متفرق

ہندؤوں کے ہاں سے آنے والےحلال اشیاء سے تیارایسےکھانے کااستعمال جائز ہے جس میں شرک کی ملونی نہ ہو

سوال: ایک خاتون نے دریافت کیا کہ دیوالی پر ہندوؤں کی طرف سے جو کھانے آتے ہیں، کچھ لوگ تو یہ بتا کر جاتے ہیں کہ وہ پوجا سے الگ رکھ کر یہ کھانا دے رہے ہیں اور بعض کچھ بتائے بغیر ڈبہ پکڑا کر چلے جاتے ہیں۔ کیا ہم یہ کھانا کھا سکتے ہیں؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مورخہ 13؍دسمبر 2020ء میں اس سوال کے جواب میں درج ذیل ہدایت فرمائی:

جواب: جو کھانا حلال اشیاء سے صاف ستھرے برتنوں میں حفظان صحت کے اصولوں پر تیار ہوا ہو اور اس میں شرک کی کوئی ملونی نہ ہو تو اس کے کھانے میں کوئی حرج نہیں۔ ایسے معاملات میں زیادہ باریکیوں میں پڑنا بھی پسندیدہ بات نہیں۔ البتہ ایسا کھانا کھانے سے پہلے بسم اللہ پڑھ لی جائے تا کہ اگر اس کھانے میں کوئی کمی بیشی ہو تو اللہ تعالیٰ کے نام کی برکت سے اس کا مداوا ہو جائے۔ صرف وہم کی بنا پر بلا وجہ کسی کی دل شکنی سے بھی اسلام نے منع فرمایا ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہندوؤں کے ہاں سے آنے والا کھانا کھا لیا کرتے تھے اور ان کے ہاں سے تحفہ کے طور پر آنے والی شیرینی وغیرہ بھی قبول فرما لیتے اور کھا بھی لیتے تھے۔ چنانچہ ایک شخص کے سوال پر کہ کیا ہندوؤں کے ہاتھ کا کھانا درست ہے؟ آپؑ نے فرمایا: ’’شریعت نے اس کو مباح رکھا ہے۔ ایسی پابندیوں پر شریعت نے زور نہیں دیا بلکہ شریعت نے تو

قَدْاَفْلَحَ مَنْ زَکّٰھَا

پر زور دیا ہے۔ آنحضرتﷺ آرمینیوں کے ہاتھ کی بنی ہوئی چیزیں کھا لیتے تھے اور بغیر اس کے گذارہ بھی تو نہیں ہوتا۔‘‘

(الحکم نمبر19 جلد 8، مورخہ 10؍جون1904ءصفحہ3)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button