سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام

احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح

(’اے ولیم‘)

دیگرجدّی رشتہ دار

(حصہ دوم)

عمرالنساء /عمربی بی صاحبہ

آپؑ کے چچا محترم غلام محی الدین صاحب کی دوسری بیٹیوں میں سے عمرالنساء اور صفتاں یہ توام Twins پیداہوئی تھیں۔

عمرالنساء صاحبہ /عمر بی بی صاحبہ کی شادی مرزااحمدبیگ صاحب ہوشیارپوری کے ساتھ ہوئی تھی۔ جو محمدی بیگم صاحبہ کے والد تھے۔ یعنی یہ محمدی بیگم صاحبہ کی والدہ تھیں۔ اور اسی رشتہ سے حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ الصلوٰة والسلام محمدی بیگم کے رشتہ میں ماموں بنتے تھے۔ عمربی بی صاحبہ جو کہ اپنے شوہر احمدبیگ صاحب کی وفات پر 1892ء میں بیوہ ہوگئیں اور اپنے شوہر کی زندگی میں اور ایک لمباعرصہ بعد تک سلسلہ احمدیہ کی مخالف رہیں۔ انہوں نے اپنی آخری عمر قادیان میں گزاری۔ 1921ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے دست مبارک پر بیعت کرکے سلسلہ احمدیہ میں داخل ہوئیں۔ اور اپنی حقیقی ہمشیرہ حرمت بی بی صاحبہ (تائی صاحبہ) کی وفات کے بعد بڑے اصرار اور خواہش پر وصیت کی۔

یہ وصیت حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمدصاحبؓ نے خود لکھی تھی۔ 31؍جنوری 1938ء کو چورانوے سال عمر پاکر فوت ہوئیں اور بہشتی مقبرہ قادیان میں مدفون ہوئیں۔ مرحومہ3/1کی موصیہ تھیں۔

ان کی وفات پر حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدصاحب رضی اللہ عنہ نے ایک مضمون بعنوان ’’ہماری پھوپھی صاحبہ مرحومہ اور نکاح والی پیشگوئی‘‘ رقم فرمایاجو کہ روزنامہ الفضل 11؍مارچ 1938ء کے شمارے میں شائع ہوااور بعد میں آپؓ کے کتابی صورت میں شائع ہونے والے ’’مضامین بشیر‘‘ جلد اول صفحہ299-302پرموجودہے۔ اس میں آپؓ نے پیشگوئی احمدبیگ/محمدی بیگم پر بھی عارفانہ رنگ میں روشنی ڈالی۔

ان کی شخصیت کے متعلق اس مضمون میں رقم فرماتے ہیں: ’’مرحومہ کو میرے ساتھ خاص تعلق تھا۔ اگر مجھے ان کے پاس جانے میں کبھی زیادہ دیرہوجاتی تو وہ خود کسی کو کہہ کر مجھے بلوالیاکرتی تھیں اور میرے ساتھ ہمیشہ بزرگانہ بے تکلفی سے گفتگو فرمایاکرتی تھیں۔ میں بھی انہیں علاوہ رشتہ میں بزرگ ہونے کے اس وجہ سے بھی خاص عزت اورمحبت کی نظر سے دیکھتا تھا کہ وہ نہ صرف حضرت مسیح موعودؑ والی نسل کی آخری یادگار تھیں بلکہ آپ کی ایک مشہور پیشگوئی کے رحمت والے حصہ کی نشانی بھی تھیں۔ دراصل محمدی بیگم صاحبہ والی پیشگوئی کے دو حصے تھے۔ ایک تو غضب الٰہی کا حصہ تھا اور دوسرا خداکی رحمت کا حصہ تھا اور مجھے ہمیشہ اس خیال سے خوشی ہوتی تھی اور ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ (نے) اپنے خاص فضل سے آخری وقت میں آکر ہماری پھوپھی صاحبہ کو رحمت والے حصہ کے لئے الگ کرلیا تھا ورنہ پیشگوئی کے وقت ان کا قدم دوسرے رستہ پر تھا۔ فالحمد للّٰہ علٰی ذالک۔‘‘ (مضامین بشیرؓ جلد اوّل صفحہ299)

بہشتی مقبرہ میں ان کی قبرکے کتبہ کے مطابق ان کاوصیت نمبر 3456ہے اور نام ’’عمر بی بی‘‘ لکھاہواہے۔

٭…تیسری بیٹی صفتاں صاحبہ کی شادی ضلع ہوشیارپور میں کسی جگہ ہوئی لیکن وہ بے اولاد ہی فوت ہوگئیں۔

٭…اور چوتھی بیٹی فضل النساءصاحبہ تھیں جو مرزا اعظم بیگ صاحب لاہوری کے لڑکے مرزا اکبر بیگ صاحب کے عقد میں آئی تھیں۔ مرزا احسن بیگ صاحب جنہیں احمدیت قبول کرنے کی توفیق ملی انہی کے بطن سے ہیں۔

مرزا کمال الدین صاحب

ان کے متعلق زیادہ تفصیلی حالات دستیا ب نہیں ہوسکے۔ یہ صاحب فقیرانہ مزاج کے تھے۔ حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ الصلوٰة و السلام کے والد ماجد کے زمانے میں قادیان میں ایک پنڈت دیوی رام صاحب ولد متھراداس تھےجو کہ دودوچک تحصیل شکرگڑھ ضلع گورداسپور کے رہنے والےتھے اور اس زمانے (1875ء)میں قادیان میں نائب مدرس تھے۔

حضرت اقدس علیہ الصلوٰة والسلام کی نوجوانی کے زمانے کے حالات بیان کرتے ہوئے مرزاکمال الدین صاحب کے متعلق انہوں نے بیان کیا: ’’…ان دنوں نیکی۔ تقویٰ اور طہارت میں مرزا غلام احمد صاحب اور مرزا کمال الدین صاحب اور میر عابد علی مسلمانوں میں مشہورتھے۔ مرزا کمال الدین فقیری طریقہ پر تھے۔ معلوم نہیں کہ وہ نماز کب پڑھا کرتے تھے۔ مگر مرزا غلام احمد صاحب کو ہم نے پنجوقت نماز پڑھتے دیکھا ہے۔ مرزا صاحب گوشہ نشین تھے۔ ہمیشہ مطالعہ اور عبادت میں مشغول رہتے تھے…مرزا نظام الدین اور امام الدین صاحبان کا چلن ٹھیک نہ تھا۔ نماز روزہ کی طرف راغب نہ تھے۔ تمام خاندان میں سے صرف مرزا غلام احمد صاحب کو مسجد میں نماز پڑھتے دیکھا ہے۔ مرزا کمال الدین تارک الدنیا تھے۔ مرزا نظام الدین اور امام الدین میں تمام دُنیا کے عیب تھے۔ میری موجودگی میں مرزا غلام احمد صاحب نے کبھی کوئی عیب نہیں کیا اور نہ کبھی مَیں نے اس وقت سنا تھا۔ صرف ایک سکھ کو مسلمان کر دیا تھا۔ یہ عیب ہے۔ اس کے سوا مَیں نے کوئی عیب نہ دیکھا ہے اور نہ سنا ہے۔ ‘‘(سیرت المہدی جلداول روایت نمبر759)

سیرت المہدی کی ایک روایت میں ان کے متعلق یہ ملتاہے کہ حضرت’’ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب (رضی اللہ عنہ)نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کا ایک چچیرا بھائی مرزا کمال الدین تھا۔ یہ شخص جوانی میں فقراء کے پھندے میں پھنس گیا تھا۔ اس لئے دُنیا سے کنارہ کش ہو کر بالکل گوشہ گزین ہوگیا مگر وہ اپنے دوسرے بھائیوں کی طرح حضرت صاحب سے پرخاش نہ رکھتا تھا۔ علاج معالجہ اور دَم تعویذ بھی کیا کرتا تھا۔ اور بعض عمدہ عمدہ نسخے اس کو یاد تھے۔ چنانچہ ہماری والدہ صاحبہ میاں محمد اسحاق کے علاج کے لئے ان سے ہی گولیاں اور ادویہ وغیرہ منگایا کرتی تھیں اور حضرت صاحب کو بھی اس کا علم تھا۔ آپ بھی فرماتے تھے کہ کما ل الدین کے بعض نسخے اچھے ہیں۔ اب مرزا کمال الدین کو فوت ہوئے کئی سال ہو گئے ہیں مگر ان کے تکیہ میں اب تک فقیروں کا قبضہ ہے۔ عرس بھی ہوتا ہے مگر کچھ رونق نہیں ہے۔ ‘‘(سیرت المہدی جلداول روایت نمبر 831)

سیرت المہدی کی اسی روایت نمبر831کے مطابق انہوں نے شادی نہیں کی تھی۔ اور جیسا کہ بیان ہواہے کہ یہ فقیرانہ مزاج کے آدمی تھے۔ خاندان کے باقی افراد تو اپنی ساری زندگی کہ جب تک فوت نہ ہوگئے یا حضرت اقدسؑ کے قدموں میں آگئے اور جو نہیں آئے وہ مخالف ہی رہے اورمخالفت میں شاید ہی کوئی کسر چھوڑی ہوگی لیکن مرزاکمال الدین صاحب کی طرف سے کوئی ایسا واقعہ سامنے نہیں آیا۔ بلکہ مشہور مقدمہ، ’’مقدمۂ دیوار‘‘ میں جس میں کہ یہ تینوں بھائی علاوہ دیگر افرادکے مدعاعلیہم فریق تھے۔ یہ مقدمہ جب عدالت میں شروع ہوا تو مرزاکمال الدین صاحب نے عدالت میں ایک درخواست دے کر اپنانام واپس لے لیا کہ میرا اس کام میں کوئی دخل نہیں مجھے الگ کیاجائے۔

حضرت مولاناعبدالرحیم دردصاحبؓ جو کہ حضرت اقدسؑ کی سوانح اور سیرت’’Life of Ahmad‘‘ کے مصنف ہیں۔ اس مقدمہ کی تفصیلات انہوں نے عدالتی ریکارڈ کو پڑھنے کے بعد اپنی کتاب میں درج فرمائیں۔ اس میں وہ لکھتے ہیں:

’’One of the defendants, Mirza Kamal Din, applied to the court on February 12th, 1901, that he should be discharged because he had nothing to do with the matter. He lived the life of a fakir having disconnected himself from all worldly affairs. This request was accepted.‘‘

(Life of Ahmad, Chapter ’’The Wall‘‘ page519)

ترجمہ: مدعاعلیہم میں سے ایک فریق مرزاکمال الدین صاحب نے 12؍فروری 1901ء کو عدالت میں ایک درخواست گزاری کہ اس کو اس مقدمہ سے علیحدہ کردیاجائے کیونکہ اس معاملہ میں اس کو کوئی تعلق نہیں۔ وہ فقیرانہ زندگی گزار رہاہے اور اپنے آپ کو تمام دنیاوی علائق سے منقطع کردیا ہواہے۔ چنانچہ یہ درخواست منظور کرلی گئی۔

مرزا کمال الدین صاحب کی تاریخ وفات بھی معلوم نہیں ہوسکی البتہ مقدمۂ دیوار جو کہ 1900ء میں ہوا اور اس کا فیصلہ 12؍اگست 1901ء کو ہوا مذکورہ بالا اقتباس سے معلوم ہوتاہے کہ اس دوران مرزاکمال الدین صاحب زندہ تھے۔

ان کی قبربھی اغلب گمان ہے کہ بہشتی مقبرہ قادیان کے غربی جانب قدرے فاصلہ پرہوگی جہاں کہ مرزانظام دین صاحبان وغیرہ کی قبور ہیں اور وہاں ایک تکیہ سابنا ہواہے۔ اوراس کی تائیدایک مضمون سے بھی ہوتی ہے جوکہ محترم عبدالرحمان صاحب شاکرکاتحریرفرمودہ ہے جس میں وہ بیان کرتے ہیں: ’’مرزاکمال دین بالکل تارک الدنیا ہوکرقصبہ قادیان کے باہرموجودہ باغ بہشتی مقبرہ کے جانب غرب اپنے مختصرسے باغیچے میں رہاکرتے تھے۔ وہیں پر ان کی قبربھی ہے۔ …طب میں اچھی مہارت تھی ان کے بعض نسخے بڑے کامیاب تھے۔ ‘‘(مضامین شاکر جلد اول صفحہ 280)

مرزاکمال الدین صاحب کے نسخہ جات پرمشتمل ایک کتاب ’’مجربات کمالی‘‘ کی فوٹوکاپی خاکسارکے پاس ہے۔ یہ قلمی مخطوطہ معلوم ہوتی ہے۔ سب سے آخری صفحہ کی آخری سطر پرلکھاہواہے: ’’ تمام شد مجربات کمالی۔ تصنیف مسکین کمال الدین ولدمرزاغلام محی الدین سکنہ قادیان ضلع گورداسپور‘‘

اس کے پہلے صفحہ پر ان کے نام کے نیچے یہ بھی لکھاہوہے کہ شاگردرشیدجناب مرزا غلام مرتضیٰ صاحب۔ اور مالک کتاب کے طورپر حضرت عبدالرحیم صاحبؓ دیانت سوڈاواٹرفیکٹری کے نام کے ساتھ 17؍اکتوبر 1949ء کی تاریخ لکھی ہوئی ہے۔

(باقی آئندہ)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button