از افاضاتِ خلفائے احمدیتقرآن کریم

فضائل القرآن (3) (قسط نمبر7)

حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ

(قسط ششم کے لیے ملاحظہ فرمائیں الفضل انٹرنیشنل شمارہ 07؍دسمبر 2021ء)

صدقہ ایک قسم کے قرض کی ادائیگی ہے

صدقہ کے متعلق چوتھا پہلو اسلام نے یہ پیش کیا ہے کہ صدقہ کی حقیقت بیان کی ہے اور بتایا ہے کہ صدقہ ایک قسم کے قرضہ کی ادائیگی ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں صدقہ ملنے کی وجہ سے لوگ کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں اور ان میں سستی اور کاہلی پیدا ہو جاتی ہے۔ مگر اسلام کہتا ہے

فِیۡۤ اَمۡوَالِہِمۡ حَقٌّ مَّعۡلُوۡمٌ۔ لِّلسَّآئِلِ وَ الۡمَحۡرُوۡمِ۔ فِیۡۤ اَمۡوَالِہِمۡ حَقٌّ لِّلسَّآئِلِ وَ الۡمَحۡرُوۡمِ

محتاج اور مساکین کا حق ہے کہ تم انہیں اپنے مال میں سے دو۔ اگر تم کسی محتاج کو دیتے ہو تو اس پر احسان نہیں کرتے بلکہ اس کا حق ادا کرتے ہو۔ دوسری جگہ اس حق کی تشریح ان الفاظ میں کی گئی ہے کہ

وَ سَخَّرَ لَکُمۡ مَّا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الۡاَرۡضِ جَمِیۡعًا مِّنۡہُ (الجاثیۃ:14)

یعنی زمین اور آسمانوں میں جو کچھ ہے اے بنی نوع انسان اسے ہم نے بغیر تمہاری محنت اور بغیر کسی قسم کی اجرت کے تمہاری خدمت میں لگا دیا ہے۔ اب اگر زمین اور آسمانوں کی چیزیں صرف زید یا بکر کی خدمت میں لگی ہوئی ہوں تو ان کا وہ مالک ہو سکتا ہے لیکن اگر یہ چیزیں غریب اور امیر سب کی خدمت کر رہی ہیں تو معلوم ہوا کہ سب چیزیں سب کے لئے پیدا کی گئی ہیں صرف زید یا بکر کیلئے نہیں پیدا کی گئیں۔ اگر سورج صرف بادشاہ کے لئے پیدا کیا جاتا تو چاہئے تھا کہ اسی کو نظر آتا اور اسی کو فائدہ پہنچاتا مگر سورج بادشاہ کو بھی اسی طرح روشنی اور گرمی پہنچاتا ہے جس طرح ایک فقیر کو۔ یہی حال دوسری چیزوں کا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ زمین و آسمان میں جو کچھ ہے بنی نوع انسان کی مشترکہ جائیداد ہے اور سب دولت اسی کے ذریعہ کمائی جاتی ہے۔ سَخَّرَ لَکُمۡ کے ماتحت ہی انسان دنیا میں مال و دولت حاصل کرتا ہے۔ پس ساری کی ساری کمائی پبلک پراپرٹی سے ہی ہو رہی ہے جو خدا تعالیٰ نے ساری دنیا کے لئے پیدا کی ہے۔ بےشک جو محنت و مشقت کر کے اس سے کماتا ہے اس کا زیادہ حق ہے مگر پراپرٹی میں حصہ رکھنے والے کا بھی توحق ہوتا ہے۔ جو محنت کرتا ہے اس کا زیادہ حق ہوتا ہے۔ لیکن جس چیز میں محنت کرتا ہے وہ چونکہ مشترک ہے اس لئے اس کے لینے میں وہ بھی شریک ہے جس کی اس میں شراکت ہے۔ یہ حق صدقہ اور زکوٰۃ کے ذریعہ ادا کیا جاتا ہے۔

اب دیکھو یہ نکتہ بیان کر کے کس طرح امراء اور دولت مندوں کا تکبر توڑا گیا ہے۔ جب غرباء کا بھی امراء کے مال و دولت میں حق ہے تو اگر کوئی امیر ان کو دیتا ہے تو ان کا حق ادا کرتا ہے نہ کہ ان پر احسان کرتا ہے۔ ادھر غرباء اور محتاجوں کو شرمندگی سے یہ کہہ کر بچا لیا کہ مالداروں کے مال میں تمہارا بھی حق ہے۔ ہم نے ان کو ساری رقم دے کر ان کا فرض مقرر کر دیا ہے کہ ہمارے محتاج بندوں کو بھی دیں ساری کی ساری کمائی خود ہی نہ کھا جائیں۔

صدقہ کے محرکات

پانچواں پہلو صدقات کے متعلق اسلام نے یہ بیان کیا کہ صدقہ کے محرکات کیا ہونے چاہئیں؟ محرکات کے ذریعہ ایک اعلیٰ درجہ کی چیز بھی بری ہو جاتی ہے۔ مثلاً ہمارے ہاں کوئی مہمان آئے اور ہم اس کی خاطر اس لئے کریں کہ اس سے ہمیں فلاں فائدہ حاصل ہو جائے گا تو خواہ ہم کتنی خاطر کریں اس میں اپنی ذاتی غرض پنہاں ہو گی۔ لیکن اگر ہم مہمان کی تواضع اس لئے کریں کہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے تو یہ اعلیٰ درجہ کی نیکی ہو گی۔ پس برے محرکات کے ذریعہ ایک چیز ادنیٰ ہو جاتی ہے اور اگر اچھے محرکات ہوں تو اعلیٰ ہو جاتی ہے۔ یہود میں صدقہ کی غرض رحم بتائی گئی ہے۔ یہ ایک لحاظ سے تو اچھی ہے مگر اس میں نقص بھی ہے۔ اسلام نے محرکات کے متعلق بھی بحث کی ہے۔ اور بتایا ہے کہ

مَثَلُ الَّذِیۡنَ یُنۡفِقُوۡنَ اَمۡوَالَہُمُ ابۡتِغَآءَ مَرۡضَاتِ اللّٰہِ وَ تَثۡبِیۡتًا مِّنۡ اَنۡفُسِہِمۡ(البقرۃ:266)

یہاں صدقہ کی دو اغراض بتائی گئی ہیں۔ ایک یہ کہ

ابۡتِغَآءَ مَرۡضَاتِ اللّٰہِ

محض یہ غرض ہو کہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل ہو دوسری یہ کہ

تَثۡبِیۡتًا مِّنۡ اَنۡفُسِہِمۡ

کبھی یہ غرض ہو کہ اپنی قوم مضبوط ہو جائے۔ پس اسلام کے نزدیک صدقہ کی دو ہی اغراض ہیں۔ ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ راضی ہو جائے اور دوسری یہ کہ غرباء کی مدد اپنی مدد ہوتی ہے۔ جس قوم کے افراد گرے ہوئے ہوںگے وہ قوم بھی کمزور ہو جائے گی۔ کیونکہ گرے ہوئے افراد اس کے لئے بوجھ ہوں گے اور قوم ترقی نہ کر سکے گی۔ اسی لئے یورپین قومیں بھی جنہیں خدا سے کوئی تعلق نہیں محض اس لئے صدقہ و خیرات کرتی ہیں کہ قوم کے غرباء کی ترقی سے قوم بڑھتی اور ترقی کرتی ہے۔ پس صدقہ کی ایک غرض اسلام نے یہ بتائی کہ

تَثۡبِیۡتًا مِّنۡ اَنۡفُسِہِمۡ

اس کے ذریعہ قوم مضبوط ہو جاتی ہے۔

اسی طرح نیک لوگوں کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔

وَ اٰتَی الۡمَالَ عَلٰی حُبِّہٖ

یعنی نیک وہ ہوتا ہے جوعَلٰی حُبِّہٖ مال دیتا رہے۔ کتنے مختصر الفاظ ہیں۔ لیکن ان میں نہایت وسیع مطالب بیان کئے گئے ہیں۔ عَلٰی حُبِّہٖ کے معنے یہ ہیں کہ اول اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے۔ چنانچہ پہلے اللہ تعالیٰ کا ذکر موجود ہے۔ گویا وہ مال دیتے ہیں اللہ تعالیٰ کی رضا اور محبت کی خاطر۔ انہیں اللہ تعالیٰ کی محبت ہوتی ہے اس لئے وہ اس کی مخلوق سے بھی محبت کرتے ہیں۔ ان کی غرض یہ ہوتی ہے کہ چونکہ ہم خدا تعالیٰ سے محبت کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے محبت کرتا ہے اس لئے ہم بھی ان سے محبت کریں۔

۲۔ حُبِّہٖ کی ضمیر اس شخص کی طرف بھی جاتی ہے جسے مال دیا جاتا ہے۔ اس لحاظ سے اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ جسے مال دیتے ہیں اسے ذلیل سمجھ کر نہیں دیتے بلکہ اپنا بھائی سمجھ کر دیتے ہیں۔ وہ مال دیتے تو دوسرے کو ہی ہیں لیکن اسے ذلیل سمجھ کر نہیں بلکہ اس کا حق سمجھ کر دیتے ہیں۔ اسے اپنا بھائی اور اپنا پیارا سمجھ کر دیتے ہیں۔

۳۔ حُبِّہٖ کی ضمیر مال دینے کی طرف بھی جاتی ہے۔ اس لحاظ سے یہ معنے ہوئے کہ وہ مال دینے کی محبت کی وجہ سے دیتے ہیں۔ کیونکہ انہیں خدا تعالیٰ کی راہ میں مال دینا انتہائی مرغوب ہوتا ہے۔ وہ چٹی سمجھ کر نہیں دیتے بلکہ اس لئے دیتے ہیں کہ انہیں مال دینے سے ایک روحانی سرور اور ذوق حاصل ہوتا ہے۔ اسی حبہ کے متعلق دوسری جگہ

اِنَّ اللّٰہَ یَاۡمُرُ بِالۡعَدۡلِ وَ الۡاِحۡسَانِ وَ اِیۡتَآئِ ذِی الۡقُرۡبٰی (النحل:91)

کہہ کر بتایا کہ ان کی محبت بڑھتے بڑھتے یہاں تک پہنچ جاتی ہے کہ وہ سمجھتے ہیں ہم ماں باپ ہیں اور غریب اور محتاج لوگ ہمارے بچے ہیں۔ جیسے ماں اپنے بچہ کو محبت سے دودھ پلاتی ہے نہ کہ کسی طمع سے اسی طرح یہ لوگ محتاجوں کو اپنا مال دیتے ہیں۔ دودھ کیا ہوتا ہے ماں کا خون ہوتا ہے۔ مگر پھر بھی جن عورتوں کے ہاں کوئی بچہ پیدا نہیں ہوتا وہ کڑھتی رہتی ہیں۔ جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ انہیں کوئی ایسا بچہ نہیں ملتا جسے وہ اپنا خون پلائیں۔ تو فرمایا۔ وہ لوگ مال دیتے دیتے اس مقام پر پہنچ جاتے ہیں۔ یہ نہیں سمجھتے کہ مال دے کر ہم کسی پر احسان کر رہے ہیں بلکہ یہ سمجھتے ہیں کہ ان کا احسان ہے جو ہم سے مال لیتے ہیں۔ جیسے بچہ جب روٹھ جائے تو ماں اسے مناتی اور کہتی ہے ‘‘میں صدقے جاواں۔ میں واری جاواں’’ حالانکہ وہ بچہ کو کھانے کے لئے دیتی ہے نہ کہ اس سے کچھ لیتی ہے۔ تو خدا تعالیٰ فرماتا ہے۔ تمہارا وہ درجہ ہونا چاہئے کہ تم دے کر یہ سمجھو کہ لینے والوں نے ہم پر احسان کیا ہے نہ کہ تم نے ان پر کرئی احسان کیا ہے۔

صدقات کی غرض و غایت

چھٹے اسلام نے صدقہ دینے کی غرض بیان کی ہے۔ ایک غرض تو اسی آیت میں آئی ہے جو میں نے ابھی پڑھی ہے یعنی

اٰتَی الۡمَالَ عَلٰی حُبِّہٖ

جو شخص مال دے اس کی محبت کی وجہ سے دے۔ دشمنی سے نہ دے کسی کی عادات بگاڑنے کے لئے نہ دے بلکہ اس لئے دے کہ اچھے کاموں میں لگے۔ جسے دیا جائے اسے فائدہ ہو۔ ایسی حالت نہ ہو جائے کہ مال لینے کی وجہ سے اسے نقصان پہنچے۔

صدقات سے معذوری کے اصول

ساتویں اسلام نے صدقہ نہ دینے کے مواقع بھی بیان کئے ہیں۔ یعنی بتایا ہے کہ فلاں مواقع پر صدقہ نہ دو۔ یا تم صدقہ نہ دینے میں معذور ہو۔ جیسے فرمایا۔

وَ اِمَّا تُعۡرِضَنَّ عَنۡہُمُ ابۡتِغَآءَ رَحۡمَۃٍ مِّنۡ رَّبِّکَ تَرۡجُوۡہَا فَقُلۡ لَّہُمۡ قَوۡلًا مَّیۡسُوۡرًا(بنی اسرائیل:29)

اس آیت میں تین مواقع بتائے کہ ان میں صدقہ نہ دینے میں حرج نہیں۔ اول جب کہ تمہارے پاس کچھ نہ ہو۔

ابۡتِغَآءَ رَحۡمَۃٍ مِّنۡ رَّبِّکَ

جب تم خود تکلیف میں ہونے کی وجہ سے اپنے رب کی رحمت کے محتاج ہو۔ دوم۔ جب تمہارا دل تو چاہتا ہو کہ صدقہ دو اور دینے کے لئے مال بھی تمہارے پاس موجود ہو۔ لیکن عقل کہتی ہو کہ اگر مال دونگا تو خدا کا غضب نازل ہوگا اور اگر نہ دونگا تو خدا کی رحمت کا نزول ہوگا۔

اِمَّا تُعۡرِضَنَّ عَنۡہُمُ ابۡتِغَآءَ رَحۡمَۃٍ مِّنۡ رَّبِّکَ تَرۡجُوۡہَا

بخل سے نہیں بلکہ یہ خیال ہو کہ نہ دونگا تو خدا کا فضل نازل ہوگا ایسی صورت میں صدقہ نہ دینا اچھا ہے۔ مثلاً کوئی شخص عیاشی میں روپیہ برباد کر دیتا ہو تو اسے نہ دینا ہی رضائے الٰہی کا موجب ہو گا۔ یا ایک شخص آئے اور آکر کہے کہ مجھے اسلام کے خلاف ایک کتاب لکھنے کے لئے روپیہ کی ضرورت ہے اس میں چندہ دیجئے تو اس سے اعراض کرنے والا یقیناً اللہ تعالیٰ کے فضل کی جستجو میں انکار کرے گا۔ اب ایک اَور مثال دیتا ہوں اس بات کی کہ انسان کا دل تو چاہتا ہے کہ دے مگر

ابۡتِغَآءَ رَحۡمَۃٍ مِّنۡ رَّبِّکَ

نہیں دیتا۔ ایک بچہ ہے جو ہماری تربیت کے نیچے ہے وہ کسی چیز کی خواہش کرتا ہے۔ وہ خواہش ہم پوری بھی کر سکتے ہیں وہ بری بھی نہیں ہوتی مگر ہم سمجھتے ہیں اس کی تربیت کے لحاظ سے یہ برا اثر ڈالے گی۔ اس لئے اسے پورا نہیں کرتے۔ تیسری صورت یہ ہے کہ کسی کو نقصان پہنچانے کے لئے مانگے مثلاً کسی کو مارنے کے لئے ریوالور خریدنا چاہے تب بھی نہیں دیں گے۔

صدقات سے انکار کرنے کا طریق

آٹھویں۔ اسلام نے یہ بتایا ہے کہ صدقہ نہ دینے سے انکار کرنے کا کیا طریق ہونا چاہئے۔ یعنی بتایا کہ انکا کرو تو کس طرح کرو۔ فرمایا۔

اَمَّا السَّآئِلَ فَلَا تَنۡہَرۡ(الضحیٰ:11)

جب انکار کرو تو سائل کو ڈانٹ کر نہ کرو۔ تم انکار کر سکتے ہو مگر سائل پر سختی نہیں ہونی چاہئے۔

پھر فرمایا۔

قُلۡ لَّہُمۡ قَوۡلًا مَّیۡسُوۡرًا

(ایسی بات کرو جس سے مانگنے والے کو ذلت محسوس نہ ہو۔ لوگ کہتے ہیں سائل کو نرمی سے جواب دینا چاہئے۔ یہ

اَمَّا السَّآئِلَ فَلَا تَنۡہَرۡ

میں آچکا ہے

قَوۡلًا مَّیۡسُوۡرًا

کے یہ معنے ہیں کہ اس طرح جواب نہ دو کہ اسے ذلت اور شرمندگی محسوس ہو۔

(جاری ہے )

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button