سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام

احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح

(’اے ولیم‘)

حضرت مرزا غلام مرتضیٰ صاحب کی اس عزت و اکرام کا پتہ ان خطوط سے بھی ملتا ہے جو آپ کی وفات پر ڈپٹی کمشنر سے لے کر

کمشنر اور فنانشنل کمشنر اور لیفٹیننٹ گورنر بہادر تک نےآپ کی تعزیت میں لکھے۔

حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ الصلوٰة والسلام کے والد ماجد

انگریزحکومت کے ساتھ وفاداری(حصہ دوم)

سرلیپل گریفن اپنی کتاب میں لکھتے ہیں :

“On his death Ranjit Singh, who had taken possession of all the lands of the Ramgarhia Misal, invited Ghulam Murtaza to return to Kadian, and restored to him a large portion of his ancestral estates. He then, with his brothers, entered the army of the Maharaja, and performed efficient service on the Kashmir frontier and at other places.
During the time of Nao Nihal Singh, Sher Singh and the Darbar,

Murtaza was continually employed on active service. In 1841 he was sent with General Ventura to Mandi and Kulu, and in 1843 to Peshawar in command of an infantry regiment. He distinguished himself in Hazara at the time of the insurrection there; and when the rebellion of 1848 broke out, he remained faithful to his Government and fought on its side. His brother Ghulam Muhi–ud-Din also did good service at this time. When Bhai Maharaj Singh was marching with his force to Multan to the assistance of Diwan Mul Raj, Ghulam Muhi–ud–Din, with other jagirdars, Langar Khan Sahiwal and Sahib Khan Tiwana, raised the Muhammadan population, and with the force of Misra Sahib Dayal attacked the rebels and completely defeated them, driving them into the Chenab, where upwards of 600 perished.
At annexation the Jagirs of the family were resumed, but a pension of Rs

700 was granted to Ghulam Murtaza and his brothers, and they retained their proprietary rights in Kadian and the neighbouring villages. The family did excellent service during the Mutiny of 1857. Ghulam Murtaza enlisted many men and his son Ghulam Kadir was serving in the force of General Nicholson when that officer destroyed the mutineers of the 46th Native Infantry, who had fled from Sialkot, at Trimu ghat. General Nicholson gave Ghulam Kadir a certificate, stating that in 1857 the Kadian family showed greater loyalty than any other in the district”.

(Punjab Chiefs Revised Edition Vol.2 Pg. 41)

اردوترجمہ: رنجیت سنگھ نے جو رام گڑھیہ مسل کی جاگیر پر قابض ہو گیا تھا غلام مرتضیٰ کو قادیان واپس بلا لیا اور اس کی جدّی جاگیر کا ایک معقول حصہ اسے واپس کر دیا۔ اس پر غلام مرتضیٰ اپنے بھائیوں سمیت مہاراجہ کی فوج میں داخل ہو گیا اور کشمیر کی سرحداور دوسرے مقامات پر قابل قدر خدمات سر انجام دیں۔نو نہال سنگھ شیر سنگھ اور دربار لاہور کے دوران میں غلام مرتضیٰ ہمیشہ فوجی خدمت پر مامور رہا۔ 1841ء میں یہ جرنل ونچورا کے ساتھ منڈی اور کلّو کی طرف بھیجا گیا اور 1843ء میں ایک پیادہ فوج کا کمیندار بنا کر پشاور روانہ کیا گیا۔ ہزارہ کے مفسدے میں اس نے کارہائے نمایاں کیے اور جب 1848ء کی بغاوت ہوئی تو وہ اپنی سرکار کا وفادار رہا اور اس کی طرف سے لڑا۔اس موقع پر اس کے بھائی غلام محی الدین نے بھی اچھی خدمات کیں۔ جب بھائی مہاراج سنگھ اپنی فوج کو لیے دیوان مولراج کی امداد کے واسطے ملتان جارہا تھا تو غلام محی الدین اور دوسرے جاگیرداران لنگر خان ساہیوال اور صاحب خان ٹوانہ نے مسلمان آبادی کو جمع کر کے فوج تیار کی اور مصر صاحب دیال کی فوج کے ساتھ مل کر باغیوں پر حملہ کر کے ان کو شکست فاش دی اور دریائے چناب کی طرف دھکیل دیا جہاں چھ سو سے زیادہ باغی دریا میں غرق ہو کر ہلاک ہو گئے۔انگریزی گورنمنٹ کی آمد پر اس خاندان کی جاگیر ضبط ہو گئی مگر سات سو کی ایک پنشن غلام مرتضیٰ اور اس کے بھائیوں کو عطا کی گئی اور قادیان اور اس کے گردو نواح پر ان کے حقوق مالکانہ قائم رہے۔اس خاندان نے غدر1857ء میں نہایت عمدہ خدمات کیں۔ غلام مرتضیٰ نے بہت سے آدمی بھرتی کیے اور اس کا بیٹا غلام قادر اس وقت جنرل نکلسن کی فوج میں تھا جب کہ افسر موصوف نے تریمو گھاٹ پر نمبر46 نیٹو انفنٹری کے باغیوں کو جو سیالکوٹ سے بھاگے تھے تہ تیغ کیا تھا۔ جنرل نکلسن نے غلام قادر کو ایک سند دی جس میں یہ لکھا کہ 1857ء کے غدر میں خاندان قادیان نے ضلع کے دوسرے تمام خاندانوں سے زیادہ وفاداری دکھائی ہے۔

غرض حضرت مرزا غلام مرتضیٰ صاحب اپنے زمانہ حیات میں حکومت کے پورے فرمانبردار اور وفادار دوست تھے۔گورنمنٹ کے حکام اور عہدیداروں کی نظر میں ایک موقر اور معتمد دوست سمجھے جاتے تھے۔ دربار گورنری میں انہیں کرسی دی جاتی تھی۔ اور ان کی تحریروں پر عزت کے ساتھ غور کیا جاتا تھا۔ حکام نے جو خطوط انہیں وقتاً فوقتاً لکھے ان سے معلوم ہو تا ہے کہ وہ دلی جوش سے لکھے گئے ہیں۔جو بغیر ایک خاص خیرخواہ اور سچے وفا دار کے کسی دوسرے کے لیے تحریر نہیں ہو سکتے۔ اکثر صاحبان ڈپٹی کمشنر و کمشنر اپنے ایام دورہ میں اظہار محبت و مودّت کے لیے مرزا صاحب کے مکان پر جا کر ملاقات کرتے تھے۔ اور کبھی کبھی ایسابھی اتفاق ہواکہ مرزا صاحب ان کی ملاقات کے لیے نکلے ہیں اور پالکی میں جا رہے ہیں، سامنے سے عہدہ دار مذکور آگیا……اور اس نے ان کی عزت و مرتبہ کے لحاظ سے پسند نہیں کیاکہ مرزا صاحب پالکی سے اتریں۔وہ آپ ساتھ ساتھ باتیں کرتا ہوا مکان تک چلا گیا ہے۔حضرت مرزا غلام مرتضیٰ صاحب کی اس عزت و اکرام کا پتہ ان خطوط سے بھی ملتا ہے جو آپ کی وفات پر ڈپٹی کمشنر سے لے کر کمشنر اور فنانشنل کمشنر اور لیفٹیننٹ گورنر بہادر تک نےآپ کی تعزیت میں لکھے۔

یہاں وہ خطوط درج کیے جاتے ہیں۔یہ خطوط سیرت المہدی اور حیات احمد جلد اول میں درج ہیں اور حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ الصلوٰة والسلام نے بھی اپنی بعض کتب میں ان کودرج فرمایا ہے۔ حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ الصلوٰة والسلام اپنی ایک تصنیف ’’کشف الغطاء‘‘ میں تحریرفرماتے ہیں کہ

’’میرا خاندان ایک خاندان ریاست ہے اور میرے بزرگ والیان ملک اور خودسر امیر تھے جو سکھوں کے وقت میں یکدفعہ تباہ ہوئے اورسرکار انگریزی کا اگرچہ سب پر احسان ہے مگر میرے بزرگوں پر سب سے زیادہ احسان ہے کہ انہوں نے اس گورنمنٹ کے سایہٴ دولت میں آکر ایک آتشی تنورسے خلاصی پائی اور خطرناک زندگی سے امن میں آگئے۔میرا باپ میرزا غلام مرتضیٰ اس نواح میں ایک نیک نام رئیس تھا اور گورنمنٹ کے اعلیٰ افسروں نے پُر زور تحریروں کے ساتھ لکھا کہ وہ اس گورنمنٹ کا سچا مخلص اوروفادار ہے اور میرے والد صاحب کو دربار گورنری میں کرسی ملتی تھی اور ہمیشہ اعلیٰ حکام عزت کی نگہ سے ان کو دیکھتے تھے اور اخلاق کریمانہ کی وجہ سے حکام ضلع اور قسمت کبھی کبھی ان کے مکان پر ملاقات کے لئے بھی آتے تھے کیونکہ انگریزی افسروں کی نظر میں وہ ایک وفا دار رئیس تھے اور میں یقین رکھتا ہوں کہ گورنمنٹ ان کی اس خدمت کو کبھی نہیں بھولے گی کہ انہوں نے 57ء کے ایک نازک وقت میں اپنی حیثیت سے بڑھ کر پچاس گھوڑے اپنی گرہ سے خرید کر اور پچاس سوار اپنے عزیزوں اور دوستوں میں سے مہیا کر کے گورنمنٹ کی امداد کے لیے دیئے تھے چنانچہ ان سواروں میں سے کئی عزیزوں نے ہندوستان میں مردانہ وار لڑائی مفسدوں سے کر کے اپنی جانیں دیں اورمیرا بھائی مرزا غلام قادر مرحوم تمّوں کے پتن کی لڑائی میں شریک تھا اور بڑی جانفشانی سے مدد دی۔غرض اسی طرح میرے ان بزرگوں نے اپنے خون سے اپنے مال سے اپنی جان سے اپنی متواتر خدمتو ں سے اپنی وفاداری کو گورنمنٹ کی نظر میں ثابت کیا۔سو انہی خدمات کی وجہ سے میں یقین رکھتا ہوں کہ گورنمنٹ عالیہ ہمارے خاندان کو معمولی رعایا میں سے نہیں سمجھے گی اور اس کے اس حق کو کبھی ضائع نہیں کرے گی جوبڑے فتنہ کے وقت میں ثابت ہو چکا ہے۔سر لیپل گریفن صاحب نے بھی اپنی کتاب تاریخ رئیسان پنجاب میں میرے والد صاحب اور میرے بھائی مرزا غلام قادر کا ذکر کیا ہے اور میں ذیل میں ان چند چٹھیات حکام بالادست کو درج کرتا ہوں جن میں میرے والد صاحب اور میرے بھائی کی خدمات کا کچھ ذکرہے۔

نقل مراسلہ

(ولسن صاحب) نمبر 353

تہور پناہ شجاعت دستگاہ مرزا غلام مرتضیٰ رئیس قادیان حفظہ

عریضہ شمامشعر بریاد دہانی خدمات و حقوقِ خود وخاندانِ خود بملاحظہ حضور ایں جانب درآمد۔ ماخوب میدانیم کہ بلاشک شما و خاندانِ شما از ابتدائے دخل و حکومتِ سرکار انگریزی جاں نثار وفاکیش ثابت قدم ماندہ اید و حقوق شمادراصل قابل قدر اند۔ بہر نہج تسلی و تشفی دارید۔سرکار انگریزی حقوق و خدمات خاندان شما را ہرگز فراموش نخواہد کرد۔ بموقعہ مناسب بر حقوق و خدمات شما غور و توجہ کردہ خواہد شد۔ باید کہ ہمیشہ ہوا خواہ و جان نثار سرکار انگریزی بمانند کہ در ایں امر خوشنودی سرکار و بہبودی شما متصور است۔فقط

المرقوم 11/ جون 1849ء مقام لاہور انارکلی

Translation of Certificate of J.M.Wilson.

To,

Mirza Ghulam Murtaza Khan chief of Qadian.
I have perused your application reminding me of your and your

past services and rights. I am well aware that since the introduction of the British Govt you and your family have certainly remained devoted, faithful and steady subjects and that your rights are really worthy of regard. In every respect you may rest assured and satisfied that the British Govt will never forget your familys rights and services which will receive due consideration when a favourable opportunity offers itself.
You must continue to be faithful and devoted subjects as in it lies

satisfaction of the Govt and your welfare.

11.6.1849. Lahore

(باقی آئندہ)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button