پرسیکیوشن رپورٹس

اسلامی جمہوریہ پاکستان میں احمدیوں پر ہونے والے دردناک مظالم کی الَم انگیز داستان

(مرتبہ: مطہر احمد طاہر۔ جرمنی)

جنوری اورفروری2021ء میں سامنےآنے والے چند تکلیف دہ واقعات سے انتخاب

پاکستان میں احمدیوں کو دہشت گردوں اور انتہا پسندوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے

پشاور،11؍فروری 2021ء:ایک احمدی ڈاکٹر عبدالقادر کو11؍فروری 2021ء بروز جمعرات دوپہر تقریباً 2 بجے ان کے کلینک میں ایک نوجوان نے گولی مار کر شہید کر دیا۔ ہومیوپیتھی کے ماہر ڈاکٹر عبدالقادر اچھی شہرت کے حامل احمدی تھے۔انہیں ماضی قریب میں دھمکیاں ملی تھیں۔ان کی شہادت پر ربوہ میں جماعت احمدیہ مرکزیہ کے پریس سیکشن کی طرف سے درج ذیل پریس ریلیز جاری کی گئی:

پشاور: احمدیہ کمیونٹی کے ممبران پر کبھی نہ ختم ہونے والا ظلم ایک اَور جان لے گیا۔ فائرنگ کے نتیجے میں 65 سال کے ہومیوپیتھک ڈاکٹر عبدالقادر کی وفات ہو گئی۔

19،18سال کے ملزم عبدالقیوم نے پشاور کے علاقے بازید خیل میں میڈیکل سنٹر میں فائرنگ کی۔ ملزم کو پکڑ کر پولیس کے حوالے کر دیا گیا۔

حالیہ مہینوں میں پشاور میں چار احمدی ان قاتلانہ حملوں کا نشانہ بنے۔

پاکستان میں احمدیوں کو دہشت گردوں اور انتہا پسندوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے جبکہ حکومت تشدد کے خلاف احمدی افراد کو تحفظ دینے اور روکنے میں بار بار ناکام رہی ہے۔

ریاستی اداروں کو پاکستان میں مقیم احمدیوں کے تحفظ کے لیے موثر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے: ترجمان احمدیہ کمیونٹی

چناب نگر (پ ر) آج مورخہ 11.2.2021 کو بازید خیل، ضلع پشاور، خیبر پختونخواہ میں ایک اور جان لیوا حملہ ہوا ہے جس میں 65 سالہ احمدی جناب عبدالقادر کو ایک میڈیکل سنٹر کے دروازے پر گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا۔ ایک احمدی بنیامین کی طرف سے فراہم کردہ معلومات کی بنیاد پر، یہ ناخوشگوار واقعہ آج دوپہر 2:00 بجے کے قریب پیش آیا جب عبدالقادر نے کلینک کے دروازے کی گھنٹی سن کر دروازہ کھولا اور مجرم نے انہیں دروازے پر گولی مار دی۔ عبدلقادر کو فوری طور پر قریبی ہسپتال لے جایا گیا لیکن زخموں کی شدت کی وجہ سے وہ جان لیوا حملے میں جانبر نہ ہو سکے۔ مجرم کو کلینک کے ملازمین نے پکڑ کر پولیس کے حوالے کر دیا۔ انہوں نے پسماندگان میں بیوہ، 4بیٹے اور 5 بیٹیاں سوگوار چھوڑی ہیں۔

وہ ایک شفیق انسان تھے اور ان کی کسی سے کوئی ذاتی دشمنی نہیں تھی۔ مرحوم کو اپنے عقیدے کی وجہ سے ظلم و ستم کا سامنا تھا اور اس وجہ سے انہوں نے اپنے پورے خاندان کو پشاور سے دور ایک محفوظ مقام پر منتقل کر دیا تھا۔

ترجمان جماعت احمدیہ نے ڈاکٹر عبدالقادر کی بدقسمت اور افسوسناک وفات پر اپنے دکھ اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے پاکستان میں بالعموم اور بالخصوص پشاور میں احمدیہ کمیونٹی کے خلاف نفرت انگیز مہم میں اضافے پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔

احمدیہ کمیونٹی کے ارکان کے خلاف حال میں مہلک حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔ 20؍ نومبر2020ءکو ننکانہ صاحب میں ایک نوجوان احمدی ڈاکٹر طاہر احمد کو عقیدے پر مبنی حملے میں قتل کر دیا گیا، جب کہ 2؍فروری2021ء کو لیہ میں، ایک احمدی ہیڈ ماسٹر جان لیوا حملے میں بال بال بچ گئے۔

ترجمان نے مزید کہا کہ ان حملوں سے کمیونٹی کے افراد میں شدید عدم تحفظ کا احساس پیدا ہو رہا ہے جبکہ پشاور کے احمدی خوف کی گہری فضا میں زندگی گزار رہے ہیں۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ اس حملے کے مرتکب افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے اور حکومت احمدیوں کے خلاف اس طرح کی نفرت انگیز مہم کا خاتمہ کرے۔

واضح رہے کہ پاکستان میں مذہبی انتہا پسندوں کے ہاتھوں 274 احمدیوں کو قتل کیا جا چکا ہے۔ خیبر پختونخواہ میں یہ 17واں قتل ہے۔ یہ تمام متاثرین معروف تھے اور معاشرے میں ان کی عزت کی جاتی تھی۔

مذکورہ پریس ریلیز کے عمومی مشمولات ریاست کے متعدد اعلیٰ حکام کو خط کے ذریعے پہنچائے گئے۔

احمدی قیدی دورانِ حراست انتقال کر گیا

ننکانہ،16؍فروری2021ء: ایک احمدی اکبر علی دوران حراست دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کر گئے۔ آپ 55 سال کے تھے۔

مرحوم اکبر علی مقامی جماعت، شوکت آباد کالونی، ضلع ننکانہ صاحب کے سابق صدر تھے۔

2؍مئی 2020ء کو ان کے اور دو دیگر احمدی عہدیداروں کے خلاف احمدیہ مخالف دفعہ 298-Bاور Cکے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ ہائی کورٹ نے ان کی ضمانت کی توثیق کی درخواست مسترد کر دی، اور تینوں کو گرفتار کر لیا گیا۔

بعد ازاں، ایک مجسٹریٹ عادل ریاض نے مشاہدہ کیا کہ توہین رسالت کی شقیں PPC 295-C اور 295-Bبھی لاگو ہوتی ہیں۔ 16؍فروری کو تینوں ملزمان کو سیشن کورٹ میں ٹرائل کے لیے ننکانہ لایا گیا۔ انہیں شیخوپورہ کی جیل واپس لے جایا جا رہا تھا جب اکبر علی کو دل کی تکلیف ہوئی۔ شیخوپورہ میں انہیں ڈسٹرکٹ ہسپتال منتقل کیا گیا جہاں وہ دل کا دورہ پڑنے سےانتقال کرگئے۔

مرحوم ساڑھے چار ماہ سے جیل میں تھے۔ آپ فوج میں خدمات انجام دے چکے تھے۔ انہوں نے اپنے پیچھے دو بیوائیں، ایک نوعمر بیٹا اور ایک بیٹی چھوڑی ہے جو سکول جاتے ہیں۔غیر منصفانہ احمدی مخالف قوانین کے تحت نظربندی بظاہر ان کے دل کا دورہ پڑنے اور موت کا ایک بڑا سبب تھی۔

ڈیوٹی پر موجود احمدی اہل کار وحشیانہ حملے سے بال بال بچ گیا

چک 464/TDA، ضلع لیہ،یکم فروری 2021ء: ایک احمدی نعیم احمد باجوہ پر ان کے اسکول میں دو افراد نے حملہ کیا۔ خوش قسمتی سے وہ اس قاتلانہ حملے میں بچ گئے ۔

گورنمنٹ ہائی اسکول چک 464/TDA، ڈسٹرکٹ لیہ کے ہیڈ ماسٹر نعیم باجوہ یکم فروری کو اپنے اسکول کے باہر بیٹھے تھے کہ دو نوجوان اسکول آئے۔ موصوف نے اندازہ لگایا کہ شاید وہ ان کے پاس کچھ دستاویزات کی تصدیق کرانے آئے ہیں۔ چنانچہ انہوں نے دور سے ان نواجوانوں سے کاغذات انہیں دینے کو کہا۔ان میں سے ایک نے پستول نکال کرآپ پر گولی چلا دی۔ یہ گولی ان کے سر کے اوپر سے گزر گئی جس کے بعد انہوں نے فوراًایک کمرے میں پناہ لی اور دروازہ بند کردیا۔ حملہ آور پیچھا کرتا ہوا کمرے میں گھس گیا۔ تاہم موصوف نے حملہ آور کا ہاتھ پکڑا اور مدد کے لیے پکارا۔ حملہ آور کا ساتھی بھی اندر آگیا اور اس نے نعیم باجوہ کو مارنا شروع کردیا۔ تاہم موصوف نے حملہ آور کا پستول مضبوطی سے تھام لیا۔اسی دوران اسکول کے دیگر اساتذہ اور طلبہ وہاں پہنچے اور دونوں مجرموں کو پکڑ لیا۔انہوں نے پولیس کو اطلاع دی، جو اسکول پہنچی اور ملزمان کو گرفتار کرلیا۔

دونوں حملہ آوروں کو تفتیش کی غرض سے لیہ تھانے میں ہیں لے جایا گیا۔ تلاشی کے دوران ان سے پستول اور چاقو برآمد ہوئے۔ ان میں سے ایک نے اپنی جیکٹ میں کلہاڑی بھی چھپائی ہوئی تھی۔ پولیس اسٹیشن میں پوچھ گچھ کے دوران حملہ آوروں نے بتایا کہ باجوہ چونکہ قادیانی، کافر اور گستاخ ہے اس لیے دونوں نے اسے قتل کرنے کا فیصلہ کیا۔

یہ ایک بہت سنگین حملہ تھا۔امید ہے کہ پولیس مکمل تفتیش کرکے حملہ آوروں کو کیفر کردار تک پہنچائے گی۔

دو احمدی گولی لگنے سے بچ گئے

کوٹ عبدالمالک،لاہور،17؍جنوری2021ء:دواحمدی بھائیوں راشد علی اور آصف علی پر نامعلوم حملہ آوروں نے اس وقت حملہ کیا جب وہ موٹر سائیکل پر جا رہے تھے۔ حملہ آوروں نے احمدیہ مخالف نعرے لگائے اور ان پر فائرنگ کردی۔ گولی ان کی موٹر سائیکل کو لگی۔ خوش قسمتی سے دونوں بھائی بال بال بچ گئے۔

یہ دونوں حضرات 2016ء میں شہید ہونے والے احمدی قمر الضیاء کے کیس کے اہم گواہ تھے۔ قمر الضیاء کے قاتل کو بعد میں بری کر دیا گیا۔ اس بات کا امکان ہے کہ اس حملہ کا تعلق اسی مقدمہ سے ہو۔

سائبر کرائم ٹیم نے جعلی مقدمات میں دو احمدیوں کو گرفتارکر لیا

لاہور،فروری 2021ء: سائبر کرائم پولیس سٹیشن لاہور نے20؍جون 2019ء کو ایف آئی آر نمبر 88کے تحت تعزیرات پاکستان 295-A, 298-C, PECA-11کے تحت ایک مقدمہ درج کیا جس میں چار احمدیوں محمد محمود اقبال ہاشمی، شیراز احمد راجپوت اورعتیق احمد پر مبینہ طور پر ایک گروپ ’’سندھ سلامت‘‘ بنانے اور اس میں احمدیت سے متعلقہ مواد شیئر کرنے کا الزام لگا یا گیا۔

لاہور کے محمد محمود اقبال ہاشمی کو مقدمہ کے اندراج کے بعد گرفتار کر لیا گیا اور دو ماہ سے زائد اسیری کے بعد 24؍ اگست 2019ء کو ضمانت پر رہا کر دیا گیا۔ یہ مقدمہ حامد حسین ایڈیشنل سیشن جج لاہور کی عدالت میں زیر سماعت ہے۔ سماعت 4؍مارچ 2019ء کے لیے مقرر کر دی گئی۔

شیراز احمد کو 25؍فروری 2021ء کو حافظ آباد سے مذکورہ کیس میں نامزد ہونے پر گرفتار کیا گیا تھا۔ انہیں اگلے دن مجسٹریٹ کی عدالت میں پیش کیا گیا، جس نے اسے یکم مارچ 2021ء کو دوبارہ عدالت میں پیش ہونے کے لیے ایک روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کر دیا۔

ظہیر احمد کو 30؍ستمبر 2019ء کو سیکشن 298-C،۔ 295-B، PECA-11 اور 109 کے تحت مقدمہ بنا کر گرفتار کیا گیا تھا۔ 23؍فروری 2021ء کو سماعت مکمل ہونے پر جسٹس شہباز علی رضوی نے انہیں ضمانت دی تھی۔ کاغذی رسمی کارروائیوں کے بعد چار سے پانچ دنوں میں رہائی ہونے کی امید تھی۔

27؍فروری 2021ء کو جب ظہیر احمد کی کیمپ جیل سے رہائی متوقع تھی، سائبر کرائم ونگ لاہور کی ٹیم نے انہیں پہلے درج مقدمے میں گرفتار کر لیا۔ اس مقدمے میں انہیں باقاعدہ نامزد بھی نہیں کیا گیا تھا۔

سائبر کرائم لاہور نے ظہیر احمد کو مجسٹریٹ کی عدالت میں پیش کیا۔ مجسٹریٹ نے دونوں ملزمان کو عدالتی حراست میں بھیج دیا۔ ان کی اگلی سماعت کی تاریخ 13؍مارچ 2021ء رکھی گئی۔

(جاری ہے)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button