سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام

احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح

(’اے ولیم‘)

یہ انگوٹھی اس الہام کے بعد بنوائی گئی جوکہ آپؑ کے والدمحترم کی وفات والے دن ہی ہواتھا۔چنانچہ ہم کوشش کرتے ہیں کہ دیکھاجائے کہ یہ انگوٹھی کب تیارکروائی گئی تھی۔

حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ الصلوٰة والسلام کے والد ماجد

نوٹ: حضرت مرزاغلام مرتضیٰ صاحبؒ کی تاریخ وفات (حصہ چہارم)

ایک دوسراقرینہ جوکہ ایک قوی ترقرینہ ہے، وہ وہ انگشتری ہے جس کے نگینہ پرالہام اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ کھداہواہے۔ کیونکہ یہ انگوٹھی اس الہام کے بعد بنوائی گئی جوکہ آپؑ کے والدمحترم کی وفات والے دن ہی ہواتھا۔چنانچہ ہم کوشش کرتے ہیں کہ دیکھاجائے کہ یہ انگوٹھی کب تیارکروائی گئی تھی۔

انگشتری اور اس کانگینہ کب بنایاگیا

اس کی تعیین کے لیے جب ہم حضرت اقدسؑ کی تحریرات سامنے رکھتے ہیں تو ہمیں کوئی مشکل پیش نہیں آتی کہ یہ نگینہ کب بنوایاگیاہوگا۔اور نتیجہ یہی نکلتاہے کہ الہام ہونے اور نگینہ بنوانے کے درمیان دنوں ،ہفتوں اورزیادہ سے زیادہ ایک دومہینوں کاوقفہ توہوسکتاہے لیکن سالوں کاوقفہ ممکن نہیں۔ اس کے لیے ہم حضرت اقدسؑ کی تحریرات کے کچھ اقتباسات کامطالعہ کرتے ہیں :

1۔ کتاب البریہ: سنہ اشاعت 1893ء : ’’اور میرے والد صاحب اسی دن بعد غروب آفتاب فوت ہوگئے۔ یہ ایک پہلا دن تھا جو میں نے بذریعہ خدا کے الہام کے ایسا رحمت کا نشان دیکھا۔ جس کی نسبت میں خیال نہیں کر سکتا کہ میری زندگی میں کبھی منقطع ہو۔ میں نے اس الہام کو ان ہی دنوں میں ایک نگینہ میں کھدوا کر اس کی انگشتری بنائی جو بڑی حفاظت سے ابتک رکھی ہوئی ہے۔ غرض میری زندگی قریب قریب چالیس برس کے زیر سایہ والد بزرگوار کے گذری۔ ایک طرف ان کا دنیا سے اٹھایا جانا تھا اور ایک طرف بڑے زور شور سے سلسلہ مکالمات الٰہیہ کا مجھ سے شروع ہوا۔‘‘ (کتاب البریہ ،روحانی خزائن جلد13صفحہ 195حاشیہ)اس عبارت کے مطابق کچھ ہی دنوں بعدیہ نگینہ تیارکروایاگیا۔

2۔ تریاق القلوب :سنہ تصنیف 1899ء: ’’اور جو الہام اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ ہوا تھا وہ بہت سے لوگوں کو قبل از وقت سنایا گیا جن میں سے لالہ شرمپت مذکور اور لالہ ملاوامل مذکور کھتریان ساکنان قادیاں ہیں اور جو حلفاً بیان کرسکتے ہیں۔ اور پھر مرزا صاحب مرحوم کی وفات کے بعد وہ عبارت الہام ایک نگین پر کھدوائی گئی۔ اور اتفاقاً اسی ملاوا مل کو جب وہ کسی اپنے کام کے لئے امرتسر جاتا تھا وہ عبارت دی گئی کہ تا وہ نگین کھدواکر اور مہربنواکر لے آئے۔ چنانچہ وہ حکیم محمد شریف مرحوم امرتسری کی معرفت بنواکر لے آیا جو اب تک میرے پاس موجود ہے جو اِس جگہ لگائی جاتی ہے اور وہ یہ ہے۔‘‘

(تریاق القلوب،روحانی خزائن جلد 15صفحہ 198)

3۔ ضمیمہ تحفہ گولڑویہ جوکہ 1900ء کی تصنیف ہے فرمایا:

’’اور نیز الہام اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ جومیرے والدصاحب کی وفات پر ایک انگشتری پرکھوداگیا تھا…اورجیساکہ انگشتری سے ثابت ہوتاہے یہ بھی چھبیس برس کازمانہ ہے‘‘۔ اس میں جوزمانہ معین کیاجارہاہے وہ تقریباً 1874ء کاہے۔

4۔اربعین نمبر3جوکہ 1900ء کے وسط کی تصنیف ہے فرمایا: ’’اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ جومیرے والدصاحب کی وفات پرایک انگشتری پرکھوداگیا تھا…اورجیساکہ انگشتری سے ثابت ہوتاہے یہ بھی چھبیس برس کازمانہ ہے۔‘‘

5۔ نزول المسیح، 1902ء: ’’بعد اس کے میں نے مرزا صاحب کی تجہیز تکفین سے فراغت کر کے وہ وحی الٰہی جو تکفل الٰہی کے بارہ میں ہوئی تھی یعنی اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ اس کو ایک نگینہ پر کھدوا کر وہ مُہر اپنے پاس رکھی۔‘‘

(نزول المسیح،روحانی خزائن جلد18 صفحہ 496)

’’مگر چونکہ حضرت مرزا صاحب مرحوم کی وفات کے بعدہی جس کو آج اٹھائیس برس گذر چکے ہیں اس الہام کو ایک نگینہ پر کھدوا کر ایک مہر بنوائی گئی تھی جو اب تک موجودہے جس کا یہ نشان ہے۔‘‘

(نزول المسیح،روحانی خزائن جلد18صفحہ 494حاشیہ)

6۔ حقیقۃالوحی،1906ء: ’’غرض جب مجھ کو الہام ہوا کہ اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ میں نے اُسی وقت سمجھ لیا کہ خدا مجھے ضائع نہیں کرے گا تب میں نے ایک ہندو کھتری ملاوامل نام کو جو ساکن قادیان ہے اور ابھی تک زندہ ہے وہ الہام لکھ کر دیا اور سارا قصہ اُس کو سُنایا اور اُس کو امرتسر بھیجا کہ تا حکیم مولوی محمد شریف کلانوری کی معرفت اس کو کسی نگینہ میں کھدوا کر اور مہر بنوا کر لے آوے… چنانچہ مولوی صاحب موصوف کے ذریعہ سے وہ انگشتری بصرف مبلغ پانچ روپیہ طیار ہو کر میرے پاس پہنچ گئی جو اَب تک میرے پاس موجود ہے جس کا نشان یہ ہے‘‘

(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد 22صفحہ 220)

7۔ حقیقۃ الوحی کے عربی حصہ جوکہ الاستفتاء کے نام سے لکھاگیااس میں فرمایا: ’’وبشّرنی ربّی بتسہیل أموری وتیسیر مناہجی، وتکفُّلِہ بکلّ حوائجی۔ فعند ذالک وفی زمنٍ أبعد مِن أمنٍ أمرت أن یُصنَع خاتمٌ فیہ نقوش ہٰذہ الأنباء ، لیکون عند ظہورہا آیة للطُّلباء ، وحُجّة علی الأعداء۔ والخاتم موجود وہذا نقشہ:‘‘

8۔ اوراس کے حاشیہ میں فرمایا: ’’قد مضی علی صُنْعِ ہٰذا الخاتم أزیَدُ من ثلاثین سنة، وما ضاع إلی ہذا الوقت فضلًا من اللّٰہ ورحمةً۔ وما کان فی ذالک الزمن أثرٌ من عزّتی، ولا ذکرٌ من شہرتی، وکنتُ فی زاویة الخمول، محروما من الإعزاز والقبول۔ منہ‘‘ (الاستفتاء ضمیمہ حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 649وحاشیہ)اس کے مطابق حقیقۃ الوحی کی تصنیف تک انگوٹھی کوبنے ہوئے تیس سال سے زائدعرصہ ہوچکاتھا۔حقیقۃ الوحی کی تصنیف 1905ء کی ہے تو1875ء سے پہلے کی یہ انگوٹھی ہوگی۔

9۔ قادیان کے آریہ اورہم جو کہ جنوری 1907ء کی تصنیف ہے اور اس میں دسمبر1906کی تقریرکاخلاصہ درج کیاگیاہے جس میں فرمایا: ’’تب یہ الہام ہوا اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ … میں نے اس الہام کویعنی اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ کومہرمیں کھدوانے کے لئے تجویزکی…یہ الہام قریباً پینتیس یاچھتیس برس کاہے‘‘ گویااس کے مطابق 1872ء کاسنہ ہوگا۔

حضرت اقدسؑ کے مذکورہ بالا ارشادات کی روشنی میں یہی ثابت ہوتاہے کہ حضرت اقدسؑ نے اپنے والدمحترم کی وفات کے کچھ ہی دیرکے بعد یہ نگینہ یاانگوٹھی بنوالی تھی۔

لیکن کسی ایک جگہ بھی نگینہ کے بنوائے جانے کی معین تاریخ کابیان نہیں ہوا۔ ہاں! اس نگینہ یاانگوٹھی کابنوایاجانا، الہام اوراپنےوالدماجدکی وفات کازمانہ آپؑ نےقریب قریب بیان کیاہےیایہ ذکرہے کہ اب تک اس انگوٹھی کوبنے ہوئے کتنا عرصہ گزرچکاہے۔جس سے ہم قیاس کرسکتے ہیں کہ یہ انگوٹھی 1872ء سے لے کر 1875ء کے کسی عرصہ کے درمیان بنی ہوگی۔اس تفصیل کی روشنی میں ہم یہ دیکھتے ہیں کہ 1876ء کاسال ان تخمینوں سے تقریباً باہررہ جاتاہے جوان مذکورہ بالااقتباسات میں بیان کیے گئے ہیں۔ اور یہ بھی ظاہر ہے کہ وفات پہلے ہوئی ہے اور انگوٹھی بعد میں بنی ہے۔ یعنی انگوٹھی اگر 1875ء میں تیار ہوئی ہے تو وفات یقینی طورپراس سے پہلے ہوچکی تھی۔ گویایہ تمام قرائن 1875ء سے کسی پہلے سنہ کی طرف راہنمائی کررہے ہیں۔محترم حضرت عبدالرحیم دردصاحب ؓ صرف ایک نزول المسیح کے اقتباس کوسامنے رکھتے ہوئے 1874ء کا سال اگربیان فرماتے ہیںتوخاکسار کا ان مذکورہ بالااقتباسات کی روشنی میں یہ قیاس ہے کہ حضرت مرزاغلام مرتضیٰ صاحب کی وفات یکم جون 1872ء کوہوئی ہوگی۔جوکہ ہفتہ کا دن تھا۔اور ان تمام ترقرائن پرگویامہرتصدیق ثبت کرنے والی دلیل خود اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ والی انگوٹھی کانگینہ ہے۔حضرت اقدسؑ نے اس انگوٹھی کاعکس اپنی متعدد کتب میں شائع فرمایاہے۔ جیسے تریاق القلوب روحانی خزائن جلد15 صفحہ 198 ،نزول المسیح روحانی خزائن جلد18 صفحہ 494،حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد22 صفحہ649،220۔ان تمام صفحات پراس انگوٹھی کااصل عکس موجودہے۔جوایڈیشن اول کی کتب میں دیکھا جا سکتا ہے۔اور اب جوکمپیوٹرائزڈایڈیشن نظارت اشاعت …کی طرف سے شائع کیا گیا ہے اس میں بھی ایڈیشن اول کے عکس کولیاگیاہے۔

اس نگینہ کی عبارت کواگرغورسے پڑھاجائے تو عربی الہامی عبارت کے اوپر 12کاہندسہ موجودہے جو اردو ہندسوں میں ۱۲ کی شکل میں ہے اور نیچے ۸۹یعنی 89 ہے۔ یعنی 1289ھ جوکہ اس زمانے میں سنہ لکھنے کاایک عام مروجہ طریق تھا۔گویااس نگینہ پر اس کے بنانے کاسنہ موجودہے۔اوروہ 1289ہجری ہے جوکہ 1872ء کاسنہ بنتاہے۔ اور تقویم ہجری کے مطابق 24ربیع الاوّل 1289ہجری کویکم جون 1872ء کی تاریخ تھی اور ہفتہ کادن تھا۔

یوں حضرت اقدسؑ کابیان فرمودہ دن بھی بعینہٖ وہی بنتاہے جوآپ نے بیان فرمایا کہ جمعہ کولاہورسے واپس تشریف لائے اور ہفتہ والے دن وفات ہوئی ،جون کامہینہ تھا اور نگینہ پرلکھاہواسنہ بتارہاہے کہ 1872ء یعنی 1289ھ کاسال تھا۔

لیکن دوسوال ابھی ایک تحقیق کرنے والے کے لیے حل کرناباقی رہ جاتے ہیں۔ ایک تویہ کہ وہ سرکاری ریکارڈ کون ساہے جس کی طرف حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ؓ نے اشارہ کرتے ہوئے بیان فرمایاہے کہ: ’’دردصاحب نے جوہمارے داداصاحب کی تاریخ وفات 1874ء لکھی ہے۔یہ بھی میری تحقیق میں درست نہیں۔بلکہ صحیح تاریخ 1876ء ہے۔جیساکہ حضرت صاحب نے سرکاری ریکارڈ کے حوالہ سے کشف الغطاء میں لکھی ہے۔‘‘

(سیرت المہدی جلداول روایت نمبر763)

(باقی آئندہ)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button