دعا

ایسا مشرک جس کے متعلق یہ واضح ہو جائے کہ وہ خدا کا دشمن ہےاس کےلیے استغفار نہ کیا جائے

سوال: ایک دوست نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں تحریر کیا کہ کیا غیر مسلموں پر رحم کرنا اور ان کےلیے استغفار کرنا جائز ہے۔ اور ان پر اتمامِ حجت ہونے یا نہ ہونے سے ان کےلیے رحم اور استغفار کرنے میں کوئی فرق پڑے گا؟ حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مورخہ 20؍جولائی 2020ء میں اس کا درج ذیل جواب عطا فرمایا:

جواب: قرآن کریم کا علم رکھنے والے کی طرف سے اس قسم کا سوال کرنا قابل تعجب ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں جس طرح اپنے لیے رب العالمین کے الفاظ استعمال کر کے یہ مضمون بیان فرما دیا کہ اللہ تعالیٰ تمام جہانوں میں پائی جانے والی مخلوق کی رنگ و نسل اور مذہب و ملت کا فرق کیے بغیر ربوبیت کرنے والی ذات ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے ہمارے آقا و مولیٰ حضرت اقدس محمد مصطفیٰﷺ کی ذات بابرکات کےلیے رحمۃ اللمومنین یا رحمۃ اللمسلمین کی بجائے رَحۡمَۃً لِّلۡعٰلَمِیۡنَ(الانبیاء: 108)کے الفاظ استعمال فرما کر ہمیں بتا دیا کہ یہ رسول تمام جہانوں کےلیے بلا امتیاز رنگ و نسل اور مذہب و ملت سراپا رحمت ہے۔

یہی تعلیم حضورﷺ نے اپنے متبعین کو بھی دی۔ چنانچہ آپ نے فرمایا لَا يَرْحَمُ اللّٰهُ مَنْ لَا يَرْحَمُ النَّاسَ۔ (صحیح بخاری کتاب التوحید)یہاں پر بھی حضورﷺ نے یرحم المومنین یا یرحم المسلمینکی بجائے یرحم الناسکے الفاظ استعمال کر کے ہمیں سمجھا دیا کہ ایک حقیقی مسلمان کا دل جب تمام بنی نوع انسان کےلیے رحمت کے جذبہ سے لبریز ہوگا تب وہ اللہ تعالیٰ کے رحم کا مورد ہو سکے گا۔

جہاں تک کسی کےلیے استغفار کرنے کا تعلق ہے تو اس بارے میں بھی قرآن و سنت نے ہماری راہنمائی فرمائی ہے کہ ایسا مشرک جس کے متعلق یہ واضح ہو جائے کہ وہ خدا کا دشمن اور یقیناً جہنمی ہے اس کےلیے استغفار نہ کیا جائے۔ اور کسی کے جہنمی ہونے کا علم یا تو ا للہ تعالیٰ کی ذات کو ہے یا اس کےان انبیاء اور برگزیدوں کو ہوتا ہے جنہیں اللہ تعالیٰ خود کسی کے جہنمی ہونے کی خبر دیتا ہے۔ اسی لیے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو جب اللہ تعالیٰ نے ان کے والد کے عدو اللہ ہونے کی خبر دی تو آپ اس کےلیے استغفار سے دست بردار ہو گئے۔ (سورۃالتوبہ:114)

مدینہ کے منافقین کی شرارتوں اور ان کی طرف سے آنحضورﷺ اور مسلمانوں کو دی جانے والی تکالیف کی وجہ سےاللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ان کےلیے سخت انذار فرمایا اور انہیں نافرمان قرار دیتے ہوئے جہنمی قرار دیا۔ لیکن اس کے باوجود اللہ تعالیٰ نے آنحضورﷺ کو چونکہ اس وقت تک ان کےلیے استغفار کرنے یا نہ کرنے کا اختیار دیا تھا اس لیے رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی بن سلول کی وفات پر حضورﷺ نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملنے والے اس اختیار کی بنا پر اس کی نماز جنازہ پڑھائی اور اس کےلیے استغفار کیا۔

اسلام کی عفو کی تعلیم اپنے اندر ایک ایسی گہری حکمت رکھتی ہے جس سے پہلے مذاہب کی تعلیمات عاری تھیں۔ لہٰذا اسلام اپنے ہر دشمن کےلیے جب تک کہ اس کے اصلاح پانے کی امید باقی ہو، ہدایت کی دعا کرنے اور اس کی تربیت کےلیے کوشش کرنے کی تعلیم دیتا ہے۔ چنانچہ جنگ احد میں جب مسلمانوں کو نقصان پہنچا اور حضورﷺ بھی زخمی ہو گئے تو کسی نے حضورﷺ کی خدمت میں مخالفین اسلام کے خلاف بد دعا کرنے کی درخواست کی تو آپﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے مجھے لعنت ملامت کرنے والا بنا کر نہیں بھیجا بلکہ اس نے مجھے خدا کا پیغام دینے والا اور رحمت کرنے والا بنا کر بھیجا ہے۔ اس کے بعد حضورﷺ نے اللہ کے حضور یہ دعا کی کہ اے اللہ میری قوم کو ہدایت دے دے کیونکہ وہ (میرے مقام اور اسلام کی) حقیقت سے نا آشنا ہیں۔ (شعب الایمان للبیہقی)اسی طرح ایک اور روایت میں ہے کہ حضورﷺ نے اللہ کے حضور یہ التجا کی کہ اے اللہ! میری قوم کو بخش دے کیونکہ وہ(اسلام اور میرے مقام کی) لاعلمی کی وجہ سے اسلام کی مخالفت کر رہی ہے۔ (المعجم الکبیر للطبرانی)

پس اسلام اپنے متبعین کو تاکید کرتا ہے کہ وہ تمام بنی نوع انسان کےلیے بلا امتیاز مذہب و ملت اور رنگ و نسل رحم کے جذبات سے پُر ہوں اور سوائے ان مشرکوں اور خدا کے دشمنوں کے جن کے جہنمی ہونے پر اللہ تعالیٰ نے مہر ثبت فرما دی ہو، ہر ایک کےلیے استغفار کرنے والے ہوں۔

آپ کے سوال کا تعلق اگر کسی معین انسان کے ساتھ ہے تو ایسی صورت میں پھر مسلم اور غیر مسلم کا سوال نہیں اٹھتا بلکہ اس انسان کے پیدا کردہ حالات، واقعات اوراس سے تعلق رکھنے والے حقائق کے مطابق فیصلہ ہونا چاہیے۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button