حضرت مصلح موعود ؓقرآن کریم

فضائل القرآن (3) (قسط نمبر12)

حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ

(گذشتہ سے پیوستہ)غرض حق یہ ہے کہ شہوانی طاقتوں کے پیدا کرنے والے آلات کا اصل کام اخلاق کی درستی ہے لیکن چونکہ اصل کام کے بعد کچھ بقائے ضرور رہ جاتے ہیں جو بطور زائد سٹیم کے ہوتے ہیں۔ اگر انہیں نہ نکالا جائے تو انجن کے ٹوٹنے کا ڈر ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس سے دوسرا کام بقائے نسل کا لے لیا۔ اور بجائے نسل انسانی کے چلانے کے کسی اَور ذریعہ کے اس ذریعہ کو اختیار کیا۔ یہ ایک حقیقت ہے جسے دنیا ابھی تک پوری طرح نہیں سمجھی مگر آہستہ آہستہ سمجھ رہی ہے۔ اور طبی دنیا مان رہی ہے کہ قوت شہوانی کا دماغی قابلیتوں سے بہت گہرا تعلق ہے اور ان غدودوں سے کام لئے جاتے ہیں۔ چنانچہ یورپ کا ایک ماہر مانتا ہے کہ ان غدودوں میں نقائص کی وجہ سے ہی مایوسی اور کئی دوسرے جسمانی نقائص پیدا ہو جاتے ہیں۔ ایک امریکن مصنف نے سات جلدوں میں ایک کتاب لکھی ہے جس میں وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق لکھتا ہے کہ آپ پر کئی شادیاں کرنے کا اعتراض فضول ہے۔ کیونکہ آپ خدا تعالیٰ کے عشق اور اس کے ذکر میں محو رہتے تھے اور ایسے آدمی کی قوت رجولیت ساتھ ہی نشوونما پا جاتی ہے۔ گو اس شخص نے صحیح الفاظ میں حقیقت کو بیان نہیں کیا لیکن حق یہی ہے کہ بقائے دوام کی خواہش کا ذریعہ غدود شہوانیہ ہیں۔ اور بقائے نسل ان کا ایک ضمنی اور ماتحت فعل ہے۔ پس ضروری تھا کہ اس اضطراب کو کم کرنے کیلئے جو خدا تعالیٰ نے غدود شہوانیہ کے ذریعہ سے انسان کے اندر پیدا کیا تھا اور اس طرح اپنی طرف بلایا تھا ایک ایسی صورت کی جاتی کہ اضطراب اپنے اصل رستہ سے ہٹ جانے کا موجب نہ ہوتا۔ اور طاقت کے بقیہ حصہ کو استعمال بھی کر لیا جاتا جس کے لئے مرد و عورت کے تعلقات کو رکھا گیا ہے۔ اور مرد کو عورت کے لئے اور عورت کو مرد کیلئے موجب سکون بنا دیا۔

حضرت خلیفہ اول کا ایک واقعہ مجھے یاد ہے۔ آپؓ فرماتے تھے کہ ایک دفعہ میں نے بیماری کی حالت میں روزہ رکھ لیا تو اس سے شہوانی طاقت کو بہت ضعف پہنچ گیا۔ بیسیوں لوگوں کو میرے علاج سے فائدہ ہوتا تھا مگر مجھے کچھ فائدہ نہ ہوا۔ آخر میں نے سوچا کہ خدا تعالیٰ کا ذکر شروع کرنا چاہئے۔ چنانچہ میں نے کثرت سے تسبیح و تحمید کی تو شفا ہو گئی۔ پس یہ بہت باریک تعلقات ہیں جنہیں ہر ایک انسان نہیں سمجھ سکتا۔

روحانیت میں بھی رجولیت اور نسائیت کی صفات

یہ سلسلہ کہ ہر ایک چیز کو اللہ تعالیٰ نے جوڑوں میں پیدا کیا ہے تا کہ غفلت میں کمال غلط اطمینان کا باعث ہو کر باعث تباہی نہ ہو اور تا کہ ہر ایک چیز اپنی ذات میں کامل نہ ہو اور اس کامل وجود کی طرف اس کی توجہ رہے جس سے کمال حاصل ہوتا ہے یہ ظاہری حالات کے علاوہ روحانیات میں بھی چلتا ہے۔ اور اس سے بھی اس ظاہری سلسلہ کی حقیقت کھل جاتی ہے۔ چنانچہ قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر کافر پر ابتداء ًرجولیت ایمان کی حالت غالب ہوتی ہے۔ اور ہر مومن پر رجولیت کفر کی حالت غالب ہوتی ہے۔ مثلاً جب کوئی شخص جاہل ہوگا تو جہالت کی وجہ سے اس کے دل میں تڑپ پیدا ہوگی اور وہ علم حاصل کرے گا۔ لیکن جب کوئی علم حاصل کر لے گا تو اسے اطمینان حاصل ہو جائے گا کہ علم حاصل کر لیا۔ ہر جگہ یہی بات چلتی ہے۔ قرآن کریم میں مومن کی مثال فرعون کی بیوی سے دی گئی ہے۔ کیونکہ ابتداء میں مومن پر کفر غلبہ کرنا چاہتا ہے لیکن آخر کفر مغلوب ہو جاتا ہے۔ اسی کی طرف اس حدیث میں اشارہ ہے کہ ہر انسان کا ایک گھر جنت میں ہوتا ہے اور ایک دوزخ میں۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ واقعہ میں ہر انسان کا ایک گھر جنت میں اور ایک دوزخ میں ہوتا ہے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان میں دونوں قسم کی طاقتیں ہوتی ہیں۔ کفر کی طرف کفر والی طاقت کھینچتی ہے اور ایمان کی طرف ایمان والی طاقت۔ اور انسان ایک یا دوسری کی طرف پھر جاتا ہے۔ درحقیقت قرآنی اصطلاح میں رجولیت چیکنگ پاور کا نام ہے اور نسائیت فیضان کا۔ لیکن بعد میں ایک یا دوسرے کی طرف انسان پھر جاتا ہے۔ البتہ بعض استثنائی صورتیں بھی ہوتی ہیں۔ اور ایسے انسان مریمی صفت ہوتے ہیں۔ یعنی شروع سے ہی ان کی رجولیت اور نسائیت ایک رنگ میں رنگین ہوتی ہے اور وہ تقدس کے مقام پر ہوتے ہیں۔ یعنی بعض لوگوں میں فطرتاً ایسا مادہ ہوتا ہے کہ تاثیر کا مادہ بھی ان کے اندر ہوتا ہے اور تاثر کا مادہ بھی۔ جب ان کی رجولیت اور نسائیت کامل ہو جاتی ہیں تو ان سے ایک بچہ پیدا ہوتا ہے جو قدوسیت یا مسیحیت کا رنگ رکھتا ہے لیکن باقی لوگ کسبی طور پر یہ بات حاصل کرتے ہیں۔ جس انسان کے اندر ہی یہ دونوں مادے ہوں اس کو نیا مرتبہ ملتا اور اس کی ایک نئی ولادت ہوتی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے سورۃ تحریم سے جب یہ استدلال کیا کہ بعض انسان مریمی صفت ہوتے ہیں۔ تو اس پر نادانوں نے اعتراض کیا کہ مرزا صاحب کبھی عورت بنتے ہیں۔ کبھی حاملہ ہوتے ہیں اور کبھی بچہ جنتے ہیں۔ حالانکہ تمام صوفیاء یہ لکھتے چلے آئے ہیں۔ چنانچہ حضرت شہاب الدین صاحب سہروردیؒ اپنی کتاب ’’عوارف المعارف‘‘ میں حضرت مسیحؑ سے یہ روایت کرتے ہیں کہ

لن یلج ملکوت السماء من لم یولد مرتین

(عوارف المعارف مؤلفہ حضرت شہاب الدین سہروردی صفحہ 46،45 احیاء علوم الدین للغزالیصفحہ 74۔ مطبوعہ بیروت 1404ھ)

یعنی کوئی انسان خدائی بادشاہت میں داخل نہیں ہو سکتا۔ جب تک دو دفعہ پیدا نہ ہو۔ ایک وہ پیدائش جو خدا کے ہاتھوں سے ہوئی۔ اور دوسری مریم والی پیدائش۔ پھر اپنی طرف سے کہتے ہیں۔

و صرف الیقین علی الکمال یحصل فی ھذہ الولادہ وبھذہ الولادہ یستحق میراث الانبیاء ومن لم یصلہ میراث الانبیاء ماولد وان کان علی کمال من الفطنہ والذکاء لان الفطنہ والذکاء نتیجہ العقل و العقل اذا کان یا بسا من نور الشرع لایدخل الملکوت ولایزال مترددا فی الملک

(عوارف المعارف مؤلفہ حضرت شہاب الدین سہروردی صفحہ 46،45 احیاء علوم الدین للغزالی صفحہ 74۔ مطبوعہ بیروت 1404ھ)

یعنی یقین کے کمالات کے درجہ تک پہنچنا ایسی ولادت کے بعد ہوتا ہے جو دوسری ولادت ہوتی ہے۔ اس کے بعد انبیاء کا ورثہ ملتا ہے۔ پھر کہتے ہیں جسے یہ میراث نہ ملے نہ انبیاء والے علوم ملیں وہ سمجھے کہ اس کی دوسری ولادت نہیں ہوئی۔ اگرچہ عقلی طور پر اسے بڑے بڑے لطیفے سوجھیں اور اگرچہ اس میں بڑی ذکاء ہو۔ یہ عقل کا نتیجہ ہوگا۔ روحانیت کا نتیجہ نہیں ہوگا اور عقل جب تک خدا کی طرف سے نور نہ آئے روحانیت میں داخل نہیں ہوتی بلکہ نیچر میں ہی رہتی ہے۔

پس روحانیات میں بھی یہ جوڑے ہوتے ہیں۔ اسی کی طرف اس حدیث میں اشارہ ہے کہ

ما من مولود یولد الا والشیطن یمسہ حین یولد فیستھل صارخا من مس الشیطن ایاہ الا مریم وابنھا۔

(بخاری کتاب التفسیر۔ تفسیر سورۃ اٰل عمران زیر آیت انی اعیذھا بک…)

یعنی ہر بچہ جو پیدا ہوتا ہے اسے شیطان چھوتا ہے جس سے وہ روتا ہے سوائے مسیح اور اس کی ماں مریم کے۔

اس سے مراد صرف مریم اور عیسیٰ نہیں بلکہ ہر وہ آدمی جو مریمی صفات والا ہوتا ہے مراد ہے ورنہ کہنا پڑے گا کہ نعوذ باللہ شیطان نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی چھوا تھا۔ اس حدیث میں دراصل رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بتایا ہے کہ دو کامل پیدائشیں ہوتی ہیں۔ ایک مریمی پیدائش اور دوسری مسیح والی پیدائش۔ جو انسان مریمی صفت لے کر پیدا ہوتا ہے وہ مسیح بنتا ہے اور جو مسیحیت کی صفت لے کر پیدا ہوتا ہے وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم بنتا ہے۔ مسیحیت کی صفت پر پیدا ہونے والے جلالی نبی تھے اور مریمیت کی صفت رکھنے والے جمالی نبی۔ ایک میں عکس کی صفت کامل تھی اور دوسرے میں انعکاس کی۔ ایک وہ ہیں جن کی اصل صفت نسوانی ہے اور رجولیت بعد میں کامل ہوتی ہے یعنی ماتحت اور جمالی نبی اور ایک وہ ہیں جو مسیحیت کے وجود سے پیدا ہوتے ہیں اور پھر ان کی نسوانیت مکمل ہوتی ہے۔ یہ جلالی نبی یا شرعی نبی ہیں۔

غرض روحانی سلسلہ میں بھی جوڑے پائے جاتے ہیں اور کبھی بھی کوئی انسان کامل نہیں ہو سکتا جب تک اس کی رجولیت اور نسائیت کی صفات آپس میں ملیں نہیں اور دونوں صفات مکمل نہ ہوں۔ جنہیں ہم دوسرے الفاظ میں اخلاق کا تاثیری یا تاثری پہلو کہہ سکتے ہیں۔ جب یہ دونوں پہلو پیدا ہوں تب جا کر وہ نئی روح پیدا ہوتی ہے جو ایک نئی پیدائش کہلاتی ہے اور تاثیر اور تاثر کے ملنے سے ہی روحانیت کو سکون حاصل ہوتا ہے اور انسان اپنے قلب میں اطمینان پاتا ہے یہاں تک کہ اسے ایک نئی پیدائش حاصل ہو جاتی ہے اور وہ خدا تعالیٰ کا مقرب بن جاتا ہے۔

یہ روحانی علم النفس کا ایک وسیع مسئلہ ہے کہ انسان کے جتنے اخلاق ہیں ان میں سے بعض رجولیت کی قوت سے تعلق رکھتے ہیں اور بعض نسائیت کی قوت سے۔ جب یہ دونوں آپس میں ملتے ہیں تب اعلیٰ اخلاق پیدا ہوتے ہیں۔ مگر یہ مضمون چونکہ اس وقت میرے ساتھ تعلق نہیں رکھتا اس لئے میں نے اس کی طرف صرف اشارہ کر دیا ہے۔

مرد و عورت میں مودت کا مادہ

دوسری بات خدا تعالیٰ نے یہ بتائی کہ

وَجَعَلَ بَیۡنَکُمۡ مَّوَدَّۃً

اس ذریعہ سے تم میں مودت پیدا کی گئی ہے۔ مودت محبت کو کہتے ہیں۔ لیکن اگر اس کے استعمال اور اس کے معنوں پر ہم غور کریں تو محبت اور مودت میں ایک فرق پایا جاتا ہے۔ اور وہ یہ کہ مودت اس محبت کو کہتے ہیں جو دوسرے کو اپنے اندر جذب کر لینے کی طاقت رکھتی ہے۔ لیکن محبت میں یہ شرط نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ مودت کا لفظ بندوں کی آپس کی محبت کے متعلق استعمال کیا گیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ مرد عورت کو اور عورت مرد کو جیت لینا چاہتی ہے۔ ان میں سے جو دوسرے کو جیت لیتا ہے وہ مرد ہوتا ہے اور جسے جیت لیا جاتا ہے وہ عورت ہوتی ہے۔ مگر اللہ تعالیٰ کے لئے یہ لفظ نہیں رکھا گیا۔ کیونکہ بندہ کی کیا طاقت ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کو جذب کر سکے۔ چنانچہ قرآن کریم میں یہ نہیں آیا کہ بندہ خدا کے لئے ودودہے مگر خدا تعالیٰ کیلئے آیا ہے کہ وہ ودود

ہے۔ وہ بندہ کو جذب کر لیتا ہے مگر مرد و عورت کیلئے مودۃکا لفظ استعمال فرمایا ہے۔ چونکہ انسانوں کو کامل کرنا مقصود تھا اس لئے خدا تعالیٰ نے ایسے احساسات مرد اور عورت میں رکھے کہ مرد چاہتا ہے عورت کو جذب کرے اور عورت چاہتی ہے مرد کو جذب کرے۔ لیکن خدا تعالیٰ کو بندہ جذب نہیں کر سکتا۔ اس لئے بندوں کیلئے

یُّحِبُّہُمۡ وَیُحِبُّوۡنَہٗۤ(المائدہ :55)

یا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰہِ(البقرۃ:166)

آتا ہے

یَوَدُّوْنَ اللّٰہَ

نہیں آتا۔

مرد و عورت میں اللہ تعالیٰ نے مودت کا تعلق رکھ کر بتایا کہ ہم نے اس طرح ایک نفس کے دو ٹکڑے بنا کر ایک دوسرے کی طرف کشش پیدا کر دی ہے۔ اور ہر ٹکڑا دوسرے کو اپنی طرف کھینچتا ہے۔ اس طرح طبعاً تکمیل انسانیت کی صورت پیدا ہوتی رہتی ہے ورنہ اگر اللہ تعالیٰ یہ مودت پیدا نہ کرتا تو شادی بیاہ کے جھمیلوں سے ڈر کر کئی لوگ شادیاں بھی نہ کرتے اور کہتے کہ کیوں خرچ اٹھائیں۔ اور ذمہ واریوں کے نیچے اپنے آپ کو لائیں۔ لیکن چونکہ خدا تعالیٰ نے مرد اور عورت میں مودۃ پیدا کر دی ہے اس لئے شادی بیاہ کے جھمیلے برداشت کر لیتے ہیں۔

٭…٭( جاری ہے)٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button