متفرق مضامینمضامین

خلیفہ خدا بناتا ہے(قسط2)

(درِ ثمین احمد۔ جرمنی)

احادیث حضرت اقدس مسیح موعودؑاور خلفائے احمدیت کے ارشادات کی روشنی میں

فرمودات حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ

خوب یاد رکھو کہ خلیفہ خدا بناتا ہے

حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ فرماتے ہیں کہ’’خوب یاد رکھو کہ خلیفہ خدا بناتا ہے اور جھوٹا ہے وہ انسان جو یہ کہتا ہے کہ خلیفہ انسانوں کا مقرر کردہ ہوتا ہے حضرت خلیفۃ المسیح مولوی نور الدین صاحب اپنی خلافت کے زمانہ میں چھ سال متواتر اس مسئلہ پر زور دیتے رہے کہ خلیفہ خدا مقرر کرتا ہے نہ انسان اور در حقیقت قرآن شریف کو غو رسے مطالعہ کرنے پر معلوم ہوتا ہے کہ ایک جگہ بھی خلافت کی نسبت انسانوں کی طرف نہیں کی گئی بلکہ ہر قسم کے خلفاء کی نسبت اللہ تعالیٰ نے یہی فرمایا ہے کہانہیں ہم بناتے ہیں۔‘‘ ( کون ہے جو خدا کے کام روک سکے، انوار العلوم جلد2صفحہ11)

کون سا انسان ہے جو خدا کے عطیہ کو مجھ سے چھین لے

’’یہ خدا تعالیٰ کا فعل ہے کہ اس نے اکثروں کی گردنیں میرے سامنے جھکا دیں۔میں کیونکر تمہاری خاطر خدا تعالیٰ کے حکم کو رد کردوں مجھے اُس نے اُسی طرح خلیفہ بنایا جس طرح پہلوں کو بنایا تھا۔ گو میں حیران ہوں کہ میرے جیسا نالائق انسان اسے کیونکر پسند آگیا لیکن جو کچھ بھی ہو اُس نے مجھے پسند کر لیا اور اب کوئی انسان اس کرتہ کو مجھ سے نہیں اتار سکتا جو اُس نے مجھے پہنایا ہے۔یہ خدا کی دین ہے اورکون سا انسان ہے جو خدا کے عطیہ کو مجھ سے چھین لے۔ خدا تعالیٰ میرا مدد گار ہو گا۔میں ضعیف ہوں مگر میرا مالک بڑا طاقتور ہے،میں کمزور ہوں مگر میرا ٓقا بڑا توانا ہے،میں بلا اسباب ہوں لیکن میرا بادشاہ تمام اسبابوں کا خالق ہے میں بے مدد گار ہوں لیکن میرا رب فرشتوں کو میری مدد کے لئے نازل فرمائے گا۔‘‘( کون ہے جو خدا کے کاموں کو روک سکے، انوار العلوم جلد 2صفحہ15)

خدا نے جس کو چن لیا اُس کو چن لیا

’’جو خلیفہ مقرر کیا جاتا ہے اس میں دیکھا جاتا ہے کہ اس نے کل خیالات کو یکجا جمع کرناہے۔ اس کی مجموعی حیثیت کو دیکھا جاوے۔ ممکن ہے کسی ایک بات میں دوسرا شخص اس سے بڑھ کر ہو۔ ایک مدرسہ کے ہیڈ ماسٹر کے لئے صرف یہ نہیں دیکھا جاتا کہ وہ پڑھاتا اچھا ہے کہ نہیں، یا اعلیٰ ڈگری پاس ہے یا نہیں۔ ممکن ہے اس کے ماتحت اس سے بھی اعلیٰ ڈگری یافتہ ہوں۔ اس نے انتظام کرنا ہے، افسروں سے معاملہ کرنا ہے، ماتحتوں سے سلوک کرنا ہے یہ سب باتیں اس میں دیکھی جاویں گی۔ ا سی طرح سے خدا کی طرف سے جو خلیفہ ہو گا اس کی مجموعی حیثیت کو دیکھا جاوے گا۔ خالد بن ولید جیسی تلوار کس نے چلائی مگر خلیفہ ابو بکرؓ ہوئے۔ اگر آج کوئی کہتا ہے کہ یورپ میں میری قلم کی دھاک مچی ہوئی ہے تووہ خلیفہ نہیں ہو سکتا۔ خلیفہ وہی ہے جسے خدا نے بنایا۔ خدا نے جس کو چن لیا اُس کو چن لیا۔ خالد بن ولید نے 60آدمیوں کے ہمراہ 60ہزار آدمیوں پر فتح پائی۔ عمر ؓ نے ایسا نہیں کیامگر خلیفہ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی ہوئے۔ حضرت عثمان ؓ کے وقت میں بڑے جنگی سپہ سالار موجود تھے۔ایک سے ایک بڑھ کر جنگی قابلیت رکھنے والا ان میں موجود تھا۔ سارے جہان کو اس نے فتح کیا مگر خلیفہ عثمان ؓ ہی ہوئے۔ پھر کوئی تیز مزاج ہوتا ہے، کوئی نرم مزاج۔ کوئی متواضع، کوئی منکسرالمزاج ہوتے ہیں۔ ہر ایک کے ساتھ سلوک کرنا ہوتا ہے جس کو وہی سمجھتا ہے جس کو معاملات ایسے پیش آتے ہیں۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ17؍اپریل1914ءمطبوعہ خطبات محمود جلد4صفحہ72تا73)

جب تک تم میں خلافت رہے گی دُنیا کی کوئی قوم تم پر غالب نہیں آسکے گی

’’پس اے مؤمنوں کی جماعت اوراے عملِ صالح کرنے والو ! مَیں تم سے یہ کہتا ہوں کہ خلافت خدا تعالیٰ کی ایک بہت بڑی نعمت ہے، اس کی قدر کرو جب تک تم لوگوں کی اکثریت ایمان اور عملِ صالح پر قائم رہے گی، خدا اس نعمت کو نازل کرتا چلا جائے گا……تم ہروقت ان دُعاؤں میں مشغول رہو کہ خدا قدرتِ ثانیہ کے مظاہر تم میں ہمیشہ کھڑے کرتا رہے تاکہ اس کا دین مضبوط بنیادوں پر قائم ہو جائے اور شیطان اس میں رخنہ اندازی کرنے سے ہمیشہ کے لئے مایوس ہو جائے…پس ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے حضور دُعاؤں میں مشغول رہو اور اس امر کو اچھی طرح یاد رکھو کہ جب تک تم میں خلافت رہے گی دُنیا کی کوئی قوم تم پر غالب نہیں آسکے گی اور ہر میدان میں تم مظفر ومنصور رہو گے۔‘‘(انوارالعلوم،جلد15صفحہ593)

ایک پُر سوز دعا

’’مَیں اللہ تعالیٰ سے دُعا کرتا ہوں کہ وہ تم کو ہمیشہ خلافت کا خدمت گزار رکھے اور تمہارے ذریعہ احمدیہ خلافت قیامت تک محفوظ چلی جائے اور قیامت تک سلسلہ احمدیہ کے ذریعہ اسلام اور احمدیت کی اشاعت ہوتی رہے اور تم اور تمہاری نسلیں قیامت تک اس کا جھنڈا اُونچا رکھیں اور کبھی بھی وہ وقت نہ آئے کہ اسلام اور احمدیت کی اشاعت میں تمہارا یا تمہاری نسلوں کا حصہ نہ ہو بلکہ ہمیشہ ہمیش کے لئے تمہارا اور تمہاری نسلوں کا اس میں حصہ ہو اور جس طرح پہلے زمانہ میں خلافت کے دُشمن ناکام ہوتے چلے آئے ہیں تم بھی جلد ہی سالوں میں نہیں بلکہ مہینوں میں ان کو ناکام ہوتا دیکھ لو۔‘‘(خطاب فرمودہ 19؍اکتوبر1956ء۔بحوالہ الفضل 24اپریل1957ءصفحہ6)

خلافت پر ایمان لانے والوں اور رو گردانی کرنے والوں میں فرق

’’کیا تم میں اور اُن میں جنہوں نے خلافت سے رُو گردانی کی ہے کوئی فرق ہے؟ کوئی بھی فرق نہیں لیکن نہیں ایک بہت بڑا فرق بھی ہے اور وہ یہ کہ تمہارے لئے ایک شخص تمہارا دَرد رکھنے والا،تمہاری محبت رکھنے والا،تمہارے دُکھ کو اپنا دُکھ سمجھنے والا،تمہاری تکلیف کو اپنی تکلیف سمجھنے والا،تمہارے لئے خدا کے حضور دُعائیں کرنے والا ہے مگر اُن کے لئے نہیں ہے۔تمہارا اُسے فکر ہے،دَرد ہے اور وہ تمہارے لئے اپنے مولیٰ کے حضور تڑپتا رہتا ہے لیکن اُن کے لئے ایسا کوئی نہیں ہے۔ ‘‘(برکات خلافت،انوارالعلوم، جلد2 صفحہ158)

خلیفہ وقت کے منہ سے نکلے ہوئے الفاظ کی اہمیت

’’خلافت کے تو معنے ہی یہ ہیں کہ جس وقت خلیفہ کے منہ سے کوئی لفظ نکلے اُس وقت سب سکیموں، سب تجویزوں اور سب تدبیروں کو پھینک کر رکھ دیاجائے اور سمجھ لیا جائے کہ اب وہی سکیم، وہی تجویز اور وہی تدبیر مفید ہے جس کا خلیفۂ وقت کی طرف سے حکم ملاہے۔ ‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ24؍جنوری1936ءمطبوعہ خطبات محمود جلد17صفحہ74)

خلیفہ تم چنو لیکن وہ ہمارا نمائندہ ہو گا

’’نادان کہتا ہے کہ خلیفہ خدا نہیں بناتا بلکہ اسے لوگ چنتے ہیں لیکن وہ یہ نہیں جانتا کہ خدا تعالیٰ نے آیت استخلاف میں کتنا بڑا فلسفہ بیان کیا ہے۔ ساری تاریخ دیکھ لو۔ تمہیں یہی نمونہ ملے گا کہ وہی قومیں زندہ رہتی ہیں جو لیڈر پیدا کرتی ہیں۔ تمہیں ایک تیمور مل جائے گا، تمہیں ایک نپولین مل جائے گا، تمہیں ایک ہٹلر مل جائے گا لیکن تیموروں، ہٹلروں اور نپولینوں کا سلسلہ اسی جگہ ملے گا جہاں قوم میں زندگی پائی جاتی ہو۔ انگلینڈ کے مدبر کہاں سے گرتے ہیں؟ امریکہ کا پریذیڈنٹ سائنس کے کون سے عمل خانہ میں بنا جاتا ہے؟ وہ معمولی آدمیوں میں سے ہی ایک آدمی ہوتا ہے لیکن وہ جانتا ہے کہ اس کے پیچھے قوم کی روح کھڑی ہے۔ قوم پریذیڈنٹ کا آئینہ بن جاتی ہے اور پریذیڈنٹ قوم کا آئینہ بن جاتا ہے۔ قرآن کریم نے اس گُر کو بیان کیا ہے کہ خلیفہ تم چنو لیکن وہ ہمارا نمائندہ ہو گا۔‘‘(الفضل24؍مئی 1962ءبحوالہ خلافت علیٰ منھاج النبوۃجلد 2صفحہ273)

فرمودات حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ

درحقیقت خلیفہ کسی دُنیاوی انجمن کا سربراہ نہیں ہوتا

اُس کا انتخاب خدا خود کرتا ہے

حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:’’ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ خلیفہ خدا تعالیٰ ہی بناتا ہے اگر بندوں پر اس کو چھوڑا جاتا تو جو بھی بندوں کی نگاہ میں افضل ہوتااسے ہی وہ اپنا خلیفہ بنا لیتے۔ لیکن خلیفہ خود اللہ تعالیٰ بناتا ہے اور اس کے انتخاب میں کوئی نقص نہیں۔ وہ اپنے ایک کمزور بندے کو چنتا ہے جس کے متعلق دنیا سمجھتی ہے کہ اسے کوئی علم حاصل نہیں،کوئی روحانیت،اور بزرگی اور طہارت اور تقویٰ حاصل نہیں۔اسے وہ بہت کمزور جانتے ہیں اور بہت حقیر سمجھتے ہیں،پھر اللہ تعالیٰ اس کو چُن کر اس پر اپنی عظمت اور جلال کا ایک جلوہ کرتا ہے اور جو کچھ وہ تھا اور جو کچھ اس کا تھا اس میں سے وہ کچھ بھی باقی نہیں رہنے دیتا اور خدا تعالیٰ کی عظمت اور جلال کے سامنے کلی طور پر فنااور نیستی کا لبادہ پہن لیتا یے اور اس کا وجود دنیا سے غائب ہو جاتا ہے اور خدا کی قدرتوں میں وہ چھپ جاتا یے تب اللہ تعالیٰ اسے اٹھا کر اپنی گود میں بٹھا لیتا ہے اور جو اس کے مخالف ہوتے ہیں انہیں کہتا ہے مجھ سے لڑو اگر تمہیں لڑنے کی تاب ہے،یہ بندہ بے شک نحیف،کم علم،کمزور، کم طاقت اور تمہاری نگاہ میں طہارت اور تقویٰ سے عاری ہے لیکن اب یہ میری پناہ میں آگیا ہے اب تمہیں بحر حال اس کے سامنے جھکنا پڑے گا۔ایسا کیوں ہوتا ہے؟ اس لئے کہ خدا تعالیٰ یہ ثابت کرنا چاہتا ہے کہ انتخاب خلافت کے وقت اسی کی منشاء پوری ہوتی ہے اور بندوں کی عقلیں کوئی کام نہیں دیتیں۔‘‘(الفضل17؍مارچ1967ءصفحہ3)

’’رسول کریمﷺ کے بعد خلفائے راشدین مجدّدین اور اولیائے اُمّت اپنے لئے اتنی دُعائیں نہ کرتے تھے۔ جتنی دُعائیں اُنہوں نے اُمّتِ مسلمہ کے لئے کیں اور اب جماعت احمدیہ کے خلفاء بھی اپنے لئے اتنی دُعائیں نہیں کرتے (یا نہیں کرتے رہے) جتنی دُعائیں وہ احمدی بھائیوں کے لئے کرتے ہیں اور کرتے رہے ہیں اور اس اُمید اور یقین سے دُعا کرتے اور کرتے رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اُن کی اُن دُعاؤں کے نتیجہ میں مومنوں کے دِلوں میں تسکین پیدا کرے گا۔‘‘(خطباتِ ناصر،جلد 1صفحہ165)

’’نبی اکرمﷺ نے اپنی اُمّت کے لئے جو قیامت تک پیدا ہونے والی ہے بہت سی دُعائیں کی ہیں اور نبی کریمﷺ کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے خلفاء کا ایک لمبا سلسلہ جاری کیا ہے جو قیامت تک ممتد ہے اور وہ رسول کی نیابت میں ان لوگوں کے لئے دُعائیں کرتے ہیں اور اُن کے غموں کو دُور کرنے کے لئے دُعا اور تدبیر کرتے ہیں اور اُن کی خوشیوں میں وہ شریک ہوتے ہیں اور ہر وقت وہ اس فکر میں رہتے ہیں کہ خدا کے یہ پاک بندے روحانیت کی سیر میں کسی ایک مقام پر کھڑے نہ رہ جائیں بلکہ آگے ہی آگے وہ بڑھتے چلے جائیں۔‘‘(خطباتِ ناصر، جلد2صفحہ 144)

’’مَیں جو عاجز بندہ ہوں اور اپنے اندر کوئی خوبی نہیں پاتا لیکن اِس کرسی کی عظمت پہچانتا ہوں جس پر اِس ذرّہ حقیر کو خدا نے اپنی حکمتِ کاملہ سے بٹھایا ہے۔اِس عظیم ذمہ داری کو نبھانا آسان کام نہیں نہ کسی انسان کے بس میں ہے۔ ہر لمحہ اور ہر آن اللہ تعالیٰ کی مدد اور اُس کی نصرت ساتھ نہ دے تو خلافت کی ذمہ داری نہیں نبھائی جاسکتی۔آپ دُعائیں کرتے رہا کریں کہ اللہ تعالیٰ مجھے اپنے فضل سے اِس ذمہ داری کو نبھانے کی توفیق عطا کرے تا کہ دُنیا میں جو اسلام کے غلبہ کی ایک مہم جاری ہوئی ہے وہ بھی تکمیل کی منازل طے کرتی ہوئی جلد تر اپنی منزلِ مقصود کو پہنچ جائے اور آپ کا اپنا بھی یہ فائدہ ہے کیونکہ اِس خلافت…کو آپ کے خوف اورخطر کو اور پریشانیوں کو دُور کرنے کا ذریعہ بھی اللہ تعالیٰ نے قرار دیا ہے۔‘‘(خطبات ناصر، جلد1 صفحہ344)

’’درحقیقت خلیفہ کسی دُنیاوی انجمن کا سربراہ نہیں ہوتا اُس کا انتخاب خدا خود کرتا ہے اور وہ خدا کے ہاتھ میں ایک آلہ کی طرح ہوتاہے۔ اُس کے ذریعہ آسمانی مقصد اورآسمانی سکیم کی دُنیا میں نمائندگی ہوتی ہے … مہدی علیہ السلام جسمانی طور پر ہمیشہ تو اِس دُنیا میں نہیں رہ سکتے تھے لیکن خلافت رہ سکتی ہے اور ان شاء اللہ ہمیشہ قائم رہے گی درحقیقت خلافت اسلام کی اُن برکات کے تسلسل کا نام ہے جو مہدی موعود دوبارہ دُنیا میں لائے تھے۔‘‘(خطبات ناصر، جلد3 صفحہ98)

فرمودات حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ

خلافت کا تعلق خدا کی پسند سے ہے

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:’’سارا عالم اسلام مل کر زور لگا لے اور خلیفہ بنا کر دکھادے وہ نہیں بنا سکتا کیونکہ خلافت کا تعلق خدا کی پسند سے ہے اور خدا کی پسند اس شخص پر انگلی رکھتی ہے جسے وہ صاحب تقویٰ سمجھتا ہے۔‘‘( خطبہ جمعہ فرمودہ 2؍اپریل1993ءبحوالہ ہفت روزہ بدر 6؍مئی1993ءصفحہ4)

’’ہر خلیفہ کے وقت میں جو اس زمانے کے حالات ہیں اُن کے متعلق جو خلیفہ وقت کی نصیحت ہے وہ لازماً دوسری نصیحتوں سے زیادہ مؤثر ہو گی۔اس تعلق کی بنا ء پر بھی اور اس وجہ سے بھی کہ خدا تعالیٰ نے جو ذمہ داری اس کے سپرد کی ہوتی ہے خود اس کے نتیجہ میں اس کو روشنی عطا کرتا ہے۔ ‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ15؍نومبر1991ءمطبوعہ خطباتِ طاہر جلد10 صفحہ 894)

’’خدا تعالیٰ کا خلافت سے ایک تعلق ہے اور علوم کی روح سے اللہ تعالیٰ خلفاء کو آگاہ کرتا ہے اور جماعت کی زمانے کے لحاظ سے ضروریات سے خلفاء کو متنبہ کرتا ہے۔ خلفاء کی نظر ساری عالمی ضروریات پر ہوتی ہے اور جن علوم کی تفسیر کی ضرورت پڑے، جیسی روشنی خدا تعالیٰ خود اپنے خلفاء کو عطا فرماتا ہے ویسی ایک علم میں خواہ کسی مقام کا رکھنے والا عالم ہو اس کو اپنے کسبی طور پہ نصیب نہیں ہو سکتی۔یہ وھبت ہے، اللہ تعالیٰ کی عطا ہے جس میں کوئی کوشش یا جدّ و جہد کا دخل نہیں، نہ حقداری کا دعویٰ ہے بلکہ اللہ کواپنے دین کی ضرورتوں کا بہترین علم ہے اور جن کے سپرد وہ کام کرتا ہے اُن پر وہ ضرورتیں روشن فرماتا ہے۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ26؍فروری1988ءمطبوعہ خطباتِ طاہر،جلد7 صفحہ109تا110)

’’میرا ساری زندگی کے تجربے کا نچوڑ یہ ہے کہ خلیفۂ وقت کی ہدایت پر اگر آپ اخلاص کے ساتھ سنجیدگی کے ساتھ توجہ دیں گے خواہ آپ کی سمجھ میں آئے یا نہ آئے تو آپ کے کاموں میں غیر معمولی برکت پڑے گی اور اگر آپ ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے بھلائیں گے تو پھر آپ کے کاموں میں سے برکت اُٹھ جائے گی۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ6؍نومبر1987ءمطبوعہ خطباتِ طاہر جلد6 صفحہ733)

فرمودات حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

خلافتِ احمدیہ کو اُس خدا کی تائید و نصرت حاصل ہے

جو قادروتوانا اور سب طاقتوں کا سرچشمہ ہے

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے یومِ خلافت کے حوالے سے جماعت احمدیہ راولپنڈی کے نام پیغام میں فرمایا:’’ہمارا یہ ایمان ہے کہ خلیفہ خدا تعالیٰ خود بناتا ہے اور اس کے انتخاب میں کوئی نقص نہیں ہوتا۔ جسے اللہ یہ کرتا پہنائے گا کوئی نہیں جو اس کرتے کو اتار سکے یا چھین سکے۔وہ اپنے ایک کمزور بندے کو چنتا ہے جسے لوگ بعض اوقات حقیر بھی سمجھتے ہیں مگر اللہ تعالیٰ اس کو چن کر اس پر اپنی عظمت اور جلال کا ایک ایسا جلوہ فرماتا ہے کہ اس کا وجود دنیا سے غائب ہو کر خدا تعالیٰ کی قدرتوں میں چھپ جاتا ہے۔تب اللہ تعالیٰ سے اٹھا کر اپنی گود میں بٹھا لیتا ہے اور اپنی تائد و نصرت ہر حال میں اس کے شامل حال رکھتا ہے اور اس کے دل میں اپنی جماعت کا درد اس طرح پیدا فرما دیتا ہے کہ وہ اس درد کو اپنے درد سے زیادہ محسوس کرنے لگتا ہے اور یوں جماعت کا ہر فرد یہ محسوس کرنے لگتا ہے کہ اس کا درد رکھنے والا،اس کے لئے خدا کے حضور دعائیں کرنے والا اس کا ہمدرد ایک وجود موجود ہے۔‘‘ (روزنامہ الفضل 30؍مئی2003ءصفحہ2)

’’لوگوں کے دلوں میں محبت اللہ تعالیٰ نے پیدا کی ہے۔ کوئی انسان محبت پیدا نہیں کر سکتا۔ جیسا کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا تھا کہ مخالفوں کی دو جھوٹی خوشیوں کو پامال کرکے دکھا دے۔ تو مخالفوں کی خوشیوں کو اللہ تعالیٰ نے کس طرح پامال کیا۔ اب بھی مخالفین شور مچاتے ہیں، منافقین بھی بعض باتیں کر جاتے ہیں۔ وہ چاہے جتنا مرضی زور لگا لیں، خلافت اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی ہے اور جب تک اللہ چاہے گا یہ رہے گی اور جب چاہے گا مجھے اٹھالے گا اور کوئی نیا خلیفہ آ جائے گا۔ لیکن حضرت خلیفہ اول کے الفاظ میں مَیں کہتا ہوں کسی انسان کے بس کی بات نہیں کہ وہ ہٹا سکے یا فتنہ پیدا کر سکے۔ جماعت اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت مضبوط ہے اور ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح ہے۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 21؍مئی 2004ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 4؍جون 2004ءصفحہ 8تا9)

سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:’’آج جماعتِ احمدیہ کی تاریخ گواہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو وعدہ فرمایا ہے،جو پیشگوئی فرمائی ہے،جس کا اعلان زمانے کے امام کے ذریعہ سے کروایا وہ ہرآن اور ہر لمحہ ایک نئی شان سے پورا ہو رہا ہے۔ چاہے وہ خلافتِ اولیٰ کا دَور تھا جس میں بیرونی مخالفتوں کے علاوہ اندرونی فتنوں نے بھی سر اُٹھانا شروع کردیاتھا۔یا خلافتِ ثانیہ کا دَور تھا جس میں انتخابِ خلافت سے لے کر تقریباًآخر تک جو خلافتِ ثانیہ کا زمانہ تھا،مختلف فتنے اندرونی طورپر بھی اُٹھتے رہے۔جماعت کا ایک حصہ علیحدہ بھی ہوا۔پھر بیرونی مخالفتوں نے بھی شدیدحملوں کی صورت اختیار کر لی لیکن جماعت کی ترقی کے قدم نہیں رکے۔پھر خلافتِ ثالثہ میں بھی بیرونی حملوں کی شدت اور بعض اندرونی فتنوں نے سر اُٹھایا لیکن جماعت ترقی کرتی چلی گئی اور جماعت کو خلافتِ احمدیہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے آگے ہی بڑھاتی رہی۔پھر خلافتِ رابعہ کا دور آیا تو دُشمن نے ایسا بھرپور وار کیا کہ اُس کے خیال میں اُس نے جماعت کو ختم کر نے کے لئے ایسا پکا ہاتھ ڈالاتھا کہ اُس سے بچنا نا ممکن تھا،کوئی راہِ فرار نہیں تھی۔لیکن پھر حضرت مسیحِ موعودعلیہ السلام کے الفاظ اپنی شان کے ساتھ پورے ہوئے کہ اللہ تعالیٰ دوسری مرتبہ اپنی زبردست قدرت ظاہر کرتا ہے اور ظاہر کرے گا اور وہ ہوئی اور اُس زبردست قدرت نے اُن مخالفین کی خاک اُڑادی۔

پھر خلافتِ خامسہ کا دَور ہے۔اس میں بھی حسد کی آگ اور مخالفت نے شدت اختیار کر لی۔کمزور اور نہتے احمدیوں پر ظالمانہ حملے کر کے خون کی ایسی ظالمانہ ہولی کھیلی گئی جنہیں دیکھ کر یہ فرق کرنا مشکل ہوجاتا ہے کہ یہ انسانوں کا کام ہے یا جانوروں سے بھی بدتر کسی مخلوق کا کام ہے۔پھر اندرونی طور پر جماعت کے ہمدرد بن کر جماعت کے اندر افتراق پیدا کرنے کی بھی بعض جگہ کوششیں ہوتی رہیں لیکن اللہ تعالیٰ کے وعدے کے مطابق،اللہ تعالیٰ کی تائید یافتہ خلافت کی زبردست قدرت اس کا مقابلہ کرتی رہی اور کر رہی ہے بلکہ اللہ تعالیٰ ہی اس کا مقابلہ کر رہا ہے۔مَیں تو ایک کمزور نا کارہ انسان ہوں، میری کوئی حیثیت نہیں لیکن خلافتِ احمدیہ کو اُس خدا کی تائید و نصرت حاصل ہے جو قادروتوانا اور سب طاقتوں کا سرچشمہ ہے۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ27؍مئی 2011ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 17؍جون2011ءصفحہ7تا8)

خدا ہمیں کبھی نہیں چھوڑے گا

’’یاد رکھیں وہ سچے وعدوں والا خدا ہے۔ وہ آج بھی اپنے پیارے مسیح کی اس پیاری جماعت پر ہاتھ رکھے ہوئے ہے۔ وہ ہمیں کبھی نہیں چھوڑے گا اور کبھی نہیں چھوڑے گا اور کبھی نہیں چھوڑے گا۔ وہ آج بھی اپنے مسیح سے کئے ہوئے وعدوں کو اسی طرح پورا کر رہا ہے جس طرح وہ پہلی خلافتوں میں کرتا رہا ہے۔ وہ آ ج بھی اسی طرح اپنی رحمتوں اور فضلوں سے نواز رہا ہے جس طرح پہلے وہ نوازتا رہا ہے اور انشا ء اللہ نوازتا رہے گا۔ پس ضرورت ہے تو اس بات کی کہ کہیں کوئی شخص اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل نہ کرکے خود ٹھوکر نہ کھا جائے۔ اپنی عاقبت خراب نہ کر لے۔ پس دُعائیں کرتے ہوئے اوراس کی طرف جھکتے ہوئے اور اس کا فضل مانگتے ہوئے ہمیشہ اس کے آستانہ پر پڑے رہیں اور اس مضبوط کڑے کو ہاتھ ڈالے رکھیں تو پھر کوئی بھی آپ کا بال بھی بیکا نہیں کر سکتا۔ اللہ تعالیٰ سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین ‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 21؍مئی 2004ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 4؍جون 2004ءصفحہ 9)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button