تعارف کتاب

’’میرا سفرِ زندگی‘‘ (قسط دوم۔آخری)

(فرخ سلطان محمود)

حضرت خلیفة المسیح الربعؒ نےآپ کو خلافت سے پہلے اپنے ایک خط میں لکھا تھا ’’اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایسی آنکھ عطا فرمائی ہے جو دنیا کی ظاہری چمک دمک سے متاثر نہیں ہوتی اور تہ تک پہنچ کر حقیقت حال کی جستجو کرتی ہے۔‘‘

محترم چودھری حمیداللہ صاحب مرحوم وکیل اعلیٰ تحریک جدید انجمن احمدیہ کی خودنوشت سوانح ’’میرا سفرِ زندگی‘‘ ہمارے زیرنظر ہے۔ اس خوبصورت دستاویز میں سے خلافتِ ثالثہ کے بابرکت دَور تک کے تاریخی اہمیت کے حامل اور تربیتی امور سے متعلق واقعات کا انتخاب گزشتہ قسط میں ہدیۂ قارئین کیا گیا تھا۔ ذیل میں خلافتِ رابعہ کے آغاز سے محترم چودھری صاحب کی وفات تک کا احوال مختصراً پیش ہے۔

٭…حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحبؒ کی قبل از خلافت یادوں کو بیان کرتے ہوئے آپ رقمطراز ہیں کہ 1974ء میں جب حالات نارمل ہوئے تو اس کے بعد پھر دارالضیافت میں باہر سے وفود آنے کا سلسلہ شروع ہوا جس کا آغاز مکرم چودھری انور حسین صاحب امیر ضلع شیخوپورہ نے کیا۔ ہر اتوار کو وہ غیراز جماعت کے وفود ربوہ لاتے اور ان کی حضور سے ملاقات کرواتے۔ اس کے نتیجہ میں بیعتوں کا سلسلہ بھی شروع ہوا۔ پھر دوسرے اضلاع سے بھی وفود آنے لگ گئے۔ جب مہمان حضورؒ کی ملاقات اور دوپہر کے کھانے سے فارغ ہوجاتے تو پھر حضرت مرزا طاہر احمد صاحب کے ساتھ مجلس سوال و جواب ہوتی جو 3بجے سے مغرب تک جاری رہتی۔ یہ سلسلہ سالہا سال تک ہر اتوار کو کم و بیش باقاعدگی سے ہوتا رہا ۔ حضرت میاں صاحب اپنے آرام کا قطعاً خیال نہ رکھتے تھے اور مہمانوں کے سوالوں کے جواب دینے میں بھرپور مجاہدہ کرتے تھے۔ ان مجالس میں شامل ہونے والے مہمانوں کی تعداد 500سے 1500تک ہوتی تھی۔

٭…9 جون 1982ء کو حضرت خلیفة المسیح الثالثؒ کی وفات کی اطلاع نصف شب کو ملی۔ 10 جون کو دوپہرسے قبل حضورؒ کا جنازہ ربوہ لایا گیا۔ اسی روز انتخاب خلافت کے حوالہ سے میٹنگ خلافت لائبریری میں ہوئی جس میں ناظران، وکلاء اور امراء اضلاع نے شرکت کی۔ پھر بعد نماز ظہر مسجد مبارک میں مجلس انتخاب خلافت کا اجلاس ہوا جس میں حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحبؒ خلیفۃ المسیح منتخب ہوئے۔

٭… اکتوبر 1982ء میں حضورؒ نے مجھے ایک خط میں تحریر فرمایا کہ مکرم صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب صحت کی خرابی کی بنا پر کام کرنا ممکن نہیں سمجھتے لیکن سلسلہ کی خدمت سے محروم بھی نہیں ہونا چاہتے۔ حضور نے مجھے وکیل اعلیٰ مقرر فرمایا اور مکرم صاحبزادہ صاحب کے متعلق ارشاد فرمایا کہ وہ بدستور صدر مجلس تحریک جدید رہیں گے لیکن انتظامی معاملات سے اُن کا کوئی تعلق نہیں ہوگا۔ خاکسار کو 1987ء تا 1989ء بطور ایڈیشنل صدر اور پھر 1989ء سے بطور صدر مجلس تحریک جدید انجمن احمدیہ خدمات کی توفیق مل رہی ہے۔

٭…خلافتِ احمدیہ پر 2008ء میں سو سال پورے ہونے پر اللہ تعالیٰ کے حضور اس عظیم الشان احسان پر شکریہ ادا کرنے کے لیے حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے 27مئی 2005ء کو خلافتِ احمدیہ صدسالہ جوبلی منانے کا اعلان فرمایا اور اس حوالے سے ایک سکیم پر عملدرآمد کے لیے خاکسار کی صدارت میں مرکزی کمیٹی تشکیل فرمائی جس نے 52تجاویز کو عملی جامہ پہنانے کے لیے مقدور بھر کوشش کی۔ حضور انور ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے مرکزی کمیٹی کی یہ تجویز بھی منظور فرمائی کہ جس طرح خلافتِ ثانیہ کی سلورجوبلی کے موقع پر 1939ء میں جماعت احمدیہ نے سیّدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی خدمت میں تین لاکھ روپے کی رقم بطور نذرانہ پیش کی تھی اسی طرح 2008ء میں بھی جماعت احمدیہ عالمگیر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت میں بھی ایک مناسب رقم بطورتحفہ پیش کرے۔ مرکزی کمیٹی کی خواہش تھی کہ رقم اِس قدر ہو کہ اِس سے پہلے اِتنی بڑی رقم کبھی جماعت نے اکٹھی نہ کی ہو۔ مرکزی کمیٹی کا ٹارگٹ مبلغ 10لاکھ پاؤنڈ سٹرلنگ تھا۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کی اجازت سے جلسہ سالانہ قادیان 2005ء کے موقع پر خاکسار نے اس تحریک کا اعلان کیا۔اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے جماعت احمدیہ عالمگیر نے اِس تحریک پر لبیک کہتے ہوئے اس فنڈ میں مبلغ 25 لاکھ پاؤنڈ سٹرلنگ سے زیادہ رقم ادا کی جو حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں اِس درخواست کے ساتھ جلسہ سالانہ یوکے 2009ء کے موقع پرمحترم چودھری شبیر احمد صاحب وکیل المال اوّل نے عالمگیر جماعت احمدیہ کی طرف سے پیش کی کہ حضور اِسے قبول فرمائیں اور جس رنگ میں پسند فرمائیں اسے استعمال کریں۔ حضورانور نے اسے قبول فرماتے ہوئے اپنے خطاب میں بتایا کہ اس رقم میں سے افریقہ میں مساجد اور مشن ہاؤسز کی تعمیرپر قریباً 10لاکھ 65 ہزار پاؤنڈز خرچ ہوچکے ہیں۔ اِسی طرح مسجد اقصیٰ قادیان کی توسیع، لائبریری ، پریس اور گیسٹ ہاؤسز وغیرہ منصوبوں پر 8 لاکھ پاؤنڈز قریباً خرچ ہوئے ہیں۔ بنگلہ دیش اور یورپ میں مساجد اور مشن ہاؤسز پر پانچ لاکھ پاؤنڈز خرچ ہوئے ہیں۔ بعض اَور ممالک میں بھی اِس فنڈ سے رقم خرچ ہوئی ہے۔

٭… حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒکے عہد میں انٹرنیشنل ایسوسی ایشن آف احمدی آرکیٹیکٹس اینڈ انجینئرزIAAAE قائم کی گئی۔ حضرت صاحبزاہ مرزا طاہر احمد صاحبؒ بحیثیت صدر مجلس انصار اللہ اس کے سرپرست (Patron) تھے۔ صدر مجلس انصار اللہ مقرر ہونے پر (جون 1982ء میں)خاکسار اس کا سرپرست مقررہوا اور 31دسمبر1999ء تک اور پھر 2010ء سے اب تک حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد پر یہ خدمت بجالارہا ہے۔

خاکسار کو جماعتی و ذاتی طور پر متعدد غیرملکی دوروں کی توفیق ملی۔ پہلا دورہ یورپ و امریکہ تھا جو 10مئی تا21جولائی 1981ء تک جاری رہا۔ اُس وقت حضرت صاحبزادہ مرز اطاہر احمد صاحبؒ مجلس انصاراللہ مرکزیہ کے صدر تھے اور خاکسار نائب صدر تھا۔ آپ نے حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ سے مجھے یورپ اور امریکہ میں انصاراللہ کی تنظیم کے استحکام کے لیے بھجوانے کی اجازت حاصل کی۔ امریکہ کے دورہ کے دوران خاکسار کو ڈیٹن شہر کے میئر آنریبل McGeeنے شہر کی چابی پیش کی۔ یہ اعزاز محض احمدیت کی برکت اور حضرت مسیح موعودؑ کی غلامی کے نتیجہ میں حاصل ہوا۔ الحمدللہ

1982ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ کامسجد بشارت سپین کے افتتاح کے لیے جانے کا پروگرام تھا اور صدر مجلس انصاراللہ (حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحبؒ) وفد کے ممبر تھے۔ آپ نے خلیفۃالمسیح الرابع منتخب ہونے کے بعد فیصلہ فرمایا کہ اب خاکسار بحیثیت صدر مجلس انصار اللہ حضور کے وفد میں شامل ہوگا۔

ربوہ سے روانہ ہونے سے پہلے خاکسار نے حضور سے پوچھا کہ مسجد کے افتتاح کی تقریب میں شرکت کے علاوہ دورہ کے دوران اَور کیا کام ہوگا؟ آپ نے فرمایا کہ وہاں جاکر بتاؤں گا۔ وہاں آپ نے مشنز کے ہر قسم کے مالی امور کا جائزہ لینے کا کام میرے سپرد فرمایا۔ چنانچہ مالی امور کے جائزہ کے نتیجہ میں مشنوں کے بجٹ آمد دو اڑھائی گناتک بڑھ گئے اور بعض مشنز اپنا بوجھ خود برداشت کرنے لگ گئے۔ ناروے، سویڈن، ڈنمارک، ہالینڈ، جرمنی، سوئٹزرلینڈ، انگلینڈہر جگہ مجلس شوریٰ منعقد ہوئی۔ ہر جگہ مالی جائزے تیار ہوئے۔

1983ء میں حضرت خلیفۃالمسیح الرابع ؒ نے سنگاپور، فجی، آسٹریلیا اور سری لنکاکا دورہ کیا۔ خاکسارکو بحیثیت وکیل اعلیٰ و پرائیویٹ سیکرٹری اس دورہ میں فرائض سرانجام دینے کی توفیق ملی۔ آسٹریلیا میں حضور نے مسجد ھدیٰ کا اور سنگاپور میں مسجد طٰہٰ کا سنگ بنیاد رکھا۔ سنگاپورمیں ملائیشیااور انڈونیشیا سے کافی بڑی تعداد میں احباب آگئے تھے۔ فجی میں حضور مع وفد Date-Lineپر گئے۔ Maravu میں لاہوری جماعت کے قریباً سب ممبران نے حضور ؒسے اپنے بچوں کے ہمراہ اجتماعی ملاقات کی اور حضورؒسے سوالات کیے۔ ان کے لیڈرکی خواہش تھی کہ اجتماعی طور پر جماعت میں شامل ہو جائیں لیکن بعد میں غالباً ان کی وفات کی وجہ سے ایسا نہ ہو سکا۔

1984ء میں ربوہ سے ہجرت کی رات حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ نے مکرم صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب، صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب اور خاکسار کو ضروری ہدایات دیں۔ چونکہ اس وقت کئی قسم کے خطرات اور خدشات تھے اس لیے حضورؒ نے انجمنوں کے مختلف عہدیداروں کے ایک سے زیادہ قائمقا م مقررفرما دیے تھے تاکہ ایک کے بعد دوسرا، دوسرے کے بعد تیسرا … چارج لے سکے۔ حضورؒ ربوہ سے فجر کی نماز سے پہلے 4 بجے صبح روانہ ہو ئے۔ مسجد مبارک میں فجر کی نمازسے قبل صاحبزادہ مرزا غلام احمد صاحب نے اعلان کیا کہ حضور بعض دینی مصروفیات کی وجہ سے تشریف نہیں لا رہے اس لیے نماز مکرم صوفی غلام محمد صاحبؓ پڑھائیں گے۔ پھر جو فرضی قافلہ تھا وہ 5بجے صبح روانہ ہوا۔ اس میں مکرم صاحبزادہ مرزامنور احمدصاحب اور صاحبزادہ مرزا انس احمد صاحب شامل تھے۔

ربوہ سے ہجرت کے بعد حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ نے بعض امور کے بارے میں مشورہ طلب فرمایا تھا اور اس کے لیے ایک مجلس شوریٰ بھی مقرر فرمائی تھی۔ شوریٰ ستمبر 1984ء کے شروع میں ہوئی۔ مشورہ کسی نمائندہ نے لےکر لندن جانا تھا۔ چنانچہ حضور نے خاکسار کو لندن حاضر ہونے کا ارشاد فرمایا۔ نیز فرمایا کہ 15دن کے لیے تیار ہوکر آجاؤ۔ تاہم عملاً میری واپسی 14ماہ بعد نومبر 1985ء میں ہوئی۔

خاکسار کے لندن پہنچنے کے چنددن بعد حضورؒ نے ارشاد فرمایا کہ یہاں جلسہ سا لا نہ منعقد کرنا ہے لہٰذا آپ کوئی نا م تجویز کریں کہ کون افسر جلسہ ہو۔ چنا نچہ مجلس عاملہ یوکے کا اجلاس بلایاگیا۔ مکرم انور احمد کاہلوں صاحب اس وقت امیر جماعت احمدیہ یوکے تھے۔ مجلس عاملہ نے مشورہ دیا کہ مکرم ہدایت اللہ بنگوی صاحب کو افسر جلسہ مقرر کیا جائے۔ چنا نچہ حضور ؒ نے اس تجویز کو منظور فرمالیااور خاکسا ر کو جلسہ کے کام کے بارہ میں مکرم بنگوی صاحب کی راہنمائی کرنے کی ہدایت فرمائی۔ اپریل 1985ء میں جلسہ منعقد کرنے کا فیصلہ ہوا۔ ساتھ ہی حضور نے ارشاد فرمایا کہ جلسہ کے بعد انٹرنیشنل شوریٰ ہوگی اور اس کے انتظا ما ت کرنے کی خاکسار کو ہدایت فرمائی۔ یہ جلسہ اسلام آباد (ٹلفورڈ) میں منعقد ہوا۔

خاکسارکو نومبر1984ء میں حضور کے ارشاد پر مشن ہاؤسز کے لیے عمارتیں خریدنے کی غرض سے بیلجیم، فرانس اور جرمنی جانے کاموقع ملا۔ درجنوں عمارتیں دیکھ کر فرانس اور بیلجیم کے موجودہ مشن ہاؤسز خریدے گئے۔ جرمنی میں ناصر باغ (گراس گیراؤ) والی جگہ بھی دیکھی گئی لیکن اس کو خریدنے کا فیصلہ تب ہوا جب حضور (دسمبر 1984ء میں)جرمنی تشریف لے گئے۔ اسی دورے میں فرانس میں ہوٹل میں قیام کے دوران حضورؒ کو Friday The Tenth والی رؤیادکھائی گئی۔ فرانس میں ہم چند دوست صبح فجر کی نماز کے بعد ہوٹل سےباہر سیر کے لیے نکل گئے۔ واپسی پر حضور نے دیکھ لیا اور دریافت فرمایا کہ کہاں گئے تھے؟ ہم نے بتایا کہ اس طرح کا علاقہ ہے۔ فرمایا کل میں بھی سیر کے لیے جاؤں گا۔ چنانچہ روزانہ ہم حضور کے ساتھ سیرکے لیے جاتے رہے۔ 31دسمبر1984ء کو لندن واپسی ہوئی۔

لندن میں حضور یکم جنوری 1985ء کو ومبلڈن پارک روڈ پر سیر کے لیے گئے۔ پھر جگہیں بدلتی رہیں۔ پھر ومبلڈن کامن جانے کا معمول بن گیا جو سالہا سال تک جاری رہا۔ چند دن رچمنڈ پارک بھی گئے مگر یہ پارک حضور کو پسند نہ آیا اورفرمایا بہت زیادہ Developedہے۔ (مراد یہ تھی کہ Naturalنہیں ہے۔)

عربوں میں دعوت الی اللہ کی طرف حضورؒ کی بہت توجہ تھی۔ جب خاکسار ستمبر 84ء میں لندن گیا تو اس وقت مکرم مصطفیٰ ثابت صاحب لندن آئے ہوئے تھے۔ انہوں نے عربی زبان میں لٹریچر کی اشاعت اور عربوں میں تبلیغ کا منصوبہ بنایا ہواتھا۔ حضور نے خاکسار کو ارشاد فرمایا کہ ان کے ساتھ مل کر اس منصوبہ کو آخری شکل دوں۔ چنانچہ فائنل منصوبہ مرتب کرکے حضور سے منظوری لی گئی۔ اس منصوبہ کے تحت جو پہلی کتاب چھپی وہ ’’القول الصریح فی ظہور المہدی والمسیح‘‘ (مصنفہ مکرم مولانا نذیر احمد صاحب مبشر)تھی۔ اس منصوبہ کے مطابق مکرم ثابت صاحب یورپ کے ممالک کے علاوہ مراکش اور مصر میں بھی گئے جہاں عربوں کے ساتھ آپ کی نشستیں ہوئیں۔ رقیم پریس اسلام آباد کے قیام میں بھی آپ کا بنیادی کردار تھا اور آپ نے ہی پریس installکروایا۔

1982ء کے جلسہ سالانہ ربوہ کے بعد انٹرنیشنل شوریٰ سرائے فضل عمرربوہ میں منعقد ہوئی تھی۔ بعدہٗ ہر سال بعد از جلسہ ربوہ اور انگلستان میں منعقد ہوتی رہی۔ سوائے خلافت رابعہ کے آخری چند سالوں کے جب حضور بیمار تھے۔ اس شوریٰ کی مفصل رپورٹ تیار کرکے ربوہ اور لندن میں محفوظ کرلی جاتی تھی لیکن شائع نہیں کی جاتی تھی۔

لندن قیام کے دوران جولائی 1985ء میں حضور نے مجھے مغربی افریقہ کے بعض ممالک گیمبیا، سینیگال، سیرالیون، لائبیریا اور آئیوری کوسٹ کے دورہ پر بھجوایا۔ اس کے بعد مشرقی افریقہ کا دورہ ہوا۔ تنزانیہ جانے کا موقع ملا۔ یوگنڈا میں فسادات تھے، جانا ممکن نہ تھا۔ لہٰذا وہاں سے چند دوست کینیا آگئے تھے۔ حضور کا جنوبی افریقہ اور شام جانے کا بھی ارشاد تھا۔ جنوبی افریقہ کا تو ویزا نہ مل سکا اور بعض وجوہات کی بنا پر شام کا دورہ بھی ملتوی کر دیا گیا۔ اس دورہ کے دوران ان ممالک میں جماعت کے تمام ہسپتالوں، تعلیمی اداروں اور مشن ہاؤسز کے مالی اور انتظامی امور دیکھنے کی توفیق ملی۔ نیز جماعتی و ذیلی تنظیموں کی مجالس عاملہ کے ساتھ تفصیلی میٹنگز ہوئیں۔

جنوری 1987ء میں حضورؒ نے خاکسار کو لندن سے ہوکر امریکہ جانے کا ارشاد فرمایا جہاں صد سالہ جوبلی منصوبہ بندی کمیٹی کے اجلاس محترم صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب نائب صدر کمیٹی کی صدارت میں ہو رہے تھے۔

دراصل 1986ء کی انٹرنیشنل مجلس شوریٰ میں صدسالہ جوبلی منصوبہ اور جوبلی منانے کا سوال اٹھا تھا تو بیرون پاکستان نئی کمیٹی مقرر ہوئی تھی جس کا خاکسار کوصدر مقرر کیا گیا۔ مکرم صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب نائب صدر اور مکرم مشتاق احمد شائق صاحب سیکرٹری مقرر کیے گئے۔

امریکہ سے واپسی پر حضور نے مجھے انڈونیشیا کے دورہ پر جانے کا ارشاد فرمایا۔ ایک ماہ کا دورہ تھا۔ پھر انگلستان کے جلسہ سالانہ میں شرکت کے لیے دوبارہ انگلستان گیا۔

1988ء میں حضوؒرکے ارشاد پر جلسہ سالانہ یوکے میں شامل ہوا۔ جلسے کے بعد حضورؒ نے Zaire کا دورہ کرنے کا ارشاد فرمایا۔ چنانچہ ستمبر میں تین ہفتے وہاں گزارے۔ اس وقتMobutuکی حکومت تھی اور غیرملکیوں کے سفر پر بہت پابندیاں تھیں اس لیے کئی جماعتوں میں نہیں جاسکا جو دوسرے صوبوں میں تھیں اور ان صوبوں میں جانے کے لیے الگ ویزا لینا پڑتا تھاجو باوجود کوشش کے نہ مل سکا ۔

1989ء میں بھی انگلستان گیا اور اس دوران حضورؒ کی راہنمائی میں قواعد تحریک جدید اور ذیلی تنظیموں کے نئے دساتیر کا انگریزی ترجمہ کرکے شائع کروانے کی توفیق ملی۔

جلسہ سالانہ قادیان 1990ء پر حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ نے اپنے پیغام میں یہ ذکر فرمایا کہ اگلے جلسہ پر آپؒ قادیان آنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ فروری 1991ء میں حضور نے جلسہ سالانہ قادیان 1991ء (جو صد سالہ جلسہ بھی تھا)کے انتظامات کے لیے خاکسار کی زیرصدارت ایک کمیٹی مقرر فرمائی اور بعدازاں خاکسار کو افسر رابطہ جلسہ سالانہ مقرر فرمایا۔ چنانچہ اس جلسہ کے انتظامات کے سلسلہ میں خاکسار کو اُس سال 4مرتبہ بھارت جانے کا موقع ملا۔ اسی طرح 1992ء اور 1993ءکے جلسوں کے انتظامات کی نگرانی بھی خاکسار کے سپرد تھی۔ اس کے بعد حضورؒ نے جلسہ سالانہ کے انتظامات مقامی لوگوں کے سپرد کر دیے۔

حضورؒ کے ارشاد پر 25؍اکتوبر تا17نومبر 1994ء بنگلہ دیش کا دورہ کیا۔

1997ء کے جلسہ سالانہ یوکے میں شمولیت کی۔

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ کی علالت کے پیش نظر مکرم صاحبزادہ مرزا خورشید احمد صاحب اور خاکسار 10؍ستمبر تا 17؍اکتوبر 1999ء لندن گئے۔ اس دوران حضورؒ نے ہم دونوں سے انتخاب خلافت کے قواعد پر نظر ثانی کا کام لیا۔ جب ہم اس کام سے فارغ ہوکرپاکستان آنے لگے تو حضورؒ نے فرمایا الٰہی تقدیر آپ کو یہاں لےکر آئی ہے۔ نیز فرمایا: خدا نے مجھے بتایا ہے کہ ابھی میرا وقت باقی ہے۔

جلسہ سالانہ کینیڈا 2000ء میں حضورؒ کے نمائندہ کی حیثیت سے شرکت کی۔ خاکسار کی اہلیہ محترمہ رضیہ خانم صاحبہ بھی ہمراہ تھیں۔ بیرونِ پاکستان میرے جن سفر وں میں میری اہلیہ ساتھ گئیں وہ اپنے خرچ پر ہی گئی ہیں۔ دورۂ کینیڈا سے واپسی پر لندن آکر جب حضور ؒ سے ملاتو حضوؒر نے فرمایا کہ مجھے آپ کی تقریروں کے متعلق بہت لوگوں کے خطوط ملے ہیں آپ نے میری نمائندگی کا حق ادا کر دیا ہے۔

نومبر 2000ء میں حضورؒ کی علالت کے باعث خاکسار بحیثیت وکیل اعلیٰ اور مکرم صاحبزادہ مرزا مسرور احمد صاحب بحیثیت ناظر اعلیٰ چند روز کے لیے لندن گئے۔

19؍اپریل 2003ء کی دوپہر خاکسار ایک دعوتِ ولیمہ میں شریک تھا جب پیغام آیا کہ علیا کمیٹی کی میٹنگ ہے۔ شام کے تین بجے تھے۔ چنانچہ فوراً صدر انجمن احمدیہ کے گیسٹ ہاؤس پہنچا۔ چند دوست وہاں موجود تھے۔ تھوڑی دیر بعدحضرت صاحبزادہ مرزا مسرور احمد صاحب تشریف لائے اور بتایا کہ حضورؒ کی وفات ہوگئی ہے۔ حضور کی وفات کا اعلان مکرم سیّد عبدالحئی شاہ صاحب نے ڈرافٹ کیا۔ اس دوران انتخاب خلافت کے قواعد دیکھنے کا سوال اُٹھا جو میرے دفتر میں موجود تھے۔ چنانچہ سب وکیل اعلیٰ کے دفتر میں آگئے۔ وکالت تبشیر کے ذریعے اسی رات اور اگلے دن کی خلافت کمیٹی کے ممبران کی جہاز کی سیٹیں بُک ہوگئیں۔

22؍اپریل کو انتخا ب خلافت کا اجلاس بعد از نما ز عشاء مسجد فضل میں منعقد ہوا۔ جب سب ممبران مسجد میں پہنچ گئے تو سیکرٹری مجلس انتخا ب خلافت نے خا کسار سے کہا کہ صدرانجمن کے نا ظران اور تحریک جدیدکے وکلا ء میں سے سب سے سینئر ہو نے کی وجہ سے اجلاس کی صدا رت کروں، جب انتخا ب ہوگیا تو بھا ری اکثریت حضرت صا حبزا دہ مرزا مسرور احمد صاحب کے حق میں تھی۔ انتخاب کے بعد خاکسارحضرت مرزا مسرور احمد صاحب خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پاس گیا جو اس وقت سب سے آخر میں تشریف رکھے ہوئے تھے تاکہ آپ کو سٹیج پر تشریف لانے کی درخواست کرسکوں۔ اس موقع پر حضور نے خاکسارسے فرمایا کہ’کی امعذرت کی گنجائش ہے؟‘ اس پر خاکسار نے کہا کہ ’نہیں‘ اور آپ کے ساتھ سٹیج پر آگیا۔ سٹیج پر پہنچ کر مَیں نے کر سی پر بیٹھنے کی در خواست کی لیکن آپ نے کھڑے رہنا ہی پسند فرمایا۔ چنا نچہ آ پ کی خدمت میں میں نے وہ عہد پیش کیا جو منتخب خلیفہ بیعت لینے سے پہلے کرتا ہے۔ آپ نے بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم، نحمدہٗ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم پڑھنے کے بعد اس عہد کو پڑھا۔ پھر سب سے پہلے آپ نے تشہد، تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کی۔ سورہ فاتحہ کی تلاوت کے دوران آپ نے

اِھْدِنَاالصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ

کے الفاظ تین مرتبہ دہرائے۔ بعد ازاں فرمایا:

’’آج جس کام کے لیے مجھے لایا گیا ہے قطعاًاس کا علم نہیں۔ حضرت خلیفۃالمسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کے علم وعرفان کو آپ سنتے رہے، دیکھتے رہے۔ خاکسار میں تو کسی بھی قسم کا علم نہیں ہے۔ بہرحال یہاں کیونکہ قواعد میں کسی قسم کی معذرت کی اجازت نہیں اس لیے خاموشی سے اس کو قبول کرنے کے سوا چارہ نہیں۔ آپ لوگوں سے یہ درخواست ہے کہ اگر خدا کو حاضر ناظر جان کر اس یقین کے ساتھ کہ خاکسار یہ فریضہ ادا کرسکتا ہے خاکسار کو اس مقصد کے لیے اس کام کے لیے مقرر کیا ہے تو آپ سے درخواست ہے میری مدد فرمائیں دعاؤں کے ذریعے۔ نہایت عاجز انسان ہوں۔ دعاؤں کے بغیر یہ سلسلہ چلنے والا نہیں۔ اللہ تعالیٰ مجھے بھی توفیق دے کہ آپ لوگوں کے لیے دعا کر سکوں۔ جو عہد ابھی کیا ہے اس پر پورا اتر سکوں اور آپ لوگوں سے بھی درخواست ہے کہ دعاؤں سے، دعاؤں سے، بہت دعاؤں سے میری مدد کریں۔ اب حضرت خلیفۃ المسیح الرابع کے الفاظ میں ہی ایک فقرہ اَور کہتا ہوں کہ میری گردن اب خداتعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔براہ راست خداتعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔ اللہ تعالیٰ مجھے محض اور محض اپنے فضل سے ان کاموں کو کرنے کی توفیق عطا فرمائے جو اس کی رضا کے کام ہوں۔ آمین‘‘

اس کے بعد آپ کو بیعت کا مضمون پیش کیا گیا اور آپ نے بیٹھ کر بیعت لی اور پھر دعا کروائی۔ دعا کے بعد سب ممبرانِ انتخابِ خلافت کو مصافحہ اور معانقہ کا شرف بخشا۔

خلافتِ خامسہ کے انتخاب کے مذکورہ بالا ایمان افروز واقعہ کے ساتھ ہی محترم چودھری صاحب نے اپنی خودنوشت کا اختتام کیا ہے۔ کتاب کی اشاعت سے قبل اس میں ایک باب ’’تأثرات‘‘ کا اضافہ کیا گیا جس میں آپ کی وفات پر سیّدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ خطبہ جمعہ کے بعد آپ کی اہلیہ محترمہ اور بچوں کے مضامین شامل کیے گئے ہیں۔

محترمہ رضیہ خانم صاحبہ اہلیہ مکرم محترم چودھری حمیداللہ صاحب مرحوم بیان کرتی ہیں کہ ہماری شادی 1960ء میں ہوئی۔ چودھری صاحب کا اصول تھا کہ اپنی آمد گھر لانے سے پہلے ہی اس پر چندہ ادا کردیتے تھے اور مجھے بھی انہوں نے یہی تلقین کی کہ اس سے گھر کے اخراجات میں برکت پیدا ہوجائے گی اوراللہ کے فضل سےایسا ہی ہوا۔ شادی کے دو سال بعد مجھے نظام وصیت میں شامل ہونے کی تلقین کی جس پر میں نے وصیت کرلی۔ شادی کے بعد میں نے سوچا اتنی تھوڑی تنخواہ میں ہمارا گزر بسر کیسے ہوگا لیکن اللہ کے فضل سے دن بڑے آرام سے گزرتے گئے۔ چودھری صاحب نے والدین کو ان کا حق دیا، مجھے میرا حق دیا۔ آمد کے مطابق خرچ کیا اور اسی طرح وقت اللہ کے فضل سےگزرتا گیا۔ بچے پیدا ہوئے تو دل و جان سے ان کی تربیت کے لیے کوشش کرتے رہے۔ بچوں کو کبھی جھڑک کے اور ناگوار الفاظ میں تنبیہ نہیں کی۔ جماعتی کام بھی کرتے رہے اور ساتھ ساتھ بچوں کی تعلیم و تربیت میں بھی مدد کرتے رہے۔

شادی کے شروع کے کچھ سال سسرال کے ساتھ رہی پھر اپنا گھر خرید لیا۔ جب ہم نے دیکھنا شروع کیا کہ کوئی پلاٹ یا کوئی چھوٹا سا گھر مل جائے تو ایک پلاٹ دارالعلوم میں دیکھا۔ لیکن جب بیچنے والے نے بتایا کہ ایک بیوہ عورت بھی اس پلاٹ کو خریدنے میں دلچسپی رکھتی ہے تو چودھری صاحب فوراً پیچھے ہٹ گئے کہ اس بیوہ عورت کو یہ زمین دے دو۔ اور پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے ریلوے روڈ کے ساتھ دو کمروں کا ایک گھر عطا فرما دیا جس کی قیمت تین ہزار روپے تھی۔ ان تین ہزار روپوں میں میری شادی کی سلامیاں بھی شامل تھیں۔

حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ کے ارشاد پر جب چودھری صاحب انگلینڈ گئے اور 14ماہ وہاں رہے۔ تو حضورؒ نے مجھے ایک خط کےجواب میں لکھا کہ چودھری صاحب مہمات دینیہ میں مصروف ہیں، آپ ان کے وقف کے ثواب میں برابر کی شریک ہیں، میں جلد چودھری صاحب کو واپس بھیج دوں گا۔

خلافت کے ساتھ آپ کو دلی محبت تھی۔ ہمیشہ پوری فرمانبرداری، عاجزی اور انکساری کا اظہار کرتے اور خلفائے وقت کی دعائیں اور محبت لیتے۔ مجھے اور بچوں کو بھی ہمیشہ تلقین کرتے کہ کوئی بھی مسئلہ ہو تو خلیفۂ وقت کو دعا کے لیے لکھو تو وہ حل ہو جاتا ہے۔

میرے ساتھ حسن سلوک کا یہ عالم تھا کہ گھر میں جو چیز آتی پہلے مجھے دیتے اور میرے ہاتھ سے ہی بچوں کو دلواتے۔ شادی کی سالگرہ کا دن بھی ہمیشہ یاد رکھتے اور مجھے بھی یاد کرواتے کہ آج ہماری شادی کا دن ہے اور اس موقع پر ضرور مجھے کوئی نہ کوئی تحفہ دیتے۔ ماہانہ الاؤنس لاکے مجھے دے دیتے۔ کھانے یا پہننے کے حوالہ سے اپنی ذات کے لیے کسی قسم کا مطالبہ نہیں کرتے تھے۔ جو کپڑے میں لا دیتی پہن لیتے، جو پکا دیتی وہ چپ کرکے کھا لیتے تھے۔ میٹنگ وغیرہ سے رات کو دیر سے واپسی ہونی ہوتی تو جاتے ہوئے یہ کہہ جاتے تھے کہ تم کھانا بنا کے رکھ دینا، مَیں جب آؤں گا خود ہی گرم کر کےکھا لوں گا۔ اس قدر شفقت اور حسن سلوک فرماتے کہ میں بیان نہیں کرسکتی۔ میں نے ان کے ساتھ 61 سال گزارے لیکن کسی ایک دن کے بارہ میں بھی نہیں کہہ سکتی کہ ان کے حسن سلوک اور شفقت میں کوئی کمی آئی ہو یا ان کی طرف سے کسی بھی حوالہ سے تنگی اور تکلیف کا سامنا کرنا پڑا ہو۔

ایک دفعہ میں بہت بیمارہو گئی اور دس دن طاہر ہارٹ میں داخل رہی۔ آپ رات وہیں سو جاتے اور جب میں رات کو اٹھتی تو میرے ساتھ جاگ جاتے اور میرا خیال رکھتے۔ شادی کے بعد ابھی بچے چھوٹے تھے کہ مجھے گلے کے آپریشن کےسلسلہ میں لاہور ہسپتال میں داخل ہونا پڑا۔ وہاں رہائش کا انتظام نہیں تھا تو رات وہیں زمین پر ہی کچھ بچھا کے سو جاتے تھے۔ کبھی شکایت نہیں کی کہ میں نیچے نہیں سو سکتا بلکہ میری بہت خدمت کی۔

آپ کا اپنے والدین سے بھی بہت محبت اور اطاعت کا سلوک تھا۔ عام حالات میں بھی ان کی تمام ضروریات کا خیال رکھتے اور بیماری کے وقت خاص طور پر خیال رکھتے۔ آپ کے والد کے دو آپریشن ہوئے ایک پراسٹیٹ کا اور دوسرا آنکھ کے موتیا کا۔ ہر دو موقعوں پر ان کے ساتھ ہسپتال میں رہے اور رات ان کے کمرے میں فرش پہ سو جاتے تھے۔

اسی طرح ان کی والدہ بھی آخری بیماری میں ہمارے پاس تھیں ان کا بھی بہت خیال رکھتے۔ اپنی والدہ سے آپ کو بہت محبت تھی۔ آپ کی والدہ کی وفات کے بعد میں نے دیکھا کہ آپ نے ان کا پراندہ اپنے کپڑوں والے صندوق میں رکھا ہوا تھا۔ بہنوں میں سے بھی کوئی بیمار ہوتی تو ان کے لیے بہت فکر مند ہوتے۔ اسی طرح ان کے بڑے بھائی اپنی آخری عمر میں جب بیمار ہوئے تو ان کی بھی بہت فکر کرتے اور باقاعدگی سے ان کے لیے حضور انور کی خدمت میں دعا کے لیے خط لکھتے۔ رشتہ داروں سے حسن سلوک کرتے۔ تکلیف اور ضرورت میں ان کی مدد کرتے۔ ان کی ایک بہن ربوہ میں تھیں ہر جمعرات کو ان سے ملنے ان کے گھرجاتے۔

آپ تہجدگزار تھے۔ نمازیں پوری پابندی سے بڑے اہتمام کے ساتھ مسجد جا کر باجماعت ادا کیا کرتے تھے۔ آخری دم تک نمازیں اپنے وقت پر ادا کرتے رہے۔ انہیں دیکھ کے مجھے بھی تہجد اور نمازوں کی پابندی کی عادت ہوگئی۔ بچوں کی شادیوں کے بعد میں نے ان سے ترجمة القرآن بھی سیکھنا شروع کیا تھا۔

آپ بیماروں کی مزاج پرسی کرتے۔ عیادت کے لیے ہسپتال بھی جاتے۔ شہداء ، واقفین اور کارکنان کے جنازوں میں ضرور شامل ہوتے، تدفین کے لیے ساتھ جاتے اور دعا میں شامل ہوتے۔

آپ بہت کم گو تھے، صرف ضروری بات ہی کرتے تھے۔ فالتو باتیں آپ نے کبھی مجھ سے بھی نہیں کیں۔ کبھی کسی کی برائی نہ کرتے، کسی سے ناراض نہ ہوتے، کسی کے متعلق دل میں بات نہ رکھتے۔ انتہائی ستاری والی طبیعت تھی۔ آپ ایک فرمانبردار بیٹے، ایک شفیق خاوند اور شفیق باپ تھے۔ اپنے بچوں سے اور ان کے بچوں سے بھی بہت پیار کرتے تھے۔

محترم چودھری صاحب کے بچے بیان کرتے ہیں کہ اباجان ہمیشہ دوباتوں پر زور دیتے کہ نمازیں اور خلیفۂ وقت کا خطبہ کسی بھی صورت میں مِس نہیں کرنا چاہیےاور حضور نے جو ارشادات فرمائے ہیں ان پر بھرپور عمل کر نا چاہیے۔ اباجان تبلیغ کی اہمیت کو بیان کرتے۔ فرماتے تھے کہ اپنے عمل سے دوسروں پر ثابت کرو کہ تم اُن کے خیر خواہ ہو اور انہیں یہ محسوس ہو کہ یہ شخص ہماری عزت بھی کرتا ہےاور ہم سے محبت بھی کرتا ہے۔ تمہارا عمل ہی تبلیغ کی راہ ہموار کرنے کا ذریعہ بنے گا۔ آپ اکثر کہتے کہ اگر کوئی سمجھتا ہے کہ تبلیغ کے لیے اس کی تعلیم میں کوئی کمی رہ گئی ہے تو اسے حضرت مسیح موعودؑکی تصنیفات کو اپنے مطالعہ میں رکھنا چاہیے۔ آپ نے تمام زندگی اس بات کو خود بھی اپنایا ہے۔آپ بلاناغہ سونے سے پہلے حضرت مسیح موعودؑ کی کتب کا مطالعہ فرماتے تھے۔ آپ فجر کی نماز کے بعد قرآن شریف کی تلاوت کرتے اور اس کے ترجمہ اور تفسیر کو بھی روزانہ مطالعہ میں لاتے۔

اباجان اردو زبان سیکھنے کی طرف بھرپور توجہ دلاتے تھے اور کہتے کہ اردو زبان حضرت مسیح موعودؑ کی زبان ہے۔ جو قومیں جتنی جلدی حضرت مسیح موعود ؑکی زبان سیکھیں گی وہ اتنی جلدی آپؑ کے پیغام کو سمجھیں گی اور آگے نکل جائیں گی۔

جماعت میں ان کی نگاہ ہمیشہ سلسلہ کے ان بزرگوں پر رہتی جنہوں نے جماعت کے لیے قربانیاں دیں۔ کتاب ’’بخارا سے تاشقند تک‘‘ مجھے لاکر دی جو مولانا ظہور حسین صاحب کے روس میں سفر تبلیغ کے متعلق ہے کہ کس طرح انہوں نے جیل کی صعوبتیں برداشت کرکے روس میں احمدیت کا بیج بویا۔ ہمیں بتاتے تھے کہ ابتدائی واقفین زندگی نے بہت قربانیاں دی ہیں۔ ان کے بچے چھوٹے چھوٹے ہوتے تھے جب وہ تبلیغ کے لیے بیرونی ممالک جاتے تھے اور جب وہ واپس آتے تھے تب تک ان کے بچے جوان ہوچکے ہوتے تھے۔ غرض اس بات کو ہمیشہ یاد رکھتے تھے کہ ہمارے بزرگوں کی قربانیوں کے نتیجہ میں ہم آسائش میں رہ رہے ہیں۔

رمضان میں لمبی تہجد پڑھتے اور اذان سے دس منٹ پہلے سحری کرتے۔ پیسے کا ضیاع پسند نہیں کرتے تھے۔ اکثر کہتے تھے کہ تمہارے دادا جان نے ہمیشہ ہمیں نصیحت کی کہ پیٹ سے ادھار کرلینا مگر کسی اَور سے ادھار نہ کرنا۔

وہ بتاتے تھے کہ میں جب دارالضیافت کا ناظر تھا مجھے یہ بھی پتہ تھا کہ ایک بوری آٹے میں کتنے پیڑے بنتے ہیں۔

وہ کہا کرتے تھے حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں کہ یہ زندگی آگ کا دریا ہے اور ہر ایک نے اپنی کشتی خود بنانی ہے۔ یعنی کسی دوسرے عزیز کی خدمت اُس کے کام نہیں آئے گی۔

پیرسراج الحق نعمانی صاحب نے ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے پوچھا کہ کوئی وظیفہ بتائیں تو حضورؑ نے فرمایا کہ ہر نماز کے بعد 11 دفعہ درود ابراہیمی، 11 دفعہ لاحول ولا قوۃ الا باللّٰہ العلی العظیم، 11 دفعہ استغفر اللہ ربی من کل ذنب واتوب علیہ، 11 دفعہ یاحفیظ یا عزیز یا رفیق یا حیی یا قیوم برحمتک نستغیث پڑھا کرو۔ پھر یہ بھی بتایا کہ یاحفیظ یا عزیز والی دعا سجدے میں بھی کر سکتے ہیں۔

آپ نہایت شفیق اورمہربان باپ تھے اور ہمارے دوست بھی تھے۔ باوجود ان کے رعب کے ہم تینوں بچےان سے گپ شپ اور ہر بات شیئر کر لیتے تھے۔ لیکن ان کا رعب ایسا تھا کہ کوئی بھی کام کرنے سے پہلے ہمیں تینوں بچوں کو ڈر ہوتا تھا کہ یہ بات ان کو ناراض نہ کر دے۔

آپ نے ہمیں بہت لمبی تقریریں کر کے کبھی نہیں سمجھایا۔ جب بھی نصیحت کرتے بہت نرمی سے غیرمحسوس طریقے سے کرتے۔ سب سے زیادہ جو آپ کا تربیت کا طریقہ تھا وہ ذاتی عمل تھا۔ آپ کا خاموش طرز عمل تھا جو دوسروں کے لیے با عث تربیت ہوتا تھا۔مثال کے طور پہ آپ کاصبح فجر کے لیے اٹھنا اور بہت نرمی سے اور پیار سے فجر کی نماز کے لیے اٹھانا۔ ہمیشہ مسجد جانے سے پہلے اٹھاتے اور اگر کبھی آنکھ نہ کھلتی تو مسجد سے واپس آکے پیار اور فکر بھری آواز میں کہتے کہ جلدی سے پڑھ لو ابھی بھی وقت ہے۔ تہجد میں لمبے سجود و قیام اور تکرار کے ساتھ ’’اے قادرو توانا آفات سے بچانا‘‘ یاد ہے۔ میں نے جب بھی آپ کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھا بہت آرام سے اور ڈوب کر نماز پڑھتے ہوئے دیکھا۔ ہمیشہ مسجد میں نماز پڑھتے تھے۔

خرچ کے بارے میں یہ بھی بتایا کرتے تھے کہ بانٹنے سے رزق اور نعمتیں بڑھتی ہیں جیسے ایک ندی کا بہاؤ جاری رہنے سے پانی خوشگوار رہتا ہے اور کھڑے ہوئے پانی میں بدبو پیدا ہو جاتی ہے اس طرح running میں رہنے سے پیسہ اور نعمتیں آتی رہتی ہیں اور پھر خلیفة المسیح الاول ؓ کا کمبلوں والا واقعہ بھی سناتے تھے۔

جس زمانے میں ابو ناظر ضیافت تھے مسجد مبارک میں فجر کی نماز پڑھتے تھے اور واپسی پر دارالضیافت سے ہوکر آتے اور دن کی پلاننگ کرتے۔ جب ابو کو ناظر ضیافت کی خدمت ملی تو وہ پہلے دن ہی فجر کے بعد دارالضیافت چلے گئے۔سب سے پہلے آپ نے یہ انتظام کیا کہ کھانا کسی صورت ضائع نہیں ہونا چاہیے۔ اس کے لیے آپ نے مختلف پیمانے بنوا ئے کہ ایک آدمی کتنی روٹی اور کتنے چاول کھاتا ہے۔ اسی طرح آپ نے ہدایت جاری کی کہ آدھی رات کو بھی کوئی مہمان آئے تو اس کے استقبال کے لیے بندہ ڈیوٹی پہ موجود ہونا چاہیے۔

جہاں تربیت کی بات ہوتی وہاں ہمیں ان کی آواز کی ٹون سے ہی پتا چل جاتا تھا کہ یہ ان کے لیے ناپسندیدہ بات ہے۔ ایک دفعہ شادی کے بعد میں نے اپنے سسرال کی کوئی بات کی تو انہوں نے کہا کہ جیسے اپنی فیملی کا پردہ رکھتی ہو ان کا بھی رکھو اور مجھے دوبارہ ہمت نہیں ہوئی کہ ان کے سامنے اس طرح کی کوئی بات کروں۔ غیبت، چغلی، بد ظنی، حسد آپ کی شخصیت کا حصہ نہیں تھیں۔ آپ خاموش طبع، نیک مزاج اور بےنفس انسان تھے۔ستاری، نرمی، پردہ پوشی اور محنت آپ کی ذات کا حصہ تھیں۔ ساری عمرمیں نے کبھی محسوس نہیں کیا کہ آپ کے دل میں کسی کے لیے غصہ ہے۔ ایک دفعہ کسی نے آپ سےکہا کہ فلاں مبلغ تو لوکل زبان میں خطبہ دیتا ہے حالانکہ بعد میں آیا ہے اور فلاں نہیں دیتا حالانکہ پہلے آیا ہےتو آپ نے کہا ہاں وہ چھوٹی عمر کا ہے۔انسان چھوٹی عمر میں زبان جلدی سیکھ لیتا ہے اور دوسرا عمر میں بڑا ہے وقت لگتا ہے زبان سیکھنے میں۔ اسی طرح ہر بات کا بہت مثبت جواب دیتے۔

حضرت خلیفة المسیح الربعؒ نےآپ کو خلافت سے پہلے اپنے ایک خط میں لکھا تھا ’’اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایسی آنکھ عطا فرمائی ہے جو دنیا کی ظاہری چمک دمک سے متاثر نہیں ہوتی اور تہ تک پہنچ کر حقیقت حال کی جستجو کرتی ہے۔‘‘

آپ کی دو بہنیں جوانی میں بیوہ ہو گئی تھیں۔ اُن کے بچوں کی تعلیم، شادیوں کے معا ملات اور دیگر سب مسائل میں آپ نے اُن کے والد کی کمی محسوس نہیں ہونے دی۔

آپ کے اندر خلافت سے اطاعت اور محبت کوٹ کوٹ کے بھری ہوئی تھی۔ آپ کو سب سے پیار تھا لیکن حضرت خلیفة المسیح الثالث ؒسے آپ کو خاص محبت تھی۔ جب بھی آپ ان کا ذکر کرتے آپ کی آواز بھر اجاتی تھی۔ بچپن میں آپ حضورؒ کی خلافت سے پہلے جلسوں وغیرہ کے موقع پہ ڈیوٹیز بھی دیتے رہے۔ پھر تعلیم الاسلام کالج کے سٹاف میں بھی حضورؒ کے ساتھ رہے۔اُس وقت آپ کی عمر 23 سال تھی۔ ایک دفعہ کسی گاؤں کا وڈیرا اپنا بڑی عمر کا بیٹا لے کر آیا کہ اس کو کالج میں داخلہ دے دیں۔ اس پر حضورؒ نے آپ کو بلایا اور ان کو کہا کہ ہمارے کالج میں تو پروفیسر بھی اتنی چھوٹی عمر کےہیں۔

جب آپ کی والدہ کی وفات ہوئی تو حضرت خلیفة المسیح الثالثؒ نے جنازہ پڑھانے کے بعد جنازے کو کندھا بھی دیا۔ یہ واقعہ سناتے ہوئے بھی آپ کی آنکھیں نم ہو جاتیں۔

1973ء کے جلسہ سالانہ پر حضرت خلیفة المسیح الثالثؒ ناظمین جلسہ کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھا رہے تھے جبکہ آپ دیگر انتظامات میں مصروف تھےتب حضور نے آپ سے فرمایا کہ آپ میرے پیالے میں میرے ساتھ کھانا کھا لیں جس پر آپ نے دو تین لقمے حضور کے پیالے میں سے لیے۔

قارئین محترم! الغرض ’’میرا سفرِ زندگی‘‘ ایک ایسے وجود کی داستانِ حیات ہے جس نے خدمت دین کو اپنی زندگی کا نصب العین قرار دے کر اس کی خاطر اعلیٰ درجے کی قربانی کی توفیق بھی پائی۔ یہ ایک ایسے سلطان نصیر کی زندگی کا سفرنامہ ہے جس کی وفا، اخلاص اور خلافت کا شیدائی ہونے پر چار خلفائے کرام نے اپنی رضا کی مُہر تصدیق لگائی ہے۔ اس کتاب کے قارئین پر آپ کی زندگی کے انداز و اطوار اس اس طرح سے اثرانداز ہوتے ہیں کہ اُن کی خوبیوں پر رشک کرنے کے ساتھ ساتھ ان کو اپنانے کی خواہش بھی پیدا ہوتی ہے جو محترم چودھری صاحب کی زندگی کا جزولاینفک تھیں۔

اللہ تعالیٰ آپ کی ہر خدمت اور دعا کو قبول فرمائے اور واقفین زندگی اور خدام دین کو بھی آپ کی خوبیاں اپنانے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button