خطاب حضور انور

احمدیہ مسلم ریسرچ ایسو سی ایشن (AMRA) کی کانفرنس پر حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کا خطاب 14؍دسمبر 2019ء

احمدی مسلمان محققین اوراسلام کے سنہری دَور کی بحالی

جب مومنین زمین اور آسمان کے اجرام کی بناوٹ اور تمام کائنات پر غور کرتے ہیں تو ان کی عقلیں بہت صاف ہو جاتی ہیں۔

جب وہ راہنمائی کے لئے اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں تو وہ اُن کے خیالات کو واضح کرتا ہے، ان کے دماغوں کو روشن کرتا ہے

جب ایک مومن اس قسم کا علم اور بصیرت پا لیتا ہے تو وہ مومن مرد یامومن عورتیں نہ صرف جدید ترین سائنسی ترقیات کے حوالہ سے دوسروں کی راہنمائی کرنے کے قابل ہوتے ہیں بلکہ وہ ایسے (دلائل) کے ہتھیاروں سے مسلح ہوتے ہیں جن سے وہ دنیا پر اس خدائے واحد کے وجود کو ثابت کرتے ہیں جو تمام خلقت کا خالق ہے۔

یاد رکھیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ وا لسلام نے فرمایا ہے کہ اصل دانشمندی اور عقل سلیم بھی وہی لوگ رکھتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کو کبھی نہیں بھولتے اور اسے ہمیشہ یادکرتے ہیں۔

ایک احمدی کا حصول علم ہمیشہ تقویٰ پر مبنی ہو۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہے کہ مومن کی فراست سے ڈرو کیونکہ اس کا علم تقویٰ پر مبنی ہوتا ہے۔

قرآن کریم نے تنبیہ کی ہے کہ انسان قانون قدرت میں دخل اندازی نہ کرے اورغیر قدرتی ذرائع سےاللہ تعالیٰ کی مخلوق کو تبدیل کرنے کی کوشش نہ کرے۔

میں نے گزشتہ 13 یا 14 سالوں میں احمدی طلبا ء کو براہ راست یا مجلس خدام الاحمدیہ کے ذریعہ سے ہدایت دی ہے کہ وہ academia اور ریسرچ کے میدان میں جائیں اور اپنے میدان میں اعلیٰ ترین مقام حاصل کرنے کی کوشش کریں۔

احمدیہ مسلم ریسرچ ایسو سی ایشن (AMRA)کی پہلی بین الاقوامی کانفرنس کے موقع پر حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے انگریزی خطاب کا اردو ترجمہ فرمودہ14؍دسمبر 2019ء بروز ہفتہ،بمقام مسرور ہال، اسلام آباد، ٹلفورڈ، یوکے

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾
اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾
اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾
اِنَّ فِیۡ خَلۡقِ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ وَ اخۡتِلَافِ الَّیۡلِ وَ النَّہَارِ لَاٰیٰتٍ لِّاُولِی الۡاَلۡبَابِ۔ الَّذِیۡنَ یَذۡکُرُوۡنَ اللّٰہَ قِیٰمًا وَّ قُعُوۡدًا وَّ عَلٰی جُنُوۡبِہِمۡ وَ یَتَفَکَّرُوۡنَ فِیۡ خَلۡقِ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ۚ رَبَّنَا مَا خَلَقۡتَ ہٰذَا بَاطِلًا ۚ سُبۡحٰنَکَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ۔

قرآن کریم کی یہ آیات جن کی میں نے ابھی تلاوت کی ہے سورت آل عمران آیت 191تا192ہیں اور ان کا ترجمہ ہے:

یقیناً آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں اور رات اور دن کے ادلنے بدلنے میں صاحبِ عقل لوگوں کے لیے نشانیاں ہیں۔وہ لوگ جو اللہ کو یاد کرتے ہیں کھڑے ہوئے بھی اور بیٹھے ہوئے بھی اور اپنے پہلوؤں کے بل بھی اور آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں غوروفکر کرتے رہتے ہیں۔ (اور بے ساختہ کہتے ہیں) اے ہمارے ربّ! تُو نے ہرگز یہ بے مقصد پیدا نہیں کیا۔ پاک ہے تُو۔ پس ہمیں آگ کے عذاب سے بچا۔

اللہ تعالیٰ کے فضل سے آج آپ کو پہلی بین الاقوامی AMRAکانفرنس منعقد کرنے کی توفیق مل رہی ہے۔ میں امید کرتا ہوں اور میری دعا ہے کہ یہ تقریب تمام شاملین کے لیے مفید اور حصول علم کے لیے ایک منبع ثابت ہوئی ہو ۔

قرآن کریم کی کئی آیات میں بشمول ان آیات کے جن کی میں نے ابھی تلاوت کی ہے اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین کی تخلیق کا ذکر کیا ہے اور ہمیں ہدایت دی ہے کہ ہم اپنی پیدائش کے اصل مقصد پر غور و فکر کریں۔ اس نے ہمیں ترغیب دلائی ہے کہ ہم اپنی عقلوں کو استعمال کریں، اس کی تخلیق پر غور و فکر کریں اورتحقیق اور غورو فکر کے ذریعہ انسان کی ترقی کےلیے نئی نئی راہیں اور جدّت تلاش کریں۔

یقیناً اس حقیقت کی وجہ سے کہ ہمیں عقل و فہم عطا کی گئی ہے اللہ تعالیٰ نے انسان کو ’اشرف المخلوقات‘ قرار دیا ہے۔ ہمیں صحیح اور غلط میں فرق کرنے کی صلاحیت دی گئی ہے۔ ہمیں سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت دی گئی ہے۔انسان تمام مخلوقات میں منفردہے۔ اللہ تعالیٰ نے نوعِ انسان کو یہ بصیرت عطا فرمائی ہے کہ جو کچھ اُس نے پیدا کیا ہے ہمارے فائدے کے لیے ہےبشرطیکہ ہم اسے صحیح طریق پر استعمال کریں۔

قرآن کریم نے جس کثرت کے ساتھ کائنات اور اس کے آغاز کے بارہ میں معلومات (insight) دی ہیں اور جس کثرت سے سائنسی تحقیق اور حصول علم کے لیے ترغیب دلائی ہے یقیناً تمام مقدس صحیفوں میں قرآن کریم اس حوالہ سے عدیم المثال ہے۔

اس بارہ میں حضرت اقدس مسیح موعود(حضرت مرزا غلام احمد قادیانی) علیہ الصلوٰۃ و السلام نے فرمایا ہے کہ جب مومنین زمین اور آسمان کے اجرام کی بناوٹ اور تمام کائنات پر غور کرتے ہیں تو ان کی عقلیں بہت صاف ہو جاتی ہیں۔اس کے نتیجہ میں انہیں اُس پختہ ایمان کی طرف لے جایا جاتا ہے کہ ’خدا تعالیٰ ہے‘ کیونکہ وہ اس کے نشانات اور اُس کے وجود کے ثبوت اپنےارد گرد دیکھ رہے ہوتے ہیں۔

اِس کے بر عکس دنیادار اور لا مذہب محققین کی دلچسپی بہت محدود اور تنگ ہے۔جب وہ کسی چیز کا مطالعہ کرتے ہیں تو اس کا محدود انداز میں جائزہ لیتے ہیں۔ لیکن ایک متقی انسان محض دنیا کے طول و عرض کی شناخت، اس کی مادی شکل یا اس کی کشش ثقل کا حساب کرنے سےمطمئن نہیں ہوتا۔اور نہ ہی وہ سورج، چاند اور ستاروں کی خصوصیات کی تعیین سے مطمئن ہوتا ہے۔ ایک حقیقی مومن مسلسل کوشش اور جدوجہدکے ساتھ معائنہ کرتا رہے گا۔ وہ کارخانۂ قدرت اور ہمارے ارد گرد کی دنیا کی کامل ہم آہنگی کو سمجھنے کی کوشش کرتارہے گا۔ایسے حقیقی مومن مردوں یا عورتوں میں اِس مادی دنیا کی مخفی خصوصیات اور توانائی کی شناخت کے لیے ایک نہ ختم ہونے والی پیاس ہو گی اور جوں جوں وہ اس کی شان اور کمال کو دیکھیں گے توں توں وہ لازماًاپنے خالق کی طرف کھچے چلے جائیں گے اور ہستی باری تعالیٰ کے وجود پر ان کا ایمان بڑھتا جائے گا۔

جب ایک عقلمند انسان باریک بینی سے آسمان و زمین، کائنات اور اِس بات پر غور کرتا ہے کہ رات اور دن کیوں مسلسل ادلتے بدلتے ہیں تو نتیجتاً اسے اللہ تعالیٰ کا ادراک پیدا ہوتا ہے اور وہ اُس کی کامل تخلیق کی تعریف کرتا ہے۔ جب وہ خدا تعالیٰ کو اس طرح دیکھتا ہے اور اُس کی عظمت کو پہچانتا ہے تو وہ اُس کی طرف زیادہ جوش اور جذبے کے ساتھ رُخ کرتا ہے اورکائنات کے رازوں کو سمجھنے اور معلوم کرنے میں اُس سے مدد اور فضل طلب کرتا ہے۔ اُس کی برکتوں اور مدد کو حاصل کرنے کے لیے وہ اسے کھڑے ہوئے بھی اور بیٹھے ہوئے بھی اور اپنے پہلوؤں کے بل بھی یاد کرتا ہے جس طرح تقویٰ شعار مومنین کرتے ہیں۔اِس کا ذکر قرآن کریم کی ان آیات میں ہے جن کی میں نے تلاوت کی ہے۔

جب وہ راہنمائی کے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں تو وہ اُن کے خیالات کو واضح کرتا ہے، ان کے دماغوں کو روشن کرتا ہے اورقبل ازیں دماغوں میں جو عدم فہم کی دھند تھی اسے صاف کر دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ انہیں کائنات اور سیاروں کے بارہ میں سمجھ بوجھ عطا کرتا ہے اور وہ یقین کے ساتھ پہچان جاتے ہیں کہ اِس قسم کا کامل اورہر عیب سے پاکprecise قدرتی نظام کبھی بھی اتفاقاً یا از خود نہیں رونما ہو سکتا تھا بلکہ یہ ایک عظیم خالق کا عکس اور اشارہ ہے۔یہ یقیناً ایک خالقِ کُل کے وجود کا ثبوت ہے۔جن لوگوں کے دماغ اس طرح کھلے اور روشن ہیں وہ اپنے خالق کی طرف جھکتے ہیں اور اس کے قہر سے بچنے کے لیے دعا کرتے ہیں۔ اور یہ دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ انہیں کامیابی عطا کرے اوراس کی تخلیق کے بارہ میں دقیق عقل و فہم عطا کرے۔

اسی تسلسل میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام نے فرمایا ہے کہ طبیعیات(Physics)، فلکیات (Astronomy)اور سائنسی علوم کے مسلسل مطالعہ سے ایک مومن ہمیشہ خدا تعالیٰ کی طرف مائل ہوتا ہے۔ جتنا زیادہ وہ اللہ تعالیٰ کی تخلیق اور دنیا کے بارہ میں علم حاصل کرتا ہے اتنا ہی وہ کائنات کے اسرار کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی خوبصورتی کی تعریف کرتا ہے۔ جب ایک مومن اس قسم کا علم اور بصیرت پا لیتا ہے تو وہ مومن مرد یامومن عورتیں نہ صرف جدید ترین سائنسی ترقیات کے حوالہ سے دوسروں کی راہنمائی کرنے کے قابل ہوتے ہیں بلکہ وہ ایسے (دلائل) کے ہتھیاروں سے مسلح ہوتے ہیں جن سے وہ دنیا پر اس خدائے واحد کے وجود کو ثابت کرتے ہیں جو تمام خلقت کا خالق ہے۔

یہ ایک حقیقی مومن کی نشانی ہے، یہ ان کی کامیابی کا ذریعہ ہے اوردنیا میں حقیقی عزت و آبرو پانے کی راہ ہے۔

پروفیسر ڈاکٹر عبد السلام صاحب نے کائنات پر غور کرتے ہوئے اِسی طریق کے مطابق اپنی زندگی بسر کی اور آپ کو جو بھی بصیرت حاصل ہوتی اسے خدا تعالیٰ کے وجود کو ثابت کرنے کے لیے استعمال کرتے۔ پس تمام احمدی محققین یا جو بھی احمدی تعلیمی میدان میں ہیں انہیں کسی بھی تحقیق یا مطالعہ سے قبل، اس کے دوران اور اس کے بعد بھی خدا تعالیٰ کی وحدانیت کو مسلسل اپنے پیش نظر رکھنا چاہیے۔ انہیں پختہ ارادے کے ساتھ اپنی تحقیقات کے ذریعہ ان ثبوتوں کو ظاہر کرنا چاہیے جن سے وہ شک میں مبتلا لوگوں اور غیر مومنین پرخدائے واحد کے وجود کو ثابت کر سکیں۔وہ ان لوگوں کی تردید کر سکیں گے جو یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ سائنس اور مذہب میں تصادم ہے۔جب احمدی اس طرح تحقیق کریں گے اور ہر قدم پر اللہ تعالیٰ کی مدد طلب کریں گے تو بے شک خدا تعالیٰ ہرموڑ پر ان کی مدد کرتے ہوئے ان کی راہنمائی کرے گا۔

جیساکہ میں نے پہلے کہا ایک دنیادار انسان کی تحقیق خالصتاً دنیاوی نقطۂ نگاہ سے ہوتی ہے اور وہ اپنی عقل کو محض دنیاوی ترقی کے لیے استعمال کرتا ہے۔ اُس کی کوششیں سائنسی ترقی کی طرف منتج ہو سکتی ہیں لیکن ایک مومن کی تحقیق کا اثرورسوخ کہیں زیادہ ہوتا ہے۔اُس کی تحقیق نہ صرف سائنسی ترقی اور ماڈرن ٹیکنالوجی کی طرف منتج ہو گی بلکہ اللہ تعالیٰ کے وجود کے ثبوت بھی دے رہی ہو گی۔اس لیے احمدی مسلمان محققین کو، بالخصوص وہ جو مختلف سائنسی علوم کے میدان میں ہیں انہیں صرف اپنے ہی میدان میں فہم و ادراک بڑھانے کی نیت سے کام نہیں کرنا چاہیے بلکہ ہستی باری تعالیٰ کے وجود کے ثبوت تلاش کرنے کے لیے ایک لازوال عزم کو برقرار رکھنا چاہیے۔ جیساکہ میں نے کہا ڈاکٹر عبد السلام صاحب نےاس طرح اپنے کام کو انجام دیا اوراس کے نتیجہ میں انہیں عظیم الشان کامیابی نصیب ہوئی۔

یاد رکھیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ وا لسلام نے فرمایا ہے کہ اصل دانشمندی اور عقل سلیم بھی وہی لوگ رکھتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کو کبھی نہیں بھولتے اور اسے ہمیشہ یادکرتے ہیں۔ اس طرح جہاں ہمارے سائنسدان اور محققین اپنی دنیاوی تعلیم میں آگے بڑھنے کی سعی کر رہے ہیں وہاں انہیں اپنے ایمان کی بھی حفاظت کرنی ہو گی، اللہ تعالیٰ کے حقوق ادا کرنے ہوں گے اور جو ذمہ داری اُن پر عائد کی گئی ہے کہ وہ تمام طاقتوں کے مالک خدا کی ہستی کو ثابت کرنے کے لیے مزید ثبوت تلاش کریں انہیں اس ذمہ داری کو پورا کرنا چاہیے۔

جو لوگ اِن تعلیمی میدانوں میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں اُن میں اور احمدی سائنسدانوں اور محققین میں ہمیشہ ایک نمایاں فرق نظر آنا چاہیے۔ اور وہ فرق یہ ہونا چاہیے کہ ایک احمدی کا حصول علم ہمیشہ تقویٰ پر مبنی ہو۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہے کہ مومن کی فراست سے ڈرو کیونکہ اس کا علم تقویٰ پر مبنی ہوتا ہے۔خلاصہ یہ کہ اللہ تعالیٰ کا پیار اور اس کی عظمت ہمیشہ آپ کے دل و دماغ میں راسخ رہنی چاہیے۔اگر آپ اس طرح تحقیق کریں گے اور اپنے کام کو آگے بڑھانے کی کوشش کریں گے تو اللہ تعالیٰ آپ کو عظیم کامیابیوں سے نوازے گا۔ انشاء اللہ

آپ میں سے بعض کے علم میں ہو گا کہ ایک مرتبہ ایک معروف مغربی محقق اور سیاح پروفیسر کلیمنٹ ریگ (Professor Clement Wragge) نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ملاقات کرنے کے لیے قادیان کا سفر اختیار کیا ۔گفتگو کے دوران حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بیان فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے سورج اور چاند، ستاروں اور سیاروں کو انسان کی خدمت اور بنی نوع انسان کے فائدے کے لیے بنایا ہے۔

اس بیان کی روشنی میں ایک احمدی محقق کو جب بھی وہ کسی غیر حل شدہ سوال کے جواب کے لیے تحقیق کر رہا ہو ہمیشہ یہ بات مد نظر رکھنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے جو کچھ پیدا کیا ہے نوع انسان کے فائدے کے لیے پیدا کیا ہے۔ احمدی محقق کا یہ مقصد ہونا چاہیے کہ جو بھی وہ دریافت کرے اس سے فائدہ حاصل کرتے ہوئے اس بات کی یقین دہانی کرے کہ جو بھی علمی ترقی ہو رہی ہےاسے صحیح طریق پر نوع انسان کے فائدے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہو۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام نے پروفیسر کلیمنٹ ریگ کے ساتھ گفتگو میں دعوے سے فرمایا کہ سائنس اور مذہب میں کوئی تصادم نہیں اور یہ کہ سائنس کبھی بھی قرآن کریم کا کوئی ایک حرف یا لفظ یا اسلامی تعلیمات کو کبھی بھی غلط ثابت نہیں کر سکے گی خواہ سائنس کتنی بھی ترقی کرلے ۔ اس کے برعکس ہر دریافت اور ہر ترقی مزید قرآن کریم کی تعلیمات کو سچا اور خدا ئے واحد کے وجود کو ثابت کرے گی۔ قرآن کریم ہر گز سائنس سے دور رہنے یا اس کی تعلیم حاصل کرنے سے باز نہیں رکھتا۔ ہر گز نہیں، قرآن کریم تومومنین کو حکم دیتا ہے کہ وہ دریافت کریں، چھان بین کریں اور اپنی عقل اور خدا داد استعدادوں اور صلاحیتوں کو استعمال کریں۔ وہ لوگ جو انسانی علم کو بنی نوع انسان کے فائدہ کے لیے آگے بڑھانے کی کوشش کریں گے یقیناً وہ اللہ تعالیٰ سے اپنی کوششوں کا اجر پائیں گے۔ لیکن قرآن کریم نے تنبیہ کی ہے کہ انسان قانون قدرت میں دخل اندازی نہ کرے اورغیر قدرتی ذرائع سےاللہ تعالیٰ کی مخلوق کو تبدیل کرنے کی کوشش نہ کرے۔ مثلاً گزشتہ سالوں میں سائنسی اقدار کی حدود کو Genetic Engineering اور جاندار مخلوق کی cloning کے ذریعہ رفتہ رفتہ پامال کیا گیا۔ یہ غیر اخلاقی اور خطرناک کوششیں ہیں۔ ان کارروائیوں کے نتائج جبکہ انسان اپنی حدود سے آگے بڑھنے اور خدا بننے کی کوشش کر رہا ہو گا، یقیناً نہایت بھیانک اور بنی نوع انسان کو تباہی کی طرف لے جانے کا ذریعہ بنیں گے۔ اس کا انجام نہ صرف اس کے حامیوں کو آخرت کی جہنم میں دھکیلنے والا ہو گا بلکہ وہ دنیا میں بھی جہنم پیدا کرنے کے ذمہ دار ہوں گے۔ یہ ایک ایسی چیز ہے جس سےہر احمدی محقق اور سائنسدان کو بچنا ہو گا۔آپ لازماً صرف وہی راہیں اختیار کریں جو بنی نوع انسان کے فائدے کے لیے ہیں اور جو اللہ تعالیٰ کی حدود کے مطابق ہیں۔ ہمیشہ یاد رکھیں کہ قرآن کریم کی مقرر کردہ حدود میں رہنا ایک مومن کی نشانی ہے۔ اگر آپ اپنے کام کو اس طرح انجام دیں گے تو عظیم چیزیں حاصل کر سکیں گے۔ اور جو نمایاں شہرت مسلمان علماء اور ماہرین تعلیم کی تھی اسے پھر بحال کر سکیں گے۔

اللہ تعالیٰ کے فضل سے قرونِ وسطیٰ کے دوران بے شمار مسلمان سائنسدانوں نے، فلاسفروں نے اور دانشوروں نے انسانی علم و فہم کو فروغ دینے میں انسانیت پر ایک انمٹ نقش چھوڑا ہے۔ان کی ابتدائی کوششوں نے دنیا میں ایک نمایاں انقلاب برپا کیا اور ان کی تحقیق اور دریافتیں ابھی بھی ماڈرن سائنس اور ریاضی کی بنیاد ہیں۔ انہوں نے اپنی خدادادذہانت اور قابلیتوں کو استعمال کرنےکے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ کی مدد طلب کی اور اس کی مخلوق پر غور کیا۔اور اِس کے نتیجہ میں تاریخ نے انہیں پہچانا اور ابھی بھی تاریخ انہیں تسلیم کر رہی ہے اور آج بھی انہیں عزت دی جاتی ہے۔

مثال کے طور پر 2016ء میں National Geographic کی طرف سے ایک مضمون بعنوان How Islamic Science advanced Medicine (اسلامی سائنس نے طب کو کس طرح فروغ دیا) شائع ہوا ہے جس میں اسلام کے ابتدائی زمانہ میں مسلمان سائنسدانوں کی حصہ داری (contribution) کی نشاندہی کی گئی ہے۔

اس میں لکھا ہے:

’قرون وسطیٰ کے آخر میں اسلامی ممالک کے معالجین کو بہت عزت ملی۔اس وقت طب کے مطالعے اور اس کی مشق مسلم معاشروں کے ذریعہ ان کے وسیع علاقے میں آگے بڑھی جو جدید دور کے جنوبی اسپین سے لے کر ایران تک پھیلی ہوئی تھی۔‘

اس میں مزید لکھا ہے کہ

900ء کی دہائی تک یونانی ، فارسی اور سنسکرت میں طب کے حوالہ سے تحریرات کے عربی زبان میں تراجم کی تعداد بڑھتی گئی اور اسلامی طب جلد ہی دنیا میں برتری پا گئی۔ عیسائی، یہودی، ہندو، اوربہت سے دوسرے مسالک کے علماء نے عربی زبان کو سائنس کی زبان کے طور پر دیکھا۔مختلف مذاہب پر ایمان رکھنے والے ڈاکٹرز نے مل کر کام کیا اوربحث مباحثہ اور مطالعہ بھی مشترکہ طور پر عربی زبان میں ہوتا تھا۔‘

اسی مضمون میں مزید لکھا ہے کہ

’بغداد کے اُفق میں سب سے روشن ستارہ بلا شبہ غیر معمولی صفات کا حامل ابن سینا تھا…18سال کی عمر میں ہی ڈاکٹر، آپ کی کئی جلدوں پر مشتمل کتاب القانون فی الطب یعنی طب کا قانون رہتی دنیا تک مشہور ترین طبی کاموں میں سے ایک ہے… یونانی مفکرجالینوس(Galen)کے طبی طریقوں کو ارسطو (Aristotle) کی فلاسفی سے ہم آہنگ کرنے کی جو کوشش ابن سینا نے کی ہے اس سے اس شعبہ کی گونا گوئی ظاہر ہوتی ہے جو مسلمانوں کی سوچ اور مطالعہ میں ودیعت کی گئی تھی جس نے یونانی محررین کے کاموں کو صرف از سر نو زندہ ہی نہیں کیا بلکہ آئندہ صدیوں کے لیے سوچ کے نئے عمدہ نمونے(patterns) اجاگر کئے۔ یورپی طبی ماہرین نے ’القانون‘ کا مطالعہ 18ویں صدی تک کیا۔یقیناً ایسا ہی ہونا تھا کیونکہ عملی سائنس، افکار اور مذہب کو ہم آہنگ کیا گیا۔‘

National Geographic کے اس مضمون میں مزید لکھا ہے کہ سپین میں مسلمانوں کی حکمرانی کا دور ’’علمی ترقی کا دور‘‘ تھا ۔اور دسویں صدی میں قرطبہ کو ’’یورپ میں سب سے زیادہ cultured شہر‘‘ اور ’’مطالعہ اور غور و خوض کا ایک عظیم مرکز‘‘ بیان کیا گیا ہے۔

ایک اَور مضمون میں How Islam Won, and Lost, the Lead in Science (سائنسی برتری میں اسلام کی فتح اور پھرشکست) جو The New York Times نے شائع کیا ہے اس میں ابتدائی مسلمان سائنسدانوں کی حصہ داری کی کھل کر تعریف کی گئی ہے۔

محرر لکھتا ہے:

’Civilisationsیونہی نہیں ٹکراتیں بلکہ ایک دوسرے سے سیکھتی ہیں۔ اسلام اس کی ایک اچھی مثال ہے۔عرب اور یونان کی دانشورانہ ملاقات تاریخ کےعظیم الشان واقعات میں سے ایک ہے۔نہ صرف(عالمِ) اسلام کے لیے بلکہ یورپ اور پوری دنیا کے لیے اس کا پیمانہ اور نتائج بہت وسیع ہیں۔‘

لیکن اس مضمون میں یہ بھی بات اٹھائی گئی ہے کہ ابتدائی مسلمانوں کے بہت سے کارناموں (contributions) کو سنبھالا نہیں گیا۔ اس حوالہ سے لکھا ہے:

’…تاریخ دان کہتے ہیں کہ انہیں اس سنہری دور کے بارہ میں بہت کم علم ہے۔اس زمانہ کے چند اہم سائنسی کاموں کا عربی سے ترجمہ کیا گیا اور کئی ہزار مسودات کو جدید عالموں نے کبھی پڑھا ہی نہیں۔‘

پس مسلمان علماء کی تاریخی شراکت میں کوئی شک نہیں۔

انتہائی رنج کی بات ہے کہ ابھی تک اکثر مسلم دنیا کی حالیہ دانشورانہ حالت(intellectual state) افسوسناک ہے۔

وقت کے ساتھ ساتھ جب مسلمان اللہ تعالیٰ سے دُور ہوتے گئے اور جو خصوصیات ایک مومن کے ساتھ وابستہ ہیں وہ تیزی کےساتھ ان میں سے زائل ہوتی گئیں تو جن مسلمانوں نے قبل ازیں سائنس اور ریسرچ میں دنیا کی قیادت کی تھی درجہ بدرجہ جہالت کے ایسے دور میں داخل ہوتے گئے جو ابھی تک جاری ہے۔ ایجادات اور دریافتوں کی قیادت کرنے کی بجائے مسلمانوں کے علم کا روشن دَور اپنے اختتام کو پہنچا اور مسلمانوں کا انحصار دوسرے لوگوں کی دریافتوں اور جدید ٹیکنالوجی پر ہونے لگا۔ دنیا کو کچھ دینے کی بجائے مسلمان وہ ہو گئے جو دنیا سے صرف لینے والے ہیں۔چنانچہ دنیا جہاں سائنس اور حصول علم میں مسلمانوں کی تاریخی حصہ داری کو پہچانتی ہے وہاں وہ دنیا میں ماڈرن مسلمانوں کی دانشورانہ حالت کو افسوسناک سمجھتی ہے۔

اگر عمومی بات کی جائے تو حقیقت یہ ہے کہ مسلم دنیا حصول علم اورانسان کی انتہائی کوشش کے ساتھ علم کو آگے بڑھانے کے جوش کو کھو بیٹھی ہے۔

مسلمان قومیں دنیا کی راحت اور آرام اور آسائشوں میں ڈوب گئی ہیں اس لیے ان میں اب حصول علم کے لیے محنت کرنے یا کائنات پر غور و فکر کرنے کا جوش و جذبہ نہیں رہا ۔

سائنس اور حصول علم میں عصر حاضر کے مسلمانوں کی ناکامی پر Hillel Ofek نے اپنے ایک آرٹیکل بعنوان “ Why the Arab World turned away from Science” (عرب دنیا سائنس سے کیوں بیزار ہوئی)میں بات کی ہے۔ موصوف امریکہ میں Clement Centre for National Security میں ریسرچ فیلو ہیں۔ وہ مسلمانوں کی حالت کا نقشہ کھینچتے ہیں کہ سائنس اور انسانی تہذیب و تمدن کی ترقی میں قیادت کرنے والے مسلمان ایسی حالت میں جا پڑے ہیں کہ اب ان کی حصہ داری کو علمی برادری میں حقارت کی نگاہ سےدیکھا جاتا ہے۔وہ لکھتا ہے کہ لگ بھگ سال 1600ءتک مسلمان سائنسدانوں اور علماء کی علمی ترقی کے مقابلے میں ’یورپ کچھ نہیں تھا‘۔ نیز وہ اس بات کو بھی اٹھاتا ہےکہ سائنس اور ریاضی کی کتنی اصطلاحیں مثلاً الجبرا، الخوارزم، الکیمی اور الکلی عربی زبان سے نکلی ہیں اور یہ اصطلاحیں دنیا میں اسلام کی شراکت داری کو ظاہر کرتی ہیں۔

پھر آگے جا کر وہ ایک اَورعصر جدید کی تصویر کھینچتا ہے کہ مسلمان ممالک میں سائنس کے حوالہ سے موجودہ حالت ماضی میں مسلمانوں کی شاندار حالت کے بالکل بر عکس ہے۔

مثلاً وہ اس بات کو اٹھاتا ہے کہ باوجود اس کے کہ دنیا میں1.6بلین مسلمان آباد ہیں پھر بھی مسلمان ممالک میں سے صرف 2 مسلمانوں نے نوبیل انعام حاصل کیا ہے۔ ایک اَور جائزہ جو وہ واضح طور پر پیش کرتا ہے وہ یہ ہے کہ 46 مسلمان ممالک کو اگر ملا لیا جائے تو مسلمان ممالک نے پوری دنیا میں سائنسی لٹریچر میں صرف ایک فیصد حصہ ڈالا ہے۔ اسی طرح وہ لکھتا ہے کہ 1989ء میں United States نے دس ہزارسے زائد سائنسی مضامین (scientific papers) شائع کیے ہیں جن میں سے کثرت سے حوالے پیش کیے جاتے رہے۔ جبکہ پوری عرب دنیا میں اسی عرصہ میں صرف 4 مضامین شائع ہوئے جن سے عموماً حوالے پیش کیے جاتے۔مضمون نگار نے یہ بھی لکھا کہ 1980ء اور 2000ء کے درمیان صرف ایک ملک یعنی جنوبی کوریا نے 16000 سے زائد intellectual patentدیے جبکہ عرب ممالک نے ملا کر کُل صرف 370 patent دیے۔ ان ممالک میں مصر، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات شامل ہیں ۔

اس آرٹیکل میں نوبیل انعام یافتہ پروفیسر سٹیون وائنبرگ(Professor Steven Weinberg) کا بھی حوالہ دیا گیا ہے جس میں وہ مسلمان ممالک میں تیار کردہ سائنسی مواد کی قلت پر بات کرتے ہیں۔

پروفیسروائنبرگ لکھتے ہیں:

’گو کہ مسلمان ممالک سے تعلق رکھنے والے ہنرمند سائنسدان مغربی ممالک میں نتیجہ خیز کام کر رہے ہیں تاہم چالیس سالوں میں مَیں نے کسی مسلمان ملک میں کام کرنے والے ماہر طبیعیات (physicist) یا ماہر فلکیات (astronomer) کاایک بھی مضمون ایسا نہیں دیکھا جو پڑھنے کے قابل ہو۔

علمی اور سائنسی اعتبار سے مسلمان اور اسلامی ممالک دنیا کی قیادت کرنے والے تھے لیکن اب ان پرطعن و تشنیع کی جاتی ہے۔‘

اسلامی دنیا میں علمی جہالت کے اس دور میں احمدی مسلمان سائنسدانوں اور محققین کے لیے یہ ایک بہت بڑا چیلنج ہے کہ وہ اسلام کی کھوئی ہوئی عزت اور وقار کو دنیا بھر کے علمی میدانوں میں بحال کریں۔

پس یہ آپ کا عزم ہونا چاہیے کہ اس شاندار علمی روشی کے کُرتے کو اٹھانے کی ذمہ داری لیں جسےقرون وسطیٰ کے عظیم مسلمان علماء اور ایجادات کرنے والوں نے سجایا تھا۔

ہماری یہ روایت ہے کہ ہر سال جماعت(احمدیہ) مختلف علمی میدانوں میں نمایاں کارکردگی دکھانے والوں میں سونے کے میڈل تقسیم کرتی ہے۔ لیکن حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ (حضرت مرزا ناصر احمد) نے اس تحریک کے آغاز پر یہ ہدایت دی تھی کہ سونے کے میڈل اور سکالرشپ خاص طور پر انہیں دیے جائیں جو سائنس میں نمایاں کارکردگی دکھانے والے ہیں۔

ڈاکٹر عبد السلام صاحب نے جب نوبیل انعام جیتا اس کے کچھ عرصہ بعد ہی حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒنے اس تحریک کا آغاز فرمایا اور یہ ان کی دلی خواہش تھی کہ کم از کم 100 احمدی مسلمان، ڈاکٹر عبد السلام کے نقش قدم پر چلیں اور جب جماعت اپنی دوسری صدی میں داخل ہو تو یہ احمدی مسلمان نمایاں سائنسدان بن جائیں۔ جماعت احمدیہ کی دوسری صدی کی تین دہائیاں اب گزر چکی ہیں۔ افسوس سے مجھے کہنا پڑ رہا ہے اور میرا خیال ہے کہ ہم میں کوئی ایسا سائنسدان پیدا نہیں ہوا جس نےاس عرصے میں عالمی شہرت حاصل کی ہو۔نیز میں نے گزشتہ 13 یا 14 سالوں میں احمدی طلبا ء کو براہ راست یا مجلس خدام الاحمدیہ کے ذریعہ سے ہدایت دی ہے کہ وہ academia اور ریسرچ کے میدان میں جائیں اور اپنے میدان میں اعلیٰ ترین مقام حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ لیکن ابھی تک یہ نہیں کہا جا سکتا کہ نتائج اس کے قریب بھی پہنچے ہوئے ہوں جس کی میں نے امید کی تھی۔جہاں تک مَیں جانتا ہوں بمشکل کسی احمدی نےدنیا کی سائنسی یا علمی ترقی میں کوئی نمایاں کردار ادا کیا ہے۔

یہاں میں یو ایس اے میں ایسوسی ایشن آف احمدی سائنٹسٹس کی کوششوں کی تعریف کرنا چاہتا ہوں جو کسی حد تک فعال ہیں اور باقاعدگی سے سائنس اور قرآن کے بارہ میں میٹنگز کرتے ہیں۔پھر بھی یہ نہیں کہا جا سکتا کہ انہوں نے وہ غیر معمولی کام کیا ہے جس کی ان سے توقع ہے۔

یہاں جمع ہو کر اور کانفرنس کے انعقاد کے نتیجے میں آپ سب اپنا یہ مشن سمجھیں کہ اپنی منتخب شدہ فیلڈ میں سب سے زیادہ محنت کرنی ہے۔ڈاکٹر عبد السلام اور ان ممتاز مسلمان علماء اور محققین جنہوں نے کئی صدیاں قبل علم کی ایک بھر پور میراث پیچھے چھوڑی ہے آپ کو لازماً یہاں سے ایک پختہ عزم کے ساتھ رخصت ہونا چاہیے کہ آپ ان کے نقش قدم پر چلیں گے۔آپ کو لازماً غور و فکر کرنی چاہیے کہ آپ دنیا کی بہتر سمجھ بوجھ کیسے پیدا کر سکتے ہیں۔آپ نئی ٹیکنالوجیز (technologies) اور سسٹمز(systems) بنائیں جن سے انسانیت فائدہ اٹھا سکتی ہے۔بطور سائنسدان اور محققین یہ آپ کی ذمہ داری ہے کہ اپنے ذہنوں اور talentکی مشق کریں اور وہ راہیں اور طریقے تلاش کریں جن سے آپ عظیم علمی کارنامے سر انجام دے سکیں۔آپ کو ایک دوسرے کے ساتھ رابطے میں رہنا چاہیے خاص طور پر اُن سے جو آپ سے ملتی جلتی ریسرچ کے میدان میں ہیں اور ایک دوسرے سے سیکھیں۔ باہمی مذاکرات اور ارتباط(coordination) کے ساتھ آپ بہتر نتائج حاصل کرنے کے قابل ہو سکتے ہیں۔ جاں فشانی اور جذبے کے ساتھ کام کریں اور سب سے بڑھ کر اپنے تعلیمی سفر کے ہر قدم پر مسلسل اللہ تعالیٰ کی مدد طلب کریں اور اس کی شان کو اپنے سامنے رکھیں۔

ان گزارشات کے بعد میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ آپ سب کو ترقی کرنے اور اپنی اپنی فیلڈز میں اعلیٰ کامیابی حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ ہم جلد اسلام کی علمی برتری اورترقی کے نئے سنہری دَور کے طلوع ہونے کا مشاہدہ کریں جس کی قیادت دنیا بھر میں احمدی مسلمان کرنے والے ہوں۔ آمین۔

(بشکریہ سہ ماہی اسماعیل میگزین اپریل تاجون 2021ء صفحہ 10تا16)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button