لڑکھڑائے اور میں بے اختیار شدت صدمہ سے زمین پر گر پڑا۔‘‘


(دعوۃ الامیر ، انوار العلوم جلد 7صفحہ345 تا 347)


اسی حوالے سے مسلمانوں کا جو پہلا اجماع


ہے اس کے بارے میں حضرت مصلح موعودؓ بیان فرماتے ہیں کہ ’’رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے تمام انبیاء فوت ہو چکے ہیں جن میں مسیح بھی شامل ہیں۔ چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پر جب مسلمان گھبرا گئے اور یہ صدمہ ان کے لیے ناقابلِ برداشت ہو گیا تو حضرت عمرؓ نے اسی گھبراہٹ میں تلوار کھینچ لی اور کہا کہ اگر کوئی شخص یہ کہے گا کہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم وفات پا گئے ہیں تو میں اس کی گردن کاٹ دوں گا۔ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم فوت نہیں ہوئے بلکہ حضرت موسیٰ کی طرح خدا سے ملنے گئے ہیں اور پھر واپس آئیں گے اور منافقوں کو ختم کریں گے پھر وفات پائیں گے۔گویا ان کا یہ عقیدہ تھا کہ منافق جب تک ختم نہ ہوں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فوت نہیں ہو سکتے اور چونکہ منافق آپؐ کی وفات تک موجود تھے اِس لیے وہ سمجھے کہ آپ فوت نہیں ہوئے ہیں۔ حضرت ابوبکرؓ جو اس وقت مدینہ کے پاس باہر ایک گاؤں میں گئے ہوئے تھے تشریف لائے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر گئے۔ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا جسم مبارک دیکھا۔ معلوم کیا کہ آپؐ واقع میں وفات پا چکے ہیں۔ اِس پر پھر آپؓ واپس باہر تشریف لائے اور یہ کہتے ہوئے آئے کہ اللہ تعالیٰ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دو موتیں نہیں دے گا۔ یعنی ایک موت جسمانی اور دوسری موت روحانی کہ آپؐ کی وفات کے ساتھ ہی مسلمان بگڑ جائیں۔ پھر آپؓ سیدھے صحابہ کے اجتماع میں گئے اور لوگوں سے کہا کہ میں کچھ کہنا چاہتا ہوں۔ حضرت عمرؓ تلوار لیے کھڑے تھے اور یہ اِرادہ کر کے کھڑے تھے کہ اگر کسی نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا اعلان کیا تو میں اس کو قتل کر دوں گا۔ حضرت ابوبکرؓ کھڑے ہوئے اور انہوں نے لوگوں کو وہی بات کی کہ مَنْ كَانَ مِنْكُمْ يَعْبُدُ مُحَمَّدًا فَإِنَّ مُحَمَّدًا قَدْ مَاتَ، وَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ يَعْبُدُ اللّٰهَ فَإِنَّ اللّٰهَ حَيٌّ لَا يَمُوْتُ۔ کہ جو شخص محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کرتا تھا وہ سن لے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو چکے ہیں اور جو کوئی شخص اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتا تھا وہ خوش ہو جائے کہ اللہ تعالیٰ زندہ ہے اور کبھی فوت نہیں ہو گا۔
پھر آپؓ نے قرآن کریم کی یہ آیت پڑھی جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکا ہے کہ وَ مَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوْلٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ اَفَائِنْ مَّاتَ اَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلٰى اَعْقَابِكُمْ۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے رسول تھے اور آپ سے پہلے جتنے بھی رسول گزرے ہیں سب فوت ہو چکے ہیں۔ پھر آپؐ کیوں نہ فوت ہوں گے۔ اگر آپؐ فوت ہو جائیں یا قتل کیے جائیں تو کیا تم اپنی ایڑیوں کے بل پھر جاؤ گے اور اسلام کو چھوڑ دو گے۔ حضرت عمرؓ فرماتے ہیں کہ جب قرآنِ کریم کی یہ آیت حضرت ابو بکر صدیقؓ نے پڑھی تو میری آنکھیں کھل گئیں اور مجھے یوں معلوم ہوا کہ یہ آیت ابھی نازل ہوئی ہے اور مجھ پر ظاہر ہو گیا کہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو گئے ہیں اور میرے پاؤں کانپ گئے اور میں زمین پر گِر گیا۔ یہ بیان کر کے حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ یہ ایک ہی اجماع صحابہ کا ہے کیونکہ اس وقت سارے صحابہ موجود تھے اور درحقیقت ایسا وقت مسلمانوں پر پہلے کبھی نہیں آیا کیونکہ پھر کبھی مسلمان اِس طرح جمع نہیں ہوئے۔ اِس اجتماع میں حضرت ابوبکرؓ نے یہ آیت پڑھی کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صرف اللہ تعالیٰ کے ایک رسول ہیں اور آپؐ سے پہلے جس قدر اللہ تعالیٰ کے رسول آئے ہیں وہ سب کے سب فوت ہو چکے ہیں۔ پس آپؐ کا فوت ہونا بھی کوئی قابلِ تعجب بات نہیں اور سارے کے سارے صحابہ نے آپ کے ساتھ اتفاق کیا۔


(ماخوذ از مسئلہ وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ، انوار العلوم جلد23 صفحہ 327-328)


حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام بھی حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حوالے سے اسی بات کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ


’’حضرت ابو بکرصدیق رضی اللہ عنہ کا اس امت پر اتنا بڑا احسان ہے کہ اس کا شکر نہیں ہو سکتا۔


اگر وہ تمام صحابہ رضی اللہ عنہم کو مسجد نبوی میں اکٹھے کر کے یہ آیت نہ سناتے کہ تمام گزشتہ نبی فوت ہو چکے ہیں تو یہ امت ہلاک ہو جاتی کیونکہ ایسی صورت میں اس زمانے کے مفسد علماء یہی کہتے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کا بھی یہی مذہب تھا کہ حضرت عیسیٰ زندہ ہیں مگر اب صدیق اکبر کی آیت ممدوحہ پیش کرنے سے اس بات پر کُل صحابہ کا اجماع ہو چکا کہ کل گزشتہ نبی فوت ہو چکے ہیں بلکہ اس اجماع پر شعر بنائے گئے۔ ابو بکر کی روح پر خدا تعالیٰ ہزاروں رحمتوں کی بارش کرے اس نے تمام روحوں کو ہلاکت سے بچالیا اور اس اِجماع میں تمام صحابہ شریک تھے۔ ایک فرد بھی ان میں سے باہر نہ تھا۔ اور یہ صحابہ کا پہلا اجماع تھا اور نہایت قابل شکر کارروائی تھی۔ اور ابو بکر رضی اللہ عنہ اور مسیح موعود کی باہم ایک مشابہت ہے اور وہ یہ کہ خدا تعالیٰ کا وعدہ قرآن شریف میں دونوں کی نسبت یہ تھا کہ جب ایک خوف کی حالت اسلام پر طاری ہو گی اور سلسلہ مرتد ہونے کا شروع ہو گا تب ان کا ظہور ہو گا سو حضرت ابوبکر اور مسیح موعود کے وقت میں ایسا ہی ہوا۔ یعنی حضرت ابو بکرکے وقت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی وفات کے بعد صدہا جاہل عرب مرتد ہو گئے تھے۔ اور صرف دو مسجدیں باقی تھیں جن میں نماز پڑھی جاتی تھی۔ حضرت ابو بکر نے دوبارہ ان کو اسلام پر قائم کیا ایسا ہی مسیح موعود کے وقت میں کئی لاکھ انسان اسلام سے مرتد ہو کر عیسائی بن گئے اور یہ دونوں حالات قرآن شریف میں مذکور ہیں یعنی پیشگوئی کے طور پر ان کا ذکر ہے۔‘‘


(ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 285-286حاشیہ)


حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت


کے بارے میں آتا ہے کہ جب صحابہ کرام کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا علم ہو گیاتو انصار سقیفہ بنی سَاعِدَہ میںجمع ہوئے۔ اس اجتماع میں مسئلہ خلافت پرگفتگو ہوئی۔ انصار خزرج کے راہنما سعد بن عُبادہ کے گرد جمع ہو گئے۔


(سیدنا ابوبکرصدیق ؓشخصیت اور کارنامے از علی محمد صلابی صفحہ 174)


حضرت سعد بن عُبادہؓ ان دنوں علیل تھے۔ انہوں نے انصار کی قربانیوں اور خدمت اسلام کا تفصیلی تذکرہ کرتے ہوئے انہیں خلافت کا حق دار قرار دیا مگر انصار نے حضرت سعد بن عبادہؓ کو ہی خلافت کے لیے موزوں قرار دے دیا مگر ابھی انصار نے ان کی بیعت بھی نہ کی تھی کہ ان میں سے ہی کسی نے یہ سوال کر دیا کہ اگر مہاجرین نے ان کی خلافت کو تسلیم نہ کیا تو کیا ہو گا؟ اس پر ایک آدمی نے تجویز دی کہ ایک آدمی انصار میں سے اور ایک آدمی مہاجرین میں سے خلیفہ ہو مگر حضرت سعد بن عبادہ نے اسے بنو اوس کی کمزوری قرار دیا ۔ جب انصار سقیفہ بنو ساعدہ میں خلافت کے متعلق بحث کر رہے تھے حضرت عمر بن خطابؓ ، حضرت ابوعبیدہ بن جراحؓ اور دوسرے بڑے بڑے صحابہ کرام مسجد نبوی میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے سانحہ عظیم کے بارے میں ذکر کر رہے تھے۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ حضرت علیؓ اور دوسرے اہلِ بیت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تجہیز و تکفین کے انتظامات میں مصروف تھے۔ کسی کو خلافت کے بارے میں ہوش نہ تھا اور اس بات سے بے خبر تھے کہ انصار اس مسئلہ پر غور کرنے کے لیے جمع ہو چکے ہیں اور انصار میں سے کسی کو امیر چننا چاہتے ہیں۔


(صدیق اکبر، محمد حسین ہیکل، مترجم انجم سلطان شہباز، صفحہ85،86، شرکت پرنٹنگ پریس لاہور)


طبقاتِ کبریٰ میں لکھا ہے کہ حضرت عمرؓ حضرت ابوعبیدہ بن جراحؓ کے پاس تشریف لائے اور کہا کہ اپنا ہاتھ بڑھائیں تا کہ میں آپؓ کی بیعت کروں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے آپؓ کو اس امت کا امین قرار دیا گیا ہے۔ اس پر حضرت ابوعبیدہؓ نے حضرت عمرؓ سے کہا جب سے آپؓ نے اسلام قبول کیا ہے میں نے اس سے پہلے کبھی آپ میں ایسی غفلت والی بات نہیں دیکھی۔ کیا تم میری بیعت کرو گے جبکہ تم میں صدیق اور ثانی اثنین یعنی حضرت ابوبکرؓ موجود ہیں۔


(الطبقات الکبریٰ جلد3صفحہ 135،ذکر بیعت ابی بکر، دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان 1990ء)


اسی گفتگو کے دوران انہیں اجتماع انصار کی اطلاع ملی۔ اس پر حضرت عمرؓ نے حضرت ابوبکر صدیقؓ کو اندر پیغام بھیج کر بلایا کہ ایک ضروری کام ہے۔ حضرت ابوبکرؓ نے تجہیز و تکفین کی مصروفیت کا عذر کر کے باہر آنے سے انکار کر دیا۔ اس پر حضرت عمرؓ نے دوبارہ پیغام بھیجا۔ ایک ایسی فوری بات پیش آئی ہے کہ آپؓ کی موجودگی وہاں ضروری ہے جس پر حضرت ابوبکرؓ باہر تشریف لائے اور حضرت عمرؓ سے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تجہیز و تکفین سے اس وقت اَور کون سا اہم کام ہے جس کے لیے تم نے مجھے بلایا ہے؟ حضرت عمرؓ نے کہا آپؓ کو پتہ ہے کہ انصار سقیفہ بنو ساعدہ میں جمع ہیں اور ارادہ کر رہے ہیں کہ حضرت سعد بن عُبادہؓ کو خلیفہ بنا دیں؟ ان میں سے ایک شخص نے یہ کہا کہ ایک امیر ہم میں سے ہو اور ایک امیر قریش میں سے ۔ یہ سنتے ہی حضرت ابوبکر صدیقؓ، حضرت عمرؓ اور حضرت ابوعبیدہؓ کے ہمراہ سقیفہ بنو ساعدہ پہنچے۔ وہاں ابھی بحث جاری تھی۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ، حضرت عمرؓ اور حضرت ابوعبیدہؓ ان کے درمیان جا کر بیٹھ گئے۔


(حضرت سیدنا ابو بکر صدیقؓ از محمد حسین ہیکل صفحہ87،86 شرکت پرنٹنگ پریس لاہور)


(سیدنا صدیق اکبر ؓ ازالحاج حکیم غلام نبی صفحہ72-73 مطبوعہ ادبیات لاہور)


ایک روایت میں ہے کہ حضرت عمرؓ فرماتے ہیں کہ ہم انصار کی طرف چل پڑے جب ہم ان سے قریب پہنچے ان میں سے دو صالح آدمیوں عُوَیْم بن سَاعِدہ اور مَعْن بنِ عَدیسے ملاقات ہوئی۔ ان دونوں نے انصار کے عزائم سے ان کو مطلع کیا۔ پھر سوال کیا۔ آپ لوگ کہاں جا رہے ہیں؟ انہوں نے کہا ہم اپنے انصاری بھائیوں کے پاس جا رہے ہیں۔ ان دونوں نے کہا ان کے پاس جانا ضروری نہیں آپ لوگ خود معاملہ طے کر لیں۔ کہتے ہیں میں نے کہا اللہ کی قسم! ہم ضرور ان کے پاس جائیں گے ۔


(ماخوذ از صحیح بخاری کتاب الحدود باب رجم الحبلی من الزنا… حدیث6830)


(صحیح بخاری کتاب المغازی حدیث:4021)


بہرحال وہ گئے۔ حضرت عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ ہم انصار کے پاس پہنچے۔ میں نے اپنے دل میں کچھ کہنے کے لیے ایک مضمون سوچا تھا کہ انصار کے سامنے اسے بیان کروں گا۔ پس جب میں ان کے پاس پہنچا اور بات شروع کرنے کے لیے آگے بڑھا مگر حضرت ابوبکرؓ نے مجھ سے کہا ٹھہر جاؤ یہاں تک کہ میں بات کر لوں۔ اس کے بعد جو تمہارا جی چاہے بیان کرنا۔ پھر حضرت ابوبکرؓ نے بولنا شروع کیا اور جو بات میں کہنا چاہتا تھا وہ حضرت ابوبکرؓ نے بیان کر دی بلکہ اس سے بھی زیادہ آپؓ نے کہہ دیا۔


(تاریخ الطبری جلد2 صفحہ 242، دارالکتب العلمیۃ بیروت، 1987ء)


حضرت ابوبکرؓ نے جو تقریر کی


تھی اس کا مختصر ذکر یہ ہے۔ عبداللہ بن عبدالرحمٰن بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابوبکرؓ نے تقریر شروع کی۔ اللہ کی حمد و ثنا کے بعد کہا یقیناً اللہ نے اپنی مخلوق کی طرف محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو رسول اور اپنی امت کا نگران بنا کر بھیجا تا کہ وہ اللہ کی عبادت کریں اور اس کی توحید کا اقرار کریں حالانکہ اس سے پہلے وہ اللہ کے سوا مختلف معبودوں کی عبادت کرتے تھے اور کہتے تھے کہ یہ معبود اللہ کے حضور ان کی شفاعت کرنے والے اور نفع پہنچانے والے ہیں حالانکہ وہ پتھر سے تراشے گئے تھے اور لکڑی سے بنائے جاتے تھے۔ پھر حضرت ابوبکرؓ نے یہ آیت پڑھی کہ وَيَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ مَا لَا يَضُرُّهُمْ وَلَا يَنْفَعُهُمْ وَيَقُوْلُوْنَ هٰٓؤُلَآءِ شُفَعَآؤُنَا عِنْدَ اللّٰهِ (يونس: 19) اور وہ اللہ کے سوا اس کی عبادت کرتے ہیں جو نہ انہیں نقصان پہنچا سکتا ہے اور نہ نفع پہنچا سکتا ہے اور وہ کہتے ہیں کہ یہ سب اللہ کے حضور ہماری شفاعت کرنے والے ہیں۔ مَا نَعْبُدُهُمْ إِلَّا لِيُقَرِّبُوْنَآ اِلَى اللّٰهِ زُلْفٰى (الزمر: 4)کہ ہم اس مقصد کے سوا ان کی عبادت نہیں کرتے کہ وہ ہمیں اللہ کے قریب کرتے ہوئے قرب کے اونچے مقام تک پہنچا دیں۔ عربوں کو یہ بات گراں گزری کہ وہ اپنے آباؤاجداد کے دین کو ترک کر دیں۔ حضرت ابوبکرؓ نے یہ آیتیں پڑھ کے فرمایا کہ عربوں کو یہ بات گراں گزری کہ وہ اپنے آباءواجداد کے دین کو تر ک کر دیں۔ پس اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قوم میں سے اولین مہاجرین کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق کے لیے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کے لیے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی غمگساری کے لیے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنی قوم کی سخت ایذا رسانی اور تکذیب کے وقت ڈٹے رہنے کے لیے خاص کر لیا۔ حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا: حالانکہ تمام لوگ ان کے مخالف تھے اور ان پر ظلم کرتے تھے مگر باوجود اپنی کم تعداد کے اور تمام لوگوں کے ظلم اور اپنی قوم کے ان کے خلاف اکٹھے ہو جانے کے وہ کبھی خوفزدہ نہیں ہوئے۔ اور وہ پہلے تھے جنہوں نے زمین میں اللہ کی عبادت کی اور اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے۔ اور وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دوست اور خاندان والے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد لوگوں میں سے اس منصب کے سب سے زیادہ حق دار ہیں۔ اس معاملہ میں سوائے ظالم کے اور کوئی ان سے تنازعہ نہیں کرے گا۔ اے انصار کے گروہ! اور تم وہ ہو جن کی دین میں فضیلت اور اسلام میں سبقت لے جانے کے متعلق انکار نہیں کیا جا سکتا۔ اللہ کے دین اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مددگار بننے کی وجہ سے اللہ تم سے راضی ہو گیا اور اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت بھی تمہاری طرف ہی رکھی۔ آپؐ کی اکثر ازواج اور اصحاب تمہارے یہاں رہتے ہیں۔ مہاجرین اولین کے بعد ہمارے نزدیک تمہارے مرتبہ کا کوئی بھی نہیں۔


امیر ہم میں ہوں گے اور تم وزیر۔


ہر اہم معاملے میں تم سے مشورہ لیا جائے گا اور تمہارے بغیر اہم معاملات کے متعلق فیصلہ نہیں کریں گے۔


(تاریخ الطبری جلد2 صفحہ243،242 دارالکتب العلمیۃ بیروت، 1987ء)


حضرت ابوبکرؓ نے سقیفہ بنو سَاعِدہ میں جو تقریر کی تھی سیرت حلبیہ میں اس کا ذکر اس طرح ملتا ہے آپ نے فرمایا۔ اَمَّا بَعْدُ! جہاں تک خلافت کا معاملہ ہے تو عرب کے لوگ اس کو سوائے قریش کے کسی دوسرے قبیلے کے لیے قبول نہیں کریں گے۔قریش کے لوگ اپنے حسب و نسب کے اعتبار سے اور اپنے وطن کے اعتبار سے جو مکہ ہے سب سے افضل اور اعلیٰ ہیں۔ ہم نسب میں تمام عربوں سے جڑے ہوئے ہیں کیونکہ کوئی بھی قبیلہ ایسا نہیں جو کسی نہ کسی طرح قریش سے رشتہ قرابت نہ رکھتا ہو۔ ہم مہاجرین وہ لوگ ہیں جنہوں نے سب سے پہلے اسلام قبول کیا۔ ہم ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی برادری اور خاندان کے لوگ اور آپ کے رِحمی رشتہ دار ہیں۔ ہم اہل نبوت ہیں اور خلافت کے حق دار ہیں۔


(السیرۃ الحلبیہ جلد 3 صفحہ 504-505، باب مایذکر فیہ مدۃ مرضہ، وما وقع فیہ، وفاتہﷺ، دارالکتب العلمیة بیروت 2002ء)


انہی واقعات کا ذکر کرتے ہوئے امام احمد بن حنبل نے اپنی مُسْنَد میں حضرت ابوبکرؓ کا کردار بیان کیا ہے اور یہ بیان کرنے کے بعد کہ حضرت ابوبکرؓ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پر آ کر مسلمانوں میں تقریر کی اور آپؐ کی وفات کا اعلان کیا۔ پھر بیان ہوا ہے راوی کہتے ہیں کہ اس کے بعد (تقریر کرنے کے بعد اور وفات کا اعلان کرنے کے بعد) حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما تیزی کے ساتھ سقیفہ بنو ساعدہ کی طرف روانہ ہوئے یہاں تک کہ ان کے پاس پہنچے تو حضرت ابوبکرؓ نے گفتگو شروع کی اور آپؓ نے قرآن کریم میں انصار کی بابت جو کچھ نازل ہوا اس میں سے کچھ نہ چھوڑا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار کی فضیلت کے بارے میں جو کچھ فرمایا تھا وہ سب بیان کیا۔ پھر حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا۔ تم لوگوں کو علم ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ اگر لوگ ایک وادی میں چلیں اور انصار دوسری وادی میں تو مَیں انصار کی وادی میں چلوں گا۔


پھر حضرت سعدؓ کو مخاطب کر کے حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا کہ اے سعد! تجھے علم ہے کہ تُو بیٹھا ہوا تھا جب


رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ خلافت کے حق دار قریش ہوں گے۔


لوگوں میں سے جو نیک ہوں گے وہ قریش کے نیک افراد کے تابع ہوں گے اور جو فاجر ہوں گے وہ قریش کے فاجروں کے تابع ہوں گے۔ حضرت سعدؓ نے کہا کہ آپؓ نے سچ کہا۔ ہم وزیر ہیں اور آپ لوگ امراء ہیں۔


(مسند احمد بن حنبل، مسند ابی بکر، حدیث نمبر 18، جلد 1 صفحہ 159،158۔ دار الحدیث قاھرہ 1994ء)


یہ ذکر ان شاء اللہ آئندہ چلتا رہے گا۔


دنیا کے جو موجودہ حالات ہیں اس بارے میں بھی دعا کے لیے کہنا چاہتا ہوں۔


یہ انتہائی خطرناک ہو چکے ہیں اور ہو سکتے ہیں، بڑھتے جا رہے ہیں۔ صرف ایک ملک نہیں بلکہ بہت سے ممالک اس میں شامل ہو جائیں گے اگر یہ اسی طرح بڑھتا رہا اور پھر اس کے خوفناک انجام کا اثر نسلوں تک رہے گا۔


خدا کرے کہ یہ لوگ خدا تعالیٰ کو پہچاننے والے ہوں اور

اپنی دنیاوی خواہشات کی تسکین کے لیے انسانوں کی جانوں سے نہ کھیلیں۔


بہرحال ہم تو دعا کر سکتے ہیں اور کرتے ہیں ،سمجھا سکتے ہیں اور سمجھاتے ہیں اور ایک عرصے سے ہم یہ کام کر رہے ہیں لیکن بہرحال


ان دنوں میں خاص طور پر احمدیوں کو بہت دعا کرنی چاہیے۔


اللہ تعالیٰ جنگ کے جو خوفناک حالات ہیں اور یہ جو تباہ کاریاں ہیں جن کا تصور بھی انسان نہیں کر سکتا کہ ایسی تباہ کاریاں ہو سکتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان سے انسانیت کو بچا کے رکھے۔


نماز کے بعد میں ایک


جنازہ غائب


بھی پڑھاؤں گا جو


مکرم خوشی محمد شاکر صاحب مربی سلسلہ


کا ہے۔ گذشتہ دنوں انہتر69 سال کی عمر میں ان کی وفات ہوئی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔
اللہ تعالیٰ کے فضل سے موصی تھے۔ ان کے خاندان میں احمدیت کا نفوذ ان کے دادا حضرت مولوی کریم بخش صاحبؓ صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ سے ہوا۔ انہوں نے طاعون کا نشان دیکھ کر بیعت کی تھی۔ اسی طرح حضرت مولوی کریم بخش صاحب ؓکی اہلیہ فضل بی بی صاحبہ کے بھائی حضرت حاجی محمد عبداللہ صاحبؓ نے بھی حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھ پر بیعت کی سعادت حاصل کی تھی۔ حضرت حاجی محمد عبداللہ صاحب ؓکا نام تاریخ احمدیت جلد ہشتم میں صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی فہرست میں تیئیسویں نمبر پر درج ہے۔


(ضمیمہ تاریخ احمدیت جلد ہشتم صفحہ 11)


بہرحال خوشی محمد شاکر صاحب کا جہاں تک ذکر ہے۔ 1969ء میں انہوں نے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ پھر زندگی وقف کی۔ جامعہ احمدیہ میں داخل ہوئے۔ 1977ء میں جامعہ سے شاہد کی ڈگری حاصل کی۔ 1978ء میں عربی فاضل کا امتحان پاس کیا۔ پھر جماعتی خدمات کرتے رہے۔ ساتھ ہی انہوں نے 1987ء میں ایم اے اسلامیات کی ڈگری بھی حاصل کی اور علاوہ پاکستان کے مختلف شہروں کےگنی کناکری میں بطور مبلغ سلسلہ انہوں نے خدمت کی توفیق پائی۔ وہاں فرنچ زبان میں ڈپلومہ بھی انہوں نے حاصل کیا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو چھ بیٹوں سے نوازا۔ ان کے ایک بیٹے ناصر اسلام صاحب مربی سلسلہ ہیں۔ ربوہ میں ہی اس وقت تعینات ہیں۔
77ء سے 91ء تک پاکستان کے مختلف علاقوں میں ان کو خدمت کی توفیق ملی اور 91ء سے 2007ء تک سیرالیون اور گنی کناکری میں خدمت کی توفیق پائی۔ وہاں سے واپس آئے تو 2008ء سے انجمن کے دفاتر کے مختلف شعبہ جات میں کام کرنے کی توفیق ملی۔ ایڈیشنل نظارت اصلاح و ارشاد مقامی اور نظارت امور عامہ میں خدمت کی توفیق ملی۔ یہ افریقہ میں جب تھے تو ان کے ذریعہ سے کئی سعید روحوں کو احمدیت میں داخل ہونے کی توفیق ملی۔ کئی جماعتیں قائم ہوئیں۔ بڑے بے نفس اور محنت کرنے والے مبلغ تھے۔ ان کے تبلیغ کے میدان کے بڑے ایمان افروز واقعات بھی ہیں جو مختلف لوگوں نے بیان کیے ہیں کہ کس طرح اللہ تعالیٰ ان کی مدد فرماتا تھا۔ ان کو جولائی 1986ء میں کلمہ طیبہ کے کیس میں اسیرِراہ مولیٰ رہنے کی بھی سعادت حاصل ہوئی۔


ان کی اہلیہ لکھتی ہیں کہ میری ساری زندگی اس بات کی گواہ ہے کہ انہوں نے آج تک نہ نماز چھوڑی اور نہ ہی کبھی تہجد ۔ جماعتی دورے سے واپس آتے، تھکاوٹ کے باوجود بھی نماز لازمی ادا کرتے، باجماعت ادا کرنے کی کوشش کرتے۔ شدید بیماری کے باوجود یہاں تک کہ چلنا مشکل ہوتا مگر باجماعت نماز کے لیے لازمی جاتے۔ بےشمار خوبیوں کے مالک تھے۔ حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی میں ہمہ تن مشغول تھے۔ تقویٰ کی باریک راہوں پر چلنے والے، خلافت سے والہانہ عشق، اطاعت گزار، عاجزی انکساری، مربیان اور جماعتی عہدیداران کا احترام، بچوں سے شفقت، سخاوت، اقربا اور غرباپروری، ملنسار، تبلیغ کا خاص شوق رکھنے والے تھے۔ بیماری کے آخری ایام میں بھی جب طبیعت زیادہ خراب ہو گئی تو تین دن تین رات تک ان کو ایمرجنسی میں لے جایا جاتا رہا۔ جب بھی واپس گھر آتے تو پھر بھی آ کے گھر میں تہجد کی نماز کبھی نہیں چھوڑتے تھے اور ایک دن تو ہسپتال سے آئے بیمار طبیعت تھی، فجر کی نماز پڑھی اور پھر تیار ہو کے دفتر بھی چلے گئے۔ بہرحال جب ان کو روکا جاتا تھا تو کہتے یہی ایک وقف زندگی کا کام ہے اور میرے کام سے مجھے نہ روکو۔


ان کے بیٹے ناصر اسلام مربی سلسلہ ہیں۔ کہتے ہیں جب سے ہم نے ہوش سنبھالا ہے والد کو تہجد گزار ہی دیکھا ہے اور اطاعت کے اعلیٰ مقام پر پایا ہے۔ کوئی بھی جماعتی عہدیدار ہوتا خواہ چھوٹا ہو یا بڑا اس کی اطاعت کرتے ۔ روزانہ صدقہ دینا اور خیرات کرنا معمولِ زندگی تھا۔ روز کا کام روز کرتے۔ بہت ملنسار تھے۔ تبلیغ کا بے انتہا شوق تھا۔ کہتے ہیں خاکسار نے اپنے والد کو نماز پر جاتے ہوئے، واپسی پر یا صبح کی سیر پر سفر کے دوران افریقہ میں یا کسی ہوٹل میں بیٹھے ہوئے ہیں تو وہاں کھانا کھاتے وقت یا انتظار گاہ میں، ویٹنگ روم میں اگر کہیں بیٹھے ہیں تو وہاں انتظار کرتے وقت پولیس افسر ہوں یا ملٹری کے افسر ہوں جن کو بھی ملتے ان کو تبلیغ کرتے اور کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتے اور کہیں کوئی شخص نظر آ جاتا تو ہم کہا کرتے تھے اب یہ آدمی ہمارے ابا کو نظر آ گیا ہے اب ان سے جان نہیں چھڑوا سکتا اس کو تبلیغ کر کے ہی چھوڑیں گے۔


پھر ان کے ایک بیٹے کہتے ہیں کہ والد صاحب نے بتایا کہ افریقہ میں تبلیغ کے حوالے سے کافی مسائل سامنے آ رہے تھے۔ کافی دعائیں کیں، تہجد پڑھی تو سجدے میں آواز آئی:’’ میری سرشت میں ناکامی کا خمیر نہیں ہے۔‘‘ کہتے ہیں اس کے بعد اگلے دن جو روک تبلیغ کے حوالے سے تھی وہ دور ہو گئی۔ بہرحال ان کے بارے میں بہت سے لوگوں نے واقعات لکھے ہیں اور ہر ایک نے یہی لکھا ہے کہ ملنسار تھے، عاجز تھے، دعا گو تھے، خلافت سے پختہ تعلق تھا اور اللہ تعالیٰ پر کامل توکل کرنے والے انسان تھے۔ اللہ تعالیٰ ان سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔ درجات بلند کرے۔ ان کی اولاد کو بھی ان کی نیکیاں جاری رکھنے کی توفیق دے۔

(الفضل انٹرنیشنل 18تا24 مارچ 2022ءصفحہ 5تا10)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button