ہے بہت کافی قوی قادر خدا
ہے بہت کافی قوی قادر خدا
جو توانا بھی ہے اور مشکل کشا
مشکلیں آساں کرے گا آج بھی
کر چکا ہے جو ہماری بارہا
جانتے ہیں موج ہے گرداب ہے
جانتے ہیں کہ مخالف ہے ہوا
زہر سا بکھرا ہوا ہے چار سُو
سانپ ہے جیسے کہیں کوئی چھپا
پر خدا کے فضل سے مٹ جائے گی
تہمتوں کی یہ بلائے بدنما
بے اثر جادو بھی ہوں گے دیکھنا
معجزے ظاہر کرے گی جب دعا
ناگنوں کے سر کچلنے کے لیے
آج بھی حرکت میں آئے گا عصا
کس کمیں سے آ رہے ہیں تیر یہ
ہے ہمیں معلوم ہم ہیں آشنا
کس کا دستِ شر کہاں مستور ہے
کون سے مہرے ہوئے ہیں بے وفا
عشق کا دعویٰ وہی ہے معتبر
آزمائش پر بھی جو اترے کھرا
یار کی خاطر جو سر بھی وار دے
مرد ہوتا ہے وہی میدان کا
آسمانی ہے خلافت کا نظام
ہے اسی میں دینِ احمد کی بقا
جان سے بڑھ کر ہمیں محبوب ہے
اپنے مولیٰ کی یہ نعمت یہ عطا
اب یہی تقدیر ہے کہ یہ نظام
مومنوں کے ساتھ رہنا ہے سدا
اب اسی دربار سے ہے منسلک
شرف، عزت، آبرو اور مرتبہ
یہ گروہِ دشمناں کا ہے نصیب
حسرت و حرمان سے ہونا فنا
آسماں اب چاک کر دے گا حجاب
ان کے سب نام و نشاں دے گا مٹا
ہم نے مانا ہے جسے اپنا امام
اس کے حق میں ہے صحیفوں میں لکھا
حضرتِ مسرور کو رب نے چنا
خود ہمارا راہبر اور راہنما
وہ ہمارے ہم ظفرؔ ان کے ہوئے
جان و مال و آبرو ان پر فدا
(مبارک احمد ظفرؔ)