ادبیات

ملفوظات حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور فارسی ادب (قسط نمبر94)

(محمود احمد طلحہ ۔ استاد جامعہ احمدیہ یو کے)

فرمایا: ’’میں نے چھ ماہ تک روزے رکھے۔ اس اثنا میں میں نے دیکھا کہ انوار کے ستونوں کے ستون آسمان پر جارہے ہیں۔ یہ امر مشتبہ ہے کہ انوار کے ستون زمین سے آسمان پر جاتے تھے یا میرے قلب سے۔ لیکن یہ سب کچھ جوانی میں ہو سکتا تھا۔ اور اگر اس وقت میں چاہتا تو چار سال تک روزہ رکھ سکتا تھا ؂

نشاط نوجوانی تا بہ سی سال

چہل آمد فروریزدپروبال

اب جب سے چالیس سال گزر گئے دیکھتا ہوں کہ وہ بات نہیں۔ ‘‘(ملفوظات جلدچہارم صفحہ 257)

اس حصہ ملفوظات میں جو شعرآیا ہے وہ نظامی گنجوی کا ہے جس کی تفصیل درج ذیل ہے۔

نَشَاطِ نَوْجَوَانِی تَا بِہْ سِیْ سَال

چِہَل آمَدْ فُرُوْ رِیْزَدْ پَرو بَال

ترجمہ:۔ نشاط اور جوانی تیس سال تک ہوتی ہے جب چالیس سال ہوئے سب بال وپر جھڑنے لگتے ہیں۔

*۔ نظامی گنجوی کی ایک لمبی نظم ہے جس میں انہوں نے انسانی عمر کے بارہ میں بھی چند خوبصور ت اشعار تحریر کیے ہیں انہیں اشعار میں سے ایک شعریہ ہے۔ وہاں پر ایک دو الفاظ کا فرق ہے لیکن مفہوم یہی بنتاہے۔ وہ اشعار درج ذیل ہیں۔

چُوْ عُمْر اَزْ سِیْ گُذَشْت یَا خُوْد اَزْ بِیْسْت

نِمِیْ شَایَدْ دِگَرْ چُوْن غَافِلَان زِیْسْت

ترجمہ: جب عمر بیس یا تیس سال سے تجاوزکر جائےتو پھر غافلوں کی سی زندگی بسر کرنا، زیب نہیں دیتا۔

نَشَاطِ عُمْر بَاشَدْ تَا چِھَلْ سَال

چِھَل سَالِہْ فُرُورِیْزَدْ پَروبَال

ترجمہ: زندگی کی نشاط چالیس سال تک ہی ہوتی ہے چالیس سال کے ہوکر قویٰ کمزور پڑنے شروع ہوجاتے ہیں۔

پَسْ اَزْ پَنْجَہْ نَبَاشَدْ تَنْدرُستی

بَصَرْ کُنْدِی پَزِیْرَدْ پَای سُسْتِی

پچاس(سال)کے بعد تندرستی برقرار نہیں رہتی بینائی کمزوراور چال میں سستی آجاتی ہے۔

چُو شَصْت آمَد نِشَسْت آمَدْپَدِیْدَار

چُو ھَفْتَاد آمَدْ اُفْتَادْ آلَتْ اَزْ کَار

ساٹھ کے ہوئے توحرکت کرنے کو جی نہیں کرتا جب ستر کےہوئے تو اعضاء کام کرنا چھوڑ جاتے ہیں۔

بِہْ ھَشْتَاد و نَوَدْچُوْن دَرْ رَسِیْدِی

بَسَا سُخَنِیْ کِہْ اَزْ گِیْتِی کَشِیْدِیْ

جب اَسی یا نوے کے ہوئے تو زمانے سے بہت سی باتیں سننے کوملتی ہیں

وَزْآنْجَا گَرْ بِہْ صَدْ مَنْزِل رَسَانِیْ

بُوَدْ مَرگِیْ بِہْ صُوْرَتْ زِنْدِگَانِیْ

اگر سو سال کو پہنچ بھی گئے تو زندگی موت کی صورت ہی ہوتی ہے۔

اَگَرْ صَدْ سَال مَانِی وَرْ یِکِیْ رُوْز

بِبَایَدْ رَفْت اَزِیْن کَاخِ دِلْ اَفْرُوْز

اگر سو سال بھی رہے تب بھی ایک دن اس دل لبھانےوالی دنیا سے جانا ہی پڑے گا

پَسْ آنْ بِہْتَر کِہْ خُوْد رَا شَادْ دَارِی

دَرْآنْ شَادِیْ خُدَا رَا یَادْ دَارِیْ

پس بہتر یہ ہےکہ جب تم خوش وقت ہو اس موقع پر خدا کو یاد رکھو۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button