خطاب حضور انور

اختتامی خطاب سیدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ برموقع جلسہ سالانہ قادیان فرمودہ 26؍ دسمبر 2021ء بمقام ایوان مسرور، اسلام آباد ٹلفورڈ، یوکے

اسلام کی تعلیم ہی اپنی اصلی حالت میں ہونے کی وجہ سے وہ تعلیم ہے جو ایک خوبصورت معاشرہ قائم کرنے کے لیے اعلیٰ ترین تعلیم ہے

حقوق کی ادائیگی معاشرے کے امن و سلامتی کی ضمانت ہے

بدلہ کینہ رکھنے اور دشمنیاں جاری رکھنے کے لیے نہیں ہے نہ انتقام ہے بلکہ مقصد اصلاح ہونا چاہیے
امن قائم رکھنے کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ایک یہ سنہری اصول بتایا کہ ظالم اور مظلوم دونوں سے ہمدردی کرو

اللہ تعالیٰ کی تعلیم پر عمل کرنے والا بدظنی کے بجائے حسن ظنی رکھتا ہے اور حسن ظن رکھنے والا دوسرے کے عیب تلاش کر ہی نہیں سکتا

احمدیوں کو جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مانا ہے ایسی مثالیں قائم کرنی چاہئیں جیسی صحابہ نے قائم فرمائی تھیں

تکبر کر کے کوئی حقیقی مقام نہیں ملتے، عاجزی ہی ہے جو حقیقی سرداری دیتی ہے اور لیڈر بناتی ہے اور یہی سرداری ہے جو دیرپا امن قائم کرنے والی بن سکتی ہے

دنیا میں انفرادی و اجتماعی امن کے قیام کی بابت اسلامی راہنما اصولوں کا بصیرت افروز بیان

اختتامی خطاب سیدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز برموقع جلسہ سالانہ قادیان فرمودہ 26؍دسمبر2021ء بمقام ایوان مسرور، اسلام آباد ٹلفورڈ، یوکے

(اس خطاب کا یہ متن ادارہ الفضل اپنی ذمہ داری پر شائع کر رہا ہے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾
اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾
اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾

آج قادیان کے جلسہ سالانہ کا آخری دن ہے،یہ آخری سیشن ہے۔ اسی طرح افریقہ کے ایک ملک گنی بساؤ میں بھی جلسہ ہو رہا ہے۔ انہوں نے بھی درخواست کی تھی کہ ہمیں بھی شامل کر لیں اور اسی لیے بعض جگہ ٹیلیویژن پہ ان کو بھی دکھایا جا رہا ہے، یہ ان کا سین (scene) ہے وہاں بھی جلسہ ہو رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان جلسے کے دنوں میں اَور بھی ملک ہیں جہاں جلسے ہوں گے اور ہو رہے ہیں۔ بہرحال قادیان کے جلسے کے ساتھ ہی ان کا بھی جلسہ تھا اس لیے اس کا ذکر ہو گیا۔ اب مَیں اپنے مضمون کی طرف آتا ہوں۔

ہم یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ

اسلام کی تعلیم ہی اپنی اصلی حالت میں ہونے کی وجہ سے وہ تعلیم ہے جو ایک خوبصورت معاشرہ قائم کرنے کے لیے اعلیٰ ترین تعلیم ہے۔

یہی وہ تعلیم ہے جس پر حقیقی رنگ میں اگر عمل کیا جائے تو خدا تعالیٰ کے قریب بھی کرتی ہے اور پھر اس قرب کی وجہ سے اور خدا تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنے کی خواہش اور کوشش کی وجہ سے ایک حقیقی مسلمان کو ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے کی طرف بھی ایسی راہنمائی کرتی ہے جو بے مثال ہے۔

یہ حقوق کی ادائیگی ہے جو معاشرے کے امن و سلامتی کی بھی ضمانت ہے۔

آج کل امن و سلامتی کی باتیں ہوتی ہیں کہ کس طرح دیرپا امن قائم کیا جائے۔ مقامی سطح سے لے کر بین الاقوامی سطح تک فتنہ و فسا د اور جنگوں کے امکانات بڑھ رہے ہیں۔ یہ بیماری جس نے تمام دنیا کو آج کل ہلا کر رکھ دیا ہے یعنی کووِڈ 19کی بیماری، اس نے بھی دلوں کی کدورتیں دور نہیں کیں، قوموں کے ایک دوسرے پر فوقیت کے خناس کو دور نہیں کیا۔ اللہ تعالیٰ کی اس وارننگ سے انسان کوئی سبق نہیں حاصل کر رہا اور اگر یہ رویہ اسی طرح قائم رہا جو لوگوں کا، قوموں کا ہے تو بڑے خطرناک نتائج پیدا ہوں گے۔ بہرحال اس وقت میں

اسلام کی امن و سلامتی کی تعلیم کے بارے میں چند پہلو

بیان کروں گا جن پر اگر حقیقت میں عمل ہو تو دنیا امن و سلامتی کا گہوارہ بن سکتی ہے۔ یہی باتیں ہیں جو دنیا کے امن کی ضمانت ہیں جو اسلام نے پیش کی ہیں۔ قرآن کریم کی تعلیم کی روشنی میں یہ باتیں میں بیان کروں گا۔

سب سے پہلے ہم اس پہلو کو لیتے ہیں کہ

مذہبی رواداری کو قائم رکھنے کے بارے میں اسلام کیا کہتا ہے۔

گو آجکل دنیا کی اکثریت مذہب سے دور ہو رہی ہے لیکن پھر بھی ایک طبقہ ایسا ہے جو مذہب کی بنیاد پر ایک دوسرے کے خلاف مذہب کے حوالے سے بات کرتا ہے اور اپنے مذہب کی برتری ثابت کرنے کے لیے دوسرے مذہب پر اعتراض کرنا اور اسے استہزا کا نشانہ بنانا ضروری سمجھتا ہے۔ یا مذہب کو نہ بھی لیں تب بھی مذہب کے حوالے سے اسلام پر اعتراض کیا جاتا ہے کہ اسلام دوسروں کو کچھ نہیں پوچھتا۔ جبکہ اسلام اس بات کو مکمل ردّ کرتا ہے کہ ایک دوسرے کے مذہب کا استہزا کیا جائے۔ اسلام کہتا ہے کسی مذہب کے بانی کو اس پر الزام لگا کر غلط نہ کہو یا غلط کہہ کر الزام نہ لگاؤ۔ اسلام بیشک یہ بات پیش کرتا ہے کہ وہ آخری مذہب ہے اور ہر قسم کی تعلیم کا احاطہ کیے ہوئے ہے لیکن یہ نہیں کہتا کہ دوسرے مذاہب کے بانی جھوٹے تھے۔

اسلام کہتا ہے کہ دنیا کی ہر قوم میں خدا تعالیٰ کی طرف سے رہنمائی کے لئے خدا تعالیٰ کے نبی آئے۔

فرماتا ہے۔ اِنَّآ اَرْسَلْنٰكَ بِالْحَقِّ بَشِيْرًا وَّ نَذِيْرًا وَ اِنْ مِّنْ اُمَّةٍ اِلَّا خَلَا فِيْهَا نَذِيْرٌ۔(الفاطر: 25)کہ یقیناً ہم نے تجھے حق کے ساتھ بشیر اور نذیر بنا کر بھیجا ہے۔ اور کوئی امت نہیں مگر ضرور اس میں کوئی ڈرانے والا گزرا ہے۔ پس یہ بڑا واضح فرق ہے اسلام کی تعلیم میں اور دوسرے مذاہب کی تعلیم میں۔ وہ صرف اپنے مذہب اور اپنی تعلیم کو ہی سچا سمجھتے ہیں لیکن اس تعلیم کے مطابق جو قرآن کریم نے ہمیں دی ہے مسلمان پہ فرض ہے کہ یہ تسلیم کریں کہ ہر قوم میں نبی آئے ہیں اور جب ہر قوم میں نبی کو مانیں گے تو پھر وہ یہ کس طرح کہہ سکتے ہیں کہ تمہارا نبی جھوٹا ہے۔ دوسرے مذاہب والے بعض دفعہ گندے الزامات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات بابرکات پر لگاتے ہیں یا لگا سکتے ہیں لیکن ایک مسلمان حضرت موسیٰ کو حضرت عیسیٰ کو یا ہندوؤں کے اوتاروں کو عزت اور احترام سے ہی پکاریں گے۔

ہمیں اس زمانے میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے بڑے خوبصورت انداز میں یہ باتیں بیان فرمائی ہیں۔ آپؑ فرماتے ہیں ’’میرا یہ مذہب نہیں ہے کہ اسلام کے سوائے باقی سب مذاہب کی بنیاد ہی جھوٹ پر رکھی گئی ہے۔ میرا یہ ایمان ہے کہ وہ خدا جو تمام مخلوق کا خدا ہے وہ سب پر نظر رکھتا ہے اور جیسا وہ سب کی جسمانی ضروریات کو پورا کر رہا ہے ایسا ہی روحانی ضروریات کو بھی پورا کرتا ہے۔ یہ سچ نہیں کہ دنیا کی ابتدا سے اس نے صرف ایک ہی قوم کو چن لیا ہے اور دوسروں کی کچھ پرواہ نہیں کی۔ ہاں یہ سچ ہے کہ کبھی کسی قوم پر وہ وقت آ جاتا ہے اور کبھی کسی پر۔ میں یہ باتیں کسی کو خوش کرنے کے لئے نہیں کہتا بلکہ خدا تعالیٰ نے مجھ پر ظاہر کیا ہے کہ راجہ رامچندر اور کرشن جی وغیرہ بھی خدا کے راستباز بندے تھے اور اس سے سچا تعلق رکھتے تھے۔ میں اس شخص سے بیزار ہوں جو ان کی نندیا یا توہین کرتا ہے۔ اس کی مثال کنوئیں کے مینڈک کی سی ہے جو سمندر کی وسعت سے ناواقف ہے۔ جہاںتک ان لوگوں کے صحیح سوانح معلوم ہوتے ہیں ان سے پایا جاتا ہے کہ ان لوگوں نے خدا کی راہ میں بڑے بڑے مجاہدات کیے اور کوشش کی کہ اسی راہ کو پائیں جو خدا تعالیٰ تک پہنچنے کی حقیقی راہ ہے۔ جو شخص یہ کہتا ہے کہ وہ راستباز نہ تھے وہ قرآنِ شریف کے خلاف کہتا ہے کیونکہ اس میں فرمایا ہے۔ اِنْ مِّنْ اُمَّةٍ اِلَّا خَلَا فِيْهَا نَذِيْرٌ۔

یعنی کوئی قوم اور امت ایسی نہیں گذری جس میں کوئی نذیر نہ آیا ہو۔ پس اس میں شک نہیں کہ ابتداء میں ان تمام مذاہب کی بنیاد حق اور راستی پر تھی مگر مرورِ زمانہ سے ان میں طرح طرح کی غلطیاں داخل ہو گئیں یہاں تک کہ اصل حقیقت انہیں غلطیوں کے نیچے چھپ گئی۔‘‘

(تفسیر حضرت مسیح موعودؑ جلد سوم صفحہ 116-117)

پھر آپؑ فرماتے ہیں کہ ’’جیسا کہ خدا ہر ایک ملک کے باشندوں کے لئے ان کے مناسب حال ان کی جسمانی تربیت کرتا آیا ہے ایسا ہی اس نے ہر ایک ملک اور ہر ایک قوم کو روحانی تربیت سے بھی فیضیاب کیا ہے۔ جیسا کہ وہ قرآن شریف میں ایک جگہ فرماتا ہے۔ وَ اِنْ مِّنْ اُمَّةٍ اِلَّا خَلَا فِيْهَا نَذِيْرٌ۔ کوئی ایسی قوم نہیں جس میں کوئی نبی یا رسول نہیں بھیجا گیا ……

خدا کا فیض عام ہے جو تمام قوموں اور تمام ملکوں اور تمام زبانوں پر محیط ہو رہا ہے۔

یہ اس لئے ہوا کہ تا کسی قوم کو شکایت کرنے کا موقعہ نہ ملے اور یہ نہ کہیں کہ خدا نے فلاں فلاں قوم پر احسان کیا مگر ہم پر نہ کیا یا فلاں قوم کو اس کی طرف سے کتاب ملی تا وہ اس سے ہدایت پاویں مگر ہم کو نہ ملی یا فلاں زمانہ میں وہ اپنی وحی اور الہام اور معجزات کے ساتھ ظاہرہوا مگر ہمارے زمانہ میں مخفی رہا۔ پس اس نے عام فیض دکھلا کر ان تمام اعتراضات کو دفع کر دیااور اپنے ایسے وسیع اخلاق دکھائے کہ کسی قوم کو اپنے جسمانی اور روحانی فیضوں سے محروم نہیں رکھا اور نہ کسی زمانہ کو بے نصیب ٹھہرایا۔‘‘

(پیغام صلح، روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 442)

پس یہ ہیں وہ خوبصورت باتیں جن سے معاشرے میں امن اور رواداری قائم ہو سکتی ہے۔ آج کل مسلمانوں کے خلاف یا بانی ٔاسلام حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف وقتاً فوقتاً باتیں کی جاتی ہیں۔ وہ امن کو برباد کرنے میں تو شاید مددکر سکیں، ممد ہوں، امن قائم کرنے میں کوئی کردار ادا نہیں کر سکتیں۔ پس ہماری تعلیم تو یہ ہے کہ ہر مذہب کے ماننے والوں کی عزت کرو اور ہرمذہب کے بانی کی عزت کرو۔

پھر ایک غلط تصور اسلامی تعلیم اور تاریخ سے ناواقفیت کی وجہ سے یہ قائم ہو گیا ہے کہ اسلام شدت پسند مذہب ہے اور زبردستی اس تعلیم کی وجہ سے ابتدا میں لوگوں کو اسلام میں داخل کیا گیا ہے اور اب بھی اسی طرح کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ یہ ایک ایسا الزام ہے جس کی کوئی بنیاد نہیں ہے۔ قرآن کریم کو جب ہم دیکھیں تو بےشمار جگہ قرآن کریم جبر کی تعلیم کی نفی کرتا ہے اور جبر سے روکتا ہے جیسا کہ فرمایا وَلَوْ شَآءَ رَبُّكَ لَاٰمَنَ مَنْ فِي الْاَرْضِ كُلُّهُمْ جَمِيْعًا اَفَاَنْتَ تُكْرِهُ النَّاسَ حَتّٰى يَكُوْنُوْا مُؤْمِنِيْنَ۔(یونس:100)اور اگر تیرا رب چاہتا تو جو بھی زمانے میں بستے ہیں اکٹھے سب کے سب ایمان لے آتے تو کیا تُواُن لوگوں کو مجبور کر سکتا ہے حتی ٰکہ وہ ایمان لانے والے ہو جائیں؟ پس اگر دنیا کو جبر سے منوانا ہوتا تو خدا تعالیٰ یہ نہ فرماتا کہ تو لوگوں کو اسلام لانے کے لیے مجبور نہیں کر سکتا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے مجھ میں یہ طاقت ہے کہ میں سب کو مسلمان بنا سکتا ہوں لیکن میں نے یہ نہیں کیا اور جب اللہ تعالیٰ نے نہیں کیا تو پھر نہ ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور نہ ہی آپ کے ماننے والوں کو یہ اختیار ہے کہ کسی کو جبر سے مسلمان بنا لیں۔

پس تبلیغ کا حکم ہے، اسلام کا پیغام پہنچانے کا حکم ہے، دوسروں کو راستہ دکھانے کا حکم ہے اور یہ راستہ دکھا کر پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہوَ قُلِ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّكُمْ فَمَنْ شَآءَ فَلْيُؤْمِنْ وَّ مَنْ شَآءَ فَلْيَكْفُرْ۔ (الکہف:30) اور کہہ دے کہ حق وہی ہے جو تمہارے رب کی طرف سے ہے پس جو چاہے وہ ایمان لے آئے اور جو چاہے سو انکار کر دے۔ پس اللہ تعالیٰ نے یہ بتا دیا کہ یہ تعلیم سچی ہے، تمہارے فائدے کے لیے ہے۔ مان لو تو بہتر ہے، نہ مانو تو پھر تمہاری مرضی ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ اگلے جہان میں حساب کتاب کرے گا ،پھر دنیا کا معاملہ ختم ہو گیا۔ اس دنیا میں مذہب نہ ماننے کی وجہ سے کسی کو زبردستی کا حق نہیں ہے۔ پس

اسلام دنیا میں مذہب کی وجہ سے کسی کو سزا نہیں دے رہا،

یہ تو مسلمانوں کے بعض علماء نے غلط تشریحیں کر کے، تفسیریں کر کے اسلام کو بدنام کر دیا ہے۔ اگر اسلام کی تاریخ کو دیکھیں اور قرآن کریم کو دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ لوگوں نے اگر اسلام کی تعلیم قبول کرنے سے انکار کیا تو یہ بات کر کے کیا کہ ہم اسلام کو قبول کر کے گھر سے بے گھر ہو جائیں گے، وطن سے بے وطن ہو جائیں گے۔ جیسا کہ قرآن کریم فرماتا ہے وَ قَالُوْٓا اِنْ نَّتَّبِعِ الْهُدٰى مَعَكَ نُتَخَطَّفْ مِنْ اَرْضِنَا اَوَ لَمْ نُمَكِّنْ لَّهُمْ حَرَمًا اٰمِنًا يُّجْبٰٓى اِلَيْهِ ثَمَرٰتُ كُلِّ شَيْءٍ رِّزْقًا مِّنْ لَّدُنَّا وَ لٰكِنَّ اَكْثَرَهُمْ لَا يَعْلَمُوْنَ۔ (القصص: 58) اور انہوں نے کہا اگر ہم تیرے ہمراہ ہدایت کی پیروی کریں گے تو ہم اپنے وطن سے نکال پھینکے جائیں گے۔ کیا ہم نے انہیں پر امن حرم میں سکونت نہیں بخشی؟ (اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یہ تو یہی کہتے ہیں لیکن کیا ہم نے حرم میں سکونت نہیں بخشی) جس کی طرف ہر قسم کے پھل لائے جاتے ہیں اور یہ ہماری طرف سے بطور رزق ہیں لیکن ان میں سے اکثر علم نہیں رکھتے۔

پس یہاں تو غیر مسلموں کے خوف سے اسلام قبول نہیں کیا جا رہا، ان لوگوں کے خوف سے اسلام نہیں قبول کیا جارہا جو اسلام کے خلاف ہیں۔ کہتے ہیں کہ اگر ہم نے تجھے مان لیا تو یہ لوگ تو ہمیں کھا جائیں گے، ختم کر دیں گے یا ہمیں غلام بنا لیں گے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اگر یہ عقل سے کام لیں تو دیکھیں کہ ہمیشہ اللہ تعالیٰ نے مکہ کی حفاظت فرمائی ہے اور یہاں ہر قسم کی نعمتیں جمع کی ہیں لیکن نہیں، یہ اس بات کو نہیں دیکھتے اور دنیا کا خوف غالب ہے اور اسلام کو قبول کرنے سے محروم ہو رہے ہیں۔ پس یہاں خوف ہے اور اپنا امن برباد ہونے کا خطرہ ان کو پیش ہے، اسلام سے کوئی خطرہ نہیں ہے بلکہ دنیاوی بادشاہوں سے خطرہ ہے۔

افسوس ہے کہ آج مسلمان حکومتیں اس بات کو نہیں سمجھ رہیں اور اسلام کی تعلیم کے بارے میں بھی غلط تصور قائم ہو رہا ہے کہ نعوذ باللہ یہ شدت پسند اور شر پھیلانے والا مذہب ہے۔

اگر آج بھی مسلمانوں کے عمل اس تعلیم کے مطابق ہو جائیں تو دنیا کی اسلام کی طرف توجہ پیدا ہو جائے اور مسلمان بھی دیکھیں گے کہ خدا تعالیٰ کی طرف حقیقی رجوع سے اور دنیاوی خداؤں کو چھوڑنے سے جہاں دنیا میں امن قائم ہو گا وہاں مسلمانوں کی اپنی ساکھ اور عزت اور وقار بھی کئی گنا بڑھے گا۔ اور یہ اس وقت ہو گا جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام صادق اور زمانے کے امام کو مانیں گے جو دنیا میں امن و سلامتی کے قیام کے لیے اللہ تعالیٰ نے بھیجا ہے۔

پھر

اللہ تعالیٰ نے امن قائم کرنے کے لیے ایک یہ اصول بتایا ہے

اور یہ اصول اپنوں سے لے کر غیروں تک ہر ایک پر لاگو ہوتا ہے۔ اپنے معاشرتی چھوٹے چھوٹے جھگڑوں سے لے کر دشمن کی بڑی بڑی تدبیروں اور دشمنیوں پر یہ حاوی ہے اور وہ ہے کہ

کسی غلطی اور دشمنی پر معاف کرنا یا سزا دینا۔

اور یہ حکم دو مختلف موقعوں اور حالات کے مطابق ہے ۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے۔ وَ جَزٰؤُا سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِّثْلُهَا فَمَنْ عَفَا وَ اَصْلَحَ فَاَجْرُهٗ عَلَى اللّٰهِ اِنَّهٗ لَا يُحِبُّ الظّٰلِمِيْنَ۔(الشوریٰ: 41)اور بدی کا بدلہ کی جانے والی بدی کے برابر ہو تاہے پس جو کوئی معاف کرے بشرطیکہ وہ اصلاح کرنے والا ہو تو اس کا اجر اللہ پر ہے۔ یقیناً وہ ظالموں کو پسند نہیں کرتا۔ پس واضح ہو گیا، پہلی بات یاد رکھو کہ دشمنیوں کو اتنا نہ بڑھاؤ کہ ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو جائے۔ اس لیے اگر کوئی برائی کرتا ہے تو اس برائی کے برابر ہی اس کا بدلہ لینا چاہیے لیکن یاد رکھو کہ

بدلہ کینہ رکھنے اور دشمنیاں جاری رکھنے کے لیے نہیں ہے نہ انتقام ہے بلکہ مقصد اصلاح ہونا چاہیے

اور اس بات کو ہمیشہ سامنے رکھیں کہ اصلاح کس چیز سے ہوتی ہے سزا دینے سے، بدلہ لینے سے یا معاف کرنے سے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر معاف کرنے سے اصلاح ہوتی ہے تو معاف کر دو اور اس معاف کرنے کا اجر اللہ تعالیٰ کے پاس ہے۔

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے دشمن سے بھی دو قسم کے سلوک کی تعلیم دی ہے۔ سزا دینے کی یا معاف کرنے کی لیکن مقصد واضح کر دیا کہ مقصد اصلاح کرنا ہے۔ اگر ہم اس سوسائٹی کا تصور کریں جہاں دشمنیاں سالوں بلکہ نسلوں تک چلتی تھیں ان میں

اس حکم نے اسلام قبول کرنے کے بعد ایک انقلاب پیدا کر دیا۔

پرانے زمانے کے جہالت کے رویے آج بھی ہمیں بعض قوموں میں نظر آتے ہیں اور دشمنیوں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ چل رہا ہے اور مسلمانوں کے خلاف تو بغض و کینہ انتہا تک پہنچا ہوا ہے۔ اسی طرح مسلمانوں کے اندر بھی یہ بات ہے۔ بعض ترقی یافتہ ملکوں کے اپنے رہنے والے بعض لوگوں میں بلکہ سیاستدانوں میں بھی یہ بغض اور کینہ پل رہا ہے۔ بہرحال اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر امن قائم رکھنا ہے تو یہ تعلیم ہے، اس تعلیم کو جاری کرو گے تو یہی حقیقی سلامتی پہنچانے کا ذریعہ ہے۔ اگر دنیا اس اصول کو اپنا لے تو دنیا میں حقیقی امن قائم ہو گا اور بے جا عداوت اور دشمنی دور ہو گی۔ پس کوئی نہیں کہہ سکتا کہ یہ تعلیم ایسی ہے جس میں دشمنیوں کا مکمل خاتمہ نہیں ہے۔

پھر

امن قائم رکھنے کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ایک یہ سنہری اصول بتایا کہ ظالم اور مظلوم دونوں سے ہمدردی کرو۔

اب مظلوم سے ہمدردی تو واضح ہے کہ کس طرح کرنی ہے ظالم کی ہمدردی کس طرح کی جائے ؟تو آپؐ نے فرمایا کہ ظالم کو ظلم سے روک کر اس سے ہمدردی کرو۔

(صحیح البخاری کتاب الاکراہ باب من الاکراہ حدیث 6952)

پس ترقی یافتہ ممالک میں بھی اور ترقی پذیر ممالک میں بھی ،چاہے معاشرے کی بنیادی اور چھوٹی اکائی کو دیکھیں یا ملکوں کے اندر مختلف قومیتوں اور رنگ و نسل کے تعلقات میں دیکھیں یا ملکوں کی سطح پر بین الاقوامی تعلقات کو دیکھیں، اس چیز کی بہت بڑی کمی نظر آتی ہے۔ جو بھی فریقین میں فیصلہ کرنے والے ہیں، امن قائم کرنے والے ہیں ان کا میلان ایک طرف ہوتا ہے۔ یو این او (UNO)بنی ہوئی ہے، اس کا میلان بھی اب دیکھ لیں ایک طرف ہے۔ یا تو مظلوم سے اس حد تک ہمدردی کہ وہ ایک وقت میں آ کر ظالم بن جائے یا ظالم کی اس حد تک طرفداری کہ مظلوم کا جینا دوبھر ہو جائے۔ پس

پائیدار امن اس وقت قائم ہو سکتا ہے جب متوازن رویہ ہر سطح کے بااختیار لوگ اپنائیں۔

دونوں طرف کی باتیں اور نکتہ نظر سنیں اور پھر سمجھائیں اور کدورتوں کو دور کریں۔

پھر

ایک برائی جس سے اسلام بڑی سختی سے روکتا ہے بدظنی ہے۔

بدظنی سے انسان اپنے دل کو بھی دوسروں کے خلاف بغض اور کینے سے بھرتا ہے اورمعاشرے کا امن اور سکون بھی برباد کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ بدظنی گناہ ہے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اجْتَنِبُوْا كَثِيْرًا مِّنَ الظَّنِّ اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْمٌ وَّ لَا تَجَسَّسُوْا وَ لَا يَغْتَبْ بَّعْضُكُمْ بَعْضًا اَيُحِبُّ اَحَدُكُمْ اَنْ يَّاْكُلَ لَحْمَ اَخِيْهِ مَيْتًا فَكَرِهْتُمُوْهُ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ اِنَّ اللّٰهَ تَوَّابٌ رَّحِيْمٌ۔ (الحجرات: 13)اے لوگو جو ایمان لائے ہو! ظن سے بکثرت اجتناب کیا کرو۔ یقیناً بعض ظن گناہ ہوتے ہیں۔ اور تجسس نہ کیا کرو۔ اور تم میں سے کوئی کسی دوسرے کی غیبت نہ کرے ۔کیا تم میں سے کوئی یہ پسند کرتا ہے کہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے؟ پس تم اس سے سخت کراہت کرتے ہو۔ اور اللہ کا تقویٰ اختیار کرو۔ یقیناً اللہ بہت توبہ قبول کرنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے۔

پس ایک تو واضح فرمایا کہ بعض ظن گناہ کی طرف لے جاتے ہیں اور دوسرے فرمایا وَ لَا تَجَسَّسُوْا۔تجسس نہ کیا کرو اور دوسرے کے عیب تلاش نہ کیا کرو۔ بدظنی سے انسان دوسرے کے عیب تلاش کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ ایک بدظنی دل میں پیدا ہوئی اور فوری جس کے خلاف بدظنی پیدا ہوئی اس کے عیب تلاش کرنے شروع کر دیے۔

اللہ تعالیٰ کی تعلیم پر عمل کرنے والا بدظنی کے بجائے حسن ظنی رکھتا ہے اور حسن ظن رکھنے والا دوسرے کے عیب تلاش کر ہی نہیں سکتا۔

صحابہ تو اس حد تک حسن ظن رکھتے تھے کہ اس کی مثال ہی نہیں ملتی۔ حضرت مصلح موعوؓد نے ایک موقع پر ایک صحابی کا حسن ظن کا واقعہ بیان کیا۔ اس واقعہ میں صرف حسن ظن ہی نہیں ہے بلکہ سچائی اور امانتداری کے اعلیٰ معیار کا بھی سبق ہے کہ اس کی وجہ سے کس طرح دشمنی دوستی میں بدل گئی اور امن اور بھائی چارے کی فضا قائم ہو گئی۔ واقعہ یوں ہے کہ حضرت عمر ؓکے دورِ خلافت میں ایک شخص پر قتل کا مقدمہ چلا اور اس مقدمہ میں اس شخص کے خلاف قضا نے فیصلہ دیا اور قاتل کو قتل کیے جانے کی سزا ہوئی۔ اس شخص نے یہ درخواست کی کہ میرے پاس بہت سے یتیموں کی امانتیں ہیں۔ مجھے اتنی مہلت دی جائے کہ میں جا کر ان امانتوں کو ادا کر آؤں اور اس کے لیے مجھے چند دن کی مہلت دے دیں۔ میں اتنے دن بعد حاضر ہو جاؤں گا۔ جب اس سے کوئی ضمانت مانگی گئی تو اس نے اِدھر اُدھر دیکھ کر وہاں کھڑے ہوئے ایک صحابی حضرت ابوذرؓ کی طرف اشارہ کیا کہ یہ میرے ضامن ہیں۔ جب ابوذرؓ سے پوچھا گیا کہ آپؓ اس کی ضمانت دینے کے لیے تیار ہیں تو انہوں نے کہا ہاں۔ اور اس ضمانت پر اس کو گھر جانے کی اجازت دے دی گئی۔ جب وہ مقررہ دن آیا جس دن اس شخص نے حاضر ہونا تھا تو صحابہ گھبراہٹ میں اِدھر اُدھر دیکھنے لگے کیونکہ بہت دیر ہو گئی تھی اور وہ شخص نہیں آیا تھا۔ بعض لوگوں نے حضرت ابوذرؓ سے پوچھا کہ کیا آپ کو معلوم ہے وہ شخص کون ہے جس کی آپ نے ضمانت دی ہے؟ انہوں نے کہا میں تو اسے ذاتی طور پر نہیں جانتا۔ صحابہ نے کہا عجیب بات ہے۔ اس کا جرم قتل تھا اور آپؓ نے بغیر اسے جاننے کے اس کی ضمانت دے دی۔ یہ آپ نے کیا کیا ہے؟ اگر وہ نہ آیا تو آپ کی جان جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ بےشک میں اسے نہیں جانتا لیکن

جب ایک مسلمان نے ضمانت کے لیے میرا نام لیا تو مَیں کس طرح انکار کر سکتا تھا اور کس طرح اس پر بد ظنی کر سکتا تھا۔

یہ ہے وہ معیار حسن ظنی کا جو صحابہ میں تھا۔ ایک شخص جس کو وہ جانتے بھی نہیں اس کی ضمانت صرف اس لیے دے دی کہ وہ بدظنی نہیں کرنا چاہتے تھے۔ بہرحال جب وقت بالکل ختم ہونے والا تھا تو لوگوں نے دور سے مٹی اُڑتی دیکھی اور دیکھا کہ ایک سوار گھوڑے کو تیز دوڑاتا ہوا آ رہا ہے۔ سب کی نظریں اس کی طرف تھیں۔ جب وہ قریب آیا تو دیکھا کہ یہ وہی شخص ہے جس کی ضمانت دی گئی تھی۔ وہ گھوڑے سے اترا اور کہا معاف کرنا مجھے امانتیں واپس کرتے ہوئے کچھ وقت لگ گیا تھا جس کی وجہ سے کچھ دیر ہو گئی۔ بہرحال خدا کا شکر ہے کہ میں وقت پر پہنچ گیا۔ اب میں تیار ہوں۔ جو سزا مقرر ہے میرے لیے مجھے دے دیں۔ اس کی اس بات کو ان لوگوں پر جن کا جرم کیا گیا تھا اتنا اثر ہوا کہ انہوں نے قاضی کو کہا کہ ہم نے اپنا جرم اس شخص کو معاف کیا۔ پس یہ وہ نیک ظن لوگ تھے جو بدظنی کرنا جانتے ہی نہیں تھے اور پھر اللہ تعالیٰ بھی ان کے حسن ظن کو پورا کر دیتا تھا۔

(ماخوذ از سیر روحانی (2)، انوار العلوم جلد 16 صفحہ 65تا 67)

اور یہ وہ لوگ تھے جو سچائی پر قائم تھے اور اپنی جان بھی سچائی پر قربان کرنے والے تھے۔ عہدوں کا پاس کرنے والے تھے۔ یہ وہ خصوصیات ہیں جن سے معاشرے میں امن قائم ہوتا ہے۔ سخت ترین دشمن کو سزا دلوانے کی کوشش معافی اور رحم میں بدل جاتی ہے۔

پھر اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں ظلم سے بھی روکا ہے

یہ کہہ کر کہ وَ لَا يَغْتَبْ بَّعْضُكُمْ بَعْضًا۔ ایک دوسرے کی غیبت نہ کیا کرو۔ غیبت بھی ایک طرح کا ظلم ہے۔ اس سے دوسرے کی عزت پر حملہ ہوتا ہے۔ جس کی غیبت کی جائے یا تو وہ غیبت کرنے والے کی کمزوریوں کا مجلسوں میں ذکر کرتا ہے یا پھر براہ راست لڑائی کرتا ہے۔ دونوں صورتوں میں معاشرے کا امن برباد ہوتا ہے۔ پس فرمایا کہ غیبت نہیں کرنی اور اسے نفرت دلانے کے لیے فرمایا کہ غیبت کرنا ایسا ہی ہے جیسے اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانا جس سے ہر ایک کو سخت کراہت آتی ہے۔ پس اسلام نے تو امن اور سلامتی کے قائم کرنے کے یہ معیار قائم کیے ہیں۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام اس بارے میں فرماتے ہیں ’’بعض گناہ ایسے باریک ہوتے ہیں کہ انسان ان میں مبتلا ہوتا ہے اور سمجھتا ہی نہیں ۔جوان سے بوڑھا ہو جاتا ہے مگر اسے پتہ نہیں لگتا کہ گناہ کرتا ہے۔ مثلاً گلہ کرنے کی عادت ہوتی ہے۔ ایسے لوگ اس کو بالکل ایک معمولی اور چھوٹی سی بات سمجھتے ہیں حالانکہ قرآن شریف نے اس کو بہت ہی بڑا قرار دیا ہے۔ چنانچہ فرمایا ہے۔ اَيُحِبُّ اَحَدُكُمْ اَنْ يَّاْكُلَ لَحْمَ اَخِيْهِ مَيْتًا خدا تعالیٰ اس سے ناراض ہوتا ہے کہ انسان ایسا کلمہ زبان پر لاوے جس سے اس کے بھائی کی تحقیر ہواور ایسی کارروائی کرے جس سے اس کو حر ج پہنچے۔ ایک بھائی کی نسبت ایسا بیان کرنا جس سے اس کا جاہل اور نادان ہونا ثابت ہو یااس کی عادت کے متعلق خفیہ طور پر بے غیرتی یا دشمنی پیدا ہو۔ یہ سب بُرے کام ہیں۔‘‘

(ملفوظات جلد 8 صفحہ 372-373)

پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَ لَا تَاْكُلُوْٓا اَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ(البقرۃ: 189) یعنی جھوٹ اور فریب سے ایک دوسرے کے اموال نہ کھایا کرو کیونکہ یہ ظلم ہے، اس سے پھر رنجشیں اور جھگڑے پیدا ہوتے ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ معاشرے میں جبکہ مادیت کی دوڑ بہت زیادہ ہو چکی ہے غلط رنگ میں دھوکا دے کر ایک دوسرے کا مال کھانے کی کوشش کی جاتی ہے بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی یہ ظلم ہو رہا ہے۔ امیر ممالک غریب ممالک کی دولت غلط رنگ میں مختلف حیلوں بہانوں سے کھا رہے ہیں۔ اب تو بعض افریقن ممالک یہ شور مچانے لگ گئے ہیں کہ ہمیں آزادی دینے کے بعد ان بڑے ممالک نے غلط رنگ میں ہماری دولت پر اس بہانے سے قبضہ کیا ہوا ہے کہ ہم تمہاری ترقی اور حفاظت پر خرچ کر رہے ہیں اور ہر سال کئی کئی ملین ڈالرز اس نام پر لے جاتے ہیں جس کے نتیجہ میں اب ان ممالک میں ترقی یافتہ ملکوں کے لیے نفرتیں بڑھ رہی ہیں جس کا نتیجہ بہت خوفناک ہو سکتا ہے کیونکہ یہ رقم لے جانے کے بعد ان پر خرچ نہیں کی جاتی بلکہ خود وہ امیر ممالک ہی کھا جاتے ہیں۔

اسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ بعض تجارتیں ظلم کا ذریعہ بن جاتی ہیں۔ چھوٹی سطح پر بھی اور بڑی سطح پر بڑی تجارتوں کی شکل میں بھی۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس ظلم سے بچنے کی تلقین فرمائی ہے کہ یہ ظلم معاشرے اور دنیا کے امن اور سلامتی کو برباد کرنے کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ وَيْلٌ لِّلْمُطَفِّفِيْنَ۔الَّذِيْنَ اِذَا اكْتَالُوْا عَلَى النَّاسِ يَسْتَوْفُوْنَ۔وَ اِذَا كَالُوْهُمْ اَوْ وَّ زَنُوْهُمْ يُخْسِرُوْنَ۔ (المطفّفین:2تا4) ہلاکت ہے تول میں ناانصافی کرنے والوں کے لیے یعنی وہ لوگ کہ جب وہ لوگ تول لیتے ہیں تو بھرپور پیمانوں کے ساتھ لیتے ہیں اور جب ان کو ماپ کر یا تول کر دیتے ہیں تو کم دیتے ہیں۔

پس

اسلام لعنت اور ہلاکت بھیجتا ہے ان لوگوں پر جو دوسروں کے حقوق غصب کرتے ہیں۔

اپنے لیے ان کے اَور پیمانے ہیں اور دوسروں کے لیے اَور پیمانے ہیں۔ ان آیات میں اسلام نے ہر قسم کے ظلم سے روک دیا ہے اور اس طرح سے جان مال اور عزت کو محفوظ کر دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ تعلیم دی ہے۔ کیا یہ صرف تعلیم دینے کی حد تک ہے یا مسلمان لوگوں نے اس پر عمل بھی کر کے دکھایا ہے؟ ہم کہتے تو ہیں ناں کہ اسلام کی بڑی خوبصورت تعلیم ہے۔ کیا اس پر کبھی عمل بھی ہوا؟ کیونکہ آج کل تو ہمیں نظر نہیں آتا۔ عام مسلمانوں میں آج کل تو ہمیں شاید مشکل سے ہی اس کی مثالیں نظر آئیں۔ لیکن

احمدیوں کو جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مانا ہے ایسی مثالیں قائم کرنی چاہئیں جیسی صحابہ نے قائم فرمائی تھیں۔

کوئی ہم پر یہ انگلی نہ اٹھائے کہ کہتے تو یہ ہیں کہ ہم میں یہ فرق اور یہ فرق، ہم نے مسیح موعود کو مان لیا۔ مان کر اپنے آپ میں فرق کیا پیدا کیا؟ پس ہمارا فرق واضح نظر آنا چاہیے تبھی ہم کہہ سکتے ہیں کہ مسیح موعود کو مان کر ہمارا آخرین میں شمار ہوا ہے۔ صحابہ کی کیا مثالیں تھیں، کس طرح انہوں نے دوسروں کے مال اور جانوں کی حفاظت کی، امانتوں کی حفاظت کی۔ ایک مثال تو میں پہلے دے آیا ہوں کس طرح ایک حقیقی مومن کو فکر تھی کہ مرنے سے پہلے لوگوں کی، یتیموں کی، کمزوروں کی امانتیں واپس کر دوں پھر چاہے مجھے قتل کر دو کوئی پروا نہیں ہے۔ ایسی حفاظت ہے کہ شاید آج کل کے بینکوں میں بھی اس طرح امانتیں محفوظ نہ ہوں۔

ایک اَور صحابی کا واقعہ ہے کہ وہ بازار میں گھوڑا فروخت کرنے کے لیے لائے اور اس کی قیمت انہوں نے دو سو دینار بتائی۔ وہاں بازار میں ایک دوسرے صحابی نے انہیں کہا کہ تمہارے سے یہ گھوڑا میں خریدنا چاہتا ہوں لیکن تم اس کی قیمت کم بتا رہے ہو۔ اس کی قیمت دو سو دینار نہیں بلکہ پانچ سو دینار ہے اور یہی حقیقی قیمت ہے۔اس پر پہلے صحابی نے کہا کہ کیا تم نے مجھے صدقہ کھانے والا سمجھا ہوا ہے کہ میں اس کی زیادہ قیمت لے لوں تمہارے سے؟ اس کی اصل قیمت دو سو دینار ہی ہے۔ اب یہاں اس بات پر جھگڑا شروع ہو گیا ،بحث شروع ہو گئی کہ بیچنے والا کہتا ہے کہ میں دو سو دینار لوں گا اور خریدنے والا کہتا تھا کہ میں پانچ سو دینار دوں گا۔

(ماخوذ از سیر روحانی (2)، انوار العلوم جلد 16 صفحہ 67)

پس جہاں ایسے لوگ ہوں جن کا ایمانداری کا یہ معیار ہو اس معاشرے میں امن بھی کس شان کا ہو گا۔ پس ایسی مثالیں ہیں جنہوں نے اسلام کی تعلیم کی عملی شکل دکھائی ہے۔ آج کل کے لوگ ہنسیں گے کہ کتنا بیوقوف ہے وہ شخص جو مفت میں آئے منافع کو رد کر رہا ہے۔ بے ایمانی نہیں کر رہا ۔اپنی طرف سے صاف صاف بتا دیا کہ اس کی اتنی قیمت ہے لیکن خریدار زبردستی زیادہ دے رہا ہے تو لے لو لیکن نہیں۔ اگر وہ ایسا کرے تو اس کے اپنے خیال میں اسلام کی تعلیم کے خلاف جاتا ہے اور یہی حقیقت بھی ہے۔ اپنے خیال کے مطابق وہ کسی صورت میں گوارا نہیں کرسکتا کہ اسلام کی تعلیم کے خلاف کوئی عمل ہو ۔لیکن آج کل تو ہم دیکھتے ہیں کہ جتنا کوئی امیر اور مالدار شخص ہو اتنا ہی اس میں لالچ ہوتا ہے اور دوسرے کو لوٹنے کی کوشش کرتا ہے اور چند روپوں کے لیے اتنی لمبی بحثیں کرتا ہے کہ جس کی انتہا نہیں۔ اسی طرح امیر قومیں ہیں، غریب قوموں کو لوٹنے کی کوشش کرتی ہیں جیسا کہ میں نے بتایا کہ اب افریقہ کے غریب ممالک میں اس بات کا احساس پیدا ہو رہا ہے کہ یہ امیر قومیں ہمیں ہماری بہتری اور حفاظت کے نام پر لُوٹ رہی ہیں اور دوسرے جب تجارت کرتے ہیں تو غریب یا کم ترقی یافتہ یا ترقی پذیر ممالک سے سامان سستے داموں خریدتے ہیں اور واپس انہیں ان کے خام مال سے بنی ہوئی چیز جو ہے غیر معمولی منافعوں پہ بیچتے ہیں۔ اس طرح غریب ملکوں کی لیبر سے انتہائی سستے داموں سامان تیار کرواتے ہیں اور خود پھر اس کو بے انتہا منافع پر بیچتے ہیں اور اس میں ان غریب ملکوں کے لوگ اور امرا ءبھی شامل ہیں جو کم اور بالکل معمولی مزدوری پر مجبوروں سے سامان تیار کرواتے ہیں جس سے غریب کے خاندان کی دو وقت کی روٹی بھی مشکل سے چلتی ہے لیکن امیر لوگ ان کی چیزوں سے اربوں منافع کما رہے ہوتے ہیں اور یہی چیز جو ہے وہ بے چینیاں پیدا کر رہی ہے اور ایک وقت میں پھر غریب لاوے کی طرح پھٹے گا کیونکہ دنیا میں جو رابطوں کی وجہ سے awareness ہو گئی ہے، احساس ہو گیا ہے، ایک دوسرے کی خبریں پہنچنے لگ گئی ہیں اس نے غریب کی خواہشات کو بڑھا دیا ہے اور جب وہ دیکھتا ہے کہ اس بارے میں مجھ سے ناانصافی ہو رہی ہے تو پھر بے چینی بڑھتی ہے اور امن برباد ہوتا ہے۔

پس اسلام کہتا ہے کہ اس بے چینی کو دور کرنے کے لیے ہر قسم کے لین دین میں دوسروں کے حقوق کا خیال رکھو یہی دیرپا امن اور سلامتی کا ذریعہ ہے۔

پھر

امن و سلامتی کو برباد کرنے میں تکبر ایک بہت بڑی وجہ ہے۔

تکبر کی وجہ سے دوسروں پہ ظلم ہوتا ہے اور حق تلفی کی جاتی ہے۔ اسلام اس کو سختی سے روکتا ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَ لَا تَمْشِ فِي الْاَرْضِ مَرَحًا اِنَّكَ لَنْ تَخْرِقَ الْاَرْضَ وَ لَنْ تَبْلُغَ الْجِبَالَ طُوْلًا۔ (بنی اسرائیل: 38)اور زمین میں اکڑ کر نہ چل۔ تُو یقیناً زمین کو پھاڑ نہیں سکتا اور نہ قامت میں پہاڑوں کی بلندی تک پہنچ سکتا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تکبر کس بات کا ہے؟ تُو یقیناً زمین کو پھاڑ نہیں سکتا ،تُو زمین سے کہیں باہر نہیں نکل سکتا۔ زمین کے ذرائع اور وسائل ہی ہیں جو تیری بقا کا ذریعہ ہیں، تیرے غریب بھائی یا غریب لوگ جو تیرے ارد گرد ہیں ان سے ہی تو کام لیتا ہے جتنا چاہے بڑا کارخانہ دار ہو، امیر آدمی ہو اس کے مددگار یہی لوگ ہیں۔ اگر یہ نہ ہوں تو امیر کچھ بھی نہیں کر سکتا۔ پس یہ احساس ہر بڑے اور جس کے دل میں تکبر ہے اسے دل میں پیدا کرنا چاہیے کہ جن لوگوں کو وہ تکبر کی وجہ سے رعونت سے دیکھتا ہے یہی لوگ اس کے مددگار ہیں جن کے بغیر اس کی زندگی آرام دہ نہیں ہو سکتی۔ پس یہ احساس جب پیدا ہو جائے تو امیر کو غریب کا حق مارنے کا خیال پیدا نہیں ہو سکتا۔ پس اللہ تعالیٰ بندوں کو نصیحت فرماتے ہوئے فرماتا ہے کہ تکبر نہ کرو اور ارد گرد کے لوگوں کو ذلیل نہ سمجھو، حقیر نہ سمجھو۔ اگر تم نے اپنے سے کم لوگوں کی عزت نفس کا خیال نہ رکھا تو لوگ تم سے دور ہٹتے چلے جائیں گے اور تم بھی امن میں نہیں رہ سکو گے اور پھر سختی کرنے اور دوسروں کو حقیر سمجھنے اور ان کے حقوق ادا نہ کرنے سے یہ ردعمل پیدا ہو گا کہ یہ غریب تمہارے خلاف ہوں گے اور اس طرح عوام کا خلاف ہونا، حکومت کے خلاف پھر بغاوت کا رنگ اختیار کر لیتا ہے اور پھر معاشرے اور ملک کا امن اور سکون برباد ہو جاتا ہے۔

پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ وَ لَنْ تَبْلُغَ الْجِبَالَ طُوْلًا ۔ یاد رکھو کہ اس طرح کے لوگ حقوق غصب کر کے اور ان سے فاصلہ رکھ کر قوم کے سردار نہیں بن سکتے۔ جبال سردار اور بڑے امراء کو بھی کہتے ہیں۔ پس

تکبر کر کے کوئی حقیقی مقام نہیں ملتے، عاجزی ہی ہے جو حقیقی سرداری دیتی ہے اور لیڈر بناتی ہے اور یہی سرداری ہے جو دیرپا امن قائم کرنے والی بن سکتی ہے۔

قومی ظلموں کا ذکر کرتے ہوئے ایک جگہ حضرت مصلح موعو دؓ نے فرمایا کہ

قومی ظلموں میں سے ایک اخلاقی ظلم قوم کے اخلاق کو بگاڑنا ہوتا ہے۔

اللہ تعالیٰ بنی نوع انسان کو اس سے بھی روکتا ہے اور فرماتا ہے۔ لَا يُحِبُّ اللّٰهُ الْجَهْرَ بِالسُّوْٓءِ مِنَ الْقَوْلِ اِلَّا مَنْ ظُلِمَ وَ كَانَ اللّٰهُ سَمِيْعًا عَلِيْمًا۔(النساء: 149)اللہ سر عام بری بات کہنے کو پسند نہیں کرتا مگر جس پر ظلم کیا گیا ہو اور اللہ بہت سننے والا اور دائمی علم رکھنے والا ہے۔ حضرت مصلح موعوؓد نے اس کی تشریح مختلف کی ہے۔ آپؓ فرماتے ہیں کہ لوگ اس کے یہ معنی کرتے ہیں کہ اگر کوئی مظلوم ہو تو اسے بےشک اجازت ہے کہ وہ برسر عام جو جی میں آئے کہتا پھرے لیکن کسی اَور کو اس کی اجازت نہیں ہے مگر میرے نزدیک اس آیت کا اصلی مفہوم یہ ہے کہ اگر کوئی مظلوم ہو تب بھی یہ پسندیدہ بات نہیں کہ لوگوں میں برائیاں بیان کرتا پھرے۔ گویا اللہ تعالیٰ ہر ایک کو اس طریقے سے روکتا ہے اور فرماتا ہے تُو جو اپنے ظلم کے خلاف شور مچاتاہے تجھے یہ سمجھنا چاہیے کہ تُو اپنے ظلم کے متعلق تو شور مچا رہا ہے اور قوم کے اخلاق کو تباہ کر رہا ہے۔ جیسے اگر کوئی گندی گالیاں دینی شروع کر دے اور پاس سے عورتیں گزر رہی ہوں اور شریف لوگ گزر رہے ہوں تو اس کوروکتے ہیں اور کہتے ہیں کہ تجھے شرم نہیں آتی کہ تُو لوگوں کے اخلاق خراب کر رہا ہے۔ بچے بھی ہیں، عورتیں بھی ہیں ایسے لوگ بھی ہیں جن کو یہ گندی باتیں برداشت نہیں ہوتیں۔ اس طرح اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تُو شور کس بات پر مچا رہا ہے؟ کیا اس بات پر کہ تجھ پر ظلم ہوا ہے ؟مگر تجھے اتنی سمجھ نہیں کہ تُو اپنے ظلم پر شور مچا رہا ہے اور ساری قوم پر ظلم کر رہا ہے۔

(ماخوذ از سیر روحانی (2) انوار العلوم جلد 16 صفحہ 69)

پس یہاں مظلوم کو بھی توجہ دلائی کہ حق لینا ہے، ظلم کا بدلہ لینا ہے تو متعلقہ ادارے تک جاؤ اور فیصلہ کا انتظار کرو۔

اسی طرح اپنی حالت کو بھی دیکھو کہ کہیں کسی وقت تم سے بھی ظلم سرزد ہوا یا تم بھی کبھی کسی پر ظلم کرنے والے بن جاؤ۔ یہ بھی توہو سکتا ہے۔ یہاں مظلوم کو بھی کہہ دیا کہ ایک طرف مظلوم بن کر پھر خود ہی ظالم نہ بن جاؤ ۔ پس اسلام ایک کا حق دے کر دوسرے کا حق بھی قائم کرتا ہے تا کہ امن اور سلامتی کی فضا قائم رہے۔

پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَ اعْبُدُوا اللّٰهَ وَ لَا تُشْرِكُوْا بِهٖ شَيْـًٔا وَّ بِالْوَالِدَيْنِ اِحْسَانًا وَّ بِذِي الْقُرْبٰى وَ الْيَتٰمٰى وَ الْمَسٰكِيْنِ وَ الْجَارِ ذِي الْقُرْبٰى وَ الْجَارِ الْجُنُبِ وَ الصَّاحِبِ بِالْجَنْۢبِ وَ ابْنِ السَّبِيْلِ وَ مَا مَلَكَتْ اَيْمَانُكُمْ اِنَّ اللّٰهَ لَا يُحِبُّ مَنْ كَانَ مُخْتَالًا فَخُوْرَا۔ (النساء: 37)کہ اللہ کی عبادت کرو اور کسی چیز کو اس کا شریک نہ ٹھہراؤ اور والدین کے ساتھ احسان کرو اور قریبی رشتہ داروں سے بھی اور یتیموں سے بھی اور مسکین لوگوں سے بھی اور رشتہ دار ہمسایوں سے بھی اور غیر رشتہ دار ہمسایوں سے بھی اور اپنے ہم جلیسوں سے بھی اور مسافروں سے بھی اور ان سے بھی جن کے تمہارے داہنے ہاتھ مالک ہوئے۔ یقیناً اللہ اس کو پسند نہیں کرتا جو متکبر اور شیخی بگھارنے والا ہے۔

جیسا کہ اس آیت میں ہے کہ اللہ کی عبادت کرو اور کسی کو اس کا شریک نہ ٹھہراؤ یعنی توحید کا قیام کرو اور جب توحید کے حقیقی ماننے والے ہو گے تو پھر دوسروں پر ظلم بھی نہیں کرو گے۔ ساتھ ہی

ان لوگوں کی فہرست بھی دے دی جن سے حسن سلوک ایک مومن کے لیے ضروری ہے

اور اس کے مطابق اگر انسان زندگی گزارے تو امن برباد کرنے والے تمام اسباب کا خاتمہ ہو جاتا ہے۔ معاشرے کے تمام لوگ جن سے اس کا واسطہ پڑتا ہے اس میں آ جاتے ہیں۔ والدین کے ساتھ ان رشتوں اور تعلقوں کا بھی ذکر کرکے بتا دیا کہ ان تعلقات کی کیا اہمیت ہے اور پھر آخر میں تنبیہ کی کہ اللہ تعالیٰ کسی متکبر اور شیخی بگھارنے والے کو پسند نہیں کرتا۔ تکبر کے بارے میں پہلے ذکر ہو چکا ہے کہ کس طرح اللہ تعالیٰ تکبر کرنے والے کو تنبیہ فرما رہا ہے کہ

حقوق کی ادائیگی ہی امن اور سلامتی کی ضمانت ہے۔

ہم معاشرے کے تعلقات میں دیکھتے ہیں کہ بہت سے مسائل اور جھگڑے اور بے امنی کی صورت حال انسانوں میں آپس میں غصہ کی حالت پیدا ہونے سے ہوتی ہے۔ جب انسان پر غصہ غالب آ جائے تو پھر جھگڑے شروع ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو ایک اصولی ہدایت فرما دی اور خصوصیات بیان فرمائیں کہ ہم نے تمہیں اُمَّةً وَّسَطًا (البقرہ: 144) بنایا ہے یعنی ایسی امت جو اعتدال پر چلنے والی ہو۔ غصہ اور محبت کے معاملہ میں بھی اس اصول کو سامنے رکھو۔ نہ غصہ میں اتنے بہ جاؤ کہ معافی کی کوئی صورت ہی نہ ہو اور نہ محبت میں اتنا بہ جاؤ کہ جو نقصان دہ حد تک ہو جائے۔ محبت میں انسان پھر انصاف کے تقاضے پورے نہیں کرتا۔ پس فرمایا کہ اس اصول کے تحت غصہ کی بھی ایک حدہونی چاہیے اور محبت کی بھی ایک حد ہونی چاہیے۔ بدقسمتی سے مسلمانوں میں اب اس کی بہت زیادہ کمی ہو گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے۔ وَ الْكٰظِمِيْنَ الْغَيْظَ وَ الْعَافِيْنَ عَنِ النَّاسِ وَ اللّٰهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِيْنَ۔ (آل عمران: 135)غصہ دبانے والے اور لوگوں سے درگذر کرنے والے ہیں اور اللہ احسان کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔ یعنی مسلمان تو وہ لوگ ہیں جن کی خصوصیت غصہ کو دبانا ہے اور معاف کرنا ہے اور یہی اصول ہے جو مسلمان کی صحیح تصویر کھینچتا ہے۔ یہی اصول ہے جس سے دشمنیاں ختم ہوتی ہیں۔ یہی اصول ہے جس سے معاشرہ میں صلح اور صفائی کی فضا قائم ہوتی ہے اور یہی اصول ہے جس سے امن اور سلامتی کا پیغام ہر طرف پہنچتا ہے۔ اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام فرماتے ہیں:

’’یاد رکھو کہ عقل اور جوش میں خطر ناک دشمنی ہے۔ جب جوش اور غصہ آتا ہے تو عقل قائم نہیں رہ سکتی لیکن جو صبر کرتا ہے اور بردباری کا نمونہ دکھاتا ہے اس کو ایک نور دیا جاتا ہے جس سے اس کی عقل و فکر کی قوتوں میں ایک نئی روشنی پیدا ہو جاتی ہے اور پھر نور سے نور پیدا ہوتا ہے۔ غصہ اور جوش کی حالت میں چونکہ دل و دماغ تاریک ہوتے ہیں اس لئے پھر تاریکی سے تاریکی پیدا ہوتی ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد 3 صفحہ 180)

پھر آپؑ فرماتے ہیں ’’یاد رکھو جو شخص سختی کرتا ہے اور غضب میں آ جاتا ہے اس کی زبان سے معارف اور حکمت کی باتیں ہرگز نہیں نکل سکتیں۔ وہ دل حکمت کی باتوں سے محروم کیا جاتا ہےجو اپنے مقابل کے سامنے جلدی طیش میں آ کر آپے سے باہر ہو جاتا ہے۔ گندہ دہن اور بے لگام کے ہونٹ لطائف کے چشمہ سے بےنصیب اور محروم کئے جاتے ہیں۔ غضب اور حکمت دونوں جمع نہیں ہوسکتے۔ جو مغضوب الغضب ہوتا ہے اس کی عقل موٹی اور فہم کند ہوتا ہے۔ اس کوکبھی کسی میدان میں غلبہ اور نصرت نہیں دئیے جاتے۔ غضب نصف جنون ہے جب زیادہ بھڑکتا ہے تو پورا جنون ہو سکتا ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد 5 صفحہ 126-127)

پھر آپؑ نے فرمایا ’’ہماری شریعت کا یہ حکم ہے کہ موقع دیکھو۔ اگر نرمی کی ضرورت ہے خاک سے مل جاؤ۔ اگر سختی کی ضرورت ہے سختی کرو۔ جہاں عفو سے صلاحیت پید اہوتی ہو وہاں عفو سے کام لو۔ نیک اور باحیا خدمت گار اگر قصور کرے تو بخش دو مگر بعض ایسے خیرہ طبع ہوتے ہیں کہ ایک دن بخشو تو دوسرے دن دگنا بگاڑ کرتے ہیں۔ وہاں سزا ضروری ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد 2 صفحہ 317)

پس ہر قسم کی تعلیم اسلام دیتا ہے اور یہی تعلیم ہے جس سے امن اور سلامتی کی فضا پیدا ہوتی ہے۔ عموماً مومن کو عفو کی عادت ہونی چاہیے لیکن جہاں عادی مجرم ہوں وہاں پھر اصلاح کے لیے سزا بھی ہونی چاہیے۔ اسلام کی تعلیم کا اصل مقصد معاشرے کی اصلاح ہے، سزا دینا نہیں ہے اور اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے ایک مومن کو کوشش کرنی چاہیے۔ پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم غصہ کو دبا لو اور معاف کر دو تو اس کے بعد پھر احسان کا رنگ بھی اختیار کرو کیونکہ وَ اللّٰهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِيْنَ۔(آل عمران: 135) کہ اللہ تعالیٰ احسان کرنے والوں کو پسند کرتا ہے، ان سے محبت کرتا ہے۔

اس احسان کی خصوصیت کو بیان فرماتے ہوئے ایک دوسری جگہ فرمایا کہ اِنَّ اللّٰهَ يَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَ الْاِحْسَانِ وَ اِيْتَاءِ ذِي الْقُرْبٰى۔ (النحل:91) یعنی اللہ عدل کا اور احسان کا اور اقربا پر کی جانے والی عطا کی طرح عطا کا حکم دیتا ہے۔

قرآن کریم کا یہ حکم ایسا حکم ہے کہ اس پر اگر حقیقت میں عمل کیا جائے تو ہر طبقہ اور ہر سطح پر امن و سلامتی کی غیر معمولی فضا پیدا کی جا سکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے پہلی بات بتائی کہ عدل کا سلوک آپس میں کرو۔

یعنی برابری کا معاملہ ہو۔ اگر کسی ظلم کا بدلہ لینا ہے تو اس حد تک جتنا ظلم ہوا ہے اور وہ بھی صاحب اختیار کے پاس جا کےمعاملہ پیش کرو۔ آپس کے تعلقات میں بعض دفعہ بعض لوگ اس حد تک کینہ ور ہو جاتے ہیں کہ کہتے ہیں کہ جب تک اس شخص نے جس نے مجھے نقصان پہنچایا ہے اسے اس حالت میں نہ لے آؤں جہاں وہ ناک رگڑنے لگ جائے اس وقت تک چھوڑوں گا نہیں۔ یہ رویہ جو ہے بالکل غلط ہے۔ اسلام اس کی نفی کرتا ہے۔ اسی طرح قوموں کی سطح پر ہم دیکھتے ہیں کہ ایک دوسرے کو آپس کے تعلقات خراب ہونے پر اس قدر نقصان پہنچایا جاتا ہے کہ وہ ملک اور قوم کئی دہائیوں تک اٹھنے کے قابل نہ رہیں اور یہ آج کل ہمیں اکثر بڑی طاقتوں کے رویوں میں نظر آتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس رویے سے منع کرتا ہے بلکہ حکم دیتا ہے کہ عدل سے کام لو۔

دوسرا درجہ احسان کا ہے۔

احسان یہ ہے کہ یہ نہیں دیکھنا چاہیے کہ دوسرا ہم سے کیا سلوک کرتا ہے بلکہ اگر وہ برا سلوک کرتا ہے تب بھی ہم اس سے اچھا سلوک کریں، اس سے عفو و درگذر کریں۔ اس بات میں عفو بھی آ جاتا ہے، درگذر بھی آجاتا ہے، غریب کی مدد بھی آ جاتی ہے، صدقہ و خیرات بھی ہے اور سب نیکیاں ہیں جو ذاتی بھی ہیں اور قومی بھی ہیں وہ سب اس میں شامل ہیں۔

پھر فرمایا کہ

احسان سے بڑھ کر بھی ایک چیز ہے وہ ہے اِيْتَاءِ ذِي الْقُرْبٰى

جس کا مطلب یہ ہے کہ بنی نوع سے ایسا سلوک کرو جیسا ایک رشتہ دار دوسرے رشتہ دار سے کرتا ہے۔ اس سلوک سے مراد احسان سے بڑھ کر سلوک ہے۔ ورنہ اسے علیحدہ بیان کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ اس سے مراد طبعی محبت کے تعلق کا سلوک ہے جس میں بدلہ میں کچھ لینے کا خیال نہ ہو۔ احسان کرتے ہوئے بعض ذاتی اغراض بیچ میں آ جاتی ہیں چاہے اتنی ہی بات دل میں آ جائے کہ اس حسن سلوک سے اس بندے کے میرے سے اچھے تعلقات ہو جائیں گے، اس سے حسن سلوک کروں۔ لیکن اِيْتَاءِ ذِي الْقُرْبٰى وہ سلوک ہے جو ماں کا اپنے بچے سے ہوتا ہے جس میں ماں کسی بدلے کے حاصل کرنے کے لیے بچے کو پیار اور پرورش اور حسن سلوک نہیں کر رہی ہے بلکہ ایک طبعی محبت ہے جو اسے مجبور کرتی ہے کہ وہ اپنے بچے سے بے غرض محبت کرے۔ پس

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایک دوسرے کے لیے ایسی محبت پیدا کرو، وہ مقام حاصل کرو جب تمہارے اندر لینے سے زیادہ دینے کا خیال آئے، یہ جذبہ پیدا ہو۔ سب بنی نوع تمہیں اپنے بچے نظر آئیں، ایک دوسرے کی خدمت کا ایک جوش ہو۔ پس جب ایسے سلوک ہوں اور یہ ماحول ہو تو وہ کتنا خوبصورت اور پر امن اور سلامتی والا معاشرہ ہوگا۔ کاش کہ مسلمان اس اصول کو سمجھ جائیں۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس بات کو خدا تعالیٰ کے حوالے سے بھی بیان فرمایا ہے اور بندوں کے حوالے سے بھی بیان فرمایا ہے۔ ایک جگہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’نیکی یہ ہے کہ خدا تعالیٰ سے پاک تعلقات قائم کئے جاویں اور اس کی محبت ذاتی رگ وریشہ میں سرایت کر جاوے جیسے خدا تعالیٰ فرماتا ہے۔ اِنَّ اللّٰہَ یَاۡمُرُ بِالۡعَدۡلِ وَالۡاِحۡسَانِ وَاِيْتَاءِ ذِی الۡقُرۡبٰی۔ خدا کے ساتھ عدل یہ ہے کہ اس کی نعمتوں کو یاد کر کے اس کی فرماں برداری کرو اور کسی کو اس کا شریک نہ ٹھہراؤ اور اسے پہچانو۔ اور اس پر ترقی کرنا چاہو تو درجہ احسان کا ہے اور وہ یہ ہے کہ اس کی ذات پرایسا یقین کر لینا کہ گویا اس کو دیکھ رہا ہے اور جن لوگوں نے تم سے سلوک نہیں کیا ان سے سلوک کرنا اور اگر اس سے بڑھ کر سلوک چاہو تو ایک اور درجہ نیکی کا یہ ہے کہ خدا کی محبت طبعی محبت سے کرو۔ نہ بہشت کی طمع نہ دوزخ کا خوف ہو بلکہ اگر فرض کیا جاوے کہ نہ بہشت ہے نہ دوزخ ہے تب بھی جوشِ محبت اور اطاعت میں فرق نہ آوے۔ ایسی محبت جب خدا تعالیٰ سے ہو تو اس میں ایک کشش پیدا ہو جاتی ہے اور کوئی فتور واقع نہیں ہوتا۔‘‘

پھر فرمایا: ’’اور مخلوق خدا سے ایسے پیش آؤکہ گویا تم ان کے حقیقی رشتہ دار ہو۔ یہ درجہ سب سے بڑھ کر ہے کیونکہ احسان میں ایک مادہ خود نمائی کا ہوتا ہے اور اگر کوئی احسان فراموشی کرتا ہے تو محسن جھٹ کہہ اٹھتا ہے کہ میں نے تیرے ساتھ فلاں احسان کئے لیکن طبعی محبت جو کہ ماں کو بچے کے ساتھ ہو تی ہے اس میں کوئی خودنمائی نہیں ہوتی بلکہ اگر ایک بادشاہ ماں کو یہ حکم دیوے کہ تو اس بچے کو اگر مار بھی ڈالے تو تجھ سے کوئی باز پرس نہ ہوگی تو وہ کبھی بھی یہ بات سننا گوارا نہ کرے گی اور اس بادشاہ کو گالی دے گی حالانکہ اسے علم بھی ہو کہ اس کے جوان ہو نے تک میں نے مر جانا ہے‘‘ یعنی بچہ کے جوان ہونے تک ’’مگر پھر بھی محبت ذاتی کی وجہ سے وہ بچہ کی پرورش کو ترک نہ کرے گی۔ اکثر دفعہ ماں باپ بوڑھے ہوتے ہیں اور ان کو اولاد ہوتی ہے۔ توان کی کوئی امید بظاہر اولاد سے فائدہ اٹھانے کی نہیں ہوتی لیکن باوجود اس کے پھر بھی وہ اس سے محبت اور پرورش کرتے ہیں۔ یہ ایک طبعی امر ہوتا ہے جو محبت اس درجہ تک پہنچ جاوے اس کا اشارہ اِيْتَاءِ ذِي الْقُرْبٰى میں کیا گیا ہے کہ اس قسم کی محبت خدا کے ساتھ ہونی چاہئے، نہ مراتب کی خواہش نہ ذلت کا ڈر۔‘‘

(ملفوظات جلد 6 صفحہ 181-182)

پھر آپؑ نے فرمایا: ’’اخلاق دو قسم کے ہوتے ہیں ایک تو وہ ہیں جو آج کل کے نو تعلیم یافتہ پیش کرتے ہیں کہ ملاقات وغیرہ میں زبان سے چاپلوسی اور مداہنہ سے پیش آتے ہیں اور دلوں میں نفاق اور کینہ بھرا ہوا ہوتا ہے۔ یہ اخلاق قرآن شریف کے خلاف ہیں۔ دوسری قسم اخلاق کی یہ ہے کہ سچی ہمدردی کرے، دل میں نفاق نہ ہو اور چاپلوسی اور مداہنہ وغیرہ سے کام نہ لے۔ جیسے خدا تعالیٰ فرماتا ہے۔ اِنَّ اللّٰهَ يَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَ الْاِحْسَانِ وَ اِيْتَاءِ ذِي الْقُرْبٰى۔ تویہ کامل طریق ہے اور ہر ایک کامل طریق اور ہدایت خدا کے کلام میں موجود ہے۔ جو اس سے روگردانی کرتے ہیں وہ اور جگہ ہدایت نہیں پا سکتے۔ اچھی تعلیم اپنی اثر اندازی کے لئے دل کی پاکیزگی چاہتی ہے۔ جو لوگ اس سے دور ہیں اگر عمیق نظر سے ان کو دیکھو گے تو ان میں ضرور گند نظر آئے گا۔زندگی کا اعتبار نہیں ہے‘‘ آپؑ نے فرمایا: ’’زندگی کا اعتبار نہیں ہے اس لیے نماز، صدق و صفا میں‘‘ نماز میں اور صدق و صفا میں ’’ترقی کرو۔‘‘

(ملفوظات جلد 6 صفحہ 200)

اپنی عبادتوں میں بھی ترقی کرو اور اپنی سچائی کے معیاروں کو بھی بلند کرو، اپنے آپس کے تعلقات کو بھی ٹھیک کرو۔

اللہ تعالیٰ ہمیں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے ماننے کے بعد اسلام کی حقیقی تعلیم پر عمل کرتے ہوئے دنیا کے لیے اپنے ہر عمل میں نمونہ قائم کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ امن کے حوالے سے جو بعض باتیں میں نے بیان کی ہیں ان پر ہم لوگ خود حقیقی رنگ میں عمل کرنے والے ہوں اور اس کے علاوہ جو باقی باتیں ہیں ان پر بھی اور پھر دنیا کو اس سے آگاہ کریں تا کہ دنیا جو اپنے خود غرضانہ مفادات کے حصول کی وجہ سے تباہی کے گڑھے کی طرف جا رہی ہے اس حقیقت کو سمجھے کہ حقیقی امن خدا تعالیٰ کے حکموں پر چل کر ہی قائم ہو سکتا ہے اور کوئی دنیاوی نظام امن کے پائیدار قیام میں مدد گار نہیں ہو سکتا۔ پس ہر احمدی کی یہ بہت بڑی ذمہ داری ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس پر عمل کرنے کی توفیق دے۔ جلسہ کی برکات کو بھی شاملین ساتھ لے کر جانے والے ہوں، دنیا میں ہر جگہ اس جلسہ کے پروگرام کو سننے والے ایک جوش اور جذبہ اپنے اندر پیدا کرنے والے ہوں اور اپنے علاقوں میں اسلام کی پاک تعلیم کی روشنی میں ایک انقلاب پیدا کرنے والے بن جائیں۔ سب شاملین کو اللہ تعالیٰ خیریت سے اپنے گھروں کو لے کر جائے۔ قادیان میں جو آئے ہوئے ہیں وہ بھی، جو افریقہ میں گنی بساؤ میں ہیں وہ بھی اور کوئی کہیں بھی اگر جلسے ہو رہے ہیں تو وہاں بھی اللہ تعالیٰ سب کو اپنی حفاظت میں رکھے۔

اب ہم دعا کریں گے۔ دعا میں خاص طور پر یہ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ جماعت کو بھی ہر شر سے محفوظ رکھے اور ہمیں حقیقی رنگ میں وہ حق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے جو ایک بیعت کا حق ہے، حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو ہم سے توقع کی ہے۔ اب دعا کر لیں۔

٭دعا٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button