پرسیکیوشن رپورٹس

اسلامی جمہوریہ پاکستان میں احمدیوں پر ہونے والے دردناک مظالم کی الَم انگیز داستان

(مرتبہ: مطہر احمد طاہر۔ جرمنی)

دسمبر2020ء میں سامنےآنے والے چند تکلیف دہ واقعات سے انتخاب

مخالفت کی وجہ سے ملازمت سے فراغت

91-A/10R، ضلع خانیوال(دسمبر2020ء): ایک احمدی زاہد احمد، ملت ایکوپمنٹ لمیٹڈ، لاہور میں نو سال سے الیکٹریشن کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ جب وہ 7؍ ستمبر 2020ء کو چھٹیوں کے بعد کام پر واپس آئے تو انہوں نے ہمیشہ کی طرح اپنے ساتھی کارکنوں کو سلام کیا، لیکن کسی نے جواب نہیں دیا۔ انہیں معلوم ہوا کہ فیکٹری میں ایک ملا کے اثر و رسوخ کی وجہ سے ان کے ساتھی کارکنوں کا رویہ بدل گیا ہے۔

اگلے دن ملا اور کچھ عملہ زاہد احمد کے پاس آئے اور ان سے کہا کہ آج کے بعد ان کاان سے کوئی تعلق نہیں رہے گا اور وہ انہیں وہاں کام کرنے کی اجازت نہیں دیں گے، سوائے اس کے کہ وہ جماعت احمدیہ سے علیحدگی اختیار کرلیں۔ ان افراد نے ان کی موجودگی میں احمدیت کے خلاف گندی زبان استعمال کی۔ موصوف نے انہیں بتایا کہ وہ پیدائشی طور پر احمدی ہیں اور حضرت مرزا صاحبؑ کی سچائی پر یقین رکھتے ہیں۔

مخالفین نے زاہد کے ساتھ رہنے والے فرد سے بھی کہا کہ وہ اسے وہاں نہ رہنے دیں۔ موصوف نے انتظامیہ کو صورت حال سے آگاہ کیا، لیکن انہوں نے اس معاملے میں ان کی کسی قسم کی مدد کرنےسے انکار کر دیا۔ اس لیے انہیں یہ نوکری چھوڑنی پڑی اور پریشانی سے بچنے کے لیے فیکٹری جانا چھوڑ دیا۔

اجتماعی زندگی …کس قیمت پر؟

چکری، دھمیال ضلع راولپنڈی(دسمبر2020ء): مقامی احمدی خواتین کی تنظیم کی صدر نے اپنی ماہانہ رپورٹ بذریعہ کوریئر اپنے ضلعی دفتر کو بھجوائی۔ کسی وجہ سے یہ کوریئر مطلوبہ سینئر عہدیدار تک نہ پہنچ سکا اور اسے اُن کے شوہر (عبدالقادر چوہان) کی دکان پر واپس کر دیا گیا۔ دکان چونکہ بند تھی، تو کوریئر والے نے لفافہ قریبی دکاندار کے حوالے کردیا تاکہ وہ یہ بعد میں دیدے۔ اس شخص نے کوریئر کو کھول لیا اور اس میں موجود ماہانہ رپورٹ کو دیکھ لیا۔ پھر اس نے اس رپورٹ کی فوٹو کاپیاں بنائیں اور مختلف لوگوں کو بھیج دیں۔ اس دکاندار کا یہ فعل سراسر بدنیتی پر مبنی تھا۔

اس کے بعد قادر چوہان کو دکان خالی کردینے کے لیے فون آنے لگے۔ دکان کے مالک نے انہیں بتایا کہ اُس پر ’’قادیانیوں ‘‘ سے دکان خالی کرانے کے لیے دباؤ ڈالا جارہا ہے۔ اسی طرح 10؍دسمبر کو قادر کے پڑوسی کی بیٹی نے ان کی بیٹی کو بتایا کہ محلے کے کچھ ملّا ان کے گھر میں رکاوٹیں ڈال رہے ہیں۔ تاہم، یہ شرارت پوری طرح مکمل نہ ہوسکی۔ پھر 16؍دسمبر کو مقامی ختم نبوت گروپ کی میٹنگ ہوئی جس میں احمدی خاندان کو علاقے سے نکالنے کا فیصلہ کیا گیا۔ اس میٹنگ میں محلے کے دیگر احمدیوں کے گھروں کا محاصرہ کرنے کا منصوبہ بھی بنایا گیا۔ اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے عبدالقادر نے پولیس کو اطلاع دی۔ انہوں نے اس جھگڑے کے سرکردہ لیڈر کو طلب کیا لیکن وہ پولیس کے پاس حاضر نہیں ہوا۔اس کے بعد پولیس نے اسے حراست میں لے لیا اور اس سے تحریری بیان حاصل کیا کہ وہ امن کو خراب کرنے کے لیے کسی کام میں ملوث نہیں ہوگا۔ چنانچہ اس شخص نے مستقبل کے لیے بھی یہی وعدہ کیا۔

اس کے بعد ایس پی کینٹ عبد القادر کے گھر آئے اور کہا کہ اگر وہ اپنی درخواست واپس لے لیتے ہیں تو پولیس انہیں اور ان کے کاروبار کو مکمل حفاظت فراہم کرے گی۔ اس کے بعد انہوں نے موصوف کے احمدی ہونے اور مذکورہ ماہانہ رپورٹ کے حوالے سے متعدد سوالات کیے۔ ایس پی کی تجویز کے جواب میں انہوں نے جواب دیا کہ وہ پولیس تحفظ کے وعدے کے پیش نظر اپنی شکایت واپس لے سکتے ہیں۔ اس کے بعد ایس پی نے انہیں کہا کہ وہ دیے گئے حلف نامے پر دستخط کردیں۔ خلاصۃً اس حلف نامے کے مطابق موصوف آئین پاکستان کا مکمل احترام کریں گے اور اپنی مذہبی رسومات کو آئین میں دیے گئے طریقے کے مطابق ادا کریں گے اور اپنے گھر سے احمدیت کی تعلیم نہیں دیں گے اور نہ ہی ان کےگھرکا درجہ مسجد کا ہوگا۔ اور پھر اسی حلف نامے کے مطابق انہوں نے خطیب مسجد ختم نبوت کے خلاف دی گئی اپنی درخواست واپس لے لی!

احمدیوں پر سماجی ظلم و ستم کا ایک نمونہ

کِسراں، ڈسٹرکٹ اٹک(دسمبر 2020ء): یہاں کچھ عرصے سے احمدیوں کی مخالفت میں اضافہ ہوا ہے۔ فیس بک پر ’اپنا کسراں‘ کے نام سے ایک صفحہ احمدیوں کے خلاف نفرت انگیز مواد اور احمدی مخالف تبصروں پر مشتمل ہے۔ عید الاضحی 2020ء کے دوسرے روز یہاں کرکٹ ٹورنامنٹ کا انعقاد کیا گیا جس میں اعلان ہوا کہ ٹورنامنٹ میں ’’قادیانیوں ‘‘ کو شرکت کی اجازت نہیں ہوگی۔ 22؍جولائی کو اسی صفحہ پر تبصرہ کیا گیا کہ قادیانیت پر پابندی لگائی جائے۔ ایک بار پھر اکتوبر میں منعقد ہونے والے ٹورنامنٹ میں احمدیوں کو شرکت کی اجازت نہیں دی گئی۔

اس مقام پر ختم نبوت کانفرنسوں کا انعقاد کیا جاتا ہے جن میں احمدیوں کے خلاف گندی زبان استعمال کی جاتی ہے۔ 7؍ ستمبر کو مسجد حنفیہ میں ختم نبوت کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔ اس کے بعد اس صفحہ پر جماعت کے خلاف مخالفانہ تبصرے کیے گئے۔ پھر 20؍ستمبر کو ایک اور ختم نبوت کانفرنس منعقد ہوئی جس میں احمدیوں کو برا بھلا کہا گیا۔ پھر بھی 17؍اکتوبر کو ایک اور کانفرنس منعقد ہوئی جس میں قادیانیوں کا مکمل بائیکاٹ کرنے کا اعلان کیا گیا۔ 26؍اکتوبر کو حنفیہ مسجد کے قاری رؤف نے اسلام آباد سے ملّا شہیر سیالوی کو مدعو کیا اور احمدیوں کے خلاف ایک میٹنگ منعقد کی۔ اگلے دن تمام فرقوں کے تاجر مسجد حنفیہ میں جمع ہوئے اور ان سے کہا گیا کہ وہ احمدیوں کے ساتھ ساتھ فرانسیسی مصنوعات کا بائیکاٹ کریں۔ اس کے بعد گاؤں کے دکانداروں نے اپنی دکانوں کے باہر نوٹس آویزاں کردیے کہ قادیانیوں سے کوئی تجارت نہیں کی جائے گی۔

اب سوائے تین کے جن کے مالکان نے ملاّ کی پیروی نہیں کی گاؤں کی تمام دکانیں احمدیوں کے لیے بند ہیں۔

7؍نومبر 2020ء کو فرانس کے خلاف ایک ریلی نکالی گئی جس میں اعلان کیا گیا کہ احمدیوں کے ساتھ کسی قسم کی تجارت نہیں کی جائے گی۔ اس کے علاوہ 9؍سے 14؍نومبر تک ہونے والے انٹر ویلج کرکٹ ٹورنامنٹ کے اشتہار پر یہ نوٹ بھی لکھا گیا تھا کہ اس ٹورنامنٹ میں کوئی ’’قادیانی‘‘ حصہ نہیں لے سکتا۔

احمدی کو اشیاء کی فروخت نہ کی گئی

لاہور، (دسمبر 2020ء): عامر شہزاد صدر انجمن احمدیہ ربوہ میں کیمرہ ٹیکنیشن ہیں۔ وہ کیمرے کا سامان خریدنے لاہور گئے۔ وہاں انہوں نے اپنی ضرورت کا سامان خریدنے کےلیے دکان CCTV Worldکو منتخب کیا اور ربوہ کےپتہ پر سامان بھیجنے کو کہا۔ سیلز مین نے اس سے پوچھا کیا تم ربوہ سے آئے ہوجس پر موصوف نے اثبات میں جواب دیا۔ اس کے بعد دکان میں موجود دونوں افراد نے آپس میں بات کی اور کہا کہ وہ یہ سامان فروخت نہیں کریں گے۔ موصوف نے کہا کہ وہ اکثر یہاں سے سامان خریدا کرتے ہیں اور اب کیوں نہیں مل سکتا؟ اس پر انہیں جواب ملا کہ ان کا تعلق احمدی مذہب سے ہے۔ اگر وہ احمدی نہ ہوتے تو وہ انہیں یہ سامان بیچ دیتے۔

لاہور کے کچھ تاجروں نے برسوں سے احمدیوں کا بائیکاٹ کیا ہوا ہے۔ حفیظ سنٹر کے تقریباً پورے بازار میں احمدی مخالف اسٹیکرز اور پوسٹرز لگا دیے گئے۔

اس واقعے کے بعد عامرشہزاد کو اپنا سامان خریدنے کسی دوسرے اسٹور جانا پڑا۔

(جاری ہے)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button