سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام

احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح

(’اے ولیم‘)

حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ الصلوٰة والسلام کے والد ماجد

علم اور کتب خانہ سے محبت(حصہ دوم)

جس کتب خانے میں صرف علم طب پر ایک ہزارسے زائد کتب ہوں اس کی وسعت اور قیمت کا اندازہ لگایاجاسکتاہے۔ اسی کتب خانے کا ذکر حضرت صاحبزادہ مرزا سلطان احمدصاحبؒ نے بھی ایک بار کیا وہ ذکر کرتے ہیں :

’’دادا صاحب (حضرت مرزا غلام مرتضیٰ صاحب۔ ناقل)کی ایک لائبریری تھی جو بڑے بڑے پٹاروں میں رہتی تھی اور اس میں بعض کتابیں ہمارے خاندان کی تاریخ کے متعلق بھی تھیں‘‘

(سیرت المہدی جلد اوّل روایت نمبر 227)

لیکن افسوس یہ کتب خانہ آہستہ آہستہ مرورِزمانہ کا شکار ہوکر ختم ہوگیا۔نہ جانے کتنی قیمتی کتابیں اس میں موجودہوں گی۔ اس کتب خانے میں قرآن کریم بھی کثرت سے تھے اور قلمی نسخے تھے۔ایک قرآن کریم تو دیرتک قادیان کی احمدیہ مرکزی لائبریری میں موجود رہا۔

اس ضمن میں جلسہ سالانہ قادیان 2009ء کے موقع پر مکرم ومحترم جناب مولانا حمیدکوثر صاحب پرنسپل جامعہ احمدیہ قادیان نے خاکسار کو بتایا کہ انہوں نے خود ایک قرآن کریم دیکھاتھا جو بہت ہی خوبصورت لکھاہواتھا اوربڑے سائز میں تھا۔اوراس کے ابتدائی صفحہ پرحضرت مرزاغلام مرتضیٰ صاحب کانام بھی لکھاہواتھا۔

خاکسار نے اس مسودے کو حتمی شکل دیتے وقت محترم مولانا حمید کوثر صاحب کی خدمت میں یہ بات بغرض ِ توثیق لکھ کر قادیان فیکس کی اور درخواست کی کہ اگروہ تحریری طور پر یہ روایت ارسال فرمادیں توخاکسار اس کو درج بھی کردے چنانچہ مولانا صاحب نے اس کے جواب میں جو خط لکھا وہ … درج کیاجاتاہے :

جامعہ احمدیہ قادیان دارالامان

تاریخ: 25-08-2010

بخدمت محترم …

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

تحریر خدمت ہے کہ آنمحترم کی چٹھی 2-8-10 موصول ہوئی۔اس کے جواب میں تحریر خدمت ہے کہ جب خاکسار تعلیم الاسلام سکول کی پہلی،دوسری ،تیسری اور چوتھی کلاس میں تھا توہمارے بزرگ استاد محترم قریشی فضل الحق صاحب درویش مرحوم جو مسجد مبارک کے خادم بھی تھے ہم سے مسجد مبارک کی صفائی کے لئے مسجد مبارک میں وقارعمل کرواتے تھے۔اور اس دوران ہم وہاں رکھے ہوئے بڑے بڑے سائز کے قرآن مجید کو اٹھا کران کو صاف کرتے اور اوپر لے جا کردھوپ میں رکھتے۔اس دوران خاکسار اور وحیدالدین صاحب حال قائمقام ناظر تعلیم ونگران دارالمسیح نے بھی وہاں ایک قرآن مجید کو بارہا دیکھا جو تقریباً ڈیڑھ فٹ لمبا اور ایک فٹ چوڑا ہوگا۔اس کے اوپر چمڑے کی خوبصورت جلد تھی اور یہ قرآن مجید ہاتھ کا لکھا ہواتھا۔اور خطاطی کا اعلیٰ نمونہ تھا۔اس کے شروع میں مرزاغلام مرتضیٰ لکھا ہواتھا۔اوراس کی گواہی وحیدالدین صاحب بھی دے سکتے ہیں۔جن کے دستخط ذیل میں موجودہیں۔بعدازاں خاکسار 1974ء میں تبلیغی میدان میں چلا گیا۔اس کے بعد معلوم نہیں وہ بڑے بڑے قرآن مجید اور مذکورہ قرآن کہا ں گئے۔

والسلام خاکسار محمدحمیدکوثر پرنسپل جامعہ احمدیہ قادیان

اس خط پر محترم مکرم وحیدالدین صاحب کے بطورگواہ کے دستخط بھی ہیں۔اور اس خط سے یہ معلوم ہوتاہے کہ 1974ء تک یہ قرآن مجید موجودتھا۔بہرحال یہ ایک قیمتی اورنادرکتب خانہ تھا اور اس کی آخری نشانی وہ قرآن مجید ہوسکتاتھا جو 1974ء تک مسجد مبارک قادیان میں موجود رہا۔ خدا کرے کہ قادیان سے ہی کسی مکان کے گوشے سے کوئی اورنادرومتبرک یادگار دریافت ہوجائے۔

بات ہورہی تھی آپؒ کے علم وادب سے دلچسپی کی۔اوریہ علم وادب سے دلچسپی اورمحبت ہی تھی کہ اپنے بچوں کو بھی تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے کے لیے آپ نے بھاری مشاہرے پر اساتذہ مقرر فرمائے جو مختلف علاقوں سے قادیان میں صرف تعلیم کے لیے قیام فرمارہتے۔

البتہ تعلیم اورعلم کے زیور سے آراستہ کرنے کے ساتھ ساتھ بچوں سے محبت کا یہ پہلو بھی غالب تھا کہ مطالعہ میں اتنا زیادہ شغف نہ ہوکہ خرابیٔ صحت کا اندیشہ ہو۔

اخلاقی جرأت اور سیلف ریسپکٹ

جہاں حضرت مرزا صاحب میں شجاعت، مروّت،عفوو احسان اور مخلوق خداسے ہمدردی جیسی قابلِ قدر خوبیاں تھیں وہاں آپ کے اوصافِ حمیدہ میں ایک نمایاں وصف اخلاقی جرأت بھی تھا اور اس کے ساتھ ہی آپ صادق اور راست باز مشہور تھے۔اگرچہ بعض اوقات امر واقعہ کے اظہار نے آپ کو کسی رنگ میں نقصان پہنچایا ہومگر کہنے سے کبھی مضائقہ نہ کرتے تھے۔ اس ضمن میں ایک واقعہ آپ کی طبابت کی ذیل میں لکھاہے۔آئیے اس واقعہ کو دوبارہ اس خلق جرأت کے آئینے میں دیکھتے ہیں۔ ایک مرتبہ مہاراجہ شیر سنگھ صاحب کاہنووان کے چھنب میں شکار کے لئے تشریف لے گئے۔حضرت مرزا صاحب بھی ساتھ تھے۔ مہاراجہ کے بازدار کو جو قوم کا جولاہا تھا، زکام کی بیماری ہو گئی اور کسی قدر شدید ہو گئی۔ حضرت مرزا غلام مرتضیٰ صاحب نے اس کو دو ڈھائی پیسے کا ایک نسخہ لکھ دیا اور وہ فوراً اچھا ہو گیا۔ اس کے بعد خود مہاراجہ صاحب اسی بیماری سے بیمار ہو گئے اور حضرت مرزا صاحب کو علاج کے لئے کہا گیا۔ حضرت مرزا صاحب نے تیس چالیس روپیہ کا ایک نسخہ ان کے لئے تجویز کیا۔ مہاراجہ صاحب نے کہاکہ کیا بات ہے! اس جولاہے کے لئے دو اڑھائی پیسے کا نسخہ اور میرے لئے اتنا قیمتی اور بیماری ایک ہی ہے۔فرمایا۔شیر سنگھ اور جولاہا ایک نہیں ہو سکتے۔آپ نے ایسی دلیری اور جرأت سے اس کو جواب دیاکہ مہاراجہ شیر سنگھ ناراض ہونے کی بجائے بہت ہی خوش ہوا۔اور اس زمانے کے رواج کے موافق عزت افزائی کے لئے کڑوں کی ایک جوڑی پیش کی۔

(حیات احمد جلد اوّل صفحہ 58۔59)

مہاراجہ کے سامنے اس طرح ایک جرأت اور خداداد رعب رکھنے والا شخص ہی کہہ سکتاہے جوصرف اپنے خدا سے ہی ڈرتاہو۔

اسی طرح حکام سے جب ملتے خواہ وہ کتنے ہی بڑے پایہ کے ہوں،بے تکلف ملتے تھے اور نہایت آزادی سے گفتگو کرتے تھے۔اور حکام بھی پوری توجہ سے ان کی باتوں کو سنتے تھے اور قدر کرتے تھے۔حکام سے بے تکلفی کے ساتھ صاف گوئی اور اپنے وقار کابھی خیال رکھتے ۔ایک واقعہ آپ کی اس طبع کاشاہدہے۔

میں ہر کارہ نہیں !سلام !!

’’ایک مرتبہ حضرت مرزا غلام مرتضیٰ صاحب نے رابرٹ کسٹ صاحب (Mr.Robert Cast۔ناقل) سے، جو کمشنر تھے،ملاقات کی۔اس نے اثناء گفتگو میں پوچھاکہ قادیان سے سری گو بند پور کتنی دور ہے؟ مرزا صاحب نے کہاکہ ’’میں ہرکارہ نہیں! سلام‘‘کمشنر صاحب نے محسوس کیاکہ مرزا صاحب کو یہ استفسار ناگوار گزرا ہے۔اس لئے کہا۔کہ آپ میری بات سے ناراض کیوں ہوئے؟ مرزا صاحب نے کہاکہ ہم آپ کے پاس اپنی باتیں کرنے آتے ہیں۔ ادھر ادھر کی باتوں کے لئے نہیں آتے۔یہ میرا کام نہیں جو آپ مجھ سے پوچھتے ہیں۔ رابرٹ کسٹ صاحب مرزا صاحب کی اخلاقی جرأت اور اپنے مقام شناسی سے بہت خوش ہوئے۔ اور انہوں نے سمجھ لیاکہ مرزا صاحب کس پایہ اور عزت کے انسان ہیں۔‘‘

(حیات احمدؑ جلد اول صفحہ61)

قارئین کرام!خصوصاً جو انیسویں صدی کے ہندوستان کے سیاسی ماحول سے واقف نہیں وہ اس واقعہ میں پوشیدہ اس جرأت اور بہادری کو شایدپوری طرح محسوس نہ کرسکیں کہ تب کے انگریز اور وہ بھی کمشنر انگریز!اس کے سامنے ایسی بات کہنا دل گُردے کا کام تھا۔1857ء کا سانحہ ایسا تھا کہ ہندوستان پر حکومت کرنے والے انگریزکو اور بھی مغرور بنادیاتھا اور ہرہندوستانی اور خاص طورپر مسلمان کو وہ بہت ہی حقیراور قابل نفرین سمجھتے تھے۔اس ماحول میں آپ کا ایک کمشنر کے سامنے ایسی بات کرنا آپ کی اس اخلاقی جرأت کی نشاندہی کرتاہے جو ایک شاہانہ شجاعت اور وقار کے ساتھ ساتھ ایک درویشانہ شان بھی اپنے اندررکھتاہے۔

آپ کی ایسی ہی جرأت کا اظہار اس واقعہ سے بھی ہوتاہے، حضرت مرزا بشیر احمدصاحب ؓاپنی مبارک اور وقیع تصنیف ’’سیرت المہدی‘‘ میں حضرت صاحبزادہ مرزا سلطان احمدصاحبؒ کی ایک روایت لائے ہیں۔آپ فرماتے ہیں :

’’بیان کیا مجھ سے مولوی رحیم بخش صاحب ایم۔اے نے کہ ان سے مرزا سلطان احمد صاحب نے بیان کیا کہ ایک دفعہ مسٹر میکانکی ڈپٹی کمشنر گورداسپور قادیان دورہ پر آئے۔ راستے میں انہوں نے دادا صاحب سے کہا کہ آپ کے خیال میں سکھ حکومت اچھی تھی یا انگریزی حکومت اچھی ہے؟ دادا صاحب نے کہا کہ گاؤں چل کر جواب دوں گا۔ جب قادیان پہنچے تو دادا صاحب نے اپنے اور اپنے بھائیوں کے مکانات دکھا کر کہا کہ یہ سکھوں کے وقت کے بنے ہو ئے ہیں مجھے امید نہیں کہ آپ کے وقت میں میرے بیٹے ان کی مرمت بھی کر سکیں۔‘‘

( سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر 207)

(باقی آئندہ)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button