سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام

احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح

(’اے ولیم‘)

حضرت اقدس مسیح موعودؑ کے بعض جدّی رشتہ داروں کا تذکرہ

دیگرجدّی رشتہ دار

حضرت مرزا غلام مرتضیٰ صاحبؒ کے چار بھائی تھے:

مرزاغلام مصطفیٰ صاحب

مرزاغلام مصطفیٰ صاحب، جوکہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کے تایا تھے۔ اور تین چچا تھے: مرزا غلام محمدصاحب، مرزا غلام محی الدین صاحب اور مرزاغلام حیدرصاحب۔

مرزا غلام مصطفیٰ اور مرزا غلام محمدصاحبان کی نسل آگے نہیں چلی۔ (سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر128)

مرزا غلام حیدرصاحب

یہ حضورؑ کے چچا تھے۔ ان کا ایک ہی بیٹا تھا مرزاغلام حسین جو کہ عرصہ پچیس تیس سال سے مفقودالخبر ہوگیاتھااور اس کی نسل آگے نہیں چلی۔ یہ وہی مرزا غلام حسین صاحب ہیں جن کے ساتھ مرزا احمدبیگ صاحب کی ایک بہن امام بی بی صاحبہ بیاہی ہوئی تھیں۔ سیرت المہدی کی روایت نمبر 179میں اس کی مزید تفصیل میں یہ لکھا ہواہے کہ’’حضرت صاحب کا ایک چچا زاد بھائی غلام حسین مفقود الخبر ہو کر کالمیّت سمجھا گیا اور اس کے ترکہ کی تقسیم کا سوال پیدا ہوا۔ مرزا غلام حسین کی بیوہ مسماة امام بی بی مرزا احمد بیگ ہوشیار پوری کی بہن تھی۔ اس لئے مرزا احمد بیگ نے اپنی بہن امام بی بی اور مرزا نظام الدین اور مرزا امام الدین وغیرہ کے مشورہ سے یہ کوشش کی کہ غلام حسین مذکور کا ترکہ اپنے لڑکے یعنی محمدی بیگم کے بڑے بھائی محمد بیگ کے نام کر وا لے مگر یہ بغیر رضامندی حضرت مسیح موعودؑ ہو نہیں سکتا تھا۔ اس لئے نا چار مرزا احمد بیگ حضرت صاحب کی طرف رجوع ہوا اوربڑی عاجزی اور اصرار کے ساتھ آپ سے درخواست کی کہ آپ اس معاملہ میں اپنی اجازت دے دیں۔ قریب تھا کہ حضرت صاحب تیار ہو جاتے مگر پھر اس خیال سے کہ اس معاملہ میں استخارہ کر لینا ضروری ہے رُک گئے اور بعد استخارہ جواب دینے کا وعدہ فرمایا۔ چنانچہ اس کے بعد مرزا احمد بیگ کی با ر بار کی درخواست پر حضرت صاحب نے دریں بارہ استخارہ فرمایا تو جواب میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے و ہ الہامات ہوئے جو محمدی بیگم والی پیشگوئی کا بنیادی پتھر ہیں۔‘‘ (سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر179)

ان کی بیوی محترمہ ’’صاحب جان‘‘ صاحبہ حضرت اقدسؑ کی چچی آپؑ کی رضاعی والدہ بھی تھیں۔ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدصاحبؓ بیان فرماتے ہیں: ’’حضرت والدہ صاحبہ نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مائی صاحب جان صاحبہ زوجہ مرزا غلام حیدر صاحب نے دودھ پلایا تھا۔ مرزا غلام حیدر صاحب حضرت صاحب کے حقیقی چچا تھے۔ مگر جب مرزا نظام الدین صاحب اور ان کے بھائی حضرت صاحب کے مخالف ہو گئے تو مائی صاحب جان بھی مخالف ہو گئی تھیں۔ اور والدہ صاحبہ فرماتی ہیں کہ اس زمانہ میں وہ اس قدر مخالف تھیں کہ مجھے دیکھ کر وہ چھپ جایا کرتی تھیں اور سامنے نہیں آتی تھیں۔ نیز مجھ سے والدہ صاحبہ عزیزم مرزا رشید احمد نے بیان کیا کہ حضرت صاحب کو ماں کے سوا دوسرے کا دودھ پلانے کی اس لئے ضرورت پیش آئی تھی کہ آپ جوڑا پیدا ہوئے تھے اور چونکہ آپ کی والدہ صاحبہ کا دودھ دونوں بچوں کے لئے مکتفی نہیں ہوتا تھا۔ اس لئے مائی صاحب جان نے دودھ پلانا شروع کر دیا تھا۔‘‘ (سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر760)

ان لوگوں کی مخالفت جیساکہ ذکر آئے گا اس قدر بڑھی کہ یہ لوگ خدااور اس کے رسولﷺ کی بے ادبی اور گستاخی کرنے لگے۔ حضرت اقدس علیہ الصلوٰة والسلام اپنی ان رضاعی والدہ کا بہت احترام کرتے تھے اور عموماً ان کے ہاں کھانا بھی کھاتے۔ حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحبؓ نے ان کے متعلق ایک واقعہ بیان فرمایا ہے جو کہ ان کے بیان کے مطابق براہین احمدیہ کے لکھے جانے سے بھی قبل کاہے۔ وہ بیان فرماتے ہیں کہ ’’حضرت مسیح موعودؑ کے ایک چچا مرزا غلام حیدر مرحوم تھے۔ یہ وہی مرزاغلام حیدر مرحوم تھے جن کے مکان میں آج حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدصاحب رہتے ہیں۔ ان کی اہلیہ بی بی صاحب جان تھیں۔ ایک مرتبہ ان کے منہ سے حضرت نبی کریمﷺ کی شان میں کوئی بے ادبی کا کلمہ نکل گیا۔ باوجود اس احترام کے جو آپ بزرگوں کا کرتے تھے اس بات کا اثر آپ کی طبیعت پر اس قدرہوا اور اس قدر بے تابی آپ کے قلب میں پیداہوئی کہ اس کا اثر آپ کے چہرہ مبارک سے نمایاں تھا۔ وہ غصہ سے تمتما رہاتھا۔ اس حالت میں آپ کا کھانا بھی چھوٹ گیا۔ محض اس لئے کہ حضرت نبی کریمﷺ کی شان میں کیوں بے ادبی ہوئی۔ اس قدر رنج آپ کو ہوا کہ الفاظ میں بیان نہیں ہوسکتا۔ مخدومی خان بہادر مرزا سلطان احمدصاحب پنشنرجو اس روایت کے راوی ہیں بیان کرتے ہیں کہ حضرت صاحب کو بہت ہی غصہ تھا اور انہوں نے اس واقعہ سے متاثر ہوکر ان کے ہاں کا کھانا پینا ترک کردیا۔‘‘ (سیرت حضرت مسیح موعودؑ: جلددوم صفحہ 269-270)

مرزاغلام حیدرصاحب کی حویلی

محترم غلام حیدرصاحب کے ساتھ تعلق رکھنے والی ایک اور بات بھی یہاں ذکرکردینا مناسب ہے۔ وہ یہ کہ وہ مکان جس میںحضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدصاحبؓ کی بعد میں رہائش ہوئی یہ گھر یا حویلی انہیں غلام حیدرصاحب کی ملکیت تھی۔ جو ان کی وفات کے بعد مرزا امام الدین صاحب کے قبضہ میں چلی گئی۔ جب حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ الصلوٰة والسلام نے ’’الدار‘‘کی توسیع فرمانے کا ارادہ فرمایا تو حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحبؓ کی کوششوں سے مرزا امام الدین صاحب اس بات پر راضی ہوگئے کہ اس حویلی میں سے حضرت اقدسؑ کا حصہ بھی دے دیں اور یہ کہ باقی حصہ حضرت اقدسؑ کے ہاتھوں فروخت کردیں۔

حضرت اقدسؑ کشتی نوح کے آخری صفحہ پر ایک اعلان بعنوان ’’درخواست چندہ برائے توسیع مکان‘‘ میں فرماتے ہیں: ’’چونکہ آئندہ اس بات کا سخت اندیشہ ہے کہ طاعون ملک میں پھیل جائے اور ہمارے گھر میں جس میں بعض حصوں میں مرد بھی مہمان رہتے ہیں اور بعض حصوں میں عورتیں، سخت تنگی واقعہ ہے اور آپ لوگ سن چکے ہیں کہ اللہ جلّ شانہٗ نے ان لوگوں کے لئے جو اس گھر کی چاردیوار کے اندر ہوں گے حفاظت خاص کا وعدہ فرمایا ہے اور اب وہ گھر جو غلام حیدر متوفّی کا تھا جس میں ہمارا حصہ ہے اس کی نسبت ہمارے شریک راضی ہوگئے ہیں کہ ہمارا حصہ دیں اور قیمت پر باقی حصہ بھی دے دیں … المشتہر مرزا غلام احمدقادیانی‘‘(کشتی نوح، روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 86)

ایک زمانے میں جب مسجد مبارک کی توسیع ہو رہی تھی تو اسی حویلی کے صحن میں حضرت اقدس علیہ السلام اپنے صحابہ کے ساتھ نماز جمعہ اور دیگر نمازیں بھی ادا کرتے رہے اور اسی صحن میں اترنے والی وہ سیڑھیاں بھی ہیں جہاں سے کہ حضرت اقدس علیہ السلام اتر کر آخری سفر لاہور کے لیے روانہ ہوئے۔ (سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر 618)

مرزا غلام محی الدین صاحب

حضرت اقدسؑ کے یہ چچا تحصیلدارتھے۔

(Life Of Ahmad Page 46)

اور ان کے تین بیٹے اور چار بیٹیاں تھیں۔

بیٹوں کے نام یہ ہیں:

1)مرزا امام الدین صاحب

2)مرزا نظام الدین صاحب

3)مرزاکمال الدین صاحب

مرزا امام الدین اور مرزا کمال الدین صاحبان کی بھی نسل آگے نہیں چلی۔ (بحوالہ سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر128)

بیٹیوں کے نام یہ ہیں:

1)حرمت بی بی صاحبہ

2) عمربی بی (بعض جگہ عمرالنساء صاحبہ بھی نام آتاہے)

3)صفتاںصاحبہ

4)فضل النساء صاحبہ

حرمت بی بی صاحبہ

حرمت بی بی صاحبہ جو ان کی سب سے بڑی اولاد تھیں اور حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ الصلوٰة والسلام کے بڑے بھائی صاحبزادہ مرزا غلام قادرصاحب کے ساتھ بیاہی ہوئی تھیں اور ’’تائی ‘‘ صاحبہ کے نام سے معروف ہیں۔ حضرت تائی صاحبہ نے سن 1916ء میں احمدیت قبول کرلی تھی۔

یہ آغاز میں حضرت مسیح موعودؑ کی اشدترین مخالف تھیں اور حضرت اقدسؑ کی زندگی میں مخالف ہی رہیں۔ دوسری طرف حضرت اقدسؑ کو 1900ء میں الہام ہوا۔ ’’تائی آئی‘‘ حضرت اقدسؑ نے اس الہام کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: ’’آج تھوڑی دیر ہوئی عجیب الہام ہؤا کہ جو سمجھ میں نہیں آیا۔ پہلے الہام ہؤا: ’’تائی آئی‘‘ہمارے تو کوئی تائی ہے نہیں۔ نہ نزدیک نہ دور، ہاں ہمارے لڑکوں کی تائی ہے جو وہ ہماری دشمن ہے۔‘‘ (تذکرہ ایڈیشن چہارم صفحہ 665)

حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ اس الہام کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’اس الہام میں دراصل تین پیشگوئیاں ہیں۔ اول یہ کہ حضرت مسیح موعودؑ کی اولاد میں سے خلیفہ ہوگا۔ دوم یہ کہ اس وقت (حضورؑ کی اولاد کی) تائی صاحبہ جماعت میں شامل ہوں گی۔ تیسرے تائی صاحبہ کی عمر کے متعلق پیشگوئی تھی…کہ وہ زندہ رہے گی اور آپؑ کی اولاد سے ایک خلیفہ ہوگا جس کی بیعت میں ( وہ) شامل ہوگی۔‘‘ (خطبہ جمعہ فرمودہ2؍دسمبر1927ء مطبوعہ الفضل جلد15نمبر47 مورخہ9؍دسمبر1927ء صفحہ8، تذکرہ ایڈیشن چہارم صفحہ665 حاشیہ)

سوایساہی ظہورمیں آیا اورمحترمہ تائی صاحبہ، حضرت حرمت بی بی صاحبہؒ نے 1916ء میں بیعت کرلی۔ اور پھر وصیت فرمائی۔ اور طویل عمرپاکر یکم دسمبر 1927ء کو 97 سال کی عمر میں وفات پائی اور بہشتی مقبرہ کے قطعہ خاص میں مدفون ہوئیں۔

تیرے اے میرے مربی کیا عجائب کام ہیں

گرچہ بھاگیں جبرسے دیتاہے قسمت کے ثمار

قبضۂ تقدیر میں دل ہیں اگر چاہے خدا

پھیر دے میری طرف آجائیں پھر بےاختیار

بہشتی مقبرہ قادیان میں جو کتبہ نصب ہے اس کے مطابق آپ کی وفات 30؍نومبر1927ء اوروصیت نمبر 1109ہے۔

(باقی آئندہ)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button