خطبہ جمعہ

خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 10؍دسمبر2021ء

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مَیں نے جسے بھی اسلام کی طرف بلایا اس نے ٹھوکر کھائی اور تردّد کیا اور انتظار کرتا رہا سوائے ابوبکر کے۔ میں نے جب ان سے اسلام کا ذکر کیا تو نہ وہ اس سے پیچھے ہٹے اور نہ انہوں نے اس کے بارے میں تردد کیا

’’ہر زمانہ میں جو شخص صدیق کے کمالات حاصل کرنے کی خواہش کرے اس کے لئے یہ ضروری ہے کہ ابو بکری خصلت اور فطرت کو اپنے اندر پیدا کرنے کے لئے جہاں تک ممکن ہو مجاہدہ کرے اور پھر حتی المقدور دعا سے کام لے۔جب تک ابو بکری فطرت کا سایہ اپنے اوپر ڈال نہیں لیتا اور اسی رنگ میں رنگین نہیں ہو جاتاصدیقی کمالات حاصل نہیں ہو سکتے۔‘‘ (حضرت مسیح موعودؑ)

آنحضرتﷺ کے عظیم المرتبت خلیفہ ٔراشد صدیقِ اکبر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے کمالات اور مناقبِ عالیہ

خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 10؍دسمبر2021ء بمطابق 10؍فتح1400 ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے)، یوکے

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔ أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾ اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾ اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾

حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قبول اسلام کے بارے میں ذکر ہو رہا تھا۔ اس بارے میں مزید ذکر بھی ہے۔بعض باتیں مختلف زاویوں سے ہیں اس لیے بیان ہو جاتی ہیں مگر لگتا یہی ہے کہ ایک ہی واقعہ ہے۔ اب مَیں کچھ بیان کروں گا۔ اسد الغابہ میں

حضرت ابوبکرؓ کے قبول اسلام کے واقعہ

کا اس طرح ذکر ملتا ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعوؓدسے روایت ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق ؓنے فرمایا کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مبعوث ہونے سے پہلے ایک مرتبہ یمن گیا اور قبیلہ ازد کے ایک بوڑھے شخص کے پاس مہمان ٹھہرا۔ یہ شخص ایک عالم تھا، کتب سماویہ پڑھا ہوا تھا اور اسے لوگوں کے حسب و نسب کے علم میں مہارت حاصل تھی۔ اس نے جب مجھے دیکھا تو کہا میرا خیال ہے کہ تم حرم کے رہنے والے ہو۔ میں نے کہا ہاں میں اہلِ حرم میں سے ہوں۔ پھر اس نے کہا تم کو قریشی سمجھتا ہوں۔ میں نے کہا ہاں میں قریش میں سے ہوں۔ پھر اس نے کہا میں تم کو تیمی سمجھتا ہوں۔ میں نے کہا ہاں میں تیم بن مُرَّہ میں سے ہوں۔ میں عبداللہ بن عثمان ہوں اور کعب بن سعد بن تیم بن مُرَّہ کی اولاد سے ہوں۔ اس نے کہا کہ میرے لیے تمہارے متعلق اب صرف ایک بات رہ گئی ہے۔یہاں یہ جو عبداللہ بن عثمان نام بتانا ہے، میرا خیال ہے کہ اس وقت تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ابھی ان کا نام عبداللہ نہیں رکھا تھا لیکن یہ روایت ہے۔ بہرحال اس نے کہا کہ میرے لیے تمہارے متعلق اب صرف ایک بات باقی رہ گئی ہے۔ میں نے کہا وہ کیا ہے؟ اس نے کہا تم اپنے پیٹ سے کپڑا ہٹا کر دکھاؤ۔ میں نے کہا میں ایسا نہ کروں گا یا تم مجھے بتاؤ تم ایسا کیوں چاہتے ہو۔ اس نے کہا کہ میں صحیح اور سچے علم میں پاتا ہوں کہ ایک نبی حرم میں مبعوث ہوں گے۔ ایک جوان اور ایک بڑی عمر والا شخص ان کے کام میں ان کی مدد کریں گے۔ جہاں تک نوجوان کا تعلق ہے تو وہ مشکلات میں کود جانے والا اور پریشانیوں کو روکنے والا ہو گا اور بڑی عمر والا سفید اور پتلے جسم والا ہو گا اس کے پیٹ پر تل ہو گا اور اس کی بائیں ران پر ایک علامت ہو گی۔ اس نے کہا تمہارے لیے ضروری نہیں ہے کہ تم مجھے وہ دکھاؤ جو میں نے تم سے مطالبہ کیا ہے تم میں موجود باقی تمام صفات میرے لیے پوری ہو چکی ہیں سوائے اس کے جو مجھ پر مخفی ہے۔ حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا: پس میں نے اس کے لیے اپنے پیٹ سے کپڑا ہٹایا تو اس نے میری ناف کے اوپر سیاہ تل دیکھا تو کہنے لگا کہ

کعبہ کے رب کی قَسم وہ تم ہی ہو!

میں تمہارے سامنے ایک معاملہ پیش کرنے والا ہوں۔ پس تم اس کے متعلق محتاط رہنا۔ حضرت ابوبکرؓ نے کہا وہ کیا ہے؟ اس نے کہا کہ خبر دار ہدایت سے انحراف نہ کرنا اور مثالی اور بہترین راستے کو مضبوطی سے تھامے رکھنا اور خدا جو تمہیں مال اور دولت دے اس کے متعلق خدا سے ڈرتے رہنا۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓکہتے ہیں کہ میں نے یمن میں اپنا کام پورا کیا اور پھر اس بوڑھے شخص کو الوداع کہنے کے لیے اس کے پاس آیا تو اس نے کہا کیا تم میرے ان اشعار کو یاد کرو گے جو میں نے اس نبی کی شان میں کہے ہیں؟ میں نے کہا ہاں تو اس نے چند اشعار سنائے۔ حضرت ابوبکرؓ کہتے ہیں کہ پھر میں مکہ آیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہو چکے تھے۔ پھر عُقبہ بن ابی مُعَیط، شَیبہ ، رَبِیعہ، ابوجَہْل، ابوبُخْتَرِی اور قریش کے دیگر سردار میرے پاس آ گئے۔ میں نے ان سے کہا: کیا تم پر کوئی مصیبت آ گئی یا کوئی واقعہ ہو گیا ہے جو اکٹھے ہو کے آ گئے ہو۔ انہوں نے کہا کہ اے ابوبکر! بہت بڑا واقعہ ہو گیا ہے۔ ابوطالب کا یتیم دعویٰ کرتا ہے کہ وہ نبی ہے۔ اگر آپ نہ ہوتے تو ہم اس کے متعلق کچھ انتظار نہ کرتے۔ اب جبکہ آپ آ چکے ہیں تو اب اس معاملے کے لیے آپ ہی ہمارا مقصود ہیں اور ہمارے لیے کافی ہیں۔ حضرت ابوبکرؓ نے کہا کہ میں نے انہیں اچھے انداز سے ٹال دیا اور میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق پوچھا تو بتایا گیا کہ آپؐ خدیجہؓ کے مکان میں ہیں ۔ میں نے جا کر دروازے پر دستک دی۔ چنانچہ وہ باہر تشریف لائے۔ پس میں نے کہا: اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم! آپؐ اپنے خاندانی گھر سے اٹھ گئے ہیں اور آپؐ نے اپنے باپ دادا کا دین چھوڑ دیا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے ابوبکر! میں اللہ کا رسول ہوں تمہاری طرف بھی اور تم تمام لوگوں کی طرف بھی۔ پس تم اللہ پر ایمان لے آؤ۔ میں نے کہا اس پر آپؐ کی کیا دلیل ہے؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ بوڑھا شخص جس سے تم نے یمن میں ملاقات کی تھی۔ میں نے کہا کہ یمن میں تو بہت سے بوڑھے شخص تھے جن سے میں نے ملاقات کی ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ بوڑھا شخص جس نے تمہیں اشعار سنائے تھے۔ میں نے عرض کیا کہ اے میرے حبیبؐ! آپؐ سے کس نے یہ خبر بیان کی؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس عظیم فرشتے نے جو مجھ سے پہلے انبیاء کے پاس بھی آتا تھا۔ میں نے عرض کیا آپؐ اپنا ہاتھ بڑھائیں

میں شہادت دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور آپؐ اللہ کے رسول ہیں۔

حضرت ابوبکرؓ فرماتے تھے کہ پھر میں لوٹا اور میرے اسلام لانے کی وجہ سے مکہ کے دو پہاڑوں کے درمیان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ خوش کوئی اَور نہ ہوا۔

(اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابہ جلد3 صفحہ 313،312،دارالکتب العلمیۃ بیروت،2008ء)

اسد الغابہ کا یہ حوالہ ہے۔ ہو سکتا ہے کہ بعض جگہ بعض بڑھا بھی لیتے ہیں داستان کے لیے لیکن بہت ساری باتیں صحیح بھی ہوں گی۔

رِیَاضُ النَّضِرَۃ میں حضرت ابوبکرؓ کے قبولِ اسلام کا واقعہ اس طرح درج ہے۔ اُمّ المومنین حضرت اُمِّ سَلَمہؓ بیان فرماتی ہیں کہ حضرت ابوبکر صدیقؓ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے گہرے اور مخلص دوست تھے۔ جب آپؐ مبعوث ہوئے تو قریش کے لوگ حضرت ابوبکرؓ کے پاس آئے اور کہا کہ اے ابوبکر!تمہارا یہ ساتھی دیوانہ ہو گیا ہے (نعوذ باللہ)۔ حضرت ابوبکرؓ نے کہا کہ اس کو کیا معاملہ ہے؟ تو انہوں نے کہا کہ وہ مسجد حرام میں لوگوں کو توحید یعنی خدائے واحد کی طرف بلاتا ہے اور وہ کہتا ہے کہ وہ نبی ہے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ یہ بات انہوں نے کہی ہے؟ لوگوں نے کہا ہاں اور وہ یہ بات مسجد حرام میں کہہ رہے ہیں۔ چنانچہ حضرت ابوبکر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف گئے اور آپؐ کے دروازے پر دستک دی، آپؐ کو باہر بلایا۔ جب آپؐ ان کے سامنے آئے تو حضرت ابوبکرؓ نے کہا کہ اے ابوالقاسم! مجھے آپؐ کے متعلق کیا بات پہنچی ہے؟ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے ابوبکر! تمہیں میرے متعلق کیا بات پہنچی ہے؟ حضرت ابوبکرؓ نے کہا کہ مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ آپؐ اللہ کی توحید کی طرف بلاتے ہیں اور آپؐ کہتے ہیں کہ آپؐ اللہ کے رسول ہیں۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں اے ابوبکر! یقینا ًمیرے ربّ عزوجل نے مجھے بشیر اور نذیر بنایا ہے اور مجھے ابراہیم کی دعا بنایا ہے اور مجھے تمام انسانوں کی طرف مبعوث کیا ہے۔ حضرت ابوبکرؓ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا۔ اللہ کی قسم! مَیں نے کبھی آپؐ کو جھوٹ بولتے نہیں دیکھا۔ آپؐ یقیناً اپنی امانت کی عظمت، صلہ رحمی اور اچھے افعال کی وجہ سے نبوت کے زیادہ حق دار ہیں۔ اپنا ہاتھ بڑھائیں تا کہ میں آپؐ کی بیعت کروں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ بڑھایا اور حضرت ابوبکرؓ نے آپؐ کی بیعت کی اور آپؐ کی تصدیق کی اور اقرار کیا کہ آپؐ جو لے کر آئے ہیں وہ حق ہے۔ پس اللہ کی قَسم !حضرت ابوبکرؓ نے کوئی توقف اور تردّد نہ کیا جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپؓ کو اسلام کی طرف بلایا۔

(الریاض النضرۃ جلد 1 صفحہ 84-85۔ دار الکتب العلمیۃ بیروت2014ء)

ایک روایت میں ہے کہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے جسے بھی اسلام کی طرف بلایا اس نے ٹھوکر کھائی اور تردّد کیا اور انتظار کرتا رہا سوائے ابوبکر کے۔ میں نے جب ان سے اسلام کا ذکر کیا تو نہ وہ اس سے پیچھے ہٹے اور نہ انہوں نے اس کے بارے میں تردد کیا۔

(اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ جلد 3 صفحہ 205 – 206، عبد اللّٰہ بن عثمان، دارالفکر بیروت، 2003ء)

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے لوگو ! اللہ نے مجھے تمہاری طرف مبعوث کیا اور تم نے کہا تُو جھوٹا ہے اور ابوبکرؓ نے کہا سچا ہے۔ اور انہوں نے اپنی جان و مال سے میرے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا۔(صحیح البخاری کتاب فضائل اصحاب النبیؐ باب قول النبیؐ لو کنت متخذا خلیلا حدیث 3661)یہ بخاری کی روایت ہے۔

حضرت مصلح موعود حضرت ابوبکرؓ کے قبول اسلام کا واقعہ بیان کرتے ہوئے ایک جگہ اس طرح بیان کرتے ہیں کہ ’’رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب دعویٰ نبوت فرمایا تو اس وقت حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کہیں باہر گئے ہوئے تھے۔ واپس تشریف لائے تو آپؓ کی ایک لونڈی نے آپ سے کہا کہ آپ کادوست تو(نعوذباللہ) پاگل ہو گیا ہے اور وہ عجیب عجیب باتیں کرتا ہے۔ کہتا ہے کہ مجھ پر آسمان سے فرشتے نازل ہوتے ہیں۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اسی وقت اٹھے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مکان پر پہنچ کر آپ کے دروازے پر دستک دی۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائےتو حضرت ابوبکرؓ نے عرض کیا کہ میں آپ سے صرف ایک بات پوچھنے آیا ہوں۔ کیا آپ نے یہ کہا ہے کہ خدا کے فرشتے مجھ پر نازل ہوتے ہیں اور مجھ سے باتیں کرتے ہیں؟ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس خیال سے کہ ایسا نہ ہوکہ ان کو ٹھوکر لگ جائے تشریح کرنی چاہی۔‘‘ ہمارے ہاں تاریخ میں عموماً یہی روایت چلتی ہے۔ ’’مگر حضرت ابوبکرؓ نے کہا۔ آپؐ تشریح نہ کریں اور مجھے صرف اتنا بتائیں کہ کیا آپؐ نے یہ بات کہی ہے؟ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر اس خیال سے کہ معلوم نہیں یہ سوال کریں کہ فرشتوں کی شکل کیسی ہوتی ہے اور وہ کس طرح نازل ہوتے ہیں؟ پہلے کچھ تمہیدی طور پر بات کرنی چاہی مگر حضرت ابوبکرؓ نے پھر کہا کہ نہیں نہیں! آپؐ صرف یہ بتائیں کہ کیا یہ بات درست ہے؟ آپؐ نے فرمایا کہ ہاں درست ہے۔ اس پر حضرت ابوبکرؓ نے عرض کیا کہ میں آپؐ پر ایمان لاتا ہوں۔ اور پھر انہوں نے کہا یارسول اللہؐ! میں نے دلائل بیان کرنے سے صرف اس لئے روکا تھا کہ

میں چاہتا تھا کہ میرا ایمان مشاہدے پر ہو۔ دلائل پر اس کی بنیاد نہ ہو کیونکہ آپؐ کو صادق اور راستباز تسلیم کرنے کے بعد کسی دلیل کی ضرورت ہی نہیں رہتی۔

غرض جس بات کو مکہ والوں نے چھپایا تھا اسے حضرت ابوبکرؓ نے اپنے عمل سے واضح کر کے دکھادیا۔‘‘

(تفسیر کبیر جلد2صفحہ251-252)

حضرت مصلح موعودؓ نے ایک اَور جگہ حضرت ابوبکرؓ کے قبول اسلام کا واقعہ اس طرح بیان کیا ہے اور کیونکہ وضاحت کر رہے ہیں اس لیے کسی اَور حوالے سے اس میں اس طرح بیان ہے کہ ’’حضرت ابوبکرؓ کا ایمان لانا عجیب تر تھا۔ جس وقت آپؐ کو وحی ہوئی‘‘ یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو وحی ہوئی ’’کہ آپﷺ نبوت کا دعویٰ کریں۔ اس وقت حضرت ابوبکرؓ مکہ کے ایک رئیس کے گھر میں بیٹھے تھے۔ اس رئیس کی لونڈی آئی اور اس نے آ کر بیان کیا کہ خدیجہؓ کو معلوم نہیں کہ کیا ہو گیا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ میرے خاوند اسی طرح نبی ہیں جس طرح حضرت موسیٰؑ تھے۔ لوگ اس خبر پر ہنسنے لگے اور اس قسم کی باتیں کرنے والوں کو پاگل قرار دینے لگے مگر حضرت ابوبکرؓ جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات سے بہت گہری واقفیت رکھتے تھے اسی وقت اٹھ کر حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دروازے پر آئے اور پوچھا کہ کیا آپؐ نے کوئی دعویٰ کیا ہے؟ آپؐ نے بتایا ہاں! اللہ تعالیٰ نے مجھے دنیا کی اصلاح کے لئے مبعوث کیا ہے اور شرک کے مٹانے کا حکم دیا ہے۔ حضرت ابوبکرؓ نے بغیر اس کے کہ کوئی اور سوال کرتے جواب دیا کہ مجھے اپنے باپ کی اور ماں کی قسم! کہ تُو نے کبھی جھوٹ نہیں بولا اورمَیں نہیں مان سکتا کہ تُو خدا پر جھوٹ بولے گا۔ پس میں ایمان لاتا ہوں کہ خدا کے سوا اور کوئی معبود نہیں اور یہ کہ آپؐ خدا تعالیٰ کی طرف سے رسول ہیں۔ اس کے بعد ابوبکرؓ نے ایسے نوجوانوں کو جمع کر کے جو اُن کی نیکی اور تقویٰ کے قائل تھے‘‘ یعنی حضرت ابوبکرؓ کی نیکی اور تقویٰ کے قائل تھے انہیں ’’سمجھانا شروع کیا اور سات آدمی اَور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے۔ یہ سب نوجوان تھے جن کی عمر 12 سال سے لے کر 25 سال تک تھی۔‘‘

(دورۂ یورپ، انوارالعلوم جلد 8 صفحہ 543-544)

پھر ایک جگہ حضرت مصلح موعودؓ نے اس واقعہ کویوں بیان فرمایا ہے کہ

’’حضرت ابوبکرؓ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک ہی دلیل سے مانا ہے

اور پھر کبھی ان کے دل میں آپؐ کے متعلق ایک لمحہ کے لئے بھی شبہ پید انہیں ہوا۔‘‘ دلیل وہی چل رہی ہے۔ واقعات بعض دفعہ ذرا مختلف ہو جاتے ہیں ’’اور وہ دلیل یہ تھی کہ انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بچپن سے دیکھا اور وہ جانتے تھے کہ آپؐ نے کبھی جھوٹ نہیں بولا۔ کبھی شرارت نہیں کی۔ کبھی گندی اور ناپاک بات آپ کے منہ سے نہیں نکلی۔ بس یہی وہ جانتے تھے۔ اس سے زیادہ نہ وہ کسی شریعت کے جاننے والے تھے کہ اس کے بتائے ہوئے معیار سے رسول کریمﷺ کو سچا سمجھ لیا۔ نہ کسی قانون کے پیرو تھے۔ انہیں کچھ معلوم نہ تھا کہ خدا کا رسول کیا ہوتا ہے اور اس کی صداقت کے کیا دلائل ہوتے ہیں۔ وہ صرف یہ جانتے تھے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جھوٹ کبھی نہیں بولا۔ وہ ایک سفر پر گئے ہوئے تھے جب واپس آئے تو راستہ میں ہی کسی نے انہیں کہا تمہارا دوست (محمد صلی اللہ علیہ وسلم) کہتا ہے کہ میں خدا کا رسول ہوں۔ انہوں نے کہا کہ کیا محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) یہ کہتا ہے؟ اس نے کہا ہاں۔ انہوں نے کہا پھر

وہ جھوٹ نہیں بولتا۔ جو کچھ کہتا ہے سچ کہتا ہے۔ کیونکہ جب اس نے کبھی بندوں پر جھوٹ نہیں بولا تو خدا پر کیوں جھوٹ بولنے لگا۔

جب اس نے انسانوں سے کبھی ذرا بددیانتی نہیں کی تو اب ان سے اتنی بڑی بددیانتی کس طرح کرنے لگا کہ ان کی روحوں کو تباہ کر دے۔ صرف یہ دلیل تھی جس کی وجہ سے حضرت ابوبکرؓ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مانا اور اسی کو خدا تعالیٰ نے بھی لیا ہے۔ چنانچہ فرماتا ہے لوگوں کو کہہ دو

فَقَدْ لَبِثْتُ فِيْكُمْ عُمُرًا مِّنْ قَبْلِهٖ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ (یونس: 17)

مَیں ایک عرصہ تم میں رہا اس کو دیکھو اس میں میں نے تم سے کبھی غداری نہیں کی پھر اب میں خدا سے کیوں غداری کرنے لگا۔یہی وہ دلیل تھی جو حضرت ابوبکرؓ نے لی اور کہہ دیا کہ اگر وہ کہتا ہے کہ خدا کا رسول ہوں تو سچا ہے اور میں مانتا ہوں۔ اس کے بعد نہ کبھی ان کے دل میں کوئی شبہ پیدا ہوا اور نہ ان کے پائے ثبات میں کبھی لغزش آئی۔ ان پر بڑے بڑے ابتلاء آئے۔ انہیں جائیدادیں اور وطن چھوڑنا اور اپنے عزیزوں کو قتل کرنا پڑا مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صداقت میں کبھی شبہ نہ ہوا۔‘‘

(بیعت کرنے والوں کے لئے ہدایات، انوار العلوم جلد 6 صفحہ 76-77)

ایک دفعہ بیعت کرنے والوں کو ہدایات دے رہے تھے، ان کو سمجھا رہے تھے تو اس ضمن میں یہ بات آپؓ نے حضرت ابوبکرؓ کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ماننے کا واقعہ بیان کرتے ہوئے فرمائی۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام فرماتے ہیں کہ ’’آنحضرت صلی ا للہ علیہ وسلم نے جو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو صدیق کا خطاب دیا ہے تو اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے کہ آپؓ میں کیا کیا کمالات تھے۔ آنحضرت صلی ا للہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایاہے کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی فضیلت اس چیز کی وجہ سے ہے جو اس کے دل کے اندر ہے اور اگر غور سے دیکھا جائے تو حقیقت میں حضرت ابو بکرؓ نے جو صدق دکھایا اس کی نظیر ملنی مشکل ہے اور سچ تو یہ ہے کہ ہر زمانہ میں جو شخص صدیق کے کمالات حاصل کرنے کی خواہش کرے اس کے لئے یہ ضروری ہے کہ ابو بکری خصلت اور فطرت کو اپنے اندر پیدا کرنے کے لئے جہاں تک ممکن ہو مجاہدہ کرے اور پھر حتی المقدور دعا سے کام لے۔جب تک ابو بکری فطرت کا سایہ اپنے اوپر ڈال نہیں لیتا اور اسی رنگ میں رنگین نہیں ہو جاتاصدیقی کمالات حاصل نہیں ہو سکتے۔‘‘

پھر فرمایا کہ ’’ابو بکری فطرت کیا ہے؟ اس پر مفصل بحث اور کلام کا یہ موقعہ نہیں کیونکہ اس کے تفصیلی بیان کیلئے بہت وقت درکار ہے۔‘‘ فرمایا کہ ’’میں مختصراً ایک واقعہ بیان کر دیتا ہوں اور وہ یہ ہےکہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نبوت کا اظہار فرمایا۔ اس وقت حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ شام کی طرف سوداگری کرنے کے لئے گئے ہوئے تھے۔ جب واپس آئے تو ابھی راستے ہی میں تھے کہ ایک شخص آپؓ سے ملا۔ آپؓ نے اس سے مکے کے حالات دریافت فرمائے اور پوچھا کہ کوئی تازہ خبر سناؤ۔ جیسا کہ قاعدے کی بات ہے کہ جب انسان سفر سے واپس آتا ہے تو راستے میں اگر کوئی اہلِ وطن مل جائے۔ تو اس سے اپنے وطن کے حالات دریافت کرتا ہے۔ اس شخص نے جواب دیا کہ نئی بات یہ ہے کہ تیرے دوست محمدﷺ نے پیغمبری کا دعویٰ کیا ہے۔

حضرت ابوبکر نے یہ سنتے ہی فرمایا کہ اگر اس نے یہ دعویٰ کیا ہے تو بلا شک وہ سچا ہے۔

اسی ایک واقعہ سے معلوم ہو سکتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر آپؓ کو کس قدرحسن ظن تھا۔ معجزے کی بھی ضرورت نہیں سمجھی اور حقیقت بھی یہی ہے کہ معجزہ وہ شخص مانگتا ہے جو مدعی کے حالات سے ناواقف ہو اور جہاں غیریت ہو اور مزید تسلی کی ضرورت ہو لیکن جس شخص کو حالات سے پوری واقفیت ہو تو اسے معجزے کی ضرورت ہی کیا ہے۔ الغرض حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ راستہ میں ہی آنحضرت ﷺکا دعویٰ نبوت سن کر ایمان لے آئے۔ پھر جب مکے میں پہنچے تو آنحضرت ﷺکی خدمت مبارک میں حاضر ہو کر دریافت کیا کہ آپؐ نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں یہ درست ہے۔ اس پرحضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ آپؐ گواہ رہیں کہ میں آپؐ کا پہلا مصدق ہوں۔ آپؓ کا ایسا کہنا محض قول ہی قول نہ تھابلکہ آپؓ نے‘‘ یعنی حضرت ابوبکرؓ نے ’’اپنے افعال سے اسے ثابت کر دکھایا اور مرتے دم تک اسے نبھایا اور بعد مرنے کے بھی ساتھ نہ چھوڑا۔‘‘

(ملفوظات جلد اول صفحہ 372تا374)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورۂ رحمٰن کی آیت

وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهٖ جَنَّتَانِ (الرحمٰن: 47)۔

اور جو بھی اپنے رب کے مقام سے ڈرتا ہے اس کے لیے دو جنتیں ہیں

وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهٖ جَنَّتَانِ۔

جو اپنے رب کے مقام سے ڈرتا ہے اس کے لیے دو جنتیں ہیں۔ اس کی تفسیر بیان کرتے ہوئے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مثال دیتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ ‘‘حضرت ابو بکر صدیقؓ کو دیکھو کہ جب وہ شام کے ملک واپس آرہے تھے تو راستہ میں ایک شخص ان کو ملا۔ آپ نے اس سے پو چھا کہ کوئی تازہ خبر سناؤ ۔ اس شخص نے جواب دیا کہ اور تو کوئی تازہ خبر نہیں البتہ تمہارے دوست محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) نے پیغمبری کا دعوی کیا ہے۔ اس پر ابوبکر صدیقؓ نے اس کو جواب دیا کہ اگر اس نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے تو وہ سچا ہے۔ وہ جھوٹا کبھی نہیں ہو سکتا۔اس کے بعد حضرت ابو بکر صدیقؓ سیدھے حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مکان پر چلے گئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مخا طب کر کے کہنے لگے کہ آپ گواہ رہیں کہ سب سے پہلے آپ پرایمان لانے والا میں ہوں۔ دیکھو انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی معجزہ نہیں مانگا تھا۔ صرف پہلے تعارف کی برکت سےہی وہ ایمان لے آئے تھے۔ یاد رکھو

معجزات وہ طلب کیا کرتے ہیں جن کو تعارف نہیں ہوتا۔

جو لنگوٹیا یار ہوتا ہے اس کے لیے تو سابقہ حا لات ہی معجزہ ہوتے ہیں ا س کے بعد حضرت ابوبکرؓ کو بڑی بڑی تکالیف کا سامنا ہوا۔طرح طرح کے مصائب اور سخت درجے کے دکھ اٹھانے پڑے لیکن دیکھو اگر سب سے زیادہ انہیں کو دکھ دیا گیا تھا اور وہی سب سے بڑھ کر ستائے گئے تھے تو سب سے پہلے تخت نبوت پر وہی بٹھائے گئے تھے۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے یہاں بھی ان کو انعام سے نواز دیا اور اگلے جہان میں تو ہے ہی جنت۔ ’’کہاں وہ تجارت کہ تمام دن دھکے کھاتے پھرتے تھے اور کہاں یہ درجہ کہ آنحضر ت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب سے اول خلیفہ انہیں کو مقر ر کیا گیا۔‘‘

(ملفوظات جلد 10 صفحہ78-79)

پھر ایک جگہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں’’آدمی دو قسم کے ہوتے ہیں ایک تو وہ سعید الفطرت ہوتے ہیں جو پہلے ہی مان لیتے ہیں۔ یہ لوگ بڑے ہی دور اندیش اور باریک بین ہوتے ہیں جیسے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے اور ایک بیوقوف ہوتے ہیں جب سر پر آ پڑتی ہیں تب کچھ چونکتے ہیں۔‘‘ (ملفوظات جلد سوم صفحہ261) یعنی جب کسی مشکل میں گرفتار ہوتے ہیں، عذاب آتا ہے تب سوچتے ہیں کہ ماننا چاہیے کہ نہیں۔

اس بارے میں بھی بحث ہوتی ہے کہ

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر سب سے پہلے کون ایمان لایا؟

مؤرخین کے نزدیک اس بات میں اختلاف پایا جاتا ہے کہ مردوں میں سے سب سے پہلے کون ایمان لایا تھاحضرت ابوبکرؓ یا حضرت علیؓ یا حضرت زید بن حارثہؓ۔

(سُبُل الہُدٰی و الرشاد جلد 2 صفحہ 300-304 الباب الثانی فی اسلام خدیجہ و علی و زید و ابی بکر…… دار الکتب العلمیۃ 1993ء)

(تاریخ الطبری جلد 1۔ تاریخ ما قبل الھجرۃ صفحہ 537 تا 540۔ دار الکتب العلمیۃ بیروت)

بعض اس کا یہ حل نکالتے ہیں کہ بچوں میں سے حضرت علیؓ اور بڑوںمیں سے حضرت ابوبکرؓ اور غلاموں میں سے حضرت زیدؓ سب سے پہلے ایمان لائے تھے۔ چنانچہ علامہ احمد بن عبداللہ ان روایات میں تطبیق کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ سب سے پہلے حضرت خدیجہؓ بنت خُویلد نے اسلام قبول کیا اور مردوں میں سب سے پہلے حضرت علیؓ نے اسلام قبول کیا جبکہ وہ ابھی بچے تھے جیسا کہ ان کی عمر کے بارے میں پہلے ذکر ہو چکا ہے کہ ان کی عمر دس سال تھی۔ وہ اپنا اسلام مخفی رکھے ہوئے تھے اور پہلے بالغ عربی شخص جس نے اسلام قبول کیا اور اپنے اسلام کا اظہار کیا وہ حضرت ابوبکر بنِ ابوقُحافہؓ تھے اور آزاد کردہ غلاموں میں سے جس نے سب سے پہلے اسلام قبول کیا وہ حضرت زیدؓ بن حارثہ ؓتھے۔ یہ متفق امر ہے جس میں کوئی اختلاف نہیں۔

(الریاض النضرۃ فی مناقب العشرۃ جلد 1۔ صفحہ 89۔ دار الکتب العلمیۃ 2014ء)

حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے اس بحث کا ذکر کرتے ہوئے جو فرمایا ہے وہ اس طرح ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اپنے مشن کی تبلیغ شروع کی تو سب سے پہلے ایمان لانے والی حضرت خدیجہ ؓتھیں جنہوں نے ایک لمحے کے لیے بھی تردّد نہیں کیا۔ حضرت خدیجہؓ کے بعد مردوں میں سب سے پہلے ایمان لانے والے کے متعلق مورخین میں اختلاف ہے۔ بعض حضرت ابو بکر عبداللہ بن ابی قحافہؓ کا نام لیتے ہیں۔ بعض حضرت علیؓ کا یا زید بن حارثہؓ کا لیکن آپؓ لکھتے ہیں کہ ہمارے نزدیک یہ جھگڑا فضول ہے۔ حضرت علیؓ اور زید بن حارثہؓ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر کے آدمی تھے اور آپؐ کے بچوں کی طرح آپؐ کے ساتھ رہتے تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانا تھا اور ان کا ایمان لانا تھا۔جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس بات کو وہ بچوں کی حیثیت سے مانتے تھے اور ہو سکتا ہے کہ اس وقت یہ بات بھی انہوں نے اس طرح ہی مانی ہو۔ پھر آپؓ لکھتے ہیں کہ ان دونوں بچوں کو نکال دو تو حضرت ابوبکرؓ مسلمہ طور پر مقدم اور سابق بالایمان تھے۔ چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے درباری شاعر حسان بن ثابت انصاریؓ حضرت ابوبکرؓ کے متعلق کہتے ہیں کہ

اِذَا تَذَکَّرْتَ شَجْوًا مِنْ اَخِیْ ثِقَةٍ

فَاذْکُرْ اَخَاکَ اَبَابَکْرٍ بِمَا فَعَلَا

خَیْرَ الْبَرِیَّةِ اَتْقَاھَا وَ اَعْدَلَھَا

بَعْدَ النَّبِیِّ وَ اَوْفَاھَا بِمَا حَمَلَا

اَلثَّانِیَ التَّالِیَ الْمَحْمُوْدَ مَشْھَدُہٗ

وَاَوَّلَ النَّاسِ مِنْھُمْ صَدَّقَ الرُّسُلَا

یعنی جب تمہارے دل میں کبھی کوئی درد آمیز یاد تمہارے کسی اچھے بھائی کے متعلق پیدا ہو تو اس وقت اپنے بھائی ابوبکرؓ کو بھی یاد کر لیا کرو۔ اس کی ان خوبیوں کی وجہ سے جو یاد رکھنے کے قابل ہیں۔ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب لوگوں میں سے زیادہ متقی اور سب سے زیادہ منصف مزاج تھا اور سب سے زیادہ پورا کرنے والا تھا اپنی ان ذمہ داریوں کو جو اس نے اٹھائیں۔ ہاں ابوبکرؓ وہی تو ہے جو غارِ ثور میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دوسرا شخص تھا جس نے اپنے آپ کو آپؐ کی اِتباع میں بالکل محو کر رکھا تھا اور وہ جس کام میں بھی ہاتھ ڈالتا تھا اسے خوبصورت بنا دیتا تھا اور وہ ان سب لوگوں میں سے پہلا تھا جو رسولؐ پر ایمان لائے۔

حضرت ابوبکرؓ اپنی شرافت اور قابلیت کی وجہ سے قریش میں بہت مکرّم و معزز تھے

اور اسلام میں تو اُن کو وہ رتبہ حاصل ہوا جو کسی اَور صحابی کو حاصل نہیں۔ حضرت ابوبکرؓ نے ایک لمحے کے لیے بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دعویٰ میں شک نہیں کیا بلکہ سنتے ہی قبول کیا اور پھر انہوں نے اپنی ساری توجہ اور اپنی جان اورمال کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے دین کی خدمت میں وقف کر دیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ میں ابوبکرؓ کوزیادہ عزیز رکھتے تھے اور آپؐ کی وفات کے بعد وہ آپؐ کے پہلے خلیفہ ہوئے۔ اپنی خلافت کے زمانے میں بھی انہوں نے بے نظیر قابلیت کا ثبوت دیا۔ حضرت ابوبکرؓ کے متعلق یورپ کا مشہور مستشرق سپرنگر (Sprenger) لکھتا ہے کہ ابو بکر کا آغازِ اسلام میں محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) پر ایمان لانا اس بات کی سب سے بڑی دلیل ہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم)خواہ دھوکا کھانے والے ہوں مگر دھوکا دینے والے ہر گز نہیں تھے بلکہ صدقِ دل سے اپنے آپ کو خدا کا رسول یقین کرتے تھے۔حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے لکھا ہے کہ سرولیم میور کو بھی سپرنگر کی اس رائے سے اتفاق ہے۔

(ماخوذ از سیرت خاتم النبیین ؐصفحہ121-122)

حضرت ابوبکرؓ کو تبلیغِ اسلام اور اس کے نتیجے میں کن آزمائشوں سے گزرنا پڑا۔

اس کے بارے میں اسد الغابہ میں لکھا ہے کہ جب اسلام آیا تو آپؓ نے سب سے پہلے اسلام قبول کیا اور آپؓ کے ہاتھ پر ایک جماعت نے اسلام قبول کیا اس محبت کی وجہ سے جو اُن لوگوں کو آپؓ یعنی حضرت ابوبکرؓ سے تھی اور اس میلان کی وجہ سے جو انہیں حضرت ابوبکرؓ کی طرف تھا یہاں تک کہ

عشرہ مبشرہ میں سے پانچ صحابہ نے آپؓ کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا۔

(ماخوذ اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ جلد 3 صفحہ 205 عبد اللہ ؓبن عثمان، دارالفکر بیروت، 2003ء)

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تبلیغ سے اسلام لانے والوں میں حضرت عثمان بن عفان، حضرت زُبیر بن عوام، حضرت عبدالرحمٰن بن عَوف، حضرت سعد بن ابی وقاص، حضرت طلحہ بن عبیداللہ شامل تھے۔

(سیرت ابن ہشام جلد 1 صفحہ 166 ، ذکر من اسلم من الصحابۃ بدعوۃ ابی بکر، دارالکتاب العربی بیروت، 2008ء)

اس بارے میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ اپنی کتاب سیرت خاتم النبیینؐ میں لکھتے ہیں کہ ’’حضرت خدیجہؓ ، حضرت ابوبکرؓ، حضرت علیؓ اور حضرت زیدبن حارثہؓ کے بعد اسلام لانے والوں میں پانچ اشخاص تھے جو حضرت ابوبکرؓ کی تبلیغ سے ایمان لائے اور یہ سب کے سب اسلام میں ایسے جلیل القدر اور عالی مرتبہ اصحاب نکلے کہ چوٹی کے صحابہ میں شمار کئے جاتے ہیں۔ ان کے نام یہ ہیں۔ اول حضرت عثمان بن عفانؓ جو خاندان بنو امیہ میں سے تھے۔ اسلام لانے کے وقت ان کی عمر قریبا ًتیس سال کی تھی۔ حضرت عمرؓ کے بعد وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تیسرے خلیفہ ہوئے۔ حضرت عثمانؓ نہایت باحیا، باوفا، نرم دل، فیاض اور دولتمند آدمی تھے۔ چنانچہ کئی موقعوں پر انہوں نے اسلام کی بہت بہت مالی خدمات کیں۔ حضرت عثمانؓ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کا اندازہ اس بات سے بھی ہو سکتا ہے کہ آپؐ نے انہیں پے در پے اپنی دو لڑکیاں شادی میں دیں جس کی وجہ سے انہیں ذوالنورین کہتے ہیں۔

دوسرے عبدالرحمٰن بن عوفؓ تھے جو خاندان بَنُو زُہرہ سے تھے جس خاندان سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی والدہ تھیں۔ نہایت سمجھدار اور بہت سلجھی ہوئی طبیعت کے آدمی تھے۔ حضرت عثمانؓ کی خلافت کا سوال انہی کے ہاتھوں سے طے ہوا تھا۔ اسلام لانے کے وقت اِن کی عمر قریبا ًتیس سال کی تھی۔ عہدِ عثمانی میں فوت ہوئے۔

تیسرے سعد بن ابی وقاصؓ تھے جو اس وقت بالکل نوجوان تھے یعنی اس وقت ان کی عمر انیس سال کی تھی۔ یہ بھی بَنُوزُہرہ میں سے تھے اور نہایت دلیر اور بہادر تھے۔ حضرت عمرؓ کے زمانے میں عراق انہی کے ہاتھ پر فتح ہوا۔ امیر معاویہؓ کے زمانے میں فوت ہوئے۔

چوتھے زُبیر بن عَوّامؓ تھے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پھوپھی زاد بھائی تھے۔ یعنی صَفِیّہ بنت عبدالمطلب کے صاحبزادے تھے اور بعد میں حضرت ابو بکرؓ کے داماد ہوئے۔ یہ بنو اسد میں سے تھے اور اسلام لانے کے وقت ان کی عمر صرف پندرہ سال کی تھی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے زبیر کو غزوۂ خندق کے موقعے پر ایک خاص خدمت سرانجام دینے کی وجہ سے حواری کا خطاب عطا فرمایا تھا۔ زبیرؓ حضرت علیؓ کے عہد حکومت میں جنگِ جمل کے بعد شہید ہوئے۔

پانچویں طَلْحہ بن عُبَیداللہ تھے حضرت ابو بکرؓ کے خاندان یعنی قبیلہ بنو تَیم میں سے تھے اور اس وقت بالکل نوجوان تھے۔ طلحہ بھی اسلام کے خاص فدایان میں سے تھے۔ حضرت علیؓ کے عہد میں جنگ جمل میں شہید ہوئے۔

یہ پانچوں اصحاب عشرہ مبشرہ میں سے ہیں یعنی ان دس صحابہ میں داخل ہیں جن کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زبان مبارک سے خاص طور پر جنت کی بشارت دی تھی اور جو آپﷺ کے نہایت مقرب صحابی اور مشیر شمار ہوتے تھے۔‘‘

(سیرت خاتم النبیین ؐصفحہ 122-123)

کفارِ مکہ نے اسلام قبول کرنے والوں پر طرح طرح کے مظالم کیے،

نہ صرف کمزور اور غلام مسلمان ہی ان کے ظلم و تشدد کا نشانہ بنے بلکہ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکرؓ بھی مشرکین مکہ کے مظالم سے محفوظ نہ رہے۔ تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ انہیں بھی طرح طرح کے ظلم و ستم کا نشانہ بنایا گیا یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اور حضرت ابوبکرؓ کو بھی۔ چنانچہ سیرت حَلَبِیَّہ میں ایک واقعہ مذکور ہے کہ حضرت ابوبکرؓ اور حضرت طلحہؓ نے جب اپنے اسلام کا اظہار کیا تو نوفل بن عَدَوِیَّہ نے ان دونوں کو پکڑ لیا۔ یہ شخص قریش کا شیر کہلاتا تھا۔ اس نے ان دونوں کو ایک ہی رسی سے باندھ دیا۔ ان کے قبیلہ بنو تیم نے بھی ان دونوں کو نہ بچایا۔ اسی وجہ سے حضرت ابوبکرؓ اور حضرت طلحہ ؓکو قَرِیْنَیْن بھی کہتے ہیں یعنی دو ساتھ ملے ہوئے۔ نوفل بن عدویہ کی قوت اور اس کے ظلم کی وجہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ

اَللّٰھُمَّ اکْفِنَا شَرَّ ابْنِ الْعَدَوِیَّۃِ

کہ اے اللہ! ابن عَدَوِیَّہکے شر کے مقابلے میں ہمارے لیے تُو کافی ہو جا۔

(السیرة الحلبیة جلد اول صفحہ 395 باب ذکر اول الناس ایماناً بہ ﷺ۔ دار الکتب العلمیة بیروت 2002ء)

عروہ بن زبیر نے بیان کیا کہ میں نے حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص سے پوچھا کہ وہ بدترین سلوک مجھے بتائیں جو مشرکین نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ایک بار نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسجد حرام کے حطیم میں نماز پڑھ رہے تھے کہ عُقْبہ بن اَبِی مُعَیط آیا اور اس نے کپڑا آپؐ کی گردن میں ڈال کر آپؐ کا گلا زور سے گھونٹا۔ اتنے میں حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ پہنچ گئے اور آکر انہوں نےعقبہ کا کندھا پکڑا اور اسے دھکیل کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہٹا دیا اور کہا

أَتَقْتُلُوْنَ رَجُلًا أَنْ يَّقُوْلَ رَبِّيَ اللّٰهُ۔ (المومن:29)

کہ کیا تم ایسے شخص کو مارتے ہو جو کہتا ہے کہ میرا رب اللہ ہے۔

(صحیح البخاری کتاب مناقب الانصار باب ما لقی النبی ﷺ واصحابہ من المشرکین بمکۃ حدیث 3856)

ایک روایت میں آتا ہے کہ ایک دفعہ مشرکین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ کیا تم ہمارے معبودوں کے بارے میں یہ بات نہیں کہتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں۔ اس پر وہ آپؐ کے گرد جمع ہو گئے اور اس وقت کسی نے حضرت ابوبکرؓ سے کہا کہ اپنے دوست کی خبر لو۔ حضرت ابوبکرؓ نکلے اور مسجد حرام پہنچے۔ آپؓ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس حال میں پایا کہ لوگ آپؐ کے گرد اکٹھے ہیں ۔ حضرت ابوبکرؓ نے کہا تم لوگوں کا برا ہو،

أَتَقْتُلُوْنَ رَجُلًا أَنْ يَّقُوْلَ رَبِّيَ اللّٰهُ وَقَدْ جَاءَكُمْ بِالْبَيِّنَاتِ مِنْ رَبِّكُمْ۔(المومن:29)

کیا تم محض اس لیے ایک شخص کو قتل کرو گے کہ وہ کہتا ہے کہ میرا رب اللہ ہے اور وہ تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے کھلے کھلے نشان لے کر آیا ہے۔ اس پر انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ دیا اور حضرت ابوبکرؓ کی طرف لپکے اور ان کو مارنے لگے۔ حضرت ابوبکرؓ کی بیٹی حضرت اسماء ؓکہتی ہیں کہ آپؓ ہمارے پاس اس حالت میں آئے کہ آپ اپنے بالوں کو ہاتھ لگاتے تو وہ آپ کے ہاتھ میں آ جاتے اور آپ کہتے جاتے تھے کہ

تَبَارَکْتَ یَا ذَا الْجَلَالِ وَ الْاِکْرَامِ

کہ اے بزرگی اور عزت والے! تُو بابرکت ہے۔

ایک روایت میں آتا ہے کہ ان لوگوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سر مبارک اور آپؐ کی ریش مبارک کو اس زور سے کھینچا کہ آپؐ کے اکثر بال مبارک گر گئے۔ اس پر حضرت ابوبکرؓ آپؐ کو بچانے کے لیے کھڑے ہوئے اور وہ کہہ رہے تھے

أَتَقْتُلُوْنَ رَجُلًا أَنْ يَّقُوْلَ رَبِّيَ اللّٰهُ (المومن: 29)

کیا تم محض اس لیے ایک شخص کو قتل کرو گے کہ وہ کہتا ہے کہ میرا رب اللہ ہے۔ کیا تم اس شخص کو اس وجہ سے قتل کرنا چاہتے ہو کہ وہ کہتا ہے کہ اللہ میرا رب ہے اور حضرت ابوبکرؓ رو بھی رہے تھے۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ اے ابوبکر! ان کو چھوڑ دو۔ اس کی قَسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے میں ان کی طرف بھیجا گیا ہوں تا کہ میں قربان ہو جاؤں۔ اس پر انہوں نے یعنی کافروں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ دیا۔

(السیرة الحلبیة جلد اول صفحہ 417 باب استخفائہﷺ و اصحابہ فی دار الارقم بن ابی الارقم۔ دار الکتب العلمیۃ بیروت 2002ء)

حضرت علیؓ نے ایک مرتبہ لوگوں سے پوچھا کہ اے لوگو! لوگوںمیں سب سے زیادہ بہادر کون ہے؟ لوگوں نے جواب دیا کہ اے امیر المومنین آپؓ ہیں۔ حضرت علیؓ نے فرمایا: جہاں تک میری بات ہے میرے ساتھ جس نے مبارزت کی، میں نے اس سے انصاف کیا یعنی اسے مار گرایا مگر

سب سے بہادر ابوبکرؓ ہیں۔

ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بدر کے دن خیمہ لگایا۔ پھر ہم نے کہا کہ کون ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہے تا آپ صلی اللہ علیہ وسلم تک کوئی مشرک نہ پہنچ پائے تو اللہ کی قَسم! آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب کوئی نہ گیا مگر حضرت ابوبکرؓ اپنی تلوار کو سونتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر کھڑے ہو گئے یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کوئی مشرک نہیں پہنچے گا مگر پہلے وہ حضرت ابوبکرؓ سے مقابلہ کرے گا۔ پس وہ سب سے بہادر شخص ہیں۔

حضرت علی کہتے ہیں کہ ایک دفعہ کی بات ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ قریش نے آپؐ کو پکڑا ہوا ہے۔ کوئی آپؐ پر غصہ اتارتا۔ کوئی آپؐ کو تنگ کرتا اور وہ لوگ کہتے کہ تم نے تمام معبودوں کو ایک معبود بنا دیا ہے۔ اللہ کی قَسم! جو بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب آتا حضرت ابوبکرؓ کسی کو مار کر بھگاتے۔ کسی کو برا بھلا کہہ کر دور کرتے اور کہتے تمہاری ہلاکت ہو،

أَتَقْتُلُوْنَ رَجُلًا أَنْ يَّقُوْلَ رَبِّيَ اللّٰهُ (المومن: 29)

کیا تم محض اس لیے ایک شخص کو قتل کرو گے کہ وہ کہتا ہے کہ میرا رب اللہ ہے۔ پس حضرت علیؓ نے اپنی چادر ہٹائی اور اس قدر روئے کہ آپؓ کی داڑھی تر ہو گئی۔ پھر فرمایا میں تمہیں اللہ کی قسم دیتا ہوں کہ کیا آل فرعون کا مومن بہتر تھا یا حضرت ابوبکرؓ۔ غالباً حضرت علیؓ نے آل فرعون کے مومن کا ذکر اس لیے کیا کہ قرآن کریم میں یہ آیت آلِ فرعون کے اس شخص کی طرف منسوب ہے جو اپنے ایمان کو چھپائے ہوئے تھا اور فرعون کے دربار میں یہ کہہ رہا تھا کہ أَتَقْتُلُوْنَ رَجُلًا أَنْ يَّقُوْلَ رَبِّيَ اللّٰهُ اس پر لوگ خاموش ہو گئے۔ حضرت علیؓ نے فرمایا اللہ کی قسم! حضرت ابوبکرؓ کی ایک گھڑی آلِ فرعون کے مومن کی زمین بھر کی نیکیوں سے بہتر ہے کیونکہ وہ شخص اپنے ایمان کو چھپاتا تھا اور یہ شخص یعنی حضرت ابوبکرؓ اپنے ایمان کا اعلان کرتا تھا۔

(ابوبکر الصدیق شخصیتہ و عصرہ از دکتور علی محمد الصلابی صفحہ 38، دفاعہ عن النبی ﷺ ، دارابن کثیر بیروت 2003ء)

حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ’’جب ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے واقعات کو دیکھتے ہیں تو ہمیں یہ دعویٰ ایک حقیقت بن کر نظر آتا ہے اور ہمیں قدم قدم پر ایسے واقعات دکھائی دیتے ہیں جو آپؐ کی اس عظیم الشان محبت اور شفقت کا ثبوت ہیں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بنی نوع انسان سے تھی۔ چنانچہ آپؐ کو خدائے واحد کا پیغام پہنچانے کے لئے سالہا سال تک ایسی تکالیف میں سے گزرنا پڑا کہ جن کی کوئی حد نہیں۔ ایک دفعہ خانہ کعبہ میں کفار نے آپؐ کے گلے میں پٹکا ڈال کر اتنا گھونٹا کہ آپؐ کی آنکھیں سرخ ہو کر باہر نکل پڑیں۔ حضرت ابوبکرؓ نے سنا تو وہ دوڑے ہوئے آئے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس تکلیف کی حالت میں دیکھ کر آپؓ کی آنکھوں میں آنسو آ گئے اور آپؓ نے ان کفار کو ہٹاتے ہوئے کہا۔ خدا کا خوف کرو۔ کیا تم ایک شخص پر اس لئے ظلم کر رہے ہو کہ وہ کہتا ہے خدا میرا رب ہے۔‘‘

(تفسیر کبیر جلد 7 صفحہ63-64)

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام فرماتے ہیں: ’’ایک دفعہ چند دشمنوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تنہا پا کر پکڑ لیا اور آپؐ کے گلے میں پٹکا ڈال کر اسے مروڑنا شروع کیا۔ قریب تھا کہ آپؐ کی جان نکل جائے کہ اتفاق سے ابوبکرؓ آ نکلے اور انہوں نے مشکل سے چھڑایا۔ اس پر ابوبکرؓ کو اس قدر مارا پیٹا کہ وہ بیہوش ہو کر زمین پر گر پڑے۔‘‘

(چشمۂ معرفت ، روحانی خزائن جلد 23صفحہ 257-258)

غلاموں کو آزاد کروانے کے بارے میں حضرت ابوبکرؓ کے بارے میں روایات

میں لکھا ہے کہ حضرت ابوبکرؓ نے جب اسلام قبول کیا تو ان کے پاس چالیس ہزار درہم تھے۔ آپؓ نے اسے اللہ کی راہ میں خرچ کیا اور ان سات کو آزاد کروایا جن کو اللہ کی وجہ سے تکلیف دی جاتی تھی۔ آپؓ نے حضرت بلاؓل، عَامِر بن فُہَیرہؓ، زِنِّیْرَہ، نَھْدِیَّہ اور ان کی بیٹی، بنی مُؤَمَّل کی ایک لونڈی اور ام عُبَیس کو آزاد کروایا۔

(الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ جلد 3 صفحہ 247،عبد اللہ بن عثمان،دارالفکر بیروت 2001ء)

حضرت بلالؓ بنو جُمَح کے غلام تھے اور امیہ بن خَلْف آپؓ کو شدید تکلیف پہنچایا کرتا تھا۔

(اسد الغابہ فی معرفۃ الصحابہ جلد اول صفحہ 283 ذکر بلال بن رباح دارالفکربیروت 2003ء)

ایک روایت میں ہے کہ جب حضرت بلالؓ ایمان لائے تو حضرت بلالؓ کو ان کے مالکوں نے پکڑ کر زمین پر لٹا دیا اور ان پر سنگریزے اور گائے کی کھال ڈال دی اور کہنے لگے کہ تمہارا رب لات اور عُزیٰ ہے۔ مگر آپؓ احد! احد! کہتے تھے۔ آپؓ کے پاس حضرت ابوبکرؓ آئے اور کہا کہ کب تک تم اس شخص کو تکلیف دیتے رہو گے۔ راوی کہتے ہیں کہ حضرت ابوبکرؓ نے حضرت بلالؓ کو سات اوقیہ میں خرید کرانہیں آزاد کر دیا یعنی چالیس درہم کا ایک اوقیہ ہے دو سو اسی درہم میں خریدا۔ پھر حضرت ابوبکرؓ نے یہ واقعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بیان کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے ابوبکر! مجھے بھی اس میں شریک کر لو۔ حضرت ابوبکرؓ نے عرض کیا یا رسول اللہؐ! میں نے اسے آزاد کر دیا ہے۔

(الطبقات الکبریٰ لابن سعد الجزء الثالث صفحہ175 ’’بلال بن رباح‘‘ دار الکتب العلمیۃ بیروت 2012ء)

(لغات الحدیث جلداول صفحہ 82 نعمانی کتب خانہ لاہور)

حضرت عامر بن فُہَیرہؓ ایک سیاہ فام غلام تھے۔ آپؓ طُفَیل بن عبداللہ بن سَخْبَرَہ کے غلام تھے جو کہ والدہ کی طرف سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے بھائی تھے۔ حضرت عامرؓ اسلام لانے والے سابقین میں شامل تھے۔ آپؓ کو اللہ تعالیٰ کی راہ میں تکالیف پہنچائی گئیں۔ حضرت ابوبکرؓ نے آپ کو خریدا اور آزاد کر دیا۔

(اسد الغابہ جلد 3 صفحہ 31عامر بن فھیرہ دارالکتب العلمیہ 2003ء)

حضرت زِنِّیرہ رومی اسلام میں سبقت لے جانے والی خواتین میں سے تھیں۔ انہوں نے اسلام کے آغاز میں ہی اسلام قبول کر لیا تھا۔ مشرکین آپؓ کو اذیتیں دیتے تھے۔ یہ کہا جاتا ہے کہ آپؓ بنو مخزوم کی لونڈی تھیں اور ابوجہل آپؓ کو اذیت دیا کرتا تھا اور کہا جاتا ہے کہ آپؓ بنو عبدالدار کی لونڈی تھیں۔جب انہوں نے اسلام قبول کیا تو ان کی بینائی چلی گئی۔ اس پر مشرکین نے کہاکہ لات اور عُزّٰینے ان دونوں کے انکار کرنے کی وجہ سے زِنِّیرہ کو اندھا کر دیا ہے۔ اس پر حضرت زِنِّیرہ نے کہا کہ لات اور عُزّٰیتو یہ بھی نہیں جانتے کہ ان دونوں کی عبادت کون کرتا ہے، مجھے کیا اندھا کرنا تھا۔ ان کو تو خود نظر نہیں آتا۔ یہ تو آسمان سے ہے۔ اللہ کی مرضی میری نظر چلی گئی اور میرا رب میری بینائی لوٹانے پر قادر ہے۔ یہ جواب دیا کافروں کو۔ اگلے دن انہوں نے اس حالت میں صبح کی، رات سوئیں اگلے دن جب اٹھیں تو اللہ تعالیٰ نے آپؓ کی بینائی لَوٹا دی تھی، نظر ٹھیک ہو چکی تھی۔ اس پر قریش نے کہا کہ یہ تو محمدؐ کے جادو کی وجہ سے ہوا ہے۔ جب حضرت ابوبکرؓ نے وہ تکالیف دیکھیں جو آپؓ کو پہنچائی جاتی تھیں تو آپؐ نے ان کو خریدا اور آزاد کر دیا۔

(اسد الغابہ جلد 6 (النساء) ’زِنیرہ الرومیہ‘ صفحہ 127دار الفکر بیروت2003ء)

یہ ذکر ابھی آئندہ بھی ان شاء اللہ چلے گا۔ آزادی کے بارے میں بعض اَور واقعات ہیں۔

(الفضل انٹرنیشنل 31؍دسمبر2021ءصفحہ6-9)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button