سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام

احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح

(’اے ولیم‘)

باغ میں ملّت کے ہے کوئی گلِ رعنا کھلا

ینصرک رجال۔ تو اس میں یہ بتایا گیا ہے کہ مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ و السلام عظیم الشان کام کرنے کےلئے مقرر کئے گئے ہیں

حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی خدمت میں ایڈریس (حصہ دوم)

حضرت مصلح موعودؓ نے اس ایڈریس کے جوا ب میں جوخطاب فرمایااور اس میں جونصائح اور پیغام دیااس کامتن بھی درج کیاجاتاہے۔

آپؓ نے فرمایا:

’’اس سنجیدہ تقریب کے لحاظ سے گو اس امر سے ابتداء جس سے کہ میں کرنا چاہتا ہوں ایسی مناسب نہ ہو لیکن ایڈریس کے شروع میں ایک ایسا فقرہ لکھا گیا ہے جس کی وجہ سے میں مجبور ہوں کہ اس کا ذکر کروں:

ایڈریس کے شروع میں ایک فقرہ لکھا گیا ہے جو گو رسمی ہے اور بہت سی جگہوں میں صحیح بھی ہوتا ہے مگر اس موقعہ پر غلط ہے اور وہ یہ فقرہ ہے کہ میں نے باوجود اپنی بہت سی مصروفیتوں کے اس دعوت میں شرکت اختیار کی ہے چونکہ سلسلہ کے نظام کے لحاظ سے تمام کاموں کی بنیادخلیفہ ہے اس لئے یہ کہنا کہ میں اپنی مصروفیتوں کے باوجود یہاں آگیا درست نہیں ہے۔ اتفاقاً آج صبح ہمارے گھر میں میاں بگا کا ذکر ہورہا تھا۔ میری ایک بیوی جو بعد میں آئی ہیں ان سے میں ذکر کر رہا تھا کہ یہاں ایک شخص میاں بگا ہوتا تھا جو بہت سادہ تھا۔ اور بعض لوگ اسے دھوکا دے کر ہنسی کی باتیں کرا لیتے تھے۔ ایک دفعہ اس کے ہاں بچہ پیدا ہوا کسی نے اسے کہا اس موقعہ پر لوگوں سے مٹھائی کھاؤ ان کا فرض ہے کہ تمہیں مٹھائی کھلائیں اس پر اسے آمادہ کر کے اس کی طرف سے اشتہار لکھدیا گیا کہ آپ لوگوں کی مہربانی سے میرے ہاں بچہ پیدا ہوا ہے اب آپ کا فرض ہے کہ مجھے مٹھائی کھلائیں۔ اصل بات یہ ہے کہ میرے کام اور میری مصروفیتیں سلسلہ ہی کےلئے ہیں اور یہ میرا فرض ہے کہ سلسلہ کے کام عمدہ طور پر ہوتے دیکھوں۔ اس لحاظ سے اگر میں سلسلہ کی کسی تقریب میں شریک ہوتا ہوں تو اپنی مصروفیتوں کو ترک نہیں کرتا بلکہ وہ بھی میری مصروفیتوں کا جزو ہے۔ میں نے اس مکان کے دروازہ پر حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کے دو الہام لکھنے کا مشورہ دیا تھا اس وقت انہی کے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں یہ الہام ایسے ہیں کہ ان میں سے ایک تو سلسلہ کے کاموں کی ابتداء کی طرف اشارہ کرتا ہے اور دوسرا انتہاء کی طرف۔ جب مجھ سے دریافت کیا گیا کہ میں کوئی ایسا الہام یا آیت بتاؤں جسے اس مکان کے دروازہ پر لکھایاجائے تو معاً میرے دل میں یہ الہام ڈالے گئے پہلا الہام یہ ہے کہ ینصرک رجال نوحی الیھم من السمآء اس کا مطلب یہ ہے کہ خدا تعالیٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کو فرماتا ہے۔ تیری مدد ایسے آدمی کریں گے جن کی طرف ہم آسمان سے وحی کریں گے۔

مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ و السلام کو یہ الہام اس وقت ہوا جبکہ آپ اپنے خاندان میں بھی عضو معطل سمجھے جاتے تھے اور دنیاکے لحاظ سے بھی آپ کو کوئی مقبولیت حاصل نہ تھی اس وقت خدا تعالیٰ نے یہ الہام نازل کیا جس میں بہت بڑے بڑے مطالب ہیں اوّل یہ کہ جب فرمایا ینصرک رجال۔ تو اس میں یہ بتایا گیا ہے کہ مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ و السلام عظیم الشان کام کرنے کےلئے مقرر کئے گئے ہیں کیونکہ معمولی کام جسے کوئی اکیلا کر سکے اس کے سر انجام دینے کے لئے دوسرے آدمیوں کی ضرورت نہیں ہوتی تو اس وقت جبکہ اپنے گاؤں کے لوگ بھی مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ و السلام کو نہ جانتے تھے خدائے تعالیٰ نے یہ فرمایا کہ آپ کو ایسے کام پر مامور کیا جائے گا جسے اکیلا نہ کر سکے گا بلکہ اس کے کرنے کےلئے بہت سے مدد گاروں کی ضرورت ہوگی۔ یہ بات سلسلہ کی عظمت اور وسعت پر دلالت کرتی ہے۔ دوسرا مفہوم ینصرک میں ک کی ضمیر میں یہ بتایا کہ قومی کارکن عام طور پر ایسے ملتے ہیں جو خود غرضی سے کام کرتے ہیں ایک شخص جو فوج میں بھرتی ہوتا ہے بظاہر ملک کی خدمت کےلئے بھرتی ہوتا ہے مگر اس کی غرض یہ ہوتی ہے کہ سپاہی سے لیس، لیس سے نائک، نائک سے حوالدار، حوالدار سے جمعدار اورجمعدار سے صوبیدار بن جائے۔ اللہ تعالیٰ نے اس الہام میں مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ و السلام کو یہ فرمایا کہ ہم تمہاری امداد کے لئے ایسے لوگوں کو کھڑا کر دیں گے جو اپنی ذات کےلئے کسی قسم کی بڑائی نہیں چاہیں گے بلکہ اس کام کو کریں گےجس پر تجھے مقرر کیا گیا ہے گویا اس میں پیشگوئی ہے کہ ایسے لوگ اس لئے پیدا کئے جائیں گے کہ حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ و السلام کی لگائی ہوئی داغ بیل کو قائم کریں گے۔ پھر فرماتاہے۔ ینصرک رجال۔ یوں رجال کا لفظ رجولیت کی طرف اشارہ کرنے کیلئے رکھا گیا ہے۔ یعنی ایسے آدمی کھڑے کئے جائیں گے جو کام کرنے کی اہلیت اور قابلیت رکھیں گے۔

پھرفرمایا۔ ینصرک رجال نوحی الیھم من السمآء اس میں چوتھی بات یہ بیان کی کہ آئندہ زمانہ میں بھی ایسے لوگ ہوتے رہیں گے جو الہام اور وحی سے کھڑے ہوں گے۔ من السمآء اس لئے فرمایا کہ وحی کئی قسم کی ہوتی ہے ایک قلبی وحی ہوتی ہے جیسے مکھی کو ہوتی ہے من السمآءکہہ کر اس بات پر زوردیا کہ وہ وحی آسمان سے نازل ہوگی۔ کئی وحیوں کے سامان دنیا میں پیداہوتے ہیں۔ مگر اس کے متعلق فرمایا۔ ہم آسمان سے وحی نازل کریں گے یعنی سلسلہ الہام کثرت سے جاری ہو گا۔ اس سے حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ و السلام کا مقام بھی ظاہر ہے کسی مجدد کے ماننے والے الہام کے ذریعہ نہیں کھڑے ہوتے۔ یہ خصوصیت انبیاء کے ہی ماننے والوں کیلئے ہے۔

غرض اتنی باتیں اس الہام میں بتائی گئی ہیں۔ یادرکھنا چاہیئے کہ ہرشخص کے کام کے درجے ہوتے ہیں اور جب اس کا درجہ بیان کیا جاتا ہے تو انتہائی بیان کیا جاتا ہے۔ اس الہام میں بھی انتہائی درجہ بیان کیا گیا ہے فرمایا نوحی الیھم من السمآء ان پر آسمان سے وحی نازل ہوگی مگروہ بھی ہو سکتے ہیں جنہیں وحی من السمآء نہ ہو۔ لیکن وحی من الارض ہو۔ ان کے دلوں میں تحریک ہو اوروہ اس کام کیلئے کھڑے ہو جائیں۔

غرض اس الہام میں ایک عظیم الشان پیشگوئی کی گئی ہے اس کو مدنظر رکھتے ہوئے میں نے اس الہام کو لکھنے کیلئے کہاتھا تاکارکنوں کو معلوم ہو کہ جو کام وہ کرتے ہیں وہ وحی الٰہی کے ماتحت ہے خواہ وہ وحی ان کو براہ راست نہ ہو بلکہ دوسروں کو ہو۔ حدیث میں آتا ہے بعض کو وحی ہوتی ہے اور بعض کیلئے وحی کی جاتی ہے۔ غرض خداتعالیٰ اپنے خاص کاموں کیلئے لوگوں کو تحریک کیا کرتا ہے۔ حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰ ۃ والسلام کے الہام میں یہی بات بیان کی گئی ہے اور میں نے یہ الہام لکھا کر کارکنوں کو توجہ دلائی کہ ان کا کام کتنا مقدس اور کتنا اہم ہے اور اللہ تعالیٰ ان سے کس قسم کی امید رکھتا ہے اول تو یہ کہ ان کا کام لغو اور بےفائدہ نہ ہو بلکہ ایسا ہو جس سے نصرت حاصل ہو۔ اگر ان کےکام سے سلسلہ کی نصرت نہیں ہوتی تو ایسے کام سے کوئی فائدہ نہیں پس ان کے کام ایسے نہ ہوں جو دوسروں کیلئے ٹھوکر اور نقصان کا موجب ہوں۔

دوم یہ کہ وہ اخلاص رکھتے ہوں سلسلہ کے کام کو سب کاموں پر مقدم کرتے ہوں۔

سوم یہ کہ رجال ہوں یعنی قوت وطاقت عقل وفہم سے کام کرنے والے ہوں۔

چوتھے ایسے طرزسے کام کریں کہ وحی نازل ہونے لگ جائے۔ وحی کیلئے ضروری نہیں کہ آسمان سے ہی نازل ہو یہ تو وحی کا انتہائی درجہ ہے باقی ہرقسم کی وحی اس کے اندرشامل ہے جب کہ ایم اے کی ڈگری میں بی اے اور ایف اے سب امتحان شامل ہیں تو آسمانی وحی سے نچلے درجہ کی سب وحیاں اس میں آجاتی ہیں۔ جس قسم کا کوئی انسان کام کرتا ہے اس کے مطابق خفی، جلی، قلبی وحی کے ذریعہ نئے نئے طریق اسے اللہ تعالیٰ سکھاتاہے۔

آخری بات یہ ہے کہ وہ وحی ترقی کرتے کرتے من السمآء کے درجہ تک پہنچ جائے۔ اس میں اللہ تعالیٰ نے بتایا کہ جو سچے دل سے اور اخلاص سے کارکن کام کریں گے ان پر وحی من السمآء کا درواز ہ کھول دے گا۔ یہ تو کام کی ابتداء ہے کہ کس قسم کے لوگ سلسلہ میں آئیں گےاور کس طرح کام کریں گے دوسرے الہام میں یہ مقصود بتایا کہ ’’میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا۔‘‘

حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کا مقصد خداتعالیٰ یہ بتاتاہے کہ تیری تبلیغ دنیا کے کناروں تک پہنچ جائے۔ اب اگر دنیا میں کوئی جگہ ایسی رہ جائے جہاں آپ کا پیغام نہ پہنچاہو تو گویا مقصدابھی پورا نہیں ہوا۔ ہمارامقصد یہی ہے کہ ہرجگہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کی تبلیغ پہنچائیں۔ امورعامہ، تعلیم وتربیت، قضاء وغیرہ کسی کا کام ہو یہ سب دعوت وتبلیغ کے ماتحت آجائیں گے۔ خداتعالیٰ نے حضرت مسیح موعوؑدکے متعلق تیری تبلیغ کے الفاظ استعمال کرکے یہ بتایا کہ (1)تیرے نام کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا یعنی اس تبلیغ کو جو تیری طرف منسوب ہو گی۔ (2)یہ بتایا کہ جو تبلیغ تو کر رہا ہے وہی تبلیغ اسلام ہے۔ اسے دنیا تک پہنچاؤں گا گویا اسلام اوراحمدیت کی تبلیغ ہمارا فرض ہے۔

پس ساری دنیا کو اسلام کا حلقہ بگوش بنانا ہمارا کام ہے مگر قرآن سے پتہ لگتاہے کہ تمام کے تمام لوگ اسلام نہیں لائیں گے ادھر ہمیں یہ حکم ہے کہ جب تک سب نہ مان لیں تمہارا کام ختم نہیں ہوتا۔ اس لئے مطلب یہ ہوا کہ قیامت تک ہمیں کام کرنا ہے اور کسی وقت ہمیں اپنے کا م کو ختم نہیں سمجھنا کیونکہ کام کو ختم سمجھ لینے کی وجہ سے انسان سست ہوجاتا ہے۔ عام طور پر لوگ تکالیف اور مصائب سے گھبراتے ہیں مگر ساری کامیابی اور سب ترقی مصائب اور تکالیف سے ہی وابستہ ہوتی ہے اس دنیا میں انبیاء کےلئے بھی تکالیف ہوتی ہیں بلکہ ان کے لئے زیادہ ہوتی ہیں۔ پس ہمارا کام ایسا ہے جو مصائب اور تکالیف کو زیادہ کرنے والا ہے مگر یہی بات جماعت میں زندگی اور بیداری پیدا کرنے کا موجب ہوتی ہے۔ جب دشمن اعتراض کرتا ہے تو غور کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے اور نئے نئے معارف کھلتے ہیں۔ مسلمانوں نے جب تبلیغ اسلام چھوڑ دی تو سست ہوگئے لیکن جب تک تبلیغ میں مصروف رہے۔ نئے نئے معارف کھلتے رہے اور اب بھی تبلیغ میں مصروف رہنے پر کھلتے رہیں گے۔ پس ہماری جماعت کو یہ سمجھنا چاہئے کہ جب تک دنیا میں ایک آدمی بھی اسلام سے باہر رہتا ہے۔ ہمارا کام ختم نہیں ہوتا۔ یہ سمجھنے سے جرأت اور دلیری پیدا ہوتی ہے لیکن جب یہ مقصد سامنے نہ ہوگا تنزل اور تباہی شروع ہوجائے گی۔ عیسائیت کو دیکھ لو اتنا بودا مذہب ہونے کے باوجود چونکہ عیسائی تحقیق و تدقیق جاری رکھتے ہیں اس لئے ترقی کرتے جاتے ہیں۔ مگر مسلمان ایسا نہیں کرتے کیونکہ انہوں نے تبلیغ چھوڑ دی اس لئے تنزل کرتے گئے۔ عیسائی اپنے مذہب کی جب تبلیغ کرتے ہیں اور ان پر اعتراض ہوتے ہیں تو وہ مسائل پر غور کرتے ہیں لیکن مسلمان نہ دوسروں کے سامنے اسلام پیش کرتے ہیں نہ کوئی اعتراض کرتا ہے اور نہ انہیں غور کرنے کا موقعہ ملتا ہے۔ ہمارا مقصد یہ رکھا گیا ہے کہ مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ و السلام کی تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچا ئیں۔ یعنی تمام دنیا میں تبلیغ پھیلاناہمارا فرض ہے۔ سب کارکنوں کو خواہ وہ کسی کام پر ہوں اسے مدنظر رکھنا چاہئےکہ تبلیغ زمین کے کناروں تک پہنچے اس کے بعد میں دعا کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ ہمیں اپنے فرائض ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔‘‘

(الفضل مورخہ 3 مئی 1932ءجلد 19نمبر130صفحہ5تا 7)

(باقی آئندہ)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button