سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام

احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح

(’اے ولیم‘)

حضرت مرزا غلام مرتضیٰ صاحبؒ میں اولوالعزمی کی خاص شان پائی جاتی تھی۔شجاعانہ اولوالعزمی ان سے ہمیشہ مشاہدہ میں آتی تھی۔

حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ الصلوٰة والسلام کے والد ماجد

آپؒ کا عزم وہمت(حصہ دوم)

قادیان اور اس کے ساتھ پانچ گاؤں جو رنجیت سنگھ نے واپس کیے وہ انگریزوں نے اس خاندان کی وفاداری کی سزا کے طورپر دوبارہ ضبط کرلیے اور اس کی جگہ پورے خاندان کی پنشن 700 روپے سالانہ مقررکردی تھی۔جو حضرت مرزا غلام مرتضیٰ صاحب کی وفات پر کم ہوکر 180روپے رہ گئی اور صاحبزادہ مرزا غلام قادر صاحب کی وفات پر بالکل ہی بند ہوگئی۔ (تفصیل کے لیے ملاحظہ ہوسیرت المہدی روایت نمبر48)

حضرت مرزا غلام مرتضیٰ صاحب نے اپنی یہ ضبط شدہ جاگیر واپس حاصل کرنے کے لیے عدالت کا رخ کیا جہاں سے صرف وہ گاؤں واپس ملے جو کہ سکھ حکومت کے آخری عہد میں آپ کے پاس تھے۔ یعنی تین پرانے گاؤں اور دوتوخود حضرت مرزا غلام مرتضیٰ صاحب نےہی بنائے تھے۔ اور ان کی ملکیت بھی برائے نام سی کاغذی ملکیت تھی اس کے علاوہ اورکچھ نہ تھا۔البتہ باقی ماندہ ریاست کے گاؤں کبھی بھی واپس نہ مل سکے۔اور اس کی حسرت ہی آپ کے دل میں رہی۔

حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام اپنے والد ماجد کے اسی ہم وغم اور حسرت کا ذکر کرتےہوئے فرماتے ہیں:

’’میرے والد صاحب اپنی ناکامیوں کی وجہ سے اکثر مغموم اورمہموم رہتے تھے۔ انہوں نے پیروی مقدمات میں سترہزار روپیہ کے قریب خرچ کیاتھا جس کاانجام آخر ناکامی تھی۔کیونکہ ہمارے بزرگوں کے دیہات مدت سے ہمارے قبضہ سے نکل چکے تھے۔اور ان کا واپس آنا ایک خیال خام تھا۔اسی نامرادی کی وجہ سے حضرت والد صاحب مرحوم ایک نہایت عمیق گرداب غم اور حزن اور اضطراب میں زندگی بسر کرتے تھے…اگرچہ حضرت مرزا صاحب کے چند دیہات ملکیت باقی تھے اور سرکار انگریزی کی طرف سے کچھ انعام بھی سالانہ مقرر تھا اور ایام ملازمت کی پنشن بھی تھی۔مگر جوکچھ وہ دیکھ چکے تھے اس لحاظ سے وہ سب کچھ ہیچ تھا۔اسی وجہ سے وہ ہمیشہ مغموم اورمحزون رہتے تھے…‘‘

(کتاب البریہ ،روحانی خزائن جلد13 صفحہ 187۔188حاشیہ)

آپ کے عزم وہمت کی یہ پرحسرت داستان تو الگ رہی۔ لیکن اس سب کے باوجود آپ کی شجاعت اور اولوالعزمی آپ کی عزت اور آپ کے اعلیٰ کردارکاایک لازمہ رہی۔ اگریہ کہاجائے کہ آپ کی ساری زندگی اسی جرأت اوربہادری اور اولوالعزمی سے عبارت تھی تومبالغہ نہ ہوگا۔

حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحبؓ لکھتے ہیں :

’’اولوالعزمی کی خاص شان ان میں پائی جاتی تھی۔شجاعانہ اولوالعزمی ان سے ہمیشہ مشاہدہ میں آتی تھی۔ایک مرتبہ گھوڑی پر سے گر پڑے۔اور سخت چوٹ آئی۔ مگر اس چوٹ کی ذرّہ بھی پروا نہ کر کے فوراً لاٹھی لے کر چلتے ہوئے اپنے مکان پر پہنچ گئے۔ باہر جب نکلتے۔تو ہمیشہ کمر بستہ نکلتے گویا ہر وقت ایسے مقابلہ کے لئے تیار ہوتے تھے۔جو پیش آ جاوے۔‘‘

(حیات احمدؑ جلداول صفحہ52)

آپ کے عزم وہمت کی ایک زبردست مثال ایک مسجد کی تعمیر کے لیے اس جگہ کا خریدنا بھی ہےجو ہندوؤں اور قادیان کے دیگر باشندوں نے تہیہ کرلیا تھا کہ مرزاصاحب کو یہ جگہ خریدنے نہیں دیں گے۔ان حالات میں آپ نے عزم کیا کہ اگر مجھے اپنی ساری جائداد بھی فروخت کرنی پڑے تو میں اس زمین کو خرید کر مسجدبناؤں گا۔چنانچہ ایساہی ہوا اوریہ مسجدآپ نے بنائی جو مسجد اقصیٰ کے نام سے آج بھی قادیان میں موجودہے اور آپ کے پاکیزہ عزم وہمت کی روشن مثال ہے جو قیامت تک انشاء اللہ قائم رہے گی۔

اور یہ بھی آپ جیسے عزم وہمت کے پیکر کا ہی کمال تھا کہ قادیان واپس آنے کے بعدقادیان کی تعمیر از سرِ نوکی۔وہ مکانات جو گرگئے تھے وہ بنائے۔یہاں تک کہ دو نئے گاؤں آباد کیے اور اپنے دونوں بیٹوں کے نام پر ان کانام رکھا۔ایک ’’احمدآباد‘‘ اور ایک ’’قادرآباد‘‘۔

ان دونوں کے متعلق ’’سیرت المہدی‘‘ میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ بیان فرماتے ہیں :

’’خاکسار عرض کرتا ہے کہ ہمارے دادا صاحب کے دولڑکے تھے ایک حضرت صاحب جن کا نام مرزا غلام احمد تھا اور دوسرے ہمارے تایا مرزا غلام قادر صاحب جو حضرت صاحب سے بڑے تھے۔ ہمارے دادا نے قادیان کی زمین میں دو گاؤں آباد کر کے ان کو اپنے بیٹوں کے نام موسوم کیا تھا چنانچہ ایک کا نام قادرآباد رکھا اور دوسرے کااحمد آباد۔ احمد آباد بعد میں کسی طرح ہمارے خاندان کے ہاتھ سے نکل گیا اور صرف قادر آباد رہ گیا۔چنانچہ قادر آباد حضر ت صاحب کی اولاد میں تقسیم ہوا اور اسی میں مرزا سلطان احمد صاحب کا حصہ آیا لیکن خدا کی قدرت اب قریباً چالیس سال کے عرصہ کے بعد احمد آباد جو ہمارے خاندان کے ہاتھ سے نکل کر غیر خاندان میں جا چکا تھا واپس ہمارے پاس آگیا ہے اور اب وہ کلیۃً صرف ہم تین بھائیوں کے پاس ہے یعنی مرزا سلطان احمد صاحب کا اس میں حصہ نہیں۔نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ قادر آباد قادیان سے مشرق کی جانب واقع ہے اور احمد آباد جانب شمال ہے۔‘‘

(سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر25)

قادیان کی موجودہ صورت حال کے مطابق قادرآباد ’’سرائے طاہر‘‘ کے تقریباً پچھلی جانب ایک گاؤں ہے اوراس کا موجودہ نام ’ترکھانانوالہ‘ ہے۔ جبکہ احمد آباد قادیان کے شمال مشرق کی جانب قدرے فاصلے پر ریلوے لائن کراس کرنے کے بعد ہے اور اس کا موجودہ نام ’بھگت پورہ‘ ہے۔ (’اے ولیم‘)

آپ کی اعلیٰ انتظامی اورفوجی خدمات

ابھی اوپر ایک اقتباس میں ذکر آیاہے کہ علاوہ آپ کی جائداد کے حکومت کی طرف سے انعام یا سالانہ پنشن کی صورت میں سات سوروپے ملتے تھے اور آپ کے ایام ملازمت کی پنشن اس کے علاوہ تھی۔آپ کی ملازمت کے سلسلہ میں جوتفصیلات ملتی ہیں اس کے مطابق جب قادیان کی جدی ریاست مہاراجہ رنجیت سنگھ نے واگزار کردی تو اسی زمانہ میں حضرت مرزا غلام مرتضیٰ صاحبؒ اپنے بھائیوں سمیت مہاراجہ کی فوج میں ملازم ہوگئے اور کشمیرکی سرحد پر بہادری کے جوہر دکھاتے رہے۔

اسی طرح یہ بھی ملتاہے کہ ایک وقت آپ کشمیر کے ’’صوبہ‘‘ کے عہدہ پربھی فائز رہے اوریہ عہدہ کمشنر یا ڈپٹی کمشنر کے برابرہواکرتاتھا۔ان دونوں امورکی تفصیل جو بیان ہوئی ہے وہ کچھ یوں ہے۔ سیرت المہدی میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے روایت کرتے ہوئے حضرت ام المومنین اماں جانؓ نے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدصاحبؓ کو بیان فرمایا:

’’والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ تمہارے دادا کشمیر میں صوبہ تھے۔اس وقت حضرت خلیفةالمسیح ثانی بھی اوپر سے تشریف لے آئے اور فرمانے لگے کہ جس طرح انگریزوں میں آجکل ڈپٹی کمشنر اور کمشنر وغیرہ ہوتے ہیں اسی طرح کشمیر میں صوبے گورنر علاقہ ہوتے تھے۔‘‘

(سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر 10)

اسی طرح آپ نے مہاراجہ رنجیت سنگھ کے ایک وفادار فوجی جرنیل کی حیثیت سے بھی قابل ذکر خدمات سرانجام دیں۔چنانچہ سرلیپل گریفن جس نے پنجاب کے نامی گرامی خاندانوں اوران کے تذکرہ پرمشتمل ایک کتاب The Punjab Chiefs لکھی۔وہ اپنی اس کتاب میں لکھتاہے:

“Ranjit Singh, who had taken possession of all the lands the Ramgarhia Misal, invited Ghulam Murtaza to return to Kadian, and restored to him a large portion of his ancestral estates. He then,with his brothers, entered the army of the Maharaja, and performed efficient service on the Kashmir frontier and at other places.”

(The Punjab Chiefs; Revised Edition, Vol:2 Page:41)

ترجمہ :رنجیت سنگھ نے جو رام گڑھیہ مسل کی جاگیر پر قابض ہو گیا تھا غلام مرتضیٰ کو قادیان واپس بلا لیا اور اس کی جدّی جاگیر کا ایک بڑا حصہ اسے واپس کر دیا۔

اس پر غلام مرتضیٰ اپنے بھائیوں سمیت مہاراجہ کی فوج میں داخل ہو گیا اور کشمیر کی سرحداور دوسرے مقامات پر قابل قدر خدمات سر انجام دیں۔

وفاکیش و وفاشعار

ہرقوم اور خاندان کا کوئی نہ کوئی قابل ذکر وصف اور خوبی ہوتی ہے اوروہ اس کا طرۂ امتیاز ہوتاہے۔دین اسلام سے محبت اس عظیم خاندان کے خون اورسرشت میں شامل تو تھی ہی البتہ اس کا طرۂ امتیاز اس کااخلاص ووفاتھا۔قادیان کی ساڑھے تین سوسالہ تاریخ اس بات کی گواہ ہےکہ اس خاندان نے جس کے ساتھ ایک بار تعلق رکھا تو پھر اس عہدوفاکے ایسے باب رقم کیے کہ تاریخ میں کم ہی ایسے واقعات ملتے ہیں۔اورتاریخ بھی پھر برصغیر کی تاریخ، کہ جہاں چڑھتے سورج اور بدلتے موسم کے ساتھ وفاؤں کے رخ بھی بدلنے عام تھے بلکہ اس کو ’سیاسی بصیرت‘ اور ’دانشمندی‘ جیسے الفاظ سے تعبیر کیا جاتا تھا۔اور معمولی سی ریاست وسیادت اور روپے پیسے کے لیے اس طرح کے سینکڑوں،’ننگِ ملت، ننگِ دیں، ننگِ وطن‘ عام تھے۔لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ قادیان کے اس بزرگ خاندان نے تاریخ کے تین ایسے نازک ترین طوفانی موڑ دیکھے کہ جس میں بڑے بڑے خاندانوں نے اپنی وفاؤں کے رخ وقت اورمصلحت کی ہواؤں کے دوش پر ازسرِنومتعین کیے اور بڑے بڑے پختہ عہدوپیمان بھول گئے۔ہندوستان کی تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے۔لیکن قادیان کے اس خاندان نے جو ایک شاہی اور صاحب اقتدارواختیار خاندان تھا اپنے ساتھ فوج رکھتاتھا عوام الناس کی وفاداریاں رکھتا تھا ایسے مرحلے کئی بار آئے کہ جب یہ خاندان اپنی وفاداریاں تبدیل کرتے ہوئے بڑی آسانی سے اپنی آزادسلطنت قائم رکھ سکتاتھا لیکن…

؂ ہم نے سیکھانہیں اندازبدلتے رہنا

جب حضرت مرزا غلام مرتضیٰ صاحب کو مہاراجہ رنجیت سنگھ نے اپنے دربار میں طلب کیا اورپورے اکرام کے ساتھ حسن سلوک کرتے ہوئے قادیان کی جاگیر اورکچھ دیہات واپس کردیے تو اس خاندان نے بھی حق دوستی اداکرتے ہوئے اپنی وفا اور تعاون کا ہاتھ بڑھایا اور پھر کبھی پیچھے نہ ہٹے۔حضرت مرزا غلام مرتضیٰ صاحب اپنے بھائیوں سمیت مہاراجہ کی فوج میں داخل ہو گئے۔اورپھر مہاراجہ رنجیت سنگھ کی حکومت جب تک قائم رہی یہ خاندان اپنی وفا کے مظاہرے کرتا رہا۔ اورکبھی منہ نہیں موڑا۔ انہوں نے کشمیر کی سرحد اور دوسرے مقامات پر قابل قدر خدمات انجام دیں۔نونہال سنگھ، شیر سنگھ اور دربار لاہور کے دور دورہ میں بھی حضرت مرزا غلام مرتضیٰ صاحب ہمیشہ فوجی خدمات پر مامور رہےاور 1841ء میں وہ ایک پیادہ فوج کے کمیدان بناکر پشاور بھیجے گئے اور مفسدہ ہزارہ میں انہوں نے اپنی نمایاں خدمات کا ثبوت دیا۔

(باقی آئندہ)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button