سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام

احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح

(’اے ولیم‘)

حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ الصلوٰة والسلام کے والد ماجد

آپ کی زندگی کا ایک عظیم الشان کارنامہ

(حصہ دوم)

کسی کو کیا معلوم تھا کہ اخلاص وندامت کے جذبات سے جس مسجد کی بنیاد اٹھائی جارہی ہے خدا نے اس کو ایسا قبولیت کا فخروشرف عطاکرناہوگا کہ روئے زمین پر وہ خداکی منظورو مقبول مسجد شمار ہوگی۔ اور خداکے نبی کی وہ مسجدکہلائے گی اورجس میں وہ مینار تعمیرہوگا کہ جس کی خبر نبی اکرمﷺ نے چودہ سوسال پہلے دی تھی اورعین اس مینارکے نیچے اس مسجدکے صحن میں اس خدا کے پیارے کی آخری آرامگاہ ہوگی کہ دن میں پانچ وقت اس کے کانوں میں آواز پڑاکرے گی کہ اللہ اکبر۔ اللہ اکبر،سب سےبڑاہے وہ اللہ، سب سے بڑاہے وہ اللہ، کتنا بڑاہے کہ اس کےنام سے محبت کرنے والا، اس پرحسن ظن رکھنے والا بھی اتنا بڑاہوجاتاہے کہ دنیا کے کونے کونے سے لوگ آآکر اس مسجد میں اپنی جبین نیاز جھکانا اپنی عین سعادت سمجھیں گے اور جب وہ واپس جانے لگیں گے تو اس کی روح ان دعائیں کرنے والوں کوپکارے گی کہ

؂اے خانہ براندازِ چمن کچھ تو اِدھربھی

اوروہ جو دوردرازملکوں سے اس مسجد کی طرف کھچے چلے آئے ہوئے ہوں گے وہ جاتے ہوئے اس کی مغفرت کے لیے بھی دعا کرتے ہوئے جائیں گے کہ

اے خدا برتربتِ او ابرِ رحمت ہا ببار

داخلش کن ازکمال فضل در بیت النعیم

[اے رحیم وکریم خدا! تواس کی قبرپراپنی رحمتوں کی بارشیں برساتے رہنا اور اپنے فضل سے نعمتوں والی جنت میں اس کوداخل فرمانا]

بہرحال مسجد کی تعمیر شروع ہوئی۔ اورآپ نے وصیت کرتے ہوئے مسجد کے صحن کے باہر ایک جگہ نشان کیا کہ میری قبر اس جگہ بنائی جائے۔ اور ملفوظات جلد 5صفحہ 426 کے مطابق اپنی وفات سے صرف بائیس 22 دن پہلے اپنی قبر کا نشان بتلایا کہ اس جگہ ہو۔

حضرت اقدس مسیح موعودؑ اپنے والدماجد کے اس جذبۂ محبت کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

’’قریباً چھ ماہ پہلے حضرت والد صاحب نے اس قصبہ کے وسط میں ایک مسجد تعمیر کی کہ جو اس جگہ کی جامع مسجد ہے۔ اور وصیّت کی کہ مسجد کے ایک گوشہ میں میری قبر ہو تا خدائے عزّوجلّ کا نام میرے کان میں پڑتا رہے کیا عجب کہ یہی ذریعہ مغفرت ہو۔ چنانچہ جس دن مسجد کی عمارت بہمہ وجوہ مکمل ہوگئی اور شاید فرش کی چند اینٹیں باقی تھیں کہ حضرت والد صاحب صرف چند روز بیمار رہ کر مرض پیچش سے فوت ہوگئے اور اس مسجد کے اسی گوشہ میں جہاں انہوں نے کھڑے ہوکر نشان کیا تھا دفن کئے گئے۔ اللّٰھم ارحمہ و ادخلہ الجنّة۔آمین۔ قریباً اسی 80یا پچاسی 85 برس کی عمر پائی۔ ‘‘

(کتاب البریہ، روحانی خزائن جلد13 صفحہ191حاشیہ)

اور یوں آخری عمر میں رقت کےساتھ پڑھنے والا ان کا اپنا ہی یہ شعر کس طرح ایک دعائے مستجاب بن گیا:

از درِ تو اے کسِ ہر بیکسے

نیست امیدم کہ روم نا امید

(کتاب البریہ، روحانی خزائن جلد13صفحہ189حاشیہ)

[اے ہر بے سہاروں کے سہارے! مجھے ہرگز امیدنہیں کہ مَیں تیرے دَر سے ناامید جاؤں گا۔ ]

جس کے لیے نہ جانے ان کافرزنددلبند گرامی ارجمند، خداکاوہ فرستادہ کتنی دعائیں کرتاہوگا کہ جس میں سے ایک دعایہ بھی ہے کہ اللّٰھم ارحمہ و ادخلہ الجنّة۔

آپؒ کی وفات اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے عزاپرسی

ایک مختصر علالت کے بعد آپ ؒ کی وفات جون 1876ء میں ہوئی۔ ایک اور روایت کے مطابق آپ کی وفات کا سنہ 1872ء بھی ہو سکتا ہے۔ (قادیان کے آریہ اورہم، روحانی خزائن جلد20صفحہ423-424)

حضرت اقدس علیہ السلام نے اپنے والد صاحب کی وفات کا ذکر فرمایا ہے اس سے معلوم ہوتاہے کہ ان دنوں انہیں دردِ گردہ اور زَحِیْر یعنی پیچش کی تکلیف شروع ہوئی۔ دردِ گردہ سے تو افاقہ ہواالبتہ پیچش کی تکلیف تھی کہ آپ کی وفات ہوئی۔

چنانچہ حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام ان کی وفات کاذکرکرتے ہوئے فرماتے ہیں:

’’پھراس کے ساتھ اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ کا نشان ہے۔ یہ بہت پراناالہام ہے اور اُس وقت کاہے جبکہ میرے والدصاحب مرحوم کاانتقال ہوا۔ میں لاہور گیا ہواتھا۔ مرزاصاحب کی بیماری کی خبرجومجھے لاہورپہنچی میں جمعہ کویہاں آگیا۔ تودردگردہ کی شکایت تھی۔ پہلے بھی ہوا کرتا تھا۔ اس وقت تخفیف تھی۔ ہفتہ کے دن دوپہرکوحقہ پی رہے تھے اور ایک خدمت گار پنکھا کر رہا تھا۔ مجھے کہاکہ اب آرام کا وقت ہے تم جاکرآرام کرو۔ میں چوبارہ میں چلاگیا۔ ایک خدمتگارجمال نام میرے پاؤں دبارہاتھا۔ تھوڑی سی غنودگی کے ساتھ الہام ہوا وَالسَّمَآءِ وَالطَّارِق‘‘

( ملفوظات جلدسوم صفحہ 355)

حضرت اقدس مسیح موعودؑ کے ایک قدیمی صحابیؓ حضرت مفتی محمدصادق صاحبؓ نے اپنی پرانی نوٹ بکوں سے کچھ اقتباسات دیے ہیں۔ ان میں وہ حضورؑ کایہ ارشادنوٹ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’جب ہمارے والد کی وفات کے ایام قریب آئے تو ہم لاہورچیف کورٹ کے کسی مقدمہ میں گئے ہوئے تھے۔ وہیں خواب میں دیکھاکہ ان کی وفات کے ایام قریب ہیں۔ بعدمیں ان کی بیماری کی خبرملی۔ ہفتہ کادن اوردوپہرکاوقت تھا۔ ڈیوڑھی میں مَیں لیٹاہواتھااورجمال کشمیری میرے پاؤں دبارہاتھا۔ الہام ہوا

وَالسَّمَآءِ وَالطَّارِق

جس کے معنے ہیں قسم ہے آسمان کی اورقسم ہے اس حادثہ کی جوغروب آفتاب کے بعد پڑے گا۔ ‘‘

(ذکرحبیب مرتبہ حضرت مفتی محمدصادق صاحبؓ صفحہ 176)

حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام بیان فرماتے ہیں:

آپؒ کی تدفین مسجد اقصیٰ کے صحن سے باہر اس جگہ کی گئی جہاں آپ نے پہلے سے نشاندہی کی ہوئی تھی[تب یہ جگہ باہر ہی تھی اوربعد میں جب مسجد اقصیٰ کی توسیع کی گئی تو یہ قبر صحن کے اندر آگئی۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ قبر کافی نیچے ہے موجودہ شکل اس تعویذ کی ہے جو قبر کے اوپر بنایاگیاہے۔ ] اور پنڈت دیوی رام جو کہ اس زمانے میں قادیان کے سکول میں نائب مدرس تھے ان کا بیان ہے کہ ’’جب آپ کے والد ماجد فوت ہوئے۔ تو اسی مسجد کے صحن میں صندوق میں ڈال کر دفن کئے گئے اور وہ قبر پختہ بنا دی گئی۔ ‘‘

(سیرت المہدی جلداوّل روایت نمبر759)

آپ کی وفات کا واقعہ بھی اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں ایک ایسی عظمت اوروقعت رکھتاتھاکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے پاک الہام میں اس حادثۂ وفات کی قسم کھائی۔ اس واقعہ کی تفصیلات حضرت اقدس علیہ السلام نے ایک نشان کے طورپر اپنی کتب میں بیان فرمائی ہیں۔ ایک جگہ آپؑ فرماتے ہیں:

’’میری عمر قریباً چونتیس یا پینتیس برس کی ہوگی جب حضرت والد صاحب کا انتقال ہوا۔ مجھے ایک خواب میں بتلایا گیا تھاکہ اب ان کے انتقال کا وقت قریب ہے۔ میں اس وقت لاہور میں تھاجب مجھے یہ خواب آیاتھا۔ تب میں جلدی سے قادیاں میں پہنچا اور ان کو مرض زحیر میں مبتلا پایا۔ لیکن یہ امید ہرگز نہ تھی کہ وہ دوسرے دن میرے آنے سے فوت ہو جائیں گے کیونکہ مرض کی شدت کم ہو گئی تھی اوروہ بڑے استقلال سے بیٹھے رہتے تھےدوسرے دن شدت دوپہر کے وقت ہم سب عزیز ان کی خدمت میں حاضر تھے۔ کہ مرزا صاحب نے مہربانی سے مجھے فرمایاکہ اس وقت تم ذرہ آرام کر لو۔ کیونکہ جون کا مہینہ تھااور گرمی سخت پڑتی تھی۔ میں آرام کے لئے ایک چوبارہ میں چلا گیا اور ایک نوکر پیر دبانے لگا کہ اتنے میں تھوڑی سی غنودگی ہو کر مجھے الہام ہوا

وَالسَّمَآءِ وَالطَّارِقِ۔

یعنی قسم ہے آسمان کی جو قضاوقدر کا مبدء ہےاور قسم ہے اس حادثہ کی جو آج آفتاب کے غروب کے بعد نازل ہو گا اور مجھے سمجھایا گیا کہ یہ الہام بطور عزا پرسی خدا تعالیٰ کی طرف سے ہےاور حادثہ یہ ہےکہ آج ہی تمہارا والد آفتاب کے غروب کے بعد فوت ہو جائے گا۔ سبحان اللہ کیا شان خداوند عظیم ہے کہ ایک شخص جو اپنی عمر ضائع ہو نے پر حسرت کرتا ہوا فوت ہوا ہے اس کی وفات کو عزا پرسی کے طور پر بیان فرماتا ہے۔ اس بات سے اکثر لوگ تعجب کریں گےکہ خداتعالیٰ کی عزا پرسی کیا معنے رکھتی ہے۔ مگر یاد رہےکہ حضرت عزت جلشانہٗ جب کسی کو نظر رحمت سے دیکھتا ہے۔ تو ایک دوست کی طرح ایسے معاملات اس سے کرتا ہے۔ ‘‘

( کتاب البریہ، روحانی خزائن جلد13 صفحہ192-194حاشیہ)

(باقی آئندہ)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button