متفرق مضامین

اسلام میں مساوات کا تصور (قسط سوم)

(ظہیر احمد طاہر ابن نذیر احمد خادم۔جرمنی)

اللہ تعاليٰ نے ہر فردبشر کي زندگي کا کم ازکم معيار يہ مقرر فرماياہے کہ وہ نہ تو بھوکا رہے اورنہ ہي اُس کا جسم ننگا ہو

اسباب معيشت سے فائدہ اٹھانے کا حق

قرآن شريف نے اپنے ماننے والوں کو باور کرايا ہے کہ آسمانوں اور زمين کي بادشاہي اور حقيقي ملکيت اللہ تعاليٰ کو حاصل ہے اوروہي مختار کل ہے۔اس ليے زمين و آسمان کے اندر موجود ہر چيز پر اُسي کو کامل اختيار ہے۔جيسا کہ اللہ تعاليٰ نے فرمايا ہے:

وَلِلّٰہِ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَمَا فِي الْاَرْضِ (آل عمران:110)

اور اللہ ہي کے لئے ہے جو آسمانوں ميں ہے اور جو زمين ميں ہے۔

لِلّٰہِ مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَمَا فِيْھِنَّ (المائدة:121)

اللہ ہي کي بادشاہي ہےآسمانوں اور زمين کي اور اس کي بھي جو اُن کے اندر ہے۔

زمين وآسمان کے مالک نے يہ اصول بيان کيا ہے کہ اللہ کي مالکيت ميں اُس کے سب بندے برابر کے حقدار ہيں اور کرہ ارض ميں موجود تمام قسم کے اسباب معيشت پر سب انسان حق رکھتے ہيں۔ چنانچہ

وَمِمَّا رَزَقْنٰھُمْ يُنْفِقُوْنَ(البقرة:4)

اور جو کچھ ہم انہيں رزق ديتے ہيں اس ميں سے خرچ کرتے ہيں،کي روشني ميں اللہ تعاليٰ کي طرف سے وديعت کیے گئے اسباب سب ضرورتمندوں ميں تقسيم ہونے چاہئيں۔اللہ تعاليٰ نے اپني پيدا کردہ اشياء پر سب انسانوں کے حق ملکيت کا اعلان کرتے ہوئے فرماياہے کہ

ہُوَ الَّذِیۡ خَلَقَ لَکُمۡ مَّا فِی الۡاَرۡضِ جَمِیۡعًا (البقرة:30)

وہي تو ہے جس نے تمہارے لئے وہ سب کا سب پيدا کيا جو زمين ميں ہے۔

پس زمين ميں جو کچھ ہے اُس ميں تمام نوع انسان حصہ دار ہيں۔اگر دنيا اس اصول کو اپنا لے تو اس کے نتيجے ميں بہت سارے فساد اور جھگڑے ختم ہوسکتے ہيں اور دنيا ميں امن کي راہ ہموار ہوسکتي ہے۔ کيونکہ بغض وعناد اور حسد تبھي پيدا ہوتا ہے جب دولت کي غير منصفانہ تقسيم ہو يا حقدار کو اُس کا حق نہ ملے۔ اسلام نے صدقہ و زکوٰة کا حکم دے کر اس اصول کو لاگو کيا ہے۔اس طريق پر دولت اميروں کے ہاتھوں سے نکل کر غريب تک پہنچ جاتي ہے اور اس طرح ان کي مناسب ديکھ بھال کا انتظام کيا جاسکتاہے۔قرآن کريم کے ايک اور مقام پراللہ تعاليٰ کي پيدا کردہ چيزوں پر تمام انسانوں کے حق ملکيت کو ان الفاظ ميں بيان فرماياگيا ہے:

اَلَمۡ تَرَوۡا اَنَّ اللّٰہَ سَخَّرَ لَکُمۡ مَّا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الۡاَرۡضِ(لقمان:21)

کيا تم نے غور نہيں کيا کہ اللہ نے تمہارے لئے مسخر کرديا ہے جو بھي آسمانوں اور زمين ميں ہے۔

قرآن کريم کے ايک اور مقام پر فرمايا:

رَبُّکُمُ الَّذِیۡ یُزۡجِیۡ لَکُمُ الۡفُلۡکَ فِی الۡبَحۡرِ لِتَبۡتَغُوۡا مِنۡ فَضۡلِہٖ ؕ اِنَّہٗ کَانَ بِکُمۡ رَحِیۡمًا۔(بنی اسرائیل:67)

تمہارا ربّ وہ ہے جو تمہارے لئے سمندر میں کشتیاں چلاتا ہے تاکہ تم اُس کے فضلوں کی تلاش کرو۔ یقیناً وہ تمہارے حق میں بار بار رحم کرنے والا ہے۔

پس اللہ تعاليٰ نے حضرتِ انسان کو اشرف المخلوقات کا درجہ دے کراُن سب چيزوں کو اُس کي خدمت پر لگا ديا ہے جو اُس کي بقا ، نشوونما اور اس کے ارتقا کے ليے ضروري ہيں۔اس ليے کسي انسان يا قوم کے ليے مناسب نہيں کہ وہ اُن چيزوں اور وسائل پر قبضہ جما لے جو انسانوں کے مجموعي فائدے کے ليے پيدا کي گئي ہيں۔ کيونکہ اس غير منصفانہ طريق سے جہاں دوسرے انسانوں اور قوموں کا استحصال ہوگا وہيں بغض و عناد بھي بڑھے گا اور دنيا ميں لڑائي جھگڑے اور فسا د کي راہ ہموار ہوگي۔ پس دين کامل کے ذريعہ تمام انسانوں کو يہ پيغام ديا گيا ہے کہ اللہ تعاليٰ کي بنائي ہوئي چيزوں اور اشياء سے ہرملک اور قوم کو فائدہ اٹھانے کے مواقع ملنے چاہئيں۔جس سے نہ صرف اُن کي بنيادي ضرورتيں پوري ہوسکيں گي بلکہ اُن کے قويٰ اور صلاحتيں ترقي کريں گي اورقدرت کي طرف سے وديعت کي گئي صلاحيتوں کو پھلنے پھولنے اور ترقي کرنے کا موقع ملےگا۔ يہي وجہ ہے کہ اللہ تعاليٰ نے تمام انسانوں کو ايک جيسے قويٰ اور صلاحيتيں عطا کي ہيں تاکہ وہ اُس کي بنائي ہوئي اشياء سے حسب توفيق فائدہ اٹھا سکيں۔ پس کائنات کي ہر وہ چيز جہاں انسان کي پہنچ ہے اُس پر سب کوحق ملکيت حاصل ہے اور سب اُس ميں حصہ دار ہيں۔

حضرت مصلح موعود رضي اللہ عنہ سورة بني اسرائيل کي 27ويں آيت کي تفسير بيان کرتے ہوئے فرماتے ہيں: ’’دنيا کي سب اشياء اللہ تعاليٰ نے بني نوع انسان کے لئے بحيثيت جماعت پيد اکي ہيں نہ کہ زيد يا بکر کے لئے۔ پس اگر زيد اور بکر کسي وجہ سے زيادہ مالدار ہوگئے ہوں تو اس سے ان باقي لوگوں کاحق باطل نہيں ہوجاتا۔ جو دنيا کي چيزوں کي ملکيت ميں زيد اور بکر کے ساتھ برابر کے شريک ہيں۔ بےشک بوجہ خاص محنت کے زيديا بکر کا زائد حق اسلام تسليم کرتا ہے ليکن ان کو مالک بلا شرکت غيرنہيں تسليم کرتا۔‘‘

(تفسير کبير جلد چہارم صفحہ323)

حضرت مصلح موعود رضي اللہ تعاليٰ عنہ فرماتے ہيں: ’’اسلام سب سے پہلے يہ اصل بيان فرماتا ہے کہ تمام ملکيت اللہ تعاليٰ کي ہے۔ وہ يہ تعليم پيش کرتا ہے کہ

لِلّٰہِ مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ(مائدہ رکوع16،عمران ع9)

آسمانوں اور زمين کي حقيقي مالکيت اللہ تعاليٰ ہي کو حاصل ہے کسي انسان کو حاصل نہيں۔(2) دوسرا اصل اسلام يہ پيش کرتاہے کہ تمام ملکيت اللہ تعاليٰ نے اپنے تمام بندوں کے لئے پيدا کي ہے۔ (3)تيسرا اصل وہ يہ پيش کرتا ہے کہ اُس کے سب بندوں کاحق سب ملکيت ميں شامل ہے۔ جيسے شاملات ديہہ ہوتي ہے اور اُس ميں ہر ايک کا حصہ ہوتا ہے۔ اِسي طرح اس ملکيت ميں سب لوگ حصہ دار ہيں۔ مگر شاملات ديہہ ميں تو بعض کا حصہ زيادہ ہوتا ہے اور بعض کا کم۔ خدا تعاليٰ نے ايسا نہيں کيا بلکہ اُس نے سب کا حق سب ملکيت ميں مساوي قرار ديا ہے۔ان تين اصولوں کے نتيجہ ميں يہ سوال پيدا ہوتا ہے کہ جب تمام بني نوع انسان کا تمام ملکيت ميں حق ہے تو وہ اپنے حقوق کو کس طرح حاصل کرسکتے ہيں۔مثلاً امريکہ ميں ايک پہاڑي ہے جس ميں ہمارا حصہ ہے ليکن ہم ہندوستان ميں رہتے ہيں ،ہم اپنا حصہ نہيں لے سکتے ، امريکہ والوں نے اس پر قبضہ کيا ہوا ہے۔ اس صورت ميں ہم کيا کريں۔ اسلام اس مشکل کو حل کرنے کيلئے (4)چوتھا اصل يہ پيش کرتا ہے کہ چونکہ قبضہ اور عمل بھي ايک حق رکھتا ہے اس لئے قابض اور عامل کو کچھ زائد حق ملے گا۔ مثلاً امريکہ والوں نے اگر اُس پہاڑي پر قبضہ کرليا ہے تو وہ کچھ شرائط کے ساتھ اُس قبضہ کو قائم رکھ سکتے ہيں اور وہ شرائط يہ ہيں :

اوّل : جو قبضہ کرنے والے ہيں وہ تسليم کريں کہ اس ميں دوسروں کا بھي حق ہے۔دوم : جب اُن کے پاس اپنے اقل حق سے زيادہ ہو تو وہ باقي حقداروں کيلئے ايک کيپيٹل ليوي ادا کريں۔ جس کي صورت يہ ہے کہ وہ اپني آمد ميں سے چاليسواں حصہ دوسروں کے لئے نکال ديا کريں اور يہ بھي ايک دفعہ نہيں بلکہ ہميشہ کے لئے يہ حکم ہے اور ظاہر ہے کہ ہميشہ دينے کا تو سوال نہيں صرف چاليس سال کے قبضہ ميں ہر سال چاليسواں حصہ دے کر وہ چيز اصل حقداروں کي طرف لَوٹ آئے گي اور بعد کي آمد زائد آمد ہوگي۔ يہي وہ چيز ہے جسے زکوٰة کہا جاتا ہے۔ (5)پانچواں اصل اسلام نے يہ مقرر کيا ہے کہ کوئي شخص مال کو روپيہ کي صورت جمع نہ کرے بلکہ اُسے چکر ميں رکھے تاکہ دوسرے لوگ اُس سے فائدہ اٹھاتے رہيں۔‘‘

(تفسير کبير جلد دہم،صفحہ298تا299)

جہاں تک عام انساني ضرورتوں کا تعلق ہے تو اس کے ليے اللہ تعاليٰ نے ہر فردبشر کي زندگي کا کم ازکم معيار يہ مقرر فرماياہے کہ وہ نہ تو بھوکا رہے اورنہ ہي اُس کا جسم ننگا ہو۔ اُس کے ليے پياس سے سيرابي کا انتظام ہونا چاہیے اور اس کي رہائش کے ليے چھت ہو جس کے سائے تلے وہ اپني زندگي گزار سکے۔يہ کسي بھي انسان کا کم ازکم معيار زندگي ہے جسے پورا ہونا چاہیے اور کسي انسان کو اس حق سے محروم رکھنا گويا انسانيت کي تذليل ہے۔اللہ تعاليٰ فرماتا ہے:

اِنَّ لَکَ اَلَّا تَجُوْعَ فِيْھَا وَلَا تَعْرٰي۔ وَاَنَّکَ لَا تَظْمَوئُا فِيْھَا وَلَا تَضْحٰي۔ (طٰہٰ: 119تا 120)

تيرے لئے مقدر ہے کہ نہ تُو اس ميں بھوکا رہے اور نہ ننگا۔ اور يہ (بھي) کہ نہ تُو اُس ميں پياسا رہے اور نہ دھوپ ميں جلے۔

پس قرآن کريم کي تعليم کے مطابق صاحبِ اختيار لوگوں پر لازم ہے کہ وہ اپنے زير نگيں افراد کي بنيادي ضرورتوں کو پورا کرنے کے ليے ايسامعاشي نظام وضع کريں جس ميں دولت چند ہاتھوں ميں جمع ہونے کي بجائے کمزور طبقوں تک بھي پہنچے اور تمام افراد کو اس سے فائدہ اٹھانے کے يکساں مواقع ملتے رہيں۔ گويااپني رعايا کو معاشي تحفظ فراہم کرنا ہر حکومت کي اہم ترين ذمہ داري ہے۔ قراۤن کريم کے ايک اور مقام پر اللہ تعاليٰ نے فرمايا ہے:

کَیۡ لَا یَکُوۡنَ دُوۡلَۃًۢ بَیۡنَ الۡاَغۡنِیَآءِ مِنۡکُمۡ(الحشر:8)

تا ايسا نہ ہو کہ يہ (مالِ غنيمت) تمہارے امراء ہي کے دائرے ميں چکر لگاتا رہے۔

پس حکومت وقت کا کام ہے کہ مختلف مدّات ميں جمع ہونے والي رقم اس طريق پر خرچ کرے کہ وہ دولت غرباء اور مستحقين تک پہنچتي رہے تاکہ بنيادي ضرورتيں پوري ہوتي رہيں۔ايسا نظام وضع کرنے سے ايک فائدہ يہ ہوگا کہ جب دولت گردش ميں رہے گي تو اس کا پھيلاؤ بڑھے گا اور اس سے زيادہ لوگ فائدہ اٹھاسکيں گے۔

اسي وجہ سے اسلام نے سودي نظام کي ممانعت کي ہے کيونکہ سودي نظام ميں دولت غريبوں کے ہاتھوں سے نکل کر اميروں کے پاس چلي جاتي ہے اور وہ سرمائے کو ايک جگہ جمع کر ليتے ہيں جس کي وجہ سے بہت سے لوگوں سے لوگ اپنے جائز حق سے محروم ہوجاتے ہيں۔اسي وجہ سے صدقات اور زکوٰة اموال کو بڑھانے کا ذريعہ بنتے ہيں جبکہ سود سے مال کم ہوتا ہے اور اس ذريعہ سے غريبوں کا استحصال ہوتا ہے۔ اللہ تعاليٰ فرماتا ہے:

یَمۡحَقُ اللّٰہُ الرِّبٰوا وَ یُرۡبِی الصَّدَقٰتِ(البقرة:277)

اللہ سود کو مٹاتا ہے اور صدقات کو بڑھاتا ہے۔

اللہ تعاليٰ قرآن شريف کے ايک اور مقام پر سود کي ممانعت کرتے ہوئے فرماتا ہے:

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَاۡکُلُوا الرِّبٰۤوا اَضۡعَافًا مُّضٰعَفَۃً(آل عمران:131)

اے وہ لوگو جو ايمان لائے ہو! سو دَر سود نہ کھايا کرو۔

اللہ تعاليٰ نے ايسے ذرائع پيداوار جو انساني بقا کے ليے ضروري ہيں اُنہيں نا سمجھ اور غير ذمہ دار لوگوں کے سپرد کرنے سے بھي منع فرمايا ہے تاايسا نہ ہو کہ وہ اپني ناسمجھي يا کم عقلي کي وجہ سے کوئي بڑا نقصان کرديں اور قوم بنيادي ضرورياتِ زندگي سے محروم ہوجائے۔

وَ لَا تُؤۡتُوا السُّفَہَآءَ اَمۡوَالَکُمُ الَّتِیۡ جَعَلَ اللّٰہُ لَکُمۡ قِیٰمًا (النساء:6)

اور بے عقلوں کے سپرد اپنے وہ اموال نہ کيا کرو جن کو اللہ نے تمہارے لئے (اقتصادي) قيام کا ذريعہ بنايا ہے۔

آزادئ ضمير و مذہب

اسلام نے ہر انسان کو يہ حق ديا ہے کہ وہ جس مذہب اور عقيدہ کو چاہے اختيار کرے، اُس پر عمل کرے اور اسے دوسروں ميں پھيلائے۔اسلامي تعليم کي رُو سے دنيا کے کسي انسان ، انجمن يا اسمبلي کو يہ حق نہيں پہنچتا کہ وہ کسي انسان يا کسي جماعت کو اُس کے اس بنيادي حق سے محروم کردے۔ ويسے بھي انساني فطرت اور اُس کي عقل يہ تسليم کرنے کو تيار نہيں کہ کوئي اسمبلي ، کوئي کميٹي يا کوئي ادارہ کسي شخص يا فرقہ سے اُس کے اس بنيادي حق کو چھيننے کي کوشش کرے جس کي طرف وہ اپنے آپ کو منسوب کرتا ہے۔اسلام نے انساني مساوات کاجو عَلم بلند کيا ہے اس کے مطابق اپنے ماننے والوں پر يہ پابندي عائد کي ہے کہ وہ تمام انسانوں کے بنيادي حقوق کا نہ صرف خيال رکھيں بلکہ انہيں اُن کے جائز حقوق دلانے ميں مدد کيا کريں۔

انساني مساوات کا ايک نہايت اہم حصہ حريت فکر اورآزادئ رائے ہے۔اللہ تعاليٰ نے قرآن شريف ميں ہر انسان کو مذہبي آزادي کاحق ديتے ہوئے يہ اعلان فرماياہے کہ

یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ قَدۡ جَآءَکُمُ الرَّسُوۡلُ بِالۡحَقِّ مِنۡ رَّبِّکُمۡ فَاٰمِنُوۡا خَیۡرًا لَّکُمۡ ؕ وَ اِنۡ تَکۡفُرُوۡا فَاِنَّ لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ؕ وَ کَانَ اللّٰہُ عَلِیۡمًا حَکِیۡمًا۔(النساء:171)

اے لوگو! تمہارے پاس تمہار ے ربّ کی طرف سے حق کے ساتھ رسول آ چکا ہے۔ پس ایمان لے آؤ (یہ) تمہارے لئے بہتر ہوگا۔ پھر بھی اگر تم انکار کرو تو یقیناً اللہ ہی کا ہے جو آسمانوں اور زمین میں ہے اور اللہ دائمی علم رکھنے والا (اور) صاحبِ حکمت ہے۔

نيز ايک اورآيت کريمہ ميں يہ اعلان عام فرماديا کہ

وَ قُلِ الۡحَقُّ مِنۡ رَّبِّکُمۡ ۟ فَمَنۡ شَآءَ فَلۡیُؤۡمِنۡ وَّ مَنۡ شَآءَ فَلۡیَکۡفُرۡ(الکہف:30)

اور کہہ دے کہ حق وہي ہے جو تمہارے ربّ کي طرف سے ہو۔ پس جو چاہے وہ ايمان لے آئے اور جو چاہے سو انکار کردے۔

تاريخ سے پتہ چلتا ہے کہ ہر دَور اور ہر زمانے ميں انسانوں سے مذہبي آزادي چھيننے کي کوشش ہوتي رہي ہے۔ طاقتور حکومتيں يا گروہ اپنے سے متضاد عقيدہ يانظريہ رکھنے والوں کو دردناک مظالم کا نشانہ بناتي رہي ہيں۔چنانچہ اس راہ ميں بے شمار لوگوں نے اپني جانيں گنوائيں اور اَن گِنت لوگوں نے اپنے خون کے نذرانے پيش کیے جبکہ لا تعداد لوگ ذہني و جسماني تشدد کا نشانہ بنتے رہے اوريہ سلسلہ ہنوز جاري ہے۔

انساني تاريخ کا مطالعہ کرنے والے جانتے ہيں کہ جس طرح صديوں پہلے کا انسان ظالم تھا وہ آج بھي ظالم ہے اور جس طرح وہ پہلے جابر تھاآج بھي جابر ہے۔اس کي سفّاکي کي ان گنت داستانيں تاريخ کا حصہ بن چکي ہيں ، جس کے لامتناہي ابواب ہيں۔ان ميں سے ايک باب مذہب کے نام پر خون ہے۔ مذاہب عالم کي ابتدائي تاريخ پر نظر دوڑائي جائے تو ہر انسان جان سکتاہے کہ کسي مذہب نے کبھي خونريزي اور تنگ نظر ي کي تعليم نہيں دي بلکہ اُن کي تعليم ميں انسان دوستي کا عنصر ہميشہ غالب رہا ہے۔پس مذہب کو خونريزي سے جوڑنے والے يا تواس بارے ميں کم علم ہيں يا وہ دانستہ ايسا کرتے ہيں۔ قرآن شريف سے پتہ چلتا ہے کہ اللہ تعاليٰ کے تمام انبياء آزادئ ضمير کے علمبردار تھے جبکہ ان کے مخالف پرلے درجے کے جھوٹے اور جبرواستبداد سے کام لينے والے تھے۔ وہ اپني طاقت کے بل بوتے پر سچائي کو پھيلنے سے روکنے کي نہ صرف کوشش کرتے تھے بلکہ انبياء اور اُن کے ماننے والوں پر ہر ظلم رَوا رکھنا اپنا حق سمجھتے تھے۔

اللہ تعاليٰ حضرت شعيب عليہ السلام کي قوم کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے:

قَالَ الۡمَلَاُ الَّذِیۡنَ اسۡتَکۡبَرُوۡا مِنۡ قَوۡمِہٖ لَنُخۡرِجَنَّکَ یٰشُعَیۡبُ وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مَعَکَ مِنۡ قَرۡیَتِنَاۤ اَوۡ لَتَعُوۡدُنَّ فِیۡ مِلَّتِنَا ؕ قَالَ اَوَ لَوۡ کُنَّا کٰرِہِیۡنَ ۔(الاعراف:89)

اس کی قوم کے ان سرداروں نے جنہوں نے استکبار کیا تھا کہا کہ اے شعیب! ہم ضرور تجھے اپنی بستی سے نکال دیں گے اور اُن لوگوں کو بھی جو تیرے ساتھ ایمان لائے ہیں یا تم لازماً ہماری ملّت میں واپس آجاؤگے۔ اس نے کہا کیا اس صورت میں بھی کہ ہم سخت کراہت کررہے ہوں؟

حضرت نوح عليہ السلام کے مخالفين کا ذکر کرتے ہوئے فرمايا:

قَالُوۡا لَئِنۡ لَّمۡ تَنۡتَہِ یٰنُوۡحُ لَتَکُوۡنَنَّ مِنَ الۡمَرۡجُوۡمِیۡنَ۔(الشعراء:117)

انہوں نے کہا اے نوح! اگر تُو باز نہ آيا تو ضرور تو سنگسار کئے جانے والوں ميں سے ہو جائے گا۔

قرآن کريم نے حضرت ابراہيم ، حضرت لوط ، حضرت ہود اور حضرت صالح عليہم السلام کے ذکر ميں اُن کے معاندين کي طرف سے ناروا سلوک کو بيان کيا ہے۔ قرآن شريف کي ايک اور آيت کريمہ ميں اللہ تعاليٰ انبياء کے معاندين کا ذکر تے ہوئے بتاتا ہے کہ

وَ قَالَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا لِرُسُلِہِمۡ لَنُخۡرِجَنَّکُمۡ مِّنۡ اَرۡضِنَاۤ اَوۡ لَتَعُوۡدُنَّ فِیۡ مِلَّتِنَا ؕ فَاَوۡحٰۤی اِلَیۡہِمۡ رَبُّہُمۡ لَنُہۡلِکَنَّ الظّٰلِمِیۡنَ۔(ابراھيم:14)

اور ان لوگوں نے جنہوں نے کفر کیا اپنے رسولوں سے کہا کہ ہم ضرور تمہیں اپنے ملک سے نکال دیں گے یا تم لازماً ہماری ملت میں واپس آجاؤ گے۔ تب ان کے ربّ نے ان کی طرف وحی کی کہ یقیناً ہم ظالموں کو ہلاک کر دیں گے۔

انبياء عليہم السلا م کے مخالفين نے اللہ تعاليٰ کے بھيجے ہووؤں کو نہ صرف ملک بدر کيا بلکہ اس کے علاوہ بھي بہت سخت سزائيں ديں اور انہيں دکھ پہنچانے کے سفاکانہ طريق اختيار کیے۔ حضرت ابراہيم عليہ السلام کا پيغام بھي امن و محبت اور ہمدردي و حلم پر مشتمل تھا اورآپ نے اپني قوم کے لوگوں کو سچے راستے کي طرف بلايا ليکن آپ کي قوم کے سردارنے آپ کو سنگسار کرنے کي دھمکي ديتے ہوئے کہا:

لَئِنۡ لَّمۡ تَنۡتَہِ لَاَرۡجُمَنَّکَ (مريم:47)

اگر تُو باز نہ آيا تو يقيناً ميں تجھے سنگسار کر دوں گا۔

پس حضرت ابراہيم عليہ السلام کو بھي اُن کي قوم کي طرف سے تمسخر کا نشانہ بنايا جاتا رہا ، آپ کو زدوکوب کيا گيا اور خدائے واحد کا نام بلند کرنے کے جرم ميں آپ کے خلاف فتنے کي آگ بھڑکائي گئي اور ظاہري رنگ ميں آگ ميں ڈال کر زندہ جلانے کي کوشش بھي کي گئي۔ اللہ تعاليٰ اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے:

قَالُوۡا حَرِّقُوۡہُ وَ انۡصُرُوۡۤا اٰلِہَتَکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ فٰعِلِیۡنَ۔(الانبياء:69)

انہوں نے کہا اس کو جلاڈالو اور اپنے معبودوں کي مدد کرو اگر تم کچھ کرنے والے ہو۔

حضرت شعيب عليہ السلام کے مخالفين نے بھي وہي طريق اختيار کيا جو ہميشہ سے انبياء کے منکرين کا شيوہ ہے۔ اس واقعہ کے ذکر ميں اللہ تعاليٰ فرماتا ہے:

قَالَ الۡمَلَاُ الَّذِیۡنَ اسۡتَکۡبَرُوۡا مِنۡ قَوۡمِہٖ لَنُخۡرِجَنَّکَ یٰشُعَیۡبُ وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مَعَکَ مِنۡ قَرۡیَتِنَاۤ اَوۡ لَتَعُوۡدُنَّ فِیۡ مِلَّتِنَا ؕ قَالَ اَوَ لَوۡ کُنَّا کٰرِہِیۡنَ۔(الاعراف:89)

اس کي قوم کے ان سرداروں نے جنہوں نے استکبار کيا تھا کہا کہ اے شعيب ! ہم ضرور تجھے اپني بستي سے نکال ديں گے اور اُن لوگوں کو بھي جو تيرے ساتھ ايمان لائے ہيں يا تم لازماً ہماري ملّت ميں واپس آجاؤ گے۔ اس نے کہا کيا اس صورت ميں بھي کہ ہم سخت کراہت کر رہے ہوں ؟

حضرت موسيٰ عليہ السلام کے زمانے ميں فرعون نے نيا دين قبول کرنے والوں کے ليے کئي طرح کي سزائيں تجويز کيں اوراپنے کارندوں کو اُن کے بيٹوں کو قتل کرنے کا حکم دے ديا۔

فَلَمَّا جَآءَہُمۡ بِالۡحَقِّ مِنۡ عِنۡدِنَا قَالُوا اقۡتُلُوۡۤا اَبۡنَآءَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مَعَہٗ وَ اسۡتَحۡیُوۡا نِسَآءَہُمۡ(المومن:26)

پس جب وہ ہماری طرف سے حق لے کر ان کے پاس آیا تو انہوں نے کہا۔ ان لوگوں کے بیٹوں کو قتل کرو جو اس کے ساتھ ایمان لائے اور ان کی عورتوں کو زندہ رکھو۔

قرآن کريم فرعون کي طرف سے نافذ کي جانے والي ايک اور سزا کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے:

فَلَاُقَطِّعَنَّ اَیۡدِیَکُمۡ وَ اَرۡجُلَکُمۡ مِّنۡ خِلَافٍ وَّ لَاُصَلِّبَنَّکُمۡ فِیۡ جُذُوۡعِ النَّخۡلِ ۫ وَ لَتَعۡلَمُنَّ اَیُّنَاۤ اَشَدُّ عَذَابًا وَّ اَبۡقٰی ۔(طٰہٰ:72)

پس لازماً میں تمہارے ہاتھ اور تمہارے پاؤں مخالف سمتوں سے کاٹ دوں گا اور ضرور تمہیں کھجور کے تنوں پر سُولی چڑھاؤں گا اور تم یقیناً جان لو گے کہ ہم میں سے کون عذاب دینے میں زیادہ سخت اور باقی رہنے والا ہے۔

پس مذہب کے نام پر انبياء کي جماعتوں کو ہميشہ ظلم کا نشانہ بنايا جاتا رہا ہے۔حضرت موسيٰ عليہ السلام کے بعد حضرت عيسيٰ عليہ السلام اور آپ کے ماننے والوں کو بھي بے انتہا مظالم کا نشانہ بنايا گيا اور آپؑ کو عملاً سولي پر چڑھا کر مارنے کي کوشش کي گئي۔

مذہب کے نام پرظلم وستم کا سلسلہ آج بھي اُسي طرح جاري و ساري ہے۔ دوسري طرف مذاہب نے ہميشہ امن وسلامتي اور رواداري کي تعليم دي ہے اور انسانوں کو ہر قسم کي غلامي سے آزادي کي نويد سنائي ہے۔

ہمارے پيارے امام حضرت خليفة المسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيز مذہبي آزادي کا ذکرکرتے ہوئے فرماتے ہيں : ’’غلامي سے آزادي اور آزادئ مذہب و ضمير ايک بہت بڑي نعمت ہے…اگر مذاہب کي تاريخ پر ہم نظر ڈاليں تو بانيانِ مذاہب يا انبياء اللہ تعاليٰ کي طرف سے دنياميں جن اہم کاموں کے لئے آتے ہيں اُن ميں سے ايک بہت بڑا اور اہم کام آزادي ہے۔چاہے وہ ظالم بادشاہوں اور فرعونوں کي غلامي سے آزادي ہو يا مذہب کے بگڑنے کي وجہ سے يا مذہب کے نام پر مذہب کے نام نہاد ٹھيکيداروں کے اپنے مفادات کي خاطر رسم ورواج يا مذہبي رسومات کے طوق گردنوں ميں ڈالنے کي غلامي سےآزادي ہو۔ ہر قسم کي غلامي سے رہائي انبياء کے ذريعہ ہوتي ہے۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 25؍نومبر 2011ءمطبوعہ الفضل انٹرنيشنل 16؍دسمبر2011ء صفحہ 5)

قرآن شريف نے ہر انسان کو مذہبي آزادي کي نويد جانفزا سناتے ہوئے يہ اعلان عام فرمايا ہے کہ

لَاۤ اِکۡرَاہَ فِی الدِّیۡنِ ۟ۙ قَدۡ تَّبَیَّنَ الرُّشۡدُ مِنَ الۡغَیِّ(البقرة:257)

دين ميں کوئي جبر نہيں۔ يقيناً ہدايت گمراہي سے کھل کر نماياں ہوچکي۔

حضرت خليفة المسيح الرابع رحمہ اللہ تعاليٰ اس آيت کي تفسير بيان کرتے فرماتے ہيں: ’’يہ قرآني بيان کہ دين کے معاملے ميں کوئي جبر نہيں۔ اگرچہ بہت مختصر ہے ليکن اپنے معاني کے اعتبار سے اتنا جامع اور اپنے اطلاق کے لحاظ سے اس قدر دُور رَس اثرات کا حامل ہے کہ اس کا بغور مطالعہ انسان کو ورطہ حيرت ميں ڈال ديتا ہے۔

اس کي تشريح يو ں کي جاسکتي ہے کہ نہ تو کسي شخص کو دوسروں کے خلاف طاقت استعمال کرنے کي اجازت ہے اور نہ يہ آيت مظلوم کو جبر کے سامنے سر جھکانے کي اجازت ديتي ہے۔ اعليٰ درجے کا ايمان کسي بھي شخص کو کسي جبر کے سامنے جھکنے کي اجازت نہيں ديتا خواہ اسے آزادئ ضمير کي خاطر کتني بھي اذيت اور تکليف کيوں نہ برداشت کرني پڑے۔البتہ ہم اس حقيقت کو بھي نظر انداز نہيں کرسکتے کہ ہر ايک کے ايمان اور اخلاص کا معيار الگ الگ ہوتا ہے اور پھر سب ميں اذيت برداشت کرنے کي طاقت بھي يکساں نہيں ہوتي۔ عجيب بات ہے کہ يہي آيت ان کي تائيد ميں کھڑي ہوجاتي ہے اور معمولي سي تاکيد کي تبديلي سے مضمون کچھ يوں بنے گا۔ کسي سے يہ تقاضا نہيں کيا جاسکتا کہ وہ ا پني طاقت سے بڑھ کر تکليف برداشت کرے۔ يوں کمزوروں کي بريت کے ساتھ ساتھ يہ يقين دہاني بھي کرائي گئي ہے کہ دباؤ ڈال کر ان سے جو کچھ کہلوايا گيا ہے اس کي کوئي حيثيت نہيں کيونکہ مذہب ميں جبر کي ہرگز اجازت نہيں۔‘‘

(عدل، احسان اور ايتاء ذي القربيٰ ،صفحہ 117تا 118)

پس اگر کسي انسان کا عقيدہ ايمان لانے کے بعد سختي سے تبديل کرواديا جائے جبکہ اس کا دل حسبِ سابق ايمان پر قائم ہو تو اللہ تعاليٰ کي نگاہ دلوں پر ہے وہي دل کي حالت کو جانتا ہے کيونکہ سختي کے ذريعہ کبھي بھي ايمان دلوں ميں راسخ نہيں کيا جاسکتا۔ اللہ تعاليٰ فرماتا ہے:

مَنۡ کَفَرَ بِاللّٰہِ مِنۡۢ بَعۡدِ اِیۡمَانِہٖۤ اِلَّا مَنۡ اُکۡرِہَ وَ قَلۡبُہٗ مُطۡمَئِنٌّۢ بِالۡاِیۡمَانِ وَ لٰکِنۡ مَّنۡ شَرَحَ بِالۡکُفۡرِ صَدۡرًا فَعَلَیۡہِمۡ غَضَبٌ مِّنَ اللّٰہِ ۚ وَ لَہُمۡ عَذَابٌ عَظِیۡمٌ۔(النحل:107)

جو بھی اپنے ایمان لانے کے بعد اللہ کا انکار کرے سوائے اس کے کہ جو مجبور کر دیا گیا ہو حالانکہ اس کا دل ایمان پر مطمئن ہو (وہ بری الذمہ ہے)۔ لیکن وہ لوگ جو شرح صدر سے کفر پر راضی ہوگئے ان پر اللہ کا غضب ہوگا اور اُن کے لئے ایک بڑا عذاب (مقدر) ہے۔

قرآن کريم کي ايک اور آيت کريمہ ميں اس کي مزيد وضاحت ان الفاظ ميں کي گئي ہے ، فرمايا:

وَ لَا تَقُوۡلُوۡا لِمَنۡ اَلۡقٰۤی اِلَیۡکُمُ السَّلٰمَ لَسۡتَ مُؤۡمِنًا(النساء:95)

اور جو تم پر سلام بھيجے اس سے يہ نہ کہا کرو کہ تُو مومن نہيں ہے۔يعني جو شخص تمہيں مسلمانوں کي طرح السلام عليکم کہے تو تمہيں يہ حق نہيں پہنچتا کہ اُسے يہ کہو کہ تُو تو مومن ہي نہيں۔ اللہ تعاليٰ انسانوں کاخالق ہے اگر وہ چاہتا تو دنيا کے ہر انسان کو حق قبول کرنے پر مجبور کرسکتا تھا ليکن اس نے صحيح اور غلط کي موجودگي ميں انسانوں کو يہ اختيار دے کرکہ وہ اچھے يا برے ميں سے ايک راستے کو چن ليں ہمارے لیے يہ ناقابل ترديد ثبوت مہيا فرماديا کہ اللہ تعاليٰ کے تشکيل ديے ہوئے نظام ميں جبر کي گنجائش نہيں۔

اللہ تعاليٰ کا ارشاد مبارک ہے:

وَ لَوۡ شَآءَ رَبُّکَ لَاٰمَنَ مَنۡ فِی الۡاَرۡضِ کُلُّہُمۡ جَمِیۡعًا ؕ اَفَاَنۡتَ تُکۡرِہُ النَّاسَ حَتّٰی یَکُوۡنُوۡا مُؤۡمِنِیۡنَ۔ (يونس:100)

اور اگر تيرا ربّ چاہتا تو جو بھي زمين ميں بستے ہيں اکٹھے سب کے سب ايمان لے آتے۔ تو کيا تُو لوگوں کو مجبور کرسکتا ہے۔ حتّٰي کہ وہ ايمان لانے والے ہوجائيں۔

حضرت خليفة المسيح الرابع رحمہ اللہ تعاليٰ فرماتے ہيں : ’’بعض مسلم علماء کا يہ مؤقف ہے کہ اگرچہ آنحضرت صلي اللہ عليہ وسلم سے قبل کسي بھي نبي کو دين کے معاملے ميں جبر رَوا رکھنے کا اختيار نہيں ديا گيا تھا ليکن آپ صلي اللہ عليہ وسلم کو يہ اختيار ديا گيا تاکہ ديگر تمام انبياء پر آپ صلي اللہ عليہ وسلم کي عظمت اور فضيلت ثابت ہو۔ ظاہر ہے کہ اس دليل سے تو اس کے برعکس بات ثابت ہوتي ہے کيونکہ اگر آپ صلي اللہ عليہ وسلم کي نسبت کم درجے کے حامل انبياء آزادئ ضمير کے علم بردار ہيں تو عقل يہ تقاضا کرتي ہے کہ حضرت اقدس محمد مصطفي ٰصلي اللہ عليہ وسلم کو تو ان سب گزشتہ انبياء کي نسبت اس عَلَم کو سب سے زيادہ بلند کرنا چاہئے۔ انبياء عليہم السلام ميں بہترين نبي کا نوع انسان کي آزادي کو سلب کرلينا ، ان پر ايک احمقانہ الزام ہے اور آنحضرت صلي اللہ عليہ وسلم کي بے داغ شخصيت کي توہين ہے۔ قرآن کريم اس کي ترديد کرتے ہوئے فرماتاہے:

فَذَکِّرۡ۟ؕ اِنَّمَاۤ اَنۡتَ مُذَکِّرٌ۔لَسۡتَ عَلَیۡہِمۡ بِمُصَۜیۡطِرٍٍ۔اِلَّا مَنۡ تَوَلّٰی وَ کَفَرَ۔ فَیُعَذِّبُہُ اللّٰہُ الۡعَذَابَ الۡاَکۡبَرَ ۔اِنَّ اِلَیۡنَاۤ اِیَابَہُمۡ۔ ثُمَّ اِنَّ عَلَیۡنَا حِسَابَہُمۡ ۔(الغاشية: 22تا27)

ترجمہ پس بکثرت نصيحت کر۔ تو محض ايک بار بار نصيحت کرنے والا ہے۔ تو ان پر داروغہ نہيں۔ ہاں وہ جو پيٹھ پھير جائے اور انکار کردے۔ تو اسے اللہ سب سے بڑا عذاب دے گا۔ يقيناً ہماري طرف ہي ان کا لوٹنا ہے۔ پھر يقيناً ہم پر ہي ان کا حساب ہے۔

اس غير مبدل قانون کے پيش نظر کسي بھي نبي نے لوگوں کو جبراً نيکي کي راہ پر نہيں چلايا۔پس وہ سب لوگ جو نيکي يا خدا کے نام پر اس کي خلاف ورزي کي جرأت کرتے ہيں وہ جعلي خداؤں کي مانند مسترد کئے جانے کے لائق ہيں کيونکہ ان کا کردار خدا تعاليٰ کے عاجز بندوں کے کردار کے برعکس ہے۔ کوئي بھي سچا مذہب آزادئ ضمير کے خلاف اپنے نام پر ہونے والے جرائم کا ذمہ دار نہيں ٹھہرايا جاسکتا۔ ذمہ دار تو دراصل وہ نام نہاد ملاں ہيں جو ناانصافي کرتے ہوئے اپنے مقاصد کي خاطر اور خدا تعاليٰ کي منشاءکے برخلاف آسماني تعليمات ميں بگاڑ پيدا کرتے ہيں۔حتٰي کہ اللہ تعاليٰ کي پيدا کردہ زندگي کو تلف کرنے کا اختيار بھي بزعم خود ہي حاصل کرليتے ہيں۔ قرآن کريم ايسے تمام مذاہب کے دفاع ميں کھڑا ہے اور ان تمام غلط الزامات سے ان کو بري الذمہ قرار ديتا ہے جو بعد کے ادوار ميں آنے والے علماء سُو نے عائد کئے تھے۔‘‘

(عدل ، احسان اور ايتاء ذي القربيٰ ،صفحہ 112)

رسول کريمؐ کے ارشادات سے بھي پتہ چلتا ہے کہ جو انسان توحيد باري کا اقرار کرے توکسي دوسرے شخص کو يہ اختيار نہيں کہ وہ اس کے اس اقرار کو تسليم نہ کرے اور اس پر کفر کا فتويٰ صادر کردے۔

حضرت اُسامہ بن زيد رضي اللہ عنہ بيان کرتے ہيں کہ آنحضرت صلي اللہ عليہ وسلم نے ہميں جُہينہ قبيلہ کے نخلستان کي طرف بھيجا۔ ہم نے صبح صبح اُن کے چشموں پر ہي اُن کو جاليا۔ مَيں نے اور ايک انصاري نے ان کے ايک آدمي کا تعاقب کيا۔ جب ہم نے اس کو جاليا اور اسے مغلوب کرليا تو وہ بول اُٹھا:لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ (اللہ کے سوا کوئي معبود نہيں ) اِس بات سے ميرا انصاري ساتھي اس سے رُک گيا ليکن مَيں نے اس پر نيزے کا وار کرکے اسے قتل کرديا۔ جب ہم مدينہ واپس آئے اورآنحضرت صلي اللہ عليہ وسلم کو اس بات کا علم ہوا تو آپؐ نے فرمايا : اَے اُسامہ کيا لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ پڑھ لينے کے باوجود تم نے اُسے قتل کرديا؟ مَيں نے عرض کيا يارسول اللہ !وہ صرف اپنے بچاؤ کے لیے (يہ الفاظ ) کہہ رہا تھا۔ آپؐ بار بار يہ دہراتے جاتے تھے يہاں تک کہ مَيں نے تمنّا کي کہ کاش آج سے پہلے مَيں مسلمان ہي نہ ہوتا۔اَور ايک روايت ميں ہے کہ آنحضرت صلي اللہ عليہ وسلم نے فرمايا کہ جبکہ اس نے لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کا اِقرار کرليا پھر بھي تُونے اُسے قتل کرديا ؟ مَيں نے عرض کيا: اے اللہ کے رسولؐ ! اس نے ہتھيار کے ڈر سے ايسا کہا تھا۔ آپؐ نے فرمايا کہ کيوں نہ تُونے اُس کا دل چير کر ديکھا کہ اُس نے دل سے کہا ہے يا نہيں ؟ حضور ؐنے يہ بات اتني بار دہرائي کہ مَيں تمنّا کرنے لگا کہ کاش مَيں آج مسلمان ہوا ہوتا۔

(صحيح البخاري کتاب المغازي۔ باب بعث النّبي اُسامة بن زيد الي الحرقات من جھينة )

(جاری ہے)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button