پرسیکیوشن رپورٹس

اسلامی جمہوریہ پاکستان میں احمدیوں پر ہونے والے دردناک مظالم کی الَم انگیز داستان

(مرتبہ: مطہر احمد طاہر۔ جرمنی)

نومبر2020ء میں سامنےآنے والے چند تکلیف دہ واقعات سے انتخاب

سکول کے ایک سابق استاد نے وہاں کی انتظامیہ سے پوچھا تو انہیں بتایا گیا کہ وہ لڑکی کو اس لیے داخلہ نہیں دے رہے کیونکہ وہ ’’قادیانی‘‘ ہے

قتل پر اکسایا

لاہور (نومبر 2020ء): صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور کی ایک مرکزی شاہراہ پر ایک بڑا اشتہاری بورڈ آویزاں کیا گیا جس میں توہین مذہب کے ملزمان کو قتل کردینے پر ابھارا گیا تھا۔

اس تصویر کو سوشل میڈیا سے ڈاؤن لوڈ کیا گیا جس پر دیے جانے والے نعرہ کچھ اس طرح سے ہے:

’’گستاخ رسول کی ایک سزا،

سر تن سے جدا سر تن سے جدا‘‘

اس نعرے کے حوالے سے مندرجہ ذیل نکات اہم ہیں

1۔ یہاں تجویز کی گئی سزا کا تصور قرآن کریم سے ثابت ہے نہ حدیث سے۔

2۔ یہ سزا اگر دے گا تو کون دے گا، اس کی بابت یہ اشتہار خاموش ہے۔ کیا پڑھنے والا خود سے ایسا قدم اٹھا سکتا ہے؟

3۔ یہاں ’’گستاخی‘‘ کی کوئی تعریف یا حد بندی نہیں کی گئی۔ بس ’’گستاخ‘‘ کو قتل کردینے پر زور دیا گیا ہے۔

4۔ یہاں ’’گستاخ‘‘ کی سزا کا طریقہ بھی تجویز کیا گیا ہے اور وہ ہے سر کو تن سے جدا کردینا۔

5۔ یہ اشتہار اس بورڈ پر آویزاں رہا اور متعلقہ حکام کا اس کے خلاف بروقت قانون کے مطابق کارروائی نہ کرنا بہت سے سوالوں کو جنم دے رہا ہے؟

6۔ شہر کی مرکزی شاہراہ پر اس پیغام کو یوں آویزاں لگے رہنے سے حکومت پنجاب کی کارکردگی پر سوال اٹھتا ہے کہ آخر کیوں ارباب اختیار اس بورڈ کے خلاف بروقت اقدام اٹھانے سے گریزاں ہیں۔

7۔ یہ اشتہاری بورڈ ہال روڈ کے آغاز پر مال روڈ پر آویزاں کیا گیا ہے۔

8۔ قائد آباد میں سیکیورٹی گارڈ کے ہاتھوں بینک مینیجر اور ننکانہ میں ایک احمدی کا قتل اس نعرے میں مضمر نفرت اور تشدد کا واضح ثبوت ہے۔

9۔ احمدی طلباء کو سکول سے نکال دیا گیا

چک 75/22 سید والا، ضلع ننکانہ (نومبر 2020ء): اس علاقے کی اہل سنت والجماعت کی مسجد میں ایک نئے امام حافظ حیدر علی کا تقرر ہوا۔ اس نے خطبوں میں احمدیوں کے خلاف نفرت آمیز زبان کا استعمال کیا۔ یہ ملا علاقے کے نوجوانوں کو اہل تشیع اور احمدیوں کے خلاف نفرت پر ابھارتا ہے۔

اس کو بعد میں ایک مقامی تعلیمی ادارے نصیر ملت سکول نے ملازمت پر رکھا جہاں اس نے پرنسپل کو احمدی طلباء کو سکول سے نکالنے پر اکسایا۔ اس پر پرنسپل نے ایک مقامی سینئر احمدی نذیر احمد کو بلا کر کہا کہ احمدی طلباء کو سکول میں مزید نہیں رکھا جاسکتا، اس لیے بہتر ہے کہ وہ کہیں اور چلے جائیں۔

چنانچہ نو(9) احمدی طلباء کو اپنے لیے نئے سکول تلاش کرنا پڑی۔

اسلام آباد کےسکول میں داخلہ سے انکار!

گلشنِ صحت، اسلام آباد (نومبر 2020ء): ایک احمدی بچی رمشا بنت محمد پرویز آٹھویں جماعت کے امتحانات پاس کرکے نویں جماعت میں داخلہ لینے کے لیے گورنمنٹ اسلام آباد ماڈل سکول گئی تو سکول انتظامیہ نے انہیں داخلہ دینے سے انکار کردیا۔ اس نے ایک بار پھر وہاں جا کر داخلہ لینا چاہا مگر انہیں پھر واپس بھجوا دیا گیا۔

جب اسی سکول کے ایک سابق استاد نے وہاں کی انتظامیہ سے اس بابت پوچھا تو انہیں بتایا گیا کہ وہ لڑکی کو اس لیے داخلہ نہیں دے رہے کیونکہ وہ ’’قادیانی‘‘ ہے۔

چنانچہ اس واقعہ کے بعد اس بچی کو ایک پرائیویٹ سکول میں داخلہ لینا پڑا۔

احمدی استاد کو سکول میں مخالفت کا سامنا!

جلال پور سیداں، ضلع خوشاب (نومبر 2020ء): رفیع احمد اس علاقے کے سرکاری سکول میں ایک استاد ہیں اور وقتاً فوقتاًیہاں قائم مقام ہیڈ ماسٹر کے فرائض بھی انجام دیتے رہے ہیں۔ آپ کا تعلق جماعت احمدیہ سے ہے۔ دو سال قبل، اس سکول میں ایک نئےہیڈ ماسٹر کا تقرر ہوا جس کا تعلق عثمانی فرقہ سے ہے۔ اسی طرح تین اَور اساتذہ کا تعلق اہل حدیث کی جماعت سے ہے جبکہ دو اساتذہ انتہاپسند جماعت تحریک لبیک سے تعلق رکھتے ہیں۔ گذشتہ کچھ عرصے سے ان اساتذہ نے باہمی گٹھ جوڑ کر کے سکول کے واحد احمدی استاد کے خلاف مخالفت کی مہم چلا ر کھی ہے۔

16؍اکتوبر 2020ء کو سکول میں چاول پکائے گئےاور رفیع احمد کو سابقہ طریق کے برخلاف علیحدہ برتن میں دیے گئے۔ بعض اساتذہ کے مطابق، اس مرتبہ وہ ’’ربیع الاول‘‘ صاف ستھرا منانا چاہتے ہیں۔ علاوہ ازیں، سکول کے ہیڈ ماسٹر کا رویہ بھی احمدی استاد کے لیے انتہائی حقارت آمیز ہوگیا۔

ایک موقع پر رفیع احمد اپنی کلاس کے لیے لیکچر تیار کررہے تھے جب ہیڈ ماسٹر نے سکول کے باقی اساتذہ کو اکٹھا کرکے ایک تحریری قرار داد پاس کی جس کے مطابق اس قادیانی استاد کا بائیکاٹ کیا جائے اور اس کو سکول سے نکال دیا جائے۔ اس قرار داد کے بعد انہوں نے آپ کے خلاف دعا بھی کی۔ یہاں پر ایک آواز آپ کے حق میں بھی اٹھی اور پوچھا گیا کہ رفیع احمد تو یہاں کئی برسوں سے ہمارے ساتھ ہے، کبھی کچھ نہیں ہوا تو آخر اب کیا مسئلہ ہے؟

اس صورت حال میں رفیع احمد نے اپنے ضلع کے ایجوکیشن آفیسر سے ملاقات کی جس نے سکول ہیڈ ماسٹر کو فون کرکے معاملے کا حل نکالنے کو کہا۔ تاہم ان کا مقاطعہ جاری رہا، باقی اساتذہ ان سے گریزاں رہے اور نتیجۃً انہیں تن تنہا بیٹھنا پڑتارہا۔ علاوہ ازیں، انہیں قبل از وقت ٹرانسفر کی دھمکیاں بھی دی گئیں۔

اس کے بعد علاقے کا ایک بااثر شخص سکول میں آیا جس نے احمدی استاد کو ہیڈ ماسٹر کے پاس لے جا کر ہیڈ ماسٹر سے کہا کہ یہ آپ سب سے عمر اور تجربہ میں بڑے ہیں اس لیے آپ کو ان کا احترام کرنا چاہیے۔ اس شخص نے ہیڈ ماسٹر اور رفیع احمد کی آپس میں صلح کروا دی جس پر وہ راضی ہوگئے۔ بعد میں سکول کے بعض اساتذہ نے رفیع احمد کو اس تبدیلی پر مبارکباد بھی پیش کی۔

امید کی جاتی ہے کہ آپس میں مل کر رہنے کی یہ صورت حال دیر پا ثابت ہوگی اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی پائیدار ہوگی۔

کراچی میں احمدی تاجر کو مشکلات !

کراچی (نومبر 2020ء): دانش اکمل اس جگہ 32 برس سے مقیم ہیں اور گذشتہ آٹھ سال سے کراچی کے ملینیم مال میں جوتوں کی دکان کرتے ہیں۔ چند روز قبل، اس مال میں آگ بھڑک اٹھی جس پر تاجروں کی کونسل کا اجلاس بلایا گیا۔ اس اجلاس میں دانش اکمل کا ذکر بھی ہوا اور کہا گیا کہ اگر ہم قادیانیوں کو کاروبار کی اجازت دیں گے تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ناراض ہوں گے اور پھر ایسے واقعات رونما ہوں گے۔ چنانچہ باقی تاجروں نے اکمل کا بائیکاٹ کرنے اور ان کے کاروبار کو نقصان پہنچانے کا عہد کیا اور مارکیٹ میں جگہ جگہ ’’قادیانی کافر، قادیانی کا بائیکاٹ کرو‘‘ کے بینرز آویزاں کردیے گئے۔ تاجروں نے اس معاملے کو احمدی تاجرکے سامنے بھی اٹھایا اور انہیں چند روز تک دکان بند رکھنے اور مال میں نہ آنے کو کہا۔ بعد ازاں ان سے مطالبہ کیا گیا کہ اگر وہ اپنا کاروبار جاری رکھنا چاہتے ہیں تو انہیں چاہیے کہ وہ اپنی جماعت کے بانی کے خلاف سخت جملے ادا کریں۔

ضلع چکوال میں احمدی قبروں کی بے حرمتی

بوچھال کلاں، ضلع چکوال (نومبر 2020ء): مخالفین نے اس علاقے میں واقع تین احمدی مرحومین کی قبروں کے کتبوں کی بے حرمتی کی۔ یہ قبریں علاقے سے کچھ فاصلے پر واقع ہیں اور یہاں لواحقین کا کم آنا ہوتا ہے۔ چند روز قبل جب احمدی اپنے بزرگوں کی قبروں پر گئے تو انہوں نے دیکھا کہ کتبوں کی بے حرمتی کی جاچکی ہے۔

ایسا پہلی دفعہ نہیں ہوابلکہ 2020ءکے دوران پاکستان میں سو کے قریب احمدیوں کی قبروں کے ساتھ ایسا کیا جاچکا ہے۔ بعض دفعہ پولیس کی اجازت کے ساتھ ایسا کیا جاتا ہے اور بعض دفعہ پولیس ملازمین خود بھی ایسا کر جاتے ہیں۔

فکر انگیز بات یہ ہے کہ آخر کب تک پاکستان میں احمدی مرحومین کے ساتھ ایسا سلوک روا رکھا جائے گا۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button