سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام

احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح

(’اے ولیم‘)

حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ الصلوٰة والسلام کے والد ماجد

خوددارصاحب وقار طبیب(حصہ دوم)

ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓجو کہ ایک روحانی طبیب تو تھے ہی آپ ؓ نے طبابت کے علم سے بھی مخلوق خداکو فیضیاب فرمایا۔ گوکہ اب اس طبابت میں یونانی طب کے ساتھ ساتھ ایک حیرت انگیز علم طب ہومیوپیتھی(علاج بالمثل)کا اضافہ بھی ہو چکاتھا۔اسی طرح آپؓ نے اپنے ایک بیٹے حضرت صاحبزادہ مرزاوسیم احمدصاحبؒ کو طبابت کا علم سکھایا۔آپؓ کے ایک دوسرے بیٹے صاحبزادہ حضرت مرزاطاہر احمدصاحب ؒ جو کہ عالمگیرجماعت احمدیہ کے چوتھے خلیفہ تھے وہ ایک ماہر اورمشہور ہومیوپیتھ بھی تھے۔ایم ٹی اے پر آپ کے لیکچر نشر بھی ہوتے رہے جو کتابی صورت میں شائع ہوچکے ہیں۔اور اب عالمگیر جماعت احمدیہ کے پانچویں امام حضرت صاحبزادہ مرزا مسرور احمد صاحب ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز جو کہ حضرت اقدس بانی سلسلہ احمدیہ کے پڑپوتے ہیں۔آپ روحانی طبیب توہیں ہی ،ہومیوپیتھی علاج بھی فرماتے ہیں۔اور عبیداللہ علیم صاحب کے اس شعر کے مصداق ہیں:

؂ وہ یوں بھی تھا طبیب وہ یوں بھی طبیب تھا

ضمناً ایک اورواقعہ بھی بیان کرنادلچسپی سے خالی نہ ہوگا۔لاہور میں ایک رنگساز ہیں۔ان کانام ارشدبیگ صاحب ہے۔یہ جدی پشتی رنگسازی کاکام کرتے ہیں۔ان کے والد صاحب اوردادا سب یہی کام کرتے تھے۔دھوبی گھاٹ پرانی انارکلی میں ان کی دکان ہے۔خاندان حضرت اقدسؑ کےاکثر افرادبھی ان سے کام کرواتے ہیں۔اوروہ بھی فخراورسعادت سمجھتے ہوئے یہ کام کرتے ہیں اور احمدی احباب سے اس کا ذکر کرتے ہیں۔خاکسارکا حضرت صاحبزادی امۃالمتین صاحبہؒ اہلیہ مکرم ومحترم سیدمیرمحموداحمدناصر صاحب اوران کی صاحبزادی محترمہ عائشہ فخر صاحبہ سلمہا اللہ کے کپڑوں کے سلسلہ میں ان کے ہاں اکثر جانارہتاتھا اور یہ ساری باتیں خاکسار نے ان سے خود سنی ہیں۔وہ کہاکرتے تھے کہ حضرت اماں جانؓ اوردیگر خواتین مبارکہ کے ملبوسات بھی ہمارے پاس آتے تھے۔حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کا اپنے دستِ مبارک سے لکھاہواایک مکتوب مبارک بھی انہوں نے مجھے دکھایا جس میں حضورانورؒ نے ذکر فرمایا تھا کہ جب وہ سکول میں پڑھاکرتے تھے تو قادیان سے وہ اپنی اُمی کے ملبوسات لے کر یہاں آیا کرتے تھے۔محترم ارشد صاحب نے ان ساری باتوں کے علاوہ ایک مرتبہ مجھے بتایا کہ بڑے مرزا صاحب (حضرت مرزاغلام مرتضیٰ صاحب ؒ) ایک خدارسیدہ بزرگ ولی تھےاور چوٹی کے طبیب بھی تھےاوران کے پاس میرے داداپرداداکا آنا جاناتھا۔اورمجھے ایک ہاون دستہ دکھاتے ہوئے بتایا کہ بڑے مرزاصاحب نے خاکسار کے داداپرداداکو دیاتھااوراسے ہم بہت حفاظت سے رکھتے ہیں اور بتانے لگے کہ یہ ان بزرگوں کے ہاتھ سے دی ہوئی ایسی بابرکت چیزہے کہ جو رنگ ہم اس میں تیارکرتے ہیں وہ اتنا پکااورپختہ ہوتاہے کہ کبھی کچانہیں ہوااورکوئی شکایت نہیں آتی ۔انہوں نے مجھے بتایا کہ ایک مرتبہ میں نے یہ لالچ کرتے ہوئے کہ چھوٹاسا ہے کچھ بڑاکرلوں تاکہ ایک ہی بارمیں زیادہ رنگ تیارہوجایاکرے اس کونچلی سطح سے کھر چ کے بڑاکرناچاہاتونہیں ہوا۔ارشدصاحب کی عمر اس وقت سترسال کے قریب ہوگی۔بہرحال ان کی طبابت اور بزرگی کے ضمن میں ایک واقعہ یادآیا جو ذکر کردیا۔

دشمنوں سے حسن سلوک

حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحب ؓ بیان فرماتے ہیں :

’’دشمنوں کو بھی اپنے اس فیض سے محروم نہ رکھتے تھے بلکہ بہت جلد ان کی طرف توجہ کرتے جب موقعہ ہوتا۔اور جس طرح بھی ممکن ہوتا۔دشمنوں کے ساتھ حسنِ سلوک سے کبھی نہ رکتے۔یہ بے نظیر خوبی بہت ہی کم لوگوں میں پائی جاتی ہے۔ دنیادار تو خصوصیت سے اس عیب میں مبتلا ہوتے ہیں کہ وہ اپنے دشمنوں کو بجز گزند پہنچانے کے اور کچھ جانتے ہی نہیں۔مگر حضرت مرزا غلام مرتضیٰ صاحب ہمیشہ اپنے دشمنوں سے نیک سلوک کرتے۔قادیان میں ان کی رعیت کے بعض محسن کش لوگ ان کے مقابلہ میں قِسم قِسم کی شرارتیں کرتے اور مقدمات کا سلسلہ شروع کر دیتے۔ لیکن وہ ساتھ ہی جانتے اور یقین کرتے تھے کہ حضرت مرزا غلام مرتضیٰ صاحب کا وجود ان کے لئے ابرِ رحمت ہے۔وہ کینہ توز اور انتقامی فطرت رکھتے ہی نہ تھے۔کہتے ہیں کہ ایک دکھ دینے والا دشمن جو قادیان ہی کا باشندہ تھا۔فوت ہو گیا۔ایک شخص نے آکر میرزا صاحب کو مبارک باد دی۔تو انہوں نے اس کو اپنی مجلس سے نکال دیا۔اور سخت ناراض ہوئے۔اس کی وفات پر اظہار افسوس کیا۔

یہ فطرت ہر شخص کو نہیں دی جاتی۔اور بجز وسیع الحوصلہ انسان کے کسی کا یہ کام نہیں ہو سکتا کہ وہ اپنے دشمنوں سے نیک سلوک کرے۔یہ لوگ جو آئے دن ان کی مخالفت کرتے۔جب کسی مصیبت میں گرفتار ہو جاتے تو ان کا حضرت مرزا صاحب کے پاس آ کر صرف یہ کہہ دینا کافی ہوتا کہ ہم تو آپ کی رعایا ہیں۔پھر وہ اپنی شان اور ہمت کے خلاف پاتےکہ ان کی ایذا رسانی کی کوشش کریں۔بلکہ ان کی تکالیف اور شکایت کو دور کر دینے کے لئے ہر ممکن سعی فرماتے۔حکام چونکہ حضرت مرزا صاحب کی بہت عزت و احترام کرتے تھے۔اور مقامی حکام ان کے مکان پر تشریف لاتے تھے۔اس لئے ایسے معاملات میں جو حکام سے متعلق ہوتے حضرت مرزا صاحب بلا تکلّف مراسلہ لکھ دیتے۔اور معاملات کو رفع دفع کرا دیتے۔‘‘

(حیات احمدؑ جلد اول صفحہ51)

علم اور کتب خانہ سے محبت

حضرت مرزاغلام مرتضیٰ صاحب ؒ ایک عالم بھی تھے اور علم دوست بھی ، کتب خانہ کا خاص طور پر شوق تھا۔اور بہت سی کتابیں آپ کے کتب خانہ میں موجود تھیں۔آپ کی ایک بہت بڑی لائبریری تھی۔چنانچہ آپ کے پوتے جو خود ایک ذی علم اورصاحب طرز ادیب بھی تھے۔یعنی حضرت صاحبزادہ مرزاسلطان احمدصاحب ؓ ،ان کی ایک روایت بیان کرتے ہوئے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدصاحبؓ بیان فرماتے ہیں:

’’بیان کیا مجھ سے مولوی رحیم بخش صاحب ایم۔اے نے کہ ان سے مرزا سلطان احمد صاحب نے بیان کیا کہ دادا صاحب کی ایک لائبریری تھی جو بڑے بڑے پٹاروں میں رہتی تھی۔ اور اس میں بعض کتابیں ہمارے خاندان کی تاریخ کے متعلق بھی تھیں…‘‘

(سیرت المہدی جلد اول ،روایت نمبر227)

یہ بیان کیاجاچکاہے کہ آپؑ کے بزرگ آباؤاجدادکا ایک وسیع کتب خانہ تھا جوکہ قادیان پر سکھوں کے قبضہ کے وقت جلادیاگیا۔لیکن آپؑ کے بزرگوں کی علم سے محبت کایہ عالم تھا کہ انہوں نے جب قادیان واپس آکرقادیان کو آبادکیا تو مساجد کے ساتھ ساتھ اس کتب خانہ کو بھی دوبارہ بحال کیا۔یہ کتب خانہ ایک محتاط اندازہ کے مطابق ہزارہاکتب پر محیط تھاجس میں ایک ہزارسے زیادہ کتابیں تو صرف طب کے متعلق ہی تھیں۔

حضرت اقدس مسیح موعودؑ نے ایک جگہ اس کتب خانہ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ ’’مَیں نے بعض متن کتب طب کے بیس بیس جزو کے حفظ کئے تھے۔ہزارسے زیادہ کتاب طب کی ہمارے کتب خانے میں موجود تھی۔ جن میں سے بعض کتابیں بڑی بڑی قیمتیں دے کر خرید کی گئی تھیں۔‘‘

(ملفوظات جلد 8 صفحہ 190)

جس کتب خانے میں صرف علم طب پر ایک ہزارسے زائد کتب ہوں اس کی وسعت اور قیمت کا اندازہ لگایاجاسکتاہے۔اسی کتب خانے کا ذکر حضرت صاحبزادہ مرزا سلطان احمدصاحبؒ نے بھی ایک بار کیا۔ وہ ذکر کرتے ہیں :

’’دادا صاحب (حضرت مرزا غلام مرتضیٰ صاحب۔ ناقل)کی ایک لائبریری تھی جو بڑے بڑے پٹاروں میں رہتی تھی اور اس میں بعض کتابیں ہمارے خاندان کی تاریخ کے متعلق بھی تھیں‘‘

(سیرت المہدی جلد اوّل روایت نمبر 227)

لیکن افسوس یہ کتب خانہ آہستہ آہستہ مرورِزمانہ کا شکار ہوکر ختم ہوگیا۔نہ جانے کتنی قیمتی کتابیں اس میں موجودہوں گی۔ اس کتب خانے میں قرآن کریم بھی کثرت سے تھے اور قلمی نسخے تھے۔ایک قرآن کریم تو دیرتک قادیان کی احمدیہ مرکزی لائبریری میں موجود رہا۔

(باقی آئندہ)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button